سید قطب
''غلام'' وہ تھوڑی ہیں جو
حالات کے جبر کے ہاتھوں اس نوبت کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ جو بیچارے سماجی و
معاشی حقائق کے نتیجے میں غلام بنا دیئے گئے ہوں اور پھر ''مالکان'' تجارتی اشیاء
کی مانند ان میں تصرف کریں۔۔۔۔۔۔
''غلام'' تو وہ ہیں جن پر
نہ سماجی حالات کا جبر اور نہ معاشی حقائق کی سختی۔ کھاتے پیتے، آسودہ حال، مگر
اپنے آپ کو غلاموں کی منڈی میں پیش کرنے کیلئے دھرے بیٹھے ایک دوسرے سے بڑھ کر
بھنبھناتے ہیں۔
''غلام'' تو وہ ہیں جو
حویلیوں کے مالک ہوں۔ محلات میں رہتے ہوں۔ مربعے اور جاگیریں رکھتے ہوں۔ مال دولت
کی جن کو کوئی کمی نہیں۔ کام کاج میں کوئی دقت نہیں۔ حلال کھانے میں کوئی رکاوٹ
نہیں۔ نہ ان کے مال دولت پہ کسی کا زور اور نہ ان کی جان کسی کی زیربار۔۔۔۔۔۔ مگر
اس کے باوجود کمال اخلاص کے ساتھ وہ ''آقاؤں'' کے در پر بھیڑ کئے رہتے ہوں۔
''غلامی'' اور ''خدمت'' کیلئے اپنی باری اور موقعہ کیلئے دھکم پیل، گرے پڑے ہوں۔
اور زہے نصیب غلامی اور بندگی کا کوئی طوق گلے میں پہننے کو کبھی مل جاے! ذلت کی
بیڑیاں پیروں میں چڑھانے کو کبھی دستیاب ہو جائیں! عبودیت کا کوئی تمغہ کبھی حاصل
ہو جائے تو زہے عزوشرف!
''غلام'' وہ ہیں جو اپنی
پوری چاہت و آزادی سے ''آقاؤں'' کے در پر ''نظر کرم'' کے منتظر کھڑے دیکھے جائیں۔
جو اپنے اندر غلامی کی اہلیت ثابت کرنے میں ایک دوسرے کو مات دینے کیلئے ایڑی چوٹی
کا زور لگا رہے ہوں اور جن کیلئے یہ نظارہ کوئی انہونا نہیں کہ 'مالک' ایک غلام کو
جوتے کی ٹھوکر سے ہٹا کر پیچھے کرتا ہے اور بغیر تنبیہ و وضاحت کسی بھی وقت اپنی
خدمت سے سبکدوش کر دیتا ہے، پھر بھی یہ بڑی سعادت مندی سے گدیاں نیچی کئے ذلت سے
اپنے آپ کو اس کیلئے پیش کئے رہتے ہیں کہ وہ جسے چاہے دہلیز سے باہر پھنکوا دے اور
جسے چاہے اور جب تک چاہے اپنے زیر استعمال لائے۔ یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ
لینے کے باوجود یہ ان دہلیزوں پر بھی بھیڑ کرتے ہیں۔ کوئی ایک غلام ذلیل ورسوا ہو
کر نکالا جاتا ہے تو ہزاروں کو اپنی قسمت جاگ اٹھنے پر آس لگ جاتی ہے!
''غلام'' وہ ہیں جو ''آزادی''
سے ہول کھائیں۔ کبھی ایک آقا ان کو دھتکار دے، تو کسی دوسرے آقا کی تلاش میں نکل
کھڑے ہوں کیونکہ ''غلامی'' کے بغیر ان کا گزارا ہی نہیں۔ ''غلامی'' نفوس کے اندر
سمائی ہوئی چیز ہے نہ کہ کوئی خارجی امر۔ غالباً ان کو کوئی چھٹی یا ساتویں حس
حاصل ہے۔۔۔۔۔۔ ذلت کی حس۔۔۔۔۔۔ اس حس کی تسکین کرائے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ اگر
کوئی بھی ان کو اپنی غلامی میں نہ لے تو یہ اپنے آپ میں ایک کمی سی محسوس کرتے
ہیں۔ ذلت کی پیاس ایسی لگتی ہے کہ بُرا حال ہو جاتا ہے۔ کسی نہ کسی کی 'تحویل' میں
آنے کیلئے حد سے بڑھ کر بے چین ہو جاتے ہیں اور کسی آقا کے آگے سجدہ ریز ہو جانے
میں اشارہ پانے کا انتظار تک دو بھر ہونے لگتا ہے!
''غلام'' وہ ہیں جو کسی وقت
آزاد کر دیئے جائیں اور ان کی بیڑیاں ہی کھول دی جائیں تو وہ ان غلاموں کو اشک اور
حسد کی نگاہ سے دیکھنے لگیں جو ابھی تک باڑے کے اندر بیڑیاں 'زیب تن' رکھے ہوئے
ہوں! جن کے بس میں یہ کبھی ہو ہی نہیں سکا کہ باڑے کے باہر آزاد پھرتے انسانوں کو
یہ کبھی حسرت اور رشک سے دیکھ سکیں! ''آزادی'' سے جن کی جان جاتی ہو۔ ''عزت و
آبرو'' سے رہنا ایک بوجھ ہو جو ان کے کاندھے دہرے کر دے۔ ذلت کی وہ پیٹی جو شکم پر
باندھ کر رکھی جاتی ہے سب سے بڑا تحفہ ہے کہ جس کا چہار وانگ مظاہرہ کرکے رکھا
جائے۔ غلاموں کے لباس سے بڑھ کر بھی کیا دُنیا کے اندر کوئی خلعت فاخرہ پائی گئی
ہے!؟
''غلام'' وہ ہیں جو آقا کی
گرفت اپنے گدیوں پر نہیں سیدھی دلوں پر پائیں۔ غلام وہ نہیں جن کی پیٹھوں پر غاصب
کے تازیانے پڑیں۔ غلام وہ ہیں جن کے نفوس ہی غاصب کے تازیانوں کیلئے برضا ورغبت
پیش ہو جائیں۔ غلام وہ ہیں جن کی رگوں میں غلامی خون بن کر دوڑنے لگے۔
''غلام'' وہ ہیں جو
''زنجیروں'' سے باہر اپنے آپ کا تصور تک کرنے پر قدر ت نہ رکھیں اور جن کی آزادی
میں وہ حالت ہو جاتی ہو جو مچھلی کی پانی سے نکال دیئے جانے پر۔ غلام وہ ہیں جن کو
کبھی آزاد کردیا جائے تو آزاد انسانوں کے مابین ان کو اپنا چلنا پھرنا اوپرا لگے۔
طبعی زندگی گزارنا ان کیلئے سوہان روح ہو اور عام معاشرے کی راہداریوں سے ان کو
وحشت ہوتی ہو۔ غلام وہ ہیں جن کی آنکھیں آزادی کی روشنی سے چندھیا جانے لگیں اور
وہ اس سے بھاگ کر غلاموں کیلئے رکھے گئے اندھیرے باڑوں کے ہی دروازے بار بار
کھٹکھٹائیں اور ان میں جا گھسنے کیلئے ہر قیمت دے دینا قبول کرلیں!
**********
پھر اس کے ساتھ
ساتھ۔۔۔۔۔۔ ''غلام'' وہ ہیں کہ جب موقعہ ملے زمین میں جبار بنیں۔ جباروں کے آگے
غلام اور آزاد نفوس کے اوپر جبار۔۔۔۔۔۔ آزاد انسانوں پر ظلم وستم ڈھانے کیلئے اپنی
رضاکارانہ خدمات کے ساتھ ہمیشہ پیش پیش۔
آزاد انسانوں کے اندر
اپنی آزادی بچانے کیلئے جو جذبات موجزن ہوا کرتے ہیں ''غلام'' بیچارے ان کا تصور
کرنے سے ہی عاجز ہیں۔ یہ یقین کر ہی نہیں سکتے کہ کوئی شخص دُنیا کے اندر ''آزاد''
رہنے کا بھی متحمل ہو سکتا ہے! پس ''آزادی'' لینے کے عمل کو یہ غلام لوگ ''بغاوت''
جانیں گے۔ اس کے علاوہ یہ اسے کوئی نام دے ہی نہیں سکتے! 'اطاعت' اور یا پھر
'بغاوت'۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے ان کے تخیل کی حد ختم ہو جاتی ہے! ''خودداری'' کو یہ ایک
انحراف سمجھیں گے اور ''عزت نفس'' و ''احساسِ برتری'' کو ایک جرم۔ پس یہ طبعی بات
ہے کہ آقاؤں کے مفاد کے محافظ یہ اخلاص کیش غلام ان لوگوں کے خلاف آہنی ہاتھ برتیں
جو دُنیا کے اندر اپنے اور اپنی اقوام کیلئے عزت نفس رکھنے پر اصرار کریں اور جو
''غلاموں کے جلوس'' میں شمولیت اختیار کرلینے سے انکاری ہوں!
آزادوں کو دار و رسن سے
سرفراز کرنے میں یہ ایک دوسرے پر بازی لے جانے کیلئے ہمیشہ بے چین دیکھے جائیں گے۔
آقاؤں کی خوشنودگی کیلئے ایک دوسرے پر سبقت پانے کی یہی ایک صورت ہے۔ پھر بھی آپ
دیکھتے ہیں آقاؤں کا کسی وقت ان سے جی بھر جاتا ہے اور کسی وقت وہ ان کو اپنی
دہلیز سے اٹھا کر چلتا کرتے ہیں۔ آقاؤں کا اپنا ایک مزاج ہے۔ ایک ہی کھیل بار بار
کھیلا جاتا دیکھ کر کسی وقت وہ بوریت محسوس کرتے ہیں۔ کھیل نہیں بدلا جا سکتا تو
کھلاڑی تو تبدیل کئے جا سکتے ہیں! کیا حرج ہے کچھ چہرے اگر بدلے جاتے ہیں!
'دروازوں' پر اتنی تو آخر بھیڑ ہے! یہ کم تھوڑی ہوتے ہیں!
ان سب باتوں کے باوجود
مستقبل ''آزادوں'' کا ہے۔ مستقبل آزادوں کا ہے نہ کہ غلاموں کا۔ مستقبل ان آقاؤں
کا بھی نہیں جن کے قدموں میں غلام روزانہ خاک کے اندر لوٹتے ہیں۔ انسانیت نے غلامی
کی یہ زنجیریں توڑنے کیلئے اچھی خاصی قیمت دے لی ہے۔ وہ تاحد نگاہ باڑے جو غلاموں
کو قید میں رکھا جانے کیلئے تیار کئے گئے تھے اور بیسوی صدی کے نصف اول میں براعظم
تا براعظم دیکھے جاتے تھے، منہدم ہوئے۔ ان کی 'تعمیر نو' کی امیدیں کبھی برآنے کی
نہیں۔ غلامی کی زنجیریں ٹوٹ چکیں۔ ان کی ٹوٹی کڑیاں جوڑنے کی کوشش اب قطعی بے سود
ہے!
''غلاموں کا تولیدی عمل
مسلسل جاری ہے۔ یہ درست ہے۔ مگر ''آزاد'' اب جس تعداد سے بڑھ رہے ہیں وہ ناقابلِ
اندازہ ہے۔ قوموں کی قومیں اب اس ''آزادی'' کا کاروان بننے چلی ہیں۔ غلاموں کے زرق
برق جلوس یہاں اپنی کوشش کھونے لگے ہیں۔ اب تو وہ وقت ہے کہ یہ ''غلام'' بھی چاہیں
تو اس ''کاروانِ آزادی'' میں آشامل ہوں۔ کیونکہ دریوزہ گروں کی وہ گرفت اب باقی
نہیں رہی جس سے وہ ان اقوام کو اپنے نرغے میں لئے ہوئے تھے اور پھر اس لئے بھی کہ
''غلاموں'' کی قیمت بازار میں اب وہ نہیں لگتی جو پہلے کبھی لگا کرتی تھی اور پھر
اس لئے بھی کہ وہ بہت کچھ جو کبھی غلاموں کے قبضہئ قدرت میں تھا اب وہ ان کے ہاتھ
سے سرکتا جا رہا ہے اور یہ مسلسل یہاں روبہ پسپائی ہیں۔ مگر جیسا کہ ہم نے کہا
غلامی کوئی خارجی امر نہیں یہ نفوس کے اندر جاگزیں ہو جانے والی ایک چیز ہے۔ اپنی
اس مجبوری کے ہاتھوں، غلام گردشوں کے دروازے کھٹکھٹانے والے یہ خود ہیں اور نکیل
پہنے رکھنے کا شوق بھی ان کا اپنا ہے !
پھر بھی آزادی کے کارواں
رواں دواں ہونے کو ہیں۔ ان کے ساتھ اب ہزاروں لاکھوں آملنے والے ہیں۔ دریوزہ گر ان
کی راہوں میں روڑے اٹکاتے ہیں اور ان پر ''غلاموں'' کو مسلط کئے ہوئے ہیں مگر
آخرکار یہ عبث ثابت ہوگا۔ ''غلاموں'' کے ہاتھ میں پکڑے تازیانے بے شک آج آزاد
لوگوں کی کھال ادھیڑ رہے ہیں مگر اپنے آخری مقصد میں بے سود ثابت ہوں گے۔ آزادی کے
کاروان کئی بڑے بڑے بند توڑ چکے اور بھاری بھاری چٹانیں ہلا چکے۔ اب ان کے راستے
میں کوئی بڑے بند ہیں اور نہ چٹانیں۔ صرف راہ گزر میںکچھ ہی 'کانٹے' رہ گئے ہیں جو
اکھیڑنے باقی ہیں !
پیاز کے پرت ایک کے بعد
ایک اتر رہے ہیں۔ آج تک جتنے تجربات ہوئے سب شاہد ہیں کہ جب بھی کبھی غلامی اور
آزادی میں ٹھنی وہاںجیت ہمیشہ آزادی کی ہوئی۔
''آزادی'' کے ہاتھ بے شک آج
لہولہان ہیں۔ لیکن ایک آخری اور فیصلہ کن ضرب لگانے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے!
''غلاموں'' کے جتھے
''کاروانِ آزادی'' کی راہ روکنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ تو آزادی کے
کاروانوں کا اس وقت بھی کچھ نہ بگاڑ سکے تھے جب ان سب کی سب اقوام کو ریوڑوں اور
گلوں کی صورت میں رکھا گیا تھا اور جبکہ ''آزاد'' لوگوں کے ابھی صرف ہر اول سامنے
آتے تھے! آج جب قوموں کی قومیں بیداری کی کروٹ لینے لگی ہیں تو آج یہاں کے بچے
کھچے ''غلام'' ان کاروانوں کی راہ کیسے روک سکیں گے جو کہ بڑھ کر پوری انسانت کو
اپنے ساتھ لے کر چلنے والے ہیں!؟
ہاں ان سب باتوں کے
باوجود ایک حقیقت اپنی جگہ ہے اور وہ بھی اتنی ہی توجہ طلب ہے۔ آزادی کے ان
کارروانوں کو ''شہید'' دینا پڑیں گے۔ ''غلاموں'' کے جتھے ان کا کچھ نہ کچھ نقصان
بہرحال کریں گے۔ ''غلاموں'' کے تازیانے کچھ پیٹھوں پر ضرور برسیں گے۔ آزادی کی
قیمت دینا پڑے گی۔ اس دُنیا کے اندر تو ''غلامی'' کی راہ میں نکلنے والوں کو قربانیاں
دینا پڑتی ہیں، کیا پھر ''آزادی'' کی اس دُنیا میں کوئی قیمت نہ ہو!؟
یہ بھی ایک حقیقت ہے اور
وہ بھی ایک حقیقت۔ مگر انجام طے ہے ۔ راستہ واضح ہے۔ چلیے دونوں فریقوں کو یہاں
اپنا کام کرنے دیتے ہیں۔ ''غلام'' بھی اپنی پیٹیاں کس لیں۔ اپنے تمغے سینوں پر آویزاں
کرلیں اور ''پیریڈ'' پر روانہ ہوں ''آزادوں'' کے قافلے بھی مستعد ہو لیں اور
قربانیوں کے موسم کیلئے اپنے سروں کو تیار رکھیں۔ سینوں پر عزت اور شرف کے بیش
قیمت تمغے سجائیں۔ آئیے ''غلاموں'' کی مستعدی دیکھیں اور ''آزادوں'' کی استقامت و
استقلال جس کا وہ کانٹوں کے فرش پر چل کر مظاہرہ کریں گے۔۔۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ کہ
عاقبت صبر کرنے والوں کے حق میں ہے۔
(اُردو استفادہ: حامد
کمال الدین)