بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں
گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم
ج: اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں
بہت زیادہ نہیں
حامد کمال الدین
امت کی بنیادی ترین ضرورتوں کیلئے
رجال کی شدید کمی کا درپیش ہونا اِس وقت کی سب سے چیختی حقیقت ہے۔ زیادہ سے زیادہ
یہی کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لوگ نا پید نہیں جو امت کے نوجوانوں کو آج درپیش
تحریکی الجھنوں اور کچھ نہایت پریشان کر دینے والے مسئلوں کی بابت ایک علمی اور
فکری راہنمائی دے سکتے ہیں۔ یعنی ایک بڑی سطح پر، اور ہر ہر خطہ میں علماءکی ایک
عظیم تعداد بہرحال نہیں پائی جاتی جو عصرِ حاضر کے حقائق سے نہایت گہری واقفیت بھی
رکھتی ہو، زمانے کی نبضوں سے بھی خوب آشنا ہو، احوالِ عالم کی بھی اُس کو نہایت
خوب خبر ہو، عقیدہ اور اصولِ سلف میں بھی نہایت ٹھیٹ اور عمیق نظر رکھتی ہو، علم
کے دیگر شعبوں سے بھی اُس نے کافی حظ پا رکھا ہو، اور حق پر قیام اور ثبات کے
معاملہ میں پایۂ استقلال بھی اُس کے یہاں مفقود نہ ہو۔ ہم اگر کہیں گے کہ ایسے
رجال امت میں ہر طرف بڑی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں تو یقینا یہ ایک خلافِ حقیقت
بات ہوگی۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ عالم اسلام ایسے افراد سے خالی بہر
حال نہیں۔
اِس بحران کے باعث، حقیقت یہ ہے کہ ہم
یہاں دین کے لئے بر سر عمل طبقوں کے عام افراد کے سامنے ایسے تقاضے رکھنے کے سرے
سے قائل نہیں جنہیں ادا کرنا ان کے بس سے باہر ہے یا جنہیں ’سمجھنے‘ کیلئے ہی اُن
کو اچھی خاصی چھان پھٹک اور کتب و مراجع کی طویل ورق گردانی کرنا ہوگی۔ اب مثلاً
ہم اُن سے یہ تقاضا کریں کہ اِس وقت جو درست ترین علمی راہنمائی ایک دینی و تحریکی
کو عمل برپا کرنے کیلئے یہاں مطلوب ہے، جائیں دنیا میں کہیں جا کر اُس کو اور اُس
کے رجال کو تلاش کریں، تو ایسا تقاضا کرنا یقینا ایک زیادتی ہو گی۔ یہاں کا ایک
عام شخص دین کو کھڑا کرنے کیلئے جس بھی فورم سے یا جس بھی پروگرام کا حصہ بن کر یا
جس بھی قیادت کے پیچھے کھڑا ہو کر دین کیلئے جدوجہد کر رہا ہے اُس کو خراب کرنا
اور وہاں سے اکھاڑنا دین کی کوئی خدمت نہیں۔ آپ کو کچھ نہایت صحیح علمی و فکری
بنیادوں پر اُس کے منہجِ عمل سے اختلاف ہے تو یہ اختلاف اُس کے بڑوں سے کریں (گو
اُس کیلئے بھی بہترین اسلوب اور بنیاد اختیار کی جانا ضروری ہے اور صبر وحوصلہ اور
بردباری بھی حد سے زیادہ مطلوب ہے)۔ یہاں کا ایک عام نوجوان جو دین کیلئے کسی بھی
پروگرام کے تحت سرگرمِ عمل ہے وہ امت کا فرزند ہے، اسلام کا نوجوان ہے، ہم سب کا
مشترکہ سرمایہ ہے، ہم سب کے پاس اُس کیلئے سوائے حوصلہ افزائی اور پیٹھ تھپکنے کے
کوئی بات ہونی ہی نہیں چاہیے، چاہے اُسکے یہاں پائی والی بہت سی باتیں ہماری نگاہ
میں قابل اعتراض کیوں نہ ہوں۔ زیادہ سے زیادہ اُس کو سمجھانا چاہیے تو وہ یہ کہ وہ
اُن دوسرے پروگراموں کو بھی جو اُس کی اپنی قیادت کے علم تلے نہیں ہو رہے اسلام
اور دین کی خدمت ہی باور کرے۔ آج جبکہ ’تن ہمہ داغ داغ شد‘ والی کیفیت ہے، ’عام
فرد‘ کی بابت ایسا تعامل اختیار کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے
کہ تحریکی میدان کے اندر نہایت اعلیٰ پائے کی علمی و فکری راہنمائی اِس قدر وافر
دستیاب ہی نہیں کہ ہم اُسے خوامخواہ کنویں جھنکوائیں، جسکے نتیجے میں وہ اُس کام
سے بھی جائے جو وہ اَب کر رہا ہے۔
ہاں جو نوجوان ’عام سطح‘ سے بلند ہو
کر علمِ تحریک کے اندر ’طالبعلمی‘ کی سطح تک آ سکتے ہیں اُن سے البتہ ہمارا تقاضا
خاصا مختلف ہونا چاہیے۔ اُن کیلئے البتہ درست نہیں کہ وہ ہر لکیر کو آخری سمجھ
بیٹھیں سوائے اُن لکیروں کے جو اُن کیلئے اہل سنت کے عقیدہ اور منہج نے کھینچ دی
ہوں۔ یقینا ’طالبعلمی‘
بھی ایک سی
سطح کی نہیں۔ پس جس چیز کو ہم ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ وہ لوگ جو ہمت اور طاقت
رکھیں وہ علمِ تحریک کے ہر ہر باب میں اُس کے مختص اہل علم تک ہی کسی نہ کسی سطح
کی رسائی حاصل کریں۔ اپنے دور کے اصولِ سنت کے متخصص علماءو مصنفین تک جس درجے کی
بھی پہنچ ممکن ہو اُس کی پوری کوشش کریں۔
اصولِ عقیدہ کو زیادہ بہتر سطح پر اور
اعلیٰ تر علمی مراجع سے سمجھنے کے حوالے سے یہاں جو گفتگو ہوئی وہ ثانی الذکر صنف
کیلئے ہے۔ لہٰذا یہ سمجھنا کہ ہم نے یہاں کے تحریکی نوجوانوں کے سامنے کچھ نہایت
مشکل تقاضے رکھ دیے ہیں، درست نہ ہوگا۔ ہاں تحریکی نوجوانوں میں ایک صنف ضرور ایسی
ہے جس کے سامنے یہ مشکل تقاضے لازماً رکھے جائیں گے، مستقبل کے حوالے سے ایسے
نوجوان ہی ہماری اصل امید ہیں۔
بنا بریں، ہمارے یہاں آپ اگر ایسی
بحثیں دیکھیں جو یہاں پر جاری تحریکی عمل میں کچھ رخنوں کی نشاندہی کرتی ہوں، کہیں
پر اِرجاءاور کہیں پر خارجی اثرات یا کچھ دیگر ناروا اشیاءکی جانب توجہ مبذول
کرواتی ہوں، اور اِن پہلوؤں سے کسی منہجِ عمل کو درست کردینے پر زور دیتی ہوں۔۔۔۔
تو اُس وقت ہمارا مخاطب یا تو یہاں کی قیادتیں ہوں گی یا یہاں کے وہ باہمت طبقے جو
معاملات کو ایک مانوس رخ کے علاوہ کسی رخ سے دیکھنے کی استطاعت رکھیں اور جوکہ
’طالبعلمی‘ کی ایک خاص سطح کا متقاضی عمل ہے۔ ہاں اِس طبقے کی بابت ہمارا اصرار ہے
کہ اِس کو ابھی بہت فاصلہ طے کرنا ہے اور تحریکی مباحث کے اندر بہت سے علمی وفکری اضافوں
کو اپنے تحریکی فہم اور عمل کے اندر ساتھ ساتھ ضم incorporate کرتے جانا ہے؛ جس کا طبعی نتیجہ ان
شاءاللہ یہ ہوگا کہ یہاں کا ’عام دینی کارکن‘ خود بخود اپنے عمل اور اپنی سمت میں ایک بہتری آتی ہوئی محسوس
کرے گا۔
رہ گیا یہاں کا ’عام دینی کارکن‘ تو
اس کو جو لائحۂ عمل کسی قیادت یا کسی پروگرام کی جانب سے دے دیا گیا ہے، اُس میں
خواہ ایک گونہ اِرجائی اثرات پائے جائیں یا قدرے انتہا پسندانہ رویے (جن کو خارجی
اثرات بھی کہا جا سکتا ہے، گو عام شخص کی سطح پر ایسا تاحال بہت کم ہے)، غرض اُس
کو دیے جانے والے کام میں بعض بدعتوں کی ہی ایک گونہ آلائش کیوں نہ ہو، اور یقینا
کئی ایک جگہ ایسا ہے، تو بھی اُس (’عام دینی کارکن‘) کے پریشان ہونے کیلئے دین کی
بہت موٹی موٹی اور اساسی قسم کی باتیں ہی رہنے دی جائیں گی اور اُنہی کی اُس کو
تاکید و تلقین کرائی جائے گی، البتہ وہ قیادت اور وہ پروگرام جسکے ساتھ مل کر وہ
دین کی نصرت اور اقامت کا کوئی کام کر رہا ہے اُس سے اُسکو برگشتہ بہرحال نہ کیا
جائے گا۔
پس یہ اعتراض کہ لے دے کر ایک عام آدمی
کو یہی علماءاور یہی قیادتیں تو میسر ہیں انکو چھوڑ کر بیچارہ کہاں جائے، ہمارے
اِس پورے مضمون پر نہیں بنتا۔
اداریہ میں اس سے بعد کے اجزاء
د ۔
مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!
ھ ۔ حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘
ہی نہیں تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟
و۔ ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات
کرتا ہے!
ز۔ اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ
کے حوالہ سے۔۔۔۔
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء
کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون
ہیں۔ حصہ دوم
الف ۔ استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!
ب ۔ بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘
کا ڈائلیکٹ!