استقامت
جلتے بھنتے اجسام اور رفعتیں پاتی ارواح ۔۔۔۔۔۔
اصحاب الاخدود
ماخوذ: فی ظلال القرآن
سید قطب
اصحاب الاخدود کا واقعہ جس طرح مفسرین نے سورت بروج کے ذیل میں بیان کیا ہے۔ اکثر قارئین کی نظر سے گزر چکا ہوگا۔ اس واقعہ کو سید قطب نے 'فی ظلال القرآن' میں جس خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے وہ نہ صرف دِلوں میں ایمان کا ولولہ پیدا کرتا ہے بلکہ اس تفسیر سے ہار جیت کے انسانی تصورات بھی بدل جاتے ہیں۔ انسانی جسم کی ساخت ایسی ہے کہ گوشت پوست کے اس بدن کو آخری سطح تک اور ہمیشہ کیلئے خوب سے خوب تر نہیں بنایا جا سکتا، آج کی مادی تہذیب صرف اصلاحِ ابدان تک محدود ہے، البتہ انسانی ساخت میں جو عنصر آخری سطح تک اور ہمیشہ کیلئے خوب سے خوب تر ہو سکتا ہے تو وہ عنصر ہے 'روح'۔
فی ظلال سے سورہ بروج کی تفسیر سے پہلے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تفہیم القرآن سے قصے کا پس منظر پیش کیا جائے۔ مولانا مودودی نے اس سلسلے میں متعدد واقعات ذکر کئے ہیں، ہم اُن میں سے ایک واقعے کو بیان کریں گے۔ حضرت صہیب رومی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشاہ کے پاس ایک ساحر تھا۔ اُس نے اپنے بادشاہ سے بڑھاپے میں کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کردے جو مجھ سے یہ سحر سیکھ لے۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کو مقرر کردیا، مگر وہ لڑکا ساحر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا، حتیٰ کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہو گیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا۔ بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اُس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا، پھر اُس لڑکے کو قتل کرنا چاہا مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اُس پر کارگر نہ ہوا۔ آخرکار لڑکے نے کہا اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں باسم ربِّ الغلام (اس لڑکے کے رب کے نام پر) کہہ کر مجھے تیر مار، میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا۔ اس پر لوگ پکار اُٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ سے اس کے مصاحبوں نے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہوگیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑکر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔ بادشاہ یہ حالت دیکھ کر غصے میں بھرگیا۔ اُس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے، اُن میں آگ بھروائی اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول نہ کیا، اُس کو آگ میں پھنکوا دیا۔ (1)
تفسیر سورہ بروج:
سورہ بروج اگرچہ چھوٹی سورتوں میں سے ایک ہے مگر اس سورے میں مومن پر عقیدے کی حقیقت کھول کر رکھ دی گئی ہے اور ساتھ ہی ایمانیات کے تصورات اور اس کی مبادیات بھی بتا دیئے گئے ہیں، (انسان کے فلسفہ حیات) کے بڑے بڑے عنوانات جن سے نور اور ضیاء کے دھارے پھوٹ پھوٹ کر آفاق تک پھیلی سیاہی کو چیر کر رکھ دیتے ہیں، اس سورے میں عقیدے کے معانی اور ایمان کی اصل حقیقت نکھر کر سامنے جیتی جاگتی صورت میں نظر آتی ہے، اس سورے کی ایک ایک آیت بلکہ بعض دفعہ تو ایک ایک لفظ ابدی اور آفاقی حقائق کے دریچے وا کرتا ہے۔ (بہت دور تک افق اُجلا دکھائی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔)
کہا جاتا ہے کہ پچھلے زمانے میں عیسائی مذہب کے موحدین پر سرکش اور جابر حکمرانوں نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دیے تھے۔ وہ اُن سے اُن کا عقیدہ چھیننا چاہتے تھے اور مجبور کر رہے تھے کہ وہ اپنے ایمانی تصورات کو ترک کرکے اپنے دین سے پھر جائیں گے، مگر اصحاب ایمان کو یہ کب گوارا ہوا ہے، ہاں طواغیت کو بھی یہ گوارا نہیں کہ دُنیا میں ایسے اجنبی لوگ دیکھنے کو ملیں جن کیلئے کسی تصور حیات پر ڈٹ جانا انہیں ان کی زندگی سے بھی عزیز تر ہو۔ زمین میں بڑے بڑے شگاف ڈال دیے جاتے ہیں۔ پھر ان شگافوں میں ایندھن ڈالا جاتا ہے اور پھر شگافوں کی جگہ وہاں دہکتا ہوا الاؤ آنے والی نسلوں کیلئے روشنی پہنچانے کا سامان کر جاتا ہے۔ اِن شگافوں کی روشنی اور تابناک ہو جاتی ہے جب ان میں اہل ایمان کے گروہ در گروہ جھونک دیے جاتے ہیں، طواغیت اس منظر کو ابد آباد تک محفوظ کرنے کیلئے اپنے عوام کو محظوظ کرنے کیلئے لاکھڑا کرتے ہیں۔ آگ اگلتے گڑھوں میں جلتے ابدان پر پورا شہر گواہ بن جاتا ہے۔ اردگرد کٰھے لوگ ٹھٹھہ کر کے طواغیت کی ایذاء رسانی کی لذت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ اب آگ میں ایندھن نہیں تھا، انسانی اجسام تھے، اُن کا قصور یہ تھا کہ وہ اپنے عقیدے سے دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے۔ طاغوت اور اہل ایمان کی نفسیات سے یہ آیت مبارکہ پردہ اُٹھاتی ہے: وما نقموا منہم اِلاّ اَنْ یؤمنوا باﷲ العزیز الحَمید (2)
اس منظر کی دلوں میں دھاک بٹھانے کیلئے سورے کا آغاز قسم سے ہوتا ہے:
والسماء ذات البروج
والیوم الموعود
وشاھدٍ ومشھود
قُتِلَ اَصحابُ الُاخدُود
قسم ہے مضبوط قلعے والے آسمان کی!
قیامت کے دِن کی بھی!
اور دیکھنے والے کی بھی اور جسے یکھا جا رہا تھا (اُس کی بھی)
مار دیے گئے گڑھے والے
واقعہ اتنا ہولناک تھا کہ آسمان کی اور اُس میں موجود مضبوط قلعوں کی قسم سے سورے کا آغاز ہوتا ہے اور پھر قیامت اور اس کی ہولناکیاں، یہ سورت ان لوگوں کو بھی نہیں بھولتی جو تماشا دیکھنے کیلئے وہاں جمع ہو گئے تھے اور نہ انہیں بھلاتی ہے جن کو دیکھنے کیلئے وہ جمع ہوئے تھے۔ آپ ان تینوں مناظر کو ذہن میں رکھ کر اس سورے کو پڑھیں، برپا ہونے والا واقعہ اور قیامت کی ہولناکی کا منظر اور اوپر سے آسمان مع اپنے قلعوں کے۔۔۔۔۔۔
پھر آپ کے سامنے آگ کا الاؤ آتا ہے جسے دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، یہاں اس بات کی ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ اس منظر کی تفصیلات بیان کی جائیں، آگ کا دہکتا الاؤ بذات خود تفصیلات بلکہ جزئیات تک پیش کر دیتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آگ کیوں بھڑکائی گئی ہے، اپنے عقیدے اور ایمان پر ثابت قدم رہنے والے! جو اس قدر اذیت سہہ کر ڈٹے رہتے ہیں، ڈٹے ہی رہتے ہیں اور آگ کے سمندر کو زیر کر لیتے ہیں، آگ تو کیا وہ تو حیات کو بھی فتح کر لیتے ہیں، آگ بجھنے لگتی ہے اور روحیں قلعوں والے آسمان کی طرف پرواز کر جاتی ہیں، اُس منزل کی طرف جہاں کا انسان ازل سے کھوج لگا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ رفعتوں کے مقامات، اوج اور ثریا کے مقاماتِ قدسیہ کی طرف محو پرواز روحیں، ان کے نیچے زمیں پر رہ جاتے ہیں: سفلہ، گھٹیا اور کمینہ و کینہ پرور۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف مومنین کی پاک روحیں، اوپر ہی اوپر، اُس آگ سے بھی اوپر جس میں ان کے ابدان جل رہے ہوتے ہیں:
النّار ذَات الوَقود
اِذھم علیھا قعود
وھم علی ما یفعلون بالمؤمنین شَھُود
جس میں خوب بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی
جبکہ وہ اس گڑھے کے کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے
اور جو کچھ وہ ایمان لانے والوں کے ساتھ کر رہے تھے اُسے (بچشم سر) دیکھ رہے تھے
اس منظر کے بعد دعوت، عقیدہ اور ایمان کے تصورات، چھوٹے چھوٹے جملوں میں بڑی بڑی حقیقتوں کو کھولتے ہیں، عقیدہ اور مان، جو اُس بادشاہ نے پیدا کیا ہے، جس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین کے سارے براعظموں میں پھیلی ہوئی ہے، وہ کہ جس سے کوئی منظر پوشیدہ نہیں رہ سکتا:
الّذِی لہ مُلکُ السّموٰتِ وَالَارضِ
واﷲ علی کلّ شئیءٍ شھید
جو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا مالک ہے۔
اور وہ خدا سب کچھ دیکھ لیا کرتا ہے۔
سورت میں دہلا دینے والا منظر، سفلہ اور کمینہ صفت گھمنڈیوں کے سامنے ایک اور خوب دیکھے جانے والے بڑے دن کو بھی رکھتا ہے، دوزخ کا دہکتا الاؤ اور اُس میں جلا دینے والا عذاب جس کے پہلو میں میوے سے اٹے ہوئے باغوں والی جنتیں ہیں، وہ جو سب سے بڑی کامیابی کی منزل ہے، اُن کیلئے جو صاحب ایمان ہو کر عقیدے کو زندگی کے بدلے لے جاتے ہیں، جن کیلئے دُنیا کی آگ میں جل جانا کوئی معنی نہ رکھتا تھا۔
اِنّ الَّذِین فَتَنوا المؤمنین والمؤمناتِ ثُمّ لَم یتوبوا فلھم عذابُ جھنّمَ ولَھم عَذابُ الحَریق
جن لوگوں نے مومن مردوں اور عورتوں پر ستم توڑا اور پھر اُس سے تائب نہ ہوئے یقینا اُن کیلئے جہنم کا عذاب ہے اور اُن کیلئے جلائے جانے کی سزا ہے۔
اِنّ الّذین آمَنوا وعَمِلوا الصّلحت لھم جنّتٌ تجری مِن تحتھا الاَنھار ذلِکَ الفَوزُ الکَبیرُ
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کئے یقینا اُن کیلئے جنت کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ ہے وہ بڑی کامیابی۔
اس بربریت کے بعد ضروری تھا کہ سورت میں ظالموں کی پکڑ کا تذکرہ کیا جاتا:
اِنّ بَطش ربّکَ لَشَدیدٌ
اِنّہ ھُوَ یُبدئُ وَ یُعِیدُ (3)
درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی ہی سخت ہے۔
وہی پہلی بار پیدا کرتا ہے، اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا۔
اِن آیات مبارکہ میں اللہ رب العالمین اپنا تعارف کراتا ہے، اللہ کی ہر ایک صفت یہاں اپنے سیاق میں ایک بڑا معنی رکھتی ہے۔ وھو الغفور ۔۔۔۔۔۔ ظالموں سے فوراً بدلہ نہیں لیتا کیونکہ وہ غفور ہے بڑے سے بڑے گناہ اور سرکشی کو توبہ کرنے سے معاف کر دیتا ہے۔
زمین پر جس مخلوق کو اُس نے پہلی مرتبہ بھی پیدا کیا تھا اور اب تک ان کی نسل برقرار رکھے ہوئے ہے سب کے حق میں 'الوَدُدو' ہے۔ الودود جو محبت اور شفقت کے بھرپور جذبات سے بندوں کے دُکھ، درد دور کر دیتا ہے، زخموں پر مرہم رکھ دیتا ہے۔
ذوالعرشِ المَجیدِ: عرش والا، بزرگ اور برتر۔
فَعّال لِّمَا یُریدُ: کر گزرتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔
اس کی بادشاہت کل جہاں اور سارے آفاق پر پھیلی ہے، اُس کے چاہے کو کوئی روکنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔
بَل ھُوَ قُرآنٌ مَّجیدٌ فِی لَوحٍ مَّحفُوظٍ
جو وہ چاہتا ہے بتلا دیتا ہے بلکہ لکھ کر محفوظ کر دیتا ہے کہ دیکھو میں (ظالموں کے ساتھ) یہ کرنے والا ہوں، لوح محفوظ میں لکھے دیتا ہوں، ہے کوئی جو میرے لکھے ہوئے امر کو ٹال دے، کوئی جابر، کوئی سرکش، کوئی ۔۔۔۔۔۔
قاری کے قلب وذہن میں ہیبت چھائی ہوئی ہے اور سورت اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہی ہے، ہیبت زدہ قاری ایمان کا امتحان سے گزرنا دیکھ رہا ہے، عقیدے کو جیون سے زیادہ جاوداں دیکھتا ہے، ایک لطیف عنصر جسم کی قید اور زمین کی کشش سے ماوراء ہوا جاتا ہے، اڑا چلا جاتا ہے، جلنے والے انسان چاہتے تو اپنے ایمان کو چھپا کر رکھتے، کسی حکمت عملی سے کام لیتے، آخر جان بچانے کیلئے خاموشی اختیار کرنا بھی تو مباح فعل ہے۔ مگر یہاں دکھانا یہ مقصود تھا کہ ایمان جیت جاتا ہے یا زندگی۔۔۔۔۔۔ ایمان کو سرفراز کر جانے کا یہ موقع کھو کر سب سے پہلے تو وہ اپنے ضمیر کے سامنے شرمندگی محسوس کرتے اور پھر پوری انسانیت کا نقصان الگ ہوتا، انسانوں کیلئے کچھ تو روشنی کے منار ہونے چاہیں، ایمان میں جو حرارت پیدا ہو گئی تھی اُسے تاباں کئے بغیر ہی ہر ایک اپنی سمت کو چل دیتا ، انسانوں کو کچھ دیے بغیر صرف اپنی حد تک ایمان کو محدود کرکے۔۔۔۔۔۔ کیا زندگی کی کوئی قیمت ہے اگر اُس زندگی میں کوئی نظریہ ہلچل پیدا نہ کرے، ایمان کے معانی تشنہ رہ جاتے اور صرف دِل کا ایک فعل رہ جاتا اور بس۔۔۔۔۔۔ سودے کا مول لگ رہا تھا، بدن جل رہے تھے، منافع بڑھ رہا تھا، ایمان کے معانی آگ میں جلترنگ پیدا کر رہے تھے اور دُنیا حیرانی سے آگ کے سمندر میں گلزاروں کا نظارہ کر رہی تھی، کھوٹ پیندے میں اور سونا جگ مگ جگ مگ۔۔۔۔۔۔
جب تک سورت بروج پڑھی جاتی رہے گی تب تک ایمان کے معانی پھوٹتے رہیں گے، عمیق اور لطیف معانی، آگ اور گلزار، تکبر اور ایمان، گڑھے اور ٹھٹھے اور ستم زدہ اہل ایمان۔ خود جیون سے بھی زیادہ پیارے معانی۔۔۔۔۔۔ وَمَا نَقَمُوا مِنھُم ۔۔۔۔۔۔
اُردو استفادہ مع تصرف: محمد زکریا
1. تصور کیا جا سکتا ہے کہ ایک خلقت کو آگ کے الاؤ میں جھونکنے کیلئے بڑے بڑے گڑھے کھودنے میں وقت ضرور لگا ہوگا۔ ایمان لانے کا اگر اُن کا فیصلہ جذباتی تھا اور محض ایک کرامت سے مرعوب ہو کر وہ ایمان لائے ہوتے تو جب تک آگ بڑھکانے کے انتظامات ہوئے ہوں گے، اس طویل دورانیے کے دوران میں وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کر سکتے تھے یا کم از کم تقیہ تو کر ہی سکتے تھے، مگر اہل ایمان سے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے انجام سے پہلے ہی سے آشنا ہوتے ہیں۔
2. اور اہل ایمان سے ان کی دشمنی اس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ اُس خدا پر ایمان لے آئے تھے جو زبردست اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔
3. اِس آیت میں یہ اشارہ بھی موجود ہے کہ ظالم اور جابر خود سے پیدا نہیں ہوئے تھے، وہ اگر اپنی ابتدائے آفرینش پر غور کرتے تو تکبر کی بجائے انکساری کا رویہ اپناتے۔ اور دوبارہ مر جانے والوں کے لوٹانے میں یہ اشارہ ہے کہ نہ ظالم اس کی پکڑ سے بھاگ کر جانے والے ہیں اور نہ ہی معصوم جانوں کا خون رائیگاں ہونے والا ہے۔ (مترجم)