دعوت
(محمد قطب)
توسیع جمعیت:
دعوتی عمل کے ان مراحل میں سے ایک مرحلہ پھر ’توسیع جمعیت‘ بھی ہے، جس میں کہ دعوت کا رخ ’عوام‘ کی طرف پھیر دیا جاتا ہے۔
جہاں تک اسلام کی اولین جماعت کی زندگی میں اس مرحلہ کا تعلق ہے، ہماری مراد رسول اﷲ کی جماعت سے ہے، تو یہ ہمیں اہل مدینہ اور اس کے گرد ونواح کے اعراب کا ایک بڑی تعداد میں داخل اسلام ہونے کے واقعے میں نظر آتا ہے۔ جبکہ اس سے پہلے اس اصل جمعیت کی تشکیل کر لی گئی تھی جو کہ خواص مہاجرین اور انصار سے مل کر بنی تھی۔ یہ مابعد توسیع کا عنصر ہے جس کی بابت قرآن مجید کی اس آیت کا اشارہ ہے:
”مدینہ کے باشندوں اور گرد ونواح کے دیہاتیوں کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ رسول اﷲ کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہیں اور نہ یہ کہ اپنی جان کو ان کی جان سے عزیز سمجھیں“۔[ (التوبہ: ١٢٠)]
چنانچہ یہ لوگ سپاہی اور رضاکار تھے۔ دعوت سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہوئے تھے۔ دلوں میں خلوص تھا۔ دشمن سے اس دعوت کے تحفظ کیلئے آگے بڑھے تھے اور اس کی کامیابی کیلئے سنجیدگی سے کوشاں تھے۔ یہ کوئی ’عوام کا بے قابو مجمع‘ ہرگز نہ تھا۔ یہ کوئی معاشرہ کا وہ طبقہ نہ تھا جسے آج کی جاہلیت ’سڑکوں پہ نکل آنے والی خلقت‘ کے حوالے سے جانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کی جاہلیت معاشرے کی ایک بڑی تعداد کو اس حوالے سے جاننے میں واقعتاً حق بجانب ہے۔ ’سڑکوں پہ نکل آنے والی خلقت‘ وہ خلقت ہے جس کی نہ اپنی کوئی شخصیت ہوتی ہے نہ اپنی سوچ اور نہ خود اپنا کوئی موقف۔ نہ ہی اس کی کوئی اپنی فکری روش ہوتی ہے جس میں استقلال اور استقرار پایا جائے۔ یہ وہ ’ردعمل کی پیداوار عوامی رو میں بہنے والی خلقت‘ ہوتی ہے جس کو کہ حدیث میں امّعہ کہا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: لا تکونوا امعہ، تقولوا: ان احسن الناس احسنا، وان اساؤوا اسانا۔ ولکن وطنوا انفسکم ان احسن الناس او اساؤا الا تظالموا (رواہ الترمذی) ”امعہ (دوسروں کی رو میں بہنے والے) نہ بنو کہ کہنے لگو لوگ بھلائی کریں تو ہم بھی بھلے آدمی ہوں گے۔ لوگ بُرائی کرنے پر آئیں تو ہم بھی بُرا بن کر دکھائیں گے۔ بلکہ (ہونا یہ چاہیے) کہ لوگ بھلے ہوں یا بُرے تم اپنا نفس مار کر ظلم وزیادتی سے دستکش ہی رہو“ چنانچہ یہ وہ ’خلقت‘ ہوتی ہے جو ذرائع ابلاغ کی پیداوار ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ پہلے اس کو بناتے ہیں۔ پھر اس ’رائے عامہ‘ سے رجوع کرتے ہیں اور اس کا ’موقف‘ جاننے کیلئے سروے کرتے ہیں جو کہ عین وہی ہوتا ہے جو کہ خود اسی نے اپنے ہاتھوں بنایا ہوتا ہے!
چنانچہ یہ وہ لوگ نہ تھے جن کے بل پر اسلام کی اس اولین جمعیت کی توسیع ہوئی تھی۔ اس دعوت کے کسی بھی مرحلہ میں ایسے لوگ نہیں تھے۔ یہ مخلص رضاکار تھے جن کے ذریعے یہ توسیع ہوئی تھی۔ یہ اپنے آپ کو دعوت کیلئے وقف کرتے تھے اور اس کو ایک باقاعدہ پروگرام اور زندگی کی ایک باقاعدہ روش کے طور پر اپنا کر دعوت کے خدمت گار اور مددگار بنتے تھے۔
یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ: اس ’توسیع شدہ جمعیت‘ اور اس ’اولین جمعیت‘ میں پھر کیا فرق ہوا جسے ہم نے پیچھے ’مضبوط ایمانی جتھا‘ کے نام سے ذکر کیا؟ مختصراً ہم یہ کہیں گے کہ وہ ’اولین جمعیت‘ اس لئے تھی کہ اس عمارت میں بنیادوں اور ستونوں کا کام دے۔ ایک طرح سے یہ ’قیادت‘ تھی۔ یہ قیادت کی ایک پوری تہہ تھی۔ ایک ایسی مضبوط قیادت جو پیچھے لگنے والوں کا خودبخود ایک رخ بنا دیتی تھی۔ اور انہی پہلے والی بنیادوں پر بعد میں آملنے والوں کی تربیت کر سکتی تھی۔ رہی یہ ’توسیع شدہ جمعیت‘ تو یہ وہ لوگ تھے جو اس اولین جمعیت کی صدا پر لبیک کہہ چکے تھے، ان کی دعوت کا پابند ہونا قبول کر چکے تھے اور اسی کے عَلَم کے نیچے آجانا اور اسی کے وجود میں اپنا وجود گم کر دینا قبول کر چکے تھے اور اسی کے ساتھ اور اسی کے دیے ہوئے رخ پر چلنے پہ آمادہ تھے۔ نہ کہ محض تماشائی جو معاشرے کی رو میں بہنے والے ہوں اور یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہوں کہ یہاں جیت کس کی ہونے والی ہے۔
ایک بار پھر، یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ تربیت کے منہج کے لحاظ سے یہاں کیا فرق ہے؟ وہ محنت جو ’اولین جمعیت‘ کی تیاری پہ کی جانا ہے اور وہ جو ’توسیع جمعیت‘ پہ اس دوسرے مرحلہ میں کی جانا ہے، ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ محتصراً اس کے جواب میں ہم کہیں گے: یہ فرق درجہ کا ہے نہ کہ نوع کا۔ ایک معلم جب تعلیم دیتا ہے تو ’بطور تعلیم‘ وہ اپنے طالبعلموں کو ایک ہی چیز دیتا ہے۔ علم وہی علم ہے۔ البتہ کچھ خاص ہونہار شاگردوں کو وہ اس علم کے ایک خاص درجہ پر لے جاتا ہے اور ان کو ایک خاص درجہ کی توجہ دیتا ہے کیونکہ انکی استعداد دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ اور ان سے اس کا مطالبہ دوسرے طالب علموں کی بہ نسبت کہیں بڑھ کر ہوتا ہے۔ استاد ان سے اس درجہ کی کارکردگی قبول نہیں کرتا جسے وہ کچھ ایسے شاگردوں سے قبول کر لیتا ہے جن کی استعداد اس سے بڑھ کر اجازت نہیں دیتی۔ اگرچہ اپنی اہلیت کے بقدر پاس ہونا ہر کسی سے مطلوب رہتا ہے۔
کوئی اگر یہ پوچھنا چاہے کہ کیا ان دونوں میں کوئی فیصلہ کن انداز کی حدِ فاصل ہے؟ اور یہ کیوں نہیں ہو سکتا کہ ’توسیع شدہ جمعیت‘ میں کچھ ایسے لوگ پائے جائیں جو قیادت اور رخ دینے کی استعداد رکھتے ہوں جبکہ ’اولین جمعیت‘ میں کچھ ایسے لوگ بھی پائے جائیں جن کی ہمت یا استعداد اس درجہ تک پہنچنے میں ناکافی ثابت ہو جائے؟ تو ہم کہیں گے کہ واقعتاً ایسا ممکن ہے اور اس صورت میں حق بنتا ہے کہ ایک بااستعداد آدمی اس صف میں شامل ہو جو دعوت اور تربیت کے عمل کو ایک رخ اور ایک جہت دیتی ہے اور یہ کہ جس آدمی کی اہلیت یا استعداد کسی وقت جواب دے جائے وہ اسی کے بقدر پیچھے آجائے، جس کا کہ صحیح تعین کرنا انہی لوگوں کا کام اور اجتہاد ہوگا جو اس امر کے مسؤول ہوں، اگرچہ انکا اجتہاد کسی وقت درست بھی ہو سکتا ہے اور کسی وقت غلط بھی .... البتہ ہماری یہ گفتگو عمومی طور پر اس حوالہ سے ہے کہ دعوت کیلئے کھڑی کی جانے والی ’بنیادی جمعیت‘ اصولاً ایک خاص درجہ کی محنت چاہتی ہے اور اس کی تیاری پر ایک بہت ہی خاص انداز کی توجہ مرکوز کر دی جانا لازم ہوتی ہے۔ دیوار کے اندر بنیادی ستون اٹھانا بہرحال ایک مختلف اور خاص نوعیت کا کام ہے بہ نسبت دیوار کے باقی ماندہ حصہ کے، اگرچہ ’اینٹ‘ کا استعمال دیوار کے دونوں حصوں میں کیوں نہ ہوتا ہو۔ یہ بات ہر قسم کی ’دیوار‘ اٹھانے کے معاملہ میں ہی سچ آتی ہے اور یہ ایک بدیہی حقیقت ہے۔
معاملہ صرف اتنا ہے کہ یہاں ہم ایک امر پر توجہ مرکوز کرا دینا چاہتے ہیں اور وہ واقعتاً اس قدر اہم ہے کہ اس پر تمام تر توجہ مرکوز ہو جائے اور وہ یہ کہ نئے مددگاروں کو صلائے عام دینا اور ان کے بل پر توسیع جمعیت کا عمل سرانجام دینا ایک بنیادی جمعیت کو وجود میں لے آنے کے بعد ہی ہونا چاہیے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ تعلیم پانے والوں سے پہلے تعلیم دینے والوں کا پایا جانا یقینی بنایا جائے۔ ’رخ دینے‘ والے پہلے ہونے چاہئیں اور پھر لوگوں کو کہا جائے کہ وہ ’رخ لینے‘ کیلئے آگے بڑھیں۔ البتہ اگر اس سے پہلے ہی ہم صلائے عام دے دیں اور لوگ ہماری آواز پہ لبیک کہتے ہوئے آجائیں، جبکہ وہ کھیپ موجود ہی نہ ہو جو ان کو عین وہ رخ دے دے جس کا کہ اسلام اس وقت اور زمانے میں تقاضا کرتا ہے تو لوگوں کا لبیک کہہ لینا اس کھیپ کے بغیر کس کام کا؟
دوسری بات جس پر ہم توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں یہ کہ: قدرتی طور پر وہ ذریعہ جو ’توسیع جمعیت‘ کے عمل میں ___ جب بھی اس کا وقت آئے ___ اختیار کیا جائے گا وہ ذریعہ ہے دعوت عام جو کہ سب لوگوں کو دی جائے گی۔ یعنی معاشرہ کا وہ طبقہ جسے آج کی اصطلاح میں ’عوام‘ کہا جاتا ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ دعوت پہ لبیک کہنے کے معاملہ میں عوام سب کے سب ایک ہی درجہ پر نہ ہوں گے۔ ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے کہ جن کو جب دعوت صاف شفاف اور اجلے نکھرے انداز میں دے دی جائے تو وہ ایمان صادق کے ساتھ اس کی جانب بڑھیں گے اور دعوت کی کامیابی کی راہ میں جانباز سپاہی بن کر آئیں گے اور اپنے اس عمل سے محض اور محض خدا کی خوشنودی کے ہی خواستگار ہوں گے .... ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے جو دعوت کی جانب آئیں گے مگر ’نفع نقصان‘ کا خیال رکھتے ہوئے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ دعوت میں شامل ہونے کے کیا فوائد ہیں اور اس کے کیا کیا ’نقصانات‘ ہو سکتے ہیں .... ’عوام‘ میں ایسے بھی ہوں گے جن کو سوائے اس بات کے کسی امر سے غرض نہ ہو کہ ’غلبہ‘ کون پاتا ہے۔ یہ فریق ہر قسم کی کشمکش سے دستکش رہے گا نہ اِس جانب اپنا وزن ڈالے گا اور نہ اُس جانب۔ یہ ’تیل دیکھو اور تیل کی دھار‘ پہ یقین رکھنے والا گروہ جو بسا اوقات ’خبروں‘ سے ’محظوظ‘ ہونا اور بے پروائی سے تبصرے کرنا تک روا جانتا ہے یہاں تک کہ معاملہ آخرکار پھر کسی کروٹ بیٹھ جائے تو تب جا کر ان کی طرف داری کے ظہور میں آنے کا وقت آتا ہے جس کے پیچھے کوئی ایسا عامل کارفرما نہیں ہوتا کہ یہ کسی بات کی تائید ونصرت اس کے اصولوں کی حقانیت کو دیکھ کر اور اس کی جانب ایک قوی اندرونی میلان کے باعث کرتے ہوں۔ یہ وہ فریق ہے جو حالات کی زبان پڑھنا اور سننا جانتا ہے اور نفسیاتی طور پر صرف یہ بات قبول کرنے پر ہی تیار ہوتا ہے کہ ’حالات‘ کیا کہتے ہیں۔ جو چیز ابھی وجود میں نہیں آئی اور جس کے وجود میں آنے کیلئے ڈھیروں وقت اور محنت درکار ہو وہ ان کیلئے قابل توجہ نہیں ہو سکتی قطع نظر اس کے کہ وہ کتنا صحیح ہے اور کتنا غلط۔ البتہ وہ چیز جو بالفعل پائی جاتی ہے اور جو کہ حالات کا رخ ہے وہ خودبخود لوگوں کو اپنے ساتھ چلاتی ہے جبکہ یہ فریق کسی تبدیلی کیلئے محنت کرنے کا روادار ہی نہیں خاص طور پر اس وقت جب ایسی کوئی محنت آدمی کیلئے خطرات کا پیش خیمہ بھی ہو .... تو معاشرے کا یہ فریق دعوت کا ساتھ دینے پر اس وقت تک تیار نہ ہوگا جب تک کہ دعوت کو لبیک کہنا ’حالات کا تقاضا‘ نہ بنا دیا جائے اور جس کا ساتھ دینا کوئی خاص ’محنت طلب‘ کام نہ رہے اور نہ ہی اس راستے میں آدمی کو خطرات نظر آرہے ہوں۔
یہ تینوں قسم کے فریق ہر معاشرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تینوں کے تینوں خود رسول اﷲ کے معاشرہ میں بھی پائے جاتے تھے:
پہلا فریق ___ رسول اﷲ کے دور میں ___ مدنی معاشرہ کا وہ طبقہ ہے جو دعوت پر ایمان صادق لے کر آیا تھا اور جانفروشی کے ساتھ اس دعوت کی کامیابی کیلئے اپنے آپ کو پیش کر رہا تھا۔ معاشرہ کا یہ طبقہ ہدایت لینے اور اقتدا کرنے میں پوری سنجیدگی کے ساتھ مہاجرین وانصار کی قیادت قبول کر چکا تھا۔ یہ معاشرہ کا وہ طبقہ ہے جن کا ذکر ’پیچھے آنے والوں‘ کے حوالہ سے اس آیت میں ملتا ہے:
(التوبہ: ١٠٠)
”وہ مہاجر وانصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ جو بعد میں راستبازی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اﷲ ان سے راضی ہوا اور وہ اﷲ سے راضی ہوئے۔ اﷲ نے ان کیلئے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہی عظیم الشان کامیابی ہے“۔
اسی طبقہ میں ’اعراب‘ کا وہ فریق بھی آتا ہے جو صدق دل سے ایمان لایا تھا اور ایمانی رحجانات کو سنجیدگی سے قبول کر چکا تھا۔ اسی کی جانب اس آیت میں اشارہ ملتا ہے:
”انہی اعراب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اﷲ کے ہاں تقرب کا اور رسول کی طرف سے رحمت کی دُعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ ہاں وہ ضرور ان کیلئے تقرب کا ذریعہ ہے اور اﷲ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ یقیناً اﷲ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے“۔
دوسرا فریق وہ نظر آتا ہے جن کی رسول اﷲ تالیف قلب فرمایا کرتے تھے اورا ن کو کچھ دے دلا کر اور تعلقات کو کام میں لا کر ایمانی دھارے کے ساتھ چلا لیتے تھے۔ مصارف زکات کے حوالے سے اسی طبقہ کی طرف اس آیت کا اشارہ ملتا ہے: انما الصدقات للفقراءوالمساکین والعاملین علیہا والمؤلفہ قلوبہم (التوبہ: ٦٠) ”یہ صدقات تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کیلئے ہیں اور ان لوگوں کیلئے جو صدقات کے کام پر مامور ہوں، اور ان کیلئے جن کی تالیف قلب مطلوب ہو“۔
جبکہ تیسرا فریق (ایک بڑی سطح پر) ہمیں وہ نظر آتا ہے جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوتا ہے۔ فتح کی صورت میں جب یہ معاملہ اپنی آخری کروٹ بیٹھ جاتا ہے اور ’حالات‘ کا فیصلہ اسلام کے حق میں ہوجاتا ہے تو یہ فریق اسلام میں آجاتا ہے جبکہ رسول اﷲ کا صاف صاف حق پر ہونا یہ تمام تر عرصہ ان پر واضح ہی تھا۔ مگر اس وقت ___ جیسا کہ قرآن نے ان کی اپنی زبانی بات کی ___ ان کو یہ فکر دامن گیر تھی کہ وقالوا ان نتبع الہدی معک نتخطف من ارضنا (القصص: ٥٧) ”کہنے لگے اگر ہم آپ کے ساتھ ہو کر ہدایت کے متبع ہو جائیں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں گے“) مگر اب جب خود یہ ’ہدایت‘ ہی ملک میں تمکین پا چکی تھی تو یہ اس کی اتباع پر تیار ہو گئے اور خدا کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے۔ جیسا کہ سورہ النصر میں آتا ہے اذا جاءنصراﷲ والفتح ورایت الناس یدخلون فی دین اﷲ افواجا فسبح بحمد ربک واستغفرہ انہ کان توابا ”جب اﷲ کی مدد آجائے اور فتح نصیب ہوجائے اور (اے نبی) تم دیکھ لو کہ لوگ فوج درفوج اﷲ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، اور اس سے مغفرت کی دُعا مانگو، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے“۔
ابھی منافقین کا طبقہ الگ ہے جو کہ مسلم معاشرے کے ان تینوں فریق میں شمار نہیں ہوتا اور جو کہ معاشرہ کے اندر اسلام کا اقتدار قائم ہو جانے کے بعد نمودار ہوا کرتا ہے اور جو کہ اسلام کا اقتدار مستحکم ہو جانے سے ماقبل مرحلہ کو تماشائی بن کر گزارتے ہیں اور اسلام کی مضبوطی کے خلاف دل میں جلتے ہیںاور جو کہ اسلام کو قبول کرنے کے دعویٰ میں ہی جھوٹ بول رہے ہوتے ہیں یا وہ لوگ جو اتنی ہمت اور جرات نہیں پاتے کہ منہ پر انکار کردیں اور یوں وہ اپنے کفر کو دلوں میں چھپا کر رکھنا ہی اپنے لئے مناسب تدبیر جانتے ہیں۔
اب اگر یہ درست ہے کہ ہر معاشرہ کے اندر ہی یہ سب طبقے پائے جاتے ہیں تو پھر ’توسیع جمعیت‘ کے مرحلہ میں (دعوت کو عوام میں لے آنے کے مرحلہ میں) یہ سوال اہم ہو جاتا ہے کہ دعوت کا رخ سب سے پہلے معاشرہ کے کس طبقہ کی طرف کیا جائے؟ نظری طور پر theoratically ہم دعوت کا رخ سبھی لوگوں کی ہی جانب رکھیں گے مگر درحقیقت دعوت پہ لبیک کہے جانے کی توقع ہم لوگوں کے ایک خاص طبقہ سے ہی کریں گے۔ سو عملاً دعوت کا رخ اسی طبقہ کی جانب مرکوز ہو جائے گا۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس دعوت کو قوت اور تمکنت ’عوام‘ کے ایک خاص طبقہ کے ہاتھوں ہی ملے گی لہٰذا عملاً دعوت زیادہ اسی طبقہ پر ہی مرکوز ہو جائے گی۔
چنانچہ اگر ہم اسلام کی اولین جماعت (رسول اﷲ کی تیار کردہ جماعت) کے عملی مراحل کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جب سے رسول اﷲ کو جہری دعوت کا حکم دیا گیا تب سے دعوت کا رخ گو عرب کے تمام تر لوگوں کی طرف رہا مگر ہجرت کے بعد کا مرحلہ دیکھیں تو دعوتی عمل زیادہ تر اہل مدینہ پر ہی مرکوز کردیا جاتا ہے جو کہ وہ فریق تھا جو دعوت کے قبول کرنے میں ___ معاشرتی سطح پر ___ سب سے آگے تھا اور جو کہ رسول اﷲ اور آپ کے خاص تربیت یافتہ مہاجرین وانصار سے تربیت لینے اور ان کے پیچھے کھڑا ہونے پر تیار ہو چکا تھا۔ یہ اہل مدینہ جو رسول اﷲ کے تربیت یافتہ مہاجرین وانصار کی سرکردگی میں چلنے پر آمادہ تھے اور جہاد اور صبر وثبات کے قدم قدم پر ثبوت دے رہے تھے .... یہی معاشرہ کا وہ اہم ترین طبقہ تھا جو پھر دعوت میں مابعد کے مراحل کیلئے ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر گیا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر دونوں طبقوں پر توجہ مرکوز کی جانے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ دعوتی عمل کی یہی ایک منطقی ترتیب بنتی ہے اور یہی بات حق وباطل کے اس معرکہ اور اس کشمکش کے مزاج کے عین مطابق نظر آتی ہے۔
حق اور باطل کے مابین کشمکش تو ہر دور میں ہو کر رہنی ہے۔ یہ خدا کی سنت ہے۔ یہ کشمکش عین اسی لمحے کھڑی ہوجائے گی جب حق کو کسی جگہ پر کچھ مردانہ صفت لوگ مل جائیں گے جو اس پر دل وجان سے ایمان لے آنے اور اس کو لے کر معاشرے میں آگے بڑھنے اور زمین میں اس کو تمکین دلانے کا مشن اپنا لیں۔ ہو نہیں سکتا کہ جاہلیت ہاتھوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھی رہے۔ ہو نہیں سکتا کہ جاہلیت اس دعوت کو اپنے حال پر چھوڑ دے۔ بے شک دعوت اس کے ساتھ ہرگز بھی کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کرے۔
”اور اگر تم میں سے کچھ لوگ اس (دعوت) پر، جس کو دے کر مجھ کو بھیجا گیا، ایمان لے آتے ہیں اور کچھ ایمان نہیں لاتے ہیں تو ذرا ٹھہر جاؤ! یہاں تک کہ ہمارے درمیان اﷲ فیصلہ کردے اور وہ سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے۔ اس کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا کہ اے شعیب، ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی بستی سے نکال دیں گے۔ ورنہ تم لوگوں کو ہماری ملت میں واپس آنا ہوگا“۔
صاف صاف! متارکہء جنگ کا کوئی سوال ہی نہیں۔ دو فریق اپنے اپنے حال پر رہیں تاآنکہ خدا ان کے مابین کوئی فیصلہ کردے اور تب تک جاہلیت ’صبر‘ سے کام لئے رہے .... جیسا کہ شعیب کے مطالبہ سے ظاہر ہوتا ہے، اس بات کا کوئی امکان نہیں۔ جبر اور زبردستی جاہلیت کو کرنی ہی ہے۔ اہل ایمان کو نکال کر رہنا ہے۔ ان کے پیچھے تک آنا ہے۔ جہاں تک ہو سکے ایذا دینی ہے۔ یہ اس کشمکش کا مزاج ہے۔ اب ایسے میں کون ہے جو دعوت کے ان ابتدائی مراحل میں دعوت کے ساتھ ہولے؟ کیا وہ لوگ جو زمینی معیاروں کے مطابق ’نفع اور نقصان‘ کا حساب کرنے کے بعد کسی کام کو ہاتھ ڈالنے کے روادار ہوا کرتے ہیں؟ کیا وہ لوگ جو حالات کی زبان پڑھنا جانتے ہیں اور جس سمت کی فضا ہو اسی سمت کو چل پڑنا مناسب خیال کرتے ہیں قطع نظر اس امر کے تعین کے کہ اس سمت کو چلنا کس قدر غلط اور ناروا ہے؟ کیا وہ لوگ جو ایک بات کے صحیح اور حق ہونے کے باوجود محض اس لئے اس سے کنارہ کش رہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس کو وجود میں لانے کیلئے ڈھیروں محنت اور قربانی کی ضرورت ہے اور خطرات کو مول لینا اس پر مستزاد ہے؟
طبعی امر ہے کہ دعوت کی جانب ان ابتدائی مراحل میں وہی لوگ آگے بڑھیں گے جو اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہوں .... جو ’نفع اور نقصان‘ کو خدا کی میزان میں اور آخرت کے ترازو سے تول سکتے ہوں نہ کہ ان تکڑیوں سے جو جاہلیت کے ہاں چلتی ہیں اور جن کے سواجاہلیت کسی پیمانہ سے واقف نہیں۔
ولقد ارسلنا رسلنا بالبینات وانزلنا معہم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسط (الحدید: ٢٥)
”ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں“۔
یہاں اشیاءکو ان پیمانوں سے ماپنے والے لوگ چاہئیں جو دُنیا کی متاع کو اس کے اپنے حجم میں دکھائیں اور آخرت کی سرخروئی کو اس کے اصل رنگ میں: قل متاع الدنیا قلیل والآخرت خیر لمن اتقی ولا تظلمون فتیلا (النساء: ٧٧) ”ان سے کہو، دُنیا کا سرمایہء زندگی تھوڑا ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کیلئے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر بھی نہ کیا جائے گا“۔
وہ پیمانے جن میں زمین کے تمام تر فائدے، تمام تر مفادات اور تمام تر رشتے خدا اور رسول اور جہاد کی محبت کے آگے بے وقعت ہو جایا کریں:
”اے نبی، کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے، اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز واقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیں، اور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑ جانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ اور اُس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا“۔
وہ میزان جن میں باقیات صالحات حیات فانی کی تمام تر زینت پر فوقیت پا جائیں: المال والبنون زینہ الحیوت الدنیا والباقیات الصالحات خیر عند ربک ثوابا وخیر املاً ”مال اور اولاد تو دنیا ہی کی زینت ہے اور (ہاں) البتہ باقی رہنے والی نیکیاں تیرے رب کے نزدیک ازروئے ثواب اور ازروئے امید مندی بہت بہتر ہیں“۔
وہ میزان جو یہ بتائے کہ نفع بخش تجارت جو کہ آدمی کو خدا کے عذاب سے بچانے والی ہے وہ اﷲ اور رسول پر ایمان ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ:
(الصف: ١٠۔ ١٣)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتاؤں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اﷲ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اﷲ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جان لو۔ اﷲ تمہارے گناہ معاف کردے گا، اور تم کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی۔ اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اﷲ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح۔ اے نبی، اہل ایمان کو اس کی بشارت دو“۔
چنانچہ دعوت کے ابتدائی مراحل دراصل محنت اور قربانی سے ہی عبارت ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہ لوگ جو زمینی فوائد کی زبان جانتے ہیں چاہے وہ دولت وآسائش ہو، یا شخصیت کی نمائش یا پیروکاروں کے جمگھٹے دیکھنے کی آرزو .... ایسے لوگ خالص اسلام کی دعوت کے ان ابتدائی مرحلوں میں کسی کام کے نہیں۔ خواہ یہ ’اولین جمعیت‘ کی تیاری کا مرحلہ ہو یا حتی کہ ’توسیع جمعیت‘ کا مرحلہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنے حالات اور زمانے پر نگاہ ڈالیں تو کچھ امور ہمارے ذہن میں حد درجہ واضح رہنا چاہئیں چاہے وہ ’بنیادی جمعیت‘ کی تیاری کے حوالے سے ہو، یا ’توسیع جمعیت‘ کے حوالے سے یا حتی کہ معاشرے کے اس بہت بڑے طبقے کے حوالے سے بھی کیوں نہ ہو جو کہ اس کشمکش کے آخری مراحل میں ___ فوج در فوج ___ دعوت کے ساتھ آملتا ہے۔ چنانچہ معاشرہ کا یہ وسیع طبقہ یا عمومی طبقہ تک بھی اس بات کے بغیر نہیں چھوڑا جائے گا کہ ان کا اسلام باقاعدہ طور پر درست کرایا جائے۔ معاشرہ کے اس طبقہ تک کو باقاعدہ طور پر تبدیل ہوئے بغیر نہ رہنے دیا جائے گا اور ان کو بھی تربیت کے ایک خاص درجہ پر پہنچائے بغیر اطمینان نہ کیا جائے گا۔ معاشرہ کے اس طبقہ کے ساتھ بھی وہ معاملہ نہ کیا جائے گا جو جاہلیت ’عوام الناس‘ کے ساتھ کرتی ہے۔ نہ ان کی کوئی اپنی شخصیت رہنے دیتی ہے اور نہ ان کی کوئی اپنی سوچ اور اپنی رائے۔ یہ میڈیا کی پھونک سے چلنے والی خلقت جانی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف جاہلیت اس ’خلقت‘ کو یہ بھی باور کرائے رکھتی ہے کہ سلطنت کا سارا نظام بس اسی کے اوپر مستوی ہے اور اسی کے آراءاور اسی کے ووٹوں پر قائم!
اسلام میں اس انداز کی ’خلقت‘ ہرگز نہ پائی جائے گی۔ نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت۔ معاشرہ کا ہر شخص ___ کم از کم حد تک ___ اسلام کی حقیقت کو جانتا اور سمجھتا ہوگا اور کم از کم حد تک اسلام کا پابند بھی ہوگا۔ اس بات کو یقینی بنانا ایک اسلامی مملکت میں اولی الامر کی ایک باقاعدہ ذمہ داری ہوگی۔ معاشرہ میں جو شخص آپ اپنی چاہت سے خدا کے تقاضوں کا پابند ہوگا وہ خدا کے ساتھ اپنا معاملہ آپ ہی درست رکھے گا۔ البتہ اگر کوئی شخص اسلام کے تقاضوں کا ___ کم از کم حد تک ___ پابند نہیں ہوتا تو اس پر عثمان کا یہ قول لاگو ہوگا:
یزع اﷲ بالسلطان مالا یزع بالقرآن
”اﷲ تعالیٰ جس چیز کو قرآن کے ذریعہ زیرنگین نہیں لاتا (مسلم) اقتدار کے ذریعہ اس کو بھی زیرنگین لے آتا ہے“۔
بنا بریں سب کے سب لوگ اور پورے کا پورا معاشرہ ہی دعوت کی زد میں لایا جائے گا۔ ہاں البتہ یہ کام مرحلہ بہ مرحلہ ہوگا، جیسا کہ اولین مسلم جماعت کی تاریخ میں ہوا۔ اس عمل میں وہ سب خدائی سنتیں پیش نظر رکھی جائیں گی جو ___ جب بھی ان کے حالات اور اسباب پیدا کئے جائیں ___ ہر بار اپنا اعادہ کراتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔