وفیات
سید مودودی کے دست راست
از قلم: ندیم الحق خان
عبداللہ بن بسر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ سے ایک اعرابی نے عرض کی ۔
یا رَسولَ اللہ من خَیر النَاس ِ؟قَالَ مَن طَالَ عُمرُہُ و حَسُنَ عَمَلُہ (رواہ الترمذی)
اے اللہ کے رسول ﷺ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے ؟
آپﷺ نے فرمایا جس کی عمر زیادہ ہو اور عمل نیک ہو۔
اگر آپ کو گذشتہ کچھ سالو ں میں منصورہ کی جامع مسجد میں نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا تو آپ نے یہ منظر ضرور دیکھا ہو گا کہ ایک نہایت نحیف و نزار عمر رسیدہ بزرگ جن کی بینائی بھی تقریباََ ختم ہو چکی ہے ،سماعت گویا اپنی طبع عمر پوری کر چکی ہے ۔کبھی کسی بیٹے کا سہار ا لے کر کبھی کسی پوتے کا ہاتھ تھام کر اپنے وجود کو فی الواقع گھسیٹتے ہوئے مسجد کو چلے آرہے ہیں اور پھر96 برس کی پیرانہ سالی کے باوجود مسجد میں آتے ہی اپنی رہی سہی توانائیوں کو ایک نکتے پر مرکوز کر کے نوجوانوں کی طرح کھڑے ہو کر اپنے رب کی بندگی کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ان کی نماز کا ارتکاز،جذب اور وارفتگی دیکھ کر رشک آتا تھا۔
منصورہ جانا ہوتا تو میں سوچتا، یہ عمر تو بہت زیادہ ہے یہاں توساٹھ سال کے عرصے میں لوگ بڑھاپے کو” شرعی رخصت “سمجھ کر گھر میں نماز پڑھتے ہیں اور ان کے لواحقین بھی انہیں یہی تلقین کرتے ہیں۔لیکن اللہ رب العزت نے اپنے اس بندے کو اُس کے ظرف کے بقدر ہمت و حوصلہ اور توفیق عطا کی کہ فرض نمازیں تو ایک طرف انہوں نے اپنی زندگی کی آخری تراویح بھی مسجد میں باجماعت کھڑے ہو کر ادا کی۔
یہ مردا ستقلال ،پیکر صبرورضا ،اللہ کے رنگ میں ڈوبی ہوئی شخصیت سابق امیر جماعتِ اسلامی میاں طفیل محمد مرحوم کی تھی جو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں، جو گویا پورے ایک عہد کو ساتھ لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے ۔
بشری کوتاہیاں ،طرز فکر اور طرز عمل ،رویوں کا تنوع، اس پر تو کلام ہو سکتا ہے لیکن میاں صاحب کی شخصیت کی خوبیوں کا سب سے بڑا اعتراف تو یہی تھا کہ مولانا موددی رحمۃ اللہ علیہ کے تیار کردہ اولین ساتھیوں میں سے مولانا کی نیابت اور جماعت کی امارت کا اعزاز میاں صاحب ہی کے حصے میں آیا اور جماعت کے دینی وسیاسی کردار کو کامل استقامت سے نبھایا اور اُس وقت کے سول ڈکٹیٹر ذوالفقار علی بھٹو کے ظلم و ستم کا بدترین تشدد اور قیدو بند کی صعبو توں کا مقابلہ، پامردی اور صبرو حوصلہ سے کیا اور اسلامی طرز معاشرت کی بقا کے لئے مسلسل حالت جنگ میں رہے ۔حکومتی ریشہ دوانیوں کے باوجود جماعت کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے نہ صرف منظم و متحد رکھا بلکہ باطل سے برسرپیکار رہے۔
میاں صاحب نے معروف معنوں میں غربت اور تنگ دستی کی زندگی گزاری اور جماعت کے اکابرین کے الفاظ میں” انہوں نے پوری زندگی کسی سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور پوری زندگی سادگی سے بسر کی ۔اخلاص اور طبیعت کے یک رخے پن کے سبب انہیں بعض حلقوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔لیکن وہ پوری استقامت سے اس راہ پر ڈٹے رہے جس کو وہ اپنے فہم دین کی روشنی میں درست سمجھتے رہے“
اللہ رب العزت ان کی کوتاہیوں سے درگزر فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کو علین میں جگہ عطا فرمائے ۔ (آمین یا رب العالمین)