دعا کا اسلامی عقیدے سے تعلق
تالیف : ابو عبدالرحمن جیلان بن خضر
اردو استفادہ و اختصار: محمد زکریا خان
دعا کا توحید کی تین انواع سے ربط: مصنف فرماتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں دعا ایمان میں اضافے کا موجب ہے۔ اسی طرح دعا توحید کے تصور میں ، اللہ کی معرفت اور پہچان میں اور دل کی نمو میں بھی اضافے کا سبب ہے اور انسانی فطرت کو بھی جلا دیتی ہے ۔ اس کیفیت کو ہر وہ شخص محسوس کرتا ہے جب وہ کسی مصیبت میں گرفتار ہو کر خدا کے روبرو دعائیں اور التجائیں کرتا ہے ۔ دعا بندے اور رب کو قریب کر دیتی ہے اور ایمان اور توحید کی معرفت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے تو صرف اس اکیلی خصوصیت کی وجہ سے دعا مانگنا کس قدر نفع آور ہے وہ واضح ہے۔ یہ ایک ایسی خاصیت ہے کہ خود جس مطلوب کیلئے دعا مانگی گئی ہے اُس سے بڑھ کر اہمیت رکھتی ہے ۔
اس بات پر ائمہ حدیث کا اتفاق ہے کہ نیکیوں اور اطاعت شعاری سے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ خدا سے دعا مانگنا اطاعت شعاری کا سب سے نمایاں وصف ہے۔ مصائب سے دو چار بندہ جب اپنے رب سے دعا کرتا ہے تو وہ اس یقین کے ساتھ ہاتھ پھیلاتا ہے کہ بندہ محتاج ہے اس کا رب غنی ہے ۔ اسے مصیبت سے نکالنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔ خالق کی بہت ساری صفات کا بھی پھر سے اقرار کرکے اپنے یقین میں اضافہ کرتا ہے اور محتاج بندے کے قلب میں یہ بات راسخ ہو جاتی ہے کہ وہ جسے پکارتا ہے وہ اس کے حال اور مصائب سے آگاہ ہے ، وہ علیم ہے ، شفیق ہے، رحیم ہے ۔ دعا مانگنے والے کی التجا سنتا ہے اور وہی مصائب سے نجات دینے والا ہے ۔ بنا بریں رب سے تعلق جڑنے سے مصیبت زدہ انسان کو اطمینان آجاتا ہے کہ اس کی داد رسی کرنے والا اس کا مالک دعائیں سنتا ہے اور مصائب سے بچا تا ہے ۔
اگر دعا گو مذکورہ بالا قلبی کیفیات سے پوری طرح مطلع نہیں ہو پاتا تو پھر بھی اس میں دعا کی حقیقت اور اس کی معنویت پر حرف نہیں آتا کیونکہ دعا میں مذکورہ بالا تمام صفات فی نفسہ پائی جاتی ہیں ۔ اس لئے دعا میں اللہ تعالیٰ کے اسماءو صفات میں سے ’رب‘ کی صفت کو انبیاءکرام نے بکثرت استعمال کیا ہے ۔ امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ یہ بات حددرجہ قبیح ہے کہ بندہ دعا کرتے ہوئے ’رب‘ کی بجائے یہ کہے کہ یا سیدی ، یا حنان بلکہ انبیاءکی یہی سنت ہے کہ وہ کہتے ہیں رَبَّنا۔۔۔۔
اس کے بعد مصنف نے ایک نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ دعا مانگنے والا بالضرور شرک سے تارک ہونے کا اعلان کرتا ہو ۔ یا جس طرح ہم نے گزشتہ سطور میں لکھا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ دعا مانگنے والے کے نفس میں وہ سا رے لطیف جذبات پیدا نہ ہوں ۔ اس کے باوجود یہ بھی ضروری نہیں کہ (مثلاً ایک کافر مترجم) رب العالمین سے التجائیں کررہا ہو تو اس لمحے ضرور وہ اپنے دوسرے معبودوں کو بھی قلب میں بٹھائے ہوئے ہو۔ خدا سے دعا کرتے ہوئے یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی مشرک سے مشرک آدمی میں بھی دوسرے معبودوں کا تصور معدوم ہو جائے ۔ بنا بریں خدا سے دعا کرتے ہوئے ایک مشرک کابھی خدا کی صفت ربوبیت پر یقین بڑھ جاتا ہے یعنی دعا ہر دو صورت میں خواہ موحد ہو کہ مشرک خدا پر یقین میں بڑھاوے کا موجب ہے ۔ تاہم ایسا بھی نہیں کہ محض رب تعالیٰ سے دعا کرنے سے مشرک آدمی توحید کا اقراری ہو جائے۔ اگر دعا کے تمام لوازمات کسی مشرک کے ذہن میں ہوں تو وہ کبھی شرک نہ کرے ۔
اسماءو صفات سے دعا کا تعلق
دعاگو کو اگر اس بات کا یقین نہ ہو کہ جس سے وہ دعا کررہا ہے وہ دعائیں سنتا ہے اور دعا گو کے حالات سے باخبر ہے تو وہ کبھی ایسی ہستی سے دعا نہ مانگتا ۔ بنا بریں ایسا باخبر جو حاضر اور غیب دونوں سے اچھی طرح واقف ہو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفت ہے۔ دعا سے مدعو کی صفات: ’سمع ‘ اور ’بصر‘ کا اقرار ہوتا ہے۔ سورت شعراءمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ ،أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ (72،73)”(ابراہیم نے )پوچھا جب تم اُن کو پکارتے ہوتوکیا وہ تمہاری سنتے ہیں ،یا تم کو کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں یاکچھ نقصان پہنچا سکتے ہیں “(شاہ رفیع الدین)
دعا سے دا عی مدعو کی صفات ’حیات‘ اور ’قیومیت‘ کا اقرار کرتا ہے ۔اس کے علاوہ دعا سے مدعو (خواہ خدا ہو یا ماسوا خدا) کی دیگر صفات کا بھی اقرار ہوتا ہے جن میں سے اہم ترین ہیں : ایسی ہستی جس کا’ ارادہ‘ لاگو ہوتا ہے ۔ مدعو وہ ہستی ہوتی ہے جس میں مطلق ارادہ پایا جاتا ہے ۔ مدعو میں جود وکرم، رحمت اور شفقت، غنی اور داد رسی کرنے والا جیسی صفات پائی جاتی ہیں ۔ اگر جس ہستی سے دعا کی جارہی ہو اس میں داعی مذکورہ بالا صفات کا اجمالاً ہی سہی اقرار نہ کرتا ہو تو پھر دعا کرتا ہی کیوں ہے !مذکورہ بالا صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ محمد بشیر سھسوانی (ت 1326ھ) فرماتے ہیں : کسی مدفون بزرگ کی قبر سے دور اُسے پکارنا یا کسی غائب ہستی سے التجاءکرنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ داعی مدعو میں ’ عالم الغیب ‘کی صفت کا اقراری ہے۔
دعا سے اللہ تعالیٰ کی صفت ’علو‘ کا اقرار ہوتا ہے
اللہ کو مخلوقات سے بلند ماننا انسانی فطرت میں راسخ تصور پایا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے دعا کرتے ہوئے مخلوقات آسمان کی طرف دیکھتی ہیں ۔ اِسی انسانی فطرت کی تکمیل کیلئے انبیاءاو ررسل مبعوث ہوئے ہیں ۔
امام جوینیؒ اپنے رسالے ’رسالۃ فی اثبات الاستواءو الفوقیۃ ‘ میں لکھتے ہیں : بندے میں جب یہ یقین پختہ ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان کے اوپر اور اس سے بھی اوپر عرش سے بلند ہے بلا حصر اور بلا کیفیت اور وہ اب بھی اپنی صفات سے اسی طرح متصف ہے جس طرح قدیم میں تھا۔ تو دعا میں اس کا رخ اور ہتھیلیاں آسمان کی طرف اٹھ جاتی ہیں ۔(وہ فرماتے ہیں کہ تصور کرو ایک ایسے شخص کا ) جسے اپنے معبود کا علم ہی نہیں کہ وہ آسمانوں سے بلند عرش سے اوپر ہے تو وہ دربدر ہی رہے گا۔
امام ابو حنیفہؒ سے سوال کیا گیا کہ اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ کہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ عرش آسمان پر ہے یا زمین پر ؟ امام ابو حنیفہؒ نے فرمایا: ایسا کہنے والا شخص کافر ہے۔ وہ اس بات کا انکاری ہے کہ عرش آسمان پر نہیں ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ علیین ہے۔ اور یہ کہ اللہ کو جب بھی پکارا جاتا ہے تو بلندی کے تصور سے پکارا جاتا ہے نہ کہ پستی کے تصور سے۔
علم کلام پر جن شخصیات نے تالیفات چھوڑی ہیں ان میں امام اشعری(ت 324ھ)کا بڑا نام ہے ۔ امام اشعری نے علو اللہ کے موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے لیکن امام اشعری آخری عمر میں اُس عقیدے کے قائل ہو گئے تھے جو سلف صالحین کا عقیدہ تھا کہ جو علو اللہ کا اثبات کرتے ہیں ۔ افسوس ہے کہ امام اشعری کے بعد میں آنے والے پیروکار ان کے اس آخری عقیدے پر نہیں ہیں ۔ ’الابانۃ ‘ میں امام اشعری لکھتے ہیں :
ہم تمام مسلمانوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ جب کبھی دعا کرتے ہیں تو اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عرش پر استوا فرمائے ہوئے ہے ۔ وہ آسمانوں سے بلند ہے ۔ اگر داعی کو یہ معلوم نہ ہوتا کہ اس کا رب عرش پر مستوی ہے تو وہ اپنے ہاتھ عرش کی طرف نہ اٹھاتے ۔ دعا کےلئے وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ زمین پر نہیں پھٹکتے ۔
مصنف کہتے ہیں کہ دنیا کے تمام اہل خرد و دانش مندوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دعا کرنے والاآسمان کی طرف دیکھتا ہے لیکن اس کے باوجود اہل کلام میں جو علو سے جہت کے تعین کی بنا پر صفات باری تعالیٰ میں علو کے ماننے سے نقص مراد لیتے ہیں وہ دعا کرتے ہوئے ہاتھوں کے اوپراٹھانے کی مختلف توجہات پیش کرتے ہیں ۔ خلائق کا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا ان کے نزدیک درج ذیل وجوہات کی بنا پر ہے نہ کہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے عُلُوّ کی صفت کے اثبات کے لیے ۔ منکرین عُلُوّ کہتے ہیں :
(الف) داعی کا آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا اس لیے ہے کہ آسمان سورج اور چاند کے نور کا مکان ہے ۔ کواکب اور ہوائیں بلندی پر ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر برسات آسمان سے ہوتی ہے جو بنی نوع انسان کے لیے روزی کا ذریعہ ہے۔ ہاتھوں کا آسمان کی طرف اٹھانا مذکور ہ بالا بڑے بڑے رزق کے خزانوں کی وجہ سے ہے( یعنی حرارت،روشنی، ہوا اور پانی۔ مترجم)
(ب) منکرین علو کی دوسری دلیل یہ ہے کہ جس طرح نماز کا قبلہ کعبہ ہے اُسی طرح دعا کا قبلہ آسمان ہے ۔
(ج) تیسری وجہ فرشتوں کا آسمان میں ہونا ہے ۔ وہ کہتے ہیں (کہ بندوں کی خبریں )فرشتوں کے توسط سے پہنچتی ہیں اس لیے دعا کرتے ہوئے فرشتوں کا قصد ہوتا ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کا بر سر علو ہونا ۔
منکرین علو ایک منطقی دلیل نمازی کے سجدے سے بھی دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جیسے زمین پر سجدہ کرنے سے یہ لازمی نہیں آتا کہ اللہ تعالیٰ زمین میں ہے اسی طرح ہاتھوں کے اوپر اٹھانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اللہ آسمانوں پر ہے۔
منکرین کے مذکورہ بالا دلائل کا رد
مصنف لکھتے ہیں ۔ جہاں تک آسمانوں میں مخلوقات کے رزق ہونے کی دلیل ہے تو یہ اس لیے دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ اس دلیل کی بنا پر ہاتھوں کا زمین کی طرف رخ ہونا زیادہ قرین قیاس تھا۔ آدمی رزق کی کٹائی زمین سے کرتا ہے نہ کہ آسمان سے ۔ منکرین کے نزدیک تمام جہات مساوی ہیں لیکن ہماری شریعت میں ایسا نہیں ہے ۔ زمین کی یوں ایک اور اہمیت بھی ہے کہ نماز کے دوران میں نبی علیہ السلام کی یہی ہدایت ہے کہ نمازی زمین کی طرف دیکھے (سجدے والی جگہ)اور آسمان کی طرف دیکھنے سے منع کیا گیاہے ۔ یہ اس لیے ہے کہ سجدے والی جگہ پر نظریں ٹکانے سے خشیت پیدا ہوتی ہے ۔ اگر آسمان ہی دعاؤں اور مناجات کے لیے منکرین کی مذکورہ بالا وجوہات کی بنیاد پر اہم تر ہے تو نماز کے دوران میں سجدے کی جگہ اہم ہے ۔ پھر زمین کا دعا کے لیے قبلہ ہونا آسمان کی نسبت زیادہ دلائل رکھتا ہے۔
منکرین کایہ دعویٰ کہ دعا کا قبلہ آسمان ہے باطل ہے ۔ سلف صالحین میں سے کسی ایک شخصیت سے بھی یہ قول ثابت نہیں ہے ۔ منکرین کا یہ دعویٰ سلف صالحین کے اجماع کے بر خلاف ہے ۔
اس کے بعد مصنف حفظہ اللہ فرماتے ہیں : سلف صالحین سے جو بات ثابت ہے وہ یہی ہے کہ دعا کا قبلہ وہی ہے جو نماز کا قبلہ ہے ۔ پچھلے شماروں میں ہم ’آداب دعا‘ کے تحت اس بات کا تذکرہ کر آئے ہیں کہ دعا کے وقت قبلہ رو ہونا ہماری شریعت میں مستحب کام ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو قبلوں کا پابند کیا ہو ۔ ایک نماز کا قبلہ اور دوسر ا الگ سے دعا کا قبلہ!
قاری پر یہ بات تو عیاں ہو گی کہ خود نماز ساری کی ساری دعا ہے اور بالخصوص فاتحہ تو اللہ اور بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کی گئی ہے ۔
قبلہ اسے کہتے ہیں جس کی طرف عبادت کرنے والا اپنا چہرہ کرتا ہے ۔ کسی سمت ہاتھ اٹھانے کو قبلہ نہیں کہتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو مسلمان قریب المرگ ہو ، نبی علیہ السلام نے اس کی بابت فرمایا ہے کہ اس کاچہرہ قبلہ رو کردیا جائے اور اسی طرح قبر میں جس میت کو لٹایا جاتا ہے اس کا چہرہ قبلے کی طرف کیا جاتا ہے ۔ اگر آسمان دعا کا قبلہ ہوتا تو پھر چہرہ آسمان کی طرف اٹھایا جاتا نہ کہ ہاتھوں کو ۔ بنابریں ہاتھوں کا یا انسان کے سر کا کسی سمت ہوناا س کے قبلہ ہونے کی دلیل نہیں ہے بلکہ جس سمت عبادت کرتے ہوئے چہرہ کیا جائے وہ اس کا قبلہ ہوتا ہے ۔
قبلہ مختلف پیروکاروں میں مختلف بھی رہا ہے ۔ کچھ ملتوں کا قبلہ بیت المقدس رہا ہے اور امت محمدیہ کا کعبہ۔ لیکن جس بات پر دنیا بھر کے دعا گو مصیبت زدہ لوگوں کا اتفاق رہا ہے وہ یہ ہے کہ وہ ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں ۔ بنا بریں قبلہ کسی امت یا ملت کے لیے شناخت کی رمز یا شعار ہے جبکہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا اللہ تعالیٰ کے عُلُوّ کے لیے ہے ۔
کسی ملت کے لیے قبلہ کا تعین شارع (اللہ تعالیٰ ) کی طرف سے بذریعہ وحی جبکہ ہاتھوں کا آسمان کی طرف دعا کے لیے اٹھنا امر طبعی اور فطری ہے ۔ شارع کو کبھی نہیں کہنا پڑا کہ دعا کے لیے ہا تھ اوپر اٹھاؤ بلکہ مضطر کو ایسا ہی کرنا تھا کیونکہ یہ ایک فطری فعل ہے ۔
جہاں تک منکرین کی اس دلیل کا تعلق ہے کہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھانا فرشتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے تو اس کے باطل ہونے کے لیے دلائل درج ذیل ہیں :
(الف) مشیر (اشارہ کرنے والا ) جب کسی طرف اشارہ کرتا ہے تو اسے پہلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلاں کی طرف اشارہ کررہا ہے یہ عین ممکن ہے کہ مشیر جس سمت اشارہ کررہا ہو وہاں متعدد چیزیں پائی جاتی ہوں تاہم مشیر ایک یا چند چیزوں کی طرف اشارہ کررہا ہوتا ہے نہ کہ ان تمام اشیاءکی طرف جو اس سمت پائی جا رہی ہوں ۔ بنا بریں آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کسی مشیر کے قلب و ذہن میں یہ نہیں ہوتا کہ وہ فرشتوں کو متحرک کر رہا ہے۔ مضطر داعی اور موحدین دعا میں صرف رب العالمین کا قصد کرتے ہیں نہ کہ آسمان میں پائی جانے والی مخلوقات کی طرف۔
(ب) اکیلے اللہ سے دعا کے دوران میں اگر فرشتوں کی طرف اشارہ کیا جائے تو یہ اللہ کے سا تھ شرک ہو گا۔ یوں فرشتوں کو پکارنا ویسے ہی شرک ہے۔
(ج) شریعت میں اس بات کی قطعاً اجازت نہیں ہے کہ فرشتے یا ان کے علاوہ کسی بھی اور مخلوق کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ دعا اللہ کی صفت ربوبیت کے اثبات کا ایک بے ساختہ اظہار ہے اور ربوبیت کا حق یہ ہے کہ اس سے ہی مانگا جائے ۔ جو شخص دعا کے دوران میں کسی غیر اللہ کی طرف ہاتھ سے اشارے کی اجازت دیتا ہے تو وہ داعی کو شرک کی دعوت دیتا ہے ۔
زمین پر سجدہ کرنے والی دلیل کا رد
(الف) سجدے کی حالت میں اعضاءکے زمین پر ٹکنے سے کسی نے بھی یہ مراد نہیں لیا کہ ساجد (سجدہ کرنے والا) کا قصد پستی کی طرف ہے ۔ سجدے سے جو بات واضح طور پر سمجھ آتی ہے وہ یہی ہے کہ یہ تواضع اور انکساری کا انداز ہے ۔ہاتھوں کا بلند ہونا البتہ اوپر والے سے مانگنے کے لیے ہوتا ہے ۔
داعی تو اوپر (بلندی علو) والے سے کچھ مانگنے کو ذہن میں لاتا ہے لیکن سجدہ کرنے والا کبھی بھی اپنے ذہن میں یہ نہیں لاتا کہ پستی (پستیوں ) سے اسے کچھ لینا ہے ۔ ساجد بھی سجدے کے دوران میں اوپر والے سے مانگ رہا ہوتا ہے (نہ کہ نیچے پاتال میں اس کا کوئی حاجت روا پایا جاتا ہے ۔ مترجم)
عابد خواہ حالت قیام میں ہو کہ حالت رکوع میں ، سجدہ کرتا ہو یا تشہد میں مناجات، مانگ وہ اوپر والے سے رہا ہوتا ہے۔
(ب) تصور کریں ایک ایسے بت پرست کاجس کا یہ عقیدہ ہو کہ اس کا معبودنیچے پایا جاتا ہے۔ ایسے بت پرست کے بارے میں آپ کو ذرا بھی تامل نہیں ہو گا کہ وہ جب بھی اپنے معبود سے دعا مانگے گاتو اس کے دل اور اعضاءکے قصد کی سمت نیچے کی جہت ہو گی ۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ نصاری اپنے گرجوں میں دعا کرتے ہوئے انہیں تصویروں کی طرف اپنا رخ کرتے ہیں جن سے وہ دعا مانگ رہے ہوتے ہیں ۔اسی طرح مرے ہوئے بزرگوں کو جب کوئی دعا کے لیے پکارتا ہے تو وہ ان کی قبر کی جہت کا قصدکرتا ہے ۔
بنا بریں دعا کے دوران میں کسی سمت متوجہ ہونا اس بات کی علامت ہے کہ مدعو اس سمت میں پایا جاتا ہے ۔ جب یہ بات معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کو خالص کرتے ہوئے جب کوئی دعا کرتا ہے تو ہاتھ اوپر اٹھاتا ہے تو یہ اس بات کی بدیہی دلیل ہے کہ مدعو آسمانوں کے اوپر ہے ۔
توحید عبادت سے دعا کا تعلق
تمام قسم کی عبادات میں سے دعا کو متعدد وجوہات کی بنا پر امتیازی حیثیت حاصل ہے ۔ دعا کی خصوصیات میں سے درج ذیل اہم ترین ہیں :
(الف) ساری عبادات جیتے جی انسان کو خود بجا لانا ہوتی ہیں لیکن دعا کا ثواب (فائد ہ) دعا کرنے والے کو زندگی میں بھی ہوتا ہے اور اگر کوئی دوسرا شخص وفات شدہ شخص کے لیے دعا کرے تو میت کو اس کا ثواب پہنچتا ہے ۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جب کوئی شخص وفات پا جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے پھر فرمایا :ہاں اگر میت کی اولاد میں سے جو کوئی دعا کرے (تو یہ عمل میت کے لیے ثواب کا باعث ہے )۔
نماز جنازہ میں استغفار کی دعا کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اس بات پر امت کا اجماع ہے ۔ البتہ دوسری عبادات کا ثواب میت کو پہنچتا ہے یا نہیں اس پر علماءکے اقوال مختلف ہوئے ہیں ۔ جہاں تک صدقہ و خیرات کا تعلق ہے تو دعا کی طرح یہ خصوصیت صدقہ و خیرات کو بھی حاصل ہے۔
(ب) دوسری عبادات کے بر عکس دعا کے لیے سوائے دعا مانگنے کے اور کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ عبادات کی روح ہونے کے باوجود دعا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ دعا مانگنے کے لیے وضو، طہارت ، قبلہ رو ہونا یا حج کی طرح احرام باندھنا اور سفر کرنا جیسے لوازمات نہیں ہیں ۔ دعا کی اس خصوصیت میں ’ذکر‘ کو شامل کیا جاسکتا ہے اور جیسا کہ پچھلے شمارے میں ہم نے لکھا ہے کہ ’ذکر‘ بذات خود دعا ہے ۔
(ج) دعا میں آدمی شدید ضرورت مند ہوتا ہے اس لیے دعا کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس میں دعا کرنے والے شخص کو حضور قلب کے لیے بہت کوشش نہیں کرنا پڑتی۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر عبادات میں آدمی عبادت کے تصور سے عبادت کے دوران میں ہی غافل ہو جاتا ہے ۔
(د) عبادت کی خصوصیت ہے کہ اس میں انکساری، ذلت اور طلب ہوتی ہے ۔ یہ ساری خصوصیات دعا میں بدرجہ اتم موجود ہوتی ہیں ۔
اس کے علاوہ دعا میں عبادت کی دوسری اغراض بھی پائی جاتی ہیں ۔ جیسے توکل، دعا کی قبولیت کے لیے صبر، تواضع ، عاجزی اور انکساری ، حضور قلب، بیم و رجائ، رغبت، غیراللہ سے (وقتی ہی سہی ) ناطہ توڑنا، خشوع و خضوع، عدم قبولیت کی وجہ سے خوف او رڈر ، مدعو کی عزت و تکریم اور کبریائی کا اقرار ، گریہ و زاری، آنسو نکلنا ، زبان سے ذکر، اعضاءسے ابتہال، اللہ کی بہت ساری صفات کو واسطہ بنا کر اسے پکارنا ، مدعو سے شدید محبت۔
دعا میں عبادات کی اکثر اغراض کے شمول کی وجہ سے اہل مکہ کے ساتھ نبی علیہ السلام کا شدید جھگڑا اس عنوان پر ہوا تھا کہ وہ غیراللہ سے دعائیں نہ مانگیں اور صرف اللہ سے مانگیں ۔ اکثر مشرکین میں شرک کی وجہ ربوبیت نہیں ہوتی اور اسی طرح اسماءو صفات میں الحاد بھی مشرکین میں بہت کم دیکھا گیا ہے ۔ اہل شرک کا اصل اور بنیادی شر ک غیراللہ سے دعا کرنے میں ہوا ہے اور اسی کے آگے بند باندھنا انبیاءکرام کی دعوت کا مرکزی نقطہ رہا ہے ۔
سجدہ ، رکوع ، طواف، نذرونیاز اور قربانی میں بھی لوگوں سے شرک ہوتا ہے لیکن غیراللہ کے لیے یہ عبادات اتنی بجا نہیں لائی جاتی ہیں جتنا غیراللہ سے حاجت روائی کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں ۔ اس کی ایک بڑی وجہ اوپر مذکور ہوئی ہے اور وہ ہے دعا کے عمل کابہ آسانی انجام پا جانا بر خلاف دوسری عبادات کے لیے جن میں طہارت ، سفر یا مال خرچ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے بھی شرک فی الدعاءپر جتنی آیات نازل کی ہیں وہ شرک کی دوسری اقسام سے بہت زیادہ ہیں ۔
شرک فی الدعاءکے کثیر الوقوع ہونے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے شیخ حمد بن ناصر النبذۃ الشریفۃ میں لکھتے ہیں :
غیراللہ سے دعا مانگنے کی حرمت کے متعلق جتنی نصوص مذکور ہوئی ہیں وہ کسی بھی دوسرے کفر یا ارتداد کے مسائل سے متعلق نصوص سے کہیں زیادہ ہیں ۔
’مدارج السالکین ‘ میں امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں : شرک کی اقسام میں سے یہ ہے کہ فوت شدگان سے حاجت روائی کی جائے ، استغاثہ کے لیے ان کا قصد کیا جائے اور انہیں سے آس لگائی جائے ۔ امام ابن قیم ؒ اس کے بعد لکھتے ہیں : واقعہ یہ ہے کہ اصل شرک ہے ہی یہی۔
مصنف لکھتے ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک امکانی اعتراض کا جواب بھی دیا جائے ۔ معترض اعتراض کر سکتا ہے کہ اگر واقعتا فوت شدگان سے حاجت روائی کا مسئلہ ہی شرک کی اقسام میں سب سے اہم تر ہے بلکہ اصل شرک یہی ہے تو پھر ائمہ اربعہ کی کتب اور اسی طرح متقدمین کے علمی ورثے میں اس مسئلے پر بہت کچھ مواد کیوں نہیں ملتا ہے ۔
اس اعتراض کا جواب درج ذیل ہے ۔
(الف) جیسا کہ ہم نے گزشتہ سطور میں لکھا ہے کہ کتاب اللہ میں سب سے زیادہ اسی شرک پر آیات نازل ہوئی ہیں ۔ معترض اس کا انکار نہیں کرسکتا ۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ انسانوں کو سب سے زیادہ کس مسئلے سےخبردار کرنے کی ضرورت ہے ۔ اکیلی یہی ایک دلیل اتنی اہم ہے کہ کسی اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔
(ب) ائمہ کرام اور صلحاءامت کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے وقت کے انحراف کو زیر بحث لاتے ہیں اور موجود فتنوں اور بدعات کے قلع قمع پر اپنی محنت کرتے ہیں جیسا کہ ائمہ کرام نے اپنے زمانے کے گمراہ فرقوں کے خلاف مہم چلائی اور وسیع ذخیرہ علم بھی اس بابت چھوڑا ۔ اُس وقت امت میں ایسا انحراف نہیں آیا تھا کہ وہ فوت شدگان سے دعائیں اور التجائیں کرتے ۔ یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو اس پر علمی مواد کا کمیاب ہونا قرین قیاس ہے ۔
شیخ عبد الرحمن بن حسن ؒ القول الفصل النفیس میں لکھتے ہیں : فوت شدگان سے عقیدت مندی رکھنا ایک ایسی بدعت ہے جو امام احمد بن حنبلؒ اور ان کے معاصرین کے بعد پیدا ہوئی تھی ۔
دعا اور تقدیر میں تعلق
تقدیر پر ایمان مسلمان کے عقیدہ کا لازمی عنصر ہے ۔ اللہ کی تقدیر پر راضی برضا رہنا مومن سے مطلوب ہے تاہم اہل منطق، صوفیہ اور فلاسفہ کو اس مسئلہ میں شدید قسم کے مغالطے لگے ہیں ۔ جبکہ صحابہ کرامؓ اور سلف صالحین کا تقدیر کے مسائل میں واضح اور دو ٹوک عقیدہ ہے جو اہل سنت کے امہات الکتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔
مصنف نے یہاں تقدیرکے مسئلے میں دعا اور تقدیر پر سیر حاصل بحث کی ہے اور گمراہ آرا کو پیش کرنے کے بعد ان کا مسکت جواب دیا ہے ۔ تقدیر اور دعا کے تعلق میں اہل ملل کی درج ذیل آرا پائی گئی ہیں :
(الف) دعا کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور نہ دعا سے فائدہ پہنچتا ہے ۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ کو نہ پکارا جائے ۔
(ب) دعا سے نہ کسی فائدے کا حصول ہوتا ہے اور نہ دعا کسی ضرر سے بچانے میں مؤثر ہے ۔ دعا محض عبادت ہے (اس کے علاوہ دعا کی کوئی حقیقت نہیں )۔
(ج) دعا کسی مطلوب کے حصول کے لیے اظہاراور علامت ہے ۔ دعا میں بذات خود مطلوب کے حصول کا سبب نہیں ہے ۔
(د) دعا تقدیر کو اس طرح پھیر دیتی ہے کہ ایک قضاءسے دوسری قضاءمیں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
(ھ) دعا کا نفع بعض چیزوں میں ہوتا ہے اور بعض امور میں نہیں ہوتا ہے۔
(و) دیگر اسباب کی طرح دعا بھی قضاءو قدر کے اندر ہی ایک سبب ہے۔
پہلے دعوے کی تفصیل میں تین توجیھات پائی جاتی ہیں اور تینوں کو پیش کرنے والے اصحاب کااس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہیں پکارا جائے گا۔
پہلی توجیہ پیش کرنے والے فلاسفہ اور صوفیوں کا ایک گروہ ہے جو کہتے ہیں کہ جب اللہ کی مشیت کو جو چاہنا ہے وہی ہونا ہے اور جس بات کے لیے اللہ کی مشیت نہیں ہے وہ رو پزیر ہی نہیں ہوتی۔ اس لیے دعا کی نہ حقیقت ہے اور نہ فائدہ۔
دوسری توجیہ ارسطو اور اس کے ہم خیال گروہ کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں :
ان اللہ لیس عالماً ولا مریداً: ’اللہ تعالیٰ نہ عالم ہے اور نہ ارادہ رکھتا ہے۔ ‘
تیسری توجیہ ابن عربی اور ان کے ہم خیال طائفہ کی ہے کہ دعا کرنے والا اور جس سے دعا کی جارہی ہے ، ایک ہی ذات ہے ۔
پہلی توجیہ کرنے والے گروہ نے دوسرے دلائل کے علاوہ جو دلیلیں کتاب و سنت سے پیش کی ہیں وہ وہی ہیں جن میں قضاءو قدر کا پہلے سے لکھا ہوا ہونا ہے ۔جیسے مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ(حدید:22) ”کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمہارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہواور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب (نوشتہ تقدیر) میں نہ لکھ رکھا ہو،ایسا کرنا اللہ کے لیے بہت آسان کام ہے“(ابو الاعلی) اسی طرح صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : ما منکم من احد الا قد کتب مقعدہ من النار او من الجنۃ ‘ تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جس کا ٹھکانہ یا دوزخ کے کسی ٹھکانے میں نہ ہو یا جنت کے کسی مقام میں نہ ہو۔
ارسطو اور اس کے ہم خیال کہتے ہیں کہ اللہ کو پکارنے کا تو کوئی فائدہ اور معنی نہیں ہے ۔ ان کے نزدیک کائنات میں تصرف اور حرکت فلک کی حرکت سے روپزیر ہوتی ہے۔ اس لیے اللہ سے دعا کا کوئی فائدہ نہیں تاہم ارسطو اور ابن عربی دعا کی تاثیر کے قائل ہیں ۔ اول الذکر کسی اور سبب سے اور ثانی الذکر کسی اور سبب سے۔
اول الذکر گروہ نے اپنا اصول تو بنا لیا لیکن جب لاکھوں انسانوں کے تجربات سے یہ امرثابت شدہہے کہ دعا کااثر ہوتا ہے تو وہ دعا کی تاثیر کی توجیہ یوں کرتے ہیں : انسانی نفس کائنات میں اثرات مرتب کرتا ہے نہ کہ کائنات میں تاثیر کاسبب اللہ تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے ۔
اہل اسلام میں سے فارابی ، ابن سینا اور ان کے ہم خیال دعا کی تاثیر کی یہی توجیہ کرتے ہیں ۔
مصنف لکھتے ہیں بلاشبہ اس گروہ کا شرک اور غلو اہل مکہ کے شرک سے بھی بڑھ کر ہے ۔ اہل مکہ اپنے بتوں کے توسط سے رب تعالیٰ سے ہی مانگتے تھے جبکہ یہ طائفہ اللہ تعالیٰ کے کائنات میں کسی قسم کے تصرف سے ہی انکار کرتا ہے ۔
ابن عربی اور ان کا گروہ بھی دعا کی تاثیر کا قائل ہے لیکن وہ اس کی توجیہ یوں پیش کرتے ہیں کہ داعی اپنے آپ سے ہی دعاکررہا ہوتا ہے وہ کہتے ہیں کہ نفس جس چیز کی طرف رغبت دکھائے وہ نفس پراثرات تو مرتب کرے گاہی؛یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ نفس اپنے ہی مطالبے پرکوئی اثر نہ دکھائے!
مصنف لکھتے ہیں کہ یہ دعوی اپنی تینوں توجیھات کے ساتھ اتنا بودا ہے کہ اس کا جواب دینے کی ہی ضرورت نہیں ہے ۔
(ب) دوسرا دعویٰ صوفیہ کے ایک گروہ کا ہے کہ دعا کا فائدہ ہے اور نہ کسی ضرر سے وہ روک سکتی ہے ۔ البتہ یہ صرف عبادت ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں ہماری شریعت میں چونکہ بہت ساری عبادات ایسی ہیں جن کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی ہے ۔ ایسی عبادات سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ مومن اسے بجا لاتا ہے یا نہیں ۔ جیسے حج کی عبادات میں کنکریاں مارنا۔ اسی کو بنیاد بنا کر اس گروہ نے اپنا اصول بنا یا ہے اور وہ دعا کو عبادات کی ان اقسام میں شمار کرتے ہیں جسے اہل فقہ ’غیر معقول المغی‘عبادات کہتے ہیں ۔
یہ گروہ اپنے اصول کی توجیہ اس طرح کرتا ہے کہ دعاسے عبادت کے دو معنی متحقق ہوتے ہیں : پہلا اعضاءکے ذریعے عبادت کا کوئی آہنگ اختیار کرنا جیسے ہاتھ اٹھانا اور دوسر ا اللہ تعالیٰ نے کیونکہ دعا مانگنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ مؤمن اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں ۔ دعا مانگ کر مؤمن فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
اس اصول کو بنیاد بنا کر صوفیہ کا یہ گروہ کہتا ہے کہ عوام الناس کے حق میں تو دعا مانگنا ہی مطلوب ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی چنیدہ ہستیوں کے حق میں قضا ءو قدر کے معنی کو جانتے ہوئے دعا کا ترک کرنا اور توکل اختیار کرنا ہی افضل ہے ۔
اس گرو ہ کے بعض اصحاب نے دعا کے محض عبادت ہونے کی توجیہ یہ پیش کی ہے کہ انسان سے نسیان اور خطاسے اللہ کے حق میں جو تقصیر ہو جایا کرتی ہے اس کی تلافی دعاکے ذریعے کی جاتی ہے۔ ان کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت پر ہے :رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا (بقرہ:286) ”اے ہمارے رب،ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں ،ان پر گرفت نہ کر“(ابو الاعلی)
دعا مانگنا اس طائفے کے نزدیک جو کچھ قضاءوقدر میں لکھ لیا گیا ہے اس میں شک کرنا ہے ۔ اگر دعا سے فی الواقع کسی چیز کاحصول مطلوب ہو یا کسی ضرر سے بچنا مقصود ہو توگویا و ہ اس بات میں شک کرتا ہے کہ خدا کا لکھا وقوع پزیر نہ ہوگا ۔ عارف کا عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی حاجات زبان پر نہیں لاتا ۔ جسے خدا کی معرفت حاصل ہوگئی اس کا یہ عقیدہ پختہ ہوجاتا ہے کہ اس کا رب از خود اس کی حاجات کاعلم رکھتا ہے ۔
صوفیہ کا یہ گروہ جنید بغدادی کا ایک قول نقل کرتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جنید بغدادی سے پوچھا گیا کہ ہم رزق کہاں سے مانگا کریں ؟ جواب دیا گیا : جہاں تمہیں یقین ہو کہ میرا رزق اس جگہ موجود ہے۔
پوچھا گیا : کیا خدا سے مانگ لیا کریں !
جواب تھا : اگر تمہیں یہ پتہ چل گیا ہے کہ خدا تمہیں فراموش کر چکا ہے اور تم چلے ہو اسے یاد دلانے تو مانگ لو ۔ کہا گیا : گھروں میں ٹک کر بیٹھ رہتے ہیں اور خدا پر بھروسہ کرکے دیکھ لیں ؟
فرمایا : تجربہ کرنا تو شک کو مستلزم ہے !
کہا پھر آخر کیا حیلہ اختیار کریں ؟
فرمایا : ترک حیلہ!
ان ہی میں سے ایک اور بزرگ نے دعامانگنے کو خدا پر الزام دینا کہا ہے ۔
قشیری اپنے رسالے میں لکھتے ہیں ، عوام مسلمانوں کی دعا الفا ظ پر مبنی ہوا کرتی ہے ، زاہدوں کی دعا افعال سے ہوا کرتی ہے اور عارفوں کی دعا احوال سے ہوا کرتی ہے ۔ (یعنی صوفیہ کی وجد میں طاری کیفیت سے )۔ اس کے بعد وہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں ، مبتدی (سالک ) کی زبان دعائیں مانگنے میں مشاق اور اہل حق کا شیوہ زبان سینا ہے۔ اس رسا لے میں اس حد تک غلو پایا جاتا ہے کہ آگے چل کر صاحب رسالہ ایک حکایت پیش کرتے ہیں جس میں یہ فقرہ بھی ہے، (اللہ کا سچا )فقیر وہ ہے جسے اس سے کسی قسم کی حاجت روائی مطلوب نہ ہو!
مصنف لکھتے ہیں بلاشبہ اللہ کاحاجت مند نہ ہونا ایک بدترین جسارت ہے ۔
دعا کے محض مبنی برعبادت کے اصول کو ماننے والے وہی دلائل پیش کرتے ہیں جو عموماً قضاءوقدر کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں یعنی جو کچھ رو پزیر ہوتا ہے وہ سب اللہ کے علم میں پہلے سے ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں کہ مذکورہ بالا دونوں دعوے اس مغالطے پر قائم ہیں کہ جو نتائج کسی سبب سے ظاہر ہوتے ہیں اِس اصول کی رو سے وہ بلا سبب بھی وہی نتائج لاتے ہیں ۔اور جن اشیاءکے روبہ عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی مانع (رکاوٹ) باقی نہ رہے وہ رکاوٹ کے باوجود عمل پزیر ہو جایا کرتے ہیں (کیونکہ تقدیر میں جو ثبت ہو چکی ہیں !)
بلاشبہ یہ دونوں دعوے جس اصل دلیل پرقائم ہیں ِ، بدیہی طور پروہ لغو ہے۔اس لغو دلیل کو اپنا اصول بنا کر اس گروہ میں ایسے نامور لو گ پید ا ہوئے ہیں جو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ شریعت میں مذکور احکامات کی بجا آوری کی کوئی حاجت نہیں ہے ۔ جو پیدا ہی جنت کے لیے ہوا ہے وہ جنت میں ضرور جائے گا خواہ وہ ایمان ہی نہ لایا ہو اورخواہ اپنے نامہ اعمال میں ایک نیکی بھی نہ رکھتا ہو اور جو پیدا ہی دوزخ کے لیے ہوا ہے وہ دوزخ میں ہی جائے گاخواہ پکا مؤمن ہو۔ ملاحظہ فرمائیں ’جامع الرسائل ‘ اور ’التحفۃ العراقیۃ‘۔
مذکورہ با لا دلیل کا رد
مذکورہ بالا دعویٰ ایک اللہ کی مشیّت کو بنیاد بناتا ہے اور دوسرا اللہ کے علم کو ۔ ہم ان دونوں بنیادوں کا تجزیہ پیش کرنے کے بعداِس دعوے کا باطل ہونا ثابت کریں گے۔
ہمارے مخالفین کے اصل مقدمے دو ہیں :
(الف) اللہ کی مشیّت جب کسی مطلوب کا فیصلہ کرلیتی ہے تو وہ ہوجاتا ہے ۔
(ب) اللہ کا علم۔
مصنف لکھتے ہیں اگر صرف اِن دو مقدمات کو تسلیم کر لیا جائے تواس کا معنی یہ ہے کہ کسی بات کا اللہ تعالیٰ کے علم میں ہونا ا س با ت کو مستلزم ہے کہ مطلوب کا اللہ کے علم میں ہونا ہی اس کے حصول کا سبب ہے۔
قضاءوقدر کو بنیاد بنا کر دعا کی اہمیت کو گھٹانے والے مذکورہ بالادو مقدمات پر اپنے دعوے کی بنیاد رکھتے ہیں حالانکہ قضاءوقدر کو ثابت کرنے والا ایک تیسرا اور اہم ترین مقدمہ بھی ہے جسے پیش نظر نہ رکھ کر مذکورہ بالادونوں طائفوں کو مغالطہ لگا ہے ۔
قضاءوقدر پر ایمان اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے لیکن ایک تیسرا مقدمہ یہ ہے کہ جو مطلوب قضاءوقدر میں کسی سبب سے مرقوم ہے جیسے دعا،توکل نیز یہ کہ مطلوب کے ظاہرہونے میں ’موانع‘(رکاوٹیں )زائل ہو گئی تھیں ،ایسا مطلوب سبب کے اختیار کرنے سے اور’موانع‘ کے زائل ہونے سے ہی روبہ عمل ہوگا ۔ قضاءوقدر میں جو بات کسی سبب سے مرقوم ہے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ بات بلا سبب رو بہ عمل ہو کیونکہ عدم سبب سے مسبب ممتنع ہو تا ہے ۔ تفصیل جاننے کے لیےملاحظہ فرمائیں مدارج السالکین، زادالمعاد، الجواب الکافی اور شرح عقیدہ طحاویہ۔
بالفرض ہم صوفیہ اور فلاسفہ کا یہ دعوی تسلیم کر لیتے ہیں کہ دعا سے مطلوب نہیں ملتا تو پھر بھی یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ دعا سے کسی قسم کے دیگر فوائد بھی حاصل نہیں ہوتے ۔اِس بابت نبی علیہ السلام فرماتے ہیں :’ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی صاحب ایمان اللہ کے سامنے اپنا ماتھا رگڑ کر التجا ئیں کرے تو (درج ذیل میں سے کوئی فائدہ اسے حاصل نہ ہو) اللہ اس کی دعا دنیا میں ہی پوری کردے یا پھر موخر کرتے ہوئے آخرت میں نوازے ، دعا مانگنے والے کو وہ دے گا ضرور جب تک وہ بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرلیتا‘ ۔ اس روایت کو امام احمد نے اپنی مسند میں درج کیا ہے۔
علاوہ ازیں اگر دعا کرنے والے کو مطلوب بھی نہ ملے اور حدیث میں مذکوردوسرے فوائدبھی حاصل نہ ہوں تو محض دعا کے ذریعے سے جو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کی دوسری صفات کی تصدیق ہوتی ہے اور دوسرے وہ ساری قلبی کیفیات جو گزشتہ سطور میں ہم لکھ آئے ہیں ۔ اکیلے یہ روحانی فوائد اس قدر عظیم ہیں کہ دعا سے مطلوب نہ بھی حاصل ہو ان فوائد کا حصول اکیلا اتنا بڑا سبب ہے کہ دعا بندے کے حق میں واجب ہو جاتی ہے ۔
جس حدیث کو مدعی بنیاد بناتے ہیں ا س حدیث میں خود نبی علیہ السلام کی ہدایت ہے کہ جب بعض لوگوں نے کہا کہ جب سب کچھ لکھا جا چکا ہے تو پھر ہم بیٹھ کر اپنی تقدیر کے لکھے کو پورا ہوتا نہ دیکھیں ۔ آپ نے فرمایا :’ لا نہیں اعملوا عمل کرتے رہو فکل میسر لما خلق لہ.... ہر دو راستے ہی (سعادت اور شقاوت کے) چلنے والے کے لیے کھلے ہیں ۔ جو سعادت کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں وہ اہل سعادت والوں کی طرح کے اعمال کیا کرتے ہیں اور جو شقاوت کے حقدار ٹھہرائے گئے ہیں وہ اہل شقاوت والوں کی طرح بد اعمالیاں کرنے والے ہوتے ہیں ‘۔ اس حدیث کو امام بخاری کے علاوہ دوسرے محدثین نے روایت کیا ہے۔
مصنف لکھتے ہیں اس حدیث سے جو قاعدہ اور اصول ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ قضاء و قدر میں جس کا جو انجام لکھا گیا ہے وہ ان اسباب کی وجہ سے لکھا گیا ہے جو عمل کرنے والا اختیار کر تا ہے۔بنا بریں نامرادی پانے والا اس لیے نامراد ہوا کہ اس نے نامرادی والے اسباب اختیار کر رکھے تھے اور سعادت پانے والا اس لیے کامیابی کے انجام تک پہنچا کہ اس نے سعادت حاصل ہونے والے اسباب اختیار کر رکھے تھے۔
قضاءو قدر میں انجام بھی لکھا ہے اور اس انجام تک پہنچانے والے اسباب کا سلسلہ بھی لکھا ہوا ہے ۔ کوئی انجام ایسا نہیں جس کا پیچھے اس انجام تک پہنچانے والے اختیار کردہ اسباب کا سلسلہ نہ ہو ۔تقدیر میں اِس مثال کی طرح یوں لکھا ہوتا ہے: فلاں شخص کے اولاد ہوگی اس طرح کہ وہ فلاں عورت سے نکاح کرکے زن شوھی کے تعلقات استوار کرے گا تو پھر اتنی مدت کے لیے بیوی کے حمل ٹھہرے گا وغیرہ۔
صحابہ کرامؓ نے ایک مرتبہ نبی علیہ السلام سے عرض کیا :’ اے اللہ کے رسول ہم اس طرح کرتے ہیں کہ (بیماری میں ) دوائی سے علاج کرتے ہیں یا دم پڑھ کر پھونک مارتے ہیں یا کوئی اور بچاؤ کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ اے اللہ کے رسول کیا (ہمارے اس طرح ہاتھ پیر مارنے سے )اللہ کے قضاء و قدر بدل جاتی ہے ۔ آپ نے فرمایا : ان اسباب کو اختیار کرنا بھی اللہ کے قضاء و قدر ہی ہے ‘۔اس حدیث کو امام ترمذی اور دوسرے محدثین نے روایت کیا ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں تقدیر کا عذر دے کر دعا جیسی عبادت سے منع کرنے والے کس طرح یہ دعوی کرسکتے ہیں کہ وہ اللہ کے قضاءوقدر کو دیکھ آئے ہیں کہ وہ بالکل وہی ہے جو وہ کررہے ہیں ! علاوہ اس کے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ بعضے عمل انسان کو کرنا ہیں اور بعضے اعمال سے بچنا ہے ۔ اللہ تعالیٰ قضاءوقدر کو قضاءوقدر سے ہی ٹالتا ہے ۔ وہ حکم دیتا ہے کہ شر کو خیر سے مٹا دو ، کفر کو ایمان سے مٹا دو اور بدعت کو سنت کے احیاءسے مٹا دو۔
صوفیہ اور فلاسفہ کے مذکورہ بالا دعوے کو تسلیم کرنے سے دنیا بھر کی شریعتیں اور خدا کے اتارے ہوئے احکامات باطل ہو جاتے ہیں ۔ تلبیس ابلیس میں ابن جوزیؒ لکھتے ہیں : انسان کے بازو اس لیے ہیں کہ وہ اپنا بچاؤ کرے ، زبان سے کلام کرے ، عقل سے رہنمائی لے کر ضرر سے بچ سکے اور فوائد کو حاصل کرسکے۔ اگر وہ خدا کی نعمتوں سے وہ کام نہیں لیتا تو وہ خدا کے اوامر کو ترک کرنے والا ہو جائے گا ۔ اسباب کو چھوڑ کر توکل کا دعوی کرنے والے گویا انبیاءکرام سے بھی بڑھ کر ہیں ۔وہ لکھتے ہیں کہ انبیاءکرام اسباب کو استعمال کرنے والے ہوتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ جب موسیٰ علیہ السلا م کو اطلاع مل گئی کہ افسران بالا ان کے خلاف سازشیں کررہے ہیں تو انہوں نے (بچاؤ کا راستہ اختیار کرتے ہوئے )نقل مکانی کرلی تھی ۔ (اجنبی ملک میں انہیں خوراک اور مونس کی ضرورت تھی ) اس کے حصول کے لیے انہوں نے آٹھ سال کے لیے اپنی خدمات (اپنے سسر کو) پیش کر دی تھیں ۔
تقدیر کو بنیاد بنا کر عمل سے روگردانی کرانے والے یا کم از کم عمل کی اہمیت گھٹانے والے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کسی ’وقوعے ‘ کا محض اللہ کے علم میں ہونا ہی اس کے روپزہونے کی دلیل ہے قطع نظر اس کے کہ کسی وقوعے کا کوئی فاعل بھی ہوگا اور کسی مخصوص وقوعہ کے رو پزیر ہونے کے لیے اس وقوعہ سے متعلقہ اسباب بھی اختیارکیے جائیں گے ۔ مصنف لکھتے ہیں کہ یہ تمام کا تمام مقدمہ باطل اور لغو ہے ۔ علاوہ اس کے یہ اللہ کے علم کی حقیقت سے صریحاً جہالت پر مبنی تصور ہے۔ یہ کیسے نتیجہ اخذ کر لیا گیا کہ کسی وقوعے کا خدا کے علم میں ہونا یہ معنی بھی رکھتا ہے کہ اس کی طلب خدا سے نہ کی جائے ۔ امام ابن تیمیہؒ نے اس باطل تصور کے مبنی بر جہالت ہونے کی دو وجوہات بتائی ہیں ۔
(الف) لکھتے ہیں : (خدا کا) علم (سو فیصد) معلوم (وقوعہ)کے مطابق ہوگا۔ وقوعہ اسی طرح رو پزیر ہوگا جیسا اس کے لیے کوئی (قاعدہ) بنایا گیا ہوگا ۔ اللہ کا علم اس سارے سلسلے کو محیط ہے جو کسی شے کے رو بہ عمل ہونے کے لیے مہیا کی گئی ہیں ۔ اللہ کا علم یہ ہے کہ فلاں اسباب کی بدولت فلاں وقوعہ رو نما ہوگا ۔لکھتے ہیں واقعہ یہی ہے کہ اشیاءاپنے اسباب سے جڑی ہوتی ہیں ۔ اب (ہمارا مخالف یہ دعوی کررہا ہے کہ خدا کا علم ناقص ہے اور ) وہ اشیاءکے واقع ہونے کو ان کے اسباب کے ساتھ رونما ہونے کا علم نہیں رکھتا ۔ امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں : یہ خدا پر صریح بہتان ہے ۔ گویا ہمارا مخالف یہ دعوی کررہا ہے کہ خدا کا علم اس طرح ہے کہ فلاں بچہ پیدا ہوگا بغیر اس کے کہ اس کا کوئی ماں باپ ہو ۔مصنف لکھتے ہیں کہ ابن تیمیہ ؒ آگے چل کر فرماتے ہیں : بنا بریں اللہ کو اس بات کا علم ہونا کہ فلاں وقوعہ رو پزیر ہوگا اُس وقوعے کے روپزیر ہونے کا سبب نہیں ہے ۔ اللہ کا کسی وقوعے کی بابت علم اس طرح ہوتاہے کہ فلاں وقوعہ فلاں اسباب کے ساتھ رو پزیر ہوگا۔جس وقوعے کا علم خدا کے علم میں اس طرح ہے کہ وہ فلاں فلاں اسباب سے رو نما ہوں گے وہ اسباب کے ساتھ ہی رونما ہوں گے یعنی بلا اسباب وہ رونما ہوں گے ہی نہیں۔
وہ لکھتے ہیں : بنا بریں جب کوئی بندہ دعا کرتا ہے تو ہم جان جاتے ہیں کہ اس وقوعہ (یعنی دعا ) کا معلوم (یعنی اس وقوعے کے متعلق اللہ کا علم) دعا تھا۔ اگر کسی بندے سے دعا کا وقوعہ سرزد نہیں ہوتا تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کا علم عدم دعا تھا۔
مصنف نے گزشتہ سطور میں دعا کے مؤثر یا غیر مؤثر ہونے کے بارے میں (الف) تا (و) آرا پیش کی ہیں ۔ مصنف نے دوسری رائے (ب) کا مفصل رد کیا ہے۔ ہمارے ہندوستانی معاشرے میں بھی صوفیہ کے اس گروہ کا بہت زیادہ اثر ورسوخ رہا ہے اس لیے ہم نے بھی اس رائے کا رد قارئین ایقاظ تک پہنچانا ضروری سمجھا ہے ۔
دیگر آرا کا مصنف نے اختصار سے رد کیا ہے ۔ دراصل اس دوسری رائے کی تفصیل میں تمام گمراہ تصورات کا رد ہوجاتا ہے ۔ اس لیے باقی آرا کے رد کو چھوڑ کر ہم دعا کی تاثیر میں اہل سنت والجماعت کا موقف پیش کرتے ہیں ۔
مصنف لکھتے ہیں : اہل سنت والجماعت اسباب کی تاثیر کا اعتراف کرتے ہیں ۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ مسببات اپنے اسباب سے مربوط ہوتےہیں ۔ اور یہ کہ بندہ اپنے افعال کا حقیقی طور پر فاعل ہوتا ہے ۔ بندے کے پاس (کوئی فعل انجام دینے کی ) قدرت بھی ہے (اس میں وہ ) با اختیار بھی ہے ۔ بندے کی قدرت اس کے مقدّر پر تاثیر مرتب کرتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح دوسرے طبعی اسباب اپنے مسببات کو رو پزیر کرتے ہیں ۔مصنف لکھتے ہیں کہ (اور اسی طرح کسی وقوعے کے روپزیر ہونے میں ) اس کے علاوہ اور بھی اسباب اور شروط ہوتی ہیں ۔ مصنف نے اس اصول کی تعبیر کے لیے امام ابن تیمیہؒ کی تالیفات ’منہاج السنۃ ‘ اور ’فتاوی‘ سے رہنمائی لی ہے ۔
مصنف لکھتے ہیں جہاں تک اہل سنت کے اس عقیدے کا تعلق ہے کہ اسباب موثر ہوتے ہیں تو ان کے اس قول میں اور ارسطو اور طبعی قوانین کی تاثیر کے قائل گروہ کے عقائد و تصورات میں بنیادی فرق ہے ۔ آخر الذکر اسباب کو بذات خود موثر سمجھتے ہیں اور خدا ئے برتر کی صفات کو معطل سمجھتے ہیں ۔ اہل سنت اسباب کے موثر ہونے کے اپنی شروط اور موانع کے ساتھ قائل ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ مسببات کے رو پزیر ہونے کا انحصار اسباب اور موانع پر ہے یعنی اسباب کو مسببات کے رونما کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہوتو وہ روپزیر ہو جاتے ہیں ۔ موانع کو خدائے برتر دور کرنے والا ہے ۔ علاوہ اس کے اسباب مسخر بھی اللہ کے اذن سے ہوتےہیں اور ان سے رونما ہونے والا مسبب کا برپا ہونا بھی از خود نہیں بلکہ اللہ اُس کے برپا ہونے کو برقرار بھی رکھے تو تب جا کروہ رونما ہوگا۔
مصنف نے یہاں ابن تیمیہؒ کا قول نقل کیا ہے ، لکھتے ہیں : کوئی سبب ایسانہیں کہ جو اپنے مسبب کے رونما ہونے میں بہت سے اور عوامل پرعلاوہ اختیار کردہ سبب کے انحصار نہ کرتا ہو اور مسبب کے رونما ہونے میں اُس مسبب کے مخالف دوسرے عوامل بھی ہوتے ہیں ۔ چناچہ مسبب کے رونما ہونے کاانحصار (علاوہ اختیار کردہ اسباب کے ) معاون عوامل کے سازگار ہونے اور مخالف عوامل کے دور ہونے پر ہے ۔ اگر یہ تمام باتیں نہ پائی جائیں (تو اکیلاسبب اپنے ) مسبب کو رونما نہ کرے گا ۔ بنا بریں (طبعی قوانین کو حتمی ماننے والے اہل زیغ کے برعکس اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ مخلوق میں ) کوئی قائم بالذات ایسی علت نہیں ہے جو اپنے معلول کو پیدا کرکے ہی رہے بلکہ اہل سنت کہتے ہیں کہ جب تک اللہ کی مشیّت نہ ہو علت سے معلول پیدا نہیں ہوتاکیونکہ جو اللہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور جسے وہ نہ چاہے وہ نہیں ہوتا (فما شاءاللہ کان وما لم یشأ لم یکن)۔
اہل سنت کے اس متوازن اور معتدل اصول کے بعد ہم اس مضمون کو ختم کرنا چاہ رہے تھے لیکن ایک شبہہ ایسا ہے کہ اس کا رد کیے بغیر اہل سنت کا موقف شاید کماحقہ نہ سمجھا جا سکے۔یہ شبہہ پچھلی سطور میں (د) کے تحت مذکور ہوا ہے کہ: دعا تقدیر کو اس طرح پھیر دیتی ہے کہ ایک قضاءسے دوسری قضاء میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ یہ موقف رکھنے والے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی اس روایت کو پیش کرتے ہیں : لایردّ القضاءالا الدعا ولا یزید فی العمر الا البر ولا یردّالقدر الا الدعا وَاِنَّ الرجل لیحرم الرزق بالذنب یصیبہ (ابن ماجہ، مسند احمد وغیرہ)’ تقدیر (قضاء) کو کوئی چیز پھیر نہیں سکتی سوائے دعا کے اور (انسان کی ) عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سوائے نیکیوں کے۔
حضرت ثوبانؓ کی روایت کردہ حدیث میں ان الفاظ کا بھی اضافہ ہے کہ ’آدمی کو اس کے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم ہونا پڑتا ہے ‘۔
مصنف نے اسی معنی میں دوسری احادیث بھی اپنے مقالے میں ذکر کی ہیں جسے ہم طوالت سے بچنے کے لیے پیش نہیں کررہے ہیں ۔
اس کے بعد مصنف اس موقف کا رد کرتے ہوئےلکھتے ہیں کہ اس باب میں پیش کی جانے والی احادیث سے کیا پوری صراحت سے واضح ہو جاتا ہے کہ دعا خود قضاءو قدر میں داخل نہیں ہے ۔ جہا ں تک قضاءوقدر کا ’پھرنا دعا کے ذریعے سے ہوتا ہے ‘، کے الفاظ ہیں تو یہ الفاظ اس بات پر محمول ہوتے ہیں کہ قضاءوقدر میں ہی یہ بات پہلے سے موجود تھی کہ کوئی وقوعہ فلاں دعا کے سبب سے کسی دوسرے وقوعے میں بدل جائے گا ۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ دعا نے پہلے سے لکھی کسی قضاءوقدر کو تبدیل کرکے ایک نئی تقدیر بنائی جو پہلے سے نہیں لکھی گئی تھی ۔ ا ن اصحاب کے اس قول کو تسلیم کرلینے سے تقدیر پر ایمان میں جامعیت بھی نہیں رہتی ہے اور یہ بھیکہ تقدیر میں ہر چھوٹی بڑی بات پوری طرح ثبت ہونے سے رہ گئی ہے ۔
فاضل مصنف کے مقالہ سے ہم نے جو انتخاب کیا تھا وہ یہاں پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین