إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۔۔!!!
شیخ عبداللہ الدمیجی
اردو استفادہ: عائشہ جاوید
”(اے نبیﷺ) کہہ دو اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ ،یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے“ (53:39)
آیت ِمبار کہ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والوں سے مخاطب ہے جو اپنے رب کی ہیبت و جلال سے لرزہ بر اندام ہوئے جاتے ہیں انہیں یہ مژدۂ جانفزا سنایا جا رہا ہے کہ وہ گناہوں کی دلدل سے اوجِ ثریا تک جا پہنچنے کی امید رکھ سکتے ہیں اگر وہ توفیقِ خداوندی سے ان خوش نصیبوں میں شمار ہو جائیں جنہیں سچی توبہ اور توبہ کی قبولیت کی سعادت نصیب ہوئی ہورب ذوالجلال اپنے محبوب نبی کے توسط تا قیامت اپنے بندوں تک یہ پیغام پہنچانا چاہ رہا ہے کہ لوٹ آؤ اپنے اصل کی جانب! خالق سے کیے ہوئے عہد کو فراموش نہ کرو!جسے ازل سے رب مان لیا اور ابد تک ماننے کا حلف لیا، وہ اتنا رحیم ہے کہ خطاؤں کے انبار نظر انداز کرنے پر راضی! بس شرط یہ ہے کہ روتے سسکتے اسکے حضور سجدہ ریز ہو جاؤ! اپنی کوتاہیوں کا اقرار کر لو! جب تک دم میں دم ہے ، تب تلک مہلت باقی ہے! توبہ کے در کھلے ہیں ! وہ منتظر ہے کہ اس کے بندے کب عالم ِ جنوں سے نکل کر عالم ِ خرد کے راہی بنیں !وہ پرکھنا چاہتا ہے کہ کب ہزاروں سجدے اِس کی جبینِ نیاز میں تڑپنے کو وجۂ قبولیت جانیں !
اس رب کی بے نیازی پر قربان جائیں جو نہ صرف بخش دینے پر تیار ہے بلکہ توبۃ نصوحاً کرنے والے کیلئے اسکی فیاضی کا یہ حال کہ اسکے اعمال ِ بد کو اسکے نامۂ اعمال میں اعمال ِ خیر کا درجہ دینے پر بھی راضی! ایسا رب اپنے بندوں کے حق میں کس درجہ رحیم و کریم ہو گا!خلقت ایک طرف عہد شکنی کی مرتکب ہو، دوسری جانب مسلسل معصیت کی راہ پر گامزن پھر اسی کی عطا کردہ توفیق سے خواب ِ غفلت سے ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھےاور اسکی جانب پلٹےاس کیفیت میں کہ حزن و ملال اور ندامت سے انتہا کی شکستہ دلی ہوآئندہ کیلئے دوبارہ اس دلدل میں نہ دھنسنے کا عزم ِ صمیم ہواور اگر اپنی نا دانی میں کسی کو گزند پہنچایا ہو تو اسکی تلافی کرنے کی بھرپور سعی کی نیت ِ صادقہ ہو
”الا یہ کہ کوئی (ان گناہوں کے بعد)توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالحہ کرنے لگا ہو۔ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے“ (25:70)
واضح رہے کہ یہ بشارت اللہ جل جلالہ شرک، قتل ِعمد اور زناکاری جیسے کبائر کا ذکر کرنے کے بعد بیان کر رہے ہیں تاہم یہ خیال رہے کہ یہ نوید اسکے لیے جو اپنے رب کی جانب رجوع کرنے کے بعد خلوصِ دل سے نہ صرف یہ کہ تائب ہو چکا ہو بلکہ نیک اعمال کی دوڑ میں بازی لےجانے کیلئے بھی عملی طور پر مقدور بھر کوشش کرنے کا تہیہ کر چکا ہو!
غنی اور بے نیاز ہے وہ ذات ! کہ اسکے حضور شرف ِ قبولیت پانے کے واسطے ہر ہر خطا پر علیحدہ سے توبہ کرنے کے علاوہ باستمرار عمومی عفو و درگزر طلب کرتے رہنا بھی کفایت کرتا ہےاور اسکے ساتھ اعمال ِخیر میں سبقت پانے کی روش بھی اختیار کر لیجائے تو اسکی رحمت اور بھی زیادہ جوش میں آنے لگتی ہے!وہ قادر ہے اس بات پر کہ اعمال ِ صالحہ کی روشنائی سے نامۂ اعمال میں درج سیہ کاریوں کو محو کر ڈالے! معبود کی بارگاہ ہو اور عبد کے قطرہ ءعرق ِ انفعال تو کیوں اسکی شان ِ کریمی جوش میں آ کر ان موتیوں کو نہ چنے!
” اور دیکھو نماز قائم کرودِن کے دونوں سروں پر اور کچھ رات گزرنے پر۔درحقیقت نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں ،یہ ایک یاد دہانی ہے ان لوگوں کیلئے جو خدا کو یاد رکھنے والے ہیں ۔ “ (11:114)
بعض علمائے کرام یہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ رخصت صرف صغائر کیلئے ہے اور کبائر کیلئے بہر حال مخصوص تو بہ درکا ر ہے ۔وہ اپنی دلیل کے حق میں درج ذیل آیت کو بطور حجت پیش کرتے ہیں
”اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو ،جن سے تمہیں منع کیا جا رہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی برائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کر دیں گے اور تم کو عزت کی جگہ داخل کریں گے“ (4:31)
علاوہ ازیں عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث بھی زیر ِ بحث لائی جاتی ہے جسکے مطابق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان نماز ِ پنجگانہ کی بروقت ادائیگی میں ایسا اہتمام کرے کہ نہ صرف مجسمہ ءخشوع و خضوع ہو بلکہ ہر ہر رکن کے ادا کرنے میں کوئی کوتاہی نہ برتے تو وہ اسکے گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جائیگی بشرطیکہ اس شخص نے کبائر سے اجتناب کیا ہو ۔(صحیح مسلم)
تاہم ابن ِ تیمیہ رحمہ اللہ اور دیگر علما ءکا قول ہے کہ آ یت مبارکہ’ ان الحسنات یذھبن السییات‘کوعمومی معنوں میں لینا زیادہ مناسب ہے جسکے تحت صغیرہ اور کبیرہ گناہ دونوں کیلئے ایک ہی حکم قرار پاتاہے۔ یہ بات کسی شبہ سے بالاتر ہے کہ میدان محشر میں جب میزان قائم ہو گا اور اعمال کی جانچ پڑتال شروع ہونے لگے گی ، وہ وقت کہ جب ہر دودھ پلانے والی اپنے شیر خوار بچے سے غافل ہو جائیگی، حاملہ کا حمل گر جائیگا، لوگ نشے میں نہ ہوتے ہوئے بھی مدہوش نظر آئینگے،انسانوں کا جم غفیر پراگندہ پروانوں کی مانند منتشر ہو گا، دائیں جانب بھی اعمال نظر آئینگے اور بائیں جانب بھی، جب اپنے ہی اعضا اپنے نہ رہیں گے اور سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دینگے اس روز کوئی نجات دہندہ ہو گا تو یہی نیک اعمال!یہ براہ ِراست کفارہ نہ بھی ہو سکے تو بھی میزان ِ حسنات میں خیر کا پلڑہ بھاری کرنے کا موجب تو ہو نگے ہی انشاءاللہ! اور جس خوش بخت کا یہ پلڑہ بھاری ہو گیا ، وہ دل پسند عیش میں ہو گا!
”اور وَزن اس روز عین حق ہو گا؛جن کے پلڑے بھاری ہونگے، وہی فلاح پائیں گے اور جن کے پلڑے ہلکے رہیں گے ،وہی اپنے آپکو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہونگے کیونکہ وہ ہماری آیات کیساتھ ظالمانہ برتاؤ کرتے تھے“ (7:8،9)
ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جس روز خلقت ِ خدا پر اعمال پیش کیے جائیں گے، تو عجب نہیں کہ برا ئیوں کے بالمقابل نیکیوں کے انبار میں ایک اضافی نیکی ہی باغِ بہشت میں ا بدی داخلے کا سبب بن جائے،بعینہ ممکن ہے کہ گناہوں کے پلڑے میں نیکیوں کے بالمقابل ایک اضافی گناہ ہلاکت و بربادی کا پیش خیمہ بن جائے!پھر انہوں نے مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا، بے شک ترازو ایک ذرے کی کمی بیشی سے کسی ایک جانب جھک جائے گی!
زندگی کی راہگزر میں پیش آنے والے نشیب و فراز،مصائب و آلام دراصل اس ذات باری تعالی کی منشا سے مستثنی نہیں ۔ یہ تو درجات میں بلندی کا زینہ ہوتے ہیں ، اگراسکی رضا پانے کی نیت سے،اور اجر کی امید رکھتے ہوئے انکا سامنا صبر و ثبات سے کیا جائے، یہ اسکے طریقے ہیں ہمیں گناہوں کی آلائش سے پاک کرنے کے اس لیے کہ وہ ستر ماؤں سے بڑھ کر پیار کرنے والا پالنہار ہےاسکی رحمت اسکے غضب پر بھاری ہےبندۂ عاصی کا اس کے در پر شرمساری سے سر جھکا دینااس کے دامن ِ شفقت کو ہمیشہ اپنے لئے وسیع پاتا ہے اس نے مغفرت کی راہیں بڑی ہی ہموار رکھی ہیں واللہمومن کی مومن کے حق میں پیٹھ پیچھے مخلص دعا ہو تو منعم علیہم بندوں میں شمار!دنیا میں آپکے قیام کی مہلت ختم ہو جائے اورآپ اپنے آخری سفرپر روانہ ہو چکے ہوں ،ایسے میں موحدین کی تین صفوف قبلہ رو کھڑی کوئی جماعت آپکے لیے بخشش طلب کرے تو بھی جنت ِنعیم آپکو خوش آمدید کہنے کیلئے تیار!یہاں تک کہ آپ دنیا سے رخصت ہو جائیں اور اپنے پیچھے فرمانبردار خوف ِ خدا رکھنے والی صالح اولا د چھوڑ جائیں جو آپکے لیے دعائے مغفرت کرتی رہےتو بھی اسکی رحیمیت کے قوی امیدوار!قبر میں جھیلی جانی والی سختیوں کو بھی پروانہءنجات بنا دینے پر قادر!اس ا مت پر بالخصوص ایسی نظر ِ کرم کہ امام الانبیاءکو اپنے اذن سے کبائر تک کے مرتکبین کیلئے حقِ شفاعت عطا فرما دیا!
اور سب سے بڑھ کر یہ التفات کہ جوغفار الذنوب رب سے اس حال میں ملا کہ اسکے سوا کسی کو اسکی خدائی میں شریک نہ ٹھہرایا ہو اور اپنے دامن کو شرک ایسی غلاظت سے آلودہ ہونے سے محفوظ رکھا تو یہ بھی ابھی اس ذات با برکت کی منشا پر باقی ہے کہ اسکا ابر ِ کرم کچھ اس انداز میں برسے کہ بندہ اسکے فیض سے جنت الخلد کا مکین ہونے کا شرف پا لے!!! اللھم اجعلنا منہم
٭٭٭٭٭