لفظ
’جاہلیت‘.... معنی اور مفہوم
لفظ ’جاہلیت‘ کا موازنہ
مابین کتبِ تاریخ و استعمالِ شرعی
تالیف: ڈاکٹر محمد
ابراہیم
اُردو استفادہ: محمد
زکریا خان
جدید مسلم تحریکی شخصیات
اور معاصرمسلم اسکالر جو تحریکی عمل کو جاری رکھے ہوئے ہیں وہ لفظ ’جاہلیت‘ کو
اسکے ’شرعی‘ مفہوم میں بہ کثرت استعمال کرتے ہیں ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی
تحریریں ہوں یا سید قطب اور محمد قطب کا علمی ورثہ ہو۔ ڈاکٹر سفر الحوالی ہوں یا
شیخ ناصر العمر اور دوسرے معاصر مسلم اسکالر، سب کی تحریر و خطاب میں جاہلیت کا
لفظ قاری کو پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔ سہ ماہی ایقاظ میں بھی یہ لفظ شرعی مفہوم
میں استعمال ہوتا ہے۔ اسلامی تحریکی عمل اور اس کی نامور علمی شخصیات سے جن
مسلمانوں کا تعلق ہے ان کے لئے یہ لفظ اور اسکا مفہوم اور اس کا استعمال نیا نہیں
۔ ہمارے کئی نوجوان جو اَب اس وسیع اسلامی عمل کا روز بروز حصہ بنتے جا رہے ہیں ان
کیلئے یہ مضمون بے حد مفید ہے۔ ہمارے یہاں عام طور پر ’جاہلیت‘ کا مفہوم قدیم
عربوں میں رائج بعض رسومات تک محدود سمجھا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جاہلیت کا مفہوم
اس سے بہت وسیع ہے جوکہ مضمون پڑھ کر آپ پر ظاہر ہوگا۔
کتب تاریخ میں ’جاہلیت‘
کا مفہوم:
اسلام سے پہلے عرب معاشرے
کی تاریخ بیان کرتے ہوئے مؤرخین اور سیرت نگار ’جاہلیت‘ کا تذکرہ کرتے ہیں لیکن
ایسی کتابوں میں عربوں کی چند رسومات کو بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔نیز مورخین
اور سیرت نگار جاہلیت کے بیان میں قدیم عرب معاشرے میں پائے جانے والے ظاہری
انحراف کو ہی بیان کرتے ہیں ۔جاہلیت کے شرعی مفہوم اور معنی کو بیان کرنے میں ان
کی دلچسپی زیادہ نہیں رہی ہے۔
رسم ورواج کو بیان کرنے
میں یہ کتب عربوں میں رائج بت پرستی کا تذکرہ کرتی ہیں ۔اسی طرح سیرت نگار بیٹیوں
کا(بعض کے ہاں) زندہ دفن کرنے کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ شراب نوشی اور جوا بازی کو
جاہلیت میں شمار کرتے ہیں اور اسی طرح لوٹ مار کے ذریعے مال و زر اکٹھا کرنے کا
تذکرہ جاہلیت میں شمارہوتاہے۔
اسکے علاوہ مورخین یا
سیرت نگاروں کا یہ طریقۂ تالیف رہا ہے کہ ان رسم ورواج کے بیان کے بعد وہ لکھا
کرتے ہیں کہ اسلام نے آکر ان رسم ورواج کو ختم کردیا۔
اب جب عام مسلمان اپنے
گرد وپیش کا جائزہ لیتا ہے تو اُسے نہ تو کہیں بت پرستی نظر آتی ہے اور نہ کوئی
باپ اپنی نوزائیدہ بیٹی کو زندہ دفن کرنے کیلئے بیابان میں جاتا نظر آتا ہے۔ جہاں
تک دوسرے محرمات از قسم شراب اور قمار کا تعلق ہے تو سبھی مسلمان انہیں حرام
سمجھتے ہیں خواہ ماحول یا بشری ضعف کی وجہ سے وہ ان میں مبتلا ہی کیوں نہ ہو جاتے
ہوں ۔
اس طرح گویا جاہلیت ایک
ایسا مفہوم بن کر رہ گیا ہے جس کا تعلق ماقبل تاریخ اسلام سے رہا ہے اور اب موجودہ
دور میں جاہلیت تو نہیں پائی جاتی البتہ کچھ چیزیں جو کبھی عربوں میں رائج تھیں
انہیں اسلام نے حرام قرار دے کر ’جاہلیت‘ کے مفہوم کو مکمل کردیا ہے اور اب یا تو
جاہلیت وہ ہے جو قدیم عرب معاشروں میں پائی جاتی تھی اور یا پھر کچھ ایسے کام ہیں
جو شریعت میں حرام ہیں ۔
’جاہلیت‘ کا شرعی مفہوم:
قدیم عرب معاشرے میں
’جہل‘ کے دو لغوی معنی لئے جاتے تھے۔ جہل کا ایک معنی ہے ’علم‘ کا متضاد اور
دوسرامعنی حلم (بردباری) کا متضاد۔
جہاں تک ’جاہلیت‘کابطور
اصطلاح رواج پاجانے کاتعلق ہے تو یہ صرف اسلام نے استعمال کی ہے اس سے پہلے عرب
معاشرے میں ’جاہلیت‘ کااصطلاحی استعمال نہیں ملتا۔
کتاب وسنت میں جاہلیت کا
مخصوص اصطلاحی شرعی مفہوم ہے۔ جب اسلامی لٹریچر سے شغف رکھنے والا کوئی شخص جاہلیت
کا لفظ سنتا ہے تو اس کا ذہن صرف شرعی مفہوم کی طرف جاتا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ وہ
اس کے لغوی معنی کو ذہن میں لائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جاہلیت خالص اسلام کی اصطلاح
ہے اور اس کا ایک شرعی مدلول ہے۔
بہت سے دوسرے عربی الفاظ
بھی ہیں جنہیں اسلام نے اپنا اصطلاحی مفہوم دیا ہے اور سامع کا ذہن ہمیشہ اصطلاحی
مفہوم ہی کی طرف جاتا ہے لفظ الصلٰوۃ کا لغوی معنی دُعاءہے مگر اسلام نے اس لفظ
کااطلاق ایک مخصوص انداز میں کی جانے والی عبادت پرکیا ہے ۔زکوٰۃ؛ ایمان اور کفر
بھی ایسے الفاظ میں جو مسلم معاشروں میں اپنے اسلامی شرعی مفہوم کے ساتھ سمجھے اور
بولے جاتے ہیں ۔
علم صرف کے لحاظ سے
’جاہلیت‘ کا صیغہ اسم صفت کے وزن پر ہے لیکن کثرت استعمال سے یہ اسم کے معنی میں
بولا جاتا ہے ۔
کتاب و سنت میں مذکور اس
لفظ کا تتبع کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ جاہلیت کا شرعی مفہوم یہ ہے کہ الوہیت کی
حقیقت اور الوہیت کے خصائص سے جاہل ہونا اسی طرح اپنے طرز عمل میں ایسی روش اختیار
کرنا جو رب کے اتارے ہوئے ضوابط کی پابندی سے آزاد ہو۔ دوسرے لفظوں میں شریعت کے
برخلاف ہر طرز عمل کو جہل یا جاہلیت کہتے ہیں ۔
قرآن مجید میں جاہلیت
بمعنی حقیقت الوہیت سے جاہل ہونے کے بارے میں بے شمار آیات آئی ہیں ۔ انہیں میں سے
غزوہ احد کے بعد نازل ہونے والی یہ آیت بھی ہے۔يَظُنُّونَ بِاللّهِ غَيْرَ
الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَيْءٍ
’مگر ایک دوسرا گروہ جس کے لیے ساری اہمیت بس اپنی ذات ہی کی تھی اللہ کے متعلق
طرح طرح کی جابلانہ گمان کرنے لگا جو سراسر خلاف حق تھے۔یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اس
کام کے چلانے میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے۔‘(آل عمران:154)( ترجمہ۔ ابوالاعلیٰ)
غزوہ احد میں صحابہ کرامؓ
کی ایک بڑی تعداد شہید ہو گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہ نقصان دیکھ کر بعض لوگوں کا
گمان یہ تھا کہ کائنات میں اللہ رب العالمین کے علاوہ کچھ اور ہستیوں کے بھی
اختیارات ہیں ۔ مذکورہ بالا آیت ان کے اسی تصور کی عکاس ہے۔ الوہیت اور اس کے
خصائص سے ناواقفیت کی بناءپر اللہ تعالی نے مذکورہ بالا قول کے رد میں کہا:قُلْ
إِنَّ الأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ کہو (کسی کا کوئی حصہ نہیں ) اس کام کے سارے
اختیارات اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔
بنی اسرائیل میں سے بھی
کچھ لوگوں نے جب دیکھا کہ غیراقوام عبادت میں اپنے بتوں کوبھی شریک کرتے ہیں تو
انہوں نے موسی علیہ السلام سے فرمائش کی کہ:اجْعَل لَّنَا إِلَـهًا كَمَا لَهُمْ
آلِهَةٌ ’موسیٰ جیسے ان لوگوں کے پاس بت ہیں ایسا ہی ایک بت ہمارے لیے بھی بنادے۔
(شاہ رفیع الدین)ان کا یہ مطالبہ سن کر موسی علیہ السلام نے نہایت برہمی سے کہا
:إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ ’بخدا تم ایسی قوم ہو جو (بار بار) جاھلیت پر مبنی
باتیں کرتی ہے‘۔ (مترجم) یعنی تم اللہ کی عظمت سے جاہل واقع ہوئے ہو اور تم اس بات
سے بھی جاہل ہو کہ اللہ اپنے شریکوں سے پاک اور بلند تر ہے۔
انسان کے طرز عمل اور
اخلاقی رویوں میں جاہلیت کا اطلاق ایسے اخلاقی رویے پر ہوتا ہے جو شریعت کی
تعلیمات کی پابندی سے آزاد ہو کر بروئے کار لایا جائے۔ قرآن مجید میں اور احادیث
مبارکہ ایسی آیات بھی بے شمار ہیں جن میں شریعت سے بے ضابطگی والے اخلاقیات کو
جاہلی اخلاقیات کہا گیا ہے۔
غزوہ حدیبیہ میں کفار کو
برسر جنگ آمادہ کرنے پر جس جذبے نے ابھارا تھاوہ جاہلی جذبہ تھا۔ اللہ فرماتا ہے
کہ ایسے جذبات جو غلط دین کے دفاع کے لیے انسان کو لڑنے مارنے پر تیار کردیں وہ
جاہلی عصبیت میں شمارہوں گے:إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ
الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ (الفتح:26) ’ (یہی وجہ ہے کہ ) جب ان
کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھا لی‘۔(ابوالاعلیٰ)
اسی طرح جب مسلمان عورتوں
سے کہا گیا کہ وہ ایسی وضع قطع اختیار نہ کریں جو زیبائش کے شرعی ضابطوں سے نکل
جائے اوریہ کہ وہ کفار کی بداخلاقی پر مبنی شہوت کو بھڑکانے والی آرائش و زیبائش
اختیار نہ کریں تو اس اخلاقی ضابطے کی پابندی کرانے کے لئے اللہ تعالی نے
فرمایا:وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى (احزاب:33)’اور
سابق دور جاہلیت کی سی سج دھج نہ دکھاتی پھرو‘۔(ابوالاعلیٰ)
معاشرے میں رہتے ہوئے
لوگوں کے درمیان تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ اب اگر ان نزاعی معاملات کو شریعت کے
مطابق حل کر دیا جائے تو درست ہے اگر معاملات کو نبٹانے کے لیے ملکی قوانین یا رسم
و رواج یا ناانصافی کے ساتھ فیصلے کیے جائیں تو اللہ فرماتا ہے کہ ایسے فیصلے جاہلیت
پر مبنی ہوتے ہیں :أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ (مائدہ:50)’تو کیا پھر
جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں ‘۔ (ابوالاعلیٰ)
قرآن مجیدمیں فحاشی پر
مبنی طرزعمل کو بھی جاہلیت کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو جب فحاشی
میں مبتلا کرنے کے لئے عورتوں نے مختلف چالیں چلیں تو یوسف علیہ السلام اللہ کی
پناہ میں آتے ہوئے فرماتے ہیں :وَإِلاَّ تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ
إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ (یوسف:33)’اور اگر تو نے ان کی چالوں کو
مجھ سے رفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں
گا‘۔(ابوالاعلیٰ)
نبی علیہ السلام کی سیرت
مطہرہ میں ایسے بہت سے رویے پیش آئے جن کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ یہ جاہلیت پر
مبنی رویے ہیں ۔ ایک موقع پر کسی شخص نے اپنے عربی النسل ہونے اور دوسرے کو کم ذات
کہتے ہوئے اسے اس طرح کہا’ او کالی ماں کے بیٹے! یہ سن کرنبی علیہ السلام غضبناک
ہوئے اور عربی النسل سفید جلد والے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اِنّکَ امرُو
فیکَ جاھلیۃ’تم ایک ایسے شخص ہو جس میں (اب تک) جاہلیت پائی جاتی ہے‘۔
ایک موقع پر صحابہؓ کے
درمیان پھوٹ ڈلوانے کے لئے کچھ لوگوں نے چاہا کہ انصار اور مہاجرین کی الگ الگ
شناخت بنا کر ان میں جاہلی عصبیت ڈال دیں ۔ ایک نازک ترین موقع پر ایک شخص نے یہ
ظاہر کرتے ہوئے کہ انصار صحابہ نے اس پر ظلم کیا ہے اس طرح پکارنے لگا:’یا
للمہاجرین‘ مہاجرین کی (ناموس) کیلئے! اور دوسری طرف سے ایک اور شخص نے چیخ کر کہا
’یا للانصار‘ انصار کی (ناموس) کیلئے!
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
جب دیکھا کہ لفظ مہاجر اور لفظ انصار کو عصبیت کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے
توآپ نے انتہائی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:اَ بِدَعویٰ الجاھلیۃ
وَاَنَا بَینَ اَظھُرِکُم’میرے جیتے جی تم ایک دوسرے کو جاہلی نعروں کے ساتھ دہائی
دینے لگے ہو‘۔
علاوہ اس کے کسی کے ہاں
مرگ ہو جائے اور(عورتیں )رونے کے ساتھ اپنےچہروں پر دوہتڑ ماریں یا گریبان چاک
کریں تو اس کو بھی اسلام میں جاہلی رویہ شمار کیا گیاہے۔اسی طرح نام و نسب پر فخر
کرنا یا ستاروں سے فال لینا ان جیسے تمام امور کو آپ نے جاہلی رویے کہا گیا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں کہ بعثت
سے پہلے دنیا بھر کے تمام معاشرے علی الاطلاق جاہلی معاشرے تھے خواہ وہ معاشرے ہوں
جو آسمانی کتابوں سے اپنی نسبت جوڑتے تھے یا دوسرے غیرمذاہب کے پیروکار تھے۔ سب ہی
ادیان کے پیروکار انبیاءکی اصل تعلیم سے ناواقف ہو گئے تھے اس لئے وہ سب جاہلی
معاشرے کہلاتے تھے۔
اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں
کہ نبی علیہ السلام کی بعثت کے بعد اب دنیا کو عمومی معنی میں جاہلی دنیا نہیں کہا
جا سکتا۔ آپ کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایک گروہ ضرور حق پر رہتے ہوئے کا پرچار
کرتا رہے گا۔ اس لئے آپ کی بعثت سے عمومی جاہلیت ختم ہو گئی ہے البتہ جاہلی شعار،
رویے اورجاہلی اخلاقیات بہت سے دائروں کے اندر پائے جاسکتے ہیں ۔
ایک مسلمان اگر اسلام سے
متصادم طرز عمل کا مظاہرہ کرتا ہے خواہ وہ دارالاسلام کا باسی ہی کیوں نہ ہو تو
کہا جائے گا کہ اس شخص میں جاہلیت پائی جاتی ہے۔ اوراگر ایک کافر مسلمان ہو جاتاہے
خواہ وہ دارالکفر کا باسی ہی کیوں نہ ہو توکہاجائے گا کہ وہ جاہلیت سے نکل کر
مسلمان ہو گیا ہے۔ یوں مسلمان ممالک میں کئی جاہلی شعار پائے جاسکتے ہیں اور جہاں
تک عوام مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان میں سے بہت سارے جاہلی رویوں میں مبتلا ہو سکتے
ہیں ۔
جاہلیت کی مندرجہ بالا
وضاحت کے بعد آپ پر یہ بات واضح ہو گئی ہو گی کہ جاہلیت کا مادی ترقی یا مادی
انحطاط سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں بھی کئی قومیں ایسی ہو گزری ہیں
جنہوں نے تمدن، بود و باش اور عمارت سازی میں بہت ترقی کر لی تھی۔ ان کی مادی ترقی
اور اس پر ان کے گھمنڈ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَأَمَّا عَادٌ
فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ أَشَدُّ مِنَّا
قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ أَشَدُّ مِنْهُمْ
قُوَّةً (فصلت:15)’عادکاحال یہ تھاکہ وہ زمین میں کسی حق کے بغیربڑے بن بیٹھے
اورکہنے لگے ’کون ہے ہم سے زیادہ زورآور‘۔ان کو یہ نہ سوجھاکہ جس خدانے ان
کوپیداکیاہے وہ ان سے زیادہ زورآورہے‘۔
مصنف فرماتے ہیں : اللہ
تعالیٰ نے قدیم معاشروں کو جب جاہلی معاشرے ٹھہرایا ہے تو ان کے جاہلی ہونے کے
باوجود ان کے دنیاوی علوم اور تمدن میں ان کے ترقی کر جانے سے انکار نہیں کیا۔
تاریخ انسانی میں ایسا تو
نہیں ہوا کہ پہلوں نے نہ مادی ترقی کی ہو اور نہ ہی ان میں اخلاقی قدریں پائی جاتی
ہوں ۔ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ میں مادی ترقی بھی ہوتی رہی ہے اور معاشروں میں اچھے
اخلاق بھی پائے گئے ہیں لیکن قرآن مجید نے انہیں جاہلی اس لئے کہا ہے کہ وہ اللہ
تعالیٰ کی الوہیت سے جاہل تھے اور انبیاءکرام پر جو شریعت اتاری گئی تھی اس کی
پابندی نہیں کرتے تھے اس لئے وہ جاہلی معاشرے کہلائے۔
بعثت سے پہلے اگر عرب
معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو اس معاشرے میں بھی اعلیٰ اخلاق پائے جاتے تھے۔ مہمان
نوازی، دلیری، حق تلفی پر راضی نہ ہونا، کم زور کی مدد کرنا اور اسی طرح کے بلند
اخلاقیات عرب معاشرے میں عام تھے۔ مگر اللہ اور اس کے رسول نے فرمایا کہ یہ جاہلیت
میں مبتلا تھے۔ جاہلیت یہ ہے کہ اللہ کی الوہیت سے آدمی جاہل ہو اور اپنے آپ کو
کسی ایک معاملے میں یا اکثر معاملات میں شریعت کا پابند نہ سمجھے۔