عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
پوپ کی ہرزہ سرائی2
:عنوان

:کیٹیگری
محمد زکریا خان :مصنف

پوپ کی ہرزہ سرائی

حصہ دوم

حصہ اول

جمع وترتیب: محمد زکریا

پوپ بینڈیکٹ نے اپنے لیکچر میں بازنطینی شہنشاہ کے جس مکالمے کا ذکر کرنا ضروری سمجھا تھا اس کے بعد سامعین یہ توقع رکھتے تھے کہ پوپ بینڈیکٹ اعداد وشمار سے اپنے پسندیدہ رہبر کی بات کو ثابت کریں گے۔ فارسی نژاد باشندے سے بازنطینی شہنشاہ کے مکالمے پر ایک عرصہ بیت گیا ہے۔ استشراق کا ایک مکمل شعبہ قریب قریب ہر بین الاقوامی معیار کی حامل جامعہ میں قائم ہے۔ وہ اپنے وسیع بجٹ میں بہ آسانی خوں ریزی کے اعداد وشمار پیش کر سکتے تھے جو نبی آخر الزمان کو اپنے اخلاقی ضابطہ اور عقائد کے مجموعہ پر مشتمل دین کو پھیلانے پر بہانہ پڑے تھے۔ علمی حلقوں میں اعداد وشمار پیش کرنا ایک معمول کی بات ہے۔ پھر ہمارے خطیب کسی عوامی جلسہ گاہ میں اپنے جذبات کا اظہار نہیں کر رہے تھے۔جرمنی کی ایک ممتاز جامعہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے تحقیقی ذہن کے طلبہ اور ممتاز اسکالر اس مجلس میں شامل تھے، مگر فاضل خطیب نے کسی قسم کے شماریاتی گراف سے اپنی بات کو ثابت کرنا ضروری نہیں سمجھا، غالباً اس لئے کہ شعبہ استشراق کے ’غیر جانبدار‘ محققین کے نزدیک یہ دعویٰ کہ آپ کی دعوت تلوار کے زور پر پھیلی، مسلّمات میں سے ہے۔

تاریخ اور سیرت کے تمام حوالے سامنے رکھ لیجئے اور جزیرہ عرب میں آپ کی دعوت کے پھیلنے تک کے تمام خون ریزیاں مرتب کر لیجئے تو طرفین کے مقتولین کی تعداد ایک ہزار سے بھی کم بنتی ہے۔ تاریخ انسانی کا اتنا بڑا واقعہ، عقائد، اخلاقیات، ثقافت اور سیاست میں جتنی بڑی تبدیلی اور وہ بھی ایک وسیع خطے اور جنگجو مسلح قبائل کے بیچ اورمقتولین کی تعداد چار سو سے کچھ اوپر، مقتولین کی اتنی تعداد تو شاید عرب کی معلوم تاریخ میں ریگ زار میں پانی کی چھینا جھپٹی میں کام آجاتی رہی ہوگی۔

ہمیں پوپ بینڈیکٹ کے وسیع مطالعہ پر کچھ شبہ نہیں ہے، اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پوپ بینڈیکٹ قاضی ابوبکر محمد بن طیب باقلانی (403 ت) کے بازنطینی شہنشاہ اور ان کے مصاحب، اسقف کے درمیان ہونے والے مکالمے کو بھی ضرور جانتے ہوں گے مگر حالات کی نزاکت نے انہیں اس مکالمے کے تذکرے سے روکے رکھا ہوگا۔

اس مباحثے کا تذکرہ ’ترتیب المدارک‘ مصنفہ قاضی عیاض، امام ذھبی کی ”سیر الاعلام“ اور ابن خلکان کی ”وفیات“ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

قسطنطین میں مقیم بازنطینی شہنشاہ نے عباسی خلیفہ سے مطالبہ کیا کہ کسی اہل علم کو ہمارے سوالات کا جواب دینے کیلئے قسطنطین بھیجا جائے۔ خلیفہ نے قاضی ابوبکر باقلانی کو اس مناظرے کیلئے منتخب کیا۔ دستور تھا کہ شہنشاہ کے کے دربار میں ملاقاتی عمامہ اتار کر حاضری دیتا تھا۔ امام باقلانی نے اس درباری آداب کو اسلام کی اہانت پر محمول کیا اور فرمایا کہ ہم تو اپنے اسی لباس میں جائیں گے منظور نہیں تو ہم واپس جاتے ہیں۔ شہنشاہ کو اپنے دستور سے دستبردار ہو کر اپنے برابر کی نشست میں جگہ دینا پڑی۔ ہمارے دانش ور، سرکاری علماءاور سرکاری مندوبین کو یورپ میں حاضری کیلئے آج اگر بلایا جائے اور باریابی کیلئے کسی خاص وضع قطع کی شرط لگا دی جائے جو اکثر بن کہے لگی ہوتی ہے تو کوئی صاحب یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ وہ کسی قسم کی پس وپیش کا مظاہرہ کر پائیں گے۔

اسقف اعظم کے آنے سے پہلے بازنطینی شہنشاہ نے بحث کا آغاز کردیا۔

بازنطینی شہشاہ! تمہارے نبی کی چہیتی زوجہ پر تہمت کیوں دھری گئی تھی؟

قاضی باقلانی: ایسے ہی جیسے مریم علیہا السلام پر تہمت دھری گئی تھی، پھر ہمارے نبی کی زوجہ کے ہاں کوئی ولادت بھی نہیں ہوئی اور مریم بتول علیہا السلام کے ہاں یسوع مسیح تولد ہوئے! ہمارے قرآن نے دونوں کو پاک دامن کہا ہے اور ہمارے ہاں دونوں ہی بزرگ ہستیاں ہیں۔

بازنطینی شہنشاہ کو ایسی برجستگی کی اُمید نہ تھی، بازنطینی شہنشاہ کو یقینا سخت ٹھیس پہنچی ہوگی مگر ہمت کرکے ایک اور اعتراض پیش کیا۔

بازنطینی شہنشاہ: شق (1)القمر کا معجزہ سچ ہے؟

قاضی باقلانی: ہمارا اس پر ایمان ہے۔

بازنطینی شہنشاہ: آسمان پر اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا اور اُس کے راوی چند عرب ہوں، باقی دُنیا اُس وقت کہاں تھی۔

قاضی باقلانی: باقی دُنیا ان لوگوں کے ساتھ تھی جب تمہارے ہاں ”مائدہ“ (2)اتر رہا تھا اور وہ اپنے کام کاج میں مصروف تھے۔

بازنطینی شہنشاہ کو ایک مرتبہ پھر خفت اٹھانا پڑی لیکن اُس وقت اسقف اعظم کیلئے اجازت طلب کی گئی جس نے بادشاہ کے بدلتے رنگ کی پردہ پوشی کر دی۔

اسقف اعظم، جب اپنی نشست پر براجمان ہو چکے تو قاضی صاحب نے پادری سے پوچھا کہ چاند نکلا ہو تو کن لوگوں کو دکھائی دے گا؟

پادری: زمین کا جو خطہ اس وقت چاند کے سامنے ہوگا۔

قاضی باقلانی: چاند دوسری سمت والے خطے کے مکینوں کو دکھائی دے گا!

پادری: نہیں۔

قاضی باقلانی: شق (3)القمر کا معجزہ چند لوگوں کے مطالبے پر رب العالمین نے کر دکھایا تھا۔ ساری دُنیا اس مختصر لمحے میں آسمان تو نہیں تاک رہی تھی۔

پادری: بات یہ نہیں کہ چاند کے دو ٹکڑے ہونے کو چاند کے دونوں طرف کے خطوں میں مقیم اہل دُنیا بیان کریں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ یہ معجزہ تمہاری کتب حدیث میں آحاد (جس واقعیے کے راوی گنی چنی تعداد میں ہوں) میں کیوں شمار ہوتا ہے جبکہ اسے متواتر (ایسی روایات جس میں راویوں کی تعداد بہت زیادہ اور ان کے ملی بھگت کر لینے کا امکان معدوم ہو) ہونا چاہیے تھا۔

قاضی باقلانی: لوگوں کو طے کرکے نہیں بلایا گیا تھا۔ یہ اچانک رونما ہوا تھا اور اُسے صرف مطالبہ کرنے والے دیکھ پائے تھے۔ اگر اعتراض کرتے تو وہ حاضرین کرتے جن کے مطالبے پر چاند دو ٹکڑے ہوا تھا۔

تمہارے ہاں ’مائدہ‘ آسمان سے اترا تھا۔ تمہارے ہاں اس کی روایت بھی آحاد ہے۔ لیکن اس خطے میں جہاں خوان اترا تھا یہودی نہیں رہتے تھے، انہیں اتنا بڑا واقعہ کیوں نہ دکھائی دیا....

قارئین اس مختصر مناظرے سے چند باتیں مترشح ہوتی ہیں۔ مناظرہ کیلئے اسلامی خلافت سے جواب تب ملا جب مدمقابل کوئی طفیلی انونجلسٹ نہیں شہنشاہ قسطنطینیہ اور روما کا سب سے بڑا اسقف اعظم تھا۔

اُس زمانہ میں روما ایک تھیوکریسی ریاست سمجھا جاتا تھا اور مذہب ایک فیصلہ کن قوت رکھتا تھا۔ اُس وقت کا پوپ آج کی طرح بے اختیار نہیں ہوا کرتا تھا۔ اگر اُس پوپ کے فرمودات عوام الناس میں میڈیے کی نذر ہو جایا کرتے تو قاضی صاحب ایسے بے اثر محض نام کے پوپ سے مناظرے کیلئے آمادہ نہ ہوتے۔

مسلم اہل سِیَر اور وقائع نویس اس قسم کے واقعیے کو بہت تفصیل سے اور بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا تکلف نہیں کیا کرتے تھے۔ آج اگر ایسا واقعہ ہو جائے تو اسلام پسند دانش ور الئی کا پلوا بنا دیں گے۔ اُن دنوں مسلمان اس قدر واقعات کو جنم دیتے تھے کہ وقائع نویس ہر واقعیے کو چند سطروں میں بیان کر پاتے تھے۔ زندہ قوموںمیں واقعات تیزی سے جنم لیتے ہیں، پراگندہ قوموں پر واقعات منطبق ہوتے ہیں!

بازنطینی شہنشاہ امام باقلانی سے حد درجے متاثر ہو گیا تھا۔ سلطنت کے عمائدین کی ایک دعوت میں انہیں اپنے برابر جگہ دی اور ایک اور واقعیے سے دل بہلایا۔

اُس وقت کے پوپ بینڈیکٹ کے ہم منصب پوپ کو ضیافت میں بلایا گیا تھا۔ اُس زمانے میں پادریوں کی عالی شان وضع قطع نہیں ہوا کرتی تھی۔ غسل کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اگر سادہ لباس پر جوئیں رینگ رہی ہوتیں تو اس سے پوپ کے وقار میں کمی نہیں ہوتی تھی۔ الٹا حاضرین پر رعب ہی پڑتا تھا۔ پوپ تشریف لائے تمام حاضرین اُن کی طرف متوجہ تھے اور مجلس میں سکوت چھایا ہوا تھا۔

پوپ اور قاضی باقلانی کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ علیک سلیک کے بعد قاضی باقلانی فرماتے ہیں: آپ کے اہل وعیال تو خیریت سے ہیں نا! گھر داری کیسے چل رہی ہے۔

حاضرین اس سوال پر اور قاضی باقلانی کی بے خبری پر پیچ وتاب کھا کر رہ جاتے ہیں۔ بادشاہ نہ ہوتا تو شاید قاضی باقلانی کو ان سے گالی گلوچ سننا پڑتی۔ اسقف اعظم کی لاچاری کا آپ خود تصور کر سکتے ہیں۔

بازنطینی شہنشاہ: آپ جانتے نہیں کہ عیسائیوں کے ہاں پادری بیاہ شادی نہیں کرتے اور اُن کے ہاں آل اولاد نہیں ہوا کرتی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ عیسائی رہبانیت سے خوب واقف ہوں گے۔

قاضی باقلانی: بخدا تم ایک راہب کے لئے اس بات کو برا جانتے ہو کہ اس کی بیوی ہو یا وہ صاحب اولاد ہو جبکہ تم رب العالمین کیلئے شریک حیات اور بیٹا نامزد کرتے ہو، بھلا ایسا دین کسی عقل مند کیلئے قابل قبول ہو سکتا ہے۔

ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ ایسے یادگار لمحات ہم مسلمان فراموش کر چکے ہیں اور ہمارا اپنا میڈیا ہمیں صرف شکست پر شکست کھا لینے پر راضی بہ رضا کرنا چاہتا ہے۔ لیکن کتاب مقدس کے حوالے پوپ بینڈیکٹ کو پیش کئے جائیں تو وہ اس کا انکار نہیں کر سکتے، خواہ یہ حوالے ذلت کے وہ تمام مراتب جو پوپ بینڈیکٹ کی زیارت تک ہمارے سرکاری اہل کاروں کو طے کرنے کے بعد ہی پیش کرنا پڑیں۔

کتاب مقدس میں خونریزی (جہاد) کے متعدد دردناک واقعات مذکور ہیں۔ پھر کچھ واقعات پر ہی کیا موقوف ہے غیر قوموں کو نیست ونابود اور صفحہ ہستی سے مٹا دینا باقاعدہ تورات کی تعلیمات میں شامل ہے۔

اگلی سطور میںہم کتاب مقدس کی متعلقہ عبارتیں نقل کرکے ثابت کریں گے کہ پوپ بینڈیکٹ کا جس کتاب کے حرف آخر ہونے پر ایمان ہے وہ خود خون آشام واقعات سے بھری پڑی ہے۔

اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کر ڈالنا۔ لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپایوں اور اُس شہر کے سب مال اور لُوٹ (غنیمت) کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو کھانا۔ اُن سب شہروں کا یہی حال کرنا جو تجھ سے بہت دور ہیں اور اِن قوموں کے شہر نہیں ہیں۔ پر اِن قوموں کے شہروں میں جن کو خداوند تیرا خدا میراث کے طور پر تجھ کو دیتا ہے کسی ذی نفس کو جیتا نہ بچا رکھنا۔

استثناء: باب 20

اسی سِفر کے باب 12 میں مذکورہ بالا اصول کی پابندی کا بنی اسرائیل سے عہد لیا جاتا ہے:

جب تک تم دنیا میں زندہ رہو تو احتیاط کرکے ان ہی آئین اور احکام پر اُس ملک میں عمل کرنا جسے خداوند تیرے باپ دادا کے خدا نے تجھ کودیا ہے تاکہ تو اُس پر قبضہ کرے۔ وہاں تم ضرور اُن سب جگہوں کو نیست ونابود کر دینا جہاں جہاں وہ قومیں جن کے تم وارث ہو گے اونچے اونچے پہاڑوں پر اور ٹیلوں پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے اپنے دیوتاؤں کی پوجا کرتی تھیں،تم ان کے مذبحوں کو ڈھا دینا اور ان کے ستونوں کو توڑ ڈالنا اور ان کی یسیرتوں کو آگ لگا دینا اور ان کے دیوتاؤں کی کھدی ہوئی مورتوں کو کاٹ کر گرا دینا اور اس جگہ سے ان کے نام تک کو مٹا ڈالنا۔

استثناء: باب12 

کتاب مقدس میں اپنے دین سے پھر (مرتد) جانے والی کی سزا:

.... یا تیرا دوست جس کو تو اپنی جان کے برابر عزیز رکھتا ہے تجھ کو چپکے چپکے سے پھسلا کر کہے کہ چلو ہم اور دیوتاؤں کی پوجا کریں جن سے تو اور تیرے باپ دادا واقف بھی نہیں.... تو تو اس پر اس کے ساتھ رضامند نہ ہونا اور نہ اس کی سننا تو اس پر ترس بھی نہ کھانا اور نہ اس کی رعایت کرنا اور نہ اسے چھپانا بلکہ تو اسے ضرور قتل کرنا اور اس کو قتل کرتے وقت پہلے تیرا ہاتھ اس پر پڑے۔ اس کے بعد سب قوم کا ہاتھ۔

.... چند خبیث آدمیوں نے تیرے ہی بیچ میں سے نکل کر اپنے شہروںکے لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کردیا ہے کہ چلو! ہم اورمعبودوں کی جن سے تم واقف نہیں پوجا کریں۔ تو تو دریافت اور خوب تفتیش کرکے پتا لگانا اور دیکھ اگر یہ سچ ہو اور قطعی یہی بات نکلے اور ایسا مکروہ (4) کام تیرے درمیان کیا گیا تو تو اس شہر کے باشندوں کو تلوار سے ضرور قتل کر ڈالنا اور وہاں کا سب کچھ اور چوپائے وغیرہ تلوار ہی سے نیست ونابود کر دینا اور وہاں کی ساری لوٹ کو چوک کے بیچ جمع کرکے اس شہر کو اور وہاںکی لوٹ کو تنکا تنکا خداوند اپنے خدا کے حضور آگ سے جلا دینا ....

استثناء: باب 13

کتاب مقدس میں شرک کرنے والوں کو قتل کر ڈالنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے اور ان سے رشتے ناطے جوڑنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

اور جب خداوند تیرا خدا ان کو تیرے آگے شکست دلائے اور تو ان کو مار لے تو ان کو بالکل نابود کر ڈالنا.... تو اُن سے کوئی عہد نہ باندھنا اور نہ اُن پر رحم کرنا تو اُن سے بیاہ شادی بھی نہ کرنا۔

استثناء: باب 7

بنی اسرائیل کے جو لوگ شرک کی روش اختیار کریں ان کے لئے کتاب مقدس کہتی ہے:

.... اور اس کے پیچھے پیچھے شہر میں سے گزر کرو اور مارو۔ تمہاری آنکھیں رعایت نہ کریں اور تم رحم نہ کرو، تم بوڑھوں اور جوانوں اور لڑکیوں اورننھے بچوں اور عورتوں کو بالکل مار ڈالو ........ اور اس نے ان کو فرمایا کہ ہیکل کو ناپاک(5) کرو اور مقتولوں سے صحنوں کو بھر دو۔

حزقی ایل: باب 9

سفر گنتی میںموسی علیہ السلام سے جو احکام منسوب کئے گئے ہیں وہ ملاحظہ کریں:

پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا: مدیانیوں سے بنی اسرائیل کا انتقام لے۔ اس کے بعد تو اپنے لوگوں سے جا ملے۔ تب موسیٰ نے لوگوں سے کہا اپنے میں سے جنگ کے لئے آدمیوں کو مسلح کرو تاکہ وہ مدیانیوں پر حملہ کریں اور مدیانیوں سے خداوند کا انتقام لیں اور اسرائیلیوں کے سب قبیلوں میں سے فی قبیلہ ایک ہزار آدمی لے کر جنگ کیلئے بھیجنا۔ سو ہزاروں ہزار بنی اسرائیل میں سے فی قبیلہ ایک ہزار کے حساب سے بارہ ہزار مسلح آدمی جنگ کیلئے چنے گئے۔ یوں موسیٰ نے ہر قبیلہ سے ایک ہزار آدمیوں کو جنگ کیلئے بھیجا ....

اور جیسا خداوند نے موسیٰ کو حکم دیا تھا اس کے مطابق انہوںنے مدیانیوں سے جنگ کی اور سب مردوںکو قتل کیا.... اور بنی اسرائیل نے مدیان کی عورتوں اور ان کے بچوں کو اسیر کیا اور ان کے چوپائے اور بھیڑ بکریاں اور مال واسباب سب کچھ لوٹ لیا اور ان کی سکونت گاہوں کے سب شہروںکو جن میں وہ رہتے تھے اور ان کی سب چھاؤنیوں کو آگ سے پھونک دیا۔

گنتی: باب 31

اسی باب میں موسی علیہ السلام کے بارے میں مذکور ہے کہ عورتوںکو زندہ چھوڑ دینے پر وہ فوج کے سرداروںسے بہت ناراض ہوئے۔

تب موسی اور الیعزر کاہن اور جماعت کے سب سردار ان کے استقبال کیلئے پہلے لشکر گاہ سے باہر گئے اور موسیٰ اُن فوجی سرداروںپر جو ہزاروں اور سینکڑوں کے سردار تھے اور جنگ سے لوٹے تھے جھلایا اور ان سے کہنے لگا تم نے سب عورتیں جیتی بچا رکھی ہیں۔ دیکھو اِن ہی نے بلعام کی صلاح سے نفور کے معاملہ میں بنی اسرائیل سے خداوند کی حکم عدولی کرائی اور یوں خداوند کی جماعت میں وبا پھیلی، اس لئے ان بچوں میں جتنے لڑکے ہیں سب کومار ڈالو اور جتنی عورتیں مرد کا منہ دیکھ چکی ہیں اُن کو قتل کر ڈالو۔

پوپ بینڈیکٹ کتاب مقدس کو نجات کا حتمی نسخہ بتاتے ہیں۔ وہ اس خوں خواری کا کیا جواب دینا چاہیں گے جس میں ہر مرد شناسا عورت کو قتل کر دینے کا حکم دیا جا رہا ہے۔ بنی اسرائیل کا جو قبیلہ شرک کا مرتکب ہوا تھا اس کے بوڑھے بچے اور عورتیں سب مار ڈالی جاتی ہیں۔ اُن پر ترس کھانا بھی حرام ہے۔ یقینا ایسے مذہب سے جن کی نسبت ہے اُن سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ عراق میں قریے کے قریے بوڑھوں عورتوں اور بچوں سمیت نابود کردیں۔ اس زمانے میں شاید کسی پورے کے پورے گاؤں کو ’نابود‘ کردینا ممکن نہ تھا مگر اب اس مقصد کیلئے اس خوں خوار قوم نے کیمیائی اور جوہری ہتھیار بنا لئے ہیں البتہ کتاب مقدس میں یہ ترمیم خود کر لی ہے کہ اہل شرک (بھارت) کی ان ہتھیاروں سے حفاظت ہو اور اہل توحید پر موسیٰ علیہ السلام کے احکام نافذ کرکے ’آیات مبارکہ‘ پر عمل کر دکھایا جائے۔

یورپ اور امریکہ کے عیسائیوں کی تاریخ قدیم اور تاریخ جدید نہایت بدنما اور خوں چکا داستانوں سے بھری پڑی ہے۔

معاصر امریکی اسکالر نعوم چومسکی (Noam Chomsky) تہذیب جدید کی بربریت کے بارے میں لکھتے ہیں:

The Mid twenthieth century witnessed: Perpheps the most awfal crimes since the Mongol invasions. The most savage were carried out where Western civilization had achieved its greates splendeore.

Resort to Fear

by Naom Chomsky

وہ لکھتا ہے کہ جرمنی فوبیا (بعد از جنگ عظیم اول) سے پہلے مغربی ممالک جرمنی کو ہر لحاظ سے قابل تقلید ملک سمجھتے تھے خواہ سائنس یا آرٹ کا شعبہ ہو یا ایجوکیشن کا شعبہ، امریکہ جرمنی کو ایک ماڈل ڈیموکریسی کے متعارف کرایا کرتا تھا، لیکن یہ بات اتنی ہی سچ ہے کہ جرمنی نے ہی خوں ریزی کی بدترین تاریخ رقم کی ہے جتنی جنگ عظیم سے پہلے یورپ اور امریکہ میں جرمنی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ آپ سوچ سکتے ہیں کہ دُنیا کے اعلیٰ ترین دماغ، جونہایت پرتعیش اور خوف وخطر سے دور زندگی گزار رہے تھے تباہ کن ہتھیار بنانے میں کیوں اپنی صلاحیتیں کھپا دیتے ہیں۔ اس کا واضح سبب ہماری اپنی تہذیب کی اٹھان میں ہے۔

In the mid-1930, Germany was driven within a few years to level borbarism that has few historical counter parts.

 (Resort to Fear)

خون مغربی تہذیب کا مرغوب کھاجا ہے۔ مصنف لکھتا ہے کہ جاپان پر جوہری ہتھیار داغنے کے بعد بھی امریکی فوجی قیادت کو اطمینان نہیں تھا کہ دشمن کو مغربی تہذیب سے ٹکر لینے کا سبق سکھایا جا چکا ہے۔ شہر کے باقی زخم خوردہ آبادی کو کرب سے نجات دلانے کیلئے ایک ہزار جنگی جہاز بمباری کرتے ہیں۔

The official US Air Force History relates that after the bombing of Nagasaki, when Japan`s submission to unconditional surrender was certain, General Hap Arnold "wanted as big a finale as possible" a 1000-plane day light raid on defenless Japanese cities.

 (Resort to Fear)

یورپ میں عیسائیت کے برسراقتدار فرقے اگر اُن سے اختلاف رکھنے والے فرقے کو کمزور پاتے تو اُسے کچل کر رکھ دیتے ۔

فرانس کے قیصر Charles the Ninth نے اپنی والدہ محترمہ جو کم وبیش پچیس برس اپنے شوہر کی وفات کے بعد درپردہ حکم چلاتی تھی کے حکم پر پروٹسٹنٹ (Hugvenots) فرقے سے تعلق رکھنے والے عیسائیوں کو ایک روایت کے مطابق ساٹھ ہزار نفوس کو ایک ہی دن میں پیرس اور اس کے گرد ونواح میں آتشی اسلحے سے نہیں تلوار سے تلف کر دیتے ہیں۔

فرانس کی تاریخ میں نحوست کا یہ تہوار St. Bartholomew`s Day Massacre کے نام سے منایا جاتا ہے اور یہ واقعہ قرون مظلمہ میں نہیں تاریخ جدید 24 اگست 1573 میں ہوا تھا۔

مہذب دنیا کے اعلیٰ دماغوں نے تجارتی منڈیوں کی چھینا جھپٹی میں ’ناانصافیوں‘ کی بنیاد پر پہلی جنگ عظیم چھیڑ دی۔ اس میں صرف شہرت پسند سیاست دان ہی شامل نہ تھے بہت سے اعلیٰ دماغ دنیا کی اعلیٰ ترین جامعات سے فارغ التحصیل سائنس دان تباہ کاری کا سامان پہلے ہی میسر کر چکے تھے اس جنگ میں بیس (20) ملین ہلاکتیں ہوئی تھیں اور جنگی اخراجات کا تخمینہ 82.4 بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔

آریائی نسل پرستی نے نازیوں کو چند ہی سال میں جرمنی میں مستحکم کردیا۔ ایک خبطی نسل پرست (ہٹلر) کی چھیڑی گئی جنگ کو ایک دوسرے سفید فاموںنے ہاتھوں ہاتھ لیا اور دنیا خاموشی سے دوسری جنگ عظیم میں جوہری اور دوسرے ہتھیاروں سے ملنے والے 2.7 ملین جسموں کی لاشوں کو دفنانے کیلئے تنگ دامنی کا شکار تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے اخراجات کا تخمینہ 2100 بلین ڈالر لگایا گیا تھا۔

فرانس میں مخالف فرقے کی قتل وغارت سے لے کر پہلی جنگ عظیم تک اور پھر امریکہ کی خانہ جنگی سے دوسری جنگ عظیم کے بین البراعظمی جرائم تک مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں۔ اسلام نے نہ ہٹلر پیدا کیا ہے اور نہ مسولینی، یہ سب چراغ روشن خیالی نے جلائے تھے۔ KKK (Ko Klux Klang) کو کلس کلاں سفید فام نسل پرست اقتدار کی حامی شدت پسند تنظیم امریکہ میںکم از کم دو ادوار کے دوران میں بھرپور دہشت گردی میں ملوث رہی ہے۔ درپردہ انہیں ڈیموکریٹس کی حمایت بھی حاصل تھی۔ یہ سیاہ فام دشمنی میں اُن سفید فام معتدل صلح جو مصلحین کو بھی قتل کرنے سے باز نہیں رہتے تھے جو انسان کو بطور انسان دیکھنے کیلئے قانون سازی کو حتمی شکل دے رہے تھے۔

ابتداءمیں کلس رات گئے سیاہ فام آبادی میں گھس کر ان کی سوختی لکڑی Fire Wood چرا لیتے تھے یا صلیبوں کو جلا کر ایک دائرہ سا بنا کر (Cross burning) سیاہ فام اقلیت پر دہشت بٹھاتے تھے۔ جنوبی امریکہ میں یہ ہر جائز اور ناجائز طریقے سے سیاہ فام معلم یامعلمہ کو ملازمت چھوڑنے اور بسا اوقات علاقہ چھوڑنے پرمجبور کر دیتے تھے۔ بعد ازاں اس خفیہ تنظیم نے طاقت پکڑ لی اور دہشت گردی کیلئے اسلحے کا استعمال بھی شروع کردیا تھا۔ سفید فام عصبیت جنوبی امریکہ میں اتنی شدت سے پائی جاتی تھی کہ تنظیم کے اکثروابستگان اپنی تنظیم کے ماضی اور دستور سے نابلد ہوتے تھے۔ ان کے خلاف جو قانون پاس کیا گیا وہ Klux Klam Act کہلاتا ہے۔ بعض محققین کہتے ہیں کہ کلاں نے اسٹیٹ کے اندر اسٹیٹ بنا رکھی تھی۔

1898ءمیں امریکی صدر William Mckinley نے ایک خواب کو وحی سمجھ کر فلپین کا انضمام امریکہ میں کر لیا تھا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ یسوع مسیح اُن سے کہہ رہے ہیں کہ ایک امریکی کی طرح اپنا فرض نبھاؤ اور فلپین کو مہذب کرنے کی تیاری کرو۔

یوں تو امریکی سربراہان ’وحی صریح‘ (کتاب مقدس) پر ایمان نہیں رکھتے لیکن شہری دنیا کو تہذیب یافتہ کرنے کیلئے اپنے خوابوں پر ایمان لے آتے ہیں انیسویں صدی میں اگر ولیم ماکینلی فلپین کا ایک خواب کی بنا پر امریکہ میں انضمام کر لیتے ہیں تو بیسویں صدی میں عراق اور افغانستان کو کلے مہذب کرنے کیلئے جارج بش خواب اور انجیلی بشارتوں کو بنیاد بناتے ہیں اور اس خطرے سے بھی دنیا کو چوکنا رکھنا چاہتے ہیں کہ بابل سے یاجوج ماجوج نکلیں گے۔ 21 ویں صدی میں واقعتا فلپین ایک مثالی جمہوریت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے!

ناروے کے پروفیسر Johann Galtung لکھتے ہیں۔ مغرب امریکہ کی جائیداد ہے اور امریکہ کا خداوند سے عہد وپیماں ہے۔

عربی اسکالر فہد اعرابی اپنی کتاب جس کا انگریزی ترجمہ America which teach us Democarcy ہے میں Robert Crush کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہمیں جنگی قیدی نہیں مردہ سپاہی چاہیں، سپاہی وہ شمار ہوگا جو کم ازکم 12 برس کا ہو کر مرا ہو۔

(شیر خوار بچے، اپاہج، عورتیں اور بوڑھے جنگی ہلاکتوں میں ذکر نہیں کیئے جائیں گے)

1762ءتک اٹلی میں مذہبی جرائم کے ملزم کیلئے یہ قانون تھا کہ پہلے اس کا ایک ایک جوڑ توڑا جاتا اور پھر اُسے دردناک طریقے سے قتل کر دیا جاتا تھا یا کسی سرکش گھوڑے سے باندھ کر گھسا گھسا کر مار دیا جاتا تھا۔ Wall Durant ایسے واقعات اپنی شہرہ آفاق تصنیف The Story of Civilzation میں لکھتے ہیں۔

چومسکی برطانیہ کے وزیراعظم چرچل کی بابت لکھتا ہے کہ چرچل غیر متمدن اقوام پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو نادرست نہیں کہتے تھے۔

ہسپانوی تاریخ دان لاس کاساس (Los Casa) اپنی وفات سے پہلے پیش گوئی کرتا ہے کہ اسپین پر خدا کا غضب ایک نہ ایک روز ضرور ٹوٹے گا کیونکہ اسپین کو ساری امارت اور ثروت خوں ریزی اور ساحلی علاقوں کی چھینی ہوئی دولت سے حاصل ہوئی ہے۔

دراصل چومسکی نے جہاں مغربی تہذیب کی بربریت کو نمایاں کیا ہے وہاں ایک پتے کی بات بھی کی ہے کہ مغرب کی تہذیب غالب اس لئے ہے کہ یہ تہذیب بربریت پر ایمان رکھتی ہے۔

ہمارے نیم پڑھے دانش ور اگر دانش وری کا ایک درجہ مغربی اسکالر کے ساتھ پاس کر لیتے تو کم از کم اسلامی ممالک پر امریکہ کی فوج کشی کا الزام نائن الیون پر نہ دھرتے۔ پوپ بینڈیکٹ تو اپنی تاریخ کو خوب جانتے ہیں، ہمیں بھی اپنی تاریخ جاننا ہوگی۔

(1) شق القمر کیلئے دیکھئے صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب سوء ال المشرکین ان یریھم النبی 

(2)خوان جو حواریوں کے مطالبے پر آسمان سے نازل ہوا تھا، ملاحظہ کریں سورہ مائدہ آیت:112

(3) شق القمر کا مطالبہ چند لوگوں نے کیا تھا اور اس کیلئے کوئی وقت اور جگہ پہلے سے مقرر نہیں تھی نہ اُس کی منادی کرائی گئی تھی نیز عرب کے باشندوں نے اس معجزے کا انکار بھی نہیں کیا ہے۔ ہاں انہوںنے اسے جادوگری سے ضرور تعبیر کیا تھا۔ البتہ ہمارے نبی نے نجران کے عیسائی وفد کو مباہلے (ایسا سنجیدہ مناظرہ جس میں طرفین اپنے اہل خانہ کے ساتھ بشمول بچے جھوٹے پر لعنت کی بددُعا کریں) کا چیلنج دیا تھا۔ اس کی منادی بھی کرائی گئی تھی، کیا پوپ بینڈیکٹ بتا سکتے ہیں کہ عیسائی اس مباہلے میں کیوں نہیں آئے تھے

(4) بنی اسرائیل اس وقت سے اب تک مکروہ کیا فحاشی اور عریانی اور جسم فروشی جیسی سب حرام کاریاں برابر کرتے چلے آرہے ہیں۔ وہ اور ان کے حمایتی نصاری چاہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں کی طرح اپنے دین کی تعلیمات سے دستبردار ہوجائیں

ودَّوا لو تکفرون کما کفروا فتکونوا سواء (سورہ نساء: آیت 89)

”وہ یہ چاہتے ہیں کہ کاش جس طرح وہ کافر ہو گئے تم بھی کافر بن جاؤ“

(5) مقدس مقامات میں خوں ریزی مراد ہے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز