|
|
|
|
|
السلام علیکم قارئین کرام! اسلام کا تحریکی عمل جوکہ صدی بھر سے بپا ہے، بحث و مطالعہ اور تحسین و تصویب کے حوالہ سے بے شمار جہتیں رکھتا ہے اور اس کی ہر ہر جہت ہی بے حد اہم ہو گی۔۔ مگر اِسکی ایک جہت یقینا یہ ہے کہ یہاں انسانوں کی اجتماعی زندگی جس ڈھب پر استوار کر رکھی گئی ہے اور اسکو قائم ودائم رکھنے کا باقاعدہ ایک انتظام عمل میں لا رکھا گیا ہے، اسکا اسلام سے اگر کوئی تعارض ہے تو اس تعارض کی نوعیت و سنگینی کا صحیح صحیح تعین کیا جائے۔ یوں تو عمومی طور پر یہاں کے جملہ اسلامی حلقوں کے مابین ایک اتفاق پایا گیا ہے کہ اجتماعی زندگی کا یہ نقشہ اور اس کو بزور قائم رکھنے کا یہ انتظام دینِ خداوندی کے ساتھ صاف صاف ایک تصادم ہے، مگر یہ تصادم ہے کس درجے کا، کیا اسکی حیثیت عام گناہوں ایسے ایک گناہ کی ہے جس سے ایمان کی نفی بہر حال نہیں ہوتی، یا پھر یہ تصادم اِس سے زیادہ بنیادی نوعیت کا ہے ؟ یہ بحثیں روز بروز اب سنجیدہ ہوتی جا رہی ہیں اور آئندہ دنوں میں شاید آپ دیکھیں انکے اندر اور بھی شدت آنے لگی ہے۔ اِس حوالہ سے ایقاظ میں بھی اس موضوع کے بعض پہلو زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اِس موضوع کے وہ جوانب جو آپکے خیال میں یہاں تشنۂ وضاحت رہ گئے ہیں یا جہاں ہماری فکر ٹھوکر کھا گئی ہے، انکی جانب آپ ہمیں توجہ دلانا چاہیں تو اپنے مراسلوں، تبصروں اور اعتراضات کیلئے آپ ہمیں چشم براہ پائیں گے۔ ہمیں قارئین کے چند ملاحظات موصول ہوئے ہیں کہ ایقاظ کے موضوعات، خصوصاً اداریے، طویل ہونے کے باعث ایک نشست میں نہیں پڑھے جاسکتے، اور یہ چیز ایقاظ کے مطالعہ میں مخل رہتی ہے، لہٰذا یا تو مضمون مختصر ہو اور یا پھر اسکے جزو بنا دیے جائیں؛ یوں کہ وہ متعدد مضامین نظر آئیں، تاکہ طوالتِ تحریر قاری کیلئے باعثِ ثقل نہ ہو۔ ایقاظ ایک ’مجلس‘ ہے جو پورے تین ماہ بعد منعقد ہوتی ہے اور وہ فاصلہ جو ’اداریوں‘ کی صورت میں ہمیں قارئین کے ساتھ طے کرنا ہے، ہماری نگاہ میں ابھی خاصا باقی ہے! لہٰذا مضمون کا حجم کم کر دینا تو قابل عمل نظر نہیں آتا البتہ مذکورہ تجویز پر عمل کرتے ہوئے اِس بار اداریہ کو ’فصول‘ کی صورت دیدی گئی ہے۔ دیکھتے ہیں اس پر ہمیں کیا تاثرات ملتے ہیں!
|
|
|
|
|
|