”عقیدہ“ تا ”فکر“:
کچھ منہج کے بارے میں۔حصہ اول
حصہ دوم
سید قطب (شہید)رحمہ اللہ
اردو استفادہ: عائشہ جاوید
’عقیدہ‘ کے آفاقی حقائق کو خود اپنے دور اور اپنے ماحول میں کھڑا ہو کر سمجھنے کی انسانی کاوش کو ہم ’فکر‘ کا نام دیتے ہیں۔ خدائی تنزیل پہ مشتمل یہ حقائق آفاقی ہیں اور زمان اور مکان کی قیود و تغیرات سے بلند تر۔ خدائی تنزیل سے اِن حقائق کو ’لینا‘ البتہ ایک انسانی عمل اور کسب ہے۔ جبکہ ’انسان‘ کے اندر زمان و مکان کی جہتوں کو بہرحال بولنا ہوتا ہے۔ پس یہاں کسی ایسے ’سنگم‘ کی ہر وقت ضرورت ہے جس پر خدائی تنزیل اور انسانی فہم و فکر و وجدان کا التقاءہو، جس سے ہر دور اور ہر زمانے میں انسانی دنیا کے اندر کچھ نہایت منفرد پھول کھلیں اور ’صبغۃ اللہ‘ کے رنگ اور مہک کے ساتھ اپنے ماحول کو معطر کریں۔ عقیدہ کے اِن حقائق میں واقعتا وہ آفاقیت ہے کہ ہر بدلتے دور میں اِن کی طراوت اور تازگی کچھ اور بھی بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ تغیراتِ زمانہ شاید اِس لئے ہیں کہ خدائی تنزیل کا انسان ہزار صورت میں لطف لے!تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَيَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ!!! ہر عہد کو اِس تنزیل سے اپنا حصہ لینا ہے اور ہر زمانے کے انسان کو اِس سے اپنا ’کسب‘ کرنا ہے۔ ایک دور کی ’کمائی‘ ضروری نہیں پوری کی پوری دوسرے کسی دور میں کام آنے والی ہو! یہ ”دائمی حیثیت“ کہ مطلق کارآمد ہو، صرف اِس خدائی تنزیل کو حاصل ہے نہ کہ اِس سے ہونے والے ’انسانی کسب‘ کو۔ انسانی فکر کو ہر دم ’نیا‘ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ’تجدید‘ یہاں ہر دم مطلوب ہے۔ پس ’تجدید‘ اُن ازلی حقائق کی نہ ہوگی جو وحیِ خداوندی میں آ چکے؛ ’تجدید‘ اُس فکر کی ہوگی جو انسان کا کسب ہے؛ جبکہ ’زمانے‘ کا بدلنا اور ’نئے دن‘ کا چڑھنا اِس میں ایک بڑے عامل کی حیثیت رکھے گا۔
جن لوگوں نے اِس ’کسب‘ میں اپنے زمانے کے انسان کو ایک راہ دکھانے کی ایک نہایت بلند پایہ کوشش کی ہے ان میں شہید اسلام (نحسبہ کذلک) سید قطب رحمۃ اللہ علیہ ایک نمایاں ترین نام ہیں اور ان کی کتاب ”مقومات التصور الاسلامی“ اِس باب میں ایک نہایت عظیم تصنیف ۔ اِسی کتاب کے مقدمہ کا اردو استفادہ یہاں پر عائشہ جاوید کے قلم سے پیش کیا جار ہا ہے۔
عالمی منظر نامے پر تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال( جسے ہمارے فاضل دانشور ”گلوبلائزیشن “ کا نام دیتے ہیں!) کچھ نئی حقیقتوں کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی بڑی تبدیلی ہے کہ گویا اب ہم بالکل ایک نئی دنیا میں ہیں۔ اِس کے اندر یہ نا گزیر ٹھہر چکا ہے کہ ہمارا مسلم نوجوان فکرِ اسلامی کے اصول و مبادی کو اب ایک نئے اسلوب سے پڑھے اور بالکل ایک نئے سرے سے ذہن نشین کرے۔۔۔۔
اِس نوجوان کو از سر نو اَب یہ سبق پڑھنا ہے کہ یہ عقیدہ اُس کو اپنا اردگرد دیکھنے کا بالکل ایک نیا سلیقہ عطا کرنے آیا ہے۔ ایک ایسی نظر دینے آیا ہے کہ دنیا وما بعد اِس کو اُس رنگ میں نظر آئے جسے دیکھنے سے باقی دنیا محروم ہے۔ اِس کو یہ شعوری ادراک پانا ہے کہ اس وسیع و عریض کائنات کا معرضِ وجود میں آنا بے سبب نہیں!بلکہ اس کے پس پردہ کچھ ایسے حقائق ہیں جو اپنے اندر خالق و مخلوق کے مابین ایک بہت ہی منفرد تعلق لیے ہوئے ہیں!! تاحد نظر پھیلی ہوئی دنیا جس کا مرکزی کردار کوئی اور نہیں بلکہ ٹھیکرے کی طرح کھنکھناتی مٹی سے تخلیق کردہ خاکی پتلا کہ جسکا نام انسان ہے! جس کے لیے یہ سارا نظام ِ کائنات عمل میں لایا گیا!خود کو اس منصب کا اہل ثابت کرنے کیلئے بنی آدم کو ایک کامل و جامع ضابطہ عنایت کیا گیاجسکی شاخیں وحیءربانی سے پھوٹتی ہیں یہ نہ ہوتی تو کائنات درہم برہم ہو کر رہ جاتی کہ ناقص العقل انسان کا بنایا ہوا نظام کبھی طبعی و بنیادی انسانی ضروریات کاحل نہ نکال پاتاہم دیکھتے ہیں کہ دور ِجدید کے تمام تر نظام آج ناکام ہو چکے اور ان خود ساختہ نظاموں کی بنیاد رکھنے والے ’ارباب ِ علم ‘کو منہ کی کھانی پڑی!
دین جو کہ محض انفرادی عبادت نہیں بلکہ پورا ایک ضابطۂ حیات ہے، ایک ایسی امت کو صفحۂ ہستی پر لانے کیلئے نازل کیا گیا جسکا منشور اعلائے کلمتہ اللہ ہو جو تڑپتی سسکتی انسانیت کو ظلمات کی گھاٹیوں سے نکال باہر کرے، نئی صبحیں روشن کرے اور باطل کے ہاتھوں تباہ شدہ معاشرے کو ایک نئی فکری جہت عطا کرے امتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد جو عقیدۂ اسلامی کواسکی تمام تر سچائیوں کیساتھ ذ ہن نشین کر چکا ہو ، یہ جان لے کہ و ہ انعم اللہ علیہم میں سے ہے اور اسکے کندھوں پر گمراہ ہوئی نسل انسانی کو باذنہ تعالی ہدایت کی روشنی سے منور کرنے کا فریضہ لازم ہو چکا!!!!!
قرآن اپنے جامع تر اندازِ تخاطب میں یہی عقیدہ کچھ ایسے انداز میں پیش کرتاہے جو احساسات، شعور، بصیرت اور قلب و نظر کی گہرائیوں کو چھو لیتا ہے؛ یہ اسکا اعجاز ہے کہ یہ بیک وقت روحانی زندگی اور مادی دنیا کے لوازمات کا بھرپور احاطہ کرتا ہے کیونکہ یہ نازل کردہ کلام اللہ عز و جل کا ہے جو کہ خالق ِ کل ہے ، لہذا یہ فطرتِ انسانی سے عین مطابقت رکھے ہوئے ہے۔ قرونِ اولی کے مسلمانوں نے اسکی قدر جانی نتیجہ یہ ہوا کہ چار دانگ عالم میں انہوں نے خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا فرض بدرجہ ءاتم نبھایا، ایسی سلطنت چشمِ فلک نے اس سے پہلے نہ کبھی دیکھی نہ سنی تھی کہ جہاں مطلق حکم اللہ کا تھا، ہر مسئلے کے حل کامصدر قرآن تھاسونے پر سہاگہ یہ کہ سید الانبیاء نبینا محمدﷺ کی سنت مقدسہ و حیات طیبہ کی صورت میں اسکی عملی تعبیرہمہ وقت دستیاب!!! جس کی بابت یکے از امہات المومنین رضی اللہ عنہن نے کیا خوبصورت پیرائے میں بیان فرمایا کہ: آپ کا خلق تو بذاتِ خود قرآن تھا!!! (نسائی)
حقیقت تو یہ ہے کہ اصل مسئلہ قرآن کے احکام، بیان و تعلیمات کی روح تک رسائی حاصل کرنے تک محدود نہیں ہے،مسئلہ تو قلوب و اذہان کی دنیا میں وہ ہلچل پیدا کرنے کا ہے جو قرون اولی کے مسلمانوں کے دل و دماغ میں نبی ﷺ کی زبانی اللہ کا کلام سن کر طاری ہوا کرتی تھی نفسانی خواہشات کیخلاف جنگ،اللہ اور اسکے رسول کے دشمنوں سے نازک ترین اور سخت سے سخت آزمائش کن حالات میں بھی دوبدو ہونے کا حوصلہ،وسائل کی عدم دستابی کی پروا نہ کرتے ہوئے قوت ِ ایمانی کے بل بوتے پر دشمنانِ دین کیخلاف سر بکف ہو جانے والی یہ قوم غرضیکہ ایمان کے اس سفرِ نصیب میں آگے بڑھتے رہنے کی کسک، کبھی گرنا کبھی اٹھنا، کبھی بارہا منہ کے بل گر کر پھر عزم ِ نو سے رختِ سفر باندھنایہ تھا وہ اسلوبِ استجابت جو اوائلِ اسلام کے مسلمانوں کا تھا!!!غربت و افلاس، معاشی مقاطعہ کا نشانہ بننے والے یہ عظیم مومنین ، بھوک کی شدت سے بلکتے ننھے معصوم بچوں کے ہمراہ شعب ابی طالب میں محصور کر دیے جانے والے یہ اصحاب پیکرِ ایمان وتوکل تھے!!!اصلاحِ نفس کا قابلِ رشک ولولہ، اپنے گرد و پیش موجود اپنوں اور پرایوں کی اصلاح کا قلق جو انہیں مسلسل بے چین رکھتا تھاکہ اس قوم کی منفعت بھی ایک، نقصان بھی ایک،نبی بھی، دین بھی، ایمان بھی ایک، حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک!!!
تاریخِ انسانی میں یہ اپنی نوعیت کاانوکھا اور اپنی مثال آپ واقعہ تھاکہ ایک پوری کی پوری امت محض ایک کتاب کی نصوص سے برآمد کرائی گئی ہو! امت کا شعوری خمیر وحیٔ الہی سے اٹھاہو، اس کی زندگی کلام ِ الہی کی عملی تفسیر بنی ہو اور اس کے لیے مصدرِرشد و ہدایت دراصل کتابِ الہی ہو!!!
یہ تھا وہ روح پرور ماحول کہ جس میں قرآن بذریعۂ وحی بتدریج نازل ہواحالات و واقعات کے عین مطابق انتہائی ناامیدی کی حالت میں اللہ کے وعدے مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کرتے رہےوقت دھیرے دھیرے گزرتا گیااللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایاانتہائی کسمپرسی کے حالات میں عرب کے انہی ریگزاروں سے ایک عظیم امت نے جنم لیااور دنیا پر چھا گئی نام نہاد اقوام عالم نے ایک نرالی نوعیت کا معاشی اور معاشرتی نظام دیکھاجس کے ارتقائی مراحل سے لیکر انتہائی مراحل تک ہر ہر قدم قابلِ دید اورسبق آموز تھااور واللہ اگر آج کے دور میں، جب کہ دین پر چلنے والوں کیلئے عرصہءحیات اسی طرح تنگ کیا جا رہا ہے اور اللہ کی زمین اپنی تمامتر وسعتوں کے باوجود سمٹتی معلوم ہوتی ہے، کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس دور کی فضاؤں میں سانس لینے والوں کی طرح انکے انداز میں قرآنی ہدایات سے اپنی اجڑی روحوں کی آبیاری کرنے لگیں توکیوں اس مقدس کتاب کے اسرار ہم پر نہ کھلیں؟؟!!کیوں اسکی مہک ہمارے دل و دماغ کو معطر نہ کرے؟؟!! نصرتِ الہی کیوں ہمارا مقدر نہ بنے؟؟!!
بعد میں آنے والی نسلیں اس بابرکت کتاب کے اسلوب ، اسکی اقدار ، اسکے پیغام سے بے نیازی برتنے کے سبب عبرتناک انجام سے دوچار ہوئیں اور آج تلک اسکا خمیازہ بھگت رہی ہیں ہم تو جاننا چاہتے ہیں کہ کہاں گئے وہ رہرو منزل؟ وہ جوہرِ قابل؟ جس سے تعمیر ہوئی آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں؟!؟!
غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآن اپنے اثر انداز ہونے کیلئے شعوری سطح پر ایک ماحول چاہتا ہے، ظلم و استبداد کے مابین ثابت قدم رہنے والے سابقون الاولون کا سا پایہءاستقلال کہ جس میں زمانے کے تمام تر تھپیڑے ملکر بھی لغزش نہ لا پائے ،اس عقیدے پر دسترس کا یہ کمال تھا کہ جاہلیت کی تمام تر قوتیں انکے مقابل ریت کی دیوار ثابت ہوئیں وہ مداومت ِ عمل اور جہدِ مسلسل جو اس دور کے مسلمانوں کا خاصہ تھی آخر ناپید کیوں ہو کر رہ گئی؟وہ آئینِ وفاداری نایاب کیوں ہوگئی؟طرزِ سلف سے بیزار، شعار ِ اغیار آنکھوں میں بسانے والے اپنے اجداد سے کیا موازنہ تک کرنے کے قابل ہیں؟؟؟
ابتلا و آزمائش کے اس دور میں قرونِ اولی کے مسلمانوں نے اس حقیقت کو بخوبی جان لیاکہ دراصل اسلام کی نعمت سے روشناس ہونا ان پر اللہ کے اکرام کی انتہاتھی!!
”یہ لوگ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا ۔ان سے کہو اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر اپنا احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت دی اگر تم اپنے دعوائے ایمان میں سچے ہو“ (49:17)
ذرا غو ر کیجیے کہ اللہ کیسے اہل ِ ایمان کو باور کراتا ہے کہ”زندگی“کی حقیقت پا لینے کا مرجع کیا ہے!!!
”اے ایمان والو، اللہ اور اسکے رسول کی پکار پر لبیک کہوجبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہاللہ آدمی اور اسکے دل کے درمیان حائل ہےاور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے۔اور بچو اس فتنے سے جسکی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیاہو۔اور جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں، پھراللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دیاپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایاشایدکہ تم شکر گزار بنو“ (8:24-26)
اسکی حکمتوں کی مزید وضاحت بدر کے میدان میں ہو گئی !!!نصرت ِخداوندی کو ایمان وثابت قدمی او ر اولو العزمی سے مشروط کر دیا گیا!!!
”جنگ بدر میں اللہ تمھاری مدد کر چکا تھاحالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے، لہذا تم کو چاہئیے کہ اللہ کی ناشکری سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکرگزار بنو گے “ (3:123)
”دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو۔ تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں،اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی راستی کے گواہ ہوں کیونکہ ظالم لوگ اللہ کو پسند نہیں ہیں اور وہ اس آزمائش کے ذریعے سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کردینا چاہتا تھا۔کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہیں جنت میں چلے جاؤگے؟ حالانکہ اللہ نے ابھی تو یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اسکی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اسکی خاطر صبر کرنے والے ہیں“ (3:139-142)
”مسلمانو! تمہیں جان و مال دونوں کی آزمائشیں پیش آ کر رہیں گی اور تم اہل ِ کتاب اور مشرکین سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔اگر ان سب حالا ت میں تم صبر اور خدا ترسی کی روش پر قائم رہوتو یہ بڑے حوصلے کا کام ہے“ (3:186)
اب کیونکہ یہ طے پا چکا کہ امت ِ مسلمہ کی زبوں حالی کی وجہ قرآن کی عطا کردہ فکر سے عملاًدوری اور اس کی فضاؤں میں جینے کی صلاحیت ناپید ہو جانے کے سبب ہے تو یہ لازم ٹھہرا کہ ہم اپنی تمام تر توجہ اسلام کے عقیدہ اور ایمان کی حقیقت کے فروغ پر مرکوز کر دیں اور کیونکہ ہمارا مخاطب دور ِ جدید کا پیداکردہ ذہن ہے، اس لئے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ کس طرح مختصر مگر جامع تفاصیل و تشریحات کے ساتھ ان نوجوانوں میں فکری شعور ابھارا جائے، گو کہ یہ وضاحتیں بذات ِ خود قرآنی متن کا نعم البدل کسی طور نہیں ہو سکتیں مگر شاید اس سے ان اذہان میں قرآن کی تاثیر سے آشنا ہونے کی کوئی راہ نکل آئے ، کیا معلوم کہ یہ ان میں وہ روح پھونک دے جو ان میں اسی دور کے مسلمانوں کی طرح قرآن کے نزول کو گرد و پیش میں رونما ہونے واقعات سے نسبت دیکر کر محسوس کر لینے کی صلاحیت پنپنے کا ذریعہ بن جائے!!! یہ ”احساس“ کیاخوب نعمت ہے!!! کوئی کوئی مدعی ہی سمجھ پاتا ہے واللہ!!!
پس یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ ہم اسلامی عقیدہ کو ایک نئے اسلوب میں بیان کریں۔ اِس پر پڑی ہوئی صدیوں کی گرد جھاڑ کر اِس کو روشن اور تر و تازہ حالت میں نفوس کے اندر اترنے کی راہ دکھلائیں۔ ”تصورِ اسلامی“ کو اُس کی اصل صورت میں از سر نو پیش کریں۔
یہاں ہم یہ واضح کرتے چلیں کہ ہمارا مقصد اسلامی کتب خانوں میں ”فلسفۂ اسلامی“ کے نام سے ایک ضخیم کتاب کا اضافہ کر دینا نہیں، نہ ہی ہم ”علمی “ بنیادوں پرموٹی موٹی خشک جلدیں لائبریریوں کی زینت بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں ہرگز نہیں!!!ہم ”انٹلکچول“ مسائل کو زیرِبحث لا کر اسلام کے ’ثقافتی ورثہ‘ پر مزیدبوجھ ڈالنے کا بھی کوئی ارادہ نہیں رکھتےیہ تمام معاملات ہماری نظر میں وقت کے ضیاع کے سوا اور کچھ بھی نہیں اور یہ امت پہلے ہی بہت کچھ کھو چکی ہے!!! ہم ان تمامتررسمی کارروائیوں سے بالاتر ہو کر ایک ایسی تحریکی فکر دیکھنے کے خواہاں ہیں کہ جہاں نصوص کو بنیاد بنا کر حقیقی دنیا کے مسائل کا سامنا کیا جائے، انسانوں کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑا جائے کہ وہ اپنی تخلیق کے مقصد کو پہچان پائیں ہماری تمنا کچھ ہے تو بس یہ کہ مخلوق اب خالق کی طر ف لوٹ آئےفلاح کی ان راہوں پر ایک بار پھر گامزن ہو جو قرآن و سنت نے تعین کر رکھی ہیں ذوقِ تن آسانی کو چھوڑ کر، قلبِ سلیم لیے اس انداز میں جینے کا ڈھنگ اختیار کر لیں جو زمین پر اللہ کا نائب ہونے کی حیثیت سے انکے شایان ِ شان ہےجس کو اختیار کر کے انکے اجداد نے دنیا کی امامت کا فریضہ ایسے انجام دیا کہ فتح ِ مبین ہر راہ میں انکی قدم بوسی کرتی نطر آئی
ایمان اور جہاد کی خاطر اپنی جانیں کھپا دینے والے فرزندان ِاسلا م پر عسر کے بعد یسر کا دور آیامگر اسی دوران علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے مابین سیاسی منظر نامے پر کچھ اختلافات پید ا ہوئے تو اس کے ما بعد عالم اسلام پر جو انتشار اور افراتفری کی ایک اور ہی حالت نے بسیرا کیا۔’فرقوں‘ نے جنم لیا؛ جس سے بہت سے فلسفیانہ اور مذہبی مسائل کو ہوا ملی ہر فریق نے اپنی برتری ثابت کرنے کیلئے بڑے بڑے عقلی دلائل کا سہارا لیاملتِ اسلامیہ کے طول وعرض میں بسنے والے کئی ایک طبقوں نے عربی میں ترجمہ شدہ یونانی فلسفے کا زور و شور سے مطالعہ شروع کیا یوں دینیات و فلسفیات کا وہ تباہ کن اختلاط سطح پر ابھرا جس نے ایک دور میں مسیحیت کی بھی دھجیاں اڑا کر رکھ دی تھیں! محاذ آرائیاں جڑ پکڑنے لگیں امت کے کچھ ’مایہ ناز‘ سپوتوں نے ’فرض ِ عین ‘جانا کہ امت کے ہر غم کو بالائے طاق رکھ کر اسماءو صفات، قضا و قدر ، سزا و جزا سے متعلقہ تاویلات پر مشقِ سخن کی جائے اپنی فصاحت و بلاغت کا لوہا منوانے کی خاطرسلطنت ِ عباسیہ اور سرزمین ِ اندلس میں عقلی دلائل سے مزین کردہ مناظرے عام ہونے لگے، یہیں سے علم الکلام کی جدلیات وجود میں آئیں گویا جس امت کی بقا کا راز خالص عقیدۂ اسلام سے مربوط رہنے میں مضمر تھاوہ انسانی مخازن ِعلوم سے مستعارمقالہ جات کی رسیا ہوئی تو پھر تیزی سے تنزلی کا شکار ہونے لگی فرقہ واریت کا فتنہ نمودار ہوا امتِ محمد کا شیرازہ خارجیہ، شیعہ، معتزلہ، قدریہ اور جبریہ کی صورت میں بکھرنے لگایونانی فلسفہ کے دلدادہ ، استادِ اول ’حضرت ارسطو‘کے شیدائی کچھ دانشور ایسے بھی تھے جو یہ دعوی کرتے تھے کہ عروج ِ کمال تک پہنچنے کیلئے اسلامی فکر کو جدید اصطلاحات کا لبادہ اوڑھانا ناگزیر ہے، اایسا کرنے کیلئے فلسفہ کی آمیزش لازم ہے وگرنہ یہ امت ’ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیگی‘ !!! کم و بیش یہی رویہ آج ہم اپنے کچھ اصحاب کا مغربی طر زِ فکر کی بابت دیکھتے ہیں!!! ذرا سوچئے خالص دودھ میں بدبودار نالے کاگندا پانی ملائیں تو اسکی کیا تاثیر ، کیا ذائقہ رہ جاتا ہے؟؟!!
یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ ”عقیدہ“ اور ’فلسفہ‘ ہر دو کے مناہج میں مشرق و مغرب کی سی مسافت ہےاس خلیج کو پاٹنے کا تصور بذات ِ خود جاہلیت کا دوسرا نام ہےکہ کہاں رب العالمین کا نازل کردہ ’زندگی بخشنے والا ‘ نظام اور کہاں فلسفہ کی لغویات!! آخر الذکر’ ملغوبہ‘ سے رجوع کرنے پر ایک عام مسلمان کے ابہام میں اضافہ کے علاوہ آج تک کچھ حاصل نہیں ہوا کہ اس میں ثقیل تھیوریز ، طویل وعریض مضامین اور انتہائی بور کر دینے والے مباحث کے علاوہ ڈھونڈے سے بھی کچھ نہیں ملتا دینِ حنیف ان تمام خرافات سے اعلانِ برأت کرتا ہے!!!
ہمارے مذکورہ بالا تبصرے سے وہ شائقین یقینا دلبرداشتہ ہونگے جو ایمان کی حلاوت دلوں میں اتارکر سکینت کے احساس کا لطف اٹھانے کی بجائے سطحی مباحث میں الجھنے اور الجھائے رکھنے کو وقت کا بہترین مصرف خیال کرتے ہیں مگر کیا کریں کہ علم الکلام پر ’اسلامی‘ کا لیبل لگانے سے عقیدۂ اسلامی اس علم کی تخلیق کردہ تغیرات و تحریفات سے پاک نہیں ہو سکتا جب تک کہ ہم ماضی سے آج تک کے تمام فرقوں کے ان اختلافات کا سدِباب نہ کر دیں جو علم الکلام کے وجود میں آنے کا سبب بنےایسا کر سکنے کی صورت میں ہی ہم قرآن سے براہِ راست استفادہ کرنے کی پوزیشن میں ہونگےاپنے عقیدۂ اسلامی کو کسی اختلاط سے دور رکھنے کی غرض سے اس پر دسترس حاصل کر لینے کے بعد علمی طور پر دیگر عقائدکی خصوصیات سے موازنہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی عقیدہ پیش کرتے ہوئے تین اہم حقائق کو ملحوظِ خاطررکھا جائے
(جاری ہے)