اسلام کو پورا لو.... یا چھوڑ دو
سید قطب
(اُردو استفادہ)
جو بھی دُنیا میں کوئی نظام ہے وہ اپنا ایک باقاعدہ فلسفہ رکھتا ہے۔ انسانی زندگی کی بابت اپنا ایک تصور رکھتا ہے اور اس کو چلانے اور درست کرنے کا اپنا ایک طریقہء کار، اس کی اپنی ایک ترتیب ہوتی ہے اور معاملات کو سلجھانے میں اپنا ایک انتظام کار۔ پھر ہر نظام کی تطبیق کے وقت لازماً کچھ خاص قسم اور نوعیت کے مسائل پیش آتے ہیں جن سے ایک خاص انداز میں ہی وہ نبرد آزما ہوتا ہے۔ اس کے مقاصد اور ترجیحات جو بھی ہوں فی الواقع اس کی فطرت اور اس کے مزاج سے ہی منسلک ہوتے ہیں۔ اس کی اس خاص فطرت اور مزاج سے ہی پھر وہ ’حل‘ جنم لیتے ہیں۔ جن کو وہ معاشرے کے اندر پائے جانے والے مسائل اور مشکلات کی بابت ضروری جانتا ہے:
غرض ہر نظام ایک اکائی ہے اور اس کو آپ توڑ نہیں سکتے....
یہ کوئی منطق نہیں، اور نہ ہی یہ کوئی انصاف ہے کہ ایک نظام سے آپ ان مسائل کے حل مانگیں جو کہ خود اس نے پیدا نہیں کئے بلکہ وہ مسائل ہوں ہی کسی اور نظام کے پیدا کردہ جو کہ اپنی فطرت اور مزاج میں اس نظام سے یکسر مختلف ہو۔
عقل اور منطق یہی کہے گی کہ جب آپ کسی خاص نظام سے زندگی کے روزمرہ مسائل کے ’حل‘ کی بابت ’فتویٰ‘ مانگتے ہیں تو لازم ہے کہ اس سے پہلے آپ نے اس نظام کومعاشرے کے اندر اپنے طریقے کی تطبیق کا موقع دیا ہو۔ سب سے پہلے آپ کسی نظام کی تطبیق ہونے دیں اور پھر دیکھیں کہ وہ مسائل جن کا آپ کو اس وقت سامنا ہے سرے سے پیدا بھی ہوتے ہیں یا نہیں ہوتے یا جو مسائل اس کی تطبیق سے پیدا ہوتے ہیں وہ کس نوعیت اور کیفیت کے ہیں، صرف اُسی صورت میں آپ کے لئے روا ہو سکتا ہے کہ آپ اس نظام سے یہاں پیش آمدہ مسائل کا ’حل‘ دریافت کریں۔ تب آپ اس سے ان مسائل کا حل مانگیں گے جو اس کی تطبیق کے دوران پیدا ہوئے ہوں گے اور یہ پوچھنا آپ کا حق ہوگا۔
سب جانتے ہیں اسلام ایک جامع وسیع نظام ہے اور اس کے سب پہلو مربوط کڑیوں کی طرح آپس میں جڑے ہوئے ہیں اور ان سب کے ملنے سے ہی یہ ایک کُل بنتا ہے۔ پھر یہ کہ یہ ایک ایسا نظام ہے جو اپنی فطرت اور مزاج میں، اپنے تصور حیات میں اور معاملات زندگی سے نمٹنے کیلئے اپنائے جانے والے ذرائع اور اسالیب میں دُنیا کے سب نظاموں سے یکسر مختلف ہے۔ ان سب امور میں نہ یہ مغربی نظاموں کے ساتھ کوئی میل کھاتا ہے اور نہ دُنیا کے کسی اور نظام کے ساتھ جو اس وقت کہیں پر رائج ہے۔ ان سب نظاموں سے اس کا اختلاف پھر کوئی ہلکا پھلکا اور سطحی سا بھی نہیں بلکہ ایک کلی اور اساسی اختلاف ہے۔ یہ بات قطعی ہے کہ آج معاشرے کے اندر جو ’مسائل‘ پائے جاتے ہیں ان کے پیدا کرنے میں اسلامی نظام نے کبھی کوئی حصہ نہیں لیا۔ یہ مسائل جس چیز سے پیدا ہوئے ہیں وہ ہے ان نظاموں کی جو آج آپ کے معاشرے میں رائج ہیں کی اپنی ہی فطرت اور مزاج اور کاروبار زندگی سے اسلام کا دور کر دیا جانا۔
مگر عجیب بات یہ ہے کہ اسلام سے ان مسائل کی بابت استفتا ہوتے ہیں اور ان کے ’حل‘ لانے کے مطالبے ہوتے ہیں اور ان مشکلات کی بابت ’رائے‘ دریافت کی جاتی ہے جو کہ اسلام نے پیدا نہیں کیں اور نہ ان کے پیدا کرنے میں کبھی کوئی حصہ لیا ہے۔ ان ملکوں میں اسلام سے ’اظہار رائے‘ کی فرمائش کی جاتی ہے جہاں کاروبارِ مملکت سے اسلام ویسے ہی بے دخل ہے۔ یہاں اسلام سے پوچھا جاتا ہے کہ ’عورت اور پارلیمنٹ‘ یا ’عورت اور ملازمت‘ یا ’عورت اور مخلوط زندگی کی ناگزیری‘ یا ’نوجوانوں کی جنسی واخلاقی الجھنیں‘ یا اسی جیسے دیگر موضوعات پر حل پیش کرکے دکھائے۔ یہاں تک کہ اس طرح کے سوال ان طبقوں اور فورموں کی جانب سے آتے ہیں جو اس بات پر ہی پہلے راضی نہیں کہ یہاں اسلام کا حکم چلے بلکہ ان کیلئے اس دن کو تصور میں لانا ہی باعث تکلیف ہے جب یہاں اسلام کا حکم چلنے لگے گا!
اس سے زیادہ عجیب البتہ ہماری مذہبی شخصیات کا ان ’سوالوں‘ کے جواب دینا ہے، ہمارے مذہبی سکالروں کا ایسے ’سوالات‘ کرنے والوں کے ساتھ ’مباحثوں‘ میں شریک ہونا جن میں ان ’مسائل‘ کی بابت ’اسلام کی رائے‘ اور ’اسلام کا قول‘ دریافت کیا گیا ہوتا ہے!! بڑی لگن اور گرمجوشی سے یہ ان سوالات کا جواب دے رہے ہوتے ہیں جن کا تعلق کچھ ’جزئیات‘ کے ساتھ ہے.... ایک ایسے ملک اور ایک ایسے ماحول میں جہاں اسلام کا حکم ہی نہیں چلتا اور جہاں اسلام کا نظام سرے سے رائج ہی نہیں!
اسلام کو اس سے کیا تعلق کہ یہ عورت جو پارلیمنٹ میں جا رہی ہے آیا پارلیمنٹ میں جائے یا نہ جائے! یہاں کی مخلوط مجلسیں ہوں یا نہ ہوں! عورت کو ملازمتوں میں لایا جائے یا نہ لایا جائے۔ اسلام کو ان سب مشکلات میں سے کسی بھی مشکل کی کیا پڑی جن کا تعلق ان نظاموں کے ساتھ ہے جو اس وقت معاشرے کے اندر رائج ہیں (1).... ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کا سکہ چلنا ابھی ٹھہرا ہی نہیں اور جہاں اسلام کے فیصلہ و قانون کے آگے سرتسلیم کرلینا ابھی ’طے‘ ہی نہیں!؟
اور آخر یہ ’جزئیات‘ ہی کیوں اسلام کے پاس ’فتویٰ‘ کیلئے لائی جاتی ہیں اور خاص ان ’جزئیات‘ ہی کی بابت کیوں ’اسلامی نظام‘ کی موافقت اور عدم موافقت کا سوال اٹھایا جاتا ہے جبکہ اسلام کا یہ نظام یہاں حکمرانی سے بے دخل ہے؟ نہ سماجی نظام میں اسلام کی حکمرانی، نہ قوانین مملکت میں اسلام کی بالاتری نہ روزمرہ اجتماعی امور میں اسلام کی شریعت۔ کیا بس کچھ ’جزئیات‘ میں ہی اسلام کی ’رائے‘ چاہیے!؟
اسلام ایک کل کا نام ہے جو لا یتجزء ہے۔ اس کو پورا لے لیجئے اور چاہیں تو چھوڑ دیجئے۔ رہا یہ کہ اسلام سے کچھ ’غیر بنیادی‘ مسائل میں تو ’فتوی‘ دریافت کیا جائے اور ان ’اصل بنیادوں‘ کی بابت کبھی سوال کی ضرورت تک نہ محسوس کی جائے جن پر درحقیقت انسانی زندگی اور انسانی معاشرے کو قائم ہونا ہوتا ہے.... تو یہ وہ مذاق ہے جس کی اجازت دینے کا ایک عام مسلمان کو بھی روادار نہ ہونا چاہیے کجا یہ کہ وہ ایک عالم دین ہو۔
ایسے معاشرے اور ماحول میں جہاں اسلام کی تابع فرمانی ہی ابھی اختیار نہ کی گئی ہو اور جہاں اسلامی شریعت کی تحکیم ہی نہیں ہوتی ہو.... ایسے معاشرے اور ماحول کی جانب سے جب بھی ’جزئیات‘ کی بابت ’فتویٰ‘ دریافت کیا جائے گا اس کے جواب میں یہی کہا جائے گا کہ پہلے اسلام کو پوری معاشرتی زندگی میں حکمران بنا لو پھر اس سے ان مسئلوں اور الجھنوں کی بابت رائے دریافت کرو جو اس نے پیدا کی ہوں، نہ کہ ان مسئلوں اور الجھنوں کی بابت جو کسی اور نظام نے پیدا کی ہوں.... ایک ایسے نظام نے جو اسلام سے صاف متصادم ہے....
اسلام لوگوں کو ایک خاص انداز میں تربیت دیتا ہے۔ ان کو ایک خاص طریقے اور شریعت پہ چلاتا ہے۔ ان کے امور زندگی کو کچھ خاص متعین بنیادوں پرمرتب کرتا ہے۔ سماجی، معاشی اور شعوری وفکری پہلوؤں سے اسلام اپنے کچھ خصائص رکھتا ہے اور اپنے ذاتی بنیادی عناصر۔ تمہیں اگر دلچسپی ہے تو پہلے اسلام کو پورا آنے دو۔ اسلام کو اپنے نظام مملکت میں، قانون سازی میں اور تربیتی وتعلیمی نظام میں نافذ ہونے دو پھر اس کے بعد دیکھو وہ مشکلات جو تمہیں اس وقت پریشان کر رہی ہیں سرے سے باقی بھی رہتی ہیں یا آپ سے آپ روپوش ہو جاتی ہیں۔ رہا اس سے پہلے، تو اسلام کا ان مشکلوں اور الجھنوں سے کیا تعلق جو کہ ایک حقیقی اسلامی معاشرے کی الجھنیں ہی نہیں؟!
پہلے اسلامی معاشرے کو وجود میں لے آؤ جس میں اسلام کی شریعت حکمران ہو اور اسلام کے بنیادی اصول روح رواں.... جہاں عورتوں اور مردوں کو اسلام کی بنیاد پر تربیت دے لی گئی ہو۔ گھر میں سکول میں اور معاشرے میں اسلامی تربیت کا بندوبست ہو.... جہاں زندگی کی وہ بنیادی ضمانتیں اور ضرورتیں فراہم کر دی گئی ہوں جن کی اسلام معاشرے کیلئے ذمہ داری اٹھاتا ہے.... جہاں اسلامی مساوات اور عدالت (Equality) کا قیام ہو جو اسلام معاشرے کے اندر فرض ٹھہراتا ہے.... اس کے بعد عورت سے پوچھو آیا وہ پارلیمنٹ میں پہنچنا چاہتی ہے یا وہ ان سماجی ضمانتوں کے ہوتے ہوئے جو اسلام اسے دیتا ہے، پارلیمنٹ جانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ پھر اس سے پوچھو آیا وہ پبلک سیکرٹریٹ کی کلرکی اور بزنس دفتروں کی ریسپشنی کرنا چاہے گی یا پھر اسے ’جاب‘ کرنے میں دلچسپی نہیں کیونکہ گزر بسر کی ضرورتیں اس سے اس امر کی متقاضی نہیں۔ اس کے بعد عورت سے پوچھو کہ وہ مردوں کے ساتھ گھلنا ملنا اور بناؤ سنگھار کے ساتھ باہر پھرنا پسند کرتی ہے یا پھر وہ تربیت جو اس نے اسلام سے پائی ہے اس کیلئے اس بات میں مانع ہے کہ وہ بہیمی خصائص اور بہیمی انداز شہوت کے تقویت پانے کا ذریعہ بنے اور اس کو خدا سے شرم آتی ہے کہ وہ اپنی عفت اور عصمت کی بابت کوئی کوتاہی کرے۔
یہی وجہ ہے جو آج بہت سے لوگ پوچھنے لگتے ہیں: اسلامی شریعت کا نفاذ ہونے لگا تو کیا ہم ہر سال ہزاروں چوروں کے ہاتھ کاٹا کریں گے!؟
یہ پوچھنے والے بھی وہی غلطی کرتے ہیں۔ اسلام کے جواب میں جو لوگ اسلام کے شرعی وفقہی ’حوالے‘ دیتے ہیں وہ البتہ ایک کی بجائے دو غلطیاں کرتے ہیں....
یہ ’ہزاروں چور‘ جن کے ’ہر سال‘ آپ کو ہاتھ کاٹنا ’پڑیں‘ گے.... یہ اسلامی معاشرے کی پیداوار ہیں اور نہ اسلامی نظام کی۔ یہ پیداوار ہیں آپ کے اس معاشرے کی جو اسلام کو اپنی اجتماعی زندگی سے بے دخل کئے بیٹھا ہے اور اس کی جگہ ایک ایسے اجتماعی نظام کو رائج کئے بیٹھا ہے جس سے اسلام آشنا ہی نہیں۔ یہ ’ہزاروں چور‘ پیداوار ہیں آپ کے اس نظام کی جو بھوکوں اور ناداروں کے معاشرے میں پائے جانے کو روا رکھتا ہے اور جس کے پاس اس مشکل کاکوئی علاج نہیں۔ یہ پیداوار ہیں آپ کے اس نظام کی جو یہ ضمانت نہیں دیتا کہ کروڑوں کی بھوک کا مداوا ہو اور نفس انسانی کو مکارم اخلاق کی بنیاد پر تربیت ملے اور حیات انسانی کا خدا کے ساتھ اور خدائی شریعت کے ساتھ تعلق پیدا کرایا جائے۔
رہا ’اسلامی معاشرہ‘ تو وہ ایک اور طرح کامعاشرہ ہوتا ہے۔ جہاں پر فرد کو خواہ وہ کام کرنے کے قابل ہے یا معذور، صحت مند ہے یا بیمار و آفت زدہ، پیٹ بھرا جانے کی ضمانت ملتی ہے۔ جہاں معاشرے کے تمام کے تمام دولت مند ہر سال اپنی دولت وسرمایہ کا زیادہ نہیں تو چالیسواں حصہ معاشرے کے حاجتمندوں کیلئے نکالتے ہیں۔ سالانہ ’نفع‘ کا چالیسواں حصہ نہیں بلکہ اپنی ’کل دولت‘ وثروت کا چالیسواں حصہ! جہاں معاشرے کو سماجی آفتوں اور بحرانوں سے بچانے کیلئے دولتمندوں سے زائد مال سے مزید بھی لیا جاسکتا ہے۔ (2)
پہلے اس نظام کو رائج کرلو پھر دیکھو معاشرے کے اندر کتنے محتاج اور نادار بچتے ہیں.... اس معاشرے میں جہاں یہ سماجی بندوبست ہو کہ پیٹوں میں کھانا ہو اور دلوں میں ایمان، پھر دیکھو وہاں کتنے لوگ پھر بھی چوری کا اقدام کرنے پر ہی مصر ہیں!
اسی طرح یہ لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ نوجوان اگر اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنا چاہیں تو پھر ان جنسی اخلاقی الجھنوں کا اسلام کے پاس کیا حل ہے؟
یہ جن نوجوانوں کی بات کرتے ہیں وہ ہیں جو ایک غیر اسلامی معاشرے میں بستے ہیں.... جہاں اگر کچھ ہے تو وہ شہوانی جذبات کو بھڑکانے کے ذرائع ہیں اور سفلی رویوں کو جوش دلانے کا ماحول۔ ان سب کریہہ امور پر ہرگز یہاں کوئی قدغن نہیں مگر اسلام بتائے کہ نوجوانوں کی ان ’الجھنوں‘ کا کیا حل ہے!
اسلامی معاشرہ جب ہوگا تو وہاں دوشیزائیں اپنی نمائش کراتی نہ پھریں گی! کاسیات عاریات مائلات ممیلات کا نقشہ پیش کرتی نہ پھریں گی یعنی لبادے میں رہ کر برہنہ جسم جو ملتفت نظروں کی دعوتیں لیتی اور دیتی چلی جائیں“! ہر طرف ہر جگہ فتنہ کا سامان بن کر پھریں اور معاشرے کے اندر شیطان کا آلہء کار.... اسلامی معاشرہ جب ہوگا وہاں لچر فلموں کی بھرمار نہیں ہوگی اور نہ ہی یہ غلیظ نغمے یوں نشر ہوں گے.... اسلامی معاشرہ جب ہوگا وہاں صحافت بے لباس تصویروں کی اشاعت سے کمائیاں نہیں کرے گی! وہاں اخلاق باختہ زبان رائج نہ ہونے دی جائے گی! وہاں فحش لطیفوں سے معاشرے کی ’دل لگی‘ نہیں کرائی جائے گی.... جہاں چلتی پھرتی قحبہ گری کی مروجہ سب صورتیں برداشت نہ کی جائیں گی.... اسلامی معاشرہ جب ہوگا وہاں شراب خوری کو فسق کی دعوت وتزئین بننے اور لوگوں کی عقل اور قوت ارادی کا خاتمہ کر دینے کی کھلی چھٹی نہیں دی جائے گی.... اور پھر یہ کہ اسلامی معاشرہ جب ہوگا وہاں اس بات کیلئے آسانیاں پیدا کی جائیں گی کہ لڑکے اور لڑکیاں جلد رشتہء ازدواج میں منسلک ہو سکیں۔ وہاں بیت المال کا ایک بڑا مصرف عفت اور ’احصان‘ کی زندگی کو آسان بنانا ہوگا!
پس اگر تم نوجوانوں کی اخلاقی وجنسی الجھنوں کے معاملہ میں ’اسلام کی رائے‘ جاننے میں سنجیدہ ہو تو پہلے اس پورے اسلامی نظام کو اپنے یہاں تطبیق ہو جانے دو، نہ کہ اس سے پہلے، پھر دیکھو نوجوانوں کے ہاں کوئی ’الجھنیں‘ پائی بھی جاتی ہیں۔
میرے نزدیک اسلام سے ’حل‘ پیش کرنے کا ہر وہ سوال جو کسی ایسے مسئلے یا الجھن سے متعلق ہے جو معاشرے کے اندر اسلامی نظام کی تطبیق کا اپنا پیدا کردہ نہیں، اس حال میں کہ اسلام کو کاروبار حیات سے دیس نکالا دے رکھا گیا ہو.... میرے نزدیک اسلام سے ’حل‘ پیش کرنے کی ایسی ہر فرمائش اسلام کے ساتھ ایک مذاق ہے۔ یہی نہیں، ’اہل افتاء‘ کی جانب سے ایسے کسی سوال کا جواب دینے لگ جانا بھی میرے نزدیک اس مذاق میں شمولیت ہے۔
آج وہ لوگ جو پارلیمنٹ میں بیٹھنے والی خواتین پر ’اسلام کی جانب سے‘ معترض وبرہم ہیں.... کبھی ان کے بغیر دوپٹہ ہونے پر شور اٹھاتے ہیں کبھی ان کی آستینوں کی ناکافی لمبائی پر اپنی فکرمندی ظاہر کرتے ہیں تو کبھی ان کے پائنچوں کی اونچائی پر ’اسلام کی روشنی میں‘ معترض ہیں.... اور کبھی ملازمت پیشہ بیبیوں کے یہاں پائے جانے کو ’خلاف اسلام‘ قرار دلانا ہی اپنی دوڑ دھوپ کا کل محور جانتے ہیں.... مجھے ان کے جذبہ‘ نیکی کا بے حد پاس ہے مگر مجھے کہنے دیجئے یہ اسلام کو ایک ہنسی مذاق کی چیز بنانے چلے ہیں کیونکہ یہ لوگ ایک بہت بڑے اور بہت بنیادی مسئلہ کو چند ’جزئیات‘ میں محصور کردینا چاہتے ہیں۔
ہونا یہ چاہیے کہ جتنی بھی یہ اپنے اندر توانائی رکھتے ہیں وہ سب کی سب توانائی یہ اسلامی نظام اور اسلامی شریعت کی تطبیق کرانے پر ہی صرف کردیں، اسلام کی تطبیق پورے کے پورے دائرہ حیات میں.... سب کا سب زور یہ اسی بات کو منوانے میں مصروف کر دیں کہ معاشرے کے پورے نظام اور مملکت کے پورے قانون پر حکمران وبالاتر ہونا اسلام کا منصب ہے اور یہ کہ اسلامی تربیت کو سکول سے لے کر گھر تک اور گھر سے لے کر معاشرے کے ہر فورم تک جاری وساری کردیا جانا فرض ہے۔ اس صدا کو مضبوط کیا جائے کہ اسلام کو لیا جائے تو پورا لیا جائے۔ اسلام کیلئے کچھ مانگا جائے تو وہ اس سے ہرگز کم کوئی بات نہ ہو کہ اسلام کو پوری کی پوری انسانی زندگی کو رخ دینے کا حق ہو۔ یہ مطالبہ کرنا اسلام کی آبرو کے کہیں لائق ہے اور حق تو یہ ہے کہ داعیانِ اسلام کی آبرو کے بھی لائق ہے۔
یہ اس صورت میں جب وہ اسلام کے متعلق ’بات‘ کرنے میں واقعتا سنجیدہ ہوں اور اسلام کی دعوت دینے میں واقعتا مخلص ہوں.... رہا یہ کہ مقصد کچھ شور وغوغہ کرلینا ہو جو نظروں کو اپنی جانب متوجہ کرلے، خصوصاً جب اس اسلوب کو اپنانے میں خطرہ ونقصان بھی ذرہ بھر نہ ہو، تو تب بات دوسری ہے جس سے کہ میں یہاں پائی جانے والی کم از کم بعض جماعتوں اور اداروں کو بلند تر دیکھنے کا خواہشمند ہوں!
(اُردو استفادہ: مضمون خذو الاسلام جملۃ۔۔۔ اودعوہ -----مؤلفہ سید قطب)
******
(1) منہج کے موضوع پر دو اشیاءمیں یہاں تمییز ضروری ہے: ایک یہ کہ ایک باطل نظام کی جزئیات میں ”اسلام“ کی رو سے ”فتویٰ“ دینا جو کہ ویسا ہی ہے جیسا اوپر سید قطب نے بیان کیا، اور اسی پر ہم ان کے کلام کو محمول کریں گے۔ دوسرا اسلام یا اُمت اسلام یا حتی کہ انسانیت کو لاحق ہونے والے کسی نقصان کے پیش نظر کسی حکومت یا کسی نظام باطل کے کسی اقدام پر آواز اٹھانا یا دوسرے طبقوں کی آواز میں آواز ملانا، جو کہ صرف ”اسلامی“ ملکوں میں ہی نہیں دُنیا کے کسی بھی خطہ میں ہو سکتا ہے اور جو کہ درست ہے اور بالکل صحیح بلکہ مطلوب۔ سید قطب کی یہ گفتگو ہم اس مؤخر الذکر صورت پر محمول نہ کریں گے بلکہ ہم اسے اسی صورت پر منطبق کریں گے جس میں مفتیان دین باطل نظام سے ایک ’اپنائیت‘ سی ظاہر کر بیٹھتے ہیں اور جس سے یہ تاثر خودبخود ابھرتا ہے کہ گویا بس یہی بات ہے جو اس ”اصلاً باطل“ نظام کے اندر اسلام سے متعارض ہے۔ (ادارہ ایقاظ)
(2) زکوۃ کے علاوہ مالداروں سے ناگہانی آفتوں میں لیا جانے والے مال کی بابت سید قطب سے فقہی اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ (ادارہ)