بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ والصلوہ والسلام علی رسول اﷲ
اما بعد
تحریکوں کی جرح وتعدیل کا معاملہ
اس بار کے اداریہ میں ہم معاصر تحریکوں کی جرح وتعدیل کی بابت اپنے منہج پر کچھ روشنی ڈالیں گے۔مگر اس سے پہلے اپنے دو معزز قارئین کے سوال نقل کریں گے:
ایک قاری کا سوال:
ایقاظ کے تفصیلی مطالعہ، اس میں پیش کی جانے والی فکر اہلسنت سے مجموعی طور پر اتفاق اور اصولی طور پر اطمینان کے باوجود، بعض جزئیات ایک ذہنی خلش کا باعث بنتی ہیں۔ اس کی ایک مثال سید مودودی کے حوالہ سے حالیہ اداریہ کے مندرجات ہیں۔ آپ نے سید مودودی کی تحریک کو جامع ترین [ہماری مراد تھی چودھویں صدی ہجری (1883ءتا1980ءعیسوی) کے دوران برصغیر میں دستیاب دینی تحریکوں میں جامع ترین۔] (پچھلی صدی کی) اور سقوط خلافت عثمانیہ کے بعد مسلمانوں کی احیاءوایقاظ کا بنیادی پتھر قرار دیا ہے لیکن فکر وتحریک مودودی پر برصغیر کے مختلف طبقوں کے نقد ونظر کو نظر انداز کردیا ہے:
-I اہلحدیث علماءمولانا مودودی پر حجیت حدیث اور تاویل صفات باری تعالیٰ کے حوالہ سے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔
-II علمائے دیوبند ”خمینی مودودی بھائی بھائی“ کہتے ہوئے اپنا حال دل بیان کرتے ہیں (مولانا کی شیعہ سنی اتحاد کی پالیسی)۔
پھر یہ دونوں فریق ’تقلید‘ کے مسئلہ پر بھی اپنے اپنے انداز سے مودودی صاحب پر معترض ہیں۔
-III مولانا وحید الدین خان ’تعبیر کی غلطی‘ مولانا مودودی کے ہاں مقصد دین، الٰہ کامفہوم اور دین کی سیاسی تعبیر کے حوالہ سے (سید ابوالحسن علی ندوی بھی کم وبیش یہی بات کرتے ہیں)۔
-IV ڈاکٹر اسرار احمد مودودی صاحب کے جمہوریت کا حصہ بننے پر۔
-V جاوید احمد غامدی مودودی صاحب کو روایت پرستی کا طعنہ دیتے اور قرآن کو میزان وفرقان نہ بنانے پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
ایک اور قاری کا اعتراض:
آپ کی تحریروں سے میں یہ سمجھا ہوں کہ عقیدہ ہی بندگی کی بنیاد ہے اور یہ کہ دین کی ہر بات عقیدہ پر سہارا کرتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کا عقیدہ درست نہیں وہ درست راستے پرنہیں۔ اسلامی معاشرے کے قیام کی جانب بڑھنے کیلئے راستہ وہی ہے جو رسول اﷲ نے اپنایا۔ یعنی لوگوں کو دعوت دی جانا، ان کا عقیدہ درست کروانا، ان کی تربیت کرنا اور بتدریج قوت حاصل کرتے جانا تاآنکہ اس نقطہ پر پہنچ جانا جہاں کفار کو چیلنج کیا جا سکے اور اگر ضروری ہو تو ان سے لڑا بھی جا سکے۔ رسول اﷲ کو رسول ہوتے ہوئے اور بہترین کردار کے حامل لوگ میسر ہوتے ہوئے اس نقطہ تک پہنچنے کیلئے پندرہ سال لگے۔ چنانچہ یہ لازم نہیں کہ کوئی انسان اپنی زندگی زندگی نتائج حاصل کرے۔ چنانچہ اس راہ میں ہرگز کوئی ’شارٹ کٹ‘ نہیں۔ اس عمل میں کہیں ’مصالحت‘ نہیں۔ بصورت دیگر اس عمل کا وہی نتیجہ متوقع ہے جو کہ سید قطب[ غالباً آپ کی مراد ہے ’حسن البنا‘ کی اخوان۔ ’سید قطب‘ اخوان میں صرف مفکر جانے جاتے ہیں بلکہ بعض پہلوؤں سے قابل تنقید بھی۔]کی اخوان اور ابوالاعلی مودودی کی جماعت اسلامی کے ہاں برآمد ہوا۔ ہمیں معلوم ہے کہ جب رسول اﷲ کے ذہن میں ’مصالحت‘ کا خیال پیدا ہوا تو قرآن نے اس پر آپ کو کس طرح متنبہ کیا۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایقاظ کے جولائی ستمبر ٢٠٠٤ءکے شمارہ میں مفتی شامزئی کے بارہ میں ایک مضمون میرے لئے باعث حیرت تھا!
کیا اس بات کا کوئی جواز ہے کہ جزوی طور پر درست عقیدہ رکھنے والے لوگوں کے ساتھ ابتدائے تحریک میں ہی مصالحانہ انداز کیا جائے؟ اگر یہ بات درست ہے تو پھرمودودی صاحب نے شیعہ وغیرہ کی بابت اپنا موقف تبدیل کرکے آخر کونسی غلطی کی؟
ہماری آج کی گفتگو کا موضوع مودودی صاحب ہونگے اور نہ شامزئی صاحب۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ تحریکوں کی تقییم (ايويليويشن) اور جرح وتعدیل کی بابت ہی سب سے پہلے ہمیں اپنا منہج واضح کرنا چاہیے۔ شخصیات کو موضوع بحث بنانا اگر کسی وقت ضروری بھی ہو تو ایقاظ کی اپنی ترتیب اور ترجیحات کے لحاظ سے ابھی یہ بہرحال قبل از وقت ہے۔ لہٰذا ’شخصیات‘ کی بابت اگر یہاں ہم سیر حاصل بحث نہیں کر پاتے تو ہماری درخواست ہے کہ اس پر ہماری معذرت قبول فرمائی جائے۔
’تحریک‘ کی بابت آپ کا اپنا جو کوئی منہج ہے آپ کو ظاہر ہے کہ وہی اپنانا ہے اور ایک اسی سے سروکار رکھنا ہے۔ مگر اس دنیا میں یا اس امت میں رسول اﷲ اور صحابہ کی طرح اب آپ تنہا نہیں اور نہ ہی آپ کو یہاں ’صفر‘ سے آغاز کرنا ہے۔ بہت کچھ یہاں پہلے سے موجود ہے۔ یہ ایک ملی جلی صورت حال ہے اور اس میں آپ کو ’دیے ہوئے حالات‘ سے بہرحال معاملہ کرنا ہے۔ راستہ بلاشبہ آپ اپنا ہی اختیار کردہ چلیں گے مگر ’دوسروں‘ سے آپ تعامل بھی کریں گے اور بنائے اُمت کیلئے پہلے سے جو کام ہو رہا ہے اس میں کچھ ’جمع تفریق‘ بھی تجویز کریں گے اور ہر دور کے ائمہ سنت کی راہ پر چلتے ہوئے دستیاب حالات کو اُمت کے حق میں بہترین انداز میں استعمال کرنے کی بھی پوری کوشش کریں گے۔
یوں کہہ لیجئے تحریکی عمل کے دو پہلو ہیں: ایک وہ کام جسے آپ مثالی سمجھتے ہیں اور جس کو کہ آپ اور آپ کے ہم خیال اصحاب ہی بقدر استطاعت پروان چڑھا سکتے ہیں۔ اس پر آپ ضرور محنت کیجئے۔ دن رات ایک کر دیجئے۔ البتہ تحریکی عمل کا یہاں ایک دوسرا پہلو بھی ہے جو کہ اس اول الذکر امر سے متعارض نہیں۔ یہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ امت کے کچھ اجتماعی اہداف کو بروئے کار لانے کیلئے اور وقت کے کچھ چیلنجوں پر پورا اترنے کیلئے اُمت کے ان طبقوں کے ساتھ جو کہ صاف صاف شرک اور جاہلیت پرنہیں مل کر آگے بڑھنے کے معاملہ میں آپ ایک وسیع تر بنیاد بھی اختیار کریں۔ یعنی ایک خاص دائرے کے اندر آپ اپنے اختیار کردہ منہج کے مطابق ضرور اُمت کی تعمیر کیجئے (ہمارے اپنے مضامین کی ترکیز زیادہ تر تحریک کے اسی پہلو پر رہتی ہے) مگر ہر چیز کو اور اُمت کی ہر ضرورت کو اس عمل کے تکمیل پانے پر موقوف بھی مت ٹھہرائے بلکہ بیک وقت اس وسیع تر تصویر کو بھی سامنے رکھیے جو کہ اُمت کے کچھ دیگر طبقوں کی مساعی سے عبارت ہے۔
اس بنا پر، کسی تحریک کو کسی خاص پہلو سے سراہنا اور صرف اسی پہلو سے اس کو یہاں پائی جانے والی تحریکوں کے مابین ’تعاون‘ کی ممکنہ بنیاد قرار دینا اس بات کو مستلزم نہیں کہ آپ اس کے ہر پہلو سے متفق ہوں یا یہ کہ اس کو آپ اپنے خصوصی حلقے کیلئے بھی ایک ’مثالی کام‘ قرار دیں۔
دراصل اس گفتگو کا تعلق جس پر ہمیں یہ سوالات موصول ہوئے تحریکی عمل کے دوسرے پہلو سے تھا نہ کہ اول الذکر پہلو سے۔ اب آج کی گفتگو میں بھی اس کا یہی دوسرا پہلو ہی ہمارے پیش نظر رہے گا۔
بلاشبہ برصغیر کے مختلف دینی حلقے تیس اور چالیس کے عشرے کی تحریک اسلامی (ہمارے مضمون میں بطورخاص انہی دو ڈھائی عشروں کی بات کی گئی تھی) پر کئی ایک ملاحظات رکھتے ہیں۔ حتی کہ بعید نہیں تیس اور چالیس کے عشروں کی تحریک اسلامی پر تو خود آج کی تحریک اسلامی بھی کئی ایک ملاحظات رکھتی ہو! البتہ کسی تحریک کا ذکر خیر کرنے کیلئے شرط اگر یہ ہو کہ یہاں اہلسنت سے منسوب سب طبقے ہی اس کی تحسین پر متفق ہوں تو یہاں کونسی تحریک ہے کہ جس کے ذکر خیر کی پھر گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ ’دی ہوئی‘ تحریکوں میں سے کسی ایک کو نسبتاً جامع ترین ماننے میں کیا غلطی ہے؟ آخر ’اَصَحُّ شَیئٍ فِی البَاب‘ کا تعین کیسے کیا جائے؟ اور کیا خود ان قابل احترام طبقوں پر جن کا آپ نے حوالہ دیا کسی کا کوئی ملاحظہ نہیں؟
باوجود اس کے کہ سوال میں مذکورہ کئی ایک طبقوں کی بہ نسبت تیس اور چالیس کی تحریک اسلامی مذہب اہلسنت کے کہیں زیاہ قریب ہوگی پھر بھی اگر یہ دیکھنا ہو کہ برصغیر کی حالیہ تاریخ میں ان میں سے زیادہ سے زیادہ طبقے اپنی زندگی کے کسی نہ کسی عرصہ میں یہاں کی کسی تحریک سے عملاً منسلک یا ذہناً قریب رہے تو شاید اس معیار پر بھی سب سے زیادہ تیس اور چالیس کی تحریک اسلامی ہی پورا اترے گی!
جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے .... تو مفتی شامزئی ایسے عالم دین کو (جن کے ہاں بلاشبہ کئی ایک غلطیاں بھی پائی گئی ہوں گی) اور روافض کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دینا کہاں تک عدل کا تقاضا ہے؟ اور خود منہج اہلسنت ہی کی رو سے یہ کہاں تک درست ہے؟ اور آیا اصول اہلسنت میں غلطی یا انحراف کی درجہ بندی کا بھی کوئی تصور ہے یا پھر دین میں ہونے والی سب غلطیوں اور سب انحرافات سے ان کی جسامت اور ضخامت سے قطع نظر ایک ہی درجہ کا برتاؤ کیا جائے گا؟
یہاں ہمارے جواب میں اس موضوع پر جو طوالت آپ پائیں گے اس پر ہم معذرت خواہ ہیں مگر کچھ اصولی مباحث ہم پر واضح ہو جائیں تو ایسے کئی ایک مسائل کو ’مستقل بنیادوں‘ پر حل کر لینے میں امید ہے ہمیں خاصی مدد ملے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ صفات یا عقیدہ وغیرہ کے باب میں ان غلطیوں کی بابت، جو آپ کو زیر بحث شخصیات کے ہاں کہیں نظر آئی ہیں، یہ فرض کر لینا کہ ایسی غلطیاں اُمت کی تاریخ میں آج پہلی بار ہی کسی کے ہاں پائی گئی ہیں لہٰذا ان پر حکم لگانے کا کام بھی تاریخ میں پہلی بار آج ہمیں کو انجام دینا ہے .... ایک بہت ہی بڑی غلط فہمی ہے۔ پھر جبکہ مسئلہ شخصیات کی تقییم کا نہیں بلکہ تحریکوں کی تقییم کا ہو! اور اب منہج تقییم کے بیان میں ہم ذرا پیچھے جائیں گے....
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’اصول اہلسنت‘ ایک وسیع مضمون ہے
اصول اہلسنت اس اُمت پر خدا کا ایک بڑا احسان ہیں۔ یہ ایک طرف بے انتہا دقیق منہج ہے تو دوسری جانب بے انتہا جامع۔ پھر ایک جانب یہ ایک اعلیٰ ترین مثالیت کا داعی ہے تو دوسری جانب واقعیت کا ایک بہترین نمونہ۔ ایک طرف حق سے تمسک کے معاملہ پر کوئی مفاہمت نہیں تو دوسری جانب حالات سے تفاعل کرنے میں پیش قدمی کی زبردست گنجائش بلکہ تاکید۔ تیسری جانب لوگوں پر حکم لگانے کے معاملہ میں انتہا درجے کی معقولیت اور واقعیت پسندی۔ یہ منہج اصول پسندی اور حکمت عمل کا ایک بہترین مرقعہ ہے۔
کوئی منہج اگر دین یا دنیا کے کسی ایک ہی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اور کسی ایک خاص معاملہ میں ہی رہنمائی دیتا ہو تو اس کو سمجھنا یا اس پر عمل پیرا ہونا اور اس کو زندگی میں لے کر چلنا حقیقت یہ ہے کہ کچھ خاص مشکل نہیں۔ البتہ ایک ایسا منہج جو بے انتہا جامع ہو اور وہ فکر وعمل کے ہر پہلو پر محیط ہو اور ہر قسم کی صورتحال میں اس کے اندر رہنمائی پائی جاتی ہو تو اس کا فہم اور تطبیق ایک محنت طلب کام ہے اور اس کو پورے کا پورا لے کر چلنا بہرحال ایک معنی رکھتا ہے۔ بسا اوقات تو یہ ہوتا ہے کہ ایسے منہج کے مختلف پہلو ایک دوسرے کے ہی ’متعارض‘ نظر آتے ہیں۔ اور لوگ اس پر آپ کو بڑی ہی آسانی سے تضاد بیانی کا متہم ٹھہرا دیتے ہیں!
حقیقت یہ ہے کہ جتنی وسعت اور جامعیت کسی منہج کے اندر پائی جائے گی اس کو دیکھنے کیلئے اتنا ہی وسیع افق نگاہ کو درکار ہوگا۔ نگاہ کا افق تنگ ہوا نہیں اور آپ کو اس میں تعارض اور تضاد اور تناقض نظر آیا نہیں۔ ’اصول اہلسنت‘ کے ساتھ بھی اس کے مخالفوں سے پہلے اس کے کئی خیر خواہ کچھ اسی انداز کی زیادتی کر بیٹھتے ہیں۔
کسی چیز کو جزوی طور پر ہی دیکھ پانا اس کی مجموعی تصویر پر یا اس کے کچھ نادیدہ حصوں پر اعتراض جڑ دینے کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ ہمارے یہاں بہت سے طبقے جو تاریخی طور پر اہلسنت ہی کے وجود کا تسلسل ہیں مگر اس وقت اصول اہلسنت کے مختلف اجزاءکو بڑی حد تک الگ الگ لے کر چل رہے ہیں وہ بھی عموماً اسی مشکل کا شکار ہیں۔ ایک ہی چیز کے وہ اجزا جو آپ کے پاس نہیں ضرور آپ کو وہ اوپرے لگیں گے اور اس چیز کی تعبیر میں ایک ’انحراف‘ نظر آئیں گے۔ دوسرا شخص خود آپ کی بابت بھی عین یہی سوچ رہا ہوگا!
مثلاً آپ دیکھتے ہیں کچھ لوگ جن کو تحریک اور عمل اور جہاد کی کچھ توفیق ہوتی ہے وہ اہمیت توحید کے موضوع پر اور شناعت شرک کے معاملہ میں شدت اپنائی جانے پر آپ کو ہکا بکا ہو کر دیکھیں گے۔ گویا شرک کے معاملہ میں آدمی کا ’لال پیلا‘ ہو جانا انبیا کا دین نہیں بلکہ خوامخواہ کا ’غلو‘ ہے اور اُمت کے اندر ’پھوٹ ڈالنے‘ کا سبب بھی!
دوسری جانب آپ دیکھتے ہیں کہ ہمارے کچھ طبقے عقیدہ کے مضمون میں بہت پختہ اور ٹھوس بنیاد رکھتے ہیں اور اس کی دعوت پر بھی بہت محنت کرتے ہیں مگر اُمت کے ساتھ اور اُمت کے مختلف طبقوں کے ساتھ کیونکر تعامل اختیار کرنا ہے، اس مسئلہ کی بابت اہلسنت کا جو ایک پورا منہج ہے اس کو سن کر یا دیکھ کر حیرت میں آجاتے ہیں بلکہ اس کو بڑی حد تک ’عقیدہ کی دعوت‘ سے متعارض بھی جانتے ہیں!
’توازن‘ رکھنا ایک مشکل ترین کام ہے اور ایک معاملہ کو پورے کا پورا نگاہ میں لے آنا بھی ایک ہمت طلب کام ہے۔ ’اصول اہلسنت‘ سے التزام کی بابت یہ دونوں باتیں ہمیں شدید طور پر درکار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلسنت عقیدہ ہی نہیں اہلسنت منہج بھی
کچھ خاص تاریخی اسباب ایسے ہوئے ہیں کہ ’اہلسنت‘ کے حوالہ سے لوگ زیادہ تر ’عقیدہ‘ کی اصطلاح سے ہی مانوس ہیں۔ چنانچہ جب آپ کہتے ہیں ’اصول اہلسنت‘ تو ہمارے یہاں کے بعض دینی حلقوں میں اس سے جو فوری طور پر ذہن میں آتا ہے وہ ہوتا ہے ’عقیدہ اہلسنت‘۔
حقیقت یہ ہے کہ جس بات کا ہم ’اصول سلف‘ یا ’اصول اہلسنت‘ کے نام سے ذکر کرتے ہیں اس میں سرفہرست جو چیز آتی ہے وہ واقعی ’عقیدہء سلف‘ یا ’عقیدہء اہلسنت‘ ہے۔ لہٰذا عقیدہ کی اصول اہلسنت میں بے انتہا اہمیت ہے اور اس باب میں انحراف آدمی کے ہلاکت میں پڑ جانے کا سب سے بڑا سبب ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ درست نہیں کہ ’اصول سلف‘ کا دائرہ محض ’عقیدہ‘ تک محدود رہے۔ ’اصول اہلسنت‘ کے ’عقیدہ‘ کے سوا اور بھی بہت شعبے ہیں اور عقیدہ کی دعوت کو لے کر چلتے ہوئے ان سبھی شعبوں کو ہی لے کر چلنا ضروری ہے۔
اصول اہلسنت میں اہلسنت کا منہجِ تلقی بھی آتا ہے۔ منہج ’اجتماع‘ و ’تالیف اُمت‘ بھی۔ ’فرضیتِ جماعت‘، ’ولاءوبرائ‘ اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی بابت بھی اہلسنت کا ایک خاص منہج ہے۔ ’فقہ اختلاف‘ (یعنی ’اختلاف‘ کے آداب اور احکام اور حدود) کی بابت بھی ا صول اہلسنت میں بے انتہا واضح رہنمائی ملتی ہے۔ پھر کسی معاملہ میں حق کی خلاف ورزی ہو جانے پر لوگوں کی درجہ بندی کیونکر ہو اور ہر درجہ کی خلاف ورزی سے تعامل کیونکر ہو، یہ بھی اصول اہلسنت کا اہم حصہ ہے۔ پھر اہل بدعات کی درجہ بندی اور ان سے برتاؤ کے ضوابط بھی ان اصول میں بہت واضح ہیں۔ تکفیر یا تفسیق یا تبدیع کے ضوابط بھی اس منہج کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اخلاق، جہاد، تربیت، تزکیہء نفوس سب کچھ اصول اہلسنت کا حصہ ہے اور ان سب مہمات مسائل کی بابت اصول اہلسنت میں ایک خاص انداز کی رہنمائی ملتی ہے۔ [اس سلسلہ میں ملاحظہ ہو ہماری ترجمہ شدہ کتاب: ’اہلسنت فکر وتحریک فتاوی ابن تیمیہ کی روشنی میں‘۔ گو یہ کتاب شدید مختصر ہونے کے باعث اور اسلوب میں ذرا ایک غموض رکھنے کے باعث قاری کی تشفی نہیں کرتی اور اس موضوع پر اُردو میں زیادہ آسان اور عام فہم انداز میں لکھنے کی ضرورت باقی ہے۔ پھر بھی اس کتاب کا پڑھنا اس موضوع پر کسی نہ کسی حد تک مفید ہوگا۔]
یہ سب ’اصول‘ ہی دینی عمل میں ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصول دین کا ’فہم‘ ہی نہیں بلکہ ’تطبیق‘ بھی ’مصدریت‘ کی متقاضی ہے
دین بلاشبہ کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ ہے۔ مگر اس کے فہم کے ہزاروں انداز اور اپروچ ہو سکتے ہیں۔ یہاں، ہمارے لئے فہم سلف معیار ہے۔ اس فہم پر آجانے کا پابند کرکے ہمیں خوامخواہ کے بحث وجدال اور تضییع اوقات سے بچا لیا گیا ہے اور ہمارے وقت اور محنت کا بہتر استعمال ہونے کا انتظام کردیا گیا ہے۔
پھر کتاب اﷲ اور سنت رسول اﷲ کے فہم کے علاوہ اس کی ’تطبیق‘ کا مسئلہ اپنی جگہ اور بھی اہم ہے۔ زمانہء نبوت میں مسلم جماعت اور مسلم معاشرے کو کچھ خاص حالات کا سامنا تھا۔ مگر نبوت کے مصدر سے ہمیں جو نصوص شریعت حاصل ہوئی ہیں وہ ابدی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اور ہر قسم کے حالات کیلئے ہیں۔ اب اگر مسلم جماعت اور مسلم معاشرے کے حالات زمانہء نبوت کے حالات سے کسی وقت مختلف ہوں تو شریعت کی ان ابدی نصوص کی تطبیق کیونکر ہوگی؟ یہ سوال ایک لحاظ سے ’فہم نصوص‘ سے بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے اور اس معاملہ میں سلف (صحابہ، تابعین واتباع تابعین) کا منہج اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں پر آدمی کے پھسلنے کا امکان کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر جس وقت اُمت کے اندر شریعت کی پابندی کا گراف نسبتاً نیچے آیا اور ایمان کی وہ کیفیت باقی نہ رہی جو کہ زمانہ نبوت میں یا خلفائے راشدین کے ابتدائی برسوں میں ہوا کرتی تھی اور یوں معاشرے میں بعض کبائر کا جس سطح پر ارتکاب ہونے لگا تھا اس کی نظیر اُمت کے قیام اور توسیع کے ان ابتدائی سالوں میں بہرحال نہ ملتی تھی .... تو اس نئے ظاہرہ
(فنامنا) کے ساتھ پیش آنے کے معاملہ میں اُمت کے اندر دو انتہاؤں نے وجود پایا۔ ایک طرف خوارج کا طریق عمل تھا جو کبائر کے مرتکب کو دین سے خارج سمجھتے تھے اور دوسری طرف مرجئہ کا، جو ہر کلمہ پڑھنے والے کو خیر خیریت پہ جانتے تھے۔ یہ دونوں گمراہیاں تھیں اور حق کا راستہ وہ تھا جس پر دور آخر کے صحابہ پائے گئے اور پھر صحابہ کا اعتماد اور تزکیہ پانے والے ائمہء تابعین اور پھر ان کا اعتماد اور تزکیہ پانے والے ائمہء تبع تابعین۔ انہی کو ’جماعت‘ بھی کہا گیا اور انہی کو ’سنت‘ راستے کا تسلسل بھی مانا گیا۔
یہ محض ایک مثال ہے ’کتاب وسنت‘ کی اس ’تطبیق‘ کی جو زمانہء نبوت سے مختلف انداز کے حالات میں آپ کو درکار ہوتی ہے اور جو کہ اصول دین کا محض ’فہم‘ لے لینے کی نسبت ایک مختلف چیز ہے۔
پس اصول اہلسنت کا لب لباب ہمیں دو چیزوں میں نظر آتا ہے۔ نصوص شریعت کا صحیح فہم اور پھر کچھ دیئے گئے حالات given circumstances میں ان کی صحیح تطبیق۔ یہ دونوں میدان مزلہ الاقدام ہیں۔ نہ محض ذہانت یہاں کام دیتی ہے اورنہ محض اخلاص اور نہ یہ دونوں۔ بلکہ بعید نہیں یہ آپ کو کہیں سے کہیں لے جائیں اور آپ اپنے تئیں ہنوز کتاب وسنت کے متبع ہوں بلکہ ’دوسرے‘ آپ کو دین حق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھی نظر آئیں .... جب تک کہ آپ اس بنیاد پر نہیں آجاتے جو کہ دین کے فہم اور تطبیق کی بابت ناگزیر ہے اور جس کو ’اصول سلف‘ یا ’اصول اہلسنت‘ کہا جاتا ہے۔
حتی کہ اسی مثال کو لے لیجئے۔ خوارج اور مرجئہ کا مسئلہ نہ تو ذہانت کے نقص میں مضمر تھا اور اور نہ اخلاص کی کمی میں۔ صحابہ اور ائمہء تابعین واتباع تابعین کی ان سے شکایت کچھ اس باب میں نہ تھی۔ ان کا مسئلہ ’مصدریت‘ کا تھا۔ یہ اس راستے سے نصوص شریعت کے فہم اور تطبیق کی جانب نہ آتے تھے جو کہ اس کیلئے ناگزیر تھا اور جس پر کہ ’جماعت‘ پائی گئی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ ’انسانی ذہن‘ ایک بہت سریع الحرکت مخلوق ہے۔ اس کی سرعت کی پیمائش شاید روشنی کی رفتار سے بھی نہ ہو سکتی ہو۔ ایک ایسی تیز رفتار چیز کو صحیح سمت دے رکھنا اس کو کسی متعین ہدف تک پہنچانے کیلئے ناگزیر ہوتا ہے۔ بصورت دیگر ’انتشار‘ اور ’حادثات‘ کے سوا اس کا کوئی انجام نہیں ہوتا۔ ’قوت‘ اور ’حرکت‘ خود اپنے آپ میں ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوتیں کم از کم مثبت معنی میں ہرگز نتیجہ خیز نہیں ہوتیں جب تک کہ ان کو ایک مفید اور محفوظ جہت نہ دے دی جائے بلکہ ان کو ایک خاص متعین سمت میں مرکوز نہ کر دیا جائے۔ شریعت اور ’اصول سنت‘ انسانی نشاط کو دراصل اسی جہت دینے کا ہی دوسرا نام ہے نہ کہ اس کو محدود یا مقید کر دینے کا۔
یہاں اس مضمون میں ہمارا موضوع اصولِ دین کا ’فہم‘ نہیں بلکہ ’تطبیق‘ ہے جس کا نازک پن، جیسا کہ ہم نے کہا، ’فہم‘ سے بڑھ کر ہے۔ لہٰذا اس کی بابت زیادہ محتاط رہنا اور ’مصدریت‘ کا التزام کرنا کہیں بڑھ کر ضروری ہو جاتا ہے۔
دین میں پائی جانے والی نصوص کی تطبیق میں اگر ایک ہی یکسانیت کا پایا جانا مطلوب ہوتا تو لازم تھا کہ اس دین کو نازل کرنے والا زمانے کے حالات کو ہمیشہ ہی ایک سا رکھتا اور ان میں تغیر وتبدل کا ہرگز کوئی گزر نہ ہونے دیتا۔ مگر زمانہ خدا کے حکم سے روز نئی کروٹ لیتا ہے اور حالات آئے روز تبدیل ہوتے ہیں جبکہ شریعت کو قیامت تک وہی رہنا ہے جو یہ اپنے نزول کے وقت تھی۔ ’اصول اہلسنت‘ اب وہ چیز ہے جو ہر دم بدلتے زمانے کا اس داعی شریعت کے ساتھ عین وہ اتصال کرا دے جو کہ مقاصد شریعت کے اپنے ہی رو سے مطلوب ہو .... اور جو کہ اس اُمت کے ہر دور کو ’تسلسل‘ کی ایک ہی لڑی میں پرو دے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دور سلف سے ہی اسلامی عقیدہ کے اصول ومبادی کی تطبیق ایک خاص جہت اختیار کر گئی اور بعد کی نسلوں میں، بے حد انتشار آجانے کے باوجود، ایک خاص سطح پر اس کا ایک تسلسل بھی برقرار رہا۔ البتہ یہ ایک جامع اور محیط جہت تھی۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ اس میں آپ کو جو ایک تنوع نظر آتا ہے وہ ایک فطری انسانی واقعہ ہے جس کا سبب اس کی ’اساس‘ میں تبدیلی کا آجانا نہیں بلکہ اپنے دور اور حالات کے ساتھ تفاعل کرنے میں ’تطبیق‘ کا فرق ہے جو کہ بظاہر لوگوں کو عجیب نظر آتا ہے۔
’اجتہاد‘ کی ضرورت بھی شریعت میں اسی باب سے ہے۔ اس کا لب لباب بھی یہی ہے یعنی شریعت کے دائمی اصولوں کی کچھ ’نئے حالات‘ پر تطبیق کی جانا۔
’حالات‘ بدلنے کے ساتھ ’فتوی‘ کے بدل جانے کا معروف قاعدہ بھی فقہاءکے ہاں اسی باب سے ہے۔
البتہ ’اجتہاد‘ اور ’فتوی‘ فروعی مسائل کا موضوع ہیں۔ یہاں ہمارا موضوع اصول دین ہے۔ اس باب میں سلف کے وہ مواقف جو انہوں نے اپنے اپنے دور کے فکری رحجانات کی بابت اختیار کئے وہ ’اجتہادی فتاوی‘ نہیں بلکہ وہ عین اصول دین کی ہی تطبیق اور ترجمانی ہے اور ان سے متصادم مواقف ’اجتہادی اخطائ‘ نہیں بلکہ بدعات محدثات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم خوارج، نواصب، معتزلہ، مرجئہ، روافض، قدریہ، جہمیہ، باطنیہ، حلول واتحاد وغیرہ کے معتقد صوفیا، اولیاءپرست طوائف اور پھر منکرین سنت، نیچر پرست، انسان پرست اور سیکولرسٹ طوائف وغیرہ کو، ان کے دعوائے اسلام کے باوجود صاف گمراہی پر مانتے ہیں اور ان کی راہ کو بین ہلاکت کی راہ جانتے ہیں .... باوجود اس کے کہ بدعت اور گمراہی میں ان میں سے ہر گروہ اور ہر شخص کی اپنی اپنی درجہ بندی ہو سکتی ہے اور کسی شخص کا، گمراہی کا شکار ہو جانے کی بابت، کوئی عذر بھی ہو سکتا ہے البتہ ایک مجموعی معنی میں ہم ان میں سے ہر طائفہ کو حالت ’شقاق‘ [حوالہ ہے ان دو آیات میں آنے والے لفظ ’شقاق‘ کی جانب:
فان آمنوا بمثل ما امنتم بہ فقداھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق (البقرہ: ١٣٧)
”اگر وہ تم (صحابہ) جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منہ موڑیں تو وہ (حالت شقاق) صریح مخالفت میں ہیں“۔
ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الھدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولیٰ ونصلہ جھنم وساءت مصیرا (النساء: ١١٥)
”جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد بھی رسول کا خلاف (شقاق) کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے تو ہم اس کو اسی طرف چلا دیں گے جدھر وہ خود پھر گیا، اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے“۔] پر مانتے ہیں .... باوجود اس کے کہ ان میں سے ہر طائفہ نصوص دین کی اپنے اپنے انداز سے ایک تفسیر بھی کرتا ہے اور باوجود اس بات کے کہ ان میں کے کسی شخص کے ہاں ’ذہانت‘ اور ’اخلاص‘ بھی بدرجہء اتم پائے جا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’تسلسل‘ فرقہء ناجیہ کا ایک اہم ترین وصف ہے
چنانچہ اصول دین کے کسی مسلمہ کو کسی دور یا کسی صورت حال یا کسی شخص یا کسی تحریک پر ’لاگو‘ کرنا اُصول دین کے اس مسلمہ کو محض ’سمجھ لینے‘ سے بڑھ کر کچھ چیز ہے۔ اصول دین کبھی نہیں بدلتے اور سلف سے ان کا جو فہم لیا جائے گا وہ بھی اپنی جگہ ثابت ہے۔ البتہ کسی صورتحال پر ان کی تطبیق ایک ایسی چیز ہے جو ائمہ سنت سے بطور خاص سمجھی اور سیکھی جانا ہے .... سب سے بڑھ کر اس باب میںجو چیز اہم ہے وہ ’تسلسل‘ کا لزوم ہے۔
ایک مسئلہ جب پیدا ہوا اُمت میں خدا نے اسی وقت ایسے لوگ کھڑے کر دیئے جو اس کی بابت حق اور باطل کا فرق واضح کریں اور اُمت کو عین اس بات کی نشاندہی کرنے دیں جو اس معاملہ کی بابت سابقون الاولون کے اتفاق کردہ اصولوں اور بنیادوں کا واقعی تقاضا ہو۔ سلف (قرون ثلاثہ) کا کوئی دور ہو تو اس میں ہمیں وہ ’جماعت‘ ’سواد اعظم‘ کی صورت میں میسر ہوگی جو اپنے دور کے سب فکری رحجانات کا خالص حق کی بنیاد پر محاکمہ کرے۔ سلف کے بعد کا دور ہوگا تو اس میں ہمیں ’طائفہء منصورہ‘ کی صورت میں منہج سلف کے وہ ترجمان میسر ہوں گے جو اپنے دور کے فکری وسماجی رحجانات کو حق کی اس میزان میں تول کر عین وہ کام کریں گے جو اصول سلف کا تقاضا ہو۔
چنانچہ یہ مفروضہ حقیقت سے بعید تر ہے کہ ایک مسئلہ پیش تو آچکا ہو کئی صدیاں پیشتر مگر اس کا شرعی حل آج ہی کچھ لوگوں کو دریافت ہو۔ ’انقطاع‘ اور ’عدم تسلسل‘ سے ہماری یہی مراد ہے۔
لہٰذا بہتر یہ ہوگا کہ آج آپ کو جو مسائل پیش آئیں ان کے نظائر precedents آپ اپنے سے پہلے ادوار میں تلاش کریں اور دیکھیں کہ ائمہء سنت نے گزشتہ ادوار میں ان کی بابت کیا موقف اختیار کئے رکھا اور آیا ان کے مابین اس کی بابت کوئی اختلاف پایا گیا (تاکہ اس موضوع پر ہم ان کے اقوال میں سے راجح تر قول اختیار کریں) یا پھر اس پر ان میں کوئی اختلاف نہیں پایا گیا تاکہ ہم ان کے اسی متفقہ قول کو ہی اپنے موقف کی بنیاد بنائیں۔
اس لحاظ سے ہمارے پاس صرف وہ مسائل بچیں گے جن کے نظائر ہمیں پہلے ادوار میں ہرگز نہ ملیں۔ یہ مسائل اگر اصول دین سے متعلق ہوں تو اس کی بابت ہم اپنے دور کے ان اہل علم سے، جو اصول سلف کے ترجمان ہوں، راہنمائی لیں گے اور اس پر پھر وہ شدت بھی اختیار کریں گے جو کہ اصول دین کا تقاضا ہو۔ اور اگر یہ مسائل فروع دین سے متعلق ہوں تو ان میں اپنے دور کے فقہا سے راہنمائی لیں گے اور ان میں جس اختلاف آراءکی گنجائش اور جس تسامح اور وسعت نظر کی ضرورت ہو اس کا التزام کریں گے۔
البتہ یہ طے ہے کہ اس کا دائرہ ان مسائل تک رہے گا جن کے نظائر ہمیں اُمت کے پہلے ادوار میں نہ ملیں۔ رہے وہ امور جن کے نظائر ہمیں پہلوں کے ہاں ملیں تو اُن کی بابت ہمیں پچھلے ادوار ہی میں جانا ہوگا۔
یہ ’تسلسل‘ اصول اہلسنت کی ایک زبردست خاصیت ہے اور یہ اس اُمت میں صرف اہلسنت کو ہی حاصل ہے۔ باقی سب افکار تاریخ میں تھوڑا پیچھے جا کر کہیں روپوش ہو جاتے ہیں۔ یوں وہ ’انقطاع‘ کی ایک بین دلیل ہیں۔
ایک ایسی دعوت جو اپنے فکر وفہم کی بابت اُمت کی تاریخ میں بہت پیچھے تک نہ جا سکتی ہو .... ایک ایسا مسئلہ جس کی تاسیس کرنے والوں کے اور ’کتاب وسنت کے مابین صدیوں کا انقطاع ہو .... ان کے اور زمانہء نبوت کے مابین تاریخی طور پر ایک تسلسل مفقود ہو .... ایسی دعوت کا برحق ہونا یا ایسے مسئلہ کا قابل اعتماد ہونا تو خیر حقیقت سے بہت ہی بعید ہے ایسی دعوت تو اس دین اور اس اُمت کے مزاج سے ہی ناواقف ہے۔ حق پر قائم رہنے والوں کا اس اُمت میں ایک تسلسل کے ساتھ پایا جانا حدیث کی نص سے واضح طور پر ثابت ہے۔ ”لاتزال“ کے الفاظ اس پر صریح دلیل ہیں:
عن ثوبان، قال: قال رسول اﷲ : ”لا تزال طائفہ من امتی ظاہرین علی الحق، لا یضرھم من خزلھم، حتی یاتی امر اﷲ وھم کذلک“ (مسلم)
”ثوبان سے روایت ہے، کہا: فرمایا رسول اﷲ نے: ”میری اُمت میں کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر ہوتے ہوئے ظاہر (فتحیاب) رہے گا۔ ان کی نصرت سے دستکش رہنے والے ان کا کچھ نہ بگاڑ پائیں گے۔ تاآنکہ اﷲ کا حکم (قیامت) آجائے جبکہ وہ اپنی اسی حالت پر ہوں گے“۔
’اصول دین‘ کی بابت اس اُمت میں ’بعد والوں‘ کا ’پہلے والوں‘ کے پیچھے آنا اور ان کے پیچھے ہی کھڑا ہونا اس اُمت کی تاریخ کا ایک ثابت اور معلوم واقعہ ہے۔ اور اس بات نے اس دین کو اور اس اُمت کو بے پناہ حسن بخشا ہے۔ ’راہ سنت‘ کی اس خاصیت کی بدولت یہاں نومولود افکار اور نوزائدہ دعوتیں صاف پہچان لی جاتی ہیں۔ بے شک ان کو کسی دور میں کتنی ہی پذیرائی کیوں نہ حاصل رہی ہو۔ ان کا معاملہ صرف اسی شخص پر مخفی رہتا ہے جس کو اُمت کے اس وصف سے ہرگز کوئی تعارف نہیں۔
چنانچہ اہل سنت کی تاریخ کا یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ ’اصول دین‘ کی بابت بعد والوں نے پہلے والوں پر کبھی ’استدراک‘ نہیں کیا۔ یعنی پہلے والوں کی کبھی ’غلطیاں‘ نہیں پکڑیں۔ ان کی چنائی کی ہوئی کوئی اینٹ کبھی نہیں اکھاڑی۔ جہاں پہلوں نے کام کو چھوڑا عین وہیں سے کام کو آگے بڑھایا۔ پہلوں کی جڑی ہوئی اینٹوں کے ہی عین اوپر نئی اینٹیں جڑی گئیں۔ یہ اس دین کا اعجاز ہے اور اس اُمت کا ایک امتیاز۔ یہ عمارت ہے ہی ایسی جس میں ’توڑ پھوڑ‘ کی ہرگز کوئی گنجائش نہیں۔ اس اُمت کے ایک طائفہ کے ہمیشہ اور تسلسل کے ساتھ حق پر رہنے کی ضمانت خود شریعت نے دی ہے۔ شریعت کی یہ ضمانت اگر درست ہے، اور یقیناً درست ہے، تو پھر یہ ممکن نہیں کہ اس کی ’بنتی‘ کو آگے بڑھانے کیلئے اس کے پچھلے کام کو ’ادھیڑنا‘ پڑے۔ یہ راستہ مسلسل آگے بڑھتا ہے۔ اس عمارت کی ہمیشہ توسیع ہو سکتی ہے، ترمیم نہیں۔
بعد والوں کا پہلے والوں کیلئے دُعائے خیر کرنے میں ایک تسلسل کا ایجاءgesture بھی برابر پایا جاتا ہے اور اس تسلسل کو قیامت تک باقی رہنا ہے:
والذین جاؤوا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلاً للذین آمنوا ربنا انک رؤوف رحیم (الحشر: ١٠)
”اور (ان کیلئے) جو ان اگلوں کے بعد آئیں، جو کہیں گے: اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے ان سب بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں، اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کیلئے کوئی بغض نہ رکھ۔ اے ہمارے رب تو بڑا مہربان اور رحیم ہے“۔
اصول دین کے معاملہ میں پس ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ نے اپنے دور کے فکری رحجانات کا جس انداز سے محاکمہ کیا قرن تابعین نے اس کو من وعن لیا اور اسی کو بنیاد بنا کر آگے پھر اپنے دور کے فکری رحجانات کا محاسبہ کیا۔ اسی کو بنیاد بنا کر قرن ثالث نے پھر اپنے دور کا جائزہ ومحاسبہ کیا۔ کسی بدعت یا بدعتی فرقے کی بابت جو موقف ایک دور کے اہلسنت وجماعت نے اختیار کرلیا بعد کے اہلسنت وجماعت نے ہرگز اس میں کوئی ترمیم یا تبدیلی نہ کی حتی کہ اس کی ضرورت بھی کبھی محسوس نہ کی۔ بلکہ پورے وثوق اور اعتماد سے اسی کی دعوت دی اور خود اپنے دور کے فکری رحجانات کی بابت بھی اس کے اندر نظائر precedents تلاش کئے۔ پہلی کوئی چیز تبدیل نہ ہوئی البتہ آگے کیلئے برابر توسیع ہوتی رہی۔ پھر بعد میں بھی نسل در نسل یہ سلسلہ قائم رہا۔ اس میں نیا کچھ نظر آتا ہے تو وہ اتنا ہی جتنا کہ ایک نئے دور کے خود اپنے ہی رحجانات کا پہلے دور کے رحجانات کی نسبت فرق پایا جائے .... یعنی کہ تطبیق کا فرق۔ ورنہ شروع سے لے کر آخر تک یہ ایک ہی حقیقت کا عکس جلی ہے اور وہ حقیقت خدا کی ابدی وحی ہے اور اس کا ایک مستند ترین فہم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ اب قاعدہ ہمارے ہاں یہ ٹھہرا کہ ہدایت یا گمراہی سے متعلق کوئی سوال (جو کہ ظاہر ہے اصول دین ہی سے متعلق ہو سکتا ہے) اُمت کی تاریخ میں اگر آج پہلی بار کھڑا نہیں ہوا تو اس کا جو اب بھی ’آج‘ تجویز نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کیلئے پیچھے جایا جائے گا اور دیکھا یہ جائے گا کہ پہلوں کے ہاں ایسے مسئلہ کی بابت کیا موقف اپنایا گیا۔
اس قاعدہ کی ہم یہاں محض دو مثالیں ذکر کریں گے اور پھر اپنے اصل موضوع کی جانب رخ کریں گے۔ یہ دونوں مثالیں ’تطبیق‘ سے متعلق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی مثال:
برصغیر میں رجوع الی الکتاب والسنہ کی تحریک پہلے پہل اٹھی تو یہ ایک علمی تحریک تھی نہ کہ ’عوامی محاذ آرائی‘۔ علوم قرآن اور علوم حدیث پر بہترین تصنیفات پیش کرنے والے کبار اہل علم اس دعوت کی پشت پر تھے۔ یہ بات ازخود یہ واضح کرنے کیلئے کافی ہے کہ اس عمل کو یہاں کس پائے کے لوگ حاصل تھے۔ محققین علمائے اہلحدیث واحناف کے علمی مناقشے اور تصنیفی خدمات کتاب وسنت کے ان علوم کے نشر وتالیف میں خوب مددگار رہے۔ یوں یہ تحریک براہ راست اور بالواسطہ دونوں طرح اس علمی انقلاب کا سبب بنی جو کہ پچھلی دو تین صدیوں کے دوران برصغیر کے اطراف واکناف میں روایتی شرعی علوم کی ترویج واشاعت، مدارس کی بہتات اور تصنیف وتالیف کی کثرت کی صورت میں ہمیں نظر آتا ہے۔
’اہل حدیث‘ محدثین کی ایک کثیر تعداد کا مذہب رہا ہے۔ اس لحاظ سے یہ اُمت کا ایک معتبر مذہب ہے۔ دوسری جانب مذہب احناف بھی تاریخی طور پر امت کا ایک معتبر فقہی مذہب رہا ہے۔ ان دونوں کے فقہی ورثہ میں صدیوں سے اُمت کے معروف محدثین اور فقہاءکی علمی محنت وکاوش شامل رہی ہے۔ البتہ ایک جمود جو برصغیر کے اطراف واکناف میں چند صدیوں سے چھایا چلا آرہا تھا اس کے ٹوٹنے میں ان علمی کارناموں کو ایک بڑا دخل حاصل ہے۔ چنانچہ جب تک یہ موضوعات علمی حلقوں میں گردش کرتے رہے تب تک یہ عمل بے حد صحت مند تھا .... یہاں تک ہمیں اس کے اندر ہرگز کوئی حرج کی بات نظر نہیں آتی۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ کتاب وسنت کی جانب رجوع کے اس عمل کی عمومی ترکیز اصول دین کی نسبت فروع دین پر ہی زیادہ رہی اور فقہی ابواب ہی یہاں زیادہ تر اہل علم کے زیربحث آئے اور موضوع تالیف بنتے رہے۔
البتہ پچھلے کوئی پچاس سال سے اس عمل کی ایک اور ہی جہت سامنے آنے لگی۔ اس روش کا لب لباب کچھ یوں بنتا ہے کہ ’مذاہب اربعہ‘ سرے سے غلط ہیں اور یہ کہ کتاب وسنت پر آنے کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ فقہی طور پر آدمی مذاہب اربعہ میں سے اگرکسی مذہب کا قائل ہے تو وہ اپنے اس مذہب سے باقاعدہ ’تائب‘ ہو!
اب چونکہ ہمارے برصغیر میں مذاہب اربعہ میں سے ایک حنفی مذہب ہی عموماً پایا جاتا ہے (ہندوستان کے جنوبی ساحلی علاقوں کو چھوڑ کر جہاں اب بھی شافعی مذہب پایا جاتا ہے) لہٰذا لوگوں کو ’حنفیت‘ سے تائب کرانے کا مظاہرہ پچھلے پانچ سات عشروں میں یہاں عام دیکھا گیا۔ رجوع الی الکتاب والسنہ کی گویا اب یہی ایک صورت رہ گئی ہے!
یہاں تک کہ ’اہلحدیث مذہب‘ سے ’تائب‘ کرانے کی بھی کچھ تحریکیں پھر یہاں وقفے وقفے سے منظر عام پر آنے لگیں!
سوال وہی ایک ہے: حنفی یا شافعی یا مالکی وغیرہ مذاہب اُمت میں کیا آج ہی جا کر پیدا ہوئے ہیں کہ اس کا فیصلہ بس ہمیں ہی کرنا ہے یا پھر اس پر کوئی دس بارہ صدیاں اس اُمت کی تاریخ میں باقاعدہ بیت چکی ہیں؟ اور کیا طحاوی، طبرانی، لالکائی، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن کثیر، ذھبی، نووی اور ابن حجر وغیرہ ایسے علم کے پہاڑ ائمہ اہلسنت جن ادوار میں ہو گزرے ان سب صدیوں میں یہ فقہی مذاہب کہیں پائے ہی نہ جاتے تھے؟ اور اگر پائے جاتے تھے اور بلاشبہ پائے جاتے تھے تو کیا ان ائمہ علم کی جانب سے بھی فقہی مذاہب کے ’خاتمہ‘ کی کوئی تحریک چلائی گئی؟ ان ائمہ کے ہاتھوں بھی کیا کسی کو ’حنفیت‘ یا ’شافعیت‘ یا ’حنبلیت‘ وغیرہ سے ’توبہ‘ کرائی گئی؟ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ان ائمہ نے مذاہب کے اس ظاہرہ کی بابت کچھ کیا تو وہ یہ کہ ’مذہبی تعصب‘ کی مذمت کی اور ’فقہی جمود‘ کا ’علم کے نشر واشاعت‘ کے ذریعے زور توڑا .... مزید یہ کہ ان لوگوں کو جو اس بات پر طاقت رکھیں ’تحقیق‘ کی راہ دکھائی .... اور بس۔
آج ہمیں بھی لوگوں کے فقہی مذہب چھڑوانے کی تحریک نہیں چلانا محض تعصب کے خلاف آواز اٹھانا ہے .... اور جو لوگ اس بات کی طاقت وقدرت رکھیں ان کو تحقیق کی جانب یا تحقیق کیلئے مطلوبہ علمی اہلیت پیدا کرنے کی جانب ترغیب دلانا ہے .... اور بس۔
بنیاد اس مسئلہ کی وہی ہے جو پیچھے بیان ہوئی: ہمیں ایک مسئلہ کا، اس کے پیش آجانے کے آٹھ دس صدیوں بعد آج پہلی بار حل تلاش نہیں کرنا بلکہ اپنوں سے پہلوں کو دیکھنا ہے کہ ان کے ہاں اس مسئلہ کو کیسے لیا گیا۔[ہمیں اندازہ ہے کہ اس مسئلہ کی پشت پر عشروں کی حساسیت اور جذباتیت پائی جاتی ہے اور ہماری اس گفتگو پر کئی اطراف سے کئی انداز کا ردعمل متوقع ہے۔ مگر ہماری اس گفتگو کی بابت کوئی آخری رائے قائم کر لینے سے پہلے ہمارا وہ اصولی مقدمہ ایک نظر پھر دیکھ لیا جائے جو پیچھے بیان ہوا۔ ’مسلکی محاذ آرائی‘ اس کی محض ایک مثال کے طور پر بیان ہوئی نہ کہ موضوع سخن کے طور پر۔]
کوئی مسئلہ آپ کی نگاہ میں ہدایت اور ضلالت کے موضوع کا حامل ہے اور اس کی تاریخ اگر صدیوں پرانی ہے تو اس پر حکم لگانے کیلئے آپ کو محض چند عشرے پیشتر کے بعض اہل علم سے رجوع پر ہی کفایت نہیں کر لینا بلکہ اس کیلئے آپ کو اتنا ہی پیچھے جانا ہے جتنا پیچھے تک خود وہ مسئلہ جاتا ہے۔ پھر اگر اس مسئلہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نئی جہتیں اختیار کر لی ہوں تو ہمیں ان سب ادوار کے ائمہ سنت کی شہادت درکار ہوگی جو اس مسئلہ میں کوئی نیا موڑ آنے کے وقت اس اُمت کے اندر پائے گئے۔
’تسلسل‘ اس فرقہء ناجیہ اور طائفہء منصورہ کے اختیار کردہ منہج کا ایک زبردست اور لازمی وصف ہے .... بلکہ یہ اس کے اصول فکر کا ایک بنیادی امتیاز ہے۔ اس راستے کا امتیاز یہ ہے کہ اصولِ دین کی بابت یہاں ’بعد والے‘ ’پہلوں‘ پر استدراک نہیں کرتے (واضح رہے بات کسی ایک آدھ شخص پر استدراک کی نہیں بلکہ کسی دور کے ائمہ سنت کی مجموعی روش پر ہو رہی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری مثال:
دوسری مثال یہاں ’روافض‘ پر حکم لگانے سے متعلق ہے۔
عرصہ پیشتر برصغیر میں یہ مسئلہ یا اس طرح کے بیشتر مسائل خاصے علمی انداز میں لئے جاتے تھے مگر اب ان کو ایک عوامی اور یا پھر سیاسی انداز میں لیا جاتا ہے اور ان معاملات کا فیصلہ عموماً ’سڑکوں‘ پر یا پھر ’اخباری صفحات‘ پر ہی کیا جاتا ہے۔
اب یہ مسئلہ بھی افراط وتفریط کا شکار ہے۔ ہمارے کچھ رواداری پسند ان معاملات میں تفریط کی راہ چلتے ہیں اور اپنے اس موقف کو ’وسعت نظر‘ جانتے ہیں۔ ہمارے ان حضرات کی نگاہ میں ’روافض‘ محض ایک ’فقہی مسلک‘ ہے اور قریب قریب اسی طرح کا فقہی مسلک جیسے حنفی، مالکی، حنبلی اور ظاہری وغیرہ ایسے اہلسنت فقہی مسالک! ان میں سے بعض لوگ تو اپنے اور روافض کے مابین بس اتنا ہی فرق جانتے ہیں کہ یہ نماز ہاتھ باندھ کر پڑھتے ہیں اور وہ ہاتھ چھوڑ کر! حالانکہ یہ فرق تو ان میں اور مالکیوں میں بھی ہے جبکہ مالکی اہلسنت ہیں اور وہ ’روافض‘۔
ان حضرات نے کم ہی کبھی روافض کے ان علمی مصادر کو بغور دیکھا اور پڑھا ہوگا جن کو کہ روافض کے ہاں مستند مانا جاتا ہے بلکہ صرف اور صرف انہی مصادر کو روافض کے ہاں مستند مانا جاتا ہے نہ کہ اِن کی ’صحیحین‘ اور ’کتب ستہ‘ اور ’موطا امام مالک‘ اور ’مسند امام احمد‘ وغیرہ کو .... کیونکہ ’صحیحین‘ و ’کتب ستہ‘ ودیگر کتب سنت اصحاب رسول اﷲ سے روایت ہوئی ہیں نہ کہ ’معصومین‘ سے۔
وسعت نظر اور رواداری بہت اچھی بات ہے مگر کیا یہ اس بات کی دلیل ہو سکتی ہے کہ آپ ان مصادر source books کو دیکھے پڑھے بغیر ہی، جو کہ ایک فرقے کے ہاں مستند مانے جاتے ہیں اور صرف اور صرف ان کتب کو ہی وہ فرقہ اپنا دین قرار دیتا ہے .... اس فرقہ کی ان امہات الکتب کو دیکھے پڑھے بغیر ہی آپ اسے حنفی شافعی طرز کا ایک معتبر فقہی مذہب قرار دے دیں؟! نہ صرف یہ بلکہ ان لوگوں کو ہی الٹا قابل مذمت جانیں جو تقدیس ائمہ اور شتم صحابہ سے بھری ہوئی ان کتب کے ماننے والوں کو ہلاکت کی راہ پر مانیں!؟؟
دوسری طرف افراط ہے۔ ایک طائفہ سے منسوب سب کے سب افراد پر ایک ہی حکم لگا دینا اور سب کی بیک جنبش قلم تکفیر کر دینا انصاف نہیں۔ پھر خود اس طائفہ کے اندر کئی ساری تقسیمات اور تفریقات ممکن ہیں۔ پھر ان کے ایک بڑے طبقے کے ہاں جہل اور تاویل کے موانع پائے جا سکتے ہیں اور اِس طبقے کو تعلیم اور دعوت اور موعظہء حسنہ کا مخاطب بنانا عوامی ضد بازی میں لے آنے کی نسبت کہیں زیادہ قرین صواب ہو سکتا ہے۔
ہمارے یہ دونوں طبقے، یعنی اہل افراط بھی اور اہل تفریط بھی .... دونوں اس مسئلہ کو یوں لیتے ہیں گویا یہ مسئلہ آج ہی اس اُمت میں پیدا ہوا لہٰذا اب انہی کو تاریخ میں پہلی اور آخری بار اس قضیہ کا فیصلہ کرنا ہے!
سوال یہ ہے کہ ایک مسئلہ جو صدیوں پیشتر پایا گیا اس کا فائل آج بالکل ابتدا سے کیوں کھلے؟ کیا اُمت میں صدیوں پہلے سے چلے آنے والے (روافض سے متعلق) اس فائل میں پہلے سے کوئی ورق نہیں؟ اور کیا ابھی تک سارا عرصہ یہ فائل ’خالی‘ ہی رہا ہے؟
’انقطاع‘ ایک بہت بڑی دلیل ہے اس بات کی کہ ایک مسئلہ آج ہی جا کر ایجاد کیا جا رہا ہے۔ اصول دین سے متعلقہ ایک سوال کا جواب دریافت کرنے کی ضرورت اگر صدیوں پیشتر پڑ چکی تھی تو آپ صدیوں پیشتر کے ائمہ سنت کے ہاں ہی اس کا جواب اور اس کا شرعی حکم تلاش کریں۔ یہ ممکن نہیں کہ ہزار سال سے پیدا شدہ ایک مسئلہ، خصوصاً جبکہ وہ اصول دین سے متعلق ہو، اپنے شرعی حل کیلئے آپ ہی کا منتظر ہو۔ ایسا سوچنا اس اُمت کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے .... اور حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے یہ اپنے ساتھ بھی زیادتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں
اور اب ان لوگوں کا معاملہ جو مجموعی طور پر اہلسنت سے وابستہ ہیں، صاف صاف شرک کا شکار نہیں مگر بعض مقامات پر ان کے ہاں سنت اعتقادات کے ساتھ کچھ بدعت اعتقادات گڈمڈ پائے گئے۔
ہم سب جانتے ہیں قرون ثلاثہ تک مسلم معاشروں پر اہل حق کی صدارت رہی۔ خاص ’حکومتی‘ معنوں میں نہیں بلکہ علمی، فکری اور سماجی معنوں میں۔ یہاں تک کہ مامون اور معتصم کے دور میں جب کچھ معتزلہ کو سواری کیلئے خلیفہء وقت کی پیٹھ مل گئی اور ائمہ سنت کو قید وبند کی صعوبتیں سہنا پڑیں اس وقت بھی معاشروں پر سکہ ائمہ سنت ہی کا چلتا رہا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل کا یہ قول اس دور میں زبان زد عام ہو گیا ”بیننا وبینھم اتباع الجنائز“ یعنی خلق خدا میں ہمارا اور ان کا فیصلہ کرنے کو جنازوں کی حاضری ہی کافی ہے۔ مراد یہ کہ ائمہ سنت میں سے کسی کا جنازہ ہوتا تو لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے اور شہروں کے شہر سنسان دکھائی دیتے جبکہ ائمہ بدعت میں سے کسی کی مرگ ہوتی تو گویا کسی کو کچھ فرق ہی نہیں پڑا۔
چنانچہ قرون اولی کے اندر ہم دیکھتے ہیں کہ سنت کا معاشروں پر اس قدر غلبہ رہا کہ اس کے ہوتے ہوئے سنت اور بدعت خلط نہ ہو سکتے تھے۔ چنانچہ اتباع تابعین تک کے اس دور میں ہم بڑی حد تک دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص یا تو اہل سنت ہے اور یا پھر اہل بدعت۔ ایک خلط کا پایا جانا اس دور میں بے حد کم تھا۔
البتہ بعد کی صدیوں میں معاملہ اس سے مختلف ہونے لگا۔ اہلسنت کی وہ صدارت جو اس سے پہلے ان کو معاشروں میں حاصل رہی اب اس انداز میں نہ رہی تھی۔ خصوصاً ایک باطنی اور رافضی انقلاب کی کامیابی کے بعد جو کہ چوتھی صدی ہجری کے وسط میں اپنے عروج کو پہنچا نظر آتا ہے۔ عالم اسلام کے بیشتر خطے اس رافضی طوفان کے زیر آب آگئے تھے۔ یہ مسلم دُنیا کو ایک بڑا دھچکا تھا۔ مسلم معاشروں کی بنیادیں اس سے ہل کر رہ گئی تھیں۔ سنت کی صدارت معاشروں پر سے بڑی حد تک ہٹا دینے کے پیچھے یہ بھی ایک بڑا سبب تھا۔
اب اس کے بعد جو دور آیا تو ان صدیوں میں ایک نیا ظاہرہ رونما ہوا .... اور یہ ’سنت اور بدعت کا خلط‘ تھا۔ بہت سے لوگ جو تاریخی اور اصولی طور پر اہلسنت کا تسلسل تھے۔ عقیدہ وفکر کے بعض معاملات میں البتہ ان کے ہاتھ سے سنت کا دامن چھوٹ بھی جاتا رہا۔ اس کا سبب ان کو ایک مثالی ماحول کا میسر نہ آنا تھا بلکہ معاملہ یہ تھا کہ ایک طرف یہ لوگ بعض بدعات اور انحرافات کے خلاف برسر جنگ ہوتے اور ان کے مدمقابل مذہب سنت کا بھرپور دفاع کر رہے ہوتے البتہ دوسری طرف سنت اور بدعت کی عین اسی جنگ میں ہی بدعت کے کچھ وار بھی ان پر ہو جاتے رہے۔ نتیجتاً سنت کے کچھ امور بھی ان کے ہاتھ سے چلے جاتے رہے یا یہ کہ (عقائد وغیرہ کے معاملہ میں) سنت [اس قسم کے سیاق میں ’سنت‘ سے ہماری مراد ’عقائد‘ اور ’اصول دین‘ میں حق کی وہ صحیح تعبیر ہوتی ہے جو رسول اﷲ اور صحابہ سے اس اُمت کو ملی اور جس کے خلاف چلنا ہلاکت کی راہ ہے اور ’بدعت‘ کہلاتا ہے۔ اس سیاق میں ’سنت‘ سے مراد کچھ ’فروعی اعمال‘ نہیں ہوتے جن کے سلسلے میں علمائے اُمت کا اختلاف ہوا یا جن کے اثبات میں استدلال کا فرق پایا جا سکتا ہے یا پھر احادیث کی تصحیح وتضعیف یا ترجیح کی بابت اہل علم کا نقطہ نظر مختلف ہو سکتا ہے۔ یہاں ’سنت‘ سے مراد ہے سنت اصول دین۔]کے بعض امور پر ان کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی رہی۔
مجموعی طور پر یہ لوگ حق پر تھے اور عمومی طور پر ان کا اعتماد کتاب وسنت پر تھا۔ مگر پھر بھی کہیں کہیں ان کے ہاں کچھ رخنے پائے گئے۔ اور بعض امور میں نادانستہ طور پر ان کا قول اہل بدعت کے کسی قول سے، کم یا زیادہ موافقت بھی کر جاتا رہا۔ مختصر یہ کہ ماحول اور حالات کے اثرات کے تحت اور صاف شفاف راہنمائی نہ مل سکنے کے باعث ان لوگوں کیلئے ایک کلی معنی میں منہج سلف تسلسل بنا رہنا ممکن نہ تھا اگرچہ ان کے فکر وعقیدہ کا ایک بہت بڑا حصہ منہج سلف ہی کے موافق تھا اور عمومی طور پر اسی کا ایک تاریخی تسلسل۔
تب سے آج تک یہ سلسلہ مختلف صورتوں میں اور مختلف سطحوں پر اس اُمت کے اندر پایا جاتا رہا ہے اور برصغیر تو اس صورتحال کی ایک بہت بڑی مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔
غرض یہ ایک نیا ظاہرہ تھا جو قرون اولی کے بعد کی صدیوں میں ایک بڑی سطح پر رونما ہوا۔ یہ بہرحال واضح ہے کہ ایسی صورتحال کوئی آج ہی جا کر پیدا نہیں ہوئی۔ ’صفات‘ کی بابت بعض مقامات پر کچھ لغزشیں ہو جانا، حدیث کی بعض روایات کی بابت آدمی کو کچھ اشکال ہو جانا، بعض اہل بدعت کی بابت آدمی کا قول بقیہ اہلسنت کے قول کی نسبت نرم تر یا سخت تر ہو جانا اور عقیدہ یا فکر کے بعض مقامات پر آدمی کا کوئی غلطی کر لینا .... البتہ مجموعی طور پر آدمی کا حق پر ہونا بلکہ حق کا داعی ومحافظ اور حق کے راستے کا مجاہد ہونا .... یہ ظاہرہ (فنامنا) ایک بڑی سطح پر اُمت میں قرون اولیٰ کے لحاظ سے نیا ہو تو ہو البتہ پچھلا ایک ہزار سال ہماری نگاہ میں ہو تو اس لحاظ سے ہرگز نیا نہیں .... کہ اس کا حکم بس آج ہمیں ہی تلاش کرنا ہو!
سنت اور بدعت کا خلط .... جب یہ ایک پرانا ظاہرہ ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم سے ’پہلے‘ اس کے ساتھ کیونکر تعامل کرتے رہے؟ یہاں پھر، ہم اس ’پیچھے چلے جانے‘ والی بنیاد کو اختیار کرنا ہی ضروری سمجھیں گے۔
’پیچھے جانا‘ اصول دین کے معاملہ میں تقلید نہیں بلکہ یہ اس ’تسلسل‘ کا احیاءہے جو کہ اس اُمت کے اہل حق کا ایک بہت ہی امتیازی وصف ہے۔ جبکہ ’انقطاع‘ کسی قول یا کسی دعوت کے بدعت ہونے کی دلیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ذرا دیکھیے اہلسنت کا وہ منہج عدل اور طرز واقعیت اور رحیمانہ انداز فکر جس کی ترجمانی ہمیں شیخ الاسلام اَمام ابن تیمیہ کے ہاں ملتی ہے:
”پس جو بات بھی اﷲ اور رسول کے فیصلے کے خلاف ہوگی یا تو وہ شرع منسوخ (پہلی کوئی شریعت) ہوگی اور یا پھر شرع مبدل (سرے سے نئی بنا لی گئی بات) ہوگی۔ خدا نے بہرحال اس کو مشروع نہ ٹھہرایا ہوگا بلکہ کسی شروع کرنے والے نے خدا کے اذن کے بغیر اس کو مشروع ٹھہرا دیا ہوگا، جیسا کہ اس آیت میں آتا ہے (ام لہم شرکاءشرعوا لہم من الدین مالم یاذن بہ اﷲ ....) [مجموع الفتاوی لابن تیمیہ۔ ط دار عالم الکتب / فصل وکل من خالف ما جاءبہ الرسول]
مگر یہ بات بھی اور یہ بات بھی بعض اوقات کچھ لوگوں میں اجتہاد کی وجہ سے خفی، دقیق اور پیچیدہ امورمیں پائی جا سکتی ہے جبکہ انہوں نے حق کی طلب وجستجو کے سلسلے میں اپنی وسعت و قدرت کی حد تک اجتہاد کیا ہوتا ہے جس کی بنا پر ان کا اس قدر صواب (درستی) اور اتباع شمار کر لیا جاتا ہے جو ان کی غلطیوں کو ڈھانپ لیتا ہے، جیسا کہ اس قسم کی صورتحال مسائل طلاق، میراث اور اس قسم کے دیگر مسائل کے سلسلے میں صحابہ کرام کے ہاں بھی پائی گئی ہے۔ تاہم اس قسم کی صورتحال ان میں دین کے جلی اور عظیم امور میں نہیں پائی گئی کیونکہ ان امور کی نسبت نبی اکرم نے جو بیان فرمایا تھا وہ ان کے ہاں ظاہر وعام تھا جس کی وجہ سے ان امور کی کوئی مخالفت واختلاف نہ کرتا سوائے اس شخص کے جو رسول اﷲ ہی کی مخالفت کرے۔ جبکہ وہ سبھی اﷲ کی رسی سے مضبوطی سے چمٹے رہے، آپ ہی کو اپنے اختلافات ومشاجرات میں حکم بناتے، عمداً اﷲ اور رسول کی مخالفت تو کجا، اﷲ اور رسول کے آگے بڑھتے ہی نہ تھے۔
اب جو زمانہ دراز گزرا تو ایسے امور جو ظاہر وعام تھے بہت سے لوگوں پر مخفی ہو گئے، جو امور پہلے جلی تھے وہ بہت سے لوگوں کیلئے پیچیدہ و پردقت ہو گئے۔ چنانچہ متاخرین کے ہاں کتاب اور سنت کی مخالفت زیادہ ہو گئی جبکہ سلف میں اس قسم کی صورتحال نہ تھی، گو وہ بھی اجتہاد کیا کرتے تھے اور اس میں ان کی خطا اور غلطیاں قابل عذر وقابل مغفرت تھیں، اور اجتہاد کی وجہ سے مستحق ثواب بھی تھے۔
پھر شاید ان کی نیکیاں بھی اتنی ہوں کہ اس زمانے میں ایک آدمی کو اُس زمانے کے پچاس آدمیوں جتنا اجر ملتا ہو، کیونکہ اُن کو اس سلسلے میں ایسے لوگ میسر تھے جو ان کے مددگار ثابت ہوں جبکہ اِن متاخرین کے لئے ایسے لوگ میسر نہ تھے۔ جلد ١٣ ص ٤٠
اس میں کوئی شک نہیں کہ اُمت کو پیچیدہ علمی امور میں خطا (غلطی لگ جانا) معاف ہے، بے شک وہ مسائل علمی [’علمی مسائل‘ فتاوی ابن تیمیہ میں عقیدہ کے متعلق مسائل کیلئے مستعمل ہے۔ جو کہ فتاوی کے کسی قاری پر مخفی نہیں۔] (اعتقادی) ہی کیوں نہ ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو بیشتر بزرگان اُمت ہلاک ہو جاتے۔
جب ایک ایسے شخص کو اﷲ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے جو اس سے لاعلم ہے کہ شراب حرام ہے کیونکہ وہ لاعلمی اور جہالت کے ماحول اورعلاقے میں پروان چڑھا ہے، جبکہ اس نے علم بھی حاصل نہیں کیا تو پھر ایک عالم فاضل جو اپنے زمان ومکان کے لحاظ سے جو میسر ہے اس کے دائرے میں رہتے ہوئے طلب علم میں اجتہاد ومحنت کرتا ہے جبکہ اس کا مقصد بھی حسب امکان رسول اکرم کی پیروی ہے وہ تو اس سے بھی اولیٰ اور زیادہ مستحق ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کی نیکیاں قبول کرے، اس کے اجتہادات کا ثواب عطا کرے اور جو اس سے اخطا (غلطیاں) سرزد ہوئی ہیں ان سے درگزر فرمائے کہ اس نے فرما رکھا ہے ربنا لا تواخذنا ان نسینا او اخطانا ”اے اﷲ اگر ہم سے بھول ہو جائے یا ہمیں غلطی لگ جائے تو ہماری پکڑ نہ فرمانا“۔
اہلسنت ہر اس شخص کی نجات کے پرجزم طور پر قائل ہیں جو اﷲ کا تقویٰ اختیار کرتا ہے، جیسا کہ قرآن نے کہ رکھا ہے۔ تاہم جہاں تک کسی شخص کو متعین کیے جانے کا تعلق تو اس کے بارے میں اس بنا پر توقف کر لیتے ہیں کہ یہ معلوم نہیں آیا وہ (خدا کے ہاں) متقین میں (بالتحقیق) شامل ہے یا نہیں۔ ج ٢٠ ص ٨٨۔ [فصل: ”وقال تنازع الناس فی الامر بالشیئ“]
بعض اوقات حسنات سے متصل سیئات بھی پائی جا سکتی ہیں، قابل معافی بھی اور قابل گرفت بھی، اور بعض اوقات سالک (دین پر چلنے والے) کیلئے بالکل اصلی اور صحیح مشروع طریقے پر چلنا ممکن یا آسان نہیں ہوتا اور چار وناچار، علم وعمل میں بالکل صحیح روش پر چلنے والوں کے میسر نہ ہونے کے باعث، ایک گونہ بدعتی امور اس میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ اگر صاف شفاف روشنی میسر نہیں ہے، یعنی اگر ہے تو ایسی جو بالکل صاف نہیں اور آدمی نے اسے بھی نہ لیا ہوتا تو بالکل ہی اندھیرے میں رہتا، تو ایک ایسی روشنی کی عیب جوئی یا اس سے منع کرنا درست نہیں جس میں کچھ اندھیرا ہے، الا یہ کہ ایسا نور میسر آجائے جس میں کوئی ظلمت نہ ہو۔
ہر ایسا راستہ جس میں کچھ ظلمت اور اندھیرا نظر آئے چھوڑا اور چھڑایا جانے لگے تو کتنے لوگ ایسے ہونگے جو کم نور کو چھوڑتے چھوڑتے گھپ اندھیرے ہی میں جا بیٹھیں گے!
یہ قاعدہ اس لئے وضع کیا گیا ہے تاکہ سلف اور علماءنے جن امور کی مذمت کی ہے یا بُرا جانا ہے اس مذمت کو اس کے مطلب کی حد تک رکھا جائے اور یہ ذہن نشین کرانے کے لئے بھی کہ وہ اصلی اور کامل خلافت علٰی منہاج النبوت جس کا شرعاً حکم دیا گیا ہے اس سے عدولی:
بعض اوقات علم اور عمل کی حسنات چھوڑ بیٹھنے ایسی تقصیر کی وجہ سے ہوتی ہے اور بعض اوقات علم اور عمل کی سیئات اختیار کرنے ایسی زیادتی کی بنا پر ہوتی ہے۔
اور یہ دونوں باتیں بس نہ چلنے کی بنا پر بھی ہو سکتی ہیں اور قدرت رکھتے ہوئے بھی سرزد ہوتی ہیں۔
چنانچہ پہلی صورت (حسنات چھوڑ دینا) بعض اوقات معذوری اور بے اختیاری کی بنا پر ہوتی ہے اور بعض اوقات قدرت اور امکان کے ہوتے ہوئے۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے تو بعض اوقات تو وہ اضطرار یا احتیاج کی بنا پر اختیار کی جاتی ہے اور بعض اوقات آدمی مستغنی ہوتا ہے اور کوئی اضطرار کی کیفیت نہیں ہوتی۔
اب عاجز جو کامل حسنات کی انجام دہی سے قاصر ہے اور مضطر جسے بعض سیئات کا اضطرار درپیش ہے دونوں ہی (شرعاً) معذور ہیں۔
اور یہ بہت ہی زبردست اصل (قاعدہ) ہے مطلب یہ ہے کہ علم وعمل ہر دو صورت میں، نیکی کا بھی فی نفسہ تعین ہو، چاہے یہ نیکی فرض کے درجے میں ہو یا مستحب کے درجے میں اور بُرائی کا تعین بھی فی نفسہ ہو، چاہے یہ بُرائی ممنوعہ (خرابی) کے درجے میں ہو یا غیر ممنوعہ (مکروہ) کے درجے میں، پھر یہ کہ دین حسنات ومصالح کے حصول اور سیئات ومفاسد سے پرہیز کا نام ہے۔
اسی طرح بسا اوقات ایک ہی شخص یا ایک ہی کام میں یہ دونوں وصف بیک وقت پائے جا سکتے ہیں چنانچہ جب کسی شخص یا فعل کی مذمت وملامت یا وعید کی بات ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے وہ اس کے ایک پہلو کی بنا پر ہو جبکہ اس کے برعکس (خوبی والے) پہلو کو بھی نظر انداز نہ کیا جا سکتا ہو۔ اسی طرح جب مدح وستائش یا امر وثواب کی بات ہوتی ہے تو بھی ہو سکتا ہے وہ اس کے ایک پہلو کی بنا پر ہو جبکہ دوسرے (بُرائی والے) پہلو کو بھی نظر انداز نہ کیا جا سکتا ہو۔
یہ ہے موازنہ اور جانچ پرکھ کرنے کا طریقہ! اس پر چلنے سے ہی آدمی اس عدل وقسط پر قائم رہ سکتا ہے جس کیلئے اﷲ تعالیٰ نے کتاب اور میزان کا نزول فرمایا ہے۔ [ فصل: واعلم ان عامہ البدع المتعلقہ بالعلوم والعبادات فی ھذا القدر وغیرہ انما وقع فی الامہ ....]
چنانچہ ایک آدمی مجموعی طور پر اگر اصول سنت سے منسلک ہے۔ شرک سے مجتنب ہے۔ خدا اور رسول سے محبت کرتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کی مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ دین کی نصرت اور خدا کے راستے میں جہاد کیلئے مسلسل حالت سعی میں رہتا ہے .... وہ اگر کچھ غلط فہمیوں کے باعث اور خصوصاً اپنے ماحول اور مصدر علم سے متاثر ہو جانے کے باعث صفات کے بعض مسائل میں کہیں کوئی اکا دکا غلطی کر بیٹھا ہے یا حدیث کی بعض روایات کی بابت جمہور اُمت سے مختلف رائے اختیار کر بیٹھا ہے یا کسی بدعتی ٹولے کی بابت قول حق سے تجاوز کر بیٹھا ہے .... مگر اس کے دامن میں نیکیاں بھی بے شمار ہیں اور دین کیلئے اس کی قربانی اور جہاد بھی ایک معلوم واقعہ ہے اور وہ خدا اور رسول کا فرمانبردار اور وفادار رہنے کیلئے سنجیدہ بھی نظر آتا ہے .... تو ایسا آدمی اپنی کچھ غلطیوں اور حق سے کہیں تجاوز کر لینے کے باوجود بھی قابل ستائش ہو سکتا ہے اور وہ اہلسنت میں بھی بدستور شمار ہوگا۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ اس کی غلطی کو غلطی ہی کہا جائے گا .... چاہے وہ کوئی بھی ہو۔
صفات وغیرہ کے معاملہ میں اگر ابن کثیر اور نووی اور ابن جوزی ایسے ائمہ سنت بعض اغلاط کا شکار ہو چکے ہیں اور اس کے باوجود اہل سنت کے ہاں ان کا مرتبہء امامت متاثر نہیں ہوتا تو برصغیر کے ایک ایسے ماحول میں جو سنت اور بدعت کے خلط کی ایک پیچیدہ ترین مثال ہے۔ مولانا مودودی ایسے تحریکی قائدین کو کیوں چھوٹ نہیں مل سکتی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریکوں کی جرح وتعدیل کا پھر ایک اور پہلو بھی ہے....
مسلم معاشروں کا شیرازہ مجتمع رکھنے کی غرض سے ائمہء سنت ہمیشہ مسلم قیادتوں کو ایک خاص تعظیم دیتے رہے ہیں۔ ’مسلم قیادت‘ شروع میں چونکہ خلافت کی صورت میں میسر تھی لہٰذا منصب خلافت کو احترام اور تقدیر کا ایک خاص مرتبہ حاصل رہا۔ دشمن کی چیرہ دستیوں سے مسلم معاشروں کو بچا رکھنا اور معاشروں کی تعلیم وتربیت کیلئے ماحول کو ممکنہ حد تک پرامن رکھنا اور ان کو ’روٹی کپڑا اور مکان‘ ایسے بحرانات سے ممکنہ حد تک بچا کر رکھنا اور ان میں حالت استقرار کو بحال رکھنا .... ان عوامل میں سے چند ایک ہیں جو ان کے اس طرز عمل کے پیچھے کار فرما تھے۔
کیونکہ بحرانات اور ہنگامی حالات کا شکار معاشرے ہرگز پیدآور productive نہیں ہوتے، نہ دینی طور پر اور نہ دنیاوی طور پر، اس لئے ائمہ سنت منصب خلافت کو بازیچہء اطفال نہ بننے دیتے تھے۔ خلیفہ کے ظلم وتعدی کے باوجود ہرگز کسی بغاوت کی سرپرستی نہ کرتے تھے اور خلیفہ کے فسق وفجور یا ظلم وجور کو یا حتی کہ اگر کسی وقت وہ بدعتوں اور گمراہیوں کی سرپرستی بھی کرتا اور کلمہء حق کہنے والے علمائے سنت پر تازیانے بھی برساتا تو اس کو بھی بڑے آرام سے سہہ لیتے تھے اور ان سب باتوں کے باوجود ان خلفاءکے پیچھے نماز اور ان کے علم تلے جہاد کو بدستور لازم جانتے تھے .... یہی وجہ ہے کہ خلفاءوامراءکی معیت میں، ان کے فسق وبدعت اور ظلم وجور کے باوجود، جمعہ اور جماعت اور جہاد وغیرہ کی فرضیت کتب عقیدہ میں آج تک درج کی ہوئی ملتی ہے۔
تاآنکہ وہ وقت آیا کہ خلافت نام کی رہ گئی اور محض ایک اعزازی عہدہ سمجھی جانے لگی۔ عملاً طوائف الملوکی کا دور دورہ ہوا۔ عین اسی دور میں ہی، بلکہ اس طوائف الملوکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہی، مختلف خطوں اور علاقوں پر خوارج، روافض اور باطنی فرقے قابض ہونے لگے اور پھر رفتہ رفتہ اپنا اقتدار وسیع کرنے لگے۔ یہ اندرونی سطح پر تھا۔ جبکہ بیرونی سطح پر دشمن کی پیش قدمی ہونے لگی تھی۔ قیادت کمزور پڑنے کا یہ ایک طبعی نتیجہ تھا۔ یہاں پہنچ کر ہم دیکھتے ہیں کہ وہ رویہ جو اس سے پہلے ائمہ سنت کی جانب سے خلفاءکے ساتھ اپنایا جاتا رہا تھا اس طوائف الملوکی کے دور میں اب ان خود مختار ونیم خود مختار امراءکے ساتھ رکھا جانے لگا جو عمومی معنی میں اہلسنت سے منسوب تھے، بے شک بہت سے امور میں ان امراءکے ہاں شرعی انحرافات ہی کیوں نہ پائے گئے ہوں“۔
پھر ان میں سے وہ امارتیں جو نیکی اور سنت کی جانب نسبتاً زیادہ مائل ہوتیں اور درون میں بدعتی قوتوں اور بیرون میں دشمنوں کے خلاف جہاد کا علم اٹھاتیں اور شریعت کے قیام کی مقدر بھر پابند ہوتیں وہ امارتیں تو بطور خاص ائمہ سنت کی توجہ لیتیں بلکہ بسا غنیمت جانی جاتیں۔
تیسری صدی کے تقریباً نصف سے لے کر چوتھی صدی کے ربع سوئم تک عالم اسلام پر جو باطنی و رافضی اندھیرا چھایا وہ دور اُمت کے اہل حق پر بہت ہی بھاری گزرا۔ یہ اس امت کے علماءاور امراءدونوں کیلئے ایک کٹھن تجربہ تھا اور بعد والی نسلوں کو بہت کچھ سکھا دینے کیلئے کافی تھا۔ اس ظلم کا ہالہ توڑنے اور عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو اس سے نجات دلانے والی پہلی سنی ریاست دولتِ غزنویہ ٹھہرتی ہے جو کہ چوتھی صدی کے ربع چہارم میں منصہء شہود پہ آئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابن کثیر البدایہ والنہایہ میں چوتھی صدی کے آخر اور پانچویں صدی کے آغاز کی تاریخ بیان کرتے ہوئے غزنوی فتوحات کے ذکر پہ پہنچتے ہیں تو ایک دم گویا کِھل اٹھتے ہیں اور اس کے ہندوستان میں ازسرنو جہاد اور بغداد تا وسط ایشیا بدعتی طوائف کی گوشمالی کو بے حد سراہتے ہیں۔ پھر غزنویوں کے بعد قریب قریب یہی حیثیت ائمہء دین کے ہاں سلجوقی امارت کو حاصل رہی جس کا عرصہء اقتدار بھی خاصا دراز رہا اور اس کے پرچم تلے علوم سنت کی ازسرنو اشاعت ہوئی اور رومیوں کے ساتھ جہاد کا ازسرنو آغاز ہوا۔ اس کے بعد پھر زنگی اور پھر ایوبی دولت کو یہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر حیثیت حاصل رہی کیونکہ ان کے ہاتھوں خدا نے اندرونی سطح پر باطنی (رافضی) خلافت کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ کروایا اور بیرونی سطح پر صلیبیوں سے بحرابیض کا ساحل پاک اور بیت المقدس کو آزاد کروایا۔ غرض دولت ممالیک سے ہوتی ہوئی یہ حیثیت پھر آخرکار سلطنت عثمانیہ کو حاصل ہو گئی۔ ہمارے برصغیر میں بیشتر سلاطین دہلی اور پھر مغل سلطنت میں اورنگزیب عالمگیر کو بطور خاص یہ حیثیت حاصل رہی۔
ان سب امارتوں میں کہنے کو آپ بے شمار عیب نکال سکتے ہیں۔ ملوکیت، عدم شورائیت، شخصی اور خاندانی اقتدار، ذاتی ثروت وحشمت .... پھر کہیں عقیدہ کے کئی سارے عیب .... پھر عمل کے بہت سارے رخنے اور شریعت کی کئی ساری خلاف ورزیاں .... اور کہنے کو ایسے بہت سارے عیب آپ اموی اور عباسی خلافت میں بھی دکھا سکتے ہیں .... مگر ہمارے ائمہ سنت کو خدا نے جو بصیرت دی تھی اس کی بدولت وہ علم سماجیات میں بہت گہری نظر رکھتے تھے اور ان کے ہاں معاشرتی ترجیحات کا جو نقشہ بنتا تھا اس کی رو سے ان امارتوں کے تمام تر عیوب کے باوجود ان کے ہاتھ مضبوط کئے جانا یا کم از کم ان کو اِن کے اپنے حال پر چھوڑ دینا ہی ضروری تھا کیونکہ ان کی نصرت اور سرپرستی سے ائمہء دین کا دستکش ہو جانا یا ان کے خلاف صف آراءہو جانا اس دیوار کو منہدم ہو جانے دینا تھا جو اندرونی انحرافات اور بیرونی چیرہ دستیوں کے راستے کی ایک بڑی رکاوٹ تھی۔
البتہ اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان امارتوں کے روبرو کلمہ حق کہنا موقوف کر دیا گیا تھا۔ کلمہء حق بدستور کہا گیا اور اس کی اگر کوئی قیمت بنتی تھی تو وہ بھی ادا کی گئی۔ اِس بات کا اُس بات سے کوئی تعارض بھی نہ جانا گیا۔
تاآنکہ اُمت کے اندر یہ ’امارتوں‘ کا دور بھی ختم ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ وہ مقاصد جو ان امارتوں کے وجود سے حاصل ہوتے تھے کچھ حقیقی اور واقعاتی مقاصد تھے نہ کہ وہمی اور افتراضی جن سے کہ کلی استغناءاب بھی ممکن نہیں۔ مسلم معاشروں کا شیرازہ مجتمع رکھنے کی ضرورت اب بھی باقی ہے۔ دشمن کی چیرہ دستیوں سے آج کے ان پسماندہ وناتواں معاشروں کو جہاں تک ہو سکے محفوظ رکھنا آج بھی بے انتہا ضروری ہے۔ شعائر اسلام کی ایک سماجی ہیبت ذہنوں پر قائم کر رکھنا آج بھی ناگزیر ہے بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایمانی قوت کے ساتھ ساتھ مادی قوت کے مصادر سے مسلمانوں کو آشنا کروانا اور ان کو اس میدان میں زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنا آج بھی ضروری ہے بلکہ آئندہ کے کچھ مراحل کیلئے باقاعدہ مطلوب ہے۔ بے دینی اور فساد کو معاشرے میں شکست دینے کی ضرورت آج بھی برقرار ہے .... غرض سیاست شرعیہ کے ایسے کئی ایک ابواب خلافت کی عدم موجودگی میں مکمل طور پر موقوف نہیں ٹھہرائے جا سکتے۔ ان ابواب کا کھلنا ’قیام خلافت‘ پر نہیں اٹھا رکھا جائے گا بلکہ یہ ابواب اگر بند رکھے جائیں گے تو ’قیام خلافت‘ کا معجزہ رونما ہی کیونکر ہوگا؟ سوائے یہ کہ ’مہدی‘ کا انتظار کیا جائے۔ ’مہدی کا انتظار‘ تو عملاً روافض تک نے چھوڑ دیا جبکہ ہمارے ہاں تو ’انتظار مہدی‘ [ ظہور مہدی کی احادیث پر ہمارا ایمان ہے، جو کہ زمانہء آخر میں ہوگا۔ البتہ ’مہدی منتظر‘ کا تصور روافض کے ہاں ہی پایا جاتا رہا ہے۔ ان احادیث پر ایمان ایک چیز ہے اور مہدی کا انتظار ایک اور چیز۔]کا عقیدہ کبھی پایا ہی نہیں گیا!
غرض اسلام کے سیاسی، سماجی اور اجتماعی اہداف آج بھی جہاں تک ___ شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے ___ حاصل کئے جا سکتے ہوں اس حد تک ان کے بروئے کار لانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے گی۔ مالا یدرک کلہ لا یترک جلہ
ان اجتماعی اہداف کو بروئے کار لانے کی ایک اجتہادی صورت آج کے دور میں دین کیلئے کام کرنے والی جماعتیں اور تنظیمیں ہیں۔ آپ اس اجتہاد سے متفق نہیں تو اپنے لئے کوئی اور صورت تجویز کرنے میں آپ یقیناً آزاد ہیں اور وہ صورت جو اس کے متبادل آپ تجویز کریں گے یقیناً وہ بھی ’اجتہاد‘ ہی ہوگا البتہ مسلمانوں کے اجتماعی اہداف کو ممکنہ حد تک حاصل کرنے کی یہ صورت آپ کے نزدیک اگر غلط ہے تو بھی اس کا معاملہ ’اجتہاد‘ سے باہر بہرحال نہیں۔
اب اگر ’مسلم خلافت‘ یا ’مسلم امارتوں‘ کی عدم موجودگی میں اسلام کے کچھ اجتماعی اہداف کے ممکنہ حد تک حصول کی آج ایک صورت یا ذریعہ یہاں وقت کی اسلامی تحریکیں اور جماعتیں ہیں تو ان تحریکوں اور جماعتوں کو بھی لامحالہ وہ چھوٹ دینا پڑے گی جو اس سے پہلے آپ ان اداروں کو دیتے رہے جن کو کہ تاریخ میں آپ ’امارتوں‘ کا نام دیتے ہیں اگرچہ وہ امارتیں ’خلافت‘ یا پھر ’خلافت راشدہ‘ کے منہج کو نہیں بھی پہنچتی تھیں۔
مراد یہ نہیں کہ موجودہ زمانے کی تحریکوں و جماعتوں کو پچھلے زمانے کی اسلامی امارتوں پر قیاس کروایا جائے .... کیونکہ اس سے کئی ساری پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ جس انداز سے ائمہء دین ___ مسلم معاشروں کی بعض اجتماعی ضروریات کے بہم پہنچائے جانے کے معاملہ میں ___ اپنے دور کی بعض اسلامی امارتوں کے وجود کو بسا غنیمت جانتے تھے اور خدا کی اس نعمت کی قدر کرتے تھے، باوجود اس کے کہ ’امرائ‘ کا ذاتی عقیدہ یا عمل یا فکر یا علم کسی کے معیار پہ چاہے کسی وقت پورا نہ بھی اترتا ہو اور چاہے وہ مذہب سنت کے داعیوں پر کسی وقت ظلم بھی کیوں نہ ڈھاتے ہوں .... تو آج اگر باطل سے الجھنے کیلئے اور مسلم نوجوانوں کی صلاحیتوں کو دین کی خاطر مسخر کرنے کیلئے کچھ تحریکیں اٹھتی ہیں اور واقعتاً وہ باطل کو زک پہنچانے میں کچھ کامیاب بھی ہوتی ہیں تو ان کی قیادتوں کے ہم اپنے معیار پر پورا اترنے کی شرط کیوں لگائیں؟ اور ان پر اپنے ’ملاحظات‘ اور ’تحفظات‘ بتائے بغیر بھی ان کے وجود کو، غنیمت سمجھیں اور اس کو موجودہ حالت میں (as it is) بھی خدا کی نعمت جانیں تو اس میں آخر کیا حرج ہے؟
عثمانی سلطنت میں کیا کیا نقائص نہ ہوں گے بلکہ کیا کیا مصائب blunders نہ ہوں گے۔ اس کے سقوط پر بھی تو آخر ہمیں دکھ ہوا ہی تھا۔ واقعتاً یہ پوری اُمت کیلئے ایک سانحہ تھا۔ عثمانی سلطنت کے سقوط پر پس اگر افسوس جائز ہے تو الاخوان المسلمون اور جماعت اسلامی کے قیام پر خوشی کیوں جائز نہیں؟ کیا ان دونوں تحریکوں کا ’عقیدہ‘ اور ’فہم دین‘ عثمانی ترکوں سے بھی بہتر نہیں؟!
کوئی مسلم مورخ اگر ایک ہی عشرے کے ان دو واقعات ___ عشرہ کے شروع میں سقوط خلافت اور عشرہ کے اخیر تک اخوان اور جماعت اسلامی کے قیام ___ پر اپنے تاثرات ظاہر کرے تو وہ کیا ہونے چاہئیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی یہ ہم نے اپنے دور کی ایک تحریک کی، اس کے بعض پہلوؤں سے، تحسین کی ہے جس سے ہمارے بعض اصحاب کو یہ امکان محسوس ہوا کہ ہم اس تحریک کے موسس کی ’ضرورت سے زیادہ‘ تائید کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم اس تحریک پر کچھ ملاحظات بھی رکھتے ہیں۔ اب اگر کسی وقت ان تنقیدی ملاحظات کی باری آئے تو اس سے ہمارے کچھ ’دوسری طرف‘ کے قارئین شاید یہ سمجھنے لگیں گے کہ ہم نے اس تحریک کو کسی فضیلت کے لائق ہی نہیں جانا!
یہی وجہ ہے کہ یہاں ہم نے شخصیات کو موضوع سخن نہیں بننے دیا بلکہ تحریکوں کے معاملہ میں اپنے زاویہء نگاہ کی ہی کچھ وضاحت کی ہے۔ پس یہ ضروری نہیں کہ آپ ایک تحریکی عمل کو سراہنے یا اس کو کسی پہلو سے قابل تقلید قرار دینے کیلئے اس بات کے پابند ہوں کہ آپ اس کو سب پہلوؤں سے سراہیں اور سب پہلوؤں سے ہی قابل تقلید جانیں۔
رہی یہ بات کہ روافض کی بابت خود ہمارا کیا موقف ہے اور وہ مودودی صاحب کے موقف سے کتنا مختلف ہے تو وہ ہمارے مضامین میں خود بخود واضح ہے جس سے کہ آپ سے آپ عیاں ہے کہ اس موضوع پر ہم مودودی صاحب کو قابل تقلید نہیں بلکہ قابل تصحیح جانتے ہیں۔ یہی معاملہ جمہوری عمل میں ان کی بعد ازاں شرکت کا ہے۔ ’دین کی سیاسی تعبیر‘ کا معاملہ گو وضاحت طلب ہے مگر ’عقیدہ‘ پر ہمارے مضامین ہمارا اپنا ’تصور دین‘ واضح کرنے کیلئے ایک کافی بنیاد ہو سکتی ہے۔ غرض ان سب پہلوؤں سے ہمارا فکر مودودی صاحب پہ انحصار نہیں کرتا اور یہ بات جاننے کیلئے ’ایقاظ‘ پر ایک اچٹتی نگاہ ڈال لینا ہی کافی ہے۔
رہا یہ کہ ان سب امور کے باوجود سقوط خلافت سے متصل بعد کے عشروں میں عالم اسلام کے اندر احیاءو اقامت دین کے معاملہ میں ایک بڑی سطح پر اس سے (یعنی جماعت اور اخوان سے) بہتر کوئی تحریک ہمارے علم میں نہیں، تو یہ بات ہم ضرور کہتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اس کی اول اول کی تحریکی بنیاد کچھ جمع تفریق کے ساتھ اُمت کے کئی طبقوں کیلئے اندریں حالات اب بھی تعاون کی ایک مشترکہ بنیاد بن سکتی ہے .... بشرطیکہ اس سے مراد اول اول کی تحریکی بنیاد ہو نہ کہ مابعد کی تبدیلیاں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کچھ اصولی مباحث تھے جن کا بیان کردیا جانا ہمارے نزدیک اس ’مثال‘ کی تفصیلات میں جانے سے جس کی بابت ہم سے سوال ہوا، زیادہ اہم اور زیادہ بنیادی ہے۔
ان معروضات کا کر دیا جانا ہمارے نزدیک کچھ اس وجہ سے بھی ضروری تھا کہ ایقاظ میں آئندہ بھی اگر وقت کی کسی تحریک کی کسی معاملہ میں تحسین یا کسی معاملہ میں اس پر تنقید ہوتی ہے تو اس کو بھی اس کے درست سیاق میں دیکھا جائے۔ چنانچہ مناسب یہی معلوم ہوا کہ یہاں کسی خاص شخصیت کے مالہ وما علیہ پر گفتگو کی بجائے تحریکوں کی جرح وتعدیل کی بابت اپنے منہج کے بعض پہلو ہی واضح کر دیئے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قارئین!
ایقاظ کسی ’جماعت‘ کی طرف سے نہیں نکلتا مگر ’تحریک‘ ایقاظ کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس میں ہم جہاں ’تحریک‘ کی فکری بنیادوں کا بیان کریں گے وہاں وقت کے تحریکی حالات و وقائع کا جائزہ بھی لیں گے مزید برآں اپنے دور کے تحریکی ورثہ سے استفادہ کی کوشش بھی کریں گے۔
اب تحریکی حالات و وقائع کے جائزہ اور اپنے دور کے تحریکی ورثہ سے استفادہ کا جو عمل ہے اس کے دوران کہیں کچھ مثبت پہلو آئیں گے اور کہیں کچھ منفی پہلو .... خصوصاً جبکہ اس ’جائزہ‘ اور ’استفادہ‘ کا دائرہ ہم برصغیر تک نہیں بلکہ عالم اسلام کے کئی اور گوشوں تک بھی بڑھانا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ہمارے اپنے عقیدہ وفکر کا تعلق ہے تو وہ بہرحال ’ایقاظ‘ کے صفحات میں بیان ہوتا ہی رہتا ہے .... اور وہ ہے عقیدہء اہلسنت‘، جملہً وتفصیلاً۔ ہمارا التزام صرف اور صرف اسی سے ہے۔
مگر جہاں تک اپنے دور کے تحریکی احوال و وقائع کا جائزہ لیا جانے اور اپنے دور کے تحریکی ورثہ سے استفادہ کیا جانے کا تعلق ہے تو ان جوانب میں البتہ ہم اپنا دائرہ کھلا رکھیں گے۔ اس دائرہ میں کہیں سے ہم کوئی اچھی بات لیں گے اور کہیں سے کوئی، جس سے کہ ہمیں امید ہے ہمارے تحریکی فہم میں ایک پختگی آئے گی اور اُمت کے مختلف طبقوں کے ساتھ تعامل کرنے میں ہم اس سے ایک راستہ پائیں گے۔ البتہ اس کیلئے صبر کے ساتھ ساتھ دقت نظر اور وسعت فکر بہرحال مطلوب ہے۔
چنانچہ اسلام کے کسی فکری یا تحریکی پہلو کی ایک اچھی عصری تعبیر ہمیں اگر کہیں بھی نظر آتی ہے تو اس سے مستفید ہونے میں ہم کوئی حرج محسوس نہیں کریں گے اور کسی سے استفادہ کیلئے یہ شرط نہیں لگائیں گے کہ اس شخص یا جماعت یا تحریک کے ہاں سب باتیں درست اور منہج سلف کے عین موافق ہی پائی جائیں .... دیکھا یہ جائے کہ ہم اس کے ہاں سے کیا لیتے ہیں اور کیا چھوڑتے ہیں۔
خود اگر ہم منہج سلف کے پابند رہتے ہیں اور اپنی حد تک اسی کے ترجمان بنتے ہیں اور ہر فکری تخلیق کو اسی کے آئینے میں دیکھنے پہ کاربند، تو عصری ’استفادہ‘ و ’جائزہ‘ و تعاون کا دائرہ ہم بہت وسیع بھی رکھ سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔