عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Sunday, November 24,2024 | 1446, جُمادى الأولى 21
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2009-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
ز: اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔
:عنوان

:کیٹیگری
ادارہ :مصنف

بہ سلسلۂ اداریہ: کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم

ز: اداریہ کی ابتدا میں مذکور مراسلہ کے حوالہ سے۔۔۔۔

حامد کمال الدین

   
جنوری کے اداریہ پر ہمیں جو کئی ایک تبصرے موصول ہوئے، اُن میں وارد اشکالات کے حوالہ سے ہم اپنی معروضات پیش کر چکے۔ ایک مراسلہ جو ہمیں خاصی تاخیر سے موصول ہوا، اور فائدہ کیلئے ہم نے اداریہ کی ابتدا میں وہ نقل بھی کر دیا ہے، اُسکے حوالہ سے بھی چند باتیں ہم یہاں کریں گے۔ معترض نے اپنی گفتگو کے پانچ بند بنائے ہیں، ہم ان میں سے ایک ایک پر مختصر بات کریں گے۔ مراسلہ نگار کی عبارت خطِ نسخ میں ہوگی:
اعتراض: 1- اس ضمن میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ عنوان الزامی ہے جس سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ جو صاحبِ مضمون کے نظریہ تکفیر سے متفق نہ ہو وہ ”مرجئہ“ ہے ۔
تاریخِ فِرَق میں ہر جدل کے اندر دو انتہاؤں کا پایا جانا، کہ جس میں اہل سنت ہمیشہ اہل وسط کی صورت میں سامنے آتے ہیں، تاریخِ افکار کا ایک معروف واقعہ ہے۔ اہل سنت کی وسطیت کو نمایاں کرنے کیلئے یہ سوال اٹھانا کہ ایسے کسی موضوع پر کسی ایک ’انتہا‘ کو کیونکر یہ حق ہے کہ وہ ”اہل وسط“ کا فیصلہ کرے اور اُس کو دوسری ’انتہا‘ کے ساتھ جا ملائے، ایک نہایت برمحل سوال ہے۔
یہ ایسا ہی ہے کہ کسی خرانٹ طبقے کی جانب سے کسی جگہ پر ’ناصبیت‘ کی بحث چھیڑ دی جائے، جیسا کہ کچھ شر پسند طائفوں کی جانب سے پچھلے دنوں ڈاکٹر ذاکر نائیک اور ڈاکٹر اسرار احمد کی کردار کشی کیلئے شوشہ چھوڑنے کی ایک کوشش ہوئی بھی ہے۔۔۔۔ تو ایسے میں اگر یہ سوال سامنے لایا جائے کہ ’کیا رافضی یا رافضیوں سے متاثر طبقے طے کریں گے کہ ناصبی کون ہیں؟‘، تو بتائیے اِس میں کیا قباحت ہے؟ ایسا سوال اٹھانے والا اگر اہلسنت اصول و شخصیات کے دفاع کیلئے اٹھا ہے تو اس کی بابت یہ تصور کرنا بھی ظاہر ہے درست نہ ہو گا کہ اُس کا مقصد’ ناصبیوں کا دفاع‘ ہے۔ ناصبیت سے اہل سنت کا بیر تو ایک معروف امر ہے، مگر جب ’ناصبیوں‘ پر بات کرنے کا حق ’رافضہ‘ کو مل جائے گا وہاں تو ’ناصبیت‘ کے نام پر گھونٹ اہلسنت ہی کے ایک بڑے طبقے کا بھرا جائے گا!
آپ ہمارا وہ پورا مضمون پڑھ جائیے، کیا ہماری گفتگو کا عین یہی سیاق نہیں؟
میڈیا اور بالخصوص عالمی ابلاغیاتی دھارے، ایک خاص انداز میں یہاں کے ان طبقوں کو گردن زدنی ٹھہرانے کیلئے نئے سے نئے پینترے اختیار کرنے جا رہے ہیں جو اُن کے ’اسٹیٹس کو‘ کو آج یا کسی بھی وقت چیلنج کرنے کیلئے اٹھیں گے۔ ان کی کوشش یہی ہے کہ یہاں کے مسلم معاشرے ہی اُن کے پراپیگنڈا میں آ کر ہر بار ایسے ’اسلامی خطرات‘ کو ختم کر دینے کی فرمائش کیا کریں اور پھر وہ ہمارے ’وسیع تر مفاد‘ میں کیل کانٹے سے لیس ہو کر ہماری ’مدد‘ کو پہنچیں! ’نمونے کے‘ ایک طبقہ کو وہ ہمارے سامنے لے کر آتے ہیں اور ’نمونے‘ کا حشر بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ عموماً، ہمارے سمجھ داروں کو اتنا ہی کھلتا ہے کہ ہمارے اُس طبقے کو مارتے ہوئے کیونکر وہ ہمارے عوامی حلقوں سے اِس پر داد پارہے ہوتے ہیں۔ مگر اِس جانب کو ہمارے بہت سے سمجھداروں کی بھی نظر نہیں جاتی کہ جس دوران دشمن ایک ’نمونے کے‘ طبقے کو مار مار کر ہمارے یہاں سے داد پارہا ہوتا ہے، اُس دوران کچھ مزید طبقوں کو جنہیں اگلے مرحلے میں مارا جائے گا، ’لائن اپ‘ کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ اُس کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اِسے بھانپ کر ان ’مزید طبقوں‘ سے وہ سب لوگ آپ سے آپ جھڑ جائیں جن کو یہاں ’جان پیاری‘ ہے۔ اس کے خاطر خواہ نتائج بھی یقینا دیکھے جا رہے ہیں۔ اِس مقصد کیلئے زیادہ نام تو وہ انہی طبقوں کا لیتا ہے جنہیں فی الوقت ’عبرت کا نشان‘ بنایا جانا درکار ہے۔ البتہ کچھ نام وہ بظاہر ’بے دھیانی‘ میں بھی قدرے تیزی کے ساتھ بول جاتا ہے، کہ جسے ضرورت ہو اُسے کان ہو جائیں۔ پس آپ دیکھتے ہیں اصل خطرہ تو یہاں ’دہشت گردی‘ ہے جس کی گردان وقت کا ’فرض شناس‘ میڈیا نہایت خوب جپتا ہے۔ البتہ کسی وقت زبان ’پھسل‘ کر ’بنیاد پرستی‘، ’انتہا پسندی‘، ’فکری تشدد‘، ’وہابیت‘، ’سلفیت‘، ’تکفیری‘، ’قطبی‘، ’سروری‘ اور نہ جانے کیا کیا کچھ بول جاتی ہے کہ یہ بھی عالم اسلام کے اندر ایک ’خطرہ‘ ضرورہیں! بظاہر ناظرین کی ’دلچسپی‘ اور ’تجسس‘ کو سامنے رکھ کر کبھی ’تکفیریوں‘ پر، کبھی ’سلفیوں‘ پر اور کبھی ’وہابیوں‘ پر گھنٹوں پر محیط ’ڈاکومنٹریز‘ دی جاتی ہیں! ’سید قطب‘ پر لمبے لمبے فیچر پروگرام پیش ہونا ضروری ہو گیا ہے! ’مودودی‘ کی تصویر پر کیمرہ آگے پیچھے کر کے یوں فوکس میں لایا جاتا ہے کہ ایسے ناموں کی لکھی ہوئی کتابیں کسی مغربی ملک کے بک سٹال سے اٹھاتے ہوئے آدمی کے ہاتھ ضرور کانپیں۔ ’محمد بن عبد الوہاب‘ اور ’ابن تیمیہ‘ ایسے موضوعات پر ’اینکر پرسنز‘ اپنے پروگرام کیلئے زیادہ سے زیادہ دلچسپ مہمان ڈھونڈتے ہیں اور بسا اوقات عالم اسلام سے بھی اُن کو کمال کے ’نگینے‘ ہاتھ لگتے ہیں جو مودودی، سید قطب، ابن عبد الوہاب اور ابن تیمیہ کے ڈانڈے فکرِ خوارج سے جوڑ کر آتے ہیں!
اور انٹرنٹ پر تو عالم اسلام میں پائے جانے والے اِن ’خطروں‘ کی بابت کیا کچھ نہیں ملتا؟!
دوسری جانب، یہاں پر وہ مذہبی طبقے سرگرم ہیں جو اِن ’خطرناک افکار کا بھرکس‘ نکالنے میں لگے ہیں اور اسلامی فکر کو اِن ’انتہاپسندانہ رجحانات‘ کے بوجھ سے ہلکا پھلکا کر دینے کے مشن پر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ گامزن ہیں اور یوں ایک ’تصویر‘ باہر اور اندر کی دانستہ و نادانستہ کوششوں سے مل کر روز بروز مکمل ہوتی جا رہی ہے!
اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ ’ادھر‘ کو بھی ہماری نظر اٹھ جایا کرے اور اِس ’تصویر‘ کو بھی ہم دیکھ سکیں، تو ہمارا خیال ہے ہمارے مضمون کا عنوان خاصا متعلقہ relevant ہو جاتا ہے۔
 اعتراض: دوسری بات یہ ہے کہ مرجئہ سے مراد کیا ہے ؟کیا جو علماءصاحبِ مضمون کے نظریہ تکفیر سے متفق نہ ہوں ، وہ مرجئہ کہلائیں گے ۔
یہ دوسری بات کب ہے یہ تو پہلی ہی بات ہے! اِس عنوان کے نیچے ہم نے کوئی مضمون نہ لکھا ہوتا پھر تو یہ سوال بنتا تھا۔ مگر کیا اتنی تفصیل دیے جانے کے بعد بھی؟!
اعتراض کے پہلے بند کی بقیہ باتوں کے حوالے سے براہِ کرم ہمارے حالیہ مضمون کا جزو ”و“ ملاحظہ فرما لیا جائے۔
اعتراض:2- مفتی اعظم سعودی عرب مفتی محمد بن ابراہیم کے حوالے سے صاحبِ مضمون نے اعتقادی کفر کی جو چھ قسمیں بیان کی ہیں ۔ ان میں پہلی چار تو اعتقادی کفر کی قسمیں بنتی ہیں جبکہ آخری دو اعتقادی سے زیادہ عملی کفر کی قسمیں ہیں ۔ اعتقادی کا لفظ عقیدہ سے بنا ہے اور عقیدہ فکر کا نام ہے اور کسی کی فکر کا علم اس کے زبانی اظہار ہی سے ہو سکتا ہے نہ کہ عمل سے ، خصوصاً جبکہ مخاطب اسلام کا دعویدار بھی ہو ۔۔۔۔۔
یہ ”چھ قسمیں“ صاحبِ مضمون نے نہیں خود مفتیِ اعظم ہی نے بیان کی ہیں!
فاضل معترض کو حوصلہ کر کے مفتیِ اعظم ہی کی اِس تقسیم پر معترض ہونا چاہیے تھا! ایسی ’موٹی غلطی‘ جو انہوں نے مفتیِ اعظم کی عبارت سے نکال کر ہمیں دے دی ہے، اُس کو ’صاحبِ مضمون‘ سے منسوب کر دینا نہ صرف یہ کہ قطعی طور پر انصاف کے خلاف ہے بلکہ ایسی ’سامنے کی غلطی‘ کو صاحبِ مضمون ایسے ناقابل ذکر شخص سے منسوب کردینا اِس اتنے بڑے ’انکشاف‘ کی اہمیت کو بھی کم کر دیتا ہے! مفتیِ اعظم کی عربی عبارت ہم نے ساتھ ہی تو دی ہے! واضح سی بات ہے یہ چھ قسمیں مفتی صاحب کی بیان کردہ ہیں اور اُنہی کی عبارت میں آئی ہیں۔ اب اگر یہ انکشاف کر کے کہ اعتقادی کا لفظ عقیدہ سے بنا ہے لہٰذا آخری دو قسمیں اِس صنف میں آ ہی نہیں سکتیں اتنی واضح غلطی کی نشان دہی کر دی گئی ہے تو اِس کو صاحبِ مضمون کی بجائے مفتی محمد بن ابراہیم کی غلطی نہ کہنے کی وجہ بھی تو معلوم ہو!
اردو عبارت کو سلیس اور قابل فہم رکھنے کیلئے، کسی وقت ہم عربی متن بھی ساتھ دے دیتے ہیں تاکہ جن لوگوں کو معانی کا کامل  ضبط درکار ہو، وہ اپنے مطلوب میں دقت نہ پائیں۔ چنانچہ جب ہم عربی متن ساتھ دے دیتے ہیں تو اس کا اردو مفہوم بیان کرتے ہوئے قدرے آزادی کے ساتھ کام لینے کی گنجائش پاتے ہیں، کیونکہ عند النزاع عربی متن کی جانب رجوع عین موقع پر ہی دستیاب ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ تو درست ہے کہ اپنی اردو عبارت کو زیادہ قابل فہم بنانے کیلئے ہم نے اُس کو ایک ذیلی سے عنوان کی صورت بھی دے دی، مگر مفتی صاحب کی عبارت کے ترجمہ میں کوئی جوہری تصرف بہرحال نہیں کیا۔ آپ ہی بتائیے جب مفتی صاحب کہیں: اَما ال اَول: وہو کفر ال اِعتقاد فہو اَنواع: (جہاں تک پہلی قسم کا تعلق ہے، اور وہ ہے کفرِ اعتقاد، تو وہ انواع ہیں:) { دیکھئے مذکورہ اداریہ کا صفحہ 48} اِس کے بعد مفتی صاحب کہیں: اَحدہا تو کیا اُس کا مطلب کفر اعتقادی کی پہلی نوع نہ ہوگا؟ اگلے پیرے میں کہیں: الثانی تو اس کا مطلب کفر اعتقادی کی دوسری نوع، اگلے پیرے میں کہیں: الثالث تو اُسکا مطلب کفر اعتقادی کی تیسری، پھر کہیں: الرابع تو اسکا مطلب چوتھی، الخامس پانچویں، اور السادس کا مطلب کفر اعتقادی کی چھٹی نوع نہ ہو گا؟؟؟ عربی اور اردو عبارت کو اکٹھا آمنے سامنے دیکھ لینے کے بعد بھی یہ کہنا کہ ’مفتی اعظم سعودی عرب مفتی محمد بن ابراہیم کے حوالے سے صاحبِ مضمون نے اعتقادی کفر کی جو چھ قسمیں بیان کی ہیں ۔ ان میں پہلی چار تو اعتقادی کفر کی قسمیں بنتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ‘ کیا واضح زیادتی نہیں؟
جہاں تک اِس استدراک کا تعلق ہے جو مفتی اعظم محمد بن ابراہیم کی عبارت پر فرمایا گیا، تو اس کی بنیاد فاضل معترض کے یہاں ’عام معصیت‘ اور ”تشریع ما لم ی اَذن بہ اللہ“ کے مابین فرق کا روپوش ہونا ہے۔ مضمون کی ضخامت کے پیش نظر اِس مسئلہ کی زیادہ تفصیل ہم یہاں نہیں کر پائیں گے۔
اعتراض: علاوہ ازیں اگر ہمارے قانون کے مصادر انگریزی قوانین ہیں تو ان قوانین کو بنانے والوں کی تکفیر تو جائز ٹھہرے ، یعنی پارلیمنٹ کی ۔ پھر اس پارلیمنٹ کو منتخب کرنے والے عوام کی تکفیر میں کیا مانع ہے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ قرآن و سنت کے بالمقابل باطل آئین اور انگریزی قوانین کے مطابق قانون سازی کرتی ہے۔
پارلیمنٹ کو منتخب کرنے کا کیا حکم ہے اور پارلیمنٹ میں جانے کا کیا حکم ہے، یہ ایک الگ موضوع ہے اور یقینا اِس میں تفصیل بھی ہے، البتہ یہاں یہ ہمارے زیر بحث نہیں۔ پارلیمنٹ میں جانے والے وہ اسلام پسند جو وہاں پر خلافِ اسلام قانون سازی کے ہر ہر موقع پر اس کے خلاف پوری اسلامی حمیت کے ساتھ آواز اٹھاتے ہیں، ہم تو اُن کا اور خلافِ اسلام قانون سازی کرنے والوں کا حکم ایک کر دینے کے قائل نہیں۔ بلکہ اِن دونوں کا حکم ایک کر دینے کو زیادتی بھی جانتے ہیں۔ پس اگر منتخب ہونے والوں کو متعدد اصناف میں تقسیم کیا جا سکتا ہے تو منتخب کرنے والوں میں بھی تعددِ اصناف کا ہونا قرین قیاس ہونا چاہیے۔ جب ایسا ہے تو ’شرعی حکم‘ متعین کرنے کے معاملہ میں سولہ کروڑ انسانوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا کیونکر ایک صائب طریق ہو سکتا ہے؟ ایسے استدلالات کرنا تو آج تک صرف مصر کی جماعۃ التکفیر ہی کے حصہ میں آ سکا ہے۔
اعتراض: اسی طرح اگر اس باطل دستور اور انگریزی قانون کو مصدر سمجھنے والی اور اس کے مطابق فیصلے کرنے والی عدالتوں اور ججوں کی تکفیر کی جانی چاہیے تو اس قانون کے مطابق فیصلے کروانے والے عوام الناس کی تکفیر ’تحاکم الی الطاغوت ‘ کے تحت جائزکیوں نہیں ہے ؟
فاضل معترض شاید اُس عمومی صورت ہی کا اعتبار کرتے ہیں جس میں ایک چیز کا دینا اور لینا ایک سا شرعی حکم رکھتا ہے۔ واقعتا عمومی حالات کے اعتبار سے ایسا ہی ہے۔ مثلاً فقہاءکے ہاں یہ ایک معروف بات ہے کہ جس چیز کا بیچنا ناجائز ہے اس کا خریدنا بھی ناجائز ہے اور اِس کا عکس بھی وہی حکم رکھتا ہے۔ شراب کے فروخت کنندہ اور خرید کنندہ ہر دو کا ایک ہی حکم ہے، کچھ فرق ہوگا تو ہردو کے فعل کی سنگینی میں ہو گا نہ کہ ہردو فعل کے حرام ٹھہرنے میں۔ اور یقینا یہ بات درست ہے۔ لیکن ہمارے قابل احترام بھائی عمومی صورت کے ماسوا صورتوں کا اعتبار کرنے کے روادار نظر نہیں آتے؛ جبھی وہ ہر حال میں دونوں کا حکم ایک رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں، یعنی چھوٹ ملے تو دونوں کو ملے اور گرفت ہو تو دونوں پر ایک سی ہو۔ مگر کیا خیال ہے: دودھ میں ملاوٹ کر کے بیچنا ایک حرام کام ہے، لیکن اپنے بھوک سے بلکتے بچے کیلئے اُس حرام فروش سے دودھ خریدنا بھی کیا آپ کیلئے حرام ہوگا؟ شریعت میں یقینا ایسی صورتیں پائی جا سکتی ہیں کہ ایک چیز کا بیچنے والا مجرم ہو اور کیفر کردار کو پہنچایا جانے کے لائق، جبکہ اُس کا خریدنے والا ملامت کے دائرہ میں نہ آتا ہو۔ اضطرار کی حالت میں جہاں شراب کے علاوہ سد رمق کی کوئی صورت آپ کو دستیاب نہیں وہاں شراب خریدنے پر آپ کو کوئی ملامت نہ ہوگی لیکن ہو سکتا ہے وہاں پایا جانے والا ’لیکر سٹور‘ اور اس کا عملہ خصوصاً اس کا منافع خور مالک بدترین شرعی سزا کا مستحق قرار پائے۔ ’دو نمبر دوائیاں‘ تیار کر کے بیچنا ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ آپ کا جی چاہے گا ایسے شخص کو پھانسی چڑھا دیا جائے۔ ایسا شخص یقینا حرام کماتا اور ضرورتمندوں کا بدترین استحصال کرتا ہے۔ مگر اسٹریچر پر پڑے ہوئے اپنے مریض کیلئے ایسے حرام خور سے دوائی خرید کرنا (اور ظاہرہے آپ وہ تبھی خریدیں گے جب ’ایک نمبر دوائی‘ آپ کو میسر نہیں) بلکہ خریداروں کا ایسے دوا فروشوں کے ہاں ایک تانتا بندھے جس سے حرام خور مافیا کا خوب کاروبار چمکے، کیا ہر دو کا وہی حکم ہوگا۔۔۔۔؟
مدینہ کے اندر اترنے والی وہ آیات: جو اُن ظالموں کے فعل کی شناعت بیان کرنے کو نازل ہوتی ہیں جو نہ صرف کسی عام سی اسلامی عدالت بلکہ رسول اللہﷺ کی برگزیدہ کچہری ایسی ہر دم دستیاب اسلامی عدالت کو چھوڑ کر، اپنے فیصلے کرانے کیلئے، طاغوتوں کی جانب رخ کرتے ہیں ۔۔۔۔، ان آیات کو اُس صورتحال پر ہو بہو لاگو کیا جائے جب کوئی اسلامی عدالت سرے سے میسر ہی نہیں اور جہاں لوگوں کے وہ جائز حقوق بھی جن کا خود اسلامی شریعت بھی اعتبار کرتی ہے نکلوائے جانے کی کوئی عملی صورت اِسکے علاوہ سرے سے دستیاب نہیں؟! ایسی صورت میں گرفتار عام لاچار شخص کا بھی عین وہی حکم ہو جو اِس ظلمِ عظیم کی مسند پر اپنی مرضی اور اختیار سے بیٹھ گیا ہو؟!
’عوام‘ پر کچھ ترس کھا لینے میں حرج تو نہیں!!!
اعتراض: 3- صاحب مضمون نے خروج کی بحث کے ذیل میں سلف کے طرز عمل کا حوالہ نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ دور سلف کے حکمران ، موجودہ حکمرانوں جیسے نہیں ہیں ۔ لہذا اس مسئلے میں سلف کا طرزعمل کوئی دلیل نہیں بنتا ۔ یہ بات تو بالکل درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دور سلف اور آج کے دور میں کیا صرف حکمرانوں ہی میں فرق آیا ہے یا عامۃ الناس بھی تبدیل ہو گئے ہیں ۔ کیا سلف کے دور میں جو عامۃ الناس تھے ، آج ویسے مسلمان عوام کہیں موجود ہیں ؟ کیا عوام الناس کی عقائد ، نظریات ، اخلاقیات اور اعمال کے حوالے سے قلب ماہیت کا موجودہ حکمرانوں کی تکفیر اور ان کے خلاف خروج کے فتوی جاری کرنے میں کوئی لحاظ رکھا جائے گا یا نہیں؟
سُبْحَانَكَ هَذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ! ’خروج‘ کی بحث ہمارے پورے مضمون میں نہیں ہوئی اور نہ ہم نے ’خروج‘ کی بات اٹھائی ہے۔ ’مسلم معاشروں پر کام‘ کی بابت ہم باقاعدہ ایک مقدمہ رکھتے ہیں اور ’مسلم معاشروں پر محنت‘ کے ہدف سے صرفِ نظر کر کے کسی ہدف پر توجہ مرکوز کر دینے کے منہج کو درست نہیں جانتے۔ ہم تو ’نظام‘ اور ’انقلاب‘ ایسی اشیاءکو دعوت کے موضوعات تک میں جگہ دینے کے ہی کچھ بہت زیادہ قائل نہیں۔ حتیٰ کہ جس وقت ہم معاشروں کو لا الٰہ الا اللہ سکھانے کا کام کام کر رہے ہوں گے، اور جوکہ وقت کا ایک بڑا فرض ہے، تو اُس وقت بھی یہ کام ’انقلاب‘ کو ذہن میں رکھ کر نہیں کریں گے۔ لا الٰہ الا اللہ کے مطالب میں سے ایک نہایت اہم مطلب کے طور پر ہم لوگوں کو طاغوت سے برأت کروائیں گے تو وہ بھی اُن کی توحید مکمل کرنے اور اُن کو توحید پر کھڑا کرنے کے باب سے، اور اِس کام کو آپ اپنی ذات میں مطلوب جانتے ہوئے، نہ کہ اِس کو ’انقلاب‘ کے مراحل میں سے ایک ’مرحلہ‘ باور کرتے ہوئے۔
خود ہمارا یہ مضمون ہی، جس پر ہمیں یہ کچھ تبصرے اور اعتراضات موصول ہوئے، دراصل تفہیمِ عقیدہ کے باب سے تھا نہ کہ کسی ’عملی پروگرام‘ کی دعوت۔ ہاں مگر معاشروں کو توحید سکھانے کی ہم جو بات کرتے ہیں اور باطل کی نفی اور طاغوت کے ساتھ کفر کرنے کو جس طرح لا الٰہ الا اللہ کی اساسی تعلیم ہی کے اندر سموتے ہیں وہ البتہ توجہ کے لائق ایک چیز ضرور ہے۔ ’عقیدہ کے بیان‘ کے اِس منہج ہی کے اندر خود اتنا زور ہے اور اِس کے اپنے مضامین ہی کو اِس قدر ڈائنامک جہتیں وافر طور پر حاصل ہیں کہ عین ابتدا ہی سے یہ فرد کے اندر بھی اور معاشرے کے اندر بھی ایک ہلچل ضرور برپا کرتا ہے۔ مگر یہ ویسی ہی ایک ہلچل ہوتی ہے جو عین مکہ کی ابتدا میں ہوئی اور جس کا ’خروج‘ سے کوئی تعلق نہیں۔
’عقیدہ‘ کی تعلیم کے منہج کو صحیح کرنے پر یہاں اگر ایک محنت ہو جاتی ہے تو معاشرے کو لا الٰہ الا اللہ سکھانے ہی میں ہمارا بہت سا انفراسٹرکچر آپ سے آپ کھڑا ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر آپ کا مقصد یہ ہے کہ زمانۂ آخر تک لوگوں کو یہاں ’نظام‘ اور ’انقلاب‘ کی بحثیں پڑھائی جائیں اور اِسی سے کسی دن وہ اٹھ کر آپ کی معیت میں اِس ’نظام‘ کو بدل کر رکھ دیں گے تو ہمارے خیال میں یہ نہ صائب ہے اور نہ ممکن الحصول۔ معاشرے کو توحید پڑھائیے۔ ہمارے نزدیک اِس سے کوئی مفر نہیں کہ اپنے اِن معاشروں کو ”دین“ کی اصل بنیادوں سے از سر نو روشناس کرایا جائے اور یہاں اُنہی اسباق کا اعادہ ہونے لگے جن کے دم سے اول اول اِس ملت نے وجود پایا تھا، اور بقول امام مالکؒ:
لن یصلح آخر ہذہ ال اَمۃ اِلا بما صلح بہ اَولہا
”اِس امت کا ما بعد ہرگز نہ سدھرے گا مگر اُس چیز سے ہی جس سے اِس امت کے عہدِ اول نے صلاح پائی تھی“۔
رہ گئی وہ جذباتی صدائیں جو اِس وقت لوگوں کو ’اٹھ کھڑا‘ ہونے پر آمادہ کر رہی ہیں ، تو یہ منہج نہ صرف یہ کہ ہمارے یہاں سے پیش نہیں کیا جاتا، بلکہ اِس کی تصویب کی بھی پوری کوشش ہوتی ہے۔ اِس سلسلہ میں مطبوعات ایقاط کی کتاب ”دعوت کا منہج کیا ہو؟“ مؤلفہ محمد قطب، جس کا ہم نے نہایت اہتمام کے ساتھ اردو استفادہ پیش کیا ہے، دیکھ لی جانا مفید ہو سکتا ہے۔
جہاں تک ہمارے مضمون کے اُس مقطع کا تعلق ہے جس سے ’خروج‘ کا یہ پورا مفہوم کشید کر لیا گیا۔۔۔۔ تو ساری بحث وہاں اِس چیز سے متعلق تھی کہ موجودہ ’طاغوتی‘ نظاموں کو جنہیں ہمارے فاضل معترض بھی ’طاغوتی‘ مانتے ہیں، سلف کے دور میں موجود ”اسلامی“ نظاموں پر قیاس نہ کیا جائے، (تاکہ یہاں کے معاشرے کھل کھلا کر اِن نظاموں سے برأت کریں اور عوام الناس کو دی جانے والی ’عقیدہ کی تعلیم‘ یہاں اپنا ایک مومنٹم تشکیل کرے)۔ اِس سے زیادہ کوئی بات سرے سے نہیں ہوئی۔ ہمارا وہ مضمون اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
اعتراض:4- احکام شرعیہ میں مقاصد شرعیہ کی بحث نہایت اہم ہے ۔ ہر دور میں علمائے حق نے مقاصد الشریعۃ کی نوعیت اور اہمیت پر تفصیلی بحثیں کی ہیں ۔ اس حوالے سے یہ بات محل نظر ہے کہ موجودہ دور میں صرف حکمرانوں کی تکفیر سے کون سا شرعی مقصد حاصل ہو گا ؟
دوبارہ واضح کر دیا جائے ’حکمرانوں کی تکفیر‘ سرے سے ہمارے مضمون کا موضوع نہ تھا۔ ہرگز درست نہ ہو گا کہ ہم اپنی گفتگو کا محور اُس کے اصل موضوع سے پھر جانے دیں۔ ہماری گفتگو کا اصل محور یہ تھا کہ:
”تکفیر“ کا تصور اسلامی عقیدہ میں نیا ہے اور نہ خوارج کا ایجاد کردہ۔ پرانے دور کے خوارج اور موجودہ دور کے تکفیریوں نے اسلامی عقیدہ کے اندر پائے جانے والے اِس تصور کا غلط استعمال ضرور کیا ہے، مگر محض یہ دیکھ کر کہ کہیں پر ”تکفیر“ کا سوال اٹھایا گیا ہے ایسا سوال اٹھانے والے کو جھٹ سے ’خوارج‘ اور ’تکفیریوں‘ کے ساتھ ملا دینا، اس بات سے قطع نظر کہ اس کی بنیاد اُس نے اہل سنت والی اختیار کی ہے یا خوارج والی، ایک غلط اور غیر علمی طرزِ عمل ہے، جس میں آج کے مرجئہ اور ان کے کچھ سرپرستوں خصوصاً ’تقاربِ ادیان‘ کے داعیوں اور ’ثقافتی گلوبلائزیشن‘ کے ایجنڈا برداروں کا بھی ایک بہت بڑا کام ہو جاتا ہے۔ مزید برآں، جس طرح اہل سنت کے نزدیک ایمان دل کے اعتقاد، زبان کے اقرار اور جوارح کے عمل کا نام ہے اسی طرح کفر بھی جہاں ’دل‘ کے کسی اعتقاد سے ہو سکتا ہے وہاں ’زبان‘ کی کسی عبارت سے بھی ہو سکتا ہے اور ’جوارح‘ کے کسی عمل سے بھی بشرطیکہ ’زبان‘ کے اُس قول یا ’جوارح‘ کے اُس عمل کو اللہ اور اُس کے رسول نے کفر گردانا ہو اور علمائے سنت نے اس کو کفرِ اکبر پر ہی محمول کیا ہو۔۔۔۔ البتہ یہ کہ ’جوارح‘ سے ہونے والے کفر کا کوئی اعتبار ہی نہیں جب تک کہ کوئی شخص زبان سے اس کو اپنا عقیدہ نہ کہے، تو یہ مرجئہ کا مذہب ہے اور جوکہ موجودہ دور کے کچھ کافرانہ ایجنڈوں کیلئے ایک نعمتِ غیر مترقبہ کا درجہ رکھتا ہے۔
یہ بنیاد واضح کر دینے کے بعد چند (نہ کہ سب) ایسی مثالیں بھی ذکر کر دینا ضروری تھا جہاں ’عمل‘ کا کفر اہل سنت کے ہاں معتبر ٹھہرتا ہے۔ اِس پر ایک مثال کے طور پر وہ بات بھی ذکر کی گئی جس سے آج کی ارجائی قوتوں کی جان جاتی ہے؛ اور وہ یہ کہ حکم بغیر ما أنزل اللہ کو اُس کی ایک خاص متعین صورت میں کفر شمار کرنا کثیر ائمۂ سنت کی تصریحات کی رو سے ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔ چونکہ ارجائی طبقے اِس بات کو خوارج کی اپج باور کراتے ہیں اس لئے ائمۂ سنت کے وہ اقوال بھی نہ صرف ساتھ دے دیے گئے بلکہ اُن کا عربی متن بھی ساتھ دیا گیا تاکہ کوئی ابہام باقی ہی نہ رہے۔ اور تاکہ۔۔۔۔ حکم بغیر ما أنزل اللہ کو کفر کہنے کو اگر کوئی شخص ’تکفیریوں کی ایجاد کردہ گمراہی‘ قرار دیتا ہے تو وہ اپنی اِس لاعلمی اور نادانی سے باہر نکل آئے۔
رہ گئی یہ بات کہ اِس چیز کی ’موجودہ حکمرانوں‘ پر کیونکر تطبیق ہو، اور ”حکمِ مطلق“ اور ”حکمِ معین“ کا فرق کرانے کے ضمن میں کون کونسی احتیاطیں کروائی جانا لازم ہیں، ۔۔۔۔ تو یہ ہمارا موضوع تھا اور نہ ہم اِس کی تفصیل میں گئے۔ گو صفحہ ۳۳ تا ۵۳ پر اِس کی جانب کچھ اشارے (بسلسلہ تفریق مابین حکمِ مطلق و حکمِ معین) اور صفحہ 33 تا 35 پر کچھ تنبیہات (اس سلسلہ میں غیر عالم طبقوں سے راہنمائی لینے کے نقصان کی بابت) ضرور کی گئیں۔ اِس مضمون کے علاوہ کئی مقامات پر بھی ہمارے مضامین کے اندر ”حکمِ معین“ کے معاملہ میں احتیاط کی ضرورت پر اچھا خاصا زور دیا گیا ہے اور عموماً دیا جاتا ہے۔ اِس سے یہ تاثر پیدا کرنا کہ ہم ’حکمرانوں کی تکفیر‘ میں ہی یہاں کے جملہ مسائل کا حل ڈھونڈنے چلے ہیں، ہماری تحریر کا مفہوم متعین کرنے کا کوئی صحیح طریقہ ہے اور نہ ہمارے مقصود کی جانب اشارہ کرنے کا کوئی درست انداز۔
اعتراض: یعنی ایک نوجوان جسے اس فکر سے سیر حاصل جذبہ اور قوت عمل حاصل ہو جائے اس کے پاس کرنے کا کا م کیا ہو گا ؟ وہ ان کافر حکمرانوں سے جان چھڑانے کے لئے کیا کرے ؟ ظاہری بات ہے صرف فکری غذا تو اس کے جذبے کے لئے کافی نہیں ہے ؟ اسے تو کوئی عمل چاہیے اور عمل (activity) بھی ایسا جو، ان کفار سے اسے جلد از جلد نجات دلوا دے ۔ ویسے تو اس کو یہ عمل (activity) دینے کے لئے خود کش حملہ آوروں کی جماعتیں بھی تیار بیٹھی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ صاحب مضمون کے پاس کیا لائحہ عمل ہے ؟
نوٹ فرما لیجئے: باطل کے خلاف برسر عمل اور اسلام کے احیاءکیلئے سرگرم وقت کی اسلامی قوتوں کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا اور ان کے فکر و عمل میں زیادہ سے زیادہ پختگی، زیادہ سے زیادہ تاثیر اور زیادہ سے زیادہ فاعلیت لانے میں اپنا حصہ ڈالنا۔
اعتراض: 5- علاوہ ازیں اہل سنت ہی میں سے جس طبقہ فکر کو صاحب مضمون ”سلف“ ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتے ہیں ، ان کے مطابق تو بے نمازی بھی اعتقادی کافر ہے ۔ لہذا عامۃ الناس پر ان اصولوں کا اطلاق کیوں نہیں کیا جاتا ؟
کیا ہمارا موضوع ’ترکِ نماز‘ تھا؟؟؟ ’عمل‘ کے کفر کی چند مثالیں ہی بیان کرنا مطلوب تھا نہ کہ ’سب‘ مثالیں بیان کرنا اور نہ ایسی ایک ایک مثال کی بابت اختلافِ فقہاء کی تفاصیل گننا اور اُن میں ’راجح و مرجوح‘ کی بحثیں چھیڑنا!
اعتراض: چاہے تو تکفیر کرلیں اور چاہے تو ۔۔۔۔۔ موجودہ دورِ زوال کے خصوصی حالات کے تناظر میں موانع اور شروط وغیرہ کے حوالے سے تکفیر کے موضوع کو اصولی انداز میں بحث کرتے ہوئے عامۃ الناس کے ساتھ ساتھ حکمران طبقے، مقننہ ، عدلیہ اور سول اور فوجی انتظامیہ کے افراد کی اصلاح کی طرف توجہ دیں اور ایک منظم جدوجہد کے ذریعے نظام ِ باطل کو بیخ و بن سے اُکھیڑنے پر زور دیں ۔
حکام و غیر حکام کی بابت ہم اپنا طرزِ فکر واضح کر چکے۔ تاہم درج بالا جملوں میں جس ذہن کی عکاسی کی گئی ہے اُس کے تجزیہ کے حوالے سے چند جملے کہہ دیے جانا امید ہے خالی از فائدہ نہ ہو گا۔۔۔۔
حکم بغیر مااَنزل اللہ ایسے گھناؤنے فعل کی جو شناعت قرآن میں بیان ہوئی، اور جس کو قرآن میں صاف صاف کفر گردانا گیا ہے، اور جوکہ آج اِس وقت عالم اسلام کا ایک بے حد نمایاں فنامنا ہے ، اور جس کو یہاں کے کچھ طبقے ’عام معصیت‘ کا ہی درجہ دے رکھنے پر مصر نظر آتے ہیں اور اِس کو ’کفر‘ کہنے پر اچھا خاصا معترض ہوتے ہیں۔۔۔۔ اِس فعل کی کافرانہ حیثیت اگر لوگوں پر واضح کی جائے، اور خود اِس فعل میں ملوث طبقوں پر ہی اگر روزِ روشن کی طرح آشکارا کر دیا جائے کہ رب العالمین کے ساتھ یہ ایک واضح کفر ہے اور آدمی کو دین سے خارج کر دینے والا ایک نہایت خوفناک فعل ہے اِلا یہ کہ آدمی اِس سے تائب ہو جائے۔۔ تو کیا یہ بات ’اصلاح‘ کے منافی ہے؟؟؟
سب جانتے ہیں ہم ’تکفیرِ معین‘ کی تحریک چلاتے نہیں پھر رہے۔ لیکن اِس ذہن کی تصحیح کرنے کیلئے جو ’اصلاح‘ کا ذرا ایک اوپرا سا مفہوم رکھتا ہے اور جوکہ مراسلہ نگار کے درج بالا جملوں سے مترشح ہے، ہم وہ آخری ترین سیناریو ہی فرض کر لیتے ہیں جس پر ہمارے فاضل معترض کو اِس ضمن میں سب سے زیادہ اعتراض ہو سکتا ہو:
تو چلئے پھر ہم یہ فرض ہی کر لیتے ہیں کہ کسی خطہ کے اندر وقت کے اہل علم نے یا اہل علم کے ایک فریق نے وہاں پائے جانے والے کسی حکمران یا حکمرانوں کی تکفیر کر دی ہے۔ تو کیا اب اُس حکمران یا اُس مجموعۂ حکام کی اصلاح خارج از سوال ٹھہرے گی؟ یہ سوال یوں سامنے لایا جانا آخر کیا ضروری ہے کہ: یا تکفیر / یا اصلاح؟؟! اِن دو چیزوں کے مابین کونسا قطعی تعارض ہے؟ (تکفیر کے شرعی تقاضے پورے کرتے ہوئے) اگر اہل علم کے ہاتھوں کسی کی تکفیر بھی ہوتی ہے تو شرعی نصوص میں کونسی دلیل ہے کہ اُس کی اصلاح کا فریضہ اب معطل ٹھہرا دیا گیا ہے؟ فرعون سے بڑا تو کوئی طاغوت نہ ہوگا جو خم ٹھونک کر کہتا ہے أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى ! تو کیا اِس طاغوت کی طرف اللہ اپنے دو برگزیدہ رسولوں کو یہ ہدایت کر کے نہیں بھیجتا: اذْهَبَا إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشَى ۔۔۔۔؟؟؟! (طٰہٰ: 44، 43) یعنی ”دونوں فرعون کے پاس جاؤ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ پھر اُس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا، شاید کہ وہ نصیحت قبول کرلے یا خشیت اختیار کرلے“۔ یہ شعیب علیہ السلام ہیں جو کافروں اور منکروں میں گھرے ہیں اور فرما رہے ہیں: إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ  (ہود: 88) یعنی ”میں تو اصلاح چاہتا ہوں جہاں تک میرے امکان میں ہے۔ اور مجھ کو جو کچھ توفیق ہو جاتی ہے صرف اللہ ہی کی مدد سے ہے اُسی پر میں بھروسہ رکھتا ہوں اور اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں“۔
”اصلاح“ کا مفہوم نری میٹھی گولیاں تو نہیں!!! یہاں ”شفا خانوں“ میں کیا کیا کچھ نہیں پایا جاتا!!؟
 
اداریہ میں اس سے پہلے کے اجزاء

کیا مرجئہ طے کریں گے کہ تکفیری کون ہیں۔ حصہ دوم

 
 استعمار۔۔ ’لباسِ مجاز‘ میں!

الف

بیداریِ نو اور ’مرجئہ‘ و ’خوارج‘ کا ڈائلیکٹ!

ب

اصولِ سنت کے متخصصین اِس دور میں بہت زیادہ نہیں

ج

 مسئلہ ’حکمرانوں‘ سے کہیں بڑا ہے!

د

حکم بغیر ما اَنزل اللہ اگر ’کفر‘ ہی نہیں  تو یہ نظام بھی پھر ’طاغوتی‘ کیسے؟؟

ھ

ہر کوئی اصولِ سنت و سلف ہی کی بات کرتا ہے!

و
 

 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز