فوائد
خدا آگاہی!
محمد بن قدامہ سے
روایت کی جاتی ہے کہ بشر بن حارث رحمۃ اللہ علیہ (ایک بہت بڑے عبادت گزار اور خدا
کے عارف) کا ایک شرابی کے پاس سے گزر ہوا۔ شرابی کو پتہ چلا کہ یہ بشررحمۃ اللہ
علیہ بن حارث ہیں۔ وہ ادب سے آگے بڑھا، آپ
کا ہاتھ پکڑ کر چوما اور عقیدت سے کہنے لگا: سیدی! بشر نے اسے قریب کیا اور اس
کیلئے محبت ظاہر کی۔ جب وہ چلا گیا تو بشر رحمۃ اللہ علیہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب
جاری ہو گیا۔ کہنے لگے: یہ شخص ایک انسان سے محبت کرتا ہے محض ایک ایسی خیر کے
باعث جس کے بارے میں اسے وہم ہو گیا کہ یہ اس انسان کے اندر پائی جاتی ہے۔ محبت
کرنے والا تو شاید خیر کی اسی محبت کے ناتے چھوٹ جائے مگر جس شخص میں یہ خیر فرض
کر لی گئی اس کا حال خدا ہی جانے کہ اس کے دامن میں کیا ہے!
پھر بشر رحمۃ اللہ
علیہ راستے میں پھلوں کے پاس رک گئے۔ پھلوں کو وہ بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ میں نے
عرض کی: ابونصر! کیا میوے کی کچھ طلب ہو رہی ہے! فرمانے لگے: نہیں۔ میں ان میٹھے
رسیلے میووں کو دیکھ رہا ہوں جنہیں کچھ دیر بعد کوئی بھی خرید لے جائے گا۔ بعید نہیں
وہ خدا کا کوئی نافرمان ہو۔ دیکھو خدا اپنے نافرمان کو بھی اتنے میٹھے پھل کھلا دے
گا!!! میں سوچتا ہوں وہ پھل کیسے میٹھے ہوں گے جنہیں وہ صرف اپنے فرمانبرداروں کو
کھلانے کا روادار ہوگا اور جن سے جنت میں وہ اپنے پیاروں کی ضیافتیں کیا کرے گا
اور وہ مشروب آخر ہوگا کیسا جن سے خدا کے فرمانبردار تعیش کریں گے !
ارے او بھائیو! یہ
غفلت کی نیند آخر کب تک؟ یہ دِن اور رات کی ایک دوسرے کے ساتھ جو دوڑ لگی ہے اور
مہینوں اور سالوں کا تانتا بندھا ہے یہ تمہیں کیا لوریاں دے کر سلاتا ہے؟ یہ نہیں
تو پھر تمہیں بے مقصدیت سے جگانے کیلئے کیا چیز آئے؟ یہاں محلات میں جو بسا کرتے
تھے، دیکھوتو سہی اب بھلا وہ کہاں جا بسے۔ ان گھروں میں جن کی چہک سنی جاتی تھی اب
وہ کہاں جا چکے؟ بخدا، موت کا وہ دور جو اس بزم حیات میں مدام چلتا ہے، یہ اسی کی
زد میں تو آئے ہیں! دیکھو موت ان کو کیسے چگ گئی جیسے کبوتر ایک ایک کرکے زمین پہ
بکھرے دانے چگ لیتا ہے! یہ رکا ہی کب ہے؟! دیکھو یہ ابھی بھی چکے ہی تو جا رہا ہے!
یہاں کوئی ’دانہ‘ ”پڑا تھوڑی رہے گا! ہر کسی کی باری اور ہر کسی کا نام درج ہے۔
قلمیں روشنائی سے سوکھ چکیں اور صحیفے لپیٹے جا چکے۔
بجائے اس کے کہ اس
نفس کو کل روؤ اور پھر روتے ہی جاؤ، آج ہی کچھ اس پر رو لو!
(بحر الدموع۔ از ابن جوزی فصل چہارم، ص 27)
ادب!
عباس بن عبدالمطلب
رضی اللہ عنہ (عم رسول) سے پوچھا گیا:
آپ رضی اللہ عنہ بڑے
ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!
عباس رضی اللہ عنہ نے
جواب دیا: بڑے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں عمر البتہ میری زیادہ ہے!
(آداب الملوک للشعالبی)
جنت کی کنجی:
وہب بن منبہ سے
دریافت کیا گیا: لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کیا جنت کی کنجی نہیں؟ فرمایا: ہاں ہے۔
لیکن کیا کوئی ایسی بھی کنجی ہے جس کے دندانے نہ ہوں۔ تمہاری اس کنجی کے اندر وہ
دندانے ہوئے تو ’دروازہ‘ کھل جائے گا۔ ورنہ ”دروازہ“ نہیں کھلنے کا۔
(کتاب الاخلاص۔ ابن رجب الحنبلی۔ ص 16)
سارا رزق معدوں اور
پیراہنوں کیلئے نہیں!
صحیون بیان کرتے ہیں:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے گھرانے کے کسی نوجوان نے آکر عبداللہ رضی اللہ عنہ
سے اپنے لئے ایک تہہ بند کی فرمائش کردی، کہا:میرا پہلا تہہ بند ایک جگہ سے پھٹ
چکا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اس کا وہ حصہ کاٹ دو اور باقی کا ابھی
پہن رکھو۔ نوجوان کو یہ بات کچھ اتنی پسند نہ آئی۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اسے مخاطب
کرکے کہنے لگے:
کم بخت: خدا سے ڈرو۔
ان لوگوں میں مت ہو جن کو سارے کا سارا رزق معدوں میں ٹھونسنے کیلئے ملتا ہے یا
پھر بدن پہ پیراہن چڑھانے کیلئے!
(حیاۃ الصحابہ۔ للکاندھلوی 2:288)
گورنر، فاتحِ فارسِ
کسریٰ کیا اپنے لئے مکان بنا لے!؟
کسریٰ کا تخت روند
ڈالنے والے حاکم فارس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ امیر المومنین عمر بن خطاب رضی
اللہ عنہ کے نام اپنے ایک مکتوب میں، علاوہ دیگر امور، اپنے لئے ایک مکان بنا لینے
کی اجازت طلب کرتے ہیں۔ امیر المومنین کے جوابی مکتوب میں کہا جاتا ہے:
”ہاں بنا لو۔ کچھ ایسی چیز ہو جائے جو دھوپ سے تمہارے لئے
اوٹ بنے اور سردی سے بچاؤ کی ایک مناسب صورت۔ دنیا وہ جہان ہے جو آخرت کے راستے
میں گزارنا ہی پڑتا ہے“!
(حیاۃ الصحابہ۔ 2:286)
خوف!
صحیح بخاری میں، کعب
بن مالک رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اپنے دل کی وہ حالت سناتے
ہیں جو ان پر اس وقت گزر رہی تھی جب جہاد تبوک میں پیچھے رہ جانے کے باعث رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے خفگی چل رہی تھی۔ فرماتے ہیں:
”وہ تمام تر عرصہ مجھے اس سے بڑھ کر کوئی چیز پریشان نہ کرتی
تھی کہ میں اسی حال میں اگر مرجاؤں تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم میرا جنازہ ہی نہ پڑھیں۔ یا خدانخواستہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم اس دوران فوت ہو جائیں تو میں تو ساری زندگی یونہی رہ گیا کہ نہ
کوئی میرے ساتھ کلام کرے اور نہ اہل ایمان میں سے میرے ساتھ کوئی سلام کرے“۔
(صحیح بخاری باب وعلی الثلاثۃ الذیی خلّفوا کتاب التفسیر)
بھولپن اور ڈپلومیسی:
مغرب کا انسان اپنے
پیروں سے روز ہمیں روندتا ہے۔ اِدھر ہم ہیں جو اسکولوں میں اپنے بچوں کو اس کی
’تہذیب‘ کے قصے سناتے ہیں اور اس کی بلند قدروں اور عظیم اصولوں کے خوبصورت سبق
پڑھاتے ہیں:
ہم اس ’لارڈ‘ کیلئے
جو روز ہماری آبرو خاک میں ملاتا ہے اور ہم پر غلامی کی زنجیر روز کچھ کس دیتا
ہے.... ہم اس ’آقا کیلئے اپنے نونہالوں کے نفوس میں ستائش واعجاب کا احساس پیدا
کرتے ہیں‘۔۔۔۔۔
یہ استعمار ہمیشہ سے
اس لگن میں رہا کہ ہمارے استحصال کے ساتھ ساتھ یہ ہمارے نفوس میں اپنی محبت اور
تعظیم کے جذبات بھی خوب زبردست انداز میں بٹھائے۔ آج جا کر اس کو ڈر پیدا ہوا کہ
ہم کچھ جاگنے لگے ہیں تو یہ ہمارے بہلاوے کو یونیسکو بنا کر لے آیا۔ یونیسکو اب صدائے عام دیتی پھر
رہی ہے کہ اقوام عالم وہ سب کینے اور کدروتیں بھلا دیں جو ’مطالعہ تاریخ‘ کے دوران
’شیطان‘ دلوں میں ڈال دیتا ہے! ’دِلوں کو صاف‘ کرنے کی یہ دعوت آج ’انسانیت‘ کے
نام پر اور ’بشری مواخات‘ کے واسطے دے کر عام کی جا رہی ہے!
استعمار کا یہ ایک
نیا ڈھونگ ہے۔ مقصد یہ کہ ہمارے اس شعور کو بے ہوشی کی خوراکیں دی جاتی رہیں جو اس
ظلم اور خباثت کے خلاف ہماری اقوام کے اندر اب موجزن ہو رہا ہے۔ یعنی ہمارے ساتھ
جو ہوا اور جو ہو رہا ہے ہم اسے ’بھول‘ جائیں! ہم اپنی اقوام کو یہ نشہ آور دوائیں
پلاتے رہیں تو فائدے میں صرف استعمار رہے گا.... اور یہ ہے وہ مقصد جو انجمن
یونیسکو حاصل کرنے جا رہی ہے!
یورپ اور امریکہ صاف
استعماری ملک ہیں۔ وہ ’قومی کدورتیں‘ جو ماضی قریب کی تاریخ پڑھنے کے دوران دِلوں
میں جنم لیتی ہیں ان کے ’بھلا دیے‘ جانے پر امریکہ اور یورپ کا بھلا کیا لگتا ہے؟
ان کے تو کرتوت چھپتے ہیں۔ ان کے لیے تو یہ نفع ہی نفع کا نسخہ ہے۔ ان کا اس سے
کیا جاتا ہے؟! البتہ ہم جن کی گردن اس استعمار نے دبوچ رکھی، ہم جن کی اس نے زندگی
اجیرن کئے رکھی ہے.... ہم بات ’بھلا‘ دیں تو ہمارا تو سب کچھ چلا جاتا ہے۔ ہمارا
تو وہ پہلا ہتھیار ہمارے ہاتھ سے چلا جاتا ہے جو اس معرکے میں ہماری ان پسی ہوئی
اقوام کو کام دے گا۔ ان کا خیال ہے ہمارے ہاتھ سے ہمارا یہ ہتھیار لے لیں!
پھر بھی آپ دیکھیں گے
ہمارے عالم میں ہمارے اپنے ہی کچھ مسلمان، کسی کا نام احمد ہے تو کسی کا حسین تو
کسی کا حسن تو کسی کا علی، صبح شام یہاں ہمارے مابین ’یونیسکو‘ کی مہم چلاتے ہیں
اور اس کے بھرے ہوئے نشہ آور انجکشن ہماری عقول کے اندر فارغ کرتے ہیں۔ اعلیٰ
مناصب پر فائز ’غیر ملکی‘ اداروں کے یہ ’مسلمان‘ افسر اپنی اُمت کو اس ’صبح مغرب‘
کی نوید دینے پر متعین ہیں اور ’مواخات انسانی‘ کے لیبل لگے خواب آور نسخے دینے پر...
سنو اس ’انسانی
مواخات‘ سے ہم بفضل خدا بہت پہلے سے متعارف ہیں.... ’یونیسکو‘ کی پیدائش سے ٹھیک
چودہ صدیاں پیشتر یہ ہمیں مل چکی ہے۔ ہم نے یہ انسانی مواخات جانی۔ ہم نے اس کو
لاگو کیا۔ ہم نے اس پر عملدرآمد کرکے دکھایا، نہ صرف ’اپنے‘ اوپر بلکہ ’غیروں‘ کے
اوپر بھی نہ اس ’انسانی برادری‘ کو ہم نے کوئی فریب دیا اور نہ اقوام کو پھانسنے
کا وہ جال جس سے مغرب کا انسان پچھلے ایک عرصے سے ’اقوام‘ کا شکار کرتا پھرتا ہے۔
’انسانی بھلائی‘، ’ترقی‘، ’مساوات‘ اور ’بھائی چارہ‘ یہ سب
اصول ہمارے جانے ہوئے ہیں۔ یہ باتیں تمہارے لئے نئی ہوں گی ہمارے لئے نہیں۔ مگر
ہمارا وہ دین جو تم سے بہت پہلے ہمیں ’برادری‘ اور ’بھائی چارے‘ کا سبق پڑھا چکا
ہے، ہمارے اسی دین نے ہمیں ایک اور سبق بھی پڑھایا ہے اور وہ یہ کہ جو ہم پر عدوان
اور استکبار کرنے آئے، وہ ہمیں ہرگز نرم نہ پائے۔ ہم اس کی ’باتوں‘ میں آنے کی
بجائے ’ہتھیار‘ اٹھاکر اس کے خلاف صف آرا ہو جائیں اور اس کے مکر وفریب سے کسی وقت
غفلت میں نہ پڑیں اور یہ کہ ایک ظالم غاصب کے ساتھ سرزمین اسلام کے کسی ایک چپے پر
ہم کسی بھی سمجھوتے کے روادار نہ ہوں اور یہ کہ جو ہمارے اسلامی عقیدے اور تہذیب
سے برسرجنگ ہو اور ہمارے اسی عقیدہ کے باعث ہماری جڑیں کاٹتا ہو وہ ہم سے دوستی
اور صلح جوئی کے پیغام سننے کی آس نہ رکھے:
إِنَّمَا يَنْهَاكُمُ
اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَأَخْرَجُوكُم مِّن
دِيَارِكُمْ وَظَاهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَن تَوَلَّوْهُمْ وَمَن
يَتَوَلَّهُمْ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ 9)
”اللہ تمہیں جن لوگوں سے تعلقات دوستی (و ’بھائی چارہ‘!)
رکھنے سے روکتا ہے صرف وہ ہیں جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور
تمہیں تمہارے گھروں سے بے دخل کیا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد (ملی
بھگت) کی ہے.... ان سے البتہ جو لوگ دوستی کریں وہ قطعاً ظالم ہیں“۔
(سید قطب۔ از مضمون: یالجراحات الوطن الاسلامی!)
********