عارف اور صارف
شاہ نواز فاروقی
اسلام انسان کو ”عارف“ بنانا چاہتا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام انسان کو ”صارف“ بنانا چاہتا ہے۔ عارف اور صارف کا فرق زمین اور آسمان کے فرق سے بڑا فرق ہے۔ لیکن اسلام کا عارف ”عارف ِ محض“ نہیں ہے۔ وہ عارف ِباللہ ہے۔ اپنے رب کا عارف ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا ”صارف“ بھی صارف ِ محض نہیں۔ وہ ”اشیاءکا صارف“ ہے۔ تو اب صورت یہ ہے کہ ایک طرف خدا کا عرفان ہے اور دوسری طرف ”اشیاء“ کا عرفان۔
اسلام کے دائرے میں خدا کا عرفان ”ترک“ سے نمودار ہوتا ہے اور سرمایہ داری کا عرفان ”صَرف“ سے بھی پیدا ہوتا ہے اور ”سرف“ سے بھی۔ انسان ایک کے بعد دوسری شے استعمال کرتا جاتا ہے اور اشیاءکے عرفان میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ صَرف اسراف میں ڈھلتا ہے تو اشیاءکے عرفان کی اعلیٰ ترین صورتیں میسر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اسراف بھی اسراف ِ”بے جا“ میں ڈھل جاتا ہے اور اسراف ِ بے جا کے بارے میں یونہی تو نہیں کہا گیا کہ اس کے مرتکب شیاطین کے بھائی ہیں۔
ترک کی نفسیات خود کو خالی کرنے کی نفسیات ہے‘ دل کو خالی کرنے کی نفسیات‘ ذہن کو خالی کرنے کی نفسیات‘ گھر کو خالی کرنے کی نفسیات‘ اشیاءسے خالی کرنے کی نفسیات‘ اور اس سے بڑھ کر اشیاءکی محبت سے خالی کرنے کی نفسیات۔ شے موجود ہو اور اس کی محبت موجود نہ ہو تو اس کا ضرر صفر ہوجاتا ہے‘ لیکن شے موجود نہ بھی ہو مگر اس کی محبت موجود ہو تو دل اور دماغ اس محبت سے بھر ہی نہیں جاتے ”اَٹ“ جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی نفسیات دل و دماغ اور گھر کو اشیاءسے بھر لینے کی نفسیات ہے۔ صرف اشیاءسے نہیں‘ اشیاءکی محبت سے بھی۔ بلکہ اشیاءسے کم‘ ان کی محبت سے زیادہ۔
اشیاءکی محبت انسانی تاریخ میں کب موجود نہیں رہی! لیکن سرمایہ داری نے لالچ اور حرص کی ایسی نظام بندی یا Systamatization کی ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انسانوں کی بڑی تعداد اب اشیاءضرورت کے تحت نہیں‘ حرص اور لالچ کے زیراثر خریدتی ہے‘ اس کو عرف ِعام میں Motivation یا تحرّک کہا جاتا ہے۔ لیکن کس چیز کا تحرک؟ اخبارات‘ ریڈیو اور ٹی وی کے اشتہارات کا تحرک۔ ان اشتہارات کا تحرک جن میں تعیش کو ضرورت بنادیا جاتا ہے۔ اشتہارات کا مقصد انسانوں میں بھیڑ چال پیدا کرنا ہوتا ہے‘ یعنی چند انسان اشتہارات میں جو کچھ کرتے نظر آئیں سب لوگ وہی کرنے لگیں اور ہر ضبط ٹوٹ جائے۔ اشتہاریات کے حوالے سے اس نکتے کو کم کم سمجھا گیا ہے کہ اشتہارات کو دوہرانے کا مقصد صرف اشتہاری پیغام کو دوہرانا نہیں بلکہ اس کا مقصد لوگوں کو اشتہاری کرداروں کی ”نقل“ پر اکسانا بھی ہے۔ اشتہارات جتنی بار دوہرائے جائیں گے نقل کے امکانات میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ یہ اشیاءکے عرفان کا ایک نادر پہلو ہے۔
ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ بستیوں کی بہترین جگہیں مساجد اور بدترین مقامات بازار ہیں۔ اسلام میں تجارت کی مذمت نہیں حوصلہ افزائی ہے۔ ایماندار تاجروں کے درجے آخرت میں بلند ہوں گے۔ لیکن بہرحال بازار دنیا کی جلوہ گاہ ہیں‘ ان کا الف بھی دنیا ہے اور یے بھی دنیا ہے۔ دنیا کی ضرورت انسان کو بازار میں لے جاتی ہے۔ مگر انسان بازار میں جاکر دنیا کی ضرورتوں میں کھو جاتا ہے۔ وہ اپنی ایک دو ضروریات پوری کرنے کے لیے بازار جاتا ہے لیکن بازار میں اشیاءکی فراوانی اسے احساس دلاتی ہے کہ دنیا کی ضروریات تو بے شمار ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ عملاً اس کی ضروریات بڑھیں یا نہ بڑھیں‘ نفسیاتی طور پر اس کی ضروریات میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ضروریات ایک بار انسان کی نفسیات میں در آئیں تو پھر وہ بالآخر گھر میں در آتی ہیں۔ اس طرح انسان کا گھر بازار کی توسیع بن کر رہ جاتا ہے۔ حالانکہ گھر اور بازار میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گھر جائے قیام ہے اور بازار صرف ایک نظر دیکھنے کی جگہ۔
آج کل کے بازار تو اور بھی قیامت ہیں۔ ان کی دل کشی ایسی ہے کہ ہمارا بس چلے تو بازار میں رہنے لگیں‘ اسی کو گھر بنالیں۔ کبھی بازار محض خریدوفروخت کی جگہ تھے‘ مگر اب وہاں کیا نہیں ہوتا! کھیل تماشے تو بازاروں میں پہلے بھی ہوتے تھے مگر اب تو بازار میں جیسے پوری کائنات سمٹ آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر اور بازار کا فرق ہمارے شعور میں رجسٹر ہی نہیں ہوپاتا۔
مسجد بازار کی ضد ہے‘ اس کا تضاد ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے‘ اس کی یاد کا محور ہے۔ فرشتوں کے نزول کی جگہ ہے‘ حسنات کے اٹھائے جانے کا مقام ہے‘ برکت اور سکینت کا سرچشمہ ہے‘ وہ جگہ ہے جہاں دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مسجد دنیا کے درمیان ہوکر بھی دنیا سے الگ ہوتی ہے۔ دین اور دنیا کی تفریق کے معنوں میں نہیں‘ دنیا کے مقابلے پر اپنے امتیازی اوصاف کے معنوں میں۔
ایک وقت تھا کہ ہمارے گھر مسجدوں کی توسیع ہوا کرتے تھے۔ معنوی سطح پر بھی اور نقشے کی سطح پر بھی۔ آپ ملک کے دیہی علاقوں میں جائیں گے تو وہاں آج بھی آپ کو مسجد کے مخصوص نقشے کی طرز پر بنے ہوئے مکانات نظر آجائیں گے۔ ان کا دالان مسجد کے دالان یا صحن کی طرح کشادہ‘ روشن اور ہوادار ہوگا۔ صحن کے ساتھ ایک کمرہ نما سدیری ہوگی اور اس کے بعد اصل کمرہ۔ یہ مسجد کا اصولی یا معروف معنوں میں کلاسیکل نقشہ ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی ہمارا شعور گھر کو بھی مسجد بنانے کے لیے کوشاں رہتا تھا۔ جب ہمارے گھر مسجد کی طرز پر بنتے تھے تو ان کا ماحول بھی مسجد کے ماحول سے کچھ نہ کچھ ہم آہنگ ہوتا تھا‘ اس لیے کہ یہ کسی نہ کسی درجے میں عارفوں کے گھر ہوتے تھے۔ مگر اب ہمارے گھر صارفوں کے گھر ہیں۔ نہ ان کا نقشہ مسجد کے نقشے سے ملتا ہے نہ ان کا ماحول۔ ہمارے گھروں میں شاپنگ سینٹرز کی فضا پیدا ہوچکی ہے۔
(بشکریہ روزنامہ جسارت۔ شاہ نواز فاروقی)