عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Wednesday, December 4,2024 | 1446, جُمادى الآخرة 2
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
یوم غضب۔آخرى قسط
:عنوان

:کیٹیگری
شيخ ڈاكٹر سفر الحوالى :مصنف


فصل 12:

یہ مضمون مطبوعات ایقاظ کی کتاب روز غضب کا حصہ ہے۔ مضمون کو براہ راست کتاب سے مطالعہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں

 

یوم غضب

آخری قسط 
ڈاکٹر سفر الحوالی


خدا کے غضب کا دن ،سزا کا تازیانہ بن کراسرائیل پر کیوں کر آئے گا،ایک ایسے ملک پرجو ظلم و تعدی میں اپنا ثانی نہیں رکھتااور نحوست کا گڑھ ہے ،اس سلسلے میں توراتی صحیفے ہمیں جو بتاتے ہیں وہ بہت واضح ہیں: توراتی صحیفے ہمیں اس سلسلے میں کچھ امور کو کھول کر بیان کرتے ہیں:
(1) فتح پانے والے لشکر کی صفات کیسی ہوں گی؟
(2) صہیونی فوج کا سقوط کیوں کر ہوگا؟
(3) صہیونی ریاست کے اسٹرٹیجک حلیفوں کا کیا حشر ہوگا؟
ان میں سے ہر موضوع کے سیاق میں اس عقوبت اور بربادی کے اسباب کے ساتھ ساتھ تکرار کی جاتی ہے یعنی:
”خدا کے ساتھ ان کا شرک کرنا۔ ان کا اپنے رسولوں کے ساتھ کفر کرنا۔ اس کے احکامات سے بغاوت کرنا۔ بے گناہ خون کا بہانا۔ ظلم اور سرکشی۔ مکر۔ فریب۔ غدر۔ بدکاری۔ بے کسوں اور بیواؤں پر ستم ڈھانا .... وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
آج ایک نئے زمانے کا آغاز ہو رہا ہے جس میں جہاد کی صدائیں سنائی دے رہی ہے اُمید کی جا سکتی ہے کہ حالیہ انتفاضہ ہی اس کی شروعات ہو۔ اگر نہ بھی ہو تو یہ اس کی ایک تمہید تو ضرور ہی ہے۔ ناگزیر یہ ہے کہ اب جہاد کا اعلان ہو جائے اور باقی سب نظریات اور نعرے ز میں بوس ہوجائیں۔
عربی بائبل کے ناشر نے یو ایل کے صحیفے کے اندر اس عظیم دن کے ذکر سے پہلے ایک عنوان جڑ دیا ہے ”الزمن الجدید ویوم الرب“ (1) یعنی ”دور جدید اور خدا کا دن“ جس کا آغاز خدا کے لشکر کے، جہاد کیلئے اٹھ کھڑا ہونے سے ہوگا۔ بلکہ یہ صحیفہ خود اس جہاد کی دعوت دیتا ہے اور اس پر ابھارتا ہے۔ پھر کیونکہ یہ کچھ بے بس قوموں کا جہاد ہے جن کے پاس طیارے ہیں اور نہ بھاری ہتھیار بلکہ ان میں سے بیشتر تو فولاد کی کوئی شے سوائے کھیتی باڑی کے آلات ایسی اشیا کے نہیں رکھتے۔ اور کیونکہ ان میں سے بیشتر قومیں غریب اور غیر ترقی یافتہ قومیں ہیں جو کہ سرمایہ داری مہاجنوں کی ستائی ہوئی، یہودی سود خوروں کی نچوڑی ہوئی، امریکہ پلٹ تسلط کی ماری ہوئی اورا مریکی حصار میں جکڑی ہوئی قومیں ہیں۔ اور کیونکہ ان میں لاغر افراد پائے جاتے ہیں اور ان کو خوف کا شکار کروا دیا گیا ہے جبکہ ان کا دشمن طاقتور ہے اور نیوکلر طاقت ہے اور اس کے پیچھے عالمی قوتیں اپنے لاؤ لشکر سمیت مدد کو تیار کھڑی ہیں۔ کیونکہ صورتحال ایسی ہے لہٰذا صحیفہ ان غریب اور پسماندہ قوموں کو نوید سناتا ہے تاکہ یہ کم حوصلگی کو خیرباد کہہ کر آگے بڑھیں اور عزائم جوان کرلیں:
(1) ’دور جدید‘۔ اس حوالہ سے ’نیو ورلڈ‘ کی مناسبت معنی خیز ہے (مترجم)
”قوموں کے درمیان اس بات کی منادی کرو
لڑائی کی تیاری کرو
بہادروں کو برانگیختہ کرو
جنگی جوان حاضر ہوں
وہ چڑھائی کریں
اپنے ہل کے پھالوں کو پیٹ کر تلواریں بناؤ اور ہنسوؤں کو پیٹ کر بھالے
کمزور کہے کہ میں زور آور ہوں
اے اردگرد کی سب قوموں جلد آکر جمع ہو جاؤ“۔ 
(یو ایل 3 : 9 ۔ 11)
چنانچہ یو ایل کا صحیفہ جہاد کی منادی کراتا ہے۔ توکل کا درس دیتا ہے۔ تیاری بس اتنی جس قدر ہو سکے۔ دشمنوں سے اسلحے کی اپیلیں کرنے کی ضرورت نہیں،بلکہ یومیاہ کا صحیفہ تو مظلوم قوموں کو زمانے کے ساتھ دوڑ لگا دینے پر ابھارتا ہے اور عیاشی کی سلطنت اور تشدد کے راج کو ملیامیٹ کر دینے کی پکار لگاتا ہے:
”اس سے جنگ کیلئے اپنے آپ کو مخصوص کرو
اٹھو دوپہر ہی کو چڑھ چلیں
ہم پر افسوس کیونکہ دن ڈھلتا جاتا ہے اور شام کا سایہ بڑھتا جاتا ہے
اٹھو رات ہی کو چڑھ چلیں
اور اس کے محلات ڈھا دیں
کیونکہ رب الافواج یوں فرماتا ہے کہ
درخت کاٹ ڈالو
اور یروشلم کے مقابل دمدمہ باندھو
یہ شہر سزا کا سزاوار ہے
اس میں ظلم ہی ظلم ہے
جس طرح پانی چشمہ سے پھوٹ نکلتا ہے
اسی طرح شرارت اس سے جاری ہے
ظلم اور ستم کی صدا اس میں سنی جاتی ہے
ہر دم میرے سامنے دکھ درد اور زخم ہیں
(یرمیاہ 6: 4۔7)
”دیکھ ،شمالی ملک سے ایک گروہ آتی ہے
اور انتہائے زمین سے ایک عظیم اُمت برانگیختہ کی جائے گی (1)
(1) اردو بائبل کی عبارت ہے: ”انتہائے زمین سے ایک بڑی قوم برانگیختہ کی جائے گی“ عربی بائبل کے الفاظ ہیں: ”ہی امۃ عظیمۃ ناہضۃ من اقاصی الارض“ جبکہ انگریزی بائبل کے لفظ ہیں: "
And a great nation shell be raised from the sides of the earth" چنانچہ ”ایک بڑی قوم“ کی بجائے ہم نے عظیم کا لفظ استعمال کیا ہے۔
وہ تیر انداز ونیزہ باز ہیں
وہ سنگدل اور بے رحم ہیں
ان کے نعروں کی صداسمندر کی سی ہے
اور وہ گھوڑوں پر سوار ہیں
اے دختر صہیون!
وہ جنگی مردوں کی مانند تیرے مقابل صف آرائی کرتے ہیں“
(یرمیاہ 6: 22۔23)
چونکہ وہ سوال جو شدت کے ساتھ ذہن میں اٹھتا ہے یہ ہے کہ اس وقت (صہیونیوں کی) وہ ناقابل تسخیر فوج کہاں ہوگی۔ اس بربادی کی نحوست کے دفاع پر جو فوج متعین ہے وہ اس وقت کس حال میں ہوگی ؟یسعیاہ کا صحیفہ اس کا ایک قطعی جواب دیتا ہے جو کہ سربمہر ہے اور جو کہ ناسخ تو ہو سکتا ہے منسوخ نہیں:
”اب جا کر ان کے سامنے اسے تختی پر لکھ اور کتاب میں قلمبند کرنا تاکہ آئندہ ابدالآباد تک قائم رہے....
پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے چونکہ تم اس کلام کو حقیر جاننے اور ظلم اور کجروی پر بھروسا رکھتے اور اسی پر قائم ہو۔ اس لئے یہ بدکرداری تمہار ے لئے ایسی ہوگی جیسی پھٹی ہوئی دیوار جو گرا چاہتی ہے۔اونچی ابھری ہوئی دیوار جس کاگرنا ناگہان ایک دم میں ہو۔ وہ اسے کمہار کے برتن کی طرح توڑ ڈالے گا۔ اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا چنانچہ اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکرا بھی نہ ملے گا جس میں چولہے پر سے آگ اٹھائی جائے یا حوض سے پانی لیا جائے....
پس تمہارا پیچھا کرنے والے تیز رفتار ہوں گے۔ ایک کی جھڑکی سے ایک ہزار بھاگیں گے۔ پانچ کی جھڑکی سے تم ایسا بھاگو گے کہ تم اس علامت کی مانند جو پہاڑ کی چوٹی پر اور اس نشان کی مانند جو کوہ پر نصب کیا گیا ہو رہ جاؤ گے“۔
(یسعیاہ8:30، 12۔14، 16۔17)
عاموس کا صحیفہ اس کی یوں توثیق کرتا ہے:
”میری قوم اسرائیل کا وقت آپہنچا ہے
اب میں اس سے درگزر نہ کروں گا
اور اس وقت مقدِس کے نغمے نوحے ہو جائیں گے
خداوندخدا فرماتا ہے
بہت سی لاشیں پڑی ہوں گی
وہ چپکے چپکے ان کو ہر جگہ نکال پھینکیں گے
(عاموس 8 : 2۔ 3)
پھر مجاہدین کی صفات بھی بتائی جاتی ہیں اور ان کی جراءت وبسالت کی ایک بے مثال تصویر کھینچی جاتی ہے۔ گویا کہ سپیدہ سحرہے جو ہر طرف چھا جاتا ہے۔ یو ایل کا صحیفہ بیان کرتا ہے:
”ایک بڑی اور زبردست امت
جس کی مانند نہ کبھی ہوئی
اور نہ سالہائے دراز تک اس کے بعد ہوگی
پہاڑوں پر صبح صادق کی طرح پھیل جائے گی
گویا ان کے آگے آگے آگ بھسم کرتی جاتی ہے
اور ان کے پیچھے پیچھے شعلہ جلاتا جاتا ہے
ان کے آگے زمین باغِ عدن کی مانند ہے
اور ان کے پیچھے ویران بیابان ہے
ہاں ان سے کچھ نہیں بچتا
ان کی نمود گھوڑوں کی سی ہے
اور سواروں کی مانند دوڑتے ہیں
پہاڑوں کی چوٹیوں رتھوں کے کھڑکھڑانے
اور بھوسے کو بھسم کرنے والے شعلہِ آتش کے شور کی مانند
بلند ہوتے ہیں۔وہ جنگ کیلئے صف بستہ زبردست قوم کی مانند ہیں
ان کے روبرو لوگ تھرتھراتے ہیں
سب چہروں کا رنگ فق ہو جاتا ہے
و پہلوانوں کی طرح دوڑتے
اور جنگی مردوں کی طرح دیواروں پر چڑھ جاتے ہیں
سب اپنی اپنی راہ پر چلتے ہیں
اور صف نہیں توڑتے
وہ ایک دوسرے کو نہیں دھکیلتے
ہر ایک اپنی راہ پر جلا جاتا ہے
وہ جنگی ہتھیاروں سے گزر جاتے ہیں
اور بے ترتیب نہیں ہوتے
وہ شہر میں کود پڑتے اور دیواروں اور گھروں پر چڑھ کر چوروں کی طرح
کھڑکیوں سے گھس جاتے ہیں (یو ایل 2: 2۔9)
یسعیاہ کا صحیفہ ان (مجاہدین) کا وصف یوں بیان کرتا ہے:
”اور وہ قوموں کے لیے دور سے جھنڈا کھڑا کرے گا
اور ان کو زمین کی انتہا سے للکار کر بلائے گا
اور دیکھ وہ دوڑے چلے آئیں گے
نہ کوئی ان میں تھکے گا نہ پھسلے گا
نہ کوئی اونگھے گا نہ سوئے گا
نہ ان کا کمر بند کھلے گا اور نہ ان کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹے گا
ان کے تیر تیز ہیں اور ان کی سب کمانیں کشیدہ ہوں گی
ان کے گھوڑوں کے سُم چقمان
اور ان کی گاڑیاں گردباد کی مانند ہوں گی
وہ شیرنی کی مانند گرجیں گے
ہاں وہ جوان شیروں کی طرح دھاڑیں گے
وہ غرا کر شکار پکڑیں گے
اور اسے بے روک ٹوک لے جائیں گے
اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا
اور اس روز وہ ن پر ایسا شور مچائیں گے
جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے
اور اگر اس ملک پر نظر کرے تو بس اندھیرا اور تنگ حالی ہے
اور روشنی اس کے بادلوں سے تاریک ہو جاتی ہے
(یسعیاہ 5: 26۔ 30)
صہیونی جنگی قیدیوں کا انجام بھی بیان کیا جاتا ہے یہ صحیفہ استثناءکے اندر آتا ہے:
”اور خداوند تجھ کو کشتیوں میں چڑھا کر اس راستے سے مصر میں لوٹا لے جائے گا جس کی بابت میں نے تجھ سے کہا کہ تو اسے پھر کبھی نہ دیکھنا اور وہاں تم اپنے دشمنوں کے غلام اور لونڈی ہونے کیلئے اپنے آپ کو بیچو گے پر کوئی خریدار نہ ہوگا“۔ (استثناء68:28)
اس بات کی وضاحت پھر صحیفہ یرمیاہ میں آتی ہے:
”دیکھو میں تجھ پر فتوی دوں گا کیونکہ تو کہتی ہے میں نے گناہ نہیں کیا۔ تو اپنی راہ بدلنے کو ایسی بے قرار کیوں پھرتی ہے؟ تو مصر سے بھی شرمندہ ہوگی جیسے آشور سے ہوئی“۔ (یرمیاہ 2: 35۔36)
”کیا اسرائیل غلام ہے؟ کیا وہ خانہ زاد ہے؟ وہ کس لئے لُوٹا گیا؟ جوان شیر ببر اس پر غرائے گئے اور گرجے او رانہوں نے اس کا ملک اجاڑ دیا۔ اس کے شہر جل گئے۔ وہاں کوئی بسنے والا نہ رہا۔ بنی نوف (قوم مصر کا ایک شہر) اور بنی تحفنیس (قدیم مصر کا ایک اور شہر) نے بھی تیری کھوپڑی پھوڑی“۔ 
(یرمیاہ: 2: 14۔16)
بلاشبہ مجاہدین تو ہر خطے اور ہر علاقے سے آئیں گے مگر ان صہیونیوں کو مصر میں لے جا کر ذلیل کئے جانے کی ایک اپنی معنویت ہے۔ اس سے یہ پہلے پہل نکالے گئے تھے جب اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلت ناک غلامی سے نجات دلوائی تھی۔ مگر اب ان کے ارتداد کے باعث جس کی کہ مذکورہ صحیفہ بار بار صراحت کرتا ہے، یہ وہیں پر غلام بنا کر لوٹائے جائیں گے مگر اس بار ان کا کوئی خریدار نہ ہوگا۔ کیوں؟ پلید ہیں۔ جسم میں ایڈز کے وائرس لئے پھرتے ہیں اور دلوں کے اندر کینہ اور غدر۔ اب کوئی ان کا خریدار نہیں۔ غلام اور لونڈی بنا کر بھی نہیں!!
دوسری طرف گویا جیسے کوئی صور پھونک دیا گیا ہو۔ فسلطین پناہ گزیں واپس اپنی آبائی بستیوں کو چلے آتے ہیں۔ مسلمان ہیں کہ اس فتح عظیم کے بعد ہر طرف سے ارض مقدس کی جانب زیارت اور اعتکاف کیلئے دوڑ پڑتے ہیں۔ خصوصاً عراق اور مصر سے:
”اور اس وقت یوں ہوگا کہ خداوند دریائے فرات کی گزرگاہ سے رودِ مصر تک (غلہ) جھاڑ ڈالے گا اور تم اے بنی اسرائیل ایک ایک کرکے جمع کئے جاؤ گے۔ اور اس وقت یوں ہوگا کہ بڑا نر سنگا پھونکا جائے گا اور وہ جو آشور کے ملک میں قریب الموت تھے اور وہ جو ملک مصر میں جلاوطن تھے آئیں گے اور یروشلم کے مقدس پہاڑ پر خداوند کی پرستش کریں گے“۔ (یسعیاہ 27: 12۔13)
عراق اس لئے کہ خدا نے ان سے وہ حصار ہٹا دیا جس نے ان کو فاقے اور بے حالی میں مبتلا کر رکھا تھا! (1)
(1) شیخ سفر کی یہ تحریر عراق پر امریکی قبضہ سے پہلے کی ہے۔ اب صرف حصار ہی نہیں بلکہ کافر فوجیں اور ان فوجوں کے اندر صہیونی گماشتے عراق میں مسلمانوں پر ظلم ڈھا رہے(مترجم) 
مصر اس لئے کہ مسلمانان مصر کو اپنے ملک کے ماتھے سے کیمپ ڈیوڈ کا ٹکہ ہٹا دینے کی خواہش ہوگی!
رہ گیا صہیونیت کے اسٹرٹیجک حلیف کا انجام تو دانیال کی پیش گوئی پر پیچھے جو گفتگو ہوئی اس کا کچھ پس منظر وہاں آتا ہے۔ وہاں ہم اور وہ دونوں اتفاق کر آئے ہیں کہ ’سلطنت رومائے جدید‘ ہی وہ حلیف ہے۔ لیکن چونکہ وہ لوگ جو قیام اسرائیل سے پہلے اس موضوع پر لکھتے رہے کہ بابل جدید سے مراد دراصل وہی پرانا بابل ہے ۔ یعنی یہ کہ یہ پیش گوئی پرانے زمانے کے اندر ہی پوری ہو چکی ___ جبکہ ان کی اس رائے کا بطلان پیچھے گزر گیا ہے ___ خصوصاً کیونکہ ان پیشگوئیوں کے بیان کرنے والے بعض انبیا بابل کے تباہ ہو جانے کے صدیوں بعد رونما ہوئے تھے اور یہ کہ بابل کا یہ وصف بیان کرنا کہ وہ جدید ہوگا خود ہی یہ بیان کرنے کیلئے بہت کافی ہے کہ یہ پہلے والا بابل نہیں۔ یہ اس طرح ہے جیسے کہا جائے کہ ابوجہل اس اُمت کا فرعون ہے یا کوئی یہ کہے کہ امریکا اس زمانے کا عاد ہے وغیرہ .... یا پھر ان لوگوں نے اس کی تفسیر اس روم (اٹلی) سے کی جس میں کہ کیتھولک چرچ کا صدر دفتر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس خانہ خراب (اسرائیل) کے قیام کے بعد لکھنے والے تھے تو انہوںنے اس حقیقت سے ویسے ہی اغماض برتا بلکہ وہ الٹا یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی عظمت کا راز اس کی اسرائیل کی نصرت کرتے رہنے کے باعث بابرکت ہونا ہے.... چنانچہ اس باعث صہیونیوں کے اس حلیف کا انجام پیشین گوئیاں پڑھنے والوں کی نگاہوں سے روپوش ہو گیا۔
پس لازم ہے کہ ہم ہی اس حلیف کا وہ وصف اور انجام بیان کریں جو کہ ان کے صحیفوں میں آتا ہے:
(1) یسعیاہ دولت نحوست کو مخاطب کرکے کہتا ہے:
”جب تو فریاد کرے تو جن کو تو نے جمع کیا ہے وہ تجھے چھڑائیں پر ہوا ان سب کو اڑا لے جائے گی۔ ایک جھونکا ان کو لے جائے گا۔ لیکن مجھ پر توکل کرنے والا زمین کا مالک ہوگا اور میرے کوہِ مقدس کا وارث ہوگا“۔
(یسعیاہ 13:57)
یسعیاہ ان کو تنبیہ کرتا ہے:
”سو جب خداوند اپنا ہاتھ بڑھائے گا تو حمایتی گر جائیگا اور وہ جس کی حمایت کی گئی پست ہو جائیگا اور وہ سب کے سب اکٹھے ہلاک ہو جائیں گے“۔
(یسعیاہ 3:31)
(2) یرمیاہ جدید بابل کا حال بیان کرتا ہے:
”تمام دُنیا کا ہتھوڑا کیونکر کاٹا اور توڑا گیا! بابل قوموں کے درمیان کیساجائے حیرت ہوا! میں نے تیرے لئے پھندا لگایا اور اے بابل تو پکڑا گیا اور تجھے خبر نہ تھی۔ تیرا پتہ ملا اور تو گرفتار ہو گیا کیونکہ تونے خداوندسے لڑائی کی ہے“۔
(یرمیاہ 23:50-24)
اس کے بارے میں کہتا ہے کہ اس نے خدا کے مقابلے میں اپنے آپ پر گھمنڈ کیا:
”تیر اندازوں کو بلا کر اکٹھا کرو کہ بابل پر جائیں۔ سب کمانداروں کو ہر طرف سے اس کے مقابل خیمہ زن کرو۔ وہاں سے کوئی بچ نہ نکلے۔ اس کے کرتوت کے موافق اس کو بدلہ دو۔ سب کچھ جو اس نے کیا اس سے کرو کیونکہ اس نے خداوند اسرائیل کے قدوس کے حضور بہت تکبر کیا۔ اس لئے اس کے جوان بازاروں میں گر جائیں گے اور سب جنگی مرد اس دن کاٹ ڈالے جائیں گے۔ خداوند فرماتا ہے:
اے مغرورو! دیکھ میں تیرا مخالف ہوں۔ خداوند رب الافواج فرماتا ہے کیونکہ تیرا وقت آپہنچا ہاں وہ وقت جب میں تجھے سزا دوں اور وہ گھمنڈی ٹھوکر کھائے گا۔ وہ گرے گا اور کوئی اسے نہ اٹھائے گا۔ اور میں اس کے شہروں میں آگ بھڑکاؤں گا اور وہ اس کی تمام نواحی کو بھسم کردے گی“۔ 
(یرمیاہ 29:50۔32)
اس بابل جدید کے کچھ اور اوصاف صحیفہ یرمیاہ میں اس طرح آتے ہیں:
الف: ”بابل خداوند کے ہاتھ میں سونے کا پیالہ تھا جس نے ساری دُنیا کو متوالا کیا۔ فوجوں نے اس کی مے پی اس لئے وہ دیوانہ ہیں“۔
(یرمیاہ 7:51)
ب: ”اے نہروں پر سکونت کرنے والے جس کے خزانے فراوان ہیں“۔ 
(یرمیاہ 13:51)
ج: یہ مختلف قوموں سے مل کر بننے والی ایک قوم ہے۔ تبھی جب روز غضب کو شروعات ہوں گی یہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں گے:
”آؤ ہم سب اپنے اپنے وطن کو چلے جائیں کیونکہ اس کی سزا آسمان تک پہنچی اور افلاک تک بلند ہوئی“۔ (یرمیاہ 9:51)
(3) یسعیاہ کا صحیفہ صراحت کرتاہے کہ روز غضب یہ سماں صرف اس بربادی کی نحوست تک محدود نہ رہے گی بلکہ:
”اس دن خداوند اپنی سخت او ربڑی اور مضبوط تلوار سے اژدھا یعنی تیزرو سانپ کو اور اژدھا یعنی پیچیدہ سانپ کو سزا دے گا اور دریائی (سمندری) اژدھا کو قتل کرے گا“۔
(یسعیاہ 1:27)
ان کے شارحین اس کی تفسیر میں پریشان ہو کر رہ گئے ہیں۔ مگر بربادی کی اس ریاست کے قیام پر جو شخص غور کرتا ہے وہ اس نتیجہ کو پہنچتا ہے کہ نحوست کو قائم کرنے والے تین سانپ ہیں:
1 : وہ سانپ جو اپنا کام کرکے بھاگ گیا جس نے کہ (یہودی ریاست کے قیام کی تمہید کے طور پر اعلان بالفور (
Balfour Declaration) جاری کیا اور صہیونی گماشتہ ٹولوں کو یہاں منتقل ہونے کیلئے راہ ہموار کی .... یعنی سلطنت برطانیہ۔
2 : پیچیدہ یعنی کنڈلی مار کر بیٹھنے والا سانپ جو کہ ارض مقدس پر کنڈلی مار کر بیٹھا ہے۔ یعنی دولت صہیون۔
3: بڑا سمندری اژدھا (
dragon) جو کہ سمندر میں بیٹھا ہے۔ سمندر میں اپنے طیارہ بردار بحری بیڑے اور مسلمانوں کیلئے تباہی کا سب سامان رکھ کر بیٹھا ہے .... یعنی امریکہ۔
اس بات کی تائید ہماری اس پچھلی گفتگو سے ہوتی ہے جو پیچھے ہم (دانیال کی پیشین گوئی والی فصل میں) ’درندہ‘ کی تفسیر کی بابت کر آئے ہیں اور وہاں دیکھ آئے ہیں کہ یہ وہ اژدھا ہی ہے جو درندے کو قوت اور اقتدار دیتا اور اس کی پشت پناہی کرتا ہے۔
پروٹسٹنٹ شارحین (عیسائی بنیاد پرستی کا مکتب فکر پروٹسٹنٹ ہی ہے) اس (جدید) بابل کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہ آخری زمانے کا کیتھولک چرچ ہوگا۔ یعنی نزول مسیح سے پیشتر کی کچھ صدیوں میں پایا جانے والا کیتھولک چرچ .... یہ لوگ جدید بابل کی یہ صفات جو توراتی صحیفوں میں وارد ہوئی ہیں ان کی یہ تفسیر کرتے ہیں کہ یہ روم کا شہر (ویٹی کن) ہے۔ چنانچہ یہ پیشین گوئی کرتے ہیں کہ یہ شہر برباد ہو جائے گا۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ وصف جو ان صحیفوں میں بیان ہوا ہے ایک ایسے شہر پر منطبق نہیں ہوتا جو اپنی دین داری کی رو میں گم گشتہ راہ ہوا ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسی سلطنت پر منطبق ہوتا ہے جو اپنے تکبر اور گھمنڈ میں آگے گزر کر گم گشتہ راہ ہوئی ہے۔ جو آج اپنے خالق کو چیلنج کر رہی ہے اور اس پر ایمان رکھنے والوں کے خلاف اپنے سب سازوسامان کے ساتھ برسر جنگ ہے۔ اس بنا پر ہمارے لئے یہ آسان ہو جاتا ہے کہ ہم
Bates کی اس غلطی کی نشاندہی کریں جو وہ صحیفہ مکاشفہ کی شرح کے ضمن میں کرتا ہے۔ Bates جدید بابل کے وصف میں بائبل کے صحیفہ مکاشفہ Revelations سے خود یہ باتیں نقل کرتا ہے:
(الف) ”بڑی کسبی کی سزا دکھاؤں جو بہت سے پانیوں پر بیٹھی ہوئی ہے اور جس کے ساتھ زمین کے بادشاہوں نے حرامکاری کی تھی اور زمین کے رہنے والے اس کی حرامکاری کی مے سے متوالے ہو گئے تھے۔
(مکاشفہ یوحنا 1:17)
(ب) ”پانیوں“ سے مراد بھی اسی صحیفہ میں بتائی گئی: ”جو پانی تو نے دیکھے جس پر کسبی بیٹھی ہوئی ہے وہ امتیں اور گروہ اور قومیں اور اہل زبان ہیں“۔
(مکاشفہ 15:17)
(ج) جب یہ (نئے دور کا بابل) تباہ ہو جاتا ہے تو: ”زمین کے سوداگر اس کیلئے روئیں گے اور ماتم کریں گے کیونکہ اب کوئی ان کا مال نہیں خریدنے کا .... اب تیرے دل پسند میوے تیرے پاس سے دو ہو گئے اور سب لذیذ اور تحفہ چیزیں تجھ سے جاتی رہیں۔ اب وہ ہرگز ہاتھ نہ آئیں گی۔ ان چیزوں کے سوداگر جو اس کے سبب سے مالدار بن گئے اس کے عذاب کے خوف سے دور کھڑے ہوئے روئیں گے اور غم کریں گے اور کہیں گے: افسوس! افسوس! وہ بڑا شہر جو مہین کتانی اور ارغونی اور قرمزی کپڑے پہنے ہوئے اور سونے اور جواہر اور موتیوں سے آراستہ تھا، گھڑی ہی بھر میں اس کی اتنی بڑی دولت برباد ہو گئی!“
(مکاشفہ 11:18۔17)
چنانچہ یہ ایک ایسا ملک ہے جس میں تعیش کے سب سامان ہیں۔ یہ عالمی تجارت کا مرکز ہے۔ دیوہیکل کمپنیوں کا پشت پناہ ہے .... یہ جدید بابل وہ ملک ہونا چاہیے جس کے تباہ ہونے کے نتیجے میں عالمی اقتصاد کی منڈیاں مندے میں چلی جائیں۔ روم (ویٹی کن) بھلا اس وصف پر کہاں پورا اترتا ہے؟!
پھر صحیفہ کہتا ہے: ”تیرے سوداگر زمین کے امیر تھے اور تیری جادوگری سے سب قومیں گمراہ ہو گئیں اور نبیوں اور مقدسوں اور زمین کے اور سب مقتولوں کا خون اس میں بہایا گیا“۔ (مکاشفہ 23:18۔24)
”پھر ایک زور آور فرشتہ نے بڑی چکی کے پاٹ کی مانند ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر سمندر میں پھینک دیا کہ بابل کا شہر بھی اسی طرح زور سے گرایا جائے گااور پھر کبھی اس کا پتہ نہ ملے گا“۔ 
(مکاشفہ 21:18)
تب، جیسا کہ صحیفہ بتاتا ہے، دُنیا کی سب قومیں سکھ کا سانس لیتی ہیں اور اہل آسمان خدا کا شکر کرنے لگتے ہیں:
”ہللویاہ! نجات اور جلال اور قدرت ہمارے خدا ہی کی ہے۔ کیونکہ اس کے فیصلے راست اور درست ہیں۔ اس لئے کہ اس نے اس بڑی کسبی کا انصاف کیا جس نے اپنی حرامکاری سے دُنیا کو خراب کیا تھا اور اس سے اپنے بندوں کے خون کا بدلہ لیا“۔
(مکاشفہ 1:19۔2)
چنانچہ یہ روم (ویٹی کن) کیسا ہوا۔ یہ تو امریکہ ہی بنتا ہے۔ وگرنہ عیسائی بنیاد پرست ایک کام کریں۔ ان پیشین گوئیوں کو اپنے صحیفوں سے مٹا دیں۔ پھر خود بھی آرام کریں اور دوسروں کو بھی آرم کرنے دیں۔
جہاں تک اس (بابل جدید) کی سزا کا ذکر ان صحیفوں میں آتا ہے تو یا تو وہ خدائی سزائیں ہیں یعنی قدرتی آفات مثلاً طوفان اور گردبار:
”تمام روئے زمین کا ستودہ یکبارگی لے لیا گیا! بابل قوموں کے درمیان کیسا ویران ہوا!! سمندر بابل پر چڑھ گیا ہے۔ وہ اس کی لہروں کی کثرت سے چھپ گیا، اس کی بستیاں اجڑ گئیں۔ وہ خشک زمین اور صحرا ہو گیا۔ ایسی سرزمین جس میں نہ کوئی بستا ہو اور نہ وہاں آدم زاد کا گزر ہو۔ کیونکہ میں بابل میں بیل کی سزا دوں گا اور جو کچھ وہ نگل گیا ہے اس کے منہ سے نکالوں گا اور پھر قومیں اس کی طرف روانہ نہ ہوں گی۔
(یرمیاہ 41:51۔44)
جبکہ دانیال اور متی میں زلزلوں اور وباؤں کا ذکر آتا ہے جو زمین میں رونما ہوں گی اور جس میں ظاہر ہے کہ بابل کا حصہ سب سے زیادہ ہوگا۔ جبکہ کچھ سزائیں انسانوں کے ہاتھوں ہو گی گو ہوں گی وہ بھی خدا کی طرف سے:
”اے نہروں پر سکونت کرنے والی جس کے خزانے فراوان ہیں تیری تمامی کا وقت آپہنچا، اور تیری غارت گیری کا پیمانہ پر ہو گیا۔ رب الافوج نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ یقینا میں تجھ میں لوگوں کو ٹڈیوں کی طرح بھر دوں گا اور وہ تجھ پر جنگ کا نعرہ ماریں گے۔ اسی نے اپنی قدرت سے زمین کو بنایا، اسی نے اپنی حکمت سے جہان کو قائم کیا“۔ (یرمیاہ 51: 13)
یہ ہیں وہ پیشین گوئیاںجو مقدس بائبل کہتی ہے:
خدا کی ان برگزیدہ افواج کی فتح کا ترانہ یا ہوگا جس اس نحوست کی ریاست کو تو بالیقین تباہ کر دیں گے اور غالباً اس کے پشت پناہ حلیف کو بھی؟ یہ ایک خوبصورت ترانہ ہے جو یسعیاہ میں آتا ہے:
”جاگ جاگ اے صہیون! (جو کہ دراصل فسلطین ہے)
اپنی شوکت سے ملبس ہو!
اے یروشلم!
اے مقدس شہر!
اپنا خوش نما لباس پہن لو!
کیوکہ آگے کوئی نامختون یا ناپاک تجھ میں کبھی داخل نہ ہوگا۔
اپنے اوپر سے گرد جھاڑ دے
اٹھ کر بیٹھ
اے یروشلم! اے اسیر دختر صیون
اپنی گردن کے بندھوں کو کھول ڈال“۔ 
(یسعیاہ1:52۔2)
چنانچہ آخر وہ کونسی اُمت ہے جو نہ تو نامختون ہیں اور نہ ہی ناپاک؟
پھر پیشین گوئی بیان کرتی ہے کہ خدا اپنے ان ایمان دار بندوں کو کس طرح اپنا احسان جتلائے گا جو خدا کی اس نصرت پر خوشیاں منا رہے ہوں گے:
”اور میں اس وقت لوگوں( اور اصل امیوں
gentiles) کے ہونٹ پاک (نہ کہ اسرائیلی ناپاک ہونٹ) کردوں گا تاکہ وہ سب خداوند سے دُعا کریں اور کندھا جوڑ کر اس کی عبادت کریں۔ (1)
(1) عربی بائبل کے الفاظ ہیں ”لیعبدوہ بکتف واحدۃ“ اس لئے ہم نے اُردو بائبل کے الفاظ یہاں نہیں دیے۔ اُردو بائبل کے الفاظ ہیں ”ایک دل ہو کر اس کی عبادت کریں“۔
(صفنیاہ 9:3)
تمام اہل دُنیا عام طور پر اور اہل کتاب خاص طور پر جانتے ہیں کہ دُنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو کندھے سے کندھا ملا کر اور سیسہ پلائی دیوار بن کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتی ہو، سوائے ایک اُمت اسلام کے۔ انہی کے ہونٹ سب سے پاکیزہ بات کرتے ہیں۔ ان کے ہونٹوں کی پا کی کیلئے یہی بات کافی ہے کہ یہ ہونٹ خدا کی بابت کوئی ناروا بات نہیں کرتے مثلاً کسی کا یہ کہنا کہ خدا کا بیٹا ہے یا یہ کہ خدا لاعلمی یا نسیان کا شکار ہوتا ہے اور اپنی غلطی ظاہر ہونے پہ پشیمان ہونا ہے، سبحٰنہ وتعٰلی عما یقولون علواً کبیراً


فصل 13: قل عسی اَن یکون قریباً ”پوچھیں گے: ”اچھا تو یہ کب ہوگا“؟ تم کہو ”کیا عجب وہ وقت قریب ہی آلگا ہو“!
اب سب سے آخری او ردشوار سوال باقی رہ جاتاہے: یہ روز غضب آئے گا کب؟ اور خدا اس نحوست کے گھر کو کب برباد کرے گا؟ بیت المقدس کی زنجیریں کب ٹوٹیں گی اور اس کے باسی کب واگزار ہوں گے؟
اس کا جواب ضمناً گزر چکاہے چنانچہ دانیال نے جب اس مدت کا تعین کیا جو کہ مصیبت کے آنے اور اس سے خلاصی پانے کے مابین ہوگی یعنی آزمائش اور نوید نجات کی درمیانی مدت تو وہ 45 سال تھی!!
اب ہم نے دیکھ لیا کہ (مصیبت کے آنے کا جو وقت یکے از تفاسیر اہل کتاب کی رو سے متعین کیا گیا) وہ 1967 بنتا ہے اور اس سال نحوست کا یہ ملک (بیت المقدس میں) قائم ہوا۔ اب یہ واقعہ تو ہو چکا ہے۔
اب اس بنا پر اس دور مصیبت کا اختتام یا دور مصیبت کے اختتام کا آغاز (سن 1967+ 45) = 2012ءبنتا ہے۔ ہجری لحاظ سے 1387 + 45 = 1433ھ
اسی کی ہم اُمید کر سکتے ہیں۔ مگر وثوق سے ہرگز نہیں کہیں گے الا یہ کہ وقائع سے ہی اس کی تصدیق ہو جائے۔ تاہم عیسائی بنیاد پرست اگر ہمارے ساتھ شرط بدنا چاہیں جس طرح کہ قریش نے ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ روم کی فتح کی بابت باندھی تھی تو کسی ادنی ترین شک کے بغیر ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہم سے ضرور شرط ہار جائیں گے بغیر اس کے کہ ہم کوئی خاص سن بتانے کے پابند ہیں۔
××××××××××××××

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز