دعوت کا منہج کیا ہو؟
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
دعوت کا منہج کیا ہو؟
محمد
قطب
آج اگر ہم اپنے گرد وپیش پہ نگاہ ڈالیں تو الا ماشاءاللہ اُمت کو ہم
’خس وخاشاک‘ کی اسی حالت میں پاتے ہیں جو کہ چودہ صدیاں پیشتر رسول اللہ r بیان فرما گئے ہیں:
”یوشک ان تداعی علیکم الامم کما تداعی الاکلۃ علی قصصتہا“ قالوا: امن قلۃ نحن
یومئِذِ یا رسول اﷲ؟ قال: ”بل اَنتم یومئذٍ کثیر، ولکنکم غثاءکغثاءالسیل، ولینزعن
اﷲ المہابۃ من صدور اعدائکم، ولیقذفن فی قلوبکم الوھن”غثاءقالوا: وما الوھن یا
رسول اﷲ؟ قال: ”حب الدنیا وکراھیۃ الموت“ (1)
(1) اخرجہ احمدو ابوداؤد
”قریب ہے کہ دُنیا کی قومیں تم پر یوں ٹوٹ پڑیں جیسے بھوکے کھانے کے تھال پر ٹوٹ
پڑتے ہیں“ صحابہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول کیا اس لئے کہ تب ہم بہت تھوڑے ہوں
گے؟ فرمایا ”نہیں نہیں! اس روز تعداد میں تو تم بہت زیادہ ہو گے۔ مگر تم خس وخاشاک
ہو گے جیسے خس وخاشاک سیلاب (کی سطح) پر ہوا کرتے ہیں۔ خدا تمہارے دشمنوں کے سینوں
سے تمہاری ہیبت ختم کردے گا اور تمہارے دلوں میں وَھَن (کمزوری) ڈال دے گا صحابہ
نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول یہ وَھَن کیا ہوگا؟ فرمایا: ”دُنیا پہ ریچھ جانا اور
موت سے جی چرانا“۔
اب یہ اُمت جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا ہے، چاہے وہ بنیادی جمعیت کی تیاری
کے معاملہ میں ہو، چاہے توسیع جمعیت کے معاملہ میں، یا پھر عوام الناس کو ساتھ
چلانے کے معاملہ میں.... یہ اُمت جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا ہے اگر اس حال
کو پہنچ چکی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی تو پھرہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ان محرکات
کا جائزہ لیں جو اُمت کے اس نوبت کو پہنچ جانے کا سبب بنے ہیں، تاکہ ہم کوئی مناسب
علاج تجویز کرنے کی پوزیشن میں ہوں، بالکل ویسے ہی جیسے آپ کسی معالج کو طلب کرتے
ہیں تو سب سے پہلے وہ مریض کی تشخیص کرتا ہے، پھر وہ مرض کا تعین کرتا ہے اور تب
جا کر دوا تجویز کرتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ فرض کر لینا ہی درست نہیں کہ وہ بنیادی جمعیت جس پر دعوت اصل
انحصار کرے گی اس کا آسمان سے کہیں نزول ہو چکا ہے اور وہ ہر عیب سے پاک صاف مثالی
حالت میں موجود و دستیاب ہے! یہ جمعیت اپنی مطلوبہ حالت وکیفیت میں اگر کہیں موجود
ہوتی تو پھر دُکھ ہی کس بات کا تھا۔ یہ ’بنیادی جمعیت‘ خود بھی تو اسی اُمت کا ہی
حصہ ہے۔ جن حالات نے اس اُمت پر افتاد کر رکھی ہے، ان سے یہ بھی کیسے محفوظ رہ
سکتی تھی۔ جن امراض سے اس اُمت کو واسطہ پڑا ہے وہی اس کو بھی کسی نہ کسی انداز میں
لاحق ہیں۔ البتہ جیسا کہ رسول اللہ r کا فرمان ہے: خیارکم فی
الجاھلیۃ خیارکم فی الاسلام اذا فقھوا (1)”تم میں جو لوگ جاہلیت میں چنیدہ ہوں گے
وہی اسلام میں چنیدہ ہوں گے بشرطیکہ وہ (اسلام کا) فہم پالیں“ تو اس بنیاد پر ہم
کہہ سکتے ہیں کہ آج کی اس جزوی جاہلیت میں جس کی بابت امام ابن تمیہؒ فرماتے ہیں
کہ یہ اسلام کے کئی ایک خطوں میں آج بھی پائی جا سکتی ہے.... آج کی اس جاہلیت میں
کچھ ’چنیدہ‘ لوگ پائے جا سکتے ہیں جو کچھ مطلوبہ محنت کرلینے اور اپنے آپ کو ایک
بھرپور تبدیلی سے گزار لینے کے نتیجے میں اس تحریکی عمل کا بنیادی بیج بن سکتے ہیں
جس کو آج کے اس دور میں برپا کیا جانا ہے پھر یہاں کچھ اور ’چنیدہ‘ عناصر پائے جا
سکتے ہیں جو کچھ مطلوبہ محنت کر لینے کے نتیجے میں ’توسیع شدہ جمعیت‘ کی صورت دھار
سکتے ہیں جس کو اس ابتدائی جمعیت کے گردا گرد اکٹھا ہونا اور اس کے ساتھ قدم سے
قدم ملا کر چلنا ہے، پھر اس کے بعد عوام الناس کی تحریکی وسماجی شمولیت ہوگی اور
ان میں سے ’چنیدہ‘ لوگ اس دعوت کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور دل وجان سے اس کا ساتھ
دیں گے البتہ وہ لوگ جو عوام الناس میں سے ایسا نہ کریں گے یزعھم السلطان اذا لم
یزعھم القرآن.... جو قرآن کے زیرنگین نہ ہوں گے وہ سلطان (اسلام کا اقتدار وسماجی
دباؤ) کے زیرنگین آئیں گے۔
(1) اخرجہ البخاری
تو پھر اب دیکھتے ہیں کہ آج کی یہ موجودہ نسل جس کو اس دعوت کا مخاطب بنایا جانا
ہے وہ کس حال میں ہے اور اس کو اس ’خس وخاشاک‘ والی کیفیت تک کس چیز نے پہنچایا
ہے، تاکہ ہم یہ فیصلہ کر سکیں کہ علاج کہاں سے شروع ہو اور علاج کے معاملہ میں ہم
کو کیا کیا اقدامات کرنا ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں بیشمار امراض ایسے ہیں جو صدیوں کے اس تاریخی سفر کے درمیان
اس اُمت کو لاحق ہوتے رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مرض ایسے ہیں جو اس کے اپنے ہی اندر
سے پھوٹتے رہتے ہیں اور کچھ مرض ایسے ہیں جو دشمنوں کے ہاں سے اس کو منتقل ہوئے۔
ان امراض کا تفصیلاً شمار کرنا بھی کوئی آسان کام نہیں۔ البتہ ہم سمجھتے ہیں کہ
کچھ امراض تو اس حد تک نمایاں ہیں کہ ’چیک اپ‘ کرنے والے کسی بھی شخص کی نگاہ سے
اوجھل نہیں رہ سکتے۔
ان امراض میں ایک نمایاں ترین مرض ارجائی فکر ہے، جس کی رو سے ایمان دل سے تصدیق
کر دینے اور زبان سے اقرار کر لینے کا نام ہے اور یہ کہ ’عمل‘ ایمان کے مفہوم میں
سرے سے شامل نہیں!
یہ بات کہ دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کیا جانا ایمان کا اعتبار کیا جانے کیلئے
لازم ومطلوب ہے تو اس پر ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ یہ بات کہ ’عمل‘ ایمان کی
تعریف میں داخل نہیں تو یہ ایک خطرناک بدعت ہے اور اس دین کی حقیقت سے ایک شدید
ترین انحراف.... اس دین کی حقیقت سے انحراف جو کہ عمل اور محنت اور جہاد کے بغیر
دُنیا میں نہ کبھی قائم ہوا اور نہ کبھی ہو سکتا ہے، جو ایک ایسی عظیم جدوجہد کے
بغیر جو زمین کے اندر زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دے کوئی قابل ذکر واقعہ کبھی بن
سکا ہے اور نہ کبھی بن سکے گا۔ وہ غربت وکمپسری جو اسلام کو پہلی بار لاحق تھی
(1)وہ محض ’دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار‘ کے بل پر زائل نہیں ہو گئی تھی! دُنیا
کا کوئی بھی نظام، کجا یہ کہ وہ دُنیا کا بہترین نظام ہو، محض دل کی تصدیق اور
زبان کے اقرار کے سہارے قائم نہیں ہوتا جب تک کہ اس ’دل کی تصدیق اور زبان کے
اقرار‘ کو دُنیا کا جیتا جاگتا عملی واقعہ بنا دینے پر ڈھیروں ’محنت‘ اور ’عمل‘
نہیں کر لیا جاتا۔
(1 رسول اللہ r نے فرمایا تھا: بدآ
الاسلام غریباً و سیعود غریباً کما بدا ”اسلام کا آغاز تو یہ اجنبی تھا۔ عنقریب یہ
ویسا ہی اجنبی ہو رہے گا جیسا کہ ابتداءمیں تھا“۔
اس ارجائی فکر کے پھیل جانے کے خواہ کوئی بھی اسباب ہوں یہ فکر بہرحال اُمت کی
ساخت کو بدل کر رکھ دینے میں بے پناہ مہلک ثابت ہوا ہے۔ تب سے اس اُمت کے اندر
فرائض سے جان چھڑانے کا ایک شدید رحجان در آیا ہے۔ یہ فکر ارجائی ہی ہے جو اس اُمت
کو جب وہ فرائض سے جی چرانے لگی ایک باقاعدہ فکری اور علمی انداز میں تھپکیاں دیتا
رہا کہ جب تک اس کے دِل میں ایمان ’موجزن‘ ہے تب تک اسے کس بات کی فکر! تاآنکہ
فرائض سے جان چھڑاتے چھڑاتے شرک صریح میں جا پڑنے کی نوبت آئی خواہ وہ شرک اعتقاد
ہو یا شرک عبادت یا شرک حاکمیت۔ فکر ارجاءتب بھی لوگوں کو تسلی دلاتا رہا کہ اب
بھی وہ خیر خیریت سے ہیں اور یہ کہ اب بھی وہ پورے پورے مومن ہیں!
آپ ایک لمحہ کیلئے کسی ایسے مکتب کا تصور کریں جہاں طالب علموں کو داخلہ دیا جا
رہا ہو او وہ داخل ہوتے ہی وہاں اسباق یاد کرنے کی پابندی سے آزاد ہونے لگیں! پھر
یہاں تک کہ مکتب کے دروس میں حاضر ہونے سے ہی اپنے آپ کو آزاد کر لیں! تب بھی ان
کو پورے ’مدلل‘ انداز میں بتا دیا جائے کہ ”خیر ہے۔ جب تک تمہاری ’نیت‘ غیر حاضری
کی نہ تھی اور جب تک مکتب حاضری پر تمہارا ’اعتقاد‘ ہے تب تک فکر کی کوئی بات
نہیں! تم غیر حاضر ہوئے یا سبق یاد کرکے سنانے پر آمادہ نہیں ہوئے تو اس کا سبب یہ
تھوڑی ہے کہ تم جمود کے مرتکب ہو اور مکتب آنے یا سبق سنانے کے ’منکر‘ ہو۔ تم تو
محض ’سستی کے باعث ایسا کرتے ہو! اور یہ کہ جب تک تمہارا نام مکتب کے رجسٹروں میں
درج ہے اور جب تک تم اپنے نام مکتب کے رجسٹروں سے خارج کرنے کا ازخود مطالبہ نہیں
کرتے تب تک تمہارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی!“۔
کیا ایک ایسی کم ہمت بے عمل اور ہر بات کو خدا کے کھاتے میں ڈال دینے والی خواب
آور ذہنیت کے بل پر ___ جس کو ہزاروں ’شرعی دلائل‘ کا سہارا حاصل ہو ___ دُنیائے
واقع کے اندر کچھ بھی کیا جا سکتا ہے؟
ایسی ذہنیت اور کیفیت کے بل پر اگر دُنیا میں کچھ بھی نہیں کیا جا سکتا تو کیا پھر
اسلام ہی ہے جو اس پست ذہنیت کے سہارے دُنیا میں قائم ہو جائے گا جبکہ وہ نازل ہی
اس لئے ہوا ہے کہ انسانی زندگی کو اس کے تمام تر جوانب اور تمام تر میدانوں سمیت
ایک منفرد جہت دے اور اپنے رخ پر اس انسانی زندگی کو ایک بھرپور حرکت دے اور جو کہ
بڑھتے بڑھتے پوری زمین کو اپنی زد میں لے آئے اور پوری انسانیت تک اپنا دائرہ
پھیلا دے اس ’اپنی زد میں لانے‘ اور ’اپنے دائرہ کو پھیلانے‘ کا انحصارآخر اسی بات
پر تو ہے کہ انسانوں کی کتنی محنت اس پر صرف ہوتی۔ خدا کی تقدیر بھی تو آخر انسانی
جدوجہد کے ذریعے ہی انسانی دُنیا میں روپذیر ہوتی ہے۔
کیا یہ فتنہ جو فاسد عقائد ونظریات اور فاسد نظاموںکے ایک انبار کی صورت میں آج
ہمیں درپیش ہے اور پھر ان فاسد نظریات اور فاسد نظاموں کو تحفظ دینے کیلئے منظم
لشکروں کی ایک فوج ظفر موج یہاں موجود ہے .... کیا اس فتنہء عظیم کا خاتمہ محض ’دل
کی تصدیق اور زبان کے اقرار‘ سے کیا جا سکتا ہے؟ کیا یہ فتنہ و فساد جو جاہلیت
انسانیت پر مسلط کرتی ہے، اور جو کہ ازل سے جاہلیت کی سرپرست ہے، ایک باقاعدہ جہاد
کے بغیر روئے زمین سے ختم کیا جا سکتا ہے؟ وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین
کلہ ﷲ (الانفال: 39) ”ان سے قتال کرتے رہو جب تک فتنہ ختم نہیں ہو جاتا اور جب تک
دین سارے کا سارا خدا کیلئے نہیں ہو جاتا“۔
کوئی اور مرض ہو تو اور کسی اور اُمت میں ہو تو ہو مگر یہ مرض یعنی ارجائی ذہنیت
تو ایسا ہے جو اُمت اسلام کو تو ہرگز لاحق نہ ہونا چاہئے تھا جبکہ یہ اُمت برپا ہی
اس لئے کی گئی ہے کہ انسانیت کی رہبری کرے اور دُنیا پر شہادت قائم کرے۔
وجاھدوا فی اﷲ حق جہادہ ھوا جتباکم وما جعل علیکم فی الدین من حرج ملۃ ابیکم
ابراہیم ھو سماکم المسلمین من قبل وفی ھذا لیکون الرسول شہیداً علیکم وتکونوا
شہداءعلی الناس (الحج: 78)
”اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے، اس نے تمہیں اپنے کام
کیلئے چن لیا ہے اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہو جاؤ اپنے باپ
ابراہیم کی ملت پر۔ اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس (قرآن) میں
بھی، تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ“۔
×××××××××××
اس کے بعد صوفی فکر آیا اور اس اُمت کی فکری زمین پر فکر ارجاءکے شانہ بشانہ چلنے
لگا.... گوکہ یہ افتاد کچھ اپنی ہی نوعیت کی تھی....
فکر ارجائی نے جنس عمل کو ایمان کی تعریف سے خارج کر دیا تھا۔ صوفی فکر آیا تو اس
نے ’عمل‘ کی صرف ایک خاص قسم پر ترکیز کی البتہ عمل کے باقی سب انواع اور سب جوانب
کو مستلزمات ایمان سے بدستور خارج رکھا۔ صوفی فکر کی ترکیز عبادت کی کچھ صورتوں پر
رہی جن میں ذکر و درود نمایاں ترین تھا۔ البتہ خدائی منہج پر زمین کی تعمیر، امر
بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ ایسے سب فرائض جو کہ کتاب
اللہ اور سنت رسول اللہ میں بالنص وارد ہوئے ہیں نظرانداز کر دیئے گئے۔
الذین ان مکناھم فی الارض واَقاموا الصلوۃ وآتوا الزکاۃ وامروا بالمعروف ونہوعن
المنکر وﷲ عاقبۃ الامور (الحج: آیت نمبر 41)
”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے،
زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا
انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے“۔
فلیقاتل فی سبیل اﷲ الذین یشرون الحیاۃ الدنیا و بالآخرۃ (النساء: 74)
”اللہ کی راہ میں لڑنا چاہیے ان لوگوں کو جو آخرت کے بدلے دُنیا کی زندگی کو فروخت
کردیں“۔
ولیمحص اﷲ الذین آمنوا ویمحق الکافرین۔ اَم حسبتہم ان تدخلوا الجنۃ ولما یعلم اﷲ
الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین (آل عمران: 141۔ 142)
”اور تاکہ وہ مومنوں کو چھانٹ کر الگ کرلے اور کافروں کی سرکوبی کردے۔ کیا تم نے
یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت میں چلے جاؤ گے حالانکہ اللہ نے یہ تو دیکھا ہی نہیں
کہ تم میں کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں جانیں لڑانے والے اور اس کی خاطر صبر
کرنے والے ہیں“۔
ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبہا وکلوا من رزقہ والیہ النشور
(الملک: 15)
”وہ ذات جس نے تمہارے لئے زمین کو پست ومطیع کر دیا۔چلو پھرو اس کی چھاتی پر اور
کھاؤ خدا کا رزق۔ اس کی طرف تم کو زندہ ہو اٹھنا ہے“۔
ھو انشاکم من الاَرض واستعمرکم فیہا (ھود: 61)
”اسی نے تمہیں زمین سے پیدا کیا ہے اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے“۔
ذکر یقینا مطلوب ہے۔ ذکر کے بغیر عبادت ہی کیسی؟ مگر وہ ذکر جس کا وصف اللہ نے
اپنی کتاب میں بیان کیا ہے اور جس کے حوالے سے صحابہ کی تعریف کی ہے: الذین یذکرون
اﷲ قیاماً وقعودا وعلی جنوبہم (آل عمران: 191) ”وہ جو اٹھتے بیٹھتے اور کروٹوں پر
لیٹے خدا کو یاد کرتے ہیں“۔ تو یہ ذکر ایک اور چیز ہے اور اس ذکر سے بہت مختلف ہے
جس کی بدعت صوفیہ نے ایجاد کی اور عبادت کو اسی میں محصور کردیا اور اپنے تئیں یہ
سمجھا کہ یہی وہ چیز ہے جو انسان کو خدا تک پہنچاتی ہے۔ رہا عقیدہء اتحاد و حلول
اور وحدۃ الوجود ایسا صریح شرک تو وہ اس کے سوا ہے۔
صوفی فکر کے امت میں پھیل جانے کے خواہ کوئی سے بھی اسباب ہوں.... یہاں تک کہ ایک
وقت ایسا بھی آیا کہ عوام الناس کیلئے دین کی جانب رجوع کرنے کیلئے بڑی سطح پر ایک
ہی دہلیز پائی گئی اور جو کہ صوفی دہلیز تھی.... اس بات کے خواہ کچھ بھی محرکات
ہوں یہ فکر بہرحال اُمت کی بنیادی ساخت کو بدل کر رکھ دینے میں بے پناہ مہلک ثابت
ہوا۔ ہر معاملے کو خدا کے کھاتے میں ڈال دینا، اسباب اختیار کرنے کو یقین کا ضعف
جاننا، زمین کو خدائی منہج پر تعمیر کرنے کا فرض سرے سے نظرانداز کر دیا جانا،
عقیدہء قضا وقدر میں انحراف کا شکار ہو جانا، اپنی خطاؤں کی ذمہ داری اٹھانے میں
تاویل سے کام لینا، جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر سے منہ موڑ لینا، دُنیا
اور آخرت کے راستے جدا ہو جانا، مسلمان کے شعور میں یہ احساس بیٹھ جانا کہ دُنیا
کا کام آخرت کے کام سے اور آخرت کا کام دُنیا کے کام سے متصادم ہے، نفس انسانی کے
اندر اسلام کے پیدا کردہ خوبصورت اور دقیق توازن کا خلل زدہ ہو جانا جس کی رو سے
انسان دنیا کی دوڑ میں ’مسلمان‘ کی حیثیت سے شریک ہوتا ہے تو انسانی زندگی کا رخ
خدا کی جانب کر دیتا ہے اور دُنیا کے ہنگاموں میں اس شرکت کے دوران اس کا دل برابر
خدا کی جانب متوجہ رہتا ہے.... بالفاظ دیگر اس توازن میں بگاڑ آجانا جو اسلام ایک
دقیق انداز میں عالم غیب اور عالم شہادت کے مابین لے کر آتا ہے .... یہ اس فکر کے
پھیل جانے کے چند ایک آثار ہیں۔
××××××××××
اس کے بعد جو مرض آیا وہ ہے اسلام کا ’فرد کی دُنیا‘ میں سمٹ آنا اور دین کے
انفرادی امور میں محصور ہو کر رہ جانا اور ان اجتماعی اُمور کا ترک کر دیا جانا جن
کا خدا نے ’جماعت مسلمہ‘ کو باقاعدہ طور پر مکلف ٹھہرایا ہے۔
یہ دین محض افراد کی فرداً فرداً اصلاح کیلئے نازل نہیں ہوا گو کہ فرد ہی دین کی
اصل اساس ہے اور اس کے بغیر دین کی بنیاد نہیں اٹھائی جا سکتی مگر یہ خیال بھی بہت
غلط ہے کہ لوگوں کی فرداً فرداً اصلاح کا عمل بذات خود ایک صالح معاشرہ وجود میں
لے آئے گو کہ انسان کو بادی امر یہی خیال درست لگتا ہے۔ اگر آپ ایک ایسی عمارت کا خیال
تصور میں لائیں جس کی ایک ایک اینٹ اپنی جگہ صحیح سالم ہو مگر ان اینٹوں کو ایک
خاص انداز میں نہ جوڑا گیا ہو اور نہ ہی ان کو جوڑ رکھنے کیلئے کوئی ’مسالہ‘
استعمال کیا گیا ہو تو وہ ظاہر ہے ایک خیالی عمارت تو ہو سکتی ہے عالم واقع میں اس
کا قیام ممکن نہیں۔ پھر ایسی عمارت کسی زمینی بھونچال یا کسی فضائی طوفان کے آگے
بھی کیونکر کھڑی رہ سکتی ہے جبکہ قوموں کی زندگی میں بھونچال اور طوفان آتے ہی
رہتے ہیں۔
بلاشبہ اس دین نے ’جماعت مسلمہ‘ بلکہ ’اُمت مسلمہ‘ کے وجود اور بہبود پر بے حد زور
دیا ہے۔ ایک ایسی اُمت جو اپنی ساخت میں ٹھوس اور مضبوط ہو۔ اس کا یہ ٹھوس پن
اورمضبوطی محض جوش اور جذبات کی حد تک نہ رہے بلکہ عمل کے ہر پہلو میں ہو یہاں تک
کہ یہ اُمت مجموعی طور پر خدا کے عائد کردہ سب کے سب فرائض کی انجام دہی یقینی
بنائے۔ شریعت میں کتنے ہی مقامات ایسے ہیں جہاں مومنوں کو خطاب کرتے ہوئے یاایہا
الذین آمنوا کہہ کر احکامات وہدایات دی جاتی ہیں تو وہاں مقصد افراد کو محض ان کی
انفرادی حیثیت میں خطاب کرنا نہیں بلکہ مقصد ایک جماعت سے بطور جماعت خطاب کرنا
ہے.... ایک پوری جماعت جس کو مل کر خدا کی عائد کردہ ایک ذمہ داری اٹھانا ہے اور باہمی
اشتراک سے شریعت کے مقاصد کو بروئے کار لانا ہے:
یاایہا الذین آمنوا لا تتخذوا الیہود والنصاری اولیاہ (المائدہ: 51)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ“۔
یاایہا الذین آمنوا من یرتد منکم عن دینہ فسوف یاتی اﷲ بقوم یحبہم ویحبونہ اذلۃ
علی المؤمنین اعزۃ علی الکافرین یجاھدون فی سبیل اﷲ ولا یخافون لومۃ لائم ذلک فضل
اﷲ یوتیہ من یشاءواﷲ واسع علیم انما ولیکم اﷲ ورسولہ والذین آمنوا الذین یقیمون
الصلوۃ ویوتون الزکاۃ وھم راکعون (المائدہ: 54۔ 56)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو (پھر
جائے) اللہ ایسے لوگوں کو بلائے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کا محبوب
ہوگا، جو مومنوں پرنرم اور کفار پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے
اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے۔ یہ اللہ کا فضل ہے، جسے چاہتا ہے
عطا کرتا ہے۔ اللہ وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ تمہارا رفیق تو درحقیقت
صرف اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان جو نماز قائم کرتے، زکوٰۃ دیتے اور
اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں“۔
یاایہا الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شہداءﷲ ولو علی انفسکم اوالوالدین
والاقربین ان یکن غنیاً او فقیراً فاﷲ اولی بہما فلا تتبعوا الہوی ان تعدلوا وان
تلوا اوتعرضوا فان اﷲ کان بما تعملون خبیرا (النساء: 135)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ
تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور
رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب، اللہ تم
سے زیادہ ان کا خیر خواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو
اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم
کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے“۔
لا یَتَّخِذِا لمومنون الکافرین اولیاءمن دون المومنین (آل عمران: 28)
”مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق اور یاردومددگار ہرگز نہ
بنائیں“۔
ولتکن منکم امۃ یدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینہون عن المنکر واولئک ہم
المفلحون (آل عمران: 104)
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم
دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔
واَمرھم شوریٰ بینہم (الشوریٰ: 38)
”اور ان کے باہمی معاملات آپس کے مشوروں سے ہوتے ہیں“۔
والمومنون والمومنات بعضہم اولیاءبعض یامرون بالمعروف ینہون عن المنکر ویقیمون
الصلوۃ ویوٰتون الزکاۃ ویطیعون اﷲ ورسولہ (التوبۃ: 71)
”مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ومددگار ہیں، بھلائی کا حکم
دیتے ہیں، بُرائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور
اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں“۔
ان اﷲ یحب الذین یقاتلون فی سبیلہ صفا کانہم بنیان مرصوص (الصف: 6)
”اللہ کو تو پسند وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میں اس طرح صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا
کہ وہ ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں“۔
مثل القائم فی حدود اﷲ والواقع فیہا کمثل قوم استہوا ھموا علی سفینۃ، فصاربعضہم
اعلاھا وبعضہم اسفلہا، فکان الذین فی اسفلہا اذا استقوا یروا علی من فوقہم فقالوا:
لو انا خرقنا فی مکاننا خرقا ولم نوذ من فوقنا، فلو ترکوھم وما ارادواھلکوا جمیعا،
وان اخذوا علی ایدیہم نجوا ونجوا جمیعاً
”وہ لوگ جو خدا کی حدوں کی رکھوالی کرتے ہیں اور وہ لوگ جو خدا کی حدوں کی خلاف
ورزی کرتے ہیں ان دونوں کی مثال ایسے جیسے ایک ہی کشتی کے سوار، کشتی کے حصے آپس
میں بانٹ لیں۔ کچھ لوگ اوپر کی منزل میں جا بیٹھیں اور کچھ نیچے۔ نیچے کی منزل کے
لوگ جب بھی پانی لینا چاہیں تو ان کو اوپر والوں کے ہاں سے گزرنا پڑے۔ تب یہ (نیچے
والے) کہتے ہیں کیوں نہ ہم اپنے والے حصے میں ایک سوراخ کرلیں اور اوپر والوں کو
زحمت نہ دیں۔ اب اگر اوپر والے ان کو جو وہ کرنا چاہتے ہیں کرنے دیں توسب کے سب ہی
مارے جائیں اور اگر وہ ان کا ہاتھ پکڑ لیں تو وہ بھی بچیں اور ان کے ساتھ باقی سب
لوگ بھی“۔
کلکم راع وکلکم مسؤل عن رعیتہ (1)
(1) اخرجہ الشیخان
”تم میں سے ہر کوئی راعی ہے اور تم سب سے اپنی اپنی رعیت کی بابت باز پرس ہونے
والی ہے“۔
یہ اور اس طرح کی بے شمار نصوص ہیں جو اس اُمت کی اجتماعی مسؤلیت کی اہمیت کا
اندازہ کرواتی ہیں۔ یہ ایک ایسی مسؤلیت ہے جس میں ہر فرد کا خدا کے معاملہ میں
اپنا ’انفرادی فرض‘ پورا کر دینا ہی کافی نہیں مثلاً یہ کہ وہ خداکا ذکر کرے،
تقویٰ وپارسائی اپنائے، خشوع وخضوع پیدا کرنے پر محنت کرے۔ اداءنماز، زکوٰۃ، صیام
وحج وغیرہ کا التزام کرے۔ اگرچہ یہ سب کچھ لازم ہے اور اس سے ہرگز مستغنی نہیں ہوا
جا سکتا لیکن ___ جیسا کہ ہم نے کہا ___ یہ سب کچھ آپ سے آپ ایک ٹھوس مربوط مضبوط
اُمت کو کھڑی کر دینے والا نہیں۔ چنانچہ یہ دین اپنی اس مکمل صورت میں جو کہ خدا
کے ہاں سے نازل ہوئی اور اپنے ان سب کے سب اہداف کے معاملہ میں جو کہ خدا کو مطلوب
ہیں مومنوں کی ایک تعداد کے دُنیا میں فرداً فرداً پائے جانے سے قائم ہو جانے والا
نہیں چاہے ان میں کا ہر فرد ذاتی پاکیزگی میں قدوسیوں کے مرتبہ کو کیوں نہ پہنچا
ہوا ہو جبکہ ہر فرد کا اس مرتبہ کا پہنچ جانا ویسے ہی ایک ایسا مفروضہ ہے جس کا
عملاً پایا جانا ممکن نہیں جب تک کہ انسان انسان ہیں اور خواہشات اور ضروریات ساتھ
رکھتے ہیں اور جب تک کہ ان کے درون میں رغبات و تاثرات اور خیالات کے طوفان آتے
ہیں اور جب تک خدا کی اس دُنیا ہر قریہ اور بستی کے اندر اکابر مجرمین کچھ چھپے
ہوئے مجرم پائے جاتے ہیں جو حق کے خلاف فکر وتدبیر میں ہر دم مصروف ہیں الا یہ کہ
ان کو لگام دینے کو یہاں حق کی کوئی قوت مہیا ہو وکذلک جعلنا فی کل قریۃ اکابر
مجرمیھا لیمکروا فیہا وما یمکرون الا بانفسہم وما یشعرون (الانعام: 123)
”اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے
مکر وفریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر
انہیں اس کا شعور نہیں ہے“۔
حتی کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اکابر مجرمین کا وجود صرف جاہلیت میں ممکن
ہے اور مسلم معاشرے میں یہ نہیں پائے جائیں گے تو بھی وہ جو ’عالمی بستی‘ ہے اور
جس کا آج بڑا چرچا ہے کہ ذرائع مواصلات نے دُنیا کو آج اس زبردست مقام تک پہنچا
دیا ہے .... یہ ’عالمی بستی‘ تو پھر بھی ان اکابر مجرمین سے بھری ہوئی ہے جو صبح
شام حق کے خلاف مکر وتدبیر کرتے ہیں اور بے صبری سے اہل حق کی زندگی کے دن گنتے
ہیں۔ کیا یہاں نیک افراد کا محض پایا جانا اور ان کا نماز، زکوٰۃ، صیام اور حج
وغیرہ کا علی وجہ الکمال ادا کر لینا اور فرداً فرداً ان میں خشوع اور تقویٰ کی
ایک اعلیٰ کیفیت کا پایا جانا بذات خود ایک ایسی چیز ہے جو اکابر مجرمین کو لگام
دے دے گی اور ان کے کید ومکر کا منہ توڑ کر رکھ دے گی اور جاہلیت سے جو فتنہ
مسلمانوں کیلئے برآمد کیا جاتا ہے اس کا خاتمہ کردے گی؟ یا پھر اس کیلئے ایک ایسی
اُمت کی ضرورت ہوگی جو اس شر کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن سکے اپنے سب
اجزاءکو مربوط کرکے اس کے مدمقابل ایک بہترین جہت دے سکے اور اپنی اجتماعی مسؤلیت
کا بہترین قیام عمل میں لاسکے، جس میں ہر فرد اپنے اپنے حصے کا بوجھ بھی اٹھائے
مگر مجموعی طور پر جماعت اس بوجھ کے اٹھائے جانے کو یقینی بنائے۔ یہ اجتماعی بوجھ یقینا
کچھ ایسی نوعیت کا ہے کہ اس میں اگر ہر فرد اپنی اپنی ’نبیڑنے‘ لگے اور اجتماعی
مسؤلیت کے اٹھانے میں پس وپیش کرے تو جماعت کی صفوں میں یہ مطلوبہ یکجہتی کبھی نہ
آسکے گی۔
اور کیا رسول اللہ r اپنے اصحاب کو
اس’انفرادی‘ معنی میں ہی تیار کرتے تھے کہ ہر آدمی اپنی اپنی انفرادی دُنیا میں ہی
عبادت کے اندر مگن ہو جائے یا پھر رسول اللہ r جس صحابی کو بھی تیار کرتے تھے اس کو ایک ایسی اینٹ بناتے تھے جو
بہترین انداز میں ایک عمارت کے اندر چنی جا سکے اور وہ اپنے ساتھ کی ہر اینٹ کے
ساتھ بہترین انداز میں جڑ کر حق کی اس عمارت یا اس دیوار کو ایک زبردست قوت فراہم
کرسکے؟ یہ ایک ’فرد‘ کی ایک ایسی تیاری تھی جو بیک وقت حق کی حامل ایک مضبوط جماعت
اورمعاشرے کے اندر ایک بھاری قوت کی تشکیل کر رہی تھی۔
اجتماعی احساسات اور اجتماعی ذمہ داری بھی اس فرد کی ایک اہم خصوصیت تھی۔
اجتماعی ذمہ داری میں اپنے اپنے حصے کا بھار اٹھانا ایک فرض ہے جو کہ ہر فرد پر
عائد ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ عمل ہے۔ البتہ اس سے جو نتیجہ برآمد
ہوتاہے وہ پوری اُمت کو متاثر کرتا ہے، خواہ مثبت معنی میں اور خواہ منفی معنی
میں۔ افراد کی ایک معتدبہ تعداد اس فرض کو پوراکر پاتی ہو تو ایک ایسی اُمت پائی
جائے گی جو مستحکم اورمربوط ہوگی اور جس کی صفوں میں محبت، اخوت اور یگانگت پائی
جائے گی۔ بصورت دیگر متحارب دھڑے پائے جائیں گے جو ایک دوسرے کے خلاف کینہ وبغض
پالیں گے۔
جہاد اپنے حصے کاہر صاحب استطاعت فرد پر فرض ہے۔ اس لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ عمل
ہے۔ البتہ اس سے جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ پوری اُمت کو متاثر کرے گا۔ خواہ مثبت
معنی میں خواہ منفی معنی میں۔ افراد کی ایک معتدبہ تعداد اس فرض کو پورا کر پائی
ہو تو اس اُمت کا وجود محفوظ رہے گا اور قوت وتمکین پائے گا بصورت دیگر وہ دشمنوں کی
خوراک بنے گی۔
امر بالمعروف ونہی عن المنکر اپنے اپنے حصے کا ہر صاحب استطاعت فرد پر فرض ہے۔ اس
لحاظ سے یہ ایک ’انفرادی‘ فریضہ ہے۔ مگر اس کا نتیجہ ایجاباً یا سلباً پوری اُمت
کو متاثر کرے گا۔ اس کے نتیجہ میں یا تو ’خیر ‘ پائی جائے گی اور وہ اس صورت میں
جب اس کے اندر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہو رہا ہوگا۔ بصورت دیگر ایک ایسی
اُمت ہوگی جو لعنت کی مستحق ہو یہ دونوں وصف قرآن ہی کے بیان کردہ ہیں:
کنتم خیر اُمۃ اخرجت للناس۔ تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتومنون باﷲ (آل
عمران: 110)
”اب دُنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان میں
لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے
ہو“۔
لعن الذین کفروا من بنی اسرائیل علی لسان داؤد وعیسیٰ ابن مریم ذلک بما عصوا
وکانوا یعتدون کانوا لا یتناھون عن منکر فعلوہ لبئس ما کانوا یفعلون (المائدہ: 78۔
79)
”بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی ان پر داؤد اور عیسیٰ بن
مریم کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہو گئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے
تھے۔ انہوںنے ایک دوسرے کے منکر افعال سے روکنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ بُرا طرز عمل تھا
جو انہوںنے اختیار کیا“۔
بہرحال اُمت میں ایک بڑے طبقہ کے ہاں ایک ’ذاتی معنی‘ میں نیک اور صالح بننے کا یہ
جو تصور پروان چڑھا اور اپنے کام سے کام رکھنے کی یہ جو روش تمام ہوئی اور جس میں
کہ اجتماعی طور پر مکلف اور ذمہ دار ہونے کا شعور نہ ہونے کے برابر رہا.... اس روش
کے مقبول عام ہونے کے خواہ جو کوئی بھی اسباب رہے ہوں مگر یہ ذہنیت اُمت کے وجود
کے اندر بہت بڑے مفاسد لانے پر منتج ہوئی۔ حکمرانوں کو نصیحت کرنے کا فرض سے اُمت
کی ایک بڑی تعداد کا دستبردار ہو جانا، امور سیاست سے صرف نظر کر لینا، ’حکومت کا
معاملہ حکومت پر چھوڑ دینا.... حکمران عادل ہے تو وہ خدا کی رحمت وبرکت ہے، ظالم
ومستبد ہے، آپ اپنے کئے کا جواب دہ ہے اُمت کے صالح طبقے اس کے ظلم واستبداد کو
روکنے کیلئے کسی انداز کا کوئی اقدام کرنے کے مکلف نہیں! حکمران کے گرد منافقوں کا
جھمگٹا لگا رہے اور وہ اس کی سب بداعمالیوں کو اعلیٰ ترین کارنامے بنا کر پیش کرتے
رہیں حتی کہ اس کے کان تک حق کی تنبیہ تک نہ پہنچ پائے اور اگر کسی اکادکا دیندار
کی آواز اس تک پہنچے بھی تو اس کے گرد حلقہ زن منافقین اس دیندار کی جیسی چاہیں
صورت بنا کر پیش کریںاور الٹا حق کی اس کمزور آواز کے خلاف ہی اس کے کان بھریں کہ
جہاں سب دیندار اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں وہاں یہ کوئی نرالا ہی دیندار آیا
ہے جو ’حکمرانوں کے معاملات‘ میں دخل دینے کو دین اسلام کی خدمت جانتا ہے! اُمت کے
اندر یہ ایک بڑی سطح پر ہر ایسا پروگرام، ہر ایسا منصوبہ ناکامی کا شکار ہونے لگنا
جس میں اُمت کے افراد کا ہاتھوں میں ہاتھ دے کر چلنا ضروری ہو اور جس میں ہر فرد
کو اپنے حصے کا کام کرنا ہو.... پبلک پراپرٹی کا نہایت بے رحمی کے ساتھ تیاپانچہ
ہونے لگنا اور جس کا اس پر جو جی چاہے کر گزرنا، جس کے ہاتھ جو لگے اسی کا، اُسے لے
اڑنا اور اس منکرکا اجتماعی انکار ایک انہونی بات سمجھی جانا، اجتماعی فرائض اور
دفتری ، سرکاری معاملات میں بے ایمانی، بددیانتی کا راج ہو جانا اور بیت المال کو
ذاتی جاگیر جان لیا جانا.... یہ اس ذہنیت کے عام ہوجانے کے چند ایک نقصانات ہیں
جبکہ رسول اللہ r نے اس بات پر اس قدر
تاکید کی تھی کہ گویا دین ہی یہ ہے:
”الدین النصیحۃ“ قیل: لمن یا رسول اﷲ؟ قال: ”ﷲ ولرسولہ ولکتابہ ولعامۃ المسلمین
وخاصتھم“ (1)
(1 متفق علیہ
”دین ہے ہمدردی اور خدا لگتی بات کرنا۔ عرض کی گئی: کس کی خاطر اے اللہ کے رسول؟
فرمایا: خدا کی خاطر، اس کے رسول کی خاطر، اس کی کتاب کی خاطر، عامۃ المسلمین کی
خاطر اور خواص المسلمین کی خاطر“۔
××××××××××××××××
اُمت کو جو عارضے لاحق ہوئے ان میں ایک روگ اس کا بے ہنگم ہو جانا بھی تھا۔
بدنظمی، پریشان حالی، کسی ترتیب اور پیش بندی سے کام نہ لینا، سب کچھ ہنگامی بنیادوں
پر کرنا اور سر پر ہی آپڑے تو کسی چیز کی بابت سوچنا۔ بے صبری، کم ہمتی اور لمبا
نہ چل پانے کی نفسیات۔ یہ سب امراض میں سمجھتا ہوں ان اقوام میں اسلام آنے سے پہلے
بھی پائے جاتے تھے مگر اسلام آیا تو اس نے ان اقوام کی حالت بدل کر رکھ دی اور ان
کو ایک جیتی جاگتی چوکنا ہوشیار قوم بنا ڈالا۔ اسلام نے آکر ان بے ہنگم قبیلوں اور
راجواڑوں کو ایک ترتیب نو دی تھی۔ اسلام ہی وہ نئی قوت تھی جو ان صدیوں سے پریشان
حال اقوام کو ایک ’نئے ڈھنگ پر لے آئی تھی۔ ہر کام ان کو ایک تریب اور سلیقے سے
کرنا سکھایا تھا۔ تفکر اور تدبر کا شعور دیا تھا۔ بولنے سے پہلے سوچنا ان کو اسلام
ہی کی ہدایت تھی۔ قبل از عمل، دوران عمل اور پس از عمل عواقب پر نگاہ رکھنا ان کو
اسلام ہی کی تعلیم تھی۔ یہ اسلام ہی تھا جس نے ان کو ایک جوشیلے پن سے نکال کر ایک
گہرا شعور اور پیہم عمل رکھنے والی قوم بنا دیا تھا جس کی بدولت ان کو ایک ٹھوس پن
اور ایک عالی ہمتی نصیب ہوئی تھی اور جس کی بدولت یہ وہ قوم نہ رہی تھی جو ہر کام
جذبات میں آکر کرے اور کچھ ہی دیر بعد اس کو ادھورا چھوڑ کر یا تو بیٹھ جایا کرے
اور یا پھر کسی اور سمت کا رخ کرلیا کرے۔
رسول اللہ r اپنے زیرتربیت افراد کو
ان پہلوؤں سے تربیت دینے کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ ان معاملات کو آپ سرسری نظر سے
نہیں دیکھتے تھے اور ہرگز کم اہم نہ جانتے تھے کہ ہو جائیں تب ٹھیک ہے نہ ہوں تب
کوئی بڑی بات نہیں! نبی r بخوبی جانتے تھے، کیونکہ
آپ پر الہام ہوتا تھا، کہ جس قوم کو اس طرح کے روگ لگے ہوئے ہوں اس کی زندگی میں
کوئی مضبوط اور بلند وبالا عمارت اٹھائی ہی نہیں جا سکتی۔
صحابہ رسول اللہ r کے ساتھ اپنا حال یوں
بیان کرتے ہیں ”کان رسول اﷲ یَصِفُّنا للصلاۃ کما یَصِفُّنا للقتال ....“ ”رسول
اللہ r نماز میں ہماری یوں صفیں
بنواتے جیسے میدان جنگ میں بناتے ہوں“ یہ ترتیب وتنظیم کا معاملہ نماز میں خشوع
وخضوع اور روحانی تسکین حاصل کرنے کے علاوہ تھا۔ نماز انسان کا خدا کے ساتھ ایک
خصوصی تعلق ہے۔ اس میں اصل چیز انسان کا خشوع جو اس کی روح کو خدا کے ساتھ وصال
کرواتی ہے۔ خشوع اور حضور قلب کی جانب توجہ کرانا ایک طبعی بات ہے۔ مگر نبی r جو کہ خدا سے الہام لیتے
تھے، خوب جانتے تھے کہ اس خشوع اور روحانیت اور خدا کے ساتھ تعلق کی پختگی کے
علاوہ اُمت کی تعمیر کیلئے ایک اور عنصر درکار ہے اور وہ ہے نظم۔ نظم دراصل ایک
نفسیاتی کیفیت کا نام ہے اور ایک محسوس ہو سکنے والے رویہ کا۔ یہ چیز مسلسل سدھائے
اور سکھاتے رہنے سے آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ایک ایک شخص کو اپنے دست مبارک سے
سیدھا کرتے اور نماز شروع کرانے سے پہلے ان کو ایک نفسیاتی کیفیت میں لے کر آتے۔
نماز تک شروع نہ کرتے جب تک ان کی صف درست نہ ہو جاتی.... یہ بتانے کیلئے کہ عبادت
گزاروں کا نظم خدا کو کس قدر پسند ہے۔
واضح امر ہے کہ نظم اور ترتیب اس دین کا جزو لاینفک ہے۔ نماز ہے تو وہ خدا سے تعلق
کے ساتھ ساتھ ایک نظم اور ترتیب کا نام ہے خواہ وہ بروقت ادائیگی کا معاملہ ہو یا
صف درست کرنے کا معاملہ یا نمازیوں کا ایک ساتھ مل کر رکوع وسجود اور قیام وقعدہ
میں امام کی متابعت کرنا۔ اس طرح روزہ ہے اوقات کی پابندی اور نظم وضبط۔ زکوٰۃ ہے
تو تب، حج ہے تو تب۔ سب کچھ ایک وقت پر اور ایک خاص ترتیب اور متعین انداز میں ہو
تو قبول ہوتا ہے .... رہا خدا کی راہ میں قتال تو وہ تو ہے ہی نظم اور ضبط۔
رہا ایک من موجی انداز، جدھر کی سوچ آئی ادھر کو ہو لینے کی نفسیات، آناً فاناً کی
ذہنیت اور سر پہ آپڑے تو فوری موقف اپنائے اور فیصلے کرنے کا انداز تو یہ آفت
ماحول کی ایک دین ہو سکتی ہے۔ مگر اسلام نے ماحول میں پائے جانے والے اس انداز کی
شدید مزاحمت کی تھی اور نفوس سے اس کا اثر دور کرنے کے بے شمار اقدامات کئے تھے۔
اسلام نے اس بے ہنگم ماحول میں پائے جانے والے انسان کو خدا کی سنتوں اور خدا کے
طبعی قوانین کی جانب متوجہ کروایا تھا کہ وہ دیکھے کہ خدا کے یہ قوانین اس کی
کائنات میں کس ضبط اور تسلسل کے ساتھ کام کرتے ہیں جو نہ کبھی بدلیں اور نہ کبھی
ٹلیں۔ اسلام نے عرب کے ایک بے نظم انسان کو تفکر اور تدبر کی راہ پر ڈالا تھا اور
اس بات پر اس کی تربیت کی تھی کہ وہ صرف یہی دیکھنے پر اکتفا نہ کر لیا کرے کہ وہ
جو کام کرنے جا رہا ہے آیا وہ جائز ہے یا ناجائز بلکہ وہ اشیاءکو ان کے نتائج اور
انجام کے لحاظ سے بھی جانچے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ایک کام اپنی عمومی حیثیت میں جائز
ہو یا حتی کہ مستحب ہو مگر اس سے کسی وقت جو نتائج برآمد ہوتے ہوں ان کے پیش نظر
وہ ممنوع ٹھہرے۔ مشرکین اگر کسی وقت ردعمل میں آکر خدا کے ساتھ گستاخی پہ اتر آتے
ہوں تو قرآن مجید کی رو سے ایسی حالت میں بتوں کو بُرا بھلا کہنا تک ممنوع ہو جاتا
ہے:
ولا تسبوا الذین یدعون من دون اﷲ فیسبوا اﷲ عدوا بغیر علم (الانعام: 108)
”یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو۔ کہیں ایسے نہ ہو یہ شرک
سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں“۔
اسی ضمن میں رسول اللہ r کا عبداللہ بن ابی کے
قتل سے احتراز برتنا آتا ہے جبکہ وہ ایک کھلم کھلا منافق تھا۔ اس کا باعث بھی یہی
تھا کہ لوگوں میں یہ بات نہ ہونے لگے کہ محمد r اپنے اصحاب کو قتل کروا دیتے جبکہ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ لوگ
یا تو اسلام میں داخل ہو گئے تھے مگر اسلام ان کے نفوس میں ابھی گہرا نہ اتر پایا
تھا اور یا پھر وہ ابھی اسلام کی دہلیز پر کھڑے ابھی جائزہ لے رہے تھے کہ وہ اسلام
میں داخل ہوں یا نہ۔ ایسے وقت میں ایسی چہ میگوئیاں ہونے لگنا دعوت کو سست کر سکتا
تھا اور اسلام کی بابت ابھی جو لوگ شش وپنج کا شکار تھے ان کو اسلام کی جانب سے
بددل کر سکتا تھا۔
رہی لمبا نہ چل پانے کی ذہنیت اور جوشیلے پن کے باعث مستقل مزاجی کا فقدان تو یہ
بھی ماحول کی دین ہو سکتی ہے۔ مگر اسلام نے اس ذہنیت کا ہر ہر پہلو سے علاج کیا
تھا۔
ایک طرف اسلام نے اس کوتاہ نظر ماحول میں پائے جانے والے لوگوں کو ایک ایسے مقصد
اور ایسی غایت کی جانب دیکھنا سکھایا تھا جو کہ اس جہان سے گزر کر آتا ہے۔ جس کے
انتظار میں انسان کو پوری زندگی گزار دینا ہوتی ہے.... یہ یوم آخرت کی امید ہے اور
اس روز کی تیاری جو اگلے جہان میں پیش آنے والا ہے اور جس دن بعث و نشوز اور حساب
وکتاب اور جنت و دوزخ کا سامنا ہونا ہے۔ یوں مسلمان کی نفسیات کے اندر اسلام نے
عاجلہ کو آجلہ کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ یہ ایک ایسی نفسیات تھی کہ جس کی رو سے عمل آج
کرنا ہے تو اس کے نتائج کی اُمید اگلے جہان میں رکھنی ہے۔ عمل کا اس سے وسیع تر
افق کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ نفس میں اتنا دور تک دیکھنے کی سکت پیدا ہو جائے۔ حد
نگاہ کا اس حد تک دراز ہو جانا کہیں اورممکن ہی نہیں کہ انسان اس قدر دور اندیش
مقاصد رکھنے لگے۔راستے کے دوران بے ہمتی آجانے کا امکان رہے تو راستہ طے ہوتے رہنے
کی کوئی ضمانت باقی نہیں رہتی!
دوسری طرف رسول اللہ r نے خود اپنے عمل اور
اسوہ سے صبر واستقلال اور پیہم عمل اور مسلسل جہاد کی ایک بہترین مثال قائم کرکے
دکھائی تھی۔ بدترین حالات میں بھی آپ کا پایہ استقلال ہرگز نہ ڈگمگایا۔ بری سے بری
صورت حال میں بھی آپ نے ناامیدی اور بددلی کو پاس نہ آنے دیا جبکہ حالات پلٹ پلٹ
کر آپ کو مجبور کر رہے تھے کہ آپ ہمت چھوڑ بیٹھیں اور ’راستہ‘ بدل لیں۔
تیسری جانب آپ نے صحابہ کرامؓ اور پھر ان کے ذریعے اس اُمت میں مستقل مزاجی اور
دور اندیشی کی بطور خاص جوت جگائی تھی۔ عمل کا ثمر آدمی کو خواہ کتنا دور لگے مگر
اچھا اور اعلیٰ اورمفید کام ہر حال میں جاری رکھنے کی ایک باقاعدہ نفسیات تھی جو
آپ نے اس اُمت کے اندر پیدا فرمائی تھی: ان قامت الساعۃ وبید احدکم فسیلۃ فلیغرسھا
(مسند احمد) اگر قیامت آئے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی قلم ہو تو وہ
اس کو ضرور ہی (کھیت میں بولے)“۔ ’تھوڑا مگر مسلسل‘ کی آپ بار بار تاکید فرماتے۔
عجز وکسل یعنی کم ہمتی اور سستی سے ہمیشہ خدا کی پناہ مانگتے۔
کتاب اور سنت میں پائی جانے والی ان ہدایات ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ اس اُمت کی
زندگی میں صدیوں تک دعوت کا تسلسل جاری رہا۔ صدیوں تک جہاد کا عمل باقی رہا۔ ایک
مسلسل محنت اور عمل کے راستے پر چل پڑنے والی اس اُمت نے ایک شاندار تہذیب برپا کی
اور ایک ایسے علمی وسائنسی انقلاب کی بنیاد رکھی جو نہ صرف صدیوں تک چلا بلکہ اس
نے کرہء ارض کا نقشہ بھی بدل ڈالا۔
گزشتہ چند صدیوں میں اس صورتحال کے نیچے آجانے کے خواہ کوئی بھی اسباب ہوں اور آج
یہ صورتحال کہ ہر چیز بے ہنگم، ہر کام ادھورا، نظم وضبط ندارد، بے سوچے چل پڑنے
اور بغیر کسی منصوبہ بندی کے کام انجام دینے کی ذہنیت زوروں پر ہے، لمبا چلنے کی
بجائے جوشیلے پن کا انداز زیادہ مقبول ہے اور قدم قدم پر رستہ بدلنے کی ضرورت پیش
آتی ہے.... اس صورتحال کے خواہ کوئی سے بھی عوامل ہوں مگر ان امراض نے اُمت کے جسم
کو کھوکھلا کرکے بہرحال رکھ دیا ہے۔ اُمت کا تہذیبی وسائنسی میدان میں پسماندہ
رہنا، بڑے اچھے اچھے اور نفع بخش منصوبوں کا پھل آنے سے پہلے ہی اپنی طبعی موت
مرجانا، بہت سے عقائدی، فکری، سیاسی، سماجی اور اخلاقی مصائب کو اپنے گرد پا کر
ایک معمول کی صورتحال جاننا بلکہ اس پر ٹس سے مس نہ ہونا اور اس میں تبدیلی لانے
کیلئے کوئی ٹھوس سنجیدہ لائحہ عمل اختیار کرنے پر تیار نہ ہونا.... یہ اس نفسیات
کے چند ایک نتائج ہیں جبکہ یہ سب وہ منکرات ہیں جن کے خاتمہ کی اللہ اور رسول نے
ہدایت فرمائی ہے اور جس کے خاتمہ کیلئے اٹھ کھڑا نہ ہونے کی صورت میں اس اُمت کو
ایک ایسی سزا سے خبردار کیا ہے جس کی زد ہر شخص پہ پڑنے والی ہے....
×××××××××××××
یہ سب روگ جب مل کر اُمت کے وجود کو لاحق ہوئے تو دو بہت بڑے بڑے واقعات اُمت کی
زندگی میں رونما ہوئے جبکہ ان دونوں کی ہی رسول اللہ r نے پشین گوئی فرمائی تھی: ایک اسلام کا یہاں غریب الدیار ہو جانا
اور دوسرا قوموں کا اس اُمت پہ چڑھ دوڑنا۔
اسلام یہاں ویسے ہی اجنبی اور غریب الدیار نظر آنے لگا جب یہ اپنی ابتدا کے وقت
کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس کے سب مفہوم یہاں اجنبی ہو گئے۔ اسلام کے وہ اصل مفاہیم جو
خدا کے ہاں سے نازل ہوئے تھے گویا روپوش ہی ہو گئے....
’لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ‘ اب الفاظ کا ایک مجموعہ بن کر رہ گیا جس کو صرف زبان
سے ادا کردیا جانا تھا چاہے دل اس کی دلالت سے کتنا ہی غافل اور کردار اس کے
تقاضوں سے کتنا ہی ناآشنا کیوں نہ ہو۔
’عبادت‘ کچھ شعائر میں محدود ہو کر رہ گئی۔ اور وہ شعائر بھی پھر ایک روایتی انداز
اختیار کر گئے جس کے اندر شعور کی کوئی روح تک نہ تھی۔ پھر شعائر کی یہ روایتی
ادائیگی بھی ایک تھوڑی تعداد کا معمول ہو کر رہ گیا۔ زیادہ لوگ اتنی تکلیف کے بھی
روادار نہ رہے۔ ’نماز روزہ اور چندہ خیرات‘ کا دل میں احترام ہونا بھی کافی مان
لیا گیا!
’عقیدہء قضا وقدر‘ لمبی تان کر سو رہنے کی دلیل بنا۔ ایک حد درجہ قنوطیت اور عدم
فاعلیت روگ کی صورت میں ان مسلم اقوام کو لاحق ہوئی۔ جبکہ یہ عقیدہ ان کو خدا پر
بھروسہ کرنا سکھانے اور ان کے عزم وہمت کو جواں کرنے اور اسباب کو مسخر کرنے کا
سبق دینے پر آیا تھا۔ یہ عقیدہ آخرکار اس بات کی بنیاد بنا کہ یہ اپنی سب نااہلی
اور نامردی اور اپنی سب غلطیوں کو خدا کے کھاتے میں ڈال آیا کریں اور اس کو خدا کا
کرنا سمجھ کر قبول کئے رہنا ایمان کا تقاضا جانیں۔ نتیجتاً اس کو تبدیل کرنے کی
ضرورت تک محسوس نہ کریں۔
’دُنیا اور آخرت‘ لوگوں کے خیال میں دو الگ الگ راستوں کے نام بن کر رہ گئے جو
کہیں آپس میں نہیں ملتے۔ دُنیا کیلئے کام کرنا آخرت کو نظرانداز کرنا قرار پایا
اور آخرت کی محنت دُنیا اور بہبود ارض کے منافی سمجھی گئی۔
’جہاد‘ کا مفہوم سکڑ سکڑ کر ’دفاع‘ تک آگیا۔ پھر یہ ’دفاع‘ بھی ان سے نہ ہو پایا
اور یہ بھی ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور اس کے تقاضے ادا کرنے سے بھی ان کی جان
جانے لگی۔
’تربیت‘ کا مفہوم مسخ ہو کر ایک خاص مذہبی جکڑبندی کی صورت اختیار کر گیا جس کے
پیچھے نہ کوئی تخلیقی روح کارفرما رہ گئی تھی اور نہ بلند خیالی کا کوئی تصور۔
’صبر‘ کا مطلب حس کا ختم ہو جانا اور ذلت کو قبول کئے رہنا ہو گیا۔ ’تقویٰ‘ و
’پرہیز گاری‘ سے یہ مراد ٹھہری کہ انسان میں کوئی جذبات رہ جائیں اور نہ کوئی
ولولہ وامنگ۔
اسلام کے بنیادی مفہومات میں جب اتنا بڑا خلل آیا .... دوسرے لفظوں میں اسلام جب
یہاں غربت کا شکار ہوا تو پھر ”پسماندگی“ کا دور دورہ ہوا۔ یہ ’پسماندگی‘ پھر ہر
میدان میں آئی: عسکری پسماندگی، سیاسی پسماندگی، سماجی پسماندگی، معاشرتی
پسماندگی.... پسماندگی کی ہر وہ صورت جو آپ کے ذہن میں آسکتی ہے یہاں ڈیرے ڈال کر
بیٹھ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ تمام تر عرصہء عروج اس اُمت میں جو ترقی وکمال پایا
گیا اس کا دراصل ایک ہی منبع تھا اور وہ تھا اللہ اور یوم آخرت کی بابت اس اُمت کا
صحیح عقیدہ تصور۔
مگر جب قلب وذہن میں اس ترقی وکمال کے سوتے خشک ہوگئے ___ الا ماشاءاﷲ ___ تو پھر
کوئی چیز ایسی نہ رہی جو اس عظیم الشان عمل کو قوت اور غذا فراہم کرکے الاَ وانَّ
فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجَسَدُ کلہ، الا وھی القلب
(صحیحین) ”خبردار جسم کے اندر ایک لوتھڑا پایا جاتا ہے جو اگر صحیح کام کرے تو
سارا جسم صحیح کام کرتا ہے۔ اگر وہ خرابی کرے تو سارا جسم خرابی کرتا ہے۔ خبردار
یہ لوتھڑا دل ہے“۔
معاملہ جب اس نوبت تک پہنچ چکا تو دُنیا کی قومیں اس اُمت پر ٹوٹ پڑیں جبکہ اس کی
اپنی حالت وہ تھی جو خس وخاشاک کی ہوا کرتی ہے۔
دشمن جو صدیوں سے اسی موقعہ کی تلاش میں تھے اور جن کی بابت خدا نے ہمیں خبردار
کیا اب چڑھ آئے تھے۔
ولن ترضی عنک الیہود ولاالنصاری حتی تتبع ملتہم (البقرۃ: 120)
”یہود نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو“۔
ولا یزالون یقاتلونکم حتی یردوکم عن دینکم ان استطاعوا (البقرۃ: 217)
”وہ تم سے لڑتے رہیں گے یہاں تک کہ ___ اگر ان کا بس چلے ___ تو تمہارے دین سے تم
کو پھیر لے جائیں“۔
اب وہ آئے اور یہ تان کر آئے کہ اس بار وہ اس دین کا کام تمام کر دیں گے۔ محض اس
دین کا ’اقتدار‘ ختم کردینا اور اُمت پر ’غلبہ‘ پا لینا ان کے پیش نظر نہ تھا۔
بے شک ان کا یہ مقصد اپنی ذات میں نیا نہ تھا.... کہ یہی وہ مقصد تھا جس نے ہرقل
کو ابتدائے تاریخ میں اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ اس دین کو تاریخ کا کوئی بڑا
واقعہ بننے سے پہلے ہی کچل کر رکھ دے.... اور یہی وہ مقصد تھا جس نے یورپ کے قرون
وسطیٰ میں صلیبی جنگوں کو مہمیز دی تھی.... اور یہی وہ مقصد ہے جو آج ان کو متحرک
کئے ہوئے ہے.... البتہ اس بار کی صلیبی یلغار میں جو کہ اس دور جدید میں جاکر ہوئی
اور جو کہ دراصل مسلمانوں کو اسپین سے دیس نکالا دینے کے ساتھ ہی شروع کردی
گئی.... اس بار کی صلیبی یلغار میں نئی بات یہ تھی کہ ان کو بہت اعتماد تھا کہ جس
مقصد کو لے کر یہ اس امت پر چڑھائی کرنے آئے ہیں ان کا یہ مقصد اس بار پورا ہوکر
رہے گا۔ کیونکہ اس بار یہ دیکھ رہے تھے کہ اب کچھ جان لیوا روگ اس اُمت کے وجود کو
کھا چکے ہیں اور یہ کہ اب ان کے پاس کچھ ایسے ہتھیار آچکے ہیں جن کے مقابلے کیلئے
یہ اُمت اب ہتھیار تیار نہیں کر پاتی۔ خواہ وہ جنگی ہتھیار ہوں یا سیاسی یا معاشی
اور جن میں سب سے مہلک ہتھیار وہ ہے جسے ہم فکری یلغار کا نام دیتے ہیں اور جس کا
ہدف یہ ہے کہ دلوں میں پائے جانے والے عقیدہ کے درخت کو جڑ سے ہی اکھاڑ ڈالا
جائے.... جبکہ یہ وہ یادگار نصیحت ہے جو ان کو ان کا بادشاہ لویس نہم (Luis IX) منصورہ (مصر) کی قید
(دور ایوبی) سے چھوٹنے کے بعد ان کو دے کر گیا جس نے اس وقت یہ یادگار مقولہ کہا
تھاکہ: ”اگر تم مسلمانوں پر غلبہ پانا چاہتے ہو تو محض ہتھیاروں پہ سہارا نہ کرو۔
ہتھیاروں پہ سہارے کا نتیجہ تم دیکھ ہی چکے ہو۔ جنگ کرنا چاہتے ہو تو کسی طرح ان
کے عقیدے کے خلاف کرو ان کی ساری قوت یہیں پر پوشیدہ ہے اور ہمیں سارا خطرہ یہیں
سے ہے“.... اگرچہ اس بار یہودی کید ومکر بھی ان کے ہمرکاب تھا اور جس کا مقصد دولت
اسرائیل کا قیام تھا۔
واقعتا یہ فکری یلغار وہ کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہی جس کے حصول میں آج تک ان کے
سب ہتھیار ناکام رہے تھے....
جہاں تک شکست کا معاملہ ہے تو مسلمانوں کو ہر صورت کوئی ایک ہی بار پیش نہیں آئی۔
تاریخ میں کئی بار مسلمانوں کو شکست ہو چکی ہے۔ مگر عسکری ہزیمت مسلمانوں کو کبھی
اس حد تک متاثر نہ کر سکی اور نہ ہی ان کو ان کے عقیدہ سے دستبردار ہو جانے اور اس
کو چھوڑ کر دوسرے نظریات تلاش کرنے پر آمادہ کرسکی۔
مسلمانوں کو صلیبیوں کے مدمقابل شکست ہوئی۔ تاتاریوں کے مقابلے میں شکست ہوئی۔ مگر
ان کو اس خدائی آوازہ پر کبھی بے یقینی لاحق نہ ہوئی:
ولا تہنوا ولا تحزنوا وانتم الاعلون ان کنتم مؤمنین (آل عمرن: 139)
”دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو“۔
وکاین من نَبِیّ قاتل معہ ربیون کثیر فما وھنوا لما اصابہم فی سبیل اﷲ وما ضَعفوا
وما استکانوا واﷲ یحب الصابرین۔ وما کان قولہم الا ان قالوا ربنا اغفرلنا ذنوبنا
واسرافنا فی امرنا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔ فاتاھم اﷲ ثواب
الدنیا وحسن ثواب الآخرۃ واﷲ یحب المحسنین (آل عمران: 146۔ 148)
”کتنے ہی نبی ایسے گزرچکے ہیں جن کے ساتھ مل کر بہت سے خدا پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ
کی راہ میں جومصیبتیں ان پر پڑیں ان سے وہ دل شکستہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے کوئی
کمزوری نہ دکھائی۔ وہ (باطل کے آگے) سرنگوں نہ ہوئے۔ ایسے ہی صابروں کو اللہ پسند
کرتا ہے۔ ان کی دُعا تو بس یہ تھی کہ ”اے ہمارے رب، ہماری غلطیوں اورکوتاہیوں سے
درگزر فرما، ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو تجاوز ہو گیا ہو اسے معاف کردے۔ ہمارے
قدم جما دے اور کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد کر۔ آخرکار اللہ نے ان کو دُنیا کا
ثواب بھی دیا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل لوگ پسند ہیں“۔
تب تک یہ اس دین کی حقانیت پر ایمان سے دستبردار نہ ہوئے تھے۔ جانتے تھے کہ یہ
معرکہ جہاد کامعرکہ ہے اور یہ راستہ خدا کا راستہ ہے.... چنانچہ کچھ ہی دیر میں یہ
صف آرائی کرلینے میں کامیاب ہو گئے۔ خلفشار ہو جانے کے بعد ان کو پھر مجتمع ہو
جانے میں دیر نہ لگی۔ پستی چھوڑ کر پرعزم ہونے میں بہت وقت درکار نہ ہوا۔ سستی وبے
عملی چھوڑ کر تیاری کرنے میں ان کو ایسی دشواری پیش نہ آئی جو ناممکنات میں دکھائی
دیتی ہو۔ تب خدا نے ان کو دُنیا کا اجر بھی دیا اور آخرت کا حسن ثواب بھی۔
حتی کہ دور ہزیمت کے بدترین لمحات میں بھی کبھی ان پر یہ خیال نہ گزرا کہ ان کے
دشمن ان سے بہتر ہیں! ان کے دشمن ان کی نگاہ میں خدا کے کافر تھے اور یہ مومن۔
اپنے برتر ہونے کی دلیل وہ اپنے ایمان کے اندر پاتے تھے چاہے میدان میں پانسہ ان
کے حق میں پلٹے یا دشمن کی حق میں اور دشمن کی کمتری کی دلیل اس کے کفر میں پاتے
تھے قطع نظر اس کے کہ مادی فتح ان کو نصیب ہوتی ہے یا دشمن کو۔
البتہ اس بار معاملے میں بہت فرق آگیا تھا۔ اپنے ایمان کی بدولت اپنے آپ کو برتر
جاننے کا احساس (ایک بڑی سطح تک) اس بار کہیں روپوش ہو گیا تھا۔ دشمن کے بالمقابل
یہاں ایک ذہنی شکست خوردگی تھی۔ چنانچہ دشمن کی فکری یلغار ایسی کامیاب رہی کہ
کوئی اس کا تصور تک نہ کر سکتا تھا۔
صرف ایک ہی صدی کے اندر، بلکہ بعض خطوں میں تو صرف آدھی صدی کے اندر ہی، یہ اُمت
مکمل طو رپر تبدیل کرکے رکھ دی گئی۔ دیکھنے والے کو گویا اپنی نظروں پہ یقین بھی
نہ آئے کہ کیا یہ وہی اُمت تھی جو اُمت اسلام کہلاتی تھی!
مصدر تلقی تبدیل ہوا۔ ذہن وشعور کو غذا کہاں سے ملے۔ اس کا مصدر اسلام نہ رہا۔ اس
کا منبع اب خدا رہا اور نہ رسول۔ شعور کو غذا اب یورپی تہذیب سے ملنے لگی تھی۔
آئیڈیل اب وہ ہو گیا تھا جس کو جس حد تک ہو سکے ذہنوں میں اتارا جانا تھا اور جہاں
تک ممکن ہو اسی کا روپ دھارنا تھا۔ اب نفوس کے اندر خدا کا یہ فرمان کوئی بازگشت
تک پیدا نہ کرتا تھا:
افحکم الجاھلیۃ یبغون ومن احسن من اﷲ حکماً لقوم یوقنون (المائدہ: 50)
”تو کیا یہ جاہلیت کا قانون چاہتے ہیں۔ جن لوگوں کا یقین اللہ پر ہے ان کیلئے اللہ
سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے“۔
اور تو اور یورپ کی ’تہذیب‘ کیلئے ’جاہلیت‘ کا لفظ استعمال کیا جانا حیران وششدر
کر دینے والی بات جانا گیا۔ جن لوگوں نے اپنی شناخت تک مغرب کے حوالے کر دی تھی ان
کو یہ ایک گردن زدنی بات دکھائی دینے لگی۔ الٹا اسلام ان کی نگاہ میں رجعت،
پسماندگی اور بربریت نظر آنے لگا۔ مسلمان عورت کا حجاب ان کو قید اور ظلمت دکھائی
دینے لگا اور اس کا برہنہ ہو کر بازاروں میں پھرنا ترقی اور آزادی! کفر اور الحاد
بکنا اور خدا کی کتاب اور رسول کی سنت کا استہزاءکرنا’آزادی فکر‘ کا عنوان ٹھہرا۔
اسلام کو شعوری اور عملی طور پر خیرباد کہہ دینا اور اپنے فکر وعمل کے وجود کومغرب
سے وابستہ کر لینا غلاموں کے اس معاشرے میں ایک ایسی اعلیٰ بات اور ایک ایسی
زبردست شناخت قرار پائی کہ اس پر صرف رشک ہی کیا جا سکے۔
اس کے بعد پھر نئے سے نئے سکول آف تھاٹ آنے لگے: وطنیت، قومیت، سیکولرزم، سوشلزم،
ڈیموکریسی.... اور نامعلوم کیا کیا۔ سب اس لئے کہ یہ نظریات ایک ایک کرکے اسلام کا
متبادل بنیں اور جس کو اسلام کا جو متبادل پسند آئے وہ اس کو اختیار کرلے.... اور
پھر اس لئے بھی کہ اس اُمت کے جتنے چیتھڑے کئے جا سکیں کر دیئے جائیں اور دشمن اس
اُمت کو، جو کبھی اسلام کے فکری ونظریاتی پرچم تلے متحد تھی اور دشمن کے راستے میں
ناقابل تسخیر دیوار تھی، اب ایک ایک نوالہ کرکے کھائی جائے اور اس کے چھوٹے چھوٹے
لقمے بآسانی ہضم ہوں۔ حالت گمراہی میں بھی اس کا ایک ہونا ان کو گوارا نہ تھا۔
پستی کی یہ وہ حد تھی جس تک پہنچ رہنے کی اس اُمت کی تاریخ میں کبھی نوبت نہ آئی
تھی۔ مگر حدیث میں جس چیز کو ’خس وخاشاک‘ کہا گیا جب وہ روپذیر ہو گئی تو پھر یہ
تو ہونا بھی تھا۔ اس کے سوا آپ کیا توقع کر سکتے تھے!؟
×××××××××××
|
|
|
|
|
|