بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے!
یہودیوں کے ساتھ تعلقات کی استواری!!!
یہودیوں کے خلاف نصاریٰ کے ہاں آخری درجے کی نفرت اور غم وغصہ کا پایا جانا ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اس کی تفصیل یہاں بیان نہیں ہو سکتی مگر یہ ہر دور کے اندر ایک معلوم واقعہ رہا ہے۔ خواہ وہ مسیح کے متصل بعد کا دور ہو جب نصرانیوں پر بُری طرح ظلم ڈھایا جا رہا تھا اور خواہ وہ رومنوں کے داخل نصرانیت ہونے کے بعد کا دور ہو جب نصرانی یہودیوں کے خلاف اپنے پرانے بدلے اتارنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ اسلامی فتوحات کے دور تک بھی یہ صورتحال رہی کہ بیت المقدس کے نصاری کی جو شروط خلیفہء دوئم عمر بن الخطاب نے منظور کیں ان میں نصاریٰ کی یہ شرط بھی شامل تھی کہ اس مقدس شہر میں یہودیوں کو بسنے نہیں دیا جائیگا۔
مسلم اندلس میں عیسائی غالب آگئے تو مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کی بھی بہت بُری طرح شامت آئی رہی، جس کے باعث یہودیوں کو اندلس سے ڈیرہ اکھاڑ کر عثمانی سلطنت کے زیر سایہ ترکی میں پڑاؤ کرنا پڑا۔
جہاں تک پروٹسٹنٹ چرچ کا تعلق ہے اور جس کا اصل دائرہء اثر امریکہ اور انگلستان رہا ہے تو اس میں یہودیوں کا نقب بہت پہلے لگ چکا تھا۔ مگر پروٹسٹنٹ چرچ اس وقت ہمارا موضوع نہیں۔ کیتھولک چرچ البتہ بڑی دیر تک اس معاملہ میں مزاحمت کرتا رہا۔
1904میں صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈر ہرٹزل نے پوپ پیپس دہم Pius X سے ملاقات کی اور صہیونی تحریک کے اہداف ومقاصد واضح کرتے ہوئے پوپ سے مدد کی درخواست کی۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب پوپ نے ہرٹزل کو جواب دیا: یہودیوں نے ہمارے خدا یسوع کو تسلیم نہیں کیا۔ ہم یہودی قوم کو کیوں تسلیم کریں“۔ بلکہ یہ بھی کہا! اگر تم اپنی قوم کے ساتھ یروشلم میں آباد ہونا چاہتے ہو تو ہم اپنے تمام گرجائوں اور پادریوں سمیت اس بات کیلئے تیار ہونگے کہ تم سب کو وہاں بپتسمہ دے دیں“۔ [ دیکھئے تھیوڈر ہرٹزل کی ڈائری بتاریخ ٢٥ جنوری ١٩٠٤ءhttp://www.jafi.org.il/education/heizl/timeline7.html#5]
بالفور ڈیکلریشن پیش کرنے والا چونکہ انگلستان تھا تو پروٹسٹنٹ کلیسا سے تعلق رکھنے کے باعث اس کا معاملہ مختلف ہے۔ البتہ کیتھولک ویٹی کن اس بالفور ڈیکلریشن کی کھل کر مخالفت کرتا رہا ہے اور یہودی وطن کے مطالبہ کو ہرگز تسلیم نہ کرتا تھا۔
بینی ڈکٹ پانزدھم Benedict XV نے ١٩٢١ءمیں فلسطین کے اندر یہودی آباد کاری کو خود عیسائی مفادات کیلئے نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی تھی۔
١٩٢٢ءمیں ویٹی کن نے لیگ آف نیشنز میں پیش کی گئی باقاعدہ دستاویز کے ذریعہ فلسطین کے اندر یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کے منصوبہ کی مذمت کی تھی۔
١٩٤٣ءمیں ویٹی کن نے امریکی حکومت کو ایک مراسلہ بھیجا جس میں فلسطین کے اندر یہودیوں کی قومی ریاست کے قیام کی مخالفت کی گئی تھی۔ اس سے اگلے سال ویٹی کن نے صہیونی مطالبات سے خبردار کرنے کیلئے ایک باقاعدہ مندوب امریکہ بھیجا۔
١٩٤٧ءاور ١٩٤٩ءکے درمیانی عرصہ میں ویٹی کن نے متعدد مواقع پر مسئلہ فلسطین پر عرب موقف سے ہمدردی ظاہر کی۔
پیپس دوازدھم Pius XII (١٩٣٩ء۔ ١٩٥٨ء) کا سارا دور ویٹی کن صہیونیت اور اس کے مطالبات کی بابت اپنے موقف میں لچک لے آنے سے انکاری رہا۔ زیادہ سے زیاد اس دور میں کچھ ہوا تو وہ پوپ کی جانب سے ایک سادہ اپیل تھی کہ عیسائی لوگ ان انجمنوں کی معاونت کریں جو تورات کی اشاعت میں دلچسپی رکھتی ہیں۔
صہیونیوں کی نظر میں پوپ پیپس دوازدھم کی شخصیت ہی سب سے زیادہ قابل نفرین سمجھتی جاتی ہے جس کے دور میں دوسری جنگ عظیم ہوئی اور نازیوں کے ہاتھوں ہولوکوسٹ کے واقعات ہوئے۔ اس پوپ کی سوانح میں ہٹلر سے ملاقات کا ذکر بھی آتا ہے۔ یہودیوں کو زبردستی کیتھولک بنائے جانے کے واقعات پیش آئے۔ صہیونیوں کا کہنا ہے کہ پوپ پیپس دوازدھم نے اپنی خاموشی سے ایک طرح نازیوں کی حوصلہ افزائی کی .... بہرحال کہاں وہ دور اور کہاں پوپ جان پال دوئم کا زمانہ !!!
یہ سارا نقلاب ساٹھ کی دہائی میں اور اس کے بعد آیا ....
پوپ جان بیست و سوئم John XXIII کے دور میں ویٹی کن کے اندر ”کلیسا اور غیر نصرانی اقوام کے مابین تعلقات“ پر بحث شروع کرائی گئی اور تین سال کی بحث وتمحیص کے بعد ___ جبکہ یہ دور تھا جب کارلو ووٹیلا (جان پال دوئم) ویٹی کن کے سیکرٹریٹ سے منسلک ہو چکے تھے ___ ١٩٦٥ءمیں ویٹی کن سے جو ایک دستاویز صادر ہوئی وہ پوری دنیا کو انگشت بدنداں کر گئی۔ دستاویزکا نام تھا Nostra Aetate۔ جس میں یہودیوں کو ___ بطور قوم ___ مسیح کے خون سے بری قرار دے دیا گیا تھا۔ دستاویز میں کہا گیا تھا کہ مسیح کے خون کاذمہ دار دور مسیح کے سب یہودیوں کو قرار دینا ناانصافی ہے اور دور مسیح کے بعد کے یہودیوں کو مسیح کے خون کا ذمہ دار قرار دیتے چلے آنا تو اور بھی غلط ہے....
زبردست!!!
سوال تو یہ ہے کہ یہود کی بطور قوم صفائی دینے کا خیال کلیسا کو آج مسیح کے دو ہزار سال بعد جا کر ہی کیوں آیا؟ آخر وہ کونسی بات ہے جو اب پیش آئی اور کلیسا سے اس بیان کے جاری ہونے کا باعث بنی؟ کیا اس کی وجہ ویٹی کن کو ایک بات کی سمجھ آنا ہے یا پھر یہودیوں کا عالمی طور پر مضبوط ہونا؟ یا پھر یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں؟؟؟
اس کے بعد تو پھر سبھی بند کھل گئے ....
١٩٦٩ءمیں ویٹی کن نے بالٹیمور کے ایک کارڈینل لارنس شیہان کی پیش کردہ دستاویز پر صاد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کیتھولک عیسائیوں پر لازم ہے کہ وہ یہودیوں کی نسبت سے ریاست اسرائیل کے دینی پہلو کو تسلیم کریں اور یہودیوں کے ارض مقدس کے ساتھ رشتے کو معتبر جانیں۔
١٩٧٣ءمیں فرانس ___ جو کہ کیتھولک آبادی پر مشتمل سب سے اہم ملک ہے___ کے کچھ کیتھولک بشپوں پر مشتمل ایک کمیٹی نے ایک قرارداد پیش کی۔ اس کو بعد ازاں لوگوں نے ”کیتھولک بالفور ڈیکلریشن“ کا بھی نام دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ”عالمی ضمیر کیلئے اس بات کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں کہ وہ یہودیوں کے، اقوام عالم کے مابین، ایک قوم کے طو رپر وجود رکھنے کے حق اور اس کیلئے اختیار کئے جانے والے ذرائع کے جواز سے انکار کریں“۔
بہت خوب! عالمی ضمیر تو اپنے بارے میں خود بھی رائے قائم کر سکتا ہے۔ خود ویٹی کن کا ضمیر اس سے پہلے آخر کہاں تھا؟! آخر اب یہ ایک دم ہی کیوں جاگ اٹھا؟!
١٩٨٢ءمیں، یعنی پوپ جان پال دوئم کے دور پاپائیت میں، ویٹی کن نے اسرائیلی ریاست کو باقاعدہ رسمی طور پر تسلیم کرنا قبول کیا .... ایک ’واقعہ‘ کے طور پر نہیں بلکہ ’حق‘ کے طور پر!
دلچسپ بات یہ کہ ١٩٨٢ءوہی سال ہے جس میں لبنان کے فلسطینی کیمپوں میں صبرا اور شاتیلا کے خونریز اور انسانیت سوز واقعات ہوئے اور جس کا ایک گھنائونا کردار موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون رہا ہے، اور جو کہ اسرائیل کی تاریخ کے بھیانک ترین واقعات ہیں اور ’عالمی ضمیر‘ کو جھنجھوڑ دینے کیلئے کافی سے بہت زیادہ ہیں!
١٩٨٦ءمیں پوپ نے روم میں یہودی عبادت خانے میں بنفس نفیس حاضری دی۔
١٩٩٣ءمیں ویٹی کن نے اوسلو معاہدے کی اوٹ استعمال کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور ١٩٩٤ءمیں مکمل سفارتی تعلقات قائم کرلئے۔
٢٠٠٠ءمیں پوپ نے صہیونی ریاست کا دورہ کیا۔
آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں کہ ان آخری برسوں میں ___ یعنی جان پال دوئم کے زمانہ میں ___ ویٹی کن یہودیوں کے حق میں کس تیزی کے ساتھ ’نیک‘ ہوتا جا رہا تھا۔ اس سلسلہ کی آخری بڑی ’نیکی‘ جان پال دوئم نے یہ کی کہ یہود اور اسرائیل کے حق میں ویٹی کن سے سرزد ہونے والی سب ’خطائوں‘ اور ’زیادتیوں‘ کی بابت صاف لفظوں میں معافی ہی مانگ لی!
١٩٩٨ءمیں پوپ کی جانب سے "We Remmber:A Reflection on the Shoah" نامی دستاویز صادر ہوئی۔ اس میں کلیسا نے اپنے فرزندوں کی پچھلے دو ہزار سال کے ان تمام افعال پر ندامت کااظہار کیا جن کا ارتکاب کرکے وہ مسیح اور اس کی انجیل کی روح کو قائم نہیں رکھ پاتے رہے۔ علاوہ ازیں نازیوں کے ہاتھوں یہود پر ڈھائے جانے والے مظالم کے وقت بعض فرزندان کلیسا کی جانب سے یہودیوں کی مدد نہ کر پانے پر بھی اس میں افسوس ظاہر کیا گیا۔
اس سلسلہ میں ایک دلچسپ مکالمہ کی روداد بھی سنیے ....
نئے پوپ کے انتخاب کے حوالے سے الجزیرہ ٹی وی پر ٢٩ اپریل ٢٠٠٥ءکو ایک مباحثہ ہوا جس میں ایک عرب کیتھولک پادری فادر شفیق ابو زید بھی شریک تھے۔ مباحثہ کے میزبان نے ’فادر‘ سے سوال کیا کہ عیسائیوں نے صلیبی حملوں کے دوران جو کچھ کیا اور اندلس میں مسلم اقتدار کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے آخر کیتھولک چرچ اس پر مسلمانوں سے معافی کیوں نہیں مانگتا؟ پادری کا اس کے جواب میں یہ کہنا تھا کہ عیسائیوں نے یہ سب کچھ کیا ضرور تھا مگر چرچ بذات خود تو اس میں شریک نہ تھا۔ لہٰذا چرچ کا اس پر معافی مانگنا چہ معنی دارد؟ اس پر پروگرام کے میزبان سامی حداد نے سوال کیا: تو کیا نازیوں کے یہودیوں کے خلاف جرائم میں چرچ باقاعدہ شریک تھا جو یہودیوں سے ہولو کاسٹ کے حوالے سے معافی مانگی گئی؟ اس بات کا فادر شفیق ابو زید جو کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے سنٹر سیمیٹک سٹڈیز سے بھی منسلک ہیں کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
جبکہ واقعہ یہ ہے کہ صلیبی حملے محض عیسائی عوام یا امراءکا کام نہ تھا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے اور بیشتر انسائیکلو پیڈیا اس پر شاہد ہیں کہ صلیبی حملے کی صدا باقاعدہ طور پر کیتھولک پوپ اربن دوئم Blessed Urban II نے ہی فرانس میں کلیسا کے مجمع عام میں کھڑے ہو کر بلند کی تھی۔ اسی نے صلیبی لشکروں کو اپنی برکت عطا کی تھی۔اسی نے قسطنطینیہ میں ان لشکروں کے اکٹھا ہونے کی تاریخ طے کی تھی اور اسی نے اس 'Holy War' میں موت پانے والوں کو جنت کی خوشخبریاں دی تھیں۔ یہ سب باتیں کیتھولک مورخین کی اپنی بیان کردہ ہیں۔ اسی طرح اندلس کے مظالم میں کلیسا کی باقاعدہ شرکت اور اس کی Inquisition Courts سے مسلمانوں کیلئے صادر کی جانے والی سزائیں کسی سے مخفی نہیں۔
ہولو کوسٹ کے جرائم کے سلسلہ میں تو زیادہ سے زیادہ پوپ پییس دوازدھم Pius XII کو خاموشی کا طعنہ ہی دیا جا سکتا ہے یا پھر پوپ کی ہٹلر سے چند بار ملاقات کا۔ گو یہودی اس بات پر بھی بہت سیخ پا ہیں کہ پوپ جان پال نے تحقیق نگاروں کیلئے ویٹی کن کی ان تمام آرکائوز Archives تک رسائی نہیں ہونے دی جن سے مطلع ہونے کی صورت میں پوپ پییس دوازدہم کا یہودیوں پر ہونے والے مظالم میں اصل کردار سامنے آسکتا ہے۔ البتہ اس سارے معاملے میں کلیسا کا اگر کوئی رسمی کردار ہے بھی تو اس کو صلیبی حملوں اور اندلس کے مظالم میں کلیسا کے کردار کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ وہاں تو کلیسا کھل کھلا کر سامنے آیا تھا۔ بلکہ وہ تو صاف صاف کلیسا کی جنگ تھی۔ اِس کا اُس سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔
چنانچہ کلیسا کے یہودیوں سے معافی مانگنے کے اس واقعہ کے بعد، خصوصاً پاپائے روم کے ٢٠٠٠ءکے دورہء مصر کے بعد، الازہر کی کمیٹی برائے مکالمہء ادیان، جس کے سربراہ شیخ فوزی الزفزاف ہوتے ہیں، نے واقعتا اورباقاعدہ رسمی دستاویز بھیج کر ویٹی کن سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلمانوں سے بھی صلیبی حملوں پر معذرت کرے۔ ویٹی کن سے ٢٨ مارچ ٢٠٠٠ءکو الازہر کے اس مراسلہ کی تحریری رسید بھی دی گئی۔ البتہ اس کے مضمون پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ پانچ سال بغیر کسی جواب کے گزر جانے پر الازہر کی اس مجلس نے ٢٤ فروری ٢٠٠٥ءاپنی یہ فرمائش پھر سے ویٹی کن روانہ کی کہ وہ صلیبی جنگیں کھڑی کرنے پر مسلمانوں سے معافی طلب کرے۔
واضح رہے کہ پوپ مسلمانوں سمیت سب اقوام سے پرانی رنجشوں کو بھلا دینے اور پرانی زیادتیوں پر ان سے معافی مانگنے کی بات تو ایک عمومی انداز میں کر چکے ہیں۔ پوپ کے اس پیغام میں دنیا کے کمزوروں، بھوکوں، پیاسوں اور ستائے ہوئوں کو فرزندان کلیسا نے جب بھی نظر انداز کیا، اس پر بھی معافی کی درخواست کی گئی ہے۔ چنانچہ ایک عمومی معنی میں مسلمانوں کے ’قرض‘ سے بھی سمجھئے فراغت پا لی گئی ہے، مگر صلیبی حملوں پرمسلمانوں سے کبھی معذرت نہیں کی گئی۔ اور اندلس میں تو مسلمانوں کے ساتھ گویا کبھی کچھ ہوا ہی نہیں!
الازہر کی کمیٹی برائے مکالمہء ادیان کو دیکھئے ویٹی کن سے کب جواب ملتا ہے۔ یہودیوں نے جواب لے لیا ہے تو ضرور اس میں کوئی ایسی بات ہوگی جو یہود کے ساتھ خاص ہے اور جو کہ مسلمانوں میں نہیں .... یا یہ کہ تاحال نہیں!
طاقتور کے ساتھ ہر کوئی معاملہ کرتا ہے۔ یہ بات کہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ بھی اسی طرح معاملہ کریں، شاید قبل از وقت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’مسیح کا انکار کرنے والی قوم‘ کی بابت فرزندان کلیسا کو اپنا نقطہء نظر ’درست‘ کر لینے کی یہ تاکیدیں کلیسا کی دو ہزار سالہ تاریخ میں ایک بہت بڑی اور نہایت ہی قابل توجہ پیش رفت development ہے جس کے اصل روح رواں جان پال دوئم رہے۔ کلیسا کی تاریخ میں یہ ایک اتنی بڑی پیش رفت ہے کہ بعض لوگ جان پال دوئم کا موازنہ سینٹ پال سے کرنے لگے ہیں۔ یہ لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ جس طرح سینٹ پال نے عیسائیت کو ایک نیا رخ دیا تھا کیا جان پال دوئم بھی کلیسا کی تاریخ میں کوئی ایسی ہی شخصیت تو نہیں؟ خصوصاً جبکہ دونوں کے پس منظر میں بھی ایک گونہ مماثلت پائی جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔