علمہا عندربی فی کتاب
”اس کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے،
ایک خاص دستاویز میں“
اردو استفادہ: عائشہ جاوید
”یہ لوگ آپ سے قیامت کے متعلق سوال کرتے ہیں کہ اسکا وقوع کب ہو گا؟آپ فرما دیجیے کہ اسکا علم صرف میرے رب ہی کے پاس ہے، اسکے وقت پر اسکوسوا اللہ کے کوئی اور ظاہر نہیں کرے گا۔ وہ آسمانوں اور زمین میں بڑا بھاری حادثہ ہو گا۔ وہ تم پر محض اچانک آپڑے گی وہ آپ سے اسطرح پوچھتے ہیں جیسے کہ آپ اسکی تحقیقات کر چکے ہیں۔آپ فرما دیجیے کہ اسکا علم خاص اللہ ہی کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے“ (الاعراف:187)
معمولی سے فرق کے ساتھ کم و بیش یہی موضوع سورۃ یوسف 107، سورۃ النحل و سورۃ لقمان 34،الاحزاب 63، فصلت 47، زخرف66 میں مذکور ہے۔اور اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہو سکتی ہے؟
مفسرین میں ابن عباس، ابن جبیر اور مجاہد اسکی تفسیر بیان کرتے ہوئے اس آیتِ مبارکہ کو اہلِ عرب کے ہاں استعمال ہونے والے اس محاورے (جو بات خود مجھ پر ظاہر نہیں اسے آپ پر کیسے آشکار کر دیتا؟)سے تشبیہ دیتے ہیں جو کسی انتہائی حساس معاملے میں حد درجہ راز داری برتنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
چنانچہ جب فرقانِ حمید میں متعدد مقامات پر یہ حقیقت اظہر من الشمس کر دی گئی کہ اس ساعت کا علم نوری ناری یا خاکی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں عطا کیا گیا تو ایسے میں کسی انسان کا آگے بڑھ کر خدائی دعویٰ سے ٹکر لینے کی جسارت کرنا بلاشبہ کھلی گمراہی کی دلیل ہے۔
انجام کار کے بارے میں تجسس روزِ ازل سے فطرتِ انسانی کا جزو لا ےنفک رہا ہے۔سائنسی ترقی کے اس دور میں جبکہ دنیا عالمی گاؤں بن کر رہ گئی ہے اور انٹرنیٹ نے جہاں گھربیٹھے معلومات بہم پہنچانے کو بازیچہ ءاطفال بنا ڈالا ہے، وہاں دنیا کے اختتام کے بارے میں سنسنی خیز مواد پیش کر کے گھر بیٹھے ایک سادہ لوح انسان کے ذہن میں شکوک و شبہات کے تار و پود بکھیر دیے گئے ہیں۔ چنانچہ عوام الناس کی ایک بڑی تعداد اس سلسلے میں وضاحت طلب کرنے کیلئے مضطرب ہو کر علماءکی جانب رجوع کرتی نظرآتی ہے۔
گو کہ یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ احادیثِ نبویہ میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے تاہم اس بارے میں چند احتیاطات کو ملحوظ خاطر رکھنا ان شاءاللہ سودمند ثابت ہو گا۔
اولاً، یہ بات یاد رہے کہ علاماتِ حشر سے متعلقہ بیشتر احادیث جو لوگوں کی زبانوں پر سننے کو ملتی ہیں غیر مستند واقع ہوئی ہیں۔ بنا بریں امر لازم ہے کہ ہم ایسی کسی حدیث کو دلیل بنانے سے قبل اسکی سند اور صحت معلوم کر لیا کریں ۔گو کہ عمومی کلیہ کے تحت یہ تحقیق ان احادیث کی بابت زیادہ توجہ طلب ہے جن کا موضوع براہِ راست عقائد دین یا شریعتِ اسلامیہ ہے، تاہم ایسا کہنے سے ہرگز یہ مقصود نہیں کہ اس نکتہ کو بنیاد بنا کر اخلاقیات ، معاشرت یا مستقبل میں رونما میں ہونے والے حالات سے متعلقہ احادیث کی صحت کی جانچ پڑتال میں کوتاہی برتی جائے۔ کچھ جدیدیت کے مرض کا شکار لوگ اپنی علمی پختگی ثابت کرنے کی کوشش میں آج بائبل کے نسخہ جات اور علم النجوم کی ضخیم کتب سے زائچے نکال نکال کر احادیث مبارکہ کے مقا بل ’د لائل و براھین ‘لا کھڑا کرنے میں مصروف ہیں کہ قیامت کے متعلق گفتگو کا ایک سنسنی خیز سلسلہ شروع ہوجائے۔۔۔ جوکہ ایک طرف تو انکی’ منہج فہمی ‘کی چغلی کھاتے ہیں تو دوسری طرف انکے یک ر خے مطالعہ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تف ہے ان پر! کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے خو د کو اپنی اہوائے نفس کے تابع کرتے ہوئے نفس کوالہٰ بنا لیا ہے۔ کاش انہیں معلوم ہوتا کہ انھوں نے کس قدر گھاٹے کا سودا کیا ہے!
ثانیاً، یہ بات محل ِنظر رہنی چاہیے کہ احادیثِ صحیحہ کے معاملہ میں بھی انکے فہم کے مصادر خلط نہ ہونے پائیں۔اسکے لیے ضروری ہے کہ زیرِ بحث احادیث کو انکے صحیح سیاق و سباق میں سمجھا جائے۔اس حقیقت سے فرار ممکن نہیں کہ بلاشبہ یہ ایک دشوار کام ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ یہی وہ رخنہ ہے جس سے موقع پا کر شیطان نے بہت سوں کو گمراہ کیا ، اور اسکے نتیجے میں فہم ِدین کا چشمہءصافی گدلا ہوتا چلاگیا۔
بدقسمتی سے اس امت وسط میں بسا اوقات ایسے لوگ بھی پائے جاتے رہے ہیں جو کہ خود کو شیوہء پیغمبری کا امین سمجھتے ہیں، یہ علماءسوءجہاں محکمات ِدین کی بابت کم علم واقع ہوئے ہیں اور حق بات کہنے میں بخل سے کام لیتے ہیں وہاں متشابہات، اور جزوی و فروعی مسائل پر تبصرہ کرنے کو’ فرضِ عین‘ سمجھتے ہوئے’ حق رائے دہی‘ کا بھرپور استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ’حد درجہ محتاط رویہ‘ اس وقت نہ جانے کیوں بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے!! یہ بات ایک معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے انسان کی سمجھ میں بھی آسکتی ہے کہ جب اصول ِدین کے واضح معاملات میں کسی جگہ پر علماءکے فہم میں اختلاف ہو سکتا ہے تو امورِ غیبی یا قیامت کے رونما ہو نے کا تعین کرنا توپھر ایک دور افتادہ مسئلہ ہے۔
علاوہ ازیں اس موضوع پر مؤرخین کی خود ساختہ’ متفق علیہ‘ آراءپر اعتبار کرنا بھی ممکن نہیں کیونکہ کسی بھی دورمیں حالات خواہ کیسے ہی ہوں، ان حضرات کے اختیار کردہ موقف، اصولِ دین وضع کرنے میں کبھی بھی بنیاد نہیں رہے ،بلکہ دیکھاجائے تو عامۃ الناس کو روزِ محشر کے بارے میں ’ڈیڈلائن‘ دیکرجہاں انکی ایمانیات اور آخرت پر ایمان بالغیب کو شکوک واوہام کا نشانہ بنانے میں انکا ہاتھ ہے ،وہاں آسمانی صحائف کے بارے میں انکے عقائد کو متزلزل کرنے میں بھی انہوں نے سرخیل کا کردار ادا کیا ہے۔
ثالثاً، جن احادیث میں قیامت کی نشانیوں کا تذکرہ ہے ، انکو حجت بنا کر شریعتِ اسلامیہ کے مسلمہ اصولوں کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا، الا یہ کہ ایسی کوئی بات از راہِ استدلال، نصوصِ شریعت ہی سے ثابت ہو۔ اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ بات شباب المسلمین کے دھیان میں رہے کہ قربِ قیامت کی احادیث سے وہ غلط مفہوم اخذ کر کے ترک ِدنیا کی راہ اپنا تے ہوئے گوشہ نشینی اختیارنہ کرنے پائیں کہ اسلام میں امر بالمعروف و نہی عن المنکرکا کام کرتے رہنا حسب استطاعت ہر وقت واجب ہے۔ اسلام مردم آزار دین نہیں ہے۔ اسلام معاشرے اور لوگوں کے ساتھ باہمی ربط و تعلق استوار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ عام طور پر اس گمراہی کا شکار وہ افرادہوتے ہیں جو یا تو حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی بجائے بیزار ہو کر فرار کے متلاشی ہوتے ہیں یا انکی شکست خوردہ ذہنیت پر مایوسی کی دبیز تہہ چڑھی ہوتی ہے جواسقدر گرد آلود ہو چکی ہوتی ہے کہ وہ رب العرش پر توکل کے مفہوم سے ناآشنا ہو جاتے ہیں۔
لہذٰا ان سب نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں یہ جان لینا چاہئیے کہ علم الساعۃ کے مسئلے کو اخباری موضوع سخن بنانے کی بجائے اہل السنۃ و الجماعۃ کے معتبر ترین علماء کے حوالے کر دینے میں ہی بہتری ہے، بصورت دیگراللہ کے کلام کے بارے میں سخن طرازی کرنے والا خبردار رہے کہ ضلالت و گمراہی اسکامقدر ہو سکتی ہے۔
’پھر قرآن کے بعد کون سی بات پر یہ لوگ ایمان لائیں گے؟جس کو اللہ گمراہ کر دے، اسکوکوئی راہ پر نہیں لا سکتا۔اور اللہ انکو انکی گمراہی میں بھٹکتے ہوئے چھوڑدیتا ہے۔ ‘ (الاعراف:186)
یہ امر بذات خود قابل صد افسوس ہے کہ ایک طرف ہمارے بعض اصحابِ علم چند ضعیف احادیث کا سہارا لیکر اس دقیق موضوع پر عبورِ کامل رکھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہوں تو دوسری طرف مبادیات ِاسلام اور اصولِ دین کی بابت بغلیں جھانکتے نظر آئیں۔ ما فوق الفطرت واقعات کو ظن و تخمین کی چاشنی دے کر ، اور پھر الہام کا لبادہ اوڑھا کر جب ایک عام مسلمان کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ یقینی طور پر تذبذب کا شکار ہو جاتاہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ یہ تمامتر توانائیاں مظاہرِ کائنات پر تحقیق کرنے میں صرف ہوں تاکہ اسباب کی دنیا میں انسانیت کی فلاح کے لیے نئے افق تلاش کیے جا سکیں، معجزات اور کرامات پر آس لگا کر بیٹھنے کی بجائے عمل کی دنیا میں قدم رکھا جائے اور زمین میں اللہ کے عطا کردہ وسائل کا کھوج لگا کر اسکی رضاو خوشنودی کے مطابق انکو استعمال میں لایا جائے، خلافتِ خداوندی کا حق ادا کیا جائے ،امتِ وسط کی صحیح تصویر دنیا کے سامنے پیش کر دی جائے اور حقائق ومصائب کا سامنا کرنے میں توکل علی اللہ اور استقامت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے کہ یہی مومنانہ فراست کاتقاضاہے۔
’اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو۔یقیناً رب کی رحمت سے نا امید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہیں‘ (یوسف:87)
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری امیدوں کا مرکز وہ ذات ِباری تعالیٰ ہو جو وحدہ لاشریک بھی ہے اور قادر ِمطلق بھی ۔اور بیشک اہلِ ایمان اسی اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا معاملہ اسی کے سپرد کرتے ہیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
(اردو استفادہ از شیخ سلمان العودۃ)