Download in PDF format
ایمان کا سبق
فاعبدہ واصطبر لعبادتہ
یہ مضمون ترمیم و اضافے کے ساتھ مطبوعات ایقاظ کی کتاب ایمان کا سبق کے حصہ کے طور پر شائع ہوچکا ہے۔ مضمون کے ترمیم شدہ ایڈیشن کے لئے یہاں کلک کریں
صبر اور ثبات
(امام ابن القیم)
”صبر اور نماز سے مدد لو، بیشک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرمانبرداروں کیلئے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انہیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے“۔
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے“۔
کیا کوئی خاص سبب ہے کہ خدا کے راستے میں بڑھنے اور مدد پانے کیلئے صبر اور صلوت ناگزیر ہیں؟ ان دونوں آیتوں میں آخر ’صبر‘ کو ’صلوت‘ سے بھی پہلے کیوں لایا گیا ہے؟
’صبر‘ کی بابت آئیے امام ابن القیم کی مجلس سے ایک سبق پڑھتے ہیں۔ کتاب ہے: عدہ الصابرین وذخیرہ الشاکرین۔ یہاں ہم کتاب کے چند ابتدائی ابواب سے ہی کچھ موتی چنیں گے۔
عربی کے یہ مقاطع ہم اپنے انداز میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’صبر‘ کی تعریف:
جنید بغدادی سے دریافت کیا گیا: صبر کیا ہے؟
کہا: ”بندگی کی راہ میں آدمی کڑواہٹ کا گھونٹ یوں بھر جائے کہ ماتھے پہ بل نہ آئے“ یعنی بندگی کا بھرم نہ جانے دے۔
عمرو بن عثمان مکی کہتے ہیں:
”صبر یہ ہے کہ آدمی خدا کے ساتھ کھڑا رہے اور بُرے سے بُرے وقت میں بھی آدمی کا قدم نہ ڈگمگائے“۔
ابو محمد حریری صبر کی جو تعریف کرتے ہیں وہ البتہ محل نظر ہے، کہتے ہیں:
”صبر یہ ہے کہ ِسائش اور ِزمائش دونوں ہی ِدمی کی نگاہ میں اپنا فرق کھو دیں اور ہر دو صورت میں ِدمی خاطر جمع رکھے“۔
یہ ِخری تعریف البتہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات نہ تو انسان کے بس میں ہے اور نہ شرعاً انسان اس کا مامور۔ ِسائش اور ِزمائش میں فرق کرنا انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کو نظر انداز کرنے کا پابند انسان کو نہیں کیا جا سکتا۔ انسان کا بس کسی بات پر ہے تو وہ یہ کہ انسان ہر حال میں اپنے ِپ پر قابو پائے اور نفس کو خدا کا فرماں بردار رکھے۔ پس صبر یہ نہیں کہ نعمت اور مصیبت آِدمی کی نگاہ میں یکساں ہو کر رہ جائیں۔ بندگی کی راہ میں عافیت نصیب ہو تو اس جیسی تو کوئی بات ہی نہیں، جیسا کہ رسول اﷲ کی مشہور دُعا کے الفاظ ہیں:
ان لم یکن بک غضب علی فلا ابالی غیر ان عافیتک اوسع لی
”خدایا (میری اس آزمائش کے پیچھے) اگر تیرا مجھ پر غضب نہیں تو پھر مجھے (اس آزمائش کی) کچھ پروا نہیں۔ پھر بھی اگر تیری عافیت نصیب ہو تو اس میں میں البتہ کہیں بڑھ کر کشادگی پاتا ہوں“۔
رسول اللہ کا یہ قول آپ کے اس قول سے متعارض نہیں: ما اعطی احد عطاءاًخیراً و اوسعَ من الصبر ”صبر سے بہتر اور کشادہ تر نعمت کسی کو آج تک نصیب نہیں ہوئی“ دراصل اس موخر الذکر حدیث کا تعلق اس حالت سے ہے جب آدمی کو آزمائش پڑ ہی جائے۔ رہا آزمائش سے پہلے، تو کشادگی عافیت میں اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبرکی تعریف یوں بھی کی گئی ہے:
”صبر نفس کے دلیر ہو جانے کا نام ہے“۔
”صبر یہ ہے کہ جذبات کی بھگدڑ میں آدمی کا دل اپنے ہاتھ میں رہے اور خدا کی فرماں برداری تب بھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے“۔
”صبر یہ ہے کہ بندگی کی راہ میں آدمی نفس کو واویلانہ کرنے دے۔ واویلا کم دلی اور نامردی کا نام ہے تو صبر ہوشمندی اور پامردی کا“۔
’دنیا دراصل ایک دلفریب گزرگاہ ہے۔ اس کے ختم ہوتے ہی یا تو بہشت کی حسین وادی شروع ہو جاتی ہے یا پھر ایک دم دوزخ کا ہولناک گڑھا آتا ہے۔ البتہ یہاں آپ پیدل نہیں۔ اس گزرگاہ کو عبور کرنے کیلئے جو کہ جنت یا جہنم پہ ختم ہوتی ہے، ہر شخص کو ایک سواری حاصل ہے۔ یہ انسان کا نفس ہے۔ سواری کیا ہے ایک اسپ خودسر ہے۔ صبر اب جس قابلیت کا نام ہے وہ ہے اس شتر بے قابو کی لگام ہاتھ میں کرنا اور اس سرکش سواری کو عین وہ جہت دے رکھنا جو کہ سواری اور سوار دونوں کو سلامت پار لگا دے۔ پس جنت یا جہنم میں جا پہنچنے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ ”لگام کیونکر برتی گئی“.... خدایا خیر۔
”صبر یوں سمجھو برداشت کر جانے کا نام ہے۔برداشت کئے بنا چارہ نہیں۔ یہاں کر لو یا وہاں۔ حق یہ ہے کہ خدا کے ممنوع ٹھہرائے ہوئے اموربرداشت کرنا اس سے کہیں بہتر اور وارے کا ہے کہ تمہیں خدا کا عذاب برداشت کرنا پڑے۔ پس سوال صبر کرنے یا نہ کرنے کا نہیں سوال صرف یہ ہے کہ آپ کونسا صبر کرنا چاہتے ہیں، آج جب اس کا فائدہ ہے یا کل جب صبر کریں تو فائدہ نہیں اور بے صبر ہوں تو فائدہ نہیں؟ جب عذاب بھگتنے والے کہیں گے سَوَاء عَلَيْنَآ أَجَزِعْنَا أَمْ صَبَرْنَا مَا لَنَا مِن مَّحِيصٍ (ابراہیم: ٢١)
”(اب) ہم واویلا کریں یا صبر۔ ایک برابر ہے۔ نکلنے کی اب ہمارے لئے کوئی راہ نہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’صبر‘ کی ایک اور بھی تعریف کی گئی ہے ....
نفس کے اندر خدا نے دو قوتیں ودیعت کر رکھی ہیں۔ قوت اقدام اور قوت توقف۔ ’صبر‘ اس ہنر کو پانے کا نام ہے جس کی بدولت آدمی اپنی قوت اقدام کا تمام تر رخ سود مند اشیاءکی جانب پھیر دے جبکہ اپنی قوت توقف کو نقصان دہ امور پر مرکوز رکھے۔ گویا یہ ’تلوار‘ اور ’ڈھال‘ کا بیک وقت استعمال ہے جس میں حوصلہ اور دانش بھرپور طور پر برتی گئی ہو۔ زندگی کی جنگ لڑنے کا یہ طریقہ ’صبر‘ کہلاتا ہے۔
اب اس لحاظ سے مختلف لوگوں کا معاملہ مختلف ہے....
کچھ لوگ ہیں جن میں سودمند امور کے حصول کے معاملہ میں برداشت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔ جبکہ نقصان دہ امور سے بچائو کے معاملہ میں یہ اس درجہ کا صبر نہیں رکھتے۔ پس عبادت اور ریاضت میں صبر کر لینا یہ اپنے لئے آسان پاتے ہیں البتہ خواہشات اور خدا کے حرام کردہ امور کی کھینچ کے آگے یہ بے بس ثابت ہوتے ہیں۔
اس کے برعکس کچھ لوگ ہیں جو خدا کی نافرمانی سے بچنے کے معاملہ میں صبر زیادہ بہتر طور پر کر لیتے ہیں البتہ نیکی اور عبادت کی مشقت سہہ لینا ان کیلئے دشوار ہوتا ہے۔
جبکہ کچھ لوگ ہیں جو نہ اس انداز کا صبر کریں اور نہ اس اندازکا۔
بہترین لوگ البتہ وہ ہیں جن کو صبر کی یہ دونوں صورتیں نصیب ہوں۔
چنانچہ کتنے ہی لوگ آپ دیکھتے ہیں سردی ہو یا گرمی راتوں کو تہجد نہیں چھوٹتی۔ روزوں کی مشقت خوشی خوشی سہہ لیتے ہیں جو کہ بے حد مستحسن ہے۔ البتہ نظر ہے کہ قابو میں نہیں۔ آنکھ خدا کی نافرمانی سے نہیں چوکتی۔ دوسری جانب دیکھیے۔ ایسے لوگ ہیں جو گناہوں سے بچنے کا معاملہ خاصا اچھانبھا لیتے ہیں ’پرہیز گاری‘ خوب نصیب ہوتی ہے البتہ جہاں ا مر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فرض ان کو بلاتا ہو، جہاں کفار اور منافقین کے خلاف جہاد مطلوب ہو، جہاں باطل کے روبرو کلمہء حق بلند کرنے کا مقام ہو .... وہاں ان میں گویا حوصلہ ہے اور نہ جان۔ یہاں البتہ یہ پامردی کا ثبوت نہیں دے پاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’صبر‘ کی ایک اور بھی تعریف کی گئی ہے جو کہ بے حد خوبصورت ہے....
نفس کی دنیا دراصل کچھ اس نقشے پہ بنی ہے کہ اس میں دو فریق ہر دم برسر جنگ رہتے ہیں۔ ایک جانب عقل وہوش کا لشکر ہے تو دوسری جانب اھواءوخواہشات کا۔ ایک جانب دین ہے تو دوسری جانب ہوائے نفس۔ جیت ہار تو متحارب فریقین میں چلتی ہی ہے۔ اس جنگ کا میدان انسان کا شعور بنتا ہے اور اس کا دل۔ انسان کی اپنی ذات میں ایک جنگ برپا ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خود اس میں غیر جانبدار رہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ممکن ہی نہیں۔ پس یہ انسان ہے جو چاہے اِس فریق کی جیت کروا دے یا اُس فریق کی۔ ’صبر‘ اب جس چیز کا نام ہے وہ یہ کہ اپنے قلب وشعور میں جاری اس جنگ کے اندر انسان خواہش اور ہوائے نفس کے برمقابل عقل ودین کا واضح واضح طرفدار بنے اور اس فریق کو اُس فریق پر مسلسل فتح دلوائے۔ پس درون کی اس جنگ میں دین اور عقل کا پلڑا بھاری کروا دینے کا نام ہی ’صبر‘ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حقیقتِ صبر کتنی جہتوں سے بیان ہوتی ہے؟
صبر ایک ایسی عظیم حقیقت ہے جس کیلئے لغت میں بے شمار الفاظ اور تعبیرات مستعمل ہیں۔ گویا یہ اس کی مختلف جہتیں ہیں۔ ان سب جہتوں سے دیکھیں اور غور کریں تو گویا ’دین‘ بس ’صبر‘ ہی کا نام ہے۔
’صبر‘ نفس کی ایک اختیاری حالت کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہے نفس کا اپنی ایک ایسی خواہش پر جو حق سے متصادم ہے فتح پالینا اور اس کے مقابلے میں حق کی جیت کروا دینا۔ نفس کی یہ حسین کیفیت البتہ انسان کے اندر سو رنگ میں جھلکتی ہے۔ اس کا ایک مختصر جائزہ اب ہم یہاں لیں گے:
.... فحش و بے حیائی کے مقابلے میں نفس کا صبر کر رکھنا ’عفت‘ کہلاتا ہے۔ اس معنی میں صبر کا متضاد ہوگا گراوٹ اور بے شرمی۔
.... لغویات کے بالمقابل نفس کا صبر کر رکھنا ’سنجیدگی‘ کہلاتا ہے اور اس کا متضاد ہوگا بے ہودگی۔
.... خواہش شکم کے مقابلے میں ضبط نفس نصیب ہو تو صبر کی اس حالت کو ’بے لوثی‘ اور ’بے غرضی‘ کہا جائے گا، رال پہ انسان کو قابو ہو اور اس معاملہ میں آدمی اپنے آپ کو ہلکا پڑنے اور بے عزت ہونے سے روک رکھے تو اس کو ’سیر چشمی‘ کہا جائے گا۔ اس پہلو سے صبر کا متضاد ہوگا خِست، کمینگی، ندیدہ پن اور خود غرضی۔
.... زبان پہ قابو ہو یہی صبر پھر صداقت، صاف گوئی، عیب پوشی اور نرم خوئی کی صورت انسان کے اندر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس معنی میں صبر کا متضاد ہوگا ہذیان، دروغ، گالی گلوچ، غیبت، بہتان، رگیں پھلانا اور اوٹ پٹانگ بکنا۔
.... عیش پسندی کے مقابلے میں نفس کا صبر کئے رہنا پھر ’زہد‘ کہلاتا ہے۔ اس کا متضاد ہے دنیا طلبی اور تن پرستی۔
.... اپنی ضرورتوں کو قابو میں لے آنا .... نفس کی اس حالت کو ’قناعت‘ کہا جاتا ہے۔ اس پہلو سے صبر کا متضاد ہے حرص اور بوالہوسی۔
.... طیش میں نفس قابو رہے تو صبر کی یہ حالت ’بردباری‘ کہلائے گی اور اس کا متضاد اشتعال اور اوت پن۔
.... رویہ و اسلوب کے معاملہ میں حالت صبر کو ’وقار‘، ’متانت‘ اور ’طبیعت کے ٹھہرائو‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کا متضاد ہے عجلت، بھڑک پن، جھنجھلاہٹ اور شخصیت کا ہلکاپن۔
.... اندیشے جو انسان کو حق سے برگشتہ کریں اور خطرے جو انسان کو بلندیوں کی جانب بڑھنے سے روکیں، نفس کا ان کو جھیل جانا اور ان کے مقابلے میں ڈٹ جانا ’شجاعت‘ اور ’بسالت‘ کہلاتا ہے۔ صبر کی اس حالت کا الٹ ہے بزدلی اور بوداپن۔
.... اپنے ساتھ زیادتی کرنے والے پر آدمی قدرت پالے تو آدمی کا اس وقت اپنے آپ کو سنبھال لینا اور خود کو حق کا اسیر کر لینا ’تسامح‘ اور ’بلند اخلاقی‘ کہلاتا ہے۔ اس پہلو سے صبر کی ضد ہے منتقم مزاجی اور شتر کینگی۔
مال کی محبت کے مقابلے میں انسان کا نفس پر فتح پا لینا .... کسی بلند مقصد کیلئے دولت کا فراق آرام سے سہہ جانا ’سخاوت‘ کہلاتا ہے۔ نفس کے ’صبر‘ کے اس مقام کو نہ پہنچ پانا بخل کہلاتا ہے۔
سستی وکم ہمتی کے مقابلہ میں انسان کا نفس پر فتح پانا ’جفاکشی‘ کہلاتا ہے۔ اس معنی میں صبر کا متضاد ہے کسالت اور نکما پن۔
دوسروں کا احسان لینے کا روادار نہ ہونا اور عزت نفس کی خاطر ہر قسم کی صورتحال سہہ جانا خود داری کہلاتا ہے۔
کسی دوسرے کے بوجھ کو اپنا بوجھ بنا لینا، اور اس کیلئے جو سہنا پڑے سہہ جانا، مروت کہلاتا ہے۔
.... انصاف کی بات کرنا کسی وقت جان جوکھوں کی بات ہو، کسی کی حق بات تسلیم کرنا اور انصاف کی کڑواہٹ سہنا دل گردے کا کام ہو تو حق پرستی ہی صبر کا دوسرا نام ہوجاتا ہے۔
اعلیٰ ظرفی بھی ایک حوصلہ طلب کام ہے۔ ظرف رکھنا صبر ہی کی ایک صورت ہے۔
یوں سمجھیے صبر کے بے شمار نام ہیں اور بہت سے عنوان۔ کوئی اعلیٰ وبرگزیدہ کام انجام دیتے ہوئے، کسی نازیبا فعل سے دستکش رہتے ہوئے .... غرض ہر موقعہ اور ہر مناسبت پر ’صبر‘ کی کوئی نہ کوئی صورت ایک بامقصد انسان کو درپیش رہتی ہے۔ صبر کی حقیقت معلوم ہو جائے تو آپ محسوس کریں گے دین سارے کا سارا صبر ہے جو کبھی کسی صورت میں ظاہر ہوگا تو کبھی کسی صورت میں۔ ’صبر‘ گویا ’بندگی‘ کی حقیقت پرکاربند رہنا ہے اور ’بندے‘ کے لائق مقام پر برقرار رہنا۔
ظاہر ہو یا باطن، شعور واحساس ہو یا عمل، گفتار ہو یا کردار .... نفس کا عظمت کی جانب بلندہونا اور پھر بلندی پہ ٹھہرا رہنا جس مسلسل عمل کا مرہون منت ہے اس کو دین میں ’صبر‘ سے تعبیر کیا گیا ہے پھر کیوں نہ ہو جو قرآن میں کہہ دیا جائے:
إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ (الزمر: ١٠)
”صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبر کی اقسام اور صبر کی مکلف مخلوقات:
صبر دو قسم کا ہے۔ جسمانی اور ذہنی۔
جسمانی صبر: جیسے محنت مشقت سہنا، بیماری، چوٹ، درد، گرمی سردی وغیرہ برداشت کرنا وغیرہ وغیرہ۔
ذہنی صبر: جیسے دکھ، افسوس، پریشانی، کسی عزیز کی فرقت یا کسی نقصان کا برداشت کرنا وغیرہ وغیرہ۔
پھر صبر کی یہ ہر دو صورت مزید دو صورتوں میں تقسیم ہوتی ہے: اختیاری اور اضطراری۔ یعنی ایک وہ صبر جو آپ اپنی مرضی سے اور اپنے اختیار کردہ راستے میں کرتے ہیں چاہے وہ جسمانی ہو یا ذہنی۔ اور ایک وہ صبر جو آپ کو کرنا ہی پڑتا ہے اور جہاں آپ ہیں ہی بے بس۔
اب یہ صبر اختیاری اور صبر اضطراری کی تقسیم بے حد اہم ہے....
جہاں تک صبر اضطراری کامعاملہ ہے تو یہ انسان کیا جانور سب کو پیش آتا ہے۔ یہ ہم انسانوں کو بھی ویسے ہی درپیش ہوتا ہے جس طرح کہ جانوروں کو۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ صبر کی اس قسم میں، یعنی جہاں ہو ہی بے بسی اور جہاں کوئی چارہء کار اور کوئی جائے فرار ہی نہ ہو، بعض جانور انسان کی نسبت کہیں زیادہ ہمت برداشت کے مالک ثابت ہوئے ہیں۔ انسان کا جانوروں سے امتیاز اگر کوئی ہے تو وہ ہے صبر اختیاری۔ خواہ جسمانی صبر کا معاملہ ہو یا ذہنی صبر کا۔
تاہم بہت سے لوگ صرف انہی معاملات میں صبر وحوصلہ اور ہمت وبرداشت کامظاہرہ کر پاتے ہیں جن میں وہ اور چوپائے برابر کے شریک ہیں۔ یعنی جہاں کوئی چارہء کار ہی نہ ہو۔ یعنی صبر اضطراری۔ رہا یہ کہ کسی مقصد کی خاطر آپ کوئی راستہ چلیں، جہاں صبر کرنے نہ کرنے اور حوصلہ دکھانے نہ دکھانے کا آپ کو اختیار ہو .... یعنی صبر اختیاری، تو یہ بہت کم لوگوں کے نصیب میں آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا جنات بھی انسانوں کے ساتھ صبر کی اس قسم (یعنی صبر اختیاری) میں مشترک ہیں؟
جی ہاں۔ کیونکہ شرعی امرونہی کا مکلف ہونے کی بنیاد ہی یہ ہے.... یعنی صبر اختیاری.... انسان کا آپ اپنی مرضی سے تکلیف اٹھانا .... آپ اپنی مرضی سے اپنے مرغوبات نفس کو چھوڑ دینا.... تو اب جنات بھی جب انسانوں کی طرح ’مکلف‘ ہیں تو مکلف ہونے کی اس اساس میں بھی وہ ہمارے ساتھ مشترک ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مکلف ہونے کی بعض عملی صورتوں کے اندر ہم میں اور ان میں کچھ معاملات کا فرق ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ملائکہ بھی صبر کی اس صورت میں ہمارے ساتھ مشترک ہیں؟
معاملہ یہ ہے کہ ملائکہ کو خواہشات نفس کے ساتھ پالا نہیں پڑا۔ جہاں تک عالم بشر کا معاملہ ہے، اور عالم جنات کا بھی، تو ایک طرف ان کو عقل اور علم اور دین عطا ہوا ہے تو دوسری جانب خواہشات وشہوات۔ ان دونوں عوامل کی کھینچا تانی ہی وہ اصل بنیاد ہے جہاں ’صبر‘ کا تصور معرض وجود میں آتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا صبر کی تعریف ہی یہ ہے کہ آدمی عنصرِ علم وعقل ودین کو اپنی ذات میں عنصرِ خواہش وشہوت پر فتح دلائے اور یوں اپنے وجود میں آپ اپنے اختیار سے، اور حوصلہ وہمت سے بھرپور کام لیتے ہوئے، حق کا قیام کروائے۔
پس ملائکہ کو امتحان کی یہ صورت درپیش ہی نہیں۔ ان کے حق میں عبادت اور اطاعت یوں ہے جیسے ہمارے حق میں سانس لینا۔ پس ملائکہ کو صبر کی یہ صورت تو درپیش نہیں۔ ان کے حق میں صبر کی کوئی اور صورت ہو سکتی ہے جو ان کے لائق مقام ہو۔ یعنی اپنی تخلیق کے مقاصد کو بروئے کار لانے کے معاملہ میں ان کا ثبات و استقلال۔ البتہ ’خواہش‘ اور ’ہوائے نفس‘ کے ساتھ دوبدو ہونے کی آزمائش سے وہ محفوظ ہیں اور ’طبیعت‘، ’مزاج‘ اور ’جبلت‘ وغیرہ کے ساتھ جھپٹنے پلٹنے کی کوئی مہم بھی ان کو درپیش نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم میں کا کوئی انسان پس جب ’صبر‘ اختیار کرتا ہے .... یعنی اس میں جو داعیہء دین وعلم خدا نے رکھ دیا ہے وہ اس میں پائے جانے والے داعیہء ہوس وخواہش پہ جب بھاری پڑ جائے .... تو اس کو فرشتوں سے ایک نسبت ہونے لگتی ہے۔ اور اگر اس میں داعیہء ہوس وخوہش ہی زور آور ہو یہاں تک کہ وہ اس میں پائے جانے والے داعیہء دین وعلم کو مات دے دے تو اس کو نسبت شیاطین سے ہے۔ اور اگر داعیہ طبیعت وجبلت مانند پیٹ پوجا، جسمانی مطالب وجنسی ضروریات ہی اس پر حاوی ہو کر رہے اور اس کے اندر ودیعت کئے گئے داعیہء عقل وفہم کو دبا ڈالے تو اس کو نسبت پھر چوپایوں سے ہوتی ہے۔
قتادہ کہتے ہیں: خدا نے فرشتے پیداکئے گویا عقول ہیں ہوس کا نام نہیں۔ جانور پیدا کئے گویا مجسم ہوس ہیں عقول نام کو نہیں۔ البتہ انسان کو پیدا کیاتو اس میں عقل بھی رکھ دی اور ہوس بھی۔ اب جس شخص کی عقل وہوش اس کی ہوس پہ بھاری پڑ جائے وہ انسان ہو کر گویا فرشتہ ہے۔ اور جس کی ہوس اس کی عقل کو چلتا کرے تو وہ انسان ہو کر گویا جانور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سونے پہ سہاگہ!!!
اب ایک اور بات پر ذرا غور کرو....
انسان پیدا ہوتا ہے تو ناقص حالت میں پیدا ہوتا ہے۔ کھانے پینے کے سوا تب کوئی اور اشتہا خدا نے اس میں نہیں رکھی ہوتی۔ جہاں تک ’صبر‘ کا تعلق ہے تو اس مرحلہ میں اس کا اور جانوروں کا سمجھو ایک سا معاملہ ہے۔ یعنی صبر وہاں جہاں بے بسی ہو۔ اختیاری فیصلے کا اور اپنی خواہش کو آپ اپنی مرضی سے قابو میں لانے کا ابھی اس کو شعور ہی نہیں ہوتا .... تاآنکہ ہوش کی عمر شروع نہ ہو جائے۔
پھر جب اس میں کھیل کود کی اشتہا آتی ہے تو کچھ نہ کچھ فیصلہ واختیار کی صلاحیت بھی اس کو مل جاتی ہے مگر یہ بڑی حد تک موہوم رہتی ہے۔
پھر جب یہ اس عمر کو پہنچتا ہے جب اس میں جنسی تسکین کی اشتہا پیدا ہو تو تب تک اس میں قوت صبر واختیار بھی نمایاں ہو چکی ہوتی ہے۔ تب عقل اس کو چلاتی ہے۔ صبر وضبط، شعور اور قوت اختیار اس کو پابندیاں قبول کر لینے پر آمادہ کرتی ہے!
مگر عقل وشعور کا یہ راج جس میں ہوس واشتہا کے باغی لشکروں کو تتر بتر کر رکھا جائے اور خواہشات کو صرف وہاں سر اٹھانے دیا جائے جہاں سلطانِ عقل آپ ہی اس کی اجازت دے .... عقل وشعور کا یہ راج انسان کی ذات میں آپ سے آپ قائم نہیں ہو جاتا۔ بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ہوش میں قدم رکھنے کے ساتھ ہی ہدایت کی پو بھی ذہن کے افق پر پھٹنے لگتی ہے۔ پھر جوں جوں یہ سن بلوغ کے قریب ہوتا جاتا ہے توں توں اس کے افق پر ’روشنی‘ بڑھتی جاتی ہے۔ مگر یہ ہدایت اور علم جو یہ عمومی طور پر اپنے ماحول سے لیتا ہے حد درجہ ناقص اور مشتبہ ہوتی ہے۔ یہ کوئی ایسی ہدایت نہیں ہوتی جس سے دنیا وآخرت کے سب مصالح اس پر روشن ہو جائیں۔ ماحول اس کو جو ہدایت دیتا ہے زیادہ سے زیادہ وہ اس کو دنیا کے ہی کچھ مصالح اورمفاسد کا راستہ روشن کرکے دے سکتی ہے۔ ایسا انسان دنیوی سود وزیاں ہی کی بنیاد پر اپنے لئے ’صبر‘ کا ایک لائحہ تجویز کر پاتا ہے۔ یوں سمجھیے اس کے افق پر پو تو پھٹی اور کچھ نہ کچھ دیکھنا ممکن تو ہوا مگر اس کی فضا ابھی شدید گرد آلود ہے اور دھوئیں کی کالی دبیز تہہ نے اس پر ہنوز پردہ تان رکھا ہے۔ اب اس کے آسمان پر اگر نبوت کا سورج بھی طلوع ہو جائے اور رسالت کی روشنی یوں اس کو میسر آجائے تو زہے نصیب!!! تب تو اس کے شعور کی دنیا کسی اور ہی انقلاب سے آشنا ہو جاتی ہے۔ تب اس کو وہ اجالا میسر آتا ہے کہ دو جہان اس پر روشن ہو جاتے ہیں۔ تابناکی اس کا خیر مقدم کرتی ہے۔ راستے کے سب اچھے بُرے پہلو .... سب مصالح اور مفاسد .... جہاں جہاں کوئی ٹھوکر لگ سکتی ہے اور جہاں جہاں سے کچھ غنیمت ہاتھ لگ سکتی ہے.... سب کچھ اس کو نصف النہار کی صورت دکھائی دیتا ہے اور ’راستہ‘ اس کیلئے آخر تک روشن ہو جاتا ہے۔ اب جب اس پر وہ مہم واضح ہوئی جو دنیا میں آنے کے کارن اس کو درپیش ہے تو اب یہ ہر وہ ہتھیار اٹھاتا ہے جس کی اس مہم میں اس کو ضرورت ہے اور ہر وہ تدبیر اختیار کرتا ہے جو اس کو سلامت پار پہنچا دے۔
یہ مہم کیا ہے، جیسا کہ ہم نے کہا، عقل اور ہوس کی جنگ ہے۔ ہدایت اور خواہش کی ہاتھا پائی ہے۔ شعور اور جبلت کی لڑائی ہے۔ سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس جنگ کا نقشہ ہی انسان پر واضح ہو جائے۔ اس چیز کو ’یقین‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ باقی رہ جاتا ہے کہ آدمی یہ جنگ، جس کی حقیقت اس پر واضح ہو چکی، ہوشمندی اور حوصلے کے ساتھ لڑلے۔ اس چیز کو ’صبر‘ کہا جاتا ہے۔ پس راستہ روشن ہونا’یقین‘ کہلائے گا اور راستہ چل کر دکھانا ’صبر‘۔ نہ راستہ روشن ہوئے بغیر کوئی چارہ ہے اور نہ راستہ چلے بغیر۔ دونوں چیزیں ایک دوسری کو مکمل کرتی ہیں اور ایک دوسری کو حد درجہ بامعنی بناتی ہیں۔
’یقین‘ اور ’صبر‘ .... ایمان دراصل ان دونوں چیزوں کا نقطہء اتصال ہے اور ’امامت‘ کا منصب انہی دو سعادتوں سے بدرجہ اتم پائے جانے پر منحصر۔
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ (السجدہ: ٢٤)
”ہم نے ان کو امام بنا دیا وہ ہمارے حکم سے ہدایت ورہنمائی (کا فریضہ) سرانجام دیتے تھے۔ (یہ تب ہوا) جب وہ صابر ہوئے اور ہماری آیات پر پختہ یقین رکھنے لگے“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’صبر‘ کی ضد ’شہوات‘ ہیں تو ’یقین‘ کی ضد ’شبہات‘۔ ’صبر‘ اور ’یقین‘ اگر نجات کا توشہ ہیں تو ’شہوات‘ اور ’شبہات‘ یہاں شیطان کے ہتھیار۔ ہر دور کی جاہلیت انہی دو ہتھیاروں سے لڑتی ہے۔ آج کی مادی جاہلیت نے بھی خباثت میں جو بے نظیر عروج پایا ہے اور شیطنت میں جو بے مثال مہارت حاصل کی ہے اس کا راز یہی دو باتیں ہیں: شہوات اور شبہات .... وہی شیطان کا پرانہ طریقہء واردات۔
یہ بلاشبہ ایک دشوار گزار گھاٹی ہے۔ خوش نصیب وہ ہے جس کا خدا مددگار ہو۔ بدنصیب وہ ہے جس کو خدا دھتکار دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کے بچے! دیکھنا پاؤں بہت سنبھال کر رکھنا۔ دنیا کی یہ سرسبز وادی ایک دم ختم ہوگی۔ اگلا پیر کچھ معلوم نہیں کہاں پڑے۔ ’آنکھ‘ کھلے تو کچھ معلوم نہیں سامنے کیا آئے، بہشت یا دوزخ۔ واپسی کا راستہ وہاں نہیں۔ یہاں ایک مہلت ہے سو اس کی ضمانت نہیں۔ خدا کے سوا کیا کوئی سہارا ہے؟ پر دیکھنا تو یہ ہے کہ خدا کی جانب تمہارا رخ ہے یا تمہاری پشت؟؟؟ سارا فیصلہ بس اسی ایک بات پر ہو جاتا ہے اور فیصلے کی یہ بنیاد بہت ہی معقول ہے۔ کہو کیا یہ بات غلط ہے؟؟؟
فَفِرُّوا إِلَى اللَّهِ إِنِّي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ مُّبِينٌ (الذاریات: ٥٠)
”بھاگ آؤ خدا کی طرف۔ میں تو، تم کو واضح خبردار کرنے آیا ہوں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔