عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2009-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
’عقلی توجیہ‘ کو پیش آنے والے فریب
:عنوان

ضرورت اس بات کی ہے ہم اس بات کا ادراک کر لیں کہ جدید ذہن کو ہر وہ چیز دینا ضروری نہیں ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔ بلکہ ہمیں پہلے اس ذہن کو سمجھ کر اس کو صحیح رخ پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

عقلی توجیہ‘ کو پیش آنے والے فریب

ابوزید 

ہر چیز ہی اپنی حد سے بڑھ جائے تو معیوب ہو جاتی ہے۔ شرعی امور کی ’عقلی توجیہ‘ وقت کا ایک ’فیشن‘ تو تھا ہی، مگر اِس سے بڑی مصیبت یہ رہی کہ ’عقلی توجیہ‘ کو ’سائنسی توجیہ‘ میں محصور کر دیا گیا۔ رہی سہی کسر پھر اُن لوگوں نے پوری کی جنہوں نے ’سائنس‘ کو ’طبعی علوم‘ میں قید جانا۔ تب ’عقلی توجیہ‘ سے بہت سے اسلامی حقائق کی شامت آ گئی یہاں تک کہ روز مرہ عبادات بھی ایک مضحکہ خیز قسم کی تفسیر سے محفوظ نہ رہ سکیں۔ ابوزید کا یہ مضمون ہمارے یہاں پائے جانے والے اِسی خلجان کو موضوعِ بحث لاتا ہے۔

 

 

شریعت اور عقل کا مسئلہ امّت کی تاریخ میں بڑی دیر سے باعث نزاع رہا ہے۔ اس مسئلے میں ایک انتہا یہ رہی ہے کی کہ شرعی احکامات میں کسی حکمت کا قطعاً کوئی عمل دخل نہیں ہے اوریہ صرف ایک اضافی چیز ہے۔جبکہ دوسرا طبقہ اس نظریہ کا حامل ہے کہ شریعت کا ہر ہر حکم واضح طور پر انسان کی جسمانی اور نفسیاتی فطرت اور اس کی عقل سے نہ صرف مطابقت رکھتا ہے بلکہ ایسا ثابت کر کے بھی دکھایا جاسکتا ہے۔ جبکہ ہم اہل علم کو بھی عمومی طور پر یہی کہتا ہوا پاتے ہیں کہ شرعی احکامات صرف آزمائش کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ اس پر عمل کرنے میں دنیاوی اعتبار سے بھی بہت بڑی خیر موجود ہے۔ تو پھر اِس موضوع پر میانہ روی‘ کا منہج ہے کیا؟

موجودہ دور ایک اعتبار سے ذہنی آزادی کا دور ہے اور اطلاعات اور مواصلات کے ذرائع کی ارزانی و فراوانی کی وجہ سے یہ ذہنی آزادی ایک طرح قابو سے باہر ہے۔حق تو یہ ہے کہ ایک بار کسی شخص نے محمد ﷺ کو اللہ کا رسول مان لیا تو پھر اس کے لئے اسلام کے ہر ہر منصوص حکم کو بلا عقلی دلیل کے تسلیم کرتے چلے جانا لازمی ہے اور عین تقاضائے ایمان ۔ لیکن دعوت کے سلسلے میں ایک چیلنج اس وقت نبی ﷺ کی نبوت کو ثابت کرنا بھی ہے۔ نبوت کو ثابت کرنے کے لئے ایک طریقۂ کا ریہ اختیار کیا گیا ہے کہ شریعت کو عین انسانی فطرت اور عقل کے مطابق ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ بہ الفاظ دیگر یہ ثابت کردیا جائے کہ اسلام اور موجودہ دور کی سائنسی دریافتوں میں کمال کی مطابقت پائی جاتی ہے۔امّت کے کچھ قابل قدر مبلغین نے قرآن کے بیان کردہ کائناتی حقائق اورجدید سائنسی دریافتوں کے درمیان مطابقت ثابت کرنے کی کافی حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ اصولی طور یہ بات غلط بھی نہیں ہے۔ اگرچہ سائنس قرآن کا اصل موضوع نہیں ہے لیکن جب خالق کائنات کے بیان میں کوئی چیز ضمناً ہی آ جائے تو وہ مطلق حق ہے جس میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی۔البتہ اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔ یہاں پرہمارا مقصود ان کوششوں کو دیکھنا ہے جن میں شریعت کے احکامات کو انسانی عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دکھایا گیا ہے؛ جن کے اندر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ شرعی احکامات پر عمل کرنے سے دنیاوی زندگی میں انسان کو کیا کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام ذہنی عمل کے معاملے میں - مخصوص حدود کے اندر رہتے ہوئے - انسانی آزادی کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ غور و فکر کر کے اسلام کو شعوری طور پر قبول کریں۔ نیز یہی چیز ایک غیر مسلم کے اسلام کو قبول کرنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔ اسلام شعوری طور پر قبول کرنے میں اور اسلام ورثے میں پانے میں بڑا فرق ہے۔

اس سلسلے میں اس سے بھی بڑی پیچیدگی ایک اور ہے جو کہ دراصل اس وقت ہمارا موضوع ہے۔اس طرزِ تحقیق میں یہ مان کر چلا جاتا ہے کہ گویا پورا کا پورا انسانی فہم بس حیاتیات ، علم طب، علم کیمیا یا فزکس تک محصور ہے، بلکہ یہ کہ پوری حقیقت ہی انسانی فہم و تحقیق کے اِن میدانوں کے اندر محصور ہے لہٰذا ’نماز‘ کے فوائد بھی ہوں تو ان کی تلاش یا تو حیاتیات کے علم کے معیار پر ہو، یا کیمیا یا فیزکس یا ایسے ہی کسی اور میدان کے اندر! وہ چیزیں جوعبادات اور مناسک سے متعلق ہیں ان کی تحقیق کے لئے بھی نظریں انہی علوم کی طرف اٹھتی ہیں اور جو اس سلسلے میں اطمینان قلب کے حصول کا طالب ہے وہ بھی یہی سمجھتا ہے کہ اس سلسلے میں اطمینان قلب کے لئے اس کو طبی طور پر ثابت ہونا ضروری ہے! آئے روز اس طرح کے مضامین نظروں سے گذرتے رہتے ہیں کہ نماز، روزہ، وضو وغیرہ سے کیا کیا طبی فائدے حاصل ہوتے ہیں۔قطع نظر اس سے کہ یہ تحقیق کتنی صحیح ہے اس طرح کی تحقیق میں بعض اوقات بڑی پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں یہاں پر دی جا رہی ہیں۔

انٹرنٹ سے ایس ایم ایس تک ایسے چرچے سنے جائیں گے کہ مثلاً اسلامی طریقے پر ذبح کرنے سے جانور کا گوشت خون سے بالکل پاک اور صحت کے لئے انتہائی مفید ہوتاہے، جس میں بین السطور کہا گیا ہوتا ہے کہ: ’تو پھر اب تو ’طب‘ نے بھی ثابت کر دیا کہ اسلام برحق ہے‘! ہمارے خیال میں یہ دعویٰ کہ اسلامی طریقے پر ذبح کرنے سے جانور کا گوشت خون سے بالکل پاک اور صحت کے لئے انتہائی مفید ہوتاہے اگر چہ نہایت قرین صواب ہے لیکن اس کے ساتھ کچھ سوالات ضرور پیدا ہوتے ہیں جس کا خالص طبی یا حیاتیاتی جواب ممکن نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص ذبح کرنے کے لئے پوری کی پوری ’ٹیکنیک‘ اسلامی اختیار کرے لیکن اللہ کے نام کے بغیر کسی اور نام پر ذبح کرے تو پھر وہ گوشت کیوں حرام ہوجاتاہے؟! اگر ’فیصلہ‘ علمِ طب سے اور طبی معیاروں پر لیا جانا ہے تو غیر اللہ کے نام پر ’ذبح‘ کئے جانے والے جانور کے حرام ہونے کی کچھ ’طبی‘ وجوہات کا بھی تو ذکر ہو!

اس کی ایک مثال وضو کے ’طبی فوائد‘ بیان کرنے سے بھی دی جا سکتی ہے۔ اگر صحیح طریقے پر وضو کرنے کے طبی فوائد‘ ہیں تو پھر ہر نماز کے لئے علیحدہ وضو کرنا کیوں ضروری ہے؟ یہ کیوں ہے کہ بیت الخلاءجاکر آنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے؟ ایسا کیا ہے کہ جوطبی فائدہ موجود تھا وہ بیت الخلاءہوکر آنے سے یا ہوا کے خارج ہو جانے سے ایک دم مفقود ہو گیا؟

یہ پورا مسئلہ اس لئے کھڑا ہوا ہے کہ کسی چیز کی ’عقلی توجیہ‘ کا مطلب ہی غلط سمجھ لیا گیا ہے۔ چونکہ موجودہ دور میں عقلی توجیہات کا علم ایجاد ہی اس لئے کیا گیا ہے کہ مغرب سے درآمد شدہ تنقید کا سامنا کیا جائے اس لئے اس طریقۂ تحقیق میں بھی وہی کمزوریاں درآئی ہیں جو مغربی طرز تنقید میں موجودہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عبادات اور مناسک میں صرف طبی توجیہات کی جستجو کرنا انتہا درجے کی کم نظری اور سطحیت ہے۔کیا واقعی کسی چیز کی عقلی تائید کے لئے صرف علم طب میں اس کے فوائد ڈھونڈنا ایک صحیح معیار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ سطحیت مغرب سے برآمد ہر چیز کی خاصیت ہے۔ چاہے وہ جمہوریت ہو، آزادی رائے ہو یا نظامِ سرمایہ داری۔ (1)

کچھ اسی طرح کی غلطی اسلام کے ابتدائی دور میں - علمائے سلف کی تنبیہات کے علی الرغم - اُن مسلمانوں سے ہوئی تھی جنہوں نے یونانی علوم کا عربی میں ترجمہ کر کر کے یورپ سے درآمد کر کے مسلم دنیا میں پھیلایا۔ ان علوم میں ایک طرف علم طبعیات، حیاتیات اور علم ریاضی کو برآمد کیا گیا تو دوسری طرف اِلٰہیات بھی اس کے ساتھ ساتھ آگیا، جس کا ’اسلامی ورژن‘ بالآخر ’علم الکلام‘ کہلایا۔ اُن مسلمانوں سے جو سلف صالحین کے اصولوں کو نظرانداز کر بیٹھے تھے، اس وقت بھی وہی غلطی ہوئی جو اب ہو رہی ہے۔ البتہ اُس قت محققین کا ہدف چونکہ اسلامی ایمانیات اور اللہ کی صفات کا تھا اسلئے معاملہ زیادہ سنگین تھا۔

ایک قسم کا علم وہ ہوتا ہے جس کی تحقیق تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ممکن ہو اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس میں اصل حصہ ظن و تخمین کا ہی ہوتا ہے۔ان دونوں قسم کے علوم میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں عقل اور نقل کے سلسلے میں ایک معرکہ برپاہو گیا۔ نتیجتاً مسلمانوں میں معتزلہ کا فرقہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے علمائے اہل سنّت کو طرح طرح کی ابتلاءو آزمائش سے گزرنا پڑا۔

یہاں پر یہ بات واضح رہے کہ موجودہ دور میں سائنس کا لفظ تقریبا ً تحقیق یا علم کے ہم معنی ہے۔یہاں تک کہ انگریزی کے اسلامی لٹریچر میں جرح و تعدیل اور اسماءالرجال کے علم کو بھی سائنس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔چونکہ مغرب میں یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ لی گئی تھی کہ علمی تحقیق میں ہرچیز کا مطالعہ مشاہدات اور تجربات سے کرنا قطعاً ناممکن ہے اسی بنا پر سائنس کو دو انواع میں منقسم کیا گیا ہے:

1۔ طبعی سائنس (Natural science): اس سے مراد فطرت کے ان حقائق کا علم حاصل کرنا ہے جس کی تحقیق مشاہدات اور تجربات سے کی جاسکتی ہے۔اس سائنس کا تعلق ان فطری قواعد اور کلیوں سے ہے جس کے تحت مادہ (Matter)اور قوت (Energy) تعامل کرتے ہیں۔اس زمرے کے تحت طبعیات (Physics)، کیمیا(Chemistry) حیاتیات (Biology) وغیرہ آتے ہیں۔

2۔سماجی سائنس (Social science): اس سے مراد علم و تحقیق کا وہ میدان ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی مزاج اور برتاؤ اور اُس سے منتج صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تحقیقات میں ظن و تخمین اور قیاسات کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔یہاں پر اگر آپ تجربات کرنا چاہیں تو کئی نسلوں کے بعد مشکل سے کوئی نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے۔ ان علوم میں علم نفسیات(Psychology)، عمرانیات (Sociology) ، معاشیات (Economy) علم بشریات (Anthropology) وغیرہ آتے ہیں ۔

اب ظاہر ہے کہ سائنسی تحقیق کو ان دو حصوں میں تقسیم کرنے کا مقصد یہی تو ہے کہ سماجی سائنس کے معاملے میں دو اور دو چار طرح کے اصول وضع کرنا ناممکن ہے۔ یہ علوم ایک طرح سے سائنس میں استثناءکی حیثیت رکھتے ہیں۔اور یہ علوم ہیں بھی درحقیقت استثناءکے لئے۔ ان علوم میں جو بھی اصول وضع کئے جائیں گے اس کی حیثیت بہرحال تجرباتی ہوگی۔ دراصل یہ علوم انسان کی کم علمی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ انسانی فطرت انتہائی پیچیدہ ہے اور اس پیچیدہ فطرت کے انسان کیلئے خوداپنی فطرت کا مکمل ادراک کرنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ موجودہ دور کی نسبت سے آپ یہ کہہ سکتے ہیں اس دنیا میں سرمایہ داری کا جو تجربہ کیا گیا تھا اب جا کر اس کا کچھ کچھ نتیجہ معلوم پڑ رہا ہے اور وہ بھی بالکل واضح نہیں ہے۔جو اس تجربے کو غلط کہہ رہے ہیں وہ بھی اس میں اصل غلطی کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہیں اور آ جا کر اس وحی کی حامل امت بچی جو اس سلسلے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہے لیکن یہ امت بھی اگر سنانے سے زیادہ سننے لگ گئی ہو اور سننے بھی وحی کو نہیں (الذین یستمعون القول فیتبعون اَحسنہ) بلکہ وحی سے جاہل قوموں کو، تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے؟ ہاں سنانے والے ہیں مگر سننے والوں نے اگر کانوں میں انگلیاں ٹھونس رکھی ہوں تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔

شریعت میں جو اسلامی احکام دیے جاتے ہیں وہ ظاہ رہے کہ انسانوں کے لئے ہی دیے جاتے ہیں اور انسان کوئی مشین یا بے جان چیز تو نہیں۔ جب کسی شرعی احکام کی حکمت معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان صرف گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک روحانی مخلوق بھی ہے اور نفسیاتی لحاظ سے دنیا کی پیچیدہ ترین ہستی بھی۔

ان محققین کے سلسلے میں یہ ایک عجیب معمہ ہے کہ مغرب جس کو مطمئن کرنے کے لئے یہ سب تحقیق کی جاتی ہے وہ تو ہار مان کر سماجی سائنس (social science) کو کب کا منظوری دے چکا ہے بلکہ اس کا داعی بن چکا ہے اور ہمارے مسلمان محققین ابھی تک شرعی احکامات کی تشریح طبعی سائنس(Natural science) میں تلاش کر تے پھر رہے ہیں!!!

اسلام میں شرعی احکامات کے کئی مقاصد ہیں جن کا مکمل احاطہ کرنا عقلِ انسانی کے دائرہ سے باہر ہے۔اسلام صرف ایک عقیدہ و نظریہ ہی نہیں ہے جس سے صرف انفرادی عمل یا اصلاح مقصود ہو۔اسلام کا مقصدصرف ایک انسان یا کئی انسانوں کو مسلمان بنانا ہی نہیں ہے۔ بلکہ ایک امّت بنانا بھی اسلام کا ایک اہم مشن ہے۔جن معنوں ہم مسلمانوں کو ایک امّت قرار دے رہے ہیں وہ موجودہ دور کی کسی بھی اصطلاح پر بھاری ہے۔ اسلام ایک ایسی امت بنانا چاہتا ہے بلکہ بنا چکا ہے جس کا ہر اعتبارسے اپنا ایک نظریہ ہو، جو ایک قوم تو ہو لیکن اپنی مقامی تاریخ اور جغرافیائی قید سے آزاد ہو، جس کے اپنے مربوط اور منضبط اصول اور اقدار امت کے ہر اجتماعی اور انفرادی پہلوؤں کا احاطہ کئے ہوئے ہوں۔اس لئے حق یہ ہے کہ اسلام بحیثیت امت کے لئے تمدن (civilization) کا لفظ بھی ہلکا پڑجاتا ہے۔ یہ بھی ایک بڑی حقیقت کہ اسلام کا ایک تمدن کے طور پر بعثت محمدی ﷺ سے لے کر آج تک ایک تسلسل کے ساتھ ہونا کسی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ اگرچہ اسلام جزوی طور پر مقامی روایات پر عمل کرنے کے معاملے میں کافی لچک رکھتا ہے لیکن یہ ایک قطعی الگ بحث ہے اور اس سے اسلام کے ایک مربوط،منظم، مسلسل ، دائمی اور عالمی تمدن ہونے پر کوئی حرف نہیں آتا۔

یہ تفصیل اسلئے بیان کی گئی ہے تا کہ شرعی احکامات کو عقلی توجیہ کرتے ہوئے یہ بات بھی پیش نظر ہو کہ اسلام کو ایک امت بمعنی ایک دائمی تمدن کے بنانے میں انکا کیا رول رہا ہے۔

اگرچہ شرعی احکامات کی حکمت معلوم کرنا سماجی سائنس کے ذیل میں ہی آتا ہے لیکن اس میں ہمیں دوسرے سماجی سائنس کے مقابلہ میں ایک سہولت حاصل ہے۔ کوئی ڈیڑھ ہزار سال سے جغرافیائی حدود سے آزاد اسلامی تمدن کا وجود تاریخ کی ایک روشن ترین حقیقت ہے ۔ اس تمدن کا وجود کوئی مفروضہ، منصوبہ یا نظریہ نہیں ہے ، بلکہ حال کے ساتھ ساتھ یہ اپنی ایک تاریخ بھی رکھتی ہے۔ یہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ ہمیں شریعت کی حکمتوں کو سمجھنے میں بہت کچھ معاون ہوسکتی ہے۔ اس لئے اس امت بمعنی تمدن کی تشکیل اور بنیادیں استور کرنے میں شرعی احکامات کا کیا رول رہا ہے اب اس کی تحقیق دوسرے سماجی علوم کے مقابلے میں قدرے آسان ہے۔ ہا ں یہ ضرور ہے کہ ان احکامات کے اثرات کا ہم اتنا ہی ادراک کرسکتے ہیں جتنی کہ ہمارے ذہن کی پرواز ہے۔

معاشرے میں جو بھی عبادت عملاً نافذ ہوگی اس کا طویل المیعاد اثر(Long term implication) اس تمدن پر ہوگا جس کا ادراک صرف اس شرعی مسئلے کے سطحی سائنسی مطالعے سے نہیں ہوسکتا۔جب ایک حکم نافذ ہوتا ہے اس کی کئی سماجی، نفسیاتی اور روحانی جہتیں ہوتی ہیں جن کا مکمل ادراک انسان کے لئے تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ اس لئے اسلام کے ہر ہر احکام کی معنویت کو پوری طرح سمجھنے کے لئے اس کے اثرات کو بہت گہرائیوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔کیا جب کوئی حکم دیا جاتا ہے تو بات صرف اس حکم پر عمل کرنے تک رہتی ہے؟ اس خدائی حکم پر عمل کرنے کی عملی تدبیر بہرحال اس عمل کرنے والے خاکی انسان کو ہی طے کرنا پڑتی ہے۔ پھر جب معاشرے کا ایک بڑا عنصر اس پر عمل کرتا ہے تو یہ معاشرتی قدروں کی شکل ڈھال لیتا ہے۔ پھر اس پر عمل کرنے کے انسانی ذہن اور معاشرے میں کثیر الجہت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔یہ عمل جب معاشرے میں وجود پاتا ہے تو آپ سے آپ اپنے کچھ لوازمات بھی پیدا کرتا ہے جو کہ تمدن کے ہر ہر پہلو پر کسی نہ کسی طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اپنی اس بات کو ہم کچھ مثالوں سے سمجھاتے ہیں۔ وضو کی حکمت معلوم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ آپ یہ پتہ کریں کہ روزانہ پانچ بار جسم کچھ اعضاءپر پانی بہانے سے انسانی صحت اور نشونما پر کیا اثر پڑ تا ہے۔ اب ظاہر بات ہے کہ ایسا کوئی فائدہ اگر ثابت بھی کیا جائے تو وہ کتنا محدود ہوتا ہے اور اس پر کیا اعتراضات ہوسکتے ہیں۔ اب اسی وضو کے حکم کوذرا دوسرے زاوئیے سے دیکھا جائے:

ایک شخص اپنے رب کے حضور حاضر ہو رہا ہے۔وہ بے دھڑک مسجد میں جاکر نماز کے لئے کھڑا نہیں ہو رہا ہے۔ بلکہ پہلے تمام حاجتوں سے فارغ ہو کرذہنی یک سوئی حاصل کرتاہے۔ اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہو نے میں اس کو روزانہ کئی باراپنے آپ کو انتہائی احتیاط سے نجاست سے بچانے کی ضرورت پڑتی ہے جس کو وہ صرف اللہ کے لئے کرتا ہے لطف کی بات یہ ہے کہ مومن کا حالت طہارت میں ہونے کا راز وہ اور اُس کا خدا جانتا ہے جو بندگی کی اعلیٰ ترین کیفیت ہے۔وضو کا عمل بھی صرف اس بات سے عبارت نہیں ہے کہ بدن کو گیلا کرنا ہے، نماز کی ادائیگی کے لئے مومن اپنے آپ کو پاک کرنے کی نیت سے کچھ اعضاءپر مخصوص انداز میں پانی بہاتا ہے۔ اس پانی کے بہانے میں اس بات کا خاص خیال کرتا ہے کہ کوئی بھی حصہ جس کو ترکرنا ضروری ہے وہ خشک نہ رہنے پائے۔ اس معاملے میں اس کو چوری کرنے کے کئی مواقع ملتے ہیں جس کو صرف اللہ کے خوف کی وجہ سے نظر انداز کر دیتا ہے۔پھر جب وضوءاور نماز کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے تو اس میں ایسے کسی بھی عمل سے اپنے کوآپ کو بچاتا ہے جس میں وضو ٹوٹ جائے۔ اس وضو کے ناقص ہونے اور نہ ہونے میں بھی صرف اللہ رب العزت اس کا رازدار ہو تا ہے۔یہ وضو کا عمل ہی ہے جس سے مسلمانوں میں پاکی اور صفائی کی نہایت اعلیٰ قدریں کتنی گہرائی سے پائی جاتی ہیں۔ مسلمان اگر نماز کا پابند ہو تو وہ اپنے آپ کو نجاستوں اور آلائشوں سے پاک رکھنے کا کتنا اہتمام کرتا ہے۔ اس کے مقابلے میں آپ مغربی تہذیب کی طرف نظر کریں ،یہاں پر ناپاکی کا مطلب ہی ایسا کوئی داغ ہے جو ’نظر‘ آتا ہو یا ایسی بدبو ہے جو ’محسوس‘ کی جاتی ہو۔ باقی کوئی بھی چیز جو اندر ہی اندر ہووہ ’پاکی‘ ہی تصور کی جاتی ہے۔ان کے یہاں کسی انسان کا جھوٹا تو ناپاک سمجھا جاتا ہے لیکن انسان کی غلاظت بلکہ کتے کی غلاظت بھی پاک ہی ہے جب تک کہ وہ کسی ’معیوب‘ صورت میں سامنے نہ آئے!

اس مستقل عمل سے انسان کے اندر پاکی کا اورناپاکی کا ایک تصور منقش ہو جاتا ہے۔ یہ ناپاکی اور پاکی کا تصور چونکہ ایک مقدس اور مقتدر ہستی کی عبادت سے جڑا ہوا ہے اس لئے انسان کی فطرت کے اندر جو تقدس کے معنی ودیعت ہیں ان کو جلا بخشتا ہے۔ اور جب نسلوں کی نسلیں اس عمل سے گذرتی ہیں تو اندازہ لگائیے کہ تقدس کا یہ احساس اس امّت کے اندر کس قدر مستحکم ہوجاتا ہے۔یہ عمل انسان کے اندر دین اور دین کے شعائر کا انتہائی احترام پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ دین کی کسی بھی علامت کو مذاق بنانا کبھی برداشت نہیں کرسکتا۔ اور چونکہ یہ عمل نماز پڑھنے کے لئے خصوصی طور پر کیا جاتا ہے اس لئے نماز اور نماز کے متعلقات کا بھی انتہائی احترام پیدا کردیتا ہے۔

اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے موجودہ دور کے مغربی تمدن کی طرف ایک نظر دوڑائیے، جب ان کے ہاں مذہب پر زوال آیا تو کیا کیا نہ کیا گیا؟ انہوں نے تو آزادی کا مطلب ہی یہ سمجھا کہ مذہنی شعائر کی توہین کی جائے اور اس کا مذاق اڑایا جائے۔اور اب جبکہ انہوں نے ادراک کرلیا کہ اسلام ہی ان کے لئے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے تو ان سب کی افتراءاور بد گوئیوں کا رخ اسلام کی طرف ہوگیا ہے جس کی وجہ سے عیسائیت نے یک گونہ راحت کی سانس لی ہے۔اس کے مقابلے میں دیکھیں کہ مسلمانوں پر بھی ایسا وقت گزرا ہے کہ ایک عام مسلمان اپنے دین کی عقلی توجیہہ کرنے سے قاصر رہا اس کے باوجود اس طرح کا وقت اسلام پر اپنے بد ترین دورِ زوال میں بھی نہیں گزرا۔

اسی طرح پنچ وقتہ نماز وں کے بارے میں غور کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ نماز کے اوقات کے ذریعے سے کس طرح سے مسلمانوں کی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو مربوط اور منضبط کیا گیا ہے۔رمضان کے روزوں کے بارے میں غور کریں تو پتہ چلے گا کہ ہر سال مخصوص انداز میں ایک بے ساختہ اور غیر محسوس طریقے سے جس طرح ایک دینی ماحول قائم کیا جاتا ہے اسی سے دراصل یہ امت آج تک امت چلی آرہی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ اگر ہر سال رمضان میں روزوں اور تراویح کی باد بہاری سے ہمارے ایمان کو تازگی بخشی نہ جاتی تو یہ روایتی مسلمان زوال کے اس دور میں کیا اپنی شناخت باقی رکھ سکتا تھا؟اگر ہر سال امت کے انفرادی اور اجتماعی انداز میں ایمان اور امت کے ساتھ وابستگی کے احساس کا احیاءنہ ہوتا تو پھر پتہ نہیں یہ امّت کیسے ہوتی۔یہ ایک ایسی عبادت ہے جونہ صرف اپنا ایک خاص بیرونی اثررکھتی ہے بلکہ ایک مؤمن کے اندر بھی اپنا ایک طاقتور وجود رکھتی ہے۔ اپنے عمل کرنے والے کو ایک ایسی آزمائش سے گذارتی ہے جس میں ۹۹ فیصد لوگ کامیاب بھی ہوتے ہیں اور اسکے روحانی اثرات سے فیضیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر یہی روزے پورے سال میں پھیلے ہوتے تو کیا یہ نتیجہ پیدا کرسکتے تھے؟ حقیقت یہ ہے مسلمانوں میں جب سے نماز کے معاملے میں غفلت آئی ہے یہ رمضان کے روزے ہی ہیں جس نے اس امّت کو ایک جٹ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ایک باطل نظام کے اندر رہتے ہوئے نماز کا اہتمام خصوصاً انتہائی مشکل کا م ہے اس لئے امت کی پہلے سرحد نماز پر تو بہت رخنے پڑگئے لیکن یہ رمضان کے روزے ہی ہیں جس نے امت کی حفاظت میں دوسری سرحد کا کردار اداکیا۔

حج کے بارے میں غور کریں کہ ایک عالمی امت جو کہ جغرافیائی اعتبار سے پھیلی ہوئی اگر اسکا عالمی مرکز نہ ہوتااور مسلمانوں میں اس مرکز کی طرف رجوع کرنے کا اتنا شدید داعیہ نہ ہوتا تو پھر یہ امّت کس طرح پراگندگی کا شکار ہوجاتی۔ڈیڑھ ہزار سال سے رمضان اور حج کے اہتمام کی وجہ سے اسلامی تمدن پر کیا کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ ہر سال رمضان کا آنا اور جانا ،روزے اور اسکا اہتمام اور اس کے لوازمات کے سماجی اثرات اور اسکو عالم اسلام میں بیک وقت منانا اپنے اعتبار سے کئی اثرات و جہتیں رکھتا ہے۔ آج اگر دنیاکے باطل نظام "عالم اسلام" کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں تو بھی یہ رمضان اور حج کی ہی وجہ سے ۔

یہ جتنی بھی عبادات ہیں وہ جب معاشرے میں پائی جائیں تو وہ اپنے حد تک نہیں رہتیں بلکہ اپنے کئی لوازمات خود بخود پیدا کرتی چلی جاتی ہیں جس کی وجہ سے دین ایک محسوس اور زوردار انداز میں معاشرے میں اپنا وجود منواتا ہے۔ اور اسی وجہ سے آج یہ امّت ناقابل تردید انداز میں ایک عالمی امّت کے طور پر اپنا وجود رکھتی ہے۔

شرعی احکامات کی حکمتوں کو معلوم کرنے کا رواج آج ہی شروع نہیں ہوا ہے بلکہ بہت پہلے سے علماءاسلام اس کی طرف متوجہ ہوئے تھے کہ اسلام اپنے مزاج کے اعتبار سے ایک شعور ی ایمان کی دعوت دیتا ہے۔علمائے متاخرین میں اس حوالے سے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒنے حجۃ اللہ البالغہ میں نہایت قابل قدر کام کیا ہے۔ مسئلہ تب پیدا ہو تا ہے جب ہر حکم کی توجیہ natural scienceکے ذریعے سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔جس کے نتیجے میں عجیب قسم کی توجیہات سامنے آتی ہیں جس کا نقص بعد میں ظاہر ہو تو پھر غیر ضروری مایوسی بھی ہوسکتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے ہم اس بات کا ادراک کر لیں کہ جدید ذہن کو ہر وہ چیز دینا ضروری نہیں ہے جس کا وہ مطالبہ کر رہا ہے۔ بلکہ ہمیں پہلے اس ذہن کو سمجھ کر اس کو صحیح رخ پر غور و فکر کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔

 

(1) مقصود مغرب کی تحقیق یا ذہانت کی نفی نہیں ہے بلکہ مرادیہ ہے کہ عموماً جب کسی چیز کی اہمیت معلوم کی جاتی ہے تو اس طرح کا انداز اختیار کیا جاتا ہے کہ بس یہی ہے اور باقی کوئی بھی چیز اہمیت نہیں رکھتی۔ مارکس نے انسانی اجتماعیت پر معاشی اثرات کا مطالعہ کیا تو یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہر چیز حتیٰ کہ مذہب بھی معاشی کشمکش اور تغیر کا نتیجہ ہے۔گویا کہ معیشت کے علاوہ انسانی سماج پر اثرانداز ہونے والا اور کوئی عنصر ہے ہی نہیں۔ یہی حشر فرائڈ نے انسانی طبیعت میں کارفرما ’جنسی ترغیبکے ساتھ کیا۔

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز