عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Tuesday, December 3,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 1
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دعوت کا منہج کیا ہو۔مستقبل پر ایک نظر
:عنوان

سب کے سب آثار کچھ کہہ رہے ہیں تو وہ یہی کہ اسلام ہی آئندہ کا متبادل ہے جوکہ اُس فساد کی جو کہ جاہلیت نے زمین میں ڈال دیا ہے اصلاح کرے گا۔

:کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

دعوت کا منہج کیا ہو

آخری قسط

"دعوت کا منہج" مکمل کتابی شکل میں شائع  ہوچکا ہے۔ آن لائن پڑھنے یا ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

مستقبل پر ایک نظر

 

محمد قطب

 

    ہمارے بہت سے اصحاب صورتِ موجودہ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو پریشان ہو جاتے ہیں، چاہے وہ اس وحشتناک جنگ کو دیکھ کر ہو جو کہ ہر خطے میں اس وقت اسلامی تحریکوں کے خلاف روا کر لی گئی ہے اور چاہے وہ ان اغلاط کو دیکھ کر ہو جن کا خود ان اسلامی تحریکوں کی جانب سے ارتکاب ہوتا رہا ہے یا ابھی تک ہو رہا ہے۔ تب وہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ اسلامی تحریک کا کوئی مستقبل نہیں اور یہ کہ وہ ناگفتہ بہ صورتحال جس سے مسلمان آج دوچار ہیں ویسی ہی ناگفتہ بہ رہے گی یا پھر شاید اس سے بھی بُری صورتحال اختیار کرلے گی۔

    البتہ ہم یقین جازم رکھتے ہیں کہ مستقبل اسلام کا ہے۔

    ہمارے تصورات وہم پر مبنی نہیں۔ خوابوں پر مشتمل نہیں۔ نہ ہم ان بڑے بڑے بحرانوں سے ہی صرف نظر کرتے ہیں جو اسلام کیلئے کئے جانے والے کام کو اندرون اور بیرون سے لاحق ہیں ہم ان بحرانات اور ان خطرات کی سنگینی کو گھٹا کر بھی ہرگز نہیں دیکھتے اور ان کی اسلام کیلئے کئے جانے والے کام پر جو زد پڑتی ہے اس کی اہمیت بھی کم نہیں کراتے۔

    مگر ہمارا ایمان ہے کہ حالات کی زمام کار انسانوں کے ہاتھ میں نہیں۔ دوست اور نہ دشمن کسی کا ان پر اختیار نہیں۔ زمام کار خدا کے ہاتھ میں ہے اور مشئیت اسی کی۔ اسی کی تدبیر غالب رہتی ہے۔ واﷲ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا یعلمون (یوسف: ٢١) اللہ اپنے معاملے پر غالب رہتا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں''۔

    یہ اللہ ہی ہے کہ جس نے مقدر ٹھہرا دیا ہے کہ یہ دین زندہ و پائندہ رہے اور کرہء ارض کے ہر دین پر غالب رہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (الصف: ٩) ''وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کوہدی ٰ اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے ہر دین پر غالب کردے، اگرچہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو''۔

    لیبلغن ھذا الامر ما بلغ اللیل والنہار: ''اس (دین کا) معاملہ وہاں تک پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی پہنچ ہے''۔ (مسند احمد)

    خدا کا ٹھہرایا ہوا البتہ رو پذیر ہو کر رہتا ہے، اس کی سنتوں اور قانونوں کی راہ سے جو کہ بدلتے ہیں اور نہ چوکتے ہیں۔ خدا کا ٹھہرایا ہوا رو پذیر ہوتا ہے اس کے وعد اور وعید کی راہ سے اور اس کی مشیئت کی راہ سے جو کہ مطلق آزاد ہے اور جسے روبہ حقیقت ہونے کیلئے کن فیکون کی دیر ہوتی ہے اور جو کہ ان اسباب کو آپ سے آپ پیدا کر لیتی ہے جن کی راہ سے کسی چیز کو جب وہ ٹھہرا دی جائے روپذیر ہونا ہوتا ہے۔

 

************

 

    ان خدائی سنتوں کی رو سے جب ہم معاملے کو دیکھتے ہیں اور خدائی وعدہ و و عید کی رو سے معاملے کو نگاہ میں لاتے ہیں تو میدان میں ہم دو عنصر پاتے ہیں جو کہ باہم برسرجنگ ہیں۔ ایک طرف اسلامی قوتیں ہیں اور دوسری طرف دشمنانِ اسلام ہیں، وہ چاہے صہیونی ہوں چاہے صلیبی اور چاہے ان کے حلیف۔ ان دو متحارب عناصر کی بابت مستقبل قریب یا مستقبل بعید میں کیا توقع کی جانا چاہئے ؟

    جہاں تک اسلامی قوتوں کا تعلق ہے، تو بلاشک وشبہہ یہ اسلامی عمل کی اٹھان کیلئے ایک بڑی محنت کر چکی ہیں۔ پورے عالم اسلام کی سطح پر اور پوری اُمت کے وجود کے اندر اسلامی روح کے عود کر آنے میں ان قوتوں اور تحریکوں کا ایک بڑا حصہ ہے۔ آج مسلم نوجوانوں کی دُنیا میں اسلام کی جانب واپسی کے جو جذبات موجزن ہیں اور دین سے تمسک کی جانب ایک بڑے اعتماد کے ساتھ ان کے قدم اٹھتے ہیں تو یہ حقیقت خدا کے فضل اور مشیئت کے بعد ان تحریکوں کی سعی وجہد ہی کی مرہون منت ہے جو سقوط خلافت سے لے کر اب تک سات آٹھ عشرے سے ہوتی رہی ہے۔

    مگر کچھ نقصان دہ امور جو اسلامی کام کے اندر پائے گئے وہ اپنی جگہ ایک بڑی رکاوٹ رہے ہیں جو کہ محنت اور توانائی کو بڑی حد تک بے سمت اور بے اثر کر دینے کا باعث ہے اور عمل کے اندر ترکیز اور اثر اندازی نہ آنے دینے کا سبب۔

     تو کیا معاملہ یونہی چلتا رہے گا؟

    قُل لَّا يَعْلَمُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ (النمل: ٦٥)

    ''کہو : کوئی بھی جو آسمانوں میں ہے یا زمین میں غیب نہیں جانتا، سوائے اللہ''۔

    تاہم دو ہی امکان ہیں جو کہ پائے جا سکتے ہیں، یا معاملہ اسی ڈگر پر چلتا رہے، اور یا پھر تبدیل ہو جائے۔

    ہم البتہ جس چیز کی اُمید کرتے ہیں وہ یہ کہ ان تلخ حقائق اور تجربات کی روشنی میں کہ جس سے دینی عمل گزر آیا ہے، معاملہ تبدیل ہو کر صحیح صورتحال کی جانب آئے، غلطیوں کی تصحیح اور تلافی کر لی جائے اور ایک صحیح درست منہج پر ازسرنو جادہ پیما ہوا جائے۔

    مگر چلئے ہم ان میں سے بدتر احتمال ہی فرض کر لیتے ہیں۔ یعنی یہ کہ دعوت کے میدان میں حالیہ سرگرم حلقے اپنے اپنے مؤقف پر ہی ڈٹے رہتے ہیں یہ گمان کرتے ہوئے کہ ان میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا منہج ہی درست ترین منہج ہے اور باقی سب جو منہج اپنائے ہوئے ہیں بعید از صواب ہیں، یا یہ بنیاد اختیار کرتے ہوئے کہ ان میں سے ہر تحریک اپنے اپنے راستے میں اب جتنا طویل راستہ طے کر آئی ہے وہ اتنا زیادہ ہے کہ واپسی کی اب کوئی صورت نہیں، یا پھر کوئی اور بنیاد اختیار کرتے ہوئے جس کے ذریعے ہر تحریک اپنے اپنے حالیہ مؤقف اور طرز عمل کیلئے وجہ جواز ڈھونڈلے۔

    پھر بھی کیا ہوگا؟ کیا یہ بات خدا کو عاجز کر دینے والی ہے؟ خدا کا ٹھہرا ہوا پورا ہونے پہ آئے تو انسانوں کا اتفاق اور عدم اتفاق غیر متعلقہ ہو جاتا ہے۔

    'تبدیلی' کا سامان خدا کی سنتوں میں ہمیشہ ہی موجود رہتا ہے: وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ (محمد: ٣٨) ''اگر تم پھر جاؤ تو اللہ تمہاری بجائے کسی اور قوم کو لے آئے گا جو پھر تم جیسے نہ ہوں گے''۔

    خدا کا اگر یہ فیصلہ ہے کہ اس دین کو زندہ و پائندہ رہنا ہے اور یہ کہ وہ اسے ہر دین پر غالب کرکے رکھے گا، جیسا کہ اس نے اپنی نازل کردہ کتاب میں فرما رکھا ہے، اور اپنی رسول صل اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی مختلف پیرایوں میں ہمیں یہ خبر دے رکھی ہے، تو پھر اس وقت دینی کام میں پائے جانے والے منفی عوامل خدا کی اس مشیئت کی راہ میں کھڑے نہیں ہو سکتے۔ اللہ اپنا وعدہ پورا کرکے رہے گا اور اس کے روبہ عمل آنے کے سب اسباب وہ خود پیدا کر لے گا۔ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا(الطلاق: ٣) اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ اللہ نے ہر چیز کے لیے ایک تقدیر مقرر کر رکھی ہے۔ اسی طرج اللہ تعالی فرماتا ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللّهِ وَلاَ يَخَافُونَ لَوْمَةَ لآئِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاء وَاللّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ  (المائدہ: ٥٤) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے(تو پھر جائے)اللہ اور بہت سے لوگ ایسے پیدا کر دے گاجو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہو گا، جو مومنوں پر نرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گےاور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔

 

**********

 

    رہے اعداء، تو آئیے دیکھتے ہیں خدا کی سنتوں اور اس کے وعدو وعید میں سے کیا کیا کچھ ان پر لاگو ہوتا ہے۔

    جہاں تک صلیبی مغرب کا تعلق ہے تو خدائی سنتوں میں سے سب سے بڑھ کر جو چیز اُن پر منطبق ہوتی ہے تو وہ ہے: فلَمّا نَسُوا ماذُکّرُوا بہ فتحنا علیہم اَبواب کلّ شيءٍ (الانعام: ٤٤) پھر جب انھوں نے اس نصیحت کو جو انہیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے۔

    یہ اس لئے کہ دُنیا اُن کی منتہائے آرزو تھی اور یہی ان کی تمام تر سعی کا محور، جس کیلئے انہوں نے خوب خوب محنت کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی اس محنت اور سعی کے بھر بھر کے بدلے دیئے، جو کہ عین اس کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے: مَن كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لاَ يُبْخَسُونَ  (ھود: ١٥) جو لوگ بس اس دنیا کی زندگی اور اس کی خوش نمائیوں کے طالب ہوتے ہیں ان کی کار گزاری کا سارا پھل ہم یہیں انہیں دے دیتے ہیں اور اس میں ان کے ساتھ کوئی کمی نہیں کی جاتی۔

اور جو کہ خدائی مشیئت کے عین مطابق ہے، یعنی یہ کہ دُنیا وہ مومن اور کافر ہر دو کو اس کی محنت وسعی کے بقدر دے دے گا اور یہ کہ اس دُنیا کو وہ کافروں سے روک کر نہ رکھے گا، بلکہ کسی وقت تو وہ ان کو کچھ زیادہ ہی دے دے گا تاکہ وہ کچھ اور بھی زیادہ کفر کرلیں: كُلاًّ نُّمِدُّ هَـؤُلاء وَهَـؤُلاء مِنْ عَطَاء رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُورًا(بنی اسرائیل: ٢٠) اِن کو بھی اور اُن کو بھی، دونوں فریقوں کو ہم (دنیا میں)سامان زیست دیے جا رہے ہیں، یہ تیرے رب کا عطیہ ہے ، اور تیرے رب کی عطا کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ(آل عمران: ١٧٨) یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اِس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔

پس آج اگر مغرب کو زمین میں تمکن حاصل ہے، اور وہ یہاں اپنے آپ کو برتر سمجھتا ہے، جو کہ خدائی سنتوں کے بموجب ہو رہا ہے، تو یہ خدائی سنتیں ہی ہمیں یہ بھی بتاتی ہیں کہ کسی کو یہاں تا ابد مواقع اورمہلتیں نہیں ملا کرتی ہیں۔ کفر کے وارے نیارے ایک وقت تک ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد جب وقت آجاتا ہے تو خدا کا ٹھہرایا ہوا کچھ اور روپذیر ہو جاتا ہے:فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ ، فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (الانعام: ٤٤،٤٥) پھر جب انھوں نے اُس نصیحت کو جو انھیں کی گئی تھی بھلا دیا تو ہم نے ہر طرح کی خوش حالیوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیے، یہاں تک کہ جب وہ ان بخششوں میں جو انھیں عطا کی گئی تھیںخوب مگن ہو گئے تو اچانک ہم نے انھیں پکڑ لیا اور اب حال یہ تھا کہ وہ ہر خیر سے مایوس تھے۔اِس طرح اُن لوگوں کی جڑ کاٹ کر رکھ دی گئی جنھوں نے ظلم کیا تھا اور تمام تعریف ہے اللہ ربّ العالمین کے لیے(کہ اُس نے اُن کی جڑ کاٹ دی)

مگر جس وقت ان پر دُنیا کے سب دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اس وقت بھی وہ تنگیِ زیست سے دوچار ہوتے ہیں جو کہ خدا کی جانب سے ہر اس شخص کیلئے دنیوی وعید ہے جو اس کی جانب سے آئے ہوئے پیغام سے اعراض برتے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى  (طہ: ١٢٤) اور جو میرے ''ذِکر''(درسِ نصیحت)سے منہ موڑے گا اُس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے۔ 

مغرب، جس پر آج مادی تمکن کے سب دروازے وا کر دیئے گئے ہیں، جس تنگیِ زیست سے دوچار ہے وہ ہے وہاں پایا جانے والا ذہنی اضطراب، نفسیاتی عارضے، خود کش رجحانات، اعصابی امراض، کثرتِ شراب نوشی، منشیات اور جرائم، ایڈز اور نئے سے نئے پیدا ہونے والی وبائیں اور آفتیں اورا مراض جو آج سے پہلے پائے ہی نہ جاتے تھے یا کم از کم وباؤں کی صورت اختیار نہ کرتے تھے، علاوہ ازیں معاشی، سیاسی، جنگی اور فکری بحران۔۔۔۔۔۔ وجہ یہ کہ برکت اور اطمینانِ قلب کا دروازہ ان دروازوں میں شامل نہیں جو کفار پر اس وقت جب وہ خدائی پیغام کو بھلا ڈالتے ہیں، چوپٹ کھول دیئے جاتے ہیں۔ 'برکت' اور 'اطمینانِ قلب' کے دروازے بہرحال اہل ایمان ہی کے ساتھ خاص ہیں جن کی راہ سے اللہ اہل ایمان پر نعیمِ آخرت سے پہلے اس عالمِ دُنیا میں بھی اپنا فضل کرتا ہے: وَلَوْ اَنّ اَھلَ القُریٰ آمَنوا َواتّقَوْا لَفتَحْنا علَیْہِم برکٰتٍ مِنَ السماء والارض (الاعراف: ٩٦) اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم اُن پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے ۔۔۔۔۔۔

    الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ۔ الَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ طُوبَى لَهُمْ وَحُسْنُ مَآبٍ (الرعد: ٢٨، ٢٩) اور اُن کے دلوں کو اللہ کی یاد سے اطمینان نصیب ہوتا ہے۔خبر دار رہو! اللہ کی یاد ہی وہ چیز ہے جس سے دلوں کو اطمینان نصیب ہوا کرتا ہے۔ پھر جن لوگوں نے دعوتِ حق کو مانا اور نیک عمل کیے وہ خوش نصیب ہیں اور اُن کے لیے اچھا انجام ہے۔

    مختصر یہ کہ مغرب کو آج مادی قوت کے سب وسائل حاصل ہیں مگر وہ اس حالت کو باقی رکھنے کی قدرت بہرحال نہیں رکھتا کیونکہ وہ ان عوامل سے تہی دامن ہے جنہیں رکھنے والوں کیلئے اللہ تعالیٰ پائندگی لکھ دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور جو کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے اور عملِ صالحات۔۔۔۔۔۔

    بلاشبہہ ان لوگوں کے ہاں اعمالِ صالحہ بھی پائے جاتے ہیں مانند سماجی خدمات، انسانی بقاء کیلئے طبی خدمات، زندگی کی راہیں آسان کرنے کے کئی ایک مظاہر جو کہ عالمِ انسان کو بعض تنگیوں اور مشقتوں سے نجات دلاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔ مگر بات یہ ہے کہ تاریخ میں جو بھی جاہلیتیں گزر چکی ہیں ان میں سے کوئی جاہلیت بھی اعمالِ صالحہ سے یکسر خالی نہیں رہی اور اس کے بہت سے افراد کئی اچھے کام کرتے ہی رہے ہیں۔ مگر ایک تو، صرف اس امر کے سبب اس سے جاہلیت کی صفت ساقط نہیں ہو جاتی، کیونکہ جاہلیت کی صفت انسان سے اس وقت تک نہیں جاتی جب تک کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لے آتا اور جب تک کہ وہ 'ما انزل اﷲ' کا اتباع اختیار نہیں کر لیتا اور دوسرا، ایک سیاہ لبادے پر، جو کہ شر سے پُر ہے، پائے جانے والے منتشر سفید نقطے جتنے بھی سراہے جائیں لبادے کی حقیقت بدل ڈالنے کے معاملے میں کفایت نہیں کرتے اور یہ جاہلیت اپنے روا رکھنے والے کو خدائی سنتوں سے تحفظ دلانے کی بھی ضمانت نہیں، خواہ مہلت کا عرصہ کتنا ہی دراز کیوں نہ ہو جائے۔

    وہ الحاد جو آج کی مغربی تہذیب دُنیا کے اندر پھیلا رہی ہے، وہ اخلاقی پستی اور غلاظت جو اس کے ذرائع ابلاغ نشر کر رہے ہیں، شہوانیت میں غرق ہو جانے کی جو تحریک اس نے چلا رکھی ہے، زندگانی دُنیا کو مزین کرکے پیش کرنے اور آخرت کو فراموش کرانے کی سعی جس سطح پر یہ کر رہی ہے اور 'خدا' کو ہر حساب کتاب سے باہر رکھنے اور خدا کی اس صفت کو کہ وہ انسان کے ہر ہر عمل کو دیکھتا اور لکھتا ہے اور اس کی ہر ہر حرکت کا عنقریب حساب کرنے والا ہے، یکسر بھلا دینے کی جو فضا اس کے زیرانتظام قائم ہوئی ہے اور مسلسل روبہ ارتقا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سب وہ باتیں ہیں جو ایک تہذیب کو اس قابل نہیں رہنے دیتیں کہ اللہ اس کو زمین میں پائندہ رکھے، اگرچہ وہ اس کو مہلت دے اور مہلت کا یہ عرصہ، جس قدر اس کی حکمت کا اقتضا ہو، دراز کردے۔

    اور یہ صرف ہم نہیں جو اپنے 'جذبات' کے زیر اثر یا محض اپنے 'خوابوں کی تعبیر' کے طور پر یہ بات کرتے ہیں۔ کچھ عشرہ بیشتر برٹرنڈ رسل کہہ چکا ہے: ''گورے کی تہذیب ختم ہوئی۔ کیونکہ گورے کے پاس دینے کیلئے اب کچھ باقی نہیں رہا''۔

    اس سے پہلے الکسیس کا ریل کہہ چکا ہے: ''یہ تہذیب بہت جلد اپنے سقوط کو پہنچنے والی ہے''۔

    کل ابھی ہم کمیونزم کے زمیں بوس ہونے کا نظارہ کر آئے ہیں۔ اب آج یہ حال ہے کہ مغربی جرائد ہی، جن میں کہ امریکی جرائد بھی آتے ہیں، یہ بحثیں کر رہے ہیں کہ کیا امریکہ کا زوال شروع ہو چکا ہے ؟

    البتہ ہم اتنے سادہ بھی نہیں کہ یہ سوچنے لگیں کہ یہ واقعہ کل صبح تک رونما ہو چکا ہوگا۔ بلاشبہہ اس جاہلی تہذیب کو اب بھی کچھ ایسے عوامل حاصل ہیں جو خدائی سنتوں کی رو سے اس کی عمر میں ابھی کچھ اور توسیع کراتے رہیں: منظم عمل کی حیران کن صلاحیت، کام کرنے میں بلا کی محنت اور مہم جوئی، پر فارمنس میں عمدگی اورمعیار قائم رکھنے کی شدید لگن اور منصوبہ بندی کی زبردست صلاحیت رکھنا۔۔۔۔۔۔ اور ان سب باتوں سے پہلے، اس ''تہذیبی متبادل'' کا ابھی منصہء شہود پر ہی نہ آیا ہونا جس کا ظہور اس تہذیب کے سقوط میں تیزی لے آنے کا سبب بنے!

    مگر یہ سب باتیں ایک حتمی انجام کو صرف مؤخر کر سکتی ہیں، ٹال نہیں سکتیں، کیونکہ ایسی تہذیبوں کا گر جانا خدائی سنتوں میں سے ایک سنت ہے۔

 

***********

 

    اور جہاں تک یہود کا معاملہ ہے، تو وہ اور بھی مختلف ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے ان پر ذلت اور مسکنت لکھ دی ہے، جو کہ ان کے اپنے ہی کئے کے سبب ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کیلئے اس معاملے میں استثناء یا پھر استثناء ات بھی رکھ دی ہیں: وَقَضَيْنَا إِلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًاً، فَإِذَا جَاء وَعْدُ أُولاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُوْلِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُواْ خِلاَلَ الدِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولاً، ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا، إِنْ أَحْسَنتُمْ أَحْسَنتُمْ لِأَنفُسِكُمْ وَإِنْ أَسَأْتُمْ فَلَهَا فَإِذَا جَاء وَعْدُ الآخِرَةِ لِيَسُوؤُواْ وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُواْ الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُواْ مَا عَلَوْاْ تَتْبِيرًا، عَسَى رَبُّكُمْ أَن يَرْحَمَكُمْ وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا (بنی اسرائیل: ٤-٨) پھر ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کر دیا تھاکہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سر کشی دکھاؤ گے ۔ آخر کار جب اُن میں سے پہلی سر کشی کا موقع پیش آیا، تو اے بنی اسرائیل ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے۔یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کرہی رہنا تھا۔اِس کے بعد ہم نے تمہیں اُن پر غلبے کا موقع دے دیا اور تمہیں مال اور اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔دیکھو! تم نے بھلائی کی تو وہ تمہارے اپنے ہی لیے بھلائی تھی، اور برائی کی تو وہ تمہاری اپنی ذات کے لیے برائی ثابت ہوئی۔پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے دوسرے دشمنوں کو تم پر مسلط کیا تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور مسجد(بیت المقدس)میں اُسی طرح گھس جائیں جس طرح پہلے دشمن گھسے تھے اور جس چیز پر اُن کا ہاتھ پڑے اُسے تباہ کر کے رکھ دیں۔ہو سکتا ہے کہ اب تمہارا رب تم پر رحم کرے، لیکن اگر تم نے پھر اپنی سابق روش کا اعادہ کیا تو ہم بھی پھڑ اپنی سزا کا اعادہ کریں گے۔۔۔۔۔۔

اسی طرح ایک اور مقام پر یہودیوں پر ذلت اور رسوائی کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (آل عمران: ١١٢) یہ جہاں بھی پائے گئے اِن پر ذلت کی مار ہی پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔

اب اس وقت وہ اپنی ان اشتناؤں کے عروج پر ہیں جن کا اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ قریب قریب پوری دُنیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ حکمرانوں کو مہروں کی طرح چلاتے ہیں۔ اپنی پالیسیاں ان پر مسلط کرتے ہیں۔ جس سے ناراض ہو جائیں اس کو بے تاج بھی کر دیتے ہیں۔ جو ان کے راستے میں آئے اسے قتل تک کرا دیتے ہیں، کینیڈی ایسے صدر کو نہیں بخشتے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ جتنا کچھ بھی ہے محض ایک قاعدے سے 'استثنا' ہے! وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِِ (الاعراف: ١٦٧) اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے اعلان کر دیا کہ''وہ قیامت تک برابر ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو اُن کو بد ترین عذاب دیں گے''۔ 

دائمی قاعدہ یہی ہے۔ اس کے سوا جو ہے وہ بس 'استثناء' ہے۔ 'استثناء' کی خاصیت یہ ہوا کرتی ہے کہ وہ دائمی نہ ہو کیونکہ وہ قاعدے کے خلاف آیا کرتا ہے !

    قاعدہ خدا کا ٹھہرایا ہوا ہوتا ہے۔ استثناء بھی اس کا ٹھہرایا ہوا ہوتا ہے۔ مگر استثناء اپنا وقت پورا کرتا ہے تو معاملہ پھر دائمی قاعدہ پر ہی آرہتا ہے جو کہ خدائی وعدہ و وعید کا تقاضا ہو۔

    ہو سکتا ہے ہم ان استثناؤں کے پیچھے کارفرما خدا کی حکمت کا ادراک نہ کر پائیں جو کہ آیاتِ کتاب میں ذکر کر دی گئیں لیکن ان کا وقوع ہونا بہرحال طے ہے چاہے ہم ان کی حکمت سمجھیں یا نہ البتہ یہ ادراک ضروری ہے کہ ہے یہ قاعدہ سے استثناء اور یہ کہ یہ استثناء ایک خاص وقت تک ہی رہ سکتا ہے۔

    یہود خود یہ بات جانتے ہیں۔ کسی اور مصدر سے نہیں خود اپنی ہی کتابوں سے !

 

********

 

    اب معاصر جاہلیت بہ مقتضائے سنت خدواندی اور اپنے اس فساد کے سبب جس کا یہ عالم میں ذریعہ بنی رہی ہے روبہ خاتمہ ہوگی تو انسانیت کو ایک متبادل کی ضرورت ہوگی جو اس خلا کو پُر کرے۔

    'متبادل' اسلام کے سوا کیا رہ گیا ہے؟ اسلام ہی ہے جو زمین پر بھلائی کا دور واپس لے آئے، اہل زمین کو عافیت اور شفائے امراض کی راہ پر گامزن کر سکے:يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ كَثِيرًا مِّمَّا كُنتُمْ تُخْفُونَ مِنَ الْكِتَابِ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ قَدْ جَاءكُم مِّنَ اللّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُّبِينٌ ٌ،يَهْدِي بِهِ اللّهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهُ سُبُلَ السَّلاَمِ وَيُخْرِجُهُم مِّنِ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ بِإِذْنِهِ وَيَهْدِيهِمْ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ(المائدہ: ١٥۔ ١٦) ''اے اہل کتاب ہمارا رسول تمہارے پاس آ گیا ہے جو کتابِ الٰہی کی بہت سی اُن باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے در گزر بھی کر جاتا ہے۔تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نُما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے اُن کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف اُن کی رہنمائی کرتا ہے''۔

اسلام ہی وہ کامل اور قدیم منہج ہے جس میں کہیں بھی کوئی ٹیڑھ نہیں جبکہ جاہلیت کے سب مناہج کہیں نہ کہیں ٹیڑھے ہو جاتے ہیں اور خلقت سمیت ڈوبتے ہیں۔

    اس وقت بھی یہ حالت ہے کہ ہر سال لاکھوں انسان ان ظلمتوں اور تاریکیوں سے بھاگ کر جن میں وہ آج تک قید رہے اسلام کی روشنی میں پناہ لینے لگے ہیں۔ کچھ اس وجہ سے نہیں کہ مسلمانوں کی صورت میں انہیں اسلام کا کوئی ایک زندہ نمونہ نظر آرہا ہے اور وہ اس کی پیروی کرنے آتے ہیں، آج کی اس صورتحال میں مسلمان کسی معاشرتی سطح پر ایسا نمونہ پیش کر ہی نہیں رہے جس کی کشش میں لوگ اسلام کی طرف آئیں بلکہ وہ نمونہ تو جو مسلمانوں کی جانب سے پیش کیا گیا ہے الٹا لوگوں کو اسلام سے برگشتہ کر دینے والا ہے۔۔۔۔۔۔ پس یہ لوگ جو آج اسلام کی جانب آرہے ہیں اس سرگردانی اور بے مقصدیت کے ڈسے ہوئے ہیں جس سے خلاصی پانے کیلئے وہ اپنے ماحول سے بھاگتے ہیں تو انہیں اسلام میں پناہ نظر آتی ہے۔

    مغرب کے پاس سائنس ہے اور مادی فوقیت ہے۔ مگر روح سے عاری ہے۔۔۔۔۔۔ روح جو کہ خدا کا پتہ مانگتی ہے اور خدا کی ہدایت سے راہ پاتی ہے۔ یہ روح اسلام کے پاس ہے۔ اسلام کا حسن البتہ یہ ہے کہ وہ اس روح کو سائنس اور مادی ترقی کا 'متبادل' بھی نہیں بناتا بلکہ ان دونوں کو 'جڑواں' بناتا ہے جو ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں اور زمین پر ایک 'مکمل تہذیب' کی اساس رکھتے ہیں: إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِن طِينٍ  فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (ص: ٧١۔ ٧٢) جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا 'میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں،پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جاؤ'۔

'قبضہء خاک' اور 'نفخہء روح' مل کر 'انسان' کو وجود دیتے ہیں۔ انسان کی تکمیل انہی دو عنصروں میں ہم آہنگی آجانے کی مرہون منت ہے۔ یہیں سے وہ 'ہدایت یافتہ انسان' برآمد کرایا جا سکتا ہے جو بصیرت اور راستی کی بنیاد پر یہاں زمین کی تعمیر کرے اور عین اس عمل کے دوران اس کی نگاہیں یوم آخرت پر مرکوز ہوں۔ 'زندگی' انہی دو سمتوں سے تشکیل پاتی ہے: هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ ُ (الملک: ١٥) 'وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے،چلو،اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے' ۔ اسی ورح فرمایا: وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا (القصص: ٧٧) 'جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر'۔

    وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُُ (التوبہ:٧٢) ''ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کام یابی ہے''۔

    اسلام ہی وہ نجات دہندہ ہے جس کے پاس وہ سب کچھ ہے جس کی کہ انسانیت آج ضرورت مند ہے اور جس کیلئے یہ بے حال ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔

    برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس برطانوی وزارت خارجہ کے سیمینار ہال میں ایک پرمغز لیکچر دیتے ہیں (بہ تاریخ دسمبر ١٩٩٦ء) جس میں کہ وہ امکانات جو ابھی اوپر بیان ہوئے نہایت کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ شہزادہ چارلس کے لیکچر میں کہا گیا: ''دور حاضر کی اس مادیت کو توازن کا ایک شدید فقدان لاحق ہے۔اس کے دور رس ضرر رساں مضمرات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ پچھلی تین صدیوں کے دوران ___ کم از کم مغرب کے اندر ___ ہم اس معاملہ میں منقسم ہوچکے ہیں کہ اپنے وجود اور گرد وپیش کی دُنیا کو کیونکر دیکھا جائے۔ سائنس نے ہماری عقول پر کچھ ایسی اجارہ داری بلکہ استبدادی سطوت قائم کرلی ہے کہ کائناتی وجود کو دیکھنے کیلئے ہمارے پاس بس اب یہی طریقہ باقی رہ گیا ہے۔ سائنس اور ایمان کے راستے ہمارے ہاں جدا جدا ہو گئے ہیں۔ اور اب ورڈرز ورتھ کے بقول ہماری وہ حالت ہو گئی ہے کہ ہم اس مادرِ قدرت mother nature کا وہ بہت ہی چھوٹا سا حصہ دیکھنے کے قابل رہ گئے ہیں جو ہمارے سامنے ہی آجائے۔

    سائنس کوشش کرنے لگی ہے کہ 'نیچر' کو 'خالق' سے تنہا کر دے جس سے کہ وجود کے حصے بخرے ہو گئے۔ 'مقدسات' کو ہمارے شعور کی مملکت میں ایک بہت ہی ثانوی حیثیت دے کر دور دراز گوشے میں محدود اور ہماری روزمرہ زندگی سے لاتعلق کر دیاگیا ہے۔ اب جا کر ہی ہم اس کے تباہ کن نتائج کا اندازہ کرنے لگے ہیں۔ لگتا ہے ہم ___ فرزندانِ عالمِ مغرب ___ وجود کا ایک جامع مفہوم رکھنے سے ہی محروم ہو گئے ہیں اور اس وسیع کائنات میں جو کہ خدا کی تخلیق ہے اپنے کردار اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے ہی قابل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اب ہم پچھلے زمانوں سے چلے آنے والے ورثے اور زمانہء قدیم سے انسان کے ہاں پائی جانے والی حکمت اور دانائی کی قدر کرنے بلکہ اس کا ادراک کرنے تک میں ناکام ہو رہے ہیں جبکہ وہ انسانی ورثہ طویل صدیوں پر مشتمل ہے۔ سچ یہ ہے کہ اس ورثہ کی ہمارے ہاں شدید مخالفت پائی جاتی ہے، گویا یہ کوئی قابل نفرت کوڑھ پن ہے جو معاشرہ کی سطح پر پایا گیا۔

    میری نظر میں، بہت ضروری ہے، کہ وجود کی ایک کلی اور جامع تفسیر کی جائے۔ سائنس نے ایک خدمت ہماری بہت اچھی کر دی ہے اور وہ یہ کہ اس نے ہمیں اندازہ کرایا کہ یہ کائنات اس سے کہیں عمیق تر اور پیچیدہ تر ہے جتنی کہ اس سے پہلے ہم سمجھتے تھے۔ البتہ سائنس اپنی اس مادی صورت میں یکطرفہ طور پر، ہمیں ہر چیز کی تفسیر کرکے نہیں دے سکتی۔ اس دُنیا کے خالق کو محض کسی ریاضی دان سے تشبیہہ دینا درست نہیں جیسا کہ نیوٹن کا خیال تھا۔ اس کو محض گھڑیال ساز (1) کی حیثیت دے لینا کافی نہیں۔ وہ جدائی جو سائنس وٹیکنالوجی کے مابین اور قدروں اور اخلاقی پیمانوں اور مقدسات کے مابین ڈال دی گئی ہے آج وہ اپنی ایک خوفناک صورت کو پہنچ چکی ہے۔ جس کے مظاہر کبھی ہم جینیات (genetics) میں انسانی مداخلت کی صورت میں دیکھتے ہیں اور کبھی ٹیکنالوجی کے پیدا کردہ اس گھمنڈ میں جو اپنی ایک بدترین صورت میں گائیوں کے باؤلے پن کی صورت میں ہمارے سامنے آجاتا ہے۔

    میں ہمیشہ سے یہ محسوس کرتا رہا ہوں کہ انسانی ورثہ و ترقی انسان کی اپنی تخلیق نہیں بلکہ یہ ایک فطری الہام ہے جو کائنات کا خالق ہم پر کرتا رہا ہے کہ ہم قدرت کے راز پائیں اور اُس ہم آہنگی کا ادراک کریں جو (اس کی تدبیر سے) متفرق اجزا میں ایک خوبصورت ربط لے آتی ہے اور یہ بات سب کے سب مظاہرِ قدرت پر صادق آتی ہے۔ انسانی سفر میں جو راستے سمیٹے گئے وہ ہمیں اس راز کا پتہ دیتے ہیں جو کائنات کے اندر ایک ابدی نظم کی عکاسی کرتا ہے اور جو کہ ہمیں دعوت دیتے ہیں کہ ہم اس ناپید اکنار کائنات کے پیچھے کارفرما کچھ عظیم حقائق کا ادراک کریں۔ تاکہ ___بقول ولیم بلیک ___ ایک پوری کائنات کو ایک 'ذرے' کے اندر دیکھ لینے کی صلاحیت پائیں اور زمانے کی وسعتوں کو ایک 'لمحہ' کے اندر۔۔۔۔۔۔

    البتہ اسلامی ثقافت نے اپنے تاریخی ورثہ کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے یہ سعی کی ہے کہ روحانیت اور جامعیت پر مبنی وہ نگاہ اس کے ہاں باقی رہے جو وجود کی ایک کلی تفسیر کرے۔ اسلامی ثقافت نے اپنی یہ صلاحیت کچھ اس انداز سے برقرار رکھی ہے جو ہمارے مغرب میں پچھلی کچھ نسلوں کے ہاں زمانے کا ساتھ دے پائی اور نہ تطبیق کے قابل رہی۔ اس سلسلہ میں عالم اسلام کے زاویہء نگاہ میں وہ بہت کچھ ہے جو کہ اس سے سیکھا جا سکتا ہے۔

    بلاشبہہ آج ہم ضرورت مند ہیں، مسلم معلموں کے جو ہمیں سکھائیں کہ جہاں ہم عقول کے ذریعے آگہی پاتے ہیں وہاں کس طرح ہم قلوب کے ذریعے بھی آگہی پانے کے قابل ہوں۔ کیا بعید یہ تیسرا میلینیم جو کہ آرہا ہے مثالی حد تک حوصلہ افزا ثابت ہو کہ ہم ان رشتوں کو تلاش کر سکیں۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ ہم پاس آیا ہوا یہ موقع گنوا نہ دیں کہ حقیقت اور وجود کو پورا دیکھنے کیلئے وہ زاویہ نگاہ جو ایک روحانی پہلو پہ سہارا کرتا ہے ہم (اہلِ مغرب) بھی آج اسے از سرِ نو دریافت کرسکیں''۔

 

***********

 

    اسلام ہی نجات دہندہ ہے اور اسلام ہی اب آئندہ متبادل۔۔۔۔۔۔ 

    خدائی تقدیر ایک غیبِ محض ہے مگر اُس کے کچھ آثار بھی کسی وقت نمایا ں ہو جاتے ہیں۔

    خدائی تقدیر اگر یہی تھی کہ یہ دین (اپنی تاریخی حیثیت میں) زمین کے اندر ایک قصہء ماضی بن رہے تو پھر وہ صلیبی مکر ومنصوبہ جو دولتِ عثمانی کے خاتمہ اور خلافت کے سقوط پر منتج ہوا تھا وہ اِس دین کو (اِس کی اُس تاریخی حیثیت میں) ایک داستانِ ماضی بنا دینے کیلئے بہت کافی تھا۔ بلکہ صیہونیت و صلیبیت نے تو اُس روز یہ سمجھ بھی لیا تھا کہ وہ اپنے اس صدیوں پرانے دشمن کو واقعتا زیر کر لینے کے بعد اُس کا کام تمام کر چکی ہے! مگر خدائی تقدیر کچھ اور نکلی۔۔۔۔۔۔ چند ہی سالوں میں اُن کے سامنے اسلامی بیداری کی تحریک کھڑی تھی!

    اس اسلامی بیداری سے جب صلیبیت و صیہونیت غضبناک اور حواس باختہ ہوئی تو پھر اِس پر قہر ڈھانے لگی۔۔۔۔۔۔ قید، تشدد، اذیت، قتل، گوشمالی، جو جو بس چلا کر گزری۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے کہ وہ دشمن جو اُس ضرب سے نہیں مرا جسے یہ کاری سمجھ چکی تھی اب اُس سے جان چھڑانے کا یہی طریقہ ہے۔ مگر خدائی تقدیر کچھ اور نکلی۔۔۔۔۔۔ اس ظلم و تشدد کے باعث یہ تحریک زمین کے سبھی خطوں کے اندر پھیل گئی !

    سب کے سب آثار کچھ کہہ رہے ہیں تو وہ یہی کہ اسلام ہی آئندہ کا متبادل ہے جوکہ اُس فساد کی جو کہ جاہلیت نے زمین میں ڈال دیا ہے اصلاح کرے گا۔

 

***********

 

    اسلام بہر حال آرہا ہے، خواہ دونوں میں سے جس راستے سے بھی آئے: خواہ اُس راستے سے جو پُر امن ہے، آہستہ رو ہے اور بتدریج آنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ جس کو کہ ہم خود ترجیح دیتے اور پسندیدہ جانتے ہیں اور اسی کے ہم داعی ہیں، خواہ اُس کے مرحلہء تمام کو پہچنے کیلئے کئی نسلیں درکار ہوں۔۔۔۔۔۔

    اور خواہ زور اور شدت کے راستے سے جسے کہ مغرب کی اپنی ہی حماقتیں اور پھر اسرائیل کی حماقتیں بھی، اور سے اور ہوا دے رہی ہیں!

    آج جو صلیبیت و صیہونیت کرہء ارض پر اقتدار رکھتی ہے، اپنی حماقتوں کے سبب خود اپنے مفادات کا بھی نقصان کر رہی ہے۔ جس وحشت سے یہ اسلامی تحریکوں پر ظلم ڈھا رہی ہے اس سے اسلام کیلئے کئے جانے والے کام کو ایسی نسلیں میسر آرہی ہیں جو کہ ان نسلوں سے کہ جن کے خلاف یہ اس وقت برسر جنگ ہے، کہیں زیادہ جفاکش، کہیں زیادہ لمبا چلنے والی، کہیں زیادہ ہوش مند اور کہیں زیادہ تجربہ کار ہوں!

    ان کے عقلاء اس سے پوری طرح باخبر ہیں۔ وہ اپنی قوموں کو اس سے خبردار بھی کرتے ہیں۔ مگر وہ بغض اور کینہ جو یہ دِلوں میں چھپائے ہوئے ہیں انہیں اس حقیقت سے اندھا کئے جا رہا ہے۔ اب یہ ہر نصیحت کے سامنے بہرے ثابت ہو رہے ہیں چاہے وہ نصیحت ان کے اپنے ہی عقلاء کی جانب سے آرہی ہو!

    یہ سب کچھ کسی خدائی تقدیر سے ہو رہا ہے اور کچھ خدائی سنتوں کے عین مطابق! وَسَكَنتُمْ فِي مَسَـاكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُواْ أَنفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الأَمْثَالَ وَقَدْ مَكَرُواْ مَكْرَهُمْ (ابراہیم: ٤٥۔ ٤٦) ''حالانکہ تم ان قوموں کی بستیوں میں رہ بس چکے تھے جنھوں نے اپنے اوپر ظلم کیا تھا اور دیکھ چکے تھے کہ ہم نے ان سے کیا سلوک کیا اور ان کی مثالیں دے دے کر ہم تمھیں سمجھا بھی چکے تھے۔ انھوں نے اپنی ساری ہی چالیں چل دیکھیں۔۔۔۔۔۔''

    تاریخ میں جتنے بڑے بڑے دھماکے ہوئے ہیں تو وہ تب جب دنیا کے سرکشوں نے کسی زور سے اٹھتی لہر کو دبا دینے کی کوشش کی۔ سرکش اس پر دباؤ بڑھاتے چلے جاتے ہیں کہ وہ ختم ہو کر رہ جائے۔ تب سرکشوں کا پیدا کیا ہوا وہ دباؤ ہی اس دھماکے کو وجود میں لے آنے کا سبب بن جاتا ہے جس کا کہ سرکش پھر خود ہی شکار ہو جاتے ہیں!

    آج صلیبیت اور صیہونیت ___ اپنی حماقت سے ___ جو کر رہی ہے یہ وہ اس خاص نوعیت کا دباؤ ہے جو کسی دھماکے کا پیش خیمہ بنا کرتا ہے۔

 

********

 

    پس ہم دیکھتے ہیں کہ تقدیر کی ایک ہی ضرب سے تین امور بیک وقت انجام پا رہے ہیں۔

(1)    اُمت مسلمہ کو اپنی اس تفریط اور کوتاہی پر جو وہ خدا کے دین کے حق میں کرتی آئی ہے، سزا مل رہی ہے۔

    خدا نے دراصل اس اُمت کو ایک ایسی امانت اٹھوائی ہوئی ہے جو کہ تاریخ میں اس سے پہلے کسی اُمت کو نہیں اٹھوائی اور وہ یہ کہ اس کو خاتم الانبیاء کی اُمت بنایا۔ دورِ ختم نبوت کی اُمت ہونا ہی وہ امانت ہے جو اس اُمت کو خیر امۃ بناتا ہے اور سابقہ اُمتوں پر اس کو فضیلت وبرتری دلواتا ہے: كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّهِ  (آل عمران: ١١٠) ''اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو''۔ 

    وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًاً (البقرۃ: ١٤٣) اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک 'امتِ وسط' بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو''۔

    مگر زمانے کا ایک عرصہ یوں گزرا کہ یہ اُمت (ایک بڑی سطح پر) اس امانت سے غافل پائی گئی۔ اپنا مشن بھول گئی، نہ صرف نوعِ انسانی سے متعلق اپنا مشن بھلا دیا بلکہ خود اپنے متعلق جو اس کا کوئی مشن تھا وہ بھی بھلا دیا۔۔۔۔۔۔ تب مشیئت الٰہی کو تقاضا ہوا کہ اسے دشمنوں کے ہاتھوں سزا دلوائی جائے، جس سے کہ اس اُمت کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خبردار کردیا تھا:

    یُوشِکُ اَنْ تَداعیٰ علیکم الاُمَمُ کماتداعیٰ الاَکْلۃ اِلیٰ قصعتھا قالوا: اَمِن قِلَّۃِ نَحن یَومَئِذٍ یا رسولَ اﷲ ؟ قال: ''بل اَنتم یَومَئِذٍ کثیر، ولٰکِنَّکم غُثاء کغُثاء السَّیْل، وینزِعَنَّ اﷲ المَھابَۃَ مِن صُدورِ اَعدائِکم، ولَیَقْذِفَنَّ فی قُلوبکم الوَھْن'' قالوا: وما الوَھْنُ؟ قال: ''حُبّ الدُّنیا وکَراھِیَۃ الموتِ'' ''عنقریب دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ پڑتے ہیں''۔ (صحابہ نے) عرض کی: کیا یہ اس لئے کہ اس روز ہم بہت تھوڑے ہوں گے، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم؟ فرمایا: نہیں بلکہ تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے مگر سطح آب پر خس وخاشاک کی طرح گھاس پھوس ہوگے۔ اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہاری ہیبت ختم کرا دے گا اور تمہارے دِلوں میں وہن ڈال دے گا، عرض کی 'وہن' کیا ہوگا اے اللہ کے رسول ؟ فرمایا: دُنیا میں دِل ہونا اور موت سے جی چرانا''۔

(2)    جس دوران اس اُمت کو اس کے دشمن کے ہاتھوں سزا دلوائی گئی، اس دوران اس دشمن کو زمین میں تمکین دلوا دی گئی، تاکہ ایک دوسری خدائی سنت ظہور میں آئے اور وہ یہ کہ خدا کے ساتھ کھل کھلا کر کفر کرنے والوں پر دُنیا کے دروازے کچھ دیر چوپٹ کھول دیئے جائیں اور اس خاص لمحے کے آنے تک جب ان کو زمین کے اندر اپنے کروفر، اپنے اعراض، اپنی سرکشی اور جبر وستم پر سزا دی جائے گی، او رجو کہ قیامت کی سزا کے علاوہ ایک سزا ہو سکتی ہے، اس لمحہ کے آنے تک ان کے زمین میں جرائم کرنے کا خوب خوب موقعہ دیا جائے: لِيَحْمِلُواْ أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلاَ سَاء مَا يَزِرُونَ (النحل: ٢٥) (یہ باتیں وہ اس لیے کرتے ہیں)''تاکہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے اٹھائیں اور ساتھ ساتھ کچھ اُن لوگوں کے بوجھ بھی سمیٹیں جنھیں یہ بر بنائے جہالت گمراہ کر رہے ہیں۔ دیکھو! کیسی سخت ذمہ داری ہے جو یہ اپنے سر لے رہے ہیں''۔

   وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهْمُ عَذَابٌ مُّهِينٌ (آل عمران: ١٧٨) ''یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیںاس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے''۔ 

(3)    پھر اسی دوران ہی، اس عمل کے نتیجے میں اہل ایمان کی تمحیص ہو جائے۔ یہ اپنے ایمان میں پختہ اور عمیق ہو جائیں اور آزمائش کے اس عمل سے گزر جائیں جس کے بعد ان کو ایک بڑی ذمہ داری اٹھوائی جاتی ہے: وَلِيُمَحِّصَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَمْحَقَ الْكَافِرِينَ  :(آل عمران: ١٤١) ''اور وہ اِس آزمائش کے ذریعہ سے مومنوں کو الگ چھانٹ کر کافروں کی سرکوبی کر دینا چاہتا ہے''۔

موسی علیہ السلام کا فرعون کے محلات میں رہ کر پرورش پانا اور پھر بعد کے کچھ مرحلوں سے گزرنا قدر خدواندی تھی۔ آج قدر خداوندی سے ہی، اس اُمت کے ہاں ایک نئی نسل کی پرورش ہو رہی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو 'خش وخاشاک' والی نسل کے بعد اٹھ رہی ہے اور جس کے اٹھنے کا سہرا کسی حد تک ان دشمنوں کو جاتا ہے جو اس دین کو صفحہء ہستی سے ختم کر دینے کیلئے منصوبے بناتے آئے ہیں: وَاللّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَـكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُونَ  (یوسف: ٢١) ''اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں''۔

 

********

 

    اب یہ جو سارا سفر باقی ہے، مسلمانوں کیلئے یہ کوئی تفریحی مہم بہرحال نہ ہوگا۔ یہاں قربانیاں ہوں گی۔ جانیں جائیں گی۔ کہرام، آزمائشیں، اذیتیں سب کچھ ہوگا۔ ایک مسلسل جہد ہوگی اور ایک ان تھک محنت:وَلِيَعْلَمَ اللّهُ الَّذِينَ آمَنُواْ وَيَتَّخِذَ مِنكُمْ شُهَدَاء (آل عمران: ١٤٠) ''اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سے سچے مومن کون ہیں، اور اُن لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی(راستی کے)گواہ ہوں''۔ 

    یعنی مسلمانوں کو وہ قیمت بھی دینا ہوگی جو کہ دین خداوندی کے حق میں ان کی ایک طویل سستی اور کوتاہی کے باعث ان پر حق بنتا ہے اور پھر وہ جہد بھی صرف کرنا ہوگی جو 'بھٹکے ہوئے آہو' کو اصل راہ پر چڑھ آنے کیلئے صرف کرنا ہوتی ہے۔

    مگر جس دوران وہ شہید دے رہے ہوں گے، عذاب سہہ رہے ہوں گے اور جبر ومشقت سے گزر رہے ہوں گے۔۔۔۔۔۔ اس سب کچھ کو سہہ جانے اور بھول جانے کیلئے جو چیز ان کو سہارا دے گی وہ یہ کہ اب وہ اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہیں، جس سے زمین میں اللہ کا کلمہ بلند ہو اور یہ کہ یہ خدائی تقدیر کا وہ پردہ ہیں جس کے پس منظر میں اس دین کو انسانی دُنیا میں پھر سے تمکین دلوائی جا رہی ہے۔

    جو چیز ان کو سہارا دے گی وہ یہ کہ ان کیلئے آخرت میں جنت ہے اور اللہ عزوجل کی رضا وخوشی: وَعَدَ اللّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَمَسَاكِنَ طَيِّبَةً فِي جَنَّاتِ عَدْنٍ وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللّهِ أَكْبَرُ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ(التوبہ:٧٢) ''ان مومن مردوں اور عورتوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ انھیں ایسے باغ دے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ان سدا بہار باغوں میں ان کے لیے پاکیزہ قیام گاہیں ہوں گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی خوشنودی انھیں حاصل ہو گی۔ یہی بڑی کام یابی ہے''۔

 

 

1۔ نیوٹن کا نظریہ تھا کہ خدا نے کائنات کو کسی بہت ہی باریک بیں گھڑی ساز کی طرح بنا کر چھوڑ دیا ہے۔ کائنات کی صورت میں ایک بہت بڑا گھڑیال بنا دینے والے خدا کیلئے نمازیں اور عبادتیں کرنے کی البتہ کوئی ضرورت یا افادیت نہیں۔ اس کے خیال میں گھڑیال ساز چاہے بھی تو اس کی حرکت کی جہتیں اب تبدیل نہیں کر سکتا۔

 

 

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز