اہل فضیلت کے حالات
|
:عنوان |
|
|
|
|
|
اقتباسات
اہل فضیلت کے حالات
میں نے اہل فضل کے حالات میں غور کیا تو یہ دیکھا کہ ان میں اکثر وبیشتر ایسے ہیں جنہیں دنیاوی مال ومتاع سے حصہ بہت کم ملا ہے اور دُنیا زیادہ تر گھٹیا اور کمینے لوگوں کے ہاتھوں میں دیکھی اور ان باکمال لوگوں کو دیکھا کہ وہ اس دُنیا کے نہ ملنے پر افسوس کرتے ہیں جسے نااہل لوگ لئے پھرتے ہیں اور بہت سے تو اسی حسرت وافسوس میںاس دُنیا سے ہی چل بسے۔ میں نے ایسے کف افسوس ملنے والوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت افسوس ہے ذرا اپنے حال میں غور فرمائیں کہ آپ کئی طرح سے غلطی پر ہیں۔ ایک یہ کہ اگر طلب دُنیا کی ہمت آپ میں ہے تو اس پرمحنت کریں کم از کم نہ ملنے کے افسوس سے تو بچ جائیں گے، کیونکہ محنت و کوشش کے بغیر بیٹھے رہنا اور حاصل کرنیوالے دوسرے لوگوں کو دیکھ دیکھ کر افسوس کرتے رہنا انتہائی عاجزی اور نکما پن ہے۔ دوسری یہ کہ دُنیا زندگی گزارنے کی حد تک مطلوب ہے بنانے سنوارنے کیلئے نہیں، یہ وہ بات ہے جس پر آپ کا علم گواہ ہے اور یہ فہم وعقل کے دائرہ میں بھی ہے اور نااہل لوگوں کو ضرورت سے زائد جو کچھ مل رہا ہے وہ ان کے جسم وجان کیلئے بھی مضر ہے اور ان کے دین کی بربادی بھی ہے۔ اس علم ویقین کے بعد اگر تجھے اس چیز کے نہ ملنے پر افسوس ہے جس کا نہ ملنا تیرے لئے بہتر تھا اور تیرا یہ تاسف ایسی چیز پر ہے جس کے نہ ملنے کو تو خود بھی عین مصلحت سمجھتا ہے تو آخرت کے عذاب سے اگر بچ بھی گیا تو اس افسوس کے کرب ہی کو بطور نقد عذاب کے کافی سمجھ لیں۔ تیسری یہ کہ آپ جانتے ہیں کہ دُنیا میں خوردونوش اور لذتوں کے لحاظ سے آدمی کو مجموعی طور پر دوسرے حیوانات و بہائم سے کم حصہ ملا ہے کیونکہ یہ چیزیں انہیں وافر مقدار میں ملی ہیں اور پرامن طریق پر ملی ہیں۔ اور تمہیں خوف ومشقت کے راستے اور مقدار میں بھی کم ملیں، پس اگر تیرا یہ حصہ تیری خواہش کے موافق بڑھا دیا جائے تو گویا تیرا الحاق حیوانات وبہائم کے ساتھ اس لحاظ سے ہو گیا کہ انہیں ان چیزوں کے بالمقابل فضائل وکمالات سے محروم رکھا گیا اور مشاغل کی کمی انسان کو مراتب کے حصول پر لگاتی ہے اس کے باوجود اگر آپ نے فضول چیزوں ہی کو ترجیح دی تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو عیب ناک کیا ہے اپنے علم کو داغدار کیا ہے اپنی عقل کی کمی پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ (صید الخاطر، ابن الجوزی، ترجمہ: مولانا عبدالمجید انور)
|
|
|
|
|
|