حاملہ عورت کے احکام
یحی بن عبد الرحمن الخطیب
اُردو استفادہ: محمد زکریا
حمل کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت:
اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حمل کی کم از کم مدت چاند کی تاریخ کے لحاظ سے چھ ماہ ہے۔ طبی لحاظ سے حمل کی کم از کم مدت سے مراد ہے کہ عام معمول سے پہلے جو بچہ پیدا ہو اور عموماً پیدائش کے بعدایسے بچے زندہ رہ جاتے ہوں ۔ جدید طبی تحقیقات نے بھی یہ بات ثابت کر دی ہے کہ چھ ماہ میں جنین کے تمام اعضاءمکمل ہو جاتے ہیں اور اگر اس مدت میں وضع حمل ہو جائے تو طبی سہولیات کی فراہمی سے مولود کی جان محفوظ بنائی جا سکتی ہے۔ فقہاءاسلام نے کم از کم مدت کے تعین کے لیے اِن نصوص شریعت کو بنیاد بنایا ہے: والوالدات یرضعن اولادہن حولین کاملین’اور چاہیے کہ (باہمی مشورے سے)مائیں اپنے جنے ہوئے بچوں کو پورے دو برس تک دودھ پلاتی رہیں‘دوسری آیت سورہ احقاف کی ہے جسے پہلی آیت کے ساتھ رکھ کر اہل علم نے مدت کا تعین کیا ہے: و حملہ و فصالہ ثلاثون شہراً’(بچے) کی مدت حمل اورمدت رضاعت(دونوں کا کل دورانیہ) تیس ماہ ہے۔‘
ان دونوں آیات مبارکہ کو جمع کرنے سے کم او کم مدت چھ ماہ اس طرح بنتی ہے کہ اگر وضع حمل نو ماہ کے بعد ہو تو تیس ماہ میں سے نو ماہ نکال کر رضاعت کی مدت اکیس ماہ بنے گی اور اگر پیدائیش کے بعدپورے دو سال تک دودھ پلانے کی مدت تیس ماہ سے منہا کی جائے تویہ چوبیس ماہ کل تیس ماہ سے منفی کرنے کے بعد چھ ماہ رہ جاتے ہیں۔پوری مدت رضاعت کو سامنے رکھ کر تیس ماہ کی نص کو اصل اورطبعی مدت مان کر کم از کم حمل کی مدت چھ ماہ ہی بنے گی۔صحابہ کرام میں سے حضرت عثمان،حضرت علی،حضرت عمراورحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سب اکابر صحابہ نے انہیں آیات سے یہ حکم اخذ کیا تھا اور اسی مدت پر امت کا اجماع ہو گیا۔یہ تو تھا حمل کی کم از کم مدت کا مسئلہ۔جہاں تک حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعلق ہے تو اس کے تعین میں اہل علم کا صریح نص نہ ہونے کی وجہ سے اتفاق نہیں ہو سکا۔شافعیہ اور حنابلہ کی مشہور رائے چار برس ہے،امام مالکرحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایک رائے یہی ملتی ہے۔احناف اورشافعیہ میں سے امام مزنیرحمۃ اللہ علیہ نے دو برس کی مدت کو حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت بتلایا ہے۔امام حزمرحمۃ اللہ علیہ اور ظاہری مذہب میں نو ماہ کی ہی مدت کوحمل کی زیادہ سے زیادہ مدت تسلیم کر لیا گیا ہے۔ جن ائمہ نے زیادہ سے زیادہ چار برس کی رائے اختیار کی ہے تو انہوں نے اپنی رائے کے درست ہونے کے یہ دلائل دیے ہیں: انسانوں کو جو روز مرہ مسائل پیش آتے ہیں ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن کے لیے شریعت میں نصوص پائی جاتی ہیں اورکچھ ایسے ہیں کے وہ عرف پر چھوڑ دیے گئے ہیں۔جس طرح حیض اور نفاس کا حکم عورت کے معمول پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ خون کا سیلان بند ہو تے ہی عورت پاک ہو جاتی ہے اسی طرح عورتوں کے وضع حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت کا تعین چار برس کیا گیا ہے کیونکہ اگر کسی عورت کے ہاں وقت پر ولادت نہ ہو توعورتوں میںزیادہ سے زیادہ وضع حمل کا یہی معمول دیکھا گیا ہے۔مبارک بن مجاہد کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے میں محمد بن عجلان کے گھر ہر بار چار برس کے حمل کے بعد ولادت ہوتی تھی۔اُن کی گھر والی کا یہ ایسا بندھا معمول تھا کہ ان کی بابت کہا جاتا کہ فلانہ کا معمول حمل فیل (1) کی طرح پورے چار برس ہے۔
جن ائمہ کرام نے زیادہ سے ریادہ مدت دو برس اختیار کی ہے ان کی دلیلیں یہ ہیں:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرمایا کرتی تھیں”لا یبقی الولدفی رحم امہاکثر من سنتین، و لو بفرکۃ مغزلٍ“ جنین اپنی ماں کے پیٹ میں کبھی بھی دو برس سے زیادہ نہیں ٹکتا بس سمجھوں اتنی مدت اوٹھہرا تو ٹھہر جائے گا جتنی دیر میں تکلے کا ایک چکر پورا ہوتا ہے(دھوپ میں تکلے کا سایہ یا اس کا ایک چکر کم مدت کے لیے کنایۃ ہے) یہ اصحاب حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے اس فرمان کی بابت فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا اس مدت کا تعین یقیناً اپنے طور پر نہ فرماتی ہوں گی کیونکہ حمل کی زیادہ سے ریادہ مدت کا بیان کوئی شخص بھی اپنے مشاھدے یا عقل سے حتمی کور پر نہیں کر سکتا۔ یہ ماننا ہی پڑے گا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی ایسا سن رکھا ہو گا۔
ظاہری مذہب :امام ابن حزمرحمۃ اللہ علیہ نے مذکورہ بالا آیات کوبنیاد بنا کر کم از کم چھ ماہ اور زیادہ سے ریادہ نو ماہ کی مدت کو فیصلہ کن مدت کہا ہے۔وہ فرماتے ہیں کہ جو شخص نو ماہ سے زیادہ مدت تک ٹھہرے جانے والے حمل کا شرعی اعتبار رکھتا ہے تووہ اللہ کے واضح کلام کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ جب اللہ نے خود ہی زیادہ سے زیادہ مدت تیس مہینے متعین کر دی ہے تو کم یا زیادہ کا سوال ہی نہ رہا۔
مذکورہ بالا آراءکا علمی تجزیہ
حنفیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے جس قول کو مرفوع حدیث کے حکم میں رکھا ہے اس روایت میں ایک خاتون راوی جمیلہ بنت سعد مجہول ہے اور یہ روایت منقطع ہونے کی وجہ سے نا قابل استدلال ہے۔
شافعیہ کی یہ بات تو درست ہے کہ شریعت نے اس مسئلے میں زیادہ سے زیادہ مدت نہیں متعین کی اور عرف پر اس کا حکم چھوڑ دیا ہے۔جدید تحقیقات سے یہ بات یقینی طور پر تسلیم کرلی گئی ہے کہ اگر ماں کے پیٹ میں جنین حمل کے دس ماہ کے اندر پیدا نہیں ہوتا تو یقینی طور پر جنیں آکسیجن اور غذائی نالیوں کی بندش کی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے۔جدیدآلات سے حمل کی صحیح مدت معلوم ہونے کے بعد نو ماہ سے اگر دو ہفتے اوپر ہو جائیں تو پھر مصنوعی طبی طریقے سے وضع حمل کرایا جاتا ہے اور مزید انتظار کو زچہ اور بچہ دونوں کے لیے نہایت خطر ناک سمجھا جاتاہے۔ جدید تحقیق کی روشنی میں یہی رائے عرف کے مطابق ہے کہ حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت دس ماہ ہے اور یہ تحقیق امام حزمرحمۃ اللہ علیہ اور اُن جیسے دوسرے اہل علم کی رائے کے بہت قریب ہے۔جہاں تک دوسرے ائمہ کے مشاہدے سے جو یہ رائے بنی ہے کہ حمل کی مدت چار برس تک بھی ہو سکتی ہے تو اس کی توجیہ بھی جدید طب کی روشنی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ماہرین امراض نسواں کے ہاں ایک عوامی سائنسی اصطلاح false Labour (نقلی دردِ زہ (2))رائج ہے۔ ایسے دردوں کو عورت درد زہ سمجھ لیتی ہے اور جب وضع حمل نہیں ہوتا تو زچہ اور اس کے لواحقین یہی سمجھتے ہیں کہ بچے کی پیدائش میں تاخیر ہوئی ہے۔لواحقین اس تاخیر کی مدت اُس پہلے درد سے شمار کر تے ہیں جب پہلی مرتبہ زچہ نے محسوس کیا تھا کہ اس کا درد درد زہ ہے۔ کدخدا عورت یا حاملہ عورت کو ایسا درد محسوس ہونے کے چند طبی عوامل ہیں جن میں سے زیادہ ترنفسیاتی سمجھے جاتے ہیں۔ اس توجیہ کی رو سے بسا اوقات ایک عورت بلا حقیقی حمل کے ایسا محسوس کر سکتی ہے کہ وہ ایک لمبے عرصے سے حمل سے ہے۔فقہاءکرام نے اس زمانے میں خواتین اور قوابل(بچہ جننے میں مدد دینے والی پیشہ ور یا غیر پیشہ ور دایا) کی مدد سے جو استقراءکیا ہو گا اس سے یہی مدت نکلی ہو گی۔قارئین کرام جس کتاب سے ہم نے یہ ترجمہ کیا ہے اس میں مرتب حفظہ اللہ کا یہی رجحان سامنے آتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت حمل ایک سال تک مقرر کر دی جائے جو کہ امام حزم کی رائے ہے۔ اس سے دو باتیں اور بھی اخذ کی جا سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ مرتب کے نزدیک حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاا والی روایت میں امام حزم کی جرح درست ہے اور دوسرامذکورہ بالا آیات جن سے تمام فقہاءکرام نے احکام اخذ کیے ہیں ان سے کم از کم مدت بھی ثابت ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ(نو ماہ)بھی۔مرتب حفظہ اللہ نے اس بات کو نہیں چھیڑا کہ اگر ایک سال کے بعد کوئی عورت بچہ جنتی ہے جبکہ اس کا میاں اتنی مدت سے زیادہ اور چار برس سے کم سے لا پتہ ہے یا وفات پا چکا ہے تو بچے کا نسب باپ سے جوڑا جائے گا یا نہیں اور عورت پر شرعی حد لگے گی یا نہیں۔ اس وجہ سے ہم نے مسئلے کو سرے تک لگانے کے لیے دوسرے فتاویٰ سے مدد لی ہے جس میں سے دار الافتاءمصر کا فتویٰ خلاصے کے ساتھ ہم یہاں پیش کر رہے ہیں۔
علم طب اوعلم فقہ دونوں مختلف زاویہ نگاہ سے انسان کی خدمت کرتے ہیںتاہم طب کا دائرہ انسان کی جان بچانے اور ابدان کے عمل کو درست کرنے میںخدمات پیش کرتا ہے۔علم طب کا تعلق سماجیات سے نہیں ہے۔مثلاً اگر حمل زناءکے گناہ کے نتیجے میں قرار پاتا ہے اور شرعی حد کے لوازمات پورے ہو جاتے ہیں تو طب بچے اور ماں دونوں کو بچانے کے لیے مدد دے گی مگر بچے کی پیدائش اور پرورش کے انتظامات پورے ہونے کے بعد عورت پر اللہ کی حد نافذ کی جائے گی ظاہر ہے علم طب کا اب یہ موضوع نہیں رہا کیونکہ اس کا مقصد جان بچانا ہے نہ کہ لینا۔حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت طبی لحاظ سے مقرر کر کے اس سے فقہی رائے بدلنا ہمارے نزدیک درست نہیں ہے۔فقہاءکرام کے جمہور نے چار سال یہ مدت ٹھہرائی ہے جس کے پیچھے علم استقراءسے مدد لی گئی ہے جو انسانی سماجیات میں ایک قابل عمل طریقہ ہے۔ایک زمانے سے ان پر عمل ہوتا رہا ہے اور علماءاس مدت کو برقرار رکھے ہوئے ہیں کیونکہ اس سے عورت کی عفت جڑی ہوئی ہے اور شریعت کا اصول یہ ہے کہ اللہ کی حدوں کو شکوک و شبہات کے پیدا ہونے کے بعد نافذ نہ کیا کرو۔ اگر پوری انسانی تاریخ میں ایک واقعہ بھی معتاد مدت سے زیادہ مل جاتا ہے تو زیادہ سے زیادہ مدت جو انسانی عام مشاہدے میں آئی ہو وہ مقرر کی جائے گی۔فقہاءکی اکثریت نے جانچ پڑتال کے بعد چار برس کی مدت مقر کی ہے خواہ تاریخ میں ایک ہی بار ان کے مشاہدے میں یہ بات آئی ہو۔ اصول یہی بنے گا کیونکہ عورت کی عفت اس سے جڑی ہوئی ہے۔البتہ ہم علم طب کی ایجادات سے فائدہ اٹھانے سے منع نہیں کرتے۔ اگرماں کے پیٹ میں بچہ پورا ہو گیا ہو اور از خود پیدا نہیں ہو رہا تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپ چار برس تک بچے کے پیدا ہونے کا انتظار کریںاور مصنوعی طریقے سے بچہ پیدا نہ کریں!مصر میں حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت ایک سال مقرر کر دی گئی ہے۔ یہاں بھی ہم یہی کہیں گے کہ خواہ مصر کے قاضی ملکی قانون میں مقرر شدہ مدت کے مطابق فیصلے کریں اسے مدنی قوانین یا ملکی قانون توکہا جا سکتا ہے مگر چار برس کے اندر بچہ پیدا کرنے والی عورت بہ دستور با عفت ہی رہے گی خواہ بچے کا نسب ملکی قانون کی رو سے باپ سے نہ جوڑا جائے اور خواہ بچہ جائیداد کا وارث بھی نہ بنے عورت پرنہ تہمت لگ سکتی ہے اور نہ اس پر شرعی حد۔ اس کے لیے چار برس کی مدت ہی معتبر ہے۔ یوں شریعت میں میاں بیوی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اس بات کی گنجائش ہے کہ اگر شوہر کو شبہہ ہے کہ اس کی بیوی کے ہاں جو حمل ٹھہرا ہے وہ اس کے نطفے سے نہیں ہے۔ اس صورت میں شریعت نے لعان کا طریقہ مقرر کیا ہے اور اگر شرعی قاضی کے رو برو یہ لعان کا عمل تکمیل پا جائے تو میاں بیوی میں مستقل جدائی ہو جاتی ہے بچہ ماں سے منسوب ہوتا ہے اور شوہر سے جائیداد بھی نہیں پاتا اور شوہر پر بچے کا نان نفقہ بھی نہیں ہوتا۔ بنا بریں چار برس کی مدت مقرر کرنے میں فقہاءکرام کا یہ منشاءنہیں ہے کہ ہر صورت میں شوہر سے بچے کو جائیداد یا نان نفقہ دلوانا ہے۔فقہا کرام کی چار برس مدت مقر کرنے کا مقصد اس سے بہت زیادہ پر معنیٰ اور قابل صد احترام ہے کہ عورت کو معاشرے میں معروف زیادہ سے زیادہ مدت تک با عفت سمجھا جائے۔اللہ کی حدیں نافذ ہونے کے لیے لازمی ہے کہ شک کا شائبہ تک نہ رہے۔یہ کیسے ممکن ہے کہ بہترین دماغوں نے سرکاری اور غیر سرکاری وسائل کو بروے کار لا کر علم استقراءکی مدد سے ایک مدت مقرر کی ہو اس پر صدہا سال سے عمل رہا ہو اور اس کے بعد حمل کی زیادہ سے زیادہ مدت جو حمل قرار پا جانے کے بعد اطباءنے مقرر کی ہو اس سے عفت کے فیصلے لیے جائیں۔طب کے ذریعے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ جنین کے مکمل ہونے کی اتنی مدت ہے۔اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ شوہر کب سے بیوی سے نہیں ملا یا اسپرم اور بیضہ کا ملاپ کس ہم بستری کے نتیجے میں ہوا ہے۔طب کا موضوع اسپرم اور بیضہ کے ملنے سے لے کر اس خطرناک مدت تک ہے جب بچے کا مزید رحم میں رہنا مضر ہو۔ فقہ کا موضوع شوہر کی گم شدگی یا وفات کے بعد عورت کی عفت سے ہے۔البتہ نسب اور جائیداد اور نان نفقہ اس سے دوسرے درجے کے لحاظ سے منسلک ہیں جن میں بعض صورتوں میں ضروری نہیں کہ منسلک مسائل ہر صورت میں ثابت ہوں۔بنا بریں حمل کی وہ مدت جس سے زناءثابت نہیں ہو سکتا بہ دستور چار سال ہی بر قرار رکھی جائے ۔ صحابہ کرام کے زمانے میں شوہر کی گم شدگی کی صورت میں چار سال تک بیوی کو انتظار کرایا جاتا تھا۔در اصل حمل کی چار سال مدت مقرر کرنے میں شوہر کی گم شدگی پر صحابہ کرام کا عمل فقہاءکے نزدیک بڑی دلیل رہا ہے۔
٭٭٭٭٭
(1) ہاتھی کی مادہ چار سال کے حمل سے بچہ جنتی ہے۔اُس زمانے میں عام خیال یہی تھا کہ مادہ ہاتھی کی مدت حمل چار سال ہوتی ہے۔جدید علم حیوانات کی رو سے مادہ ہاتھی اوسطاً13سال کی عمر میں پہلا بچہ جنتی ہے،مدت حمل44 ماہ اور دو حمل کا درمیانی وقفہ اوسطاً پانچ سال۔ غالباً درمیانی وقفہ ہی چار سال ہاتھی کی مدت حمل کا سبب رہا ہو۔ہتھنی کی مدت حمل کے لیے دیکھیےwikipedia میں Elephant کے تحت۔
(2) Braxton Hicks Contractions