“حسبہ کے ماتحت محکمہ جات”
لیکچر: ڈاکٹر سفر الحوالی
www.alhawali.com
(مترجم: محمد زکریا)
یوں تو اسلام منکرات سے نبرد آزما ہونے کی ذمہ داری ہر مومن کا حسب استطاعت فرض بتلاتا ہے، لیکن اسلامی ریاست کی اصل ذمہ داری اور مقصد تاسیس ہی منکرات کی بجائے معروف کو معاشرے میں فروغ دے کر ایک قابل فخر اور قابل اتباع کلچر کو رائج کرنا ہے۔
سعودی عرب کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر سفر الحوالی کا یہ مقالہ نظام حسبہ کی اسلامی ریاست میں اہمیت اور فعالیت پر ایک جامع مضمون کی حیثیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے قارئین کے استفادہ عام کیلئے اسے ایقاظ میں شائع کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ سے فاضل مقالہ نویس شیخ سفر الحوالی ہسپتال میں زیر علاج ہیں، تمام قارئین سے درخواست ہے کہ وہ ان کی جلد صحت یابی کیلئے دُعا کریں۔
الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت:
الحمد ﷲ رب العالمین والصلوہ والسلام علی رسولہ الاٰمین وعلی الہ وصحبہ اجمعین وبعد
الامر بالمعروف والنھی عن المنکر اسلام کے عظیم شعائر میں سے ایک نہایت اہم شعبہ اور اسلامی ریاست کی وزارتوں میں سے ایک اہم وزارت ہے۔ اگرچہ اسلامی ریاست کا مقصد اولین الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے لیکن عملی طور پر خلافت راشدہ کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی خلافت میں اس فریضے کا احیاء”وزارت مظالم“ کے عنوان سے ہوا تھا۔ زیر نظر مقالہ میں ہم وزارت حسبہ کو تفویض کئے جانے والے شعبہ ہائے جات پر روشنی ڈالیں گے اور اس بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کریں گے کہ اسلامی ریاست کس طرح الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے کیونکہ یہ فریضہ اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ایسی خصوصیت ہے جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ کو بہترین اُمت کا لقب دیا گیا ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔
اِس اہم فریضہ کو باحسن طریقے سے انجام دینے کیلئے اللہ تعالیٰ اسی سورہ کی آیت ١٠٤ میں ارشاد فرماتا ہے:
”تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور بُرائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے“۔
سورہ حج میں اسلامی ریاست کے فرائض، اقامت صلوہ اور نظام زکوٰت کے علاوہ جس تیسرے فریضہ کا حکم دیا گیا ہے وہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے:
(سورہ حج: ٤١)
”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوت دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور بُرائی سے منع کریں گے“۔
فریضہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کی اہمیت اور وجوب سے متعلق کتاب وسنت میں بے شمار نصوص ہیں جن کا استقصا کرنا ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر یہ امر ہے کہ مسلمان عملاً کس طرح ان نصوص مبارکہ سے عہدہ برآہوئے تھے۔ معاشرے کی سطح پر ان احکام کو کس طرح منطبق کیا گیا تھا، اسلامی ریاست کے پھیلائو اور اُس وقت کے تقاضوں کے مطابق اس فریضے کے نفاذ میں کیا کیا تبدیلی اور وسعت پیدا کی جاتی رہی تھی کہ جس سے ہر زمانے اور ہر معاشرے میں اس فریضہ پر عمل پیرا ہونا ممکن رہا تھا اور جس کی وجہ سے اُمت محمدیہ اجتماعی سطح پر خیر پر رہی تھی۔ یہاں تک کہ اس فریضہ کو ترک کرنے سے ایسا بُرا زمانہ آگیا ہے کہ جس سے آپ پوری طرح آگاہ ہیں۔ اجتماعی سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر مکمل طور پر فراموش کردیا گیا ہے اور اس فریضے کے نافذ ہونے سے معاشرے میں جو برکات ہوا کرتی تھیں اب وہ قصہ پارینہ بن چکی ہیں اکثر اسلامی ملکوں میں سرے سے ’وزارت حسبہ‘ جو سرکاری سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتی ہے سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ مملکت سعودی عرب میں .... بحمدللہ .... الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا شعبہ سرکاری سطح پرقائم ہے لیکن اس کے اختیارات محدود اور کارکردگی غیر تسلی بخش ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس محکمہ کو فعال کرکے اُس کے وہ تمام اختیارات بحال کئے جائیں جو تاریخ اسلامی میں وزارت حسبہ کے پاس ہوا کرتے تھے۔ ان اختیارات کی تفصیل ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔
رسول اﷲ کے زمانہ مبارک میں حسبہ کی فعالیت:
الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کتاب عزیز کے موضوعات میں سے ایک بنیادی موضوع ہے اور چونکہ قرآن مجید رسول اللہ پر نازل ہوا تھا اس لئے آپ اپنی سیرت واخلاق میں الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا پیکر تھے۔ آپ پوری حیات طیبہ میں قرآن کے احکام اپنے قول وفعل سے واضح کرتے رہے، طیب اور پاک چیزوں کو حلال کرتے اور خبیث اور ناپاک چیزوںکو حرام کرتے تھے۔ آپ کی دعوت اول وآخر اس فریضے کے گردا گرد گھومتی تھی۔ آپ کے اخلاق قرآن کا نمونہ تھے اور قرآن کی دعوت یا تو ان فرامین پر مشتمل ہے جن پر عمل پیرا ہونا مطلوب ہے، ایسے فرامین الامر بالمعروف کہلاتے ہیں یا پھر ان فرامین پر مشتمل ہے جن سے رکنا اور دوسروں کو روکنا مقصود ہے، ایسے منہیات النھی عن المنکر کہلاتے ہیں۔ بنا بریں الامر بالمعروف اور النھی عن المنکر اس معنی میں ایک وسیع تر مفہوم کا حامل شعبہ ہے اور بلاشبہ سب سے بڑا معروف امر اللہ کی توحید اور سب سے بڑا منکر اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے جبکہ دیگر منہیات کے لئے ”اصول فقہ“ میں حرام اور مکروہ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ رسول اللہ بذات خود اور اپنے اصحاب کے ذریعے الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فرض نبھاتے رہے جس کی وجہ سے اس فریضہ کیلئے الگ وزارت تشکیل نہیں دی گئی تھی بلکہ یہ فریضہ بلاواسطہ رسول اللہ خود انجام دیتے تھے یہی صورت آپ کے بعد خلافت راشدہ میں رہی، اور خلافت راشدہ میں بھی ہمیں وزارت حسبہ کا الگ محکمہ نہیں ملتا جس طرح وزارت دفاع اور دوسری وزارتیں خلفاءراشدین کے اختیار میں ہوا کرتی تھیں اسی طرح الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ بھی رسول اللہ کی طرح خلفاءراشدین بھی خود انجام دیا کرتے تھے اور کوئی شہر یا قریہ، چھوٹا ہو یا بڑا، خلفائے راشدین کی نگرانی سے بچ نہیں پاتا تھا۔ یہاں تک کہ عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کا زمانہ آجاتا ہے، خلافت پر متمکن ہونے کے بعد خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز نے بنو امیہ کی ناانصافیوں کی تلافی کیلئے بذات خود الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا کام اپنے ہاتھ میں لے کر اسلام کے اس عظیم ترین شعار کا احیاءکیا، انہیں اس بات کا پورا ادراک تھا کہ حسبہ کا فریضہ خلیفہ وقت کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، عمر بن عبدالعزیز سرکاری عہدے داروں کی ناانصافیوں اور مظلوم کی داد رسی کیلئے خود تشریف فرما ہوا کرتے تھے اور مسلمانوں کی شکایات کا فوری تدارک فرمایا کرتے تھے آپ کے عہد مبارک میں سرکاری افسران کے خلاف شکایات سننے اور ان کی تلافی کرنے کیلئے تشکیل پانے والے نظام کا نام ”وزارت مظالم“ رکھا گیا تھا اور اسی وقت سے ”وزارت مظالم“ آنے والے ادوار میں ایک مستقل، یا وزارت حسبہ کے تحت بطور ایک شعبہ کے خلافت میں ایک فعال عنصر کے شامل رہی ہے۔
عباسی خلافت میں حکومت کے فرائض وزارتوں کے ذریعے پورے کرنے کا رواج ہو گیا جو ایک نئی تبدیلی تھی لیکن وزارت عدل وانصاف کے ساتھ ساتھ وزارت مظالم اور وزارت حسبہ جس کا فریضہ سرکاری سطح پر الامر بالمعروف والنھی عن المنکر تھا، الگ الگ وزارتوں کی شکل میں اپنے فرائض انجام دیا کرتے تھے، شیح الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ وزارت حسبہ کے اختیارات اور فعالیت مختلف صوبہ جات اور حکمرانوں کے لحاظ سے مختلف ہوا کرتی تھی، بعض اوقات وزارت حسبہ کے اختیارات محدود ہوا کرتے اور بعض اوقات وزارت حسبہ کو بڑی بڑی ذمہ داریاں سونپ دی جاتی تھیں، کبھی ایسا بھی ہو جاتا کہ حسبہ کامحکمہ بنا کر اسے وزارت عدل وانصاف یا وزارت مظالم یا پولیس کی سرپرستی میں دے دیا جاتا۔
اگر ہم تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کریں تو ہم اسلامی ریاست میں چار مرکزی اور بنیادی وزارتیں پائیں گے، خواہ یہ چاروں وزارتیں خلیفہ کی اپنی ذات میں مرتکز ہوں جیسا کہ رسول اللہ کی ذات گرامی چاروں حیثیتوں سے مرقع تھی اور اسی طرح خلافت راشدہ، یا الگ الگ وزارتوں کی شکل میں خلیفہ کی سرپرستی میں کام کرتی ہوں، یہ چار وزارتیں وزارت عظمی، وزارت عدل وانصاف، وزارت مظالم اور وزارت حسبہ پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔
ملاحظہ فرمائیں حکومت کے مرکزی ارکان میں سے چوتھا رکن وزارت حسبہ کا ہوا کرتا تھا۔ اسلامی تاریخ میںموجودہ زمانے کی طرح بیسیوں وزارتیں نہیں ہوا کرتی تھیں بلکہ چار مرکزی ارکان یا وزارتوں پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور اِن وزارتوں کو ’دواوین‘ کہا جاتا تھا دواوین دیوان کی جمع ہے۔ عموماً اسلامی ریاست ان چار دواوین پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔ یعنی (١) دیوان الوزارہ یا دیوان الحجابہ جس کیلئے ہم نے وزارت عظمیٰ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ (٢) دیوان القضاءاور اُس کے ذیلی محکمہ جات جسے ہم نے وزارت عدل وانصاف کہا ہے۔ (٣) دیوان مظالم سرکاری افسران اور حکومتی عہدے داروں کا محاسبہ کرنے والا محکمہ۔ (٤) دیوان حسبہ اور الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔
مذکورہ بالا دواوین اپنے ذیلی شعبہ جات کے ساتھ جن اختیارات اور افعال کو انجام دیا کرتے تھے جنہیں ہم اگلی سطور میں بیان کریں گے، وہی اختیارات اور افعال اگر آج کے دور میں ان چار وزارتوں کو سونپ دیئے جائیں تو ہر دور میں ہر ہر زمانے میں یہ چاروں وزارتیں وہی نتائج لا سکتی ہیں جو اب صرف تاریخ کا حصہ بن کر رہ گئے ہیں، جب مسلمانوں کے پاس ایک تاریخ ساز نظام سیاست رہا ہے اور اب بھی اس کا احیاءکیا جا سکتا ہے تو ہمیں اغیار سے لے کر کسی قسم کے سیاسی نظام کی پیوند کاری کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلامی ریاست میں دواوین کی تقسیم کار سے پہلے ہم ایک بار پھر اس بات کو دہرانا چاہیں گے کہ اسلامی ریاست یا حکومت یا اسلامی ریاست میں تشکیل پانے والی وزارتیں یا دواوین کی اصل غرض وغایت کیا ہے۔ ہم یہاں اس ابہام کو بھی دور کر دیناچاہیں گے کہ اسلامی ریاست میں دیوان حسبہ کا کام الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کرتا ہے اور باقی دواوین اس فریضہ سے غیر متعلق ہیں یا ان کا کام محض نظم وضبط کو قائم کرنا اور لاقانونیت کو ختم کرنا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ کتاب ”قاعدہ فی الحسبہ“ میں اسلامی ریاست کی غرض وغایت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: معلوم ہو کہ اسلام میں تمام وزارتوں کی ایک ہی غرض وغایت ہے کہ اَن یکون الدین کلہ ﷲ (دین پورے کا پورا اللہ کے لئے ہو جائے) اور اللہ کا کلمہ سربلند ہو جائے، اس مقصد کیلئے اُس نے مخلوقات کو پیدا کیا ہے، کتابیں اتاریں، نبی اور رسل بھیجے اور اللہ کے کلمہ کو سربلند کرنے کیلئے رسول اللہ اور آپ کے اصحاب برسرپیکار رہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (ذاریات ٥٦)
”میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کیلئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری بندگی کریں“۔
انبیاءکرام کی بعثت کا مقصد بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجا ہے اُس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو“۔
قاعدہ فی الحسبہ میں شیخ الاسلام بتاتے ہیں کہ انسان اجتماعیت پسند ہے اور اس مقصد کیلئے اسے معاشرہ تشکیل دینا پڑتا ہے بنا بریں ہر زمانے اور ہر معاشرے کیلئے حکومت کی تشکیل ناگزیر ہے، حکومت قانون نافذ کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات قوانین کا مجموعہ ہیں جن میں کچھ باتوں کو کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور کچھ باتوں سے رک جانے کا حکم دیا گیا ہے اور یہی اللہ کی شریعت ہے جسے معاشرے میں نافذ کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ان امور کی وضاحت کے بعد ابن تیمیہ لکھتے ہیں:
وجمیع الولایات الاسلامیہ انما مقصودھا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر
اسلام میں تمام وزارتوں کا ایک ہی فریضہ ہے کہ وہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر پر عمل کریں سب کی سب وزارتیں، ان کے افسران، عہدے داران، شعبہ جات، سرکاری محکمے اپنی پوری صلاحیتیں اس فریضے کو انجام دینے میں استعمال کریں گی، جس طرح اسلام میں ہر شخص اس بات کا مخاطب ہے کہ وہ اپنی صلاحیت اور استطاعت کے مطابق الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انفرادی سطح پر انجام دے جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا:
من راٰی منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان
”تم میں سے جو منکر کو دیکھے تو اُسے چاہیے کہ وہ اپنی پوری قوت منکر کو تبدیل کرنے میں کھپا دے اگر اس کی استطاعت نہیں تو پھر زبان سے اگر زبان سے کہنے کی بھی استطاعت نہیں تو پھر اپنے دل میں اُسے بُرا سمجھے مگر یاد رکھو یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے“۔
یہ حدیث جس طرح انفرادی سطح پر ہر شخص کو اس فریضہ کی ادائیگی کا پابند کرتی ہے اُسی طرح اسلامی حکومت، اس کی تمام وزارتیں اور تمام شعبہ جات قانوناً الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کو بزور نافذ کرنے والے ہوتے ہیں۔
ابن تیمیہ کے زمانے میں وزارت دفاع سب سے بااختیار ادارہ تھا، اُس وقت اُسے ولایہ الحرب الکبری یا نیابہ السلطنہ کہا جاتا تھا، ہم اپنے لحاظ سے اسے چیف آف دی آرمی سٹاف کہہ سکتے ہیں۔ آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی میں نیابہ السلطنہ بھی اُسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح وزارت حسبہ یا دوسرے ادارے ذمہ دار ہیں۔
شیخ سفر الحوالی نیابہ السلطنہ کے اختیارات کیلئے صلاح الدین ایوبی کی مثال دیتے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی خلیفہ عادل نور الدین کے سپاہ سالار تھے اور بعد ازاں نور الدین کے جانشین بنے۔ سلطان بننے کے باوجود وہ سپاہ سالار بھی خود تھے اور خود ہی جہاد کرتے تھے جیسے سابقہ خلفاءکا طرز حکومت تھا کبھی وہ خلافت کے ساتھ سپہ سالار کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھتے اور کبھی کسی اور کو نامزد کر دیتے تھے لہٰذا وزارتیں خواہ کم ہوں یا زیادہ وہ دراصل خلافت یا وزارت کبری یعنی امام یا خلیفہ کی شاخیں ہوتی ہیں اور یہی بات امور سیاسیات پر کتب لکھنے والے تمام مؤلفین نے لکھی ہے جسے ماوردی، ابویعلی، ابن خلدون اور ازرقی، ابن حزم کی بھی اس موضوع پر ایک تصنیف ہے جس میں تمام وزارتوں کو خلافت کا حصہ قرار دیا گیا ہے۔ جب نیابہ السلطنہ کا یہی فریضہ ہے تو اس کی شاخیں خواہ بہت زیادہ بااختیار ہوں یا محدود اختیارات کی حامل وزارتیں جیسے شاہراہوں کا نظم ونسق کرنے والا محکمہ، محکمہ مال اور محکمہ حسبہ، شیخ الاسلام کے نزدیک سب الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے۔
اس وضاحت کے بعد اب آپ آسانی سے انسان ساختہ قوانین پر عمل کرنے والی ریاست اور الٰہی ضابطہ پر کاربند رہنے والی اسلامی ریاست میں فرق بتا سکتے ہیں۔
غیر اسلامی حکومتیں اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کریں، پولیس کو فری ہینڈ دیں یا مارشل لاءلگائیں ان کا مقصد عوام الناس پر جبر کرنا اور ظاہری طور پر امن وامان برقرار رکھ کر وقت کی حکومت کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اس کے علاوہ طاقت کے مظاہرے کی اور کوئی غرض وغایت نہیں ہوتی ہے اسی لئے ابن تیمیہ ایک اور جگہ فرماتے ہیں لیس المراد من الشرائع مجرد ضبط العوام .... اسلام میں قوانین کے نفاذ کا مقصد صرف عوام الناس کو پرامن رکھنا نہیں ہے بلکہ قوانین کے نفاذ کا مقصد لوگوں کی ظاہری اور باطنی اصلاح ہے۔
یہ بات ابن تیمیہ نے اس لئے لکھی تھی کہ ہر زمانے کا حاکم اور ہر معاشرے اور ہر ملک کا حاکم روٹین کے کاموں اور عوام کو کنٹرول کرنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھ کر اسلامی ریاست کی اصل ذمہ داری الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کو فراموش نہ کردے جیساکہ انسان ساختہ قوانین پر قائم حکومتیں سمجھتی ہیں۔ غیر اسلامی حکومتیں سرے سے اصلاح ___ خواہ ظاہری ہو یا باطنی ___ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتی ہیں۔ حکومت الہیہ اور غیر اسلامی ریاست میں یہ ایک عظیم ترین فریق ہے، احکم الحاکمین کی شریعت دلوں کی اصلاح اور دلوں کی بیماریاں دور کرنے کیلئے نازل ہوئی ہے جبکہ انسان ساختہ قوانین فریب خوردہ آراء، الل ٹپ قوانین اور ذاتی اغراض کو سامنے رکھ کر بنائے گئے دساتیر پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دوسری طرف شیخ الاسلام حکومت الہیہ کا مقصد بیان کرتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی اصلاح، عامہ الناس اور خواص کی اصلاح، حاکم اور رعایا کی اصلاح، افسر اور ماتحت کی اصلاح، رئیس اورخادم کی اصلاح، دنیا اور آخرت کی اصلاح اور غیر اسلامی حکومت کے انسان ساختہ قوانین اگر کبھی نظم وضبط کی وجہ سے عوامی خوش حالی اور ترقی کا باعث بھی بن جائیں تو یہ مقصد صرف دنیا اور اس کی عارضی لذتوں تک محدود رہتا ہے۔ آخرت میں کامیابی ایسی حکومتوں کے سان وگمان میں بھی نہیں ہوتی، حکومت الہیہ ایک وسیع تر مفہوم کی حامل ریاست ہوتی ہے۔ دنیا اور آخرت میں کامیابی کا وسیع تر مفہوم۔
دواوین کا آپس میں ربط:
دیوان الحجابہ یا دیوان السلطنتہ کو موجودہ سیاسی اصطلاح میں حکومت کہہ سکتے ہیں جو وزیر اعظم اور وزراءکی کابینہ پر مشتمل ہوتی ہے، انتظامیہ اس کے ماتحت کام کرتی ہے۔ فوج اور پولیس انتظامیہ کا حصہ کہلاتے ہیں اور یہ حکومت کے اوامر کو نافذ کرتے ہیں۔
دیوان المظالم:
دیوان المظالم حکومت اور حکومت کے اہلکاروں کی ناانصافیوں اور تجاوزات کے خلاف یہ ادارہ عوام الناس کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کرنے کیلئے قائم ہوتا ہے اگرچہ اس اصطلاح کا باقاعدہ رواج عمر بن عبدالعزیز کی خلافت میں ہوا تھا بعض علماءکرام دیوان المظالم کی ابتداءاس سے پہلے عبدالملک بن مروان کی خلافت کو قرار دیتے ہیں کیونکہ عبدالملک بن مروان ہفتے میں ایک دن سرکاری افسران کے خلاف شکایات سننے کیلئے بیٹھا کرتا تھا۔ دیوان المظالم ایک سیاسی اصطلاح کے عبدالملک بن مروان کی خلافت یا عمر بن عبدالعزیز کی خلافت میں رائج ہوئی ہو عملی طور پر خلیفہ کے نامزد والیوں کی شکایات اور ان کا تدارک اسلامی ریاست اول روز سے کرتی رہی ہے۔ خلفاءراشدین اور عمر بن عبدالعزیز بذات خود اس فریضے کو انجام دیتے تھے اور عباسی خلافت میں اس مقصد کیلئے بااختیار ادارہ قائم ہو گیا تھا۔ الغرض دیوان المظالم حکومت اور حکومت کے نامزد والیوں اور اہلکاروں کے خلاف عوام الناس کی شکایات سننے اور ان کا ازالہ کرنے کا مجاز ادارہ ہوتا تھا۔
دیوان القضائ:
دیوان القضاءمتنازع فریقین کے درمیان عدل وانصاف قائم کرنے کیلئے عدالتی نظام، وزارت عدل وانصاف کے مترادف ادارے کا نام دیوان الحسبہ یا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر۔ اسلامی ریاست کا یہ چوتھا رکن تھا اور ہمارا موضوع بھی یہی ہے کہ دیوان الحسبہ کی نگرانی میں کتنے شعبہ جات آتے ہیں اور ان کا باقی دواوین سے کیا تعلق بنتا ہے۔
اگر موجودہ حکومتیں مذکور بالا چار دواوین یا ارکان پرمشتمل ہوں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی وزارتیں ختم ہو جائیں گی اور کتنے ادارے ان چار ارکان میں ضم کرنے پڑیں گے۔ مزید برآں آپ یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ دیوان الحسبہ، حکومت میں کتنا اہم اورمرکزی رکن ہے ائمہ کرام اور علم سیاسیات پر لکھنے والے مؤلفین دیوان الحسبہ کو ایک نہایت فعال اور بااختیار وزارت کے ضمن میں ذکر کرتے ہیں۔ اگلی سطور میں ہم علماءکرام کی آراءکی روشنی میں دیوان الحسبہ کو تفویض کیے جانے والے کاموں کو بیان کریں گے۔
امام ماوردی دیوان القضا اور دیوان الحسبہ کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وزارت حسبہ دو امور میں وزارت قضاءسے کم اختیار رکھتی ہے۔ وزارت حسبہ منکرات کے علاوہ دوسرے متنازع دعوے سننے کی مجاز نہیں ہے جیسے فریقین کے درمیان معاہدات، لین دین کے معاملات اور حقوق اور مطالبات سے متعلق نزاعی معاملات سب وزارت حسبہ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں، یہ معاملات وزارت قضاءمیں زیر بحث لانے کے ہیں۔ سرعام ہونے والے منکرات کا بروقت ازالہ وزارت حسبہ کے دائرہ اختیار میں ہے اسی طرح جس شخص کاکوئی حق ثابت شدہ ہے اور دوسرا فریق انکار نہیں کرتا (صرف لیت ولعل سے کام لے رہا ہو) تو اس حق کا صاحب حق کو دلانا وزارت حسبہ کے اختیارات میں ہے۔ جہاں ایک فریق دعوے دار ہو اور دوسرا دعوے کا انکار کرتا ہو (اور فیصلہ قرائن اور گواہان یا سرکاری ریکارڈ کا محتاج ہو) ایسے دعوے سننے اور فیصلہ کرنے کا مجاز ادارہ وزارت قضاءہے۔
وزارت حسبہ کے اختیارات میں ایک تو متنازع دعوے نہیں آتے یہ اختیار وزارت قضاءکو ہے اور دوسرا وزارت حسبہ کادائرہ اختیار ثابت شدہ حقوق کو صاحب حق تک پہنچانے تک محدود ہے اس لحاظ سے بھی وزارت حسبہ اور وزارت قضاءکے اختیارات میں فرق ہے لیکن ایک تیسری جانب میں وزارت حسبہ کے اختیارات وزارت قضاءسے زیادہ ہیں۔
وزارت حسبہ کسی معروف کام کے کرنے یا منکر کو روکنے کا کام ازخود کر سکتی ہے خواہ کوئی فریق دعوے دار نہ ہو، یعنی قاضی کا یہ کام نہیں کہ وہ بازاروں اور محلوں میں جا کر معاملات نبٹائے بلکہ قاضی کے پاس ایک فریق جو دعوے دار ہوتا ہے وہ مقدمہ دائر کرتا ہے اور مدعی علیہ اس دعوے کا انکار کرتا ہے محتسب بذات خود موقع پر جا کر تصفیہ کراتا ہے اور حقدار کو حق دلاتا ہے اور ظالم کو ظلم کرنے سے روکتا ہے۔ مثال کے طور پر محتسب اس بات کا جائزہ لے گا کہ کہیں کوئی والد (زیادہ مہر حاصل کرنے کیلئے) بلاوجہ اپنی بیٹیوں کو گھر بٹھائے ہوئے تو نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ اسے مجبو رکرے گا کہ اپنی بیٹیوں کی شادی کرے۔ وہ یہ بھی جائزہ لے گا کہ کسی یتیم کا سرپرست اس پر ظلم تو نہیں کر رہا اور اس یتیم کی سرکاری یا ذاتی) آمدنی سے تعرض تو نہیں کر رہا، بازاروں میں چل پھر کر دیکھے گا کہ معاملات (شرعی اصول کے مطابق) درست ہو رہے ہیں۔
امام ماوردی قاضی اور محتسب کے فرق کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: قاضی کیلئے ضروری ہے کہ اس کے پاس مدعی دعوی کرے اور مدعی علیہ دعوے کا انکار کرے، دعوی دائر کرنے سے پہلے جو معاملہ فریقین میں ہے وہ محتسب کے اختیارات میں آتا ہے۔ اختیارات کی یہ تقسیم اس وقت ہے جب دواوین تشکیل پا گئے ہوں (اگر خلیفہ ازخود یہ کام کرے تو پھر سارے اختیارات خلیفہ کے پاس ہوں گے)۔ (مترجم)۔ محتسب دعوے کی نوبت سے پہلے بازاروں اور محلوں میں پھر کر دیکھے گا کہیں کسی مکان سے ناگوار خوش بو آتی ہو تو وہ جائزہ لے گا کہ یہاںکوئی شراب کی بھٹی تو نہیں، اگر ایسا ہوا تو وہ اُسے خود توڑ دے گا راتوں کو جا کر کھوج لگائے گا، کہیں سے طبلے، سارنگی کی آواز تو نہیں آرہی، آواز کی سمت جا کر وہ آلات موسیقی برآمد کرے گا اور ضروری ہے کہ وہ انہیں موقع پر ہی توڑ کر ناکارہ کردے، مورتیوں کو جہاں پائے ان کا چہرہ مہرہ بگاڑ کر رکھ دے۔ ہماری یہ بات اس اصول سے ماخوذ ہے کہ نبی بازار جاتے تھے۔ آپ نے سبزی فروش کے گٹھے سے گیلی ترکاری برآمد کی اور سبزی فروش سے ڈانٹ کر پوچھا یہ گیلی کیوں ہے؟ آپ نے اس موقع پر ارشاد فرمایا تھا من غش وفی روایہ من غشنا فلیس منا ”جس نے ملاوٹ کی، دوسری روایت میں الفاظ ہیں جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے“۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ عمر بن خطاب بذات خود محتسب کا کام کرتے تھے اور گلی محلوں میں جا کر مسلمانوں کے احوال سے ازخود باخبر رہتے تھے۔ ایسے امورمیں وزارت حسبہ، وزارت قضاءسے زیادہ بااختیار ہے۔ وزارت حسبہ کو حکومت کی طرف سے ایک ایسا اختیار ہے جو وزارت قضاءکو نہیں ہے۔ وزارت حسبہ کا فریضہ معاشرے میں (منکرات کے خلاف) ڈر اور خوف پیدا کرنا ہے جبکہ وزارت قضاءکا فریضہ انصاف کے تقاضوں کو پوراکرنا ہے۔ امام ماوردی کے یہ الفاظ ہیں:
الحسبہ موضوعہ الرھبہ، والقضاءموضوع للمناصفہ
اسلامی فقہ کی رو سے محتسب کے اختیارات سلطان کے اختیارات کی طرح ہیں کیونکہ سلطان سے بھی رعیت میں جرائم کرنے کی جرات پیدا نہیں ہوتی اور محتسب کی بارعب شخصیت سے بھی یہی غرض پوری ہوتی ہے۔ پھر ایک لحاظ سے محتسب قاضی کی طرح بھی ہوتا ہے جو گلیوں اور بازاروں میں جا کر خلاف شریعت کاموں کا موقع پر فیصلہ کرکے مناسب تادیبی کارروائی بھی کرتا ہے (اور بیشتر معاملات جن کا موقع پر انکار ممکن نہیں ہوتا محتسب کی بروقت مداخلت سے عدالت تک جانے کی نوبت ہی نہیں آپاتی)۔
فقہاءکرام نے جہاں قاضی اور محتسب کے اختیارات بتائے ہیں وہاں محتسب اورمتطوع (عام شہری جو منکر کے خلاف آواز اٹھائے) کے درمیان فرق بھی واضح کیا ہے، فقہ کی کتابوں میں محتسب اور متطوع کے درمیان نو فروق بتلائے گئے ہیں لیکن انہیں منجملہ ایک جملے میں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔ متطوع منکرات کے خلاف آواز اٹھانا اپنا فرض سمجھتا ہے کیونکہ شریعت ہر شخص کو الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کا انکار حسب استطاعت کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اس بناءپر یہ نہیں کہا جا سکتاکہ احتساب کا محکمہ بنانے کے بعد باقی مسلمانوں سے منکر کو تبدیل کرنے کی ذمہ داری موقوف ہو جاتی ہے۔
متطوع بلامعاوضہ اور سرکاری اختیارات کے بغیر اصلاح معاشرہ کا کام کرتا ہے اور محتسب کو سرکاری اختیارات کے علاوہ بیت المال سے وظیفہ بھی ملتا ہے کیونکہ محتسب اِسی کام میں مشغول رہتا ہے اور اپنے روزگار کا کوئی اور بندوبست کرنے کیلئے فراغت نہیں پاتا، متطوع منکر کا انکار زبان سے کرتا ہے اور دوسروں کی کڑوی کسیلی باتوں کو بھی برداشت کرتا ہے وہ حدود نافذ نہیں کر سکتا، سزا نہیں دے سکتا، تعزیر نافذ نہیں کر سکتا سوائے انتہائی سنگین حالات کے جیسے گلی میں بدکاری ہو رہی ہو تو ظاہر ہے کوئی مسلمان ایسے موقع پر زبان سے انکار کرنے پر کفایت نہیں کرے گا بلکہ سرکاری کارروائی سے پہلے وہ خود بھی کوئی نہ کوئی تادیبی کارروائی جو حدود سے کم درجے کی ہوئی کرے گا۔
قاضی اور محتسب کے سزا دینے کے اختیارات:
محتسب موقع پر سزا دینے کا اختیار رکھتا ہے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: الامر بالمعروف والنھی عن المنکر پر صرف اسی صورت میں عمل ہو سکتا ہے جب منکرات کرنے والوں کو بروقت شرعی سزائیں دینے کا انتظام موجود ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ حکومت سے وہ کام لیتا ہے جو قرآن سے نہیں لیتا۔ شرعی سزائوں کو نافذ کرنا گورنر پر واجب ہے لیکن وہ سزائیں جو از قسم حدود (سرقہ، زنا) سے ہیں ان کے نفاذ کا اختیار صرف قاضی کو ہے۔ جہاں تک تعزیرات کا تعلق ہے جیسے ڈانٹ ڈپٹ کرنا، تادیبی تشدد کرنا اور بسا اوقات محتسب کے اپنے قید خانے بھی ہوا کرتے تھے جہاں مختصر مدت کیلئے مجرم کو قید میں رکھا جاتا تھا، تو اس قسم کی سزائیں دینے میں محتسب بااختیار ہے فقہاءکرام نے محتسب کی مفوضہ سزائوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے جیسا کہ شیخ الاسلام نے اختصار سے از قسم حدود کے علاوہ سزائوں کے اختیار کا ذکر کیا ہے ہم ان سزائوں کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ حسبہ کی اہمیت اور فعلیت ذہنوں میں اجاگر ہو جائے اور نبی علیہ السلام کی اس سنت کا احیاءکرکے ہم اس کے دنیاوی اور اخروی فوائد پا کر اللہ کا شکر بجا لائیں۔
محتسب کی مفوضہ سزائیں
١) جنس کو تلف کرنا:
محتسب کو یہ اختیار حاصل ہے کہ منکرات پھیلانے والے آلات اور اسباب کو موقع پر تلف کردے، جیسے آلات موسیقی، طبلہ، طنبور، سارنگی وغیرہ اگر آلات موسیقی کو تلف کیا جا سکتا ہے تو پوجے جانے والے مجسمے کسی صورت میں ایستادہ رہنے نہیں دیئے جائیں گے، اگر محتسب کو اطلاع ہوتی ہے کہ کسی دور دراز مقام پر یا کسی شہری آبادی سے دور قبیلے میں صنم پرستی یا مقدس اشجار یامقدس مورتیاں پائی جاتی ہیں تو محتسب کا یہ فرض بنتا ہے کہ بت شکنی کرے اور درختوں کو جڑ سے اکھاڑ دے۔
متاخرین فقہاءکرام نے خور و نوش والی غذائوں کی بابت اپنی آراءکو قلم بند کیا ہے۔ اسلامی فتوحات سے بے شمار اضلاع اسلامی قلم رو میں شامل ہو گئے تھے اور کہیں کہیں دودھ میں ملاوٹ بھی ہوتی تھی اس بابت فقہاءکرام فرماتے ہیں کہ کون سی صورت بہتر ہے ایسے دودھ کو بہادیا جائے یا اسے مستحقین پر صدقہ کر دیا جائے جو دودھ میں پانی ملا کر پینے کو پسند کرتے ہیں جہاں تک دودھ بہا دینے کا تعلق ہے تو اس پر عمل اس وجہ سے روا ہے کہ خلیفہ راشد عمر بن خطاب نے ملاوٹ شدہ دودھ بہا دیا تھا، لیکن ہم ان فقہاءکرام کو بھی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو ملاوٹ شدہ دودھ صدقہ کرنے کی ترجیح دیتے ہیں۔ دونوں کی آراءاس لحاظ سے متفق ہیں کہ شیر فروش کو دونوں صورتوں میں دودھ سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ اور اُسے بروقت ملاوٹ کی سزا دودھ کے نقصان کی صورت میں بھگتنی پڑتی ہے۔
فقہاءکرام نے دودھ کو بطور مثال پیش کیا ہے اس پر ہر قسم کی پکی پکائی اور خام غذائوں کو قیاس کیا جا سکتا ہے، گلے سڑے پھل بیچنے والے سے محتسب پھل چھین کر فقراءمیں تقسیم کردے یا انہیں تلف کردے، دونوں سزائوں کا اُسے اختیار ہے کسی حد تک یہ پھل کی نوعیت پر بھی ہے کہ وہ کتنا گل سڑ چکا ہے فقراءاس سے مرض میں مبتلا تو نہیں ہو جائیں گے۔
فقہاءکرام نے غذائوں کے علاوہ روزمرہ اشیاءکی تمام خلاف شرع چیزوں کو بیان کیا ہے۔ پارچہ بافی کے اڈوں پر اگر ریشم کے سوت سے کپڑا بنا جا رہا ہو تو کیا اُسے تلف کیا جائے گا یا صدقہ کیا جائے، ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ ریشم کے پارچہ جات اڈے پر تلف کر دیئے جائیں، اسی طرح شراب کے برتنوں کے ساتھ جام اور کنٹارا وغیرہ تلف کی جائے گی۔
آلات موسیقی از قسم سارنگی اور طنبور کے بارے میں ایک وقیع رائے یہ ہے کہ ان کی ساخت تبدیل کرکے اس کے چوبی اور دھاتی حصے کسی اور کام میں استعمال کئے جائیں، ہم اس رائے کا احترام کرتے ہیں لیکن راجح ترین رائے یہی ہے کہ آلات موسیقی تلف کر دیئے جائیں الا یہ کہ اُسی وقت آگ کی بھٹی یا آگ سینکنے کیلئے چولہے میں جھونک دیئے جائیں اور اس طرح ان کی تپش اور حرارت سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہو تو اٹھا لیا جائے۔ جہاں تک جدید برقی (الیکٹرانک) اور نفیس آلات موسیقی کا تعلق ہے تو محتسب انکی قیمت سے ہرگز نہ گھبرائے اور بالفور انہیں تلف کردے اور جدید آلات موسیقی کو تلف کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہ لے۔
صرافہ بازار میں چل پھر کر دیکھ لے، اگر مردانہ زیورات (طلائی انگوٹھی) قابل فروخت ہوں تو انہیں تلف کردے یا اپنی نگرانی میں اسے تبدیل کرکے زنانہ ساخت میں ڈھال دے۔
پارچہ فروش 100% سوتی کپڑے کا دعوی کرتا ہو اور لیبارٹری ٹسٹ سے اس میں صرف 30% قطنی سوت ہو، اس صورت میں فقہاءکرام کی اس رائے پر عمل کرتے ہوئے اگر تلف کردے تو بھی درست ہے اور اگر فقراءپر صدقہ کردے تو یہ بھی صائب ہے، اس سزا کا مقصود ملاوٹ کرنے والے کو سزا دینا اور دوسروں کو عبرت دلانا ہے تاکہ بازار میں ملاوٹی اشیاءفروخت نہ ہوں۔
تاریخ اسلامی میں محتسب یہ فرائض انجام دیتا رہا ہے اور بازار کو ملاوٹی سامان سے پاک کرکے مسلمانوں کیلئے صحت بخش غذا کوالٹی کنٹرول کا انتظام کرنے، خالص اشیاءکی فراہمی کو ممکن بناتا رہا ہے۔ موجودہ زمانے کی طرح وہ زمانہ منافقین کا نہیں تھا۔ ہمارے ہاں یہ کام صحافت کرتی ہے، اب کون جانے یہ الزام بلیک میلنگ کیلئے ہے یا واقعتا سچ لکھا جا رہا ہے، ان کے لکھنے سے بازار اور معاشرے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں ہوتی۔ محتسب کی عدم موجودگی یا سعودی معاشرے میں غیر فعالیت کی وجہ سے گلی کوچوں اور بازاروں میں غیبت، الزام تراشی چغلی اور گالی گلوچ عام ہے اور معاشرے کا رخ برائی کی سمت میں ہی ہے جبکہ وزارت حسبہ کے مؤثر ہونے کے زمانے میں ہر شخص چوکنا ہوتا تھا، محتسب کے ڈر سے محلے اور بازار ان بیماریوں سے پاک تھے ہر شخص جانتا تھاکہ ہمارے اوپر نگرانی کرنے والے دیانت دار افراد موجود ہیں، حسبہ کے اہل کار بااختیار ہوتے تھے اور لوگوں کے معاملات میں بروقت مداخلت کرکے انہیں شرعی تقاضوں کے مطابق کرنے کے مجاز تھے سوائے ان معاملات میں حسبہ کے اہلکار مداخلت نہیں کرتے تھے جو اس وقت کے علمائے کرام اور فقہائے عظام اپنے ماحول کو سامنے رکھ کر انہیں مداخلت سے منع کر دینے کا فتوی جاری کردیتے تھے۔ علمائے کرام کی اس نگرانی اور ان کے فتوی کے وقار کی وجہ سے حسبہ کا محکمہ اپنی حدود میں رہ کر صرف اصلاح کا کام کرتا تھا۔ بلیک میلنگ کی اُسے علماءکی مداخلت کی وجہ سے جرات نہیں ہوتی تھی۔
٢) تلف کرنے کی بجائے جنس کی ساخت تبدیل کرنے کی سزا:
جنس کی ساخت تبدیل کرکے اسے دوسرے جائز کام میں استعمال کرنا رسول اللہ کے اس فعل سے ماخوذ ہے۔ آپ کے پاس ایک ایسا پردہ تھا جس پر تصویریں بنی ہوئی تھیں آپ نے اُسے پھاڑ کر دو گدے بنا لئے جن پر چلا جاتا تھا اس حدیث کو بخاری مسلم احمد ابو دائود اور امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور اسی کی بابت شیخ الاسلام نے فرمایا ہے کہ جنس کی ساخت کو تبدیل کرکے استعمال کرنے میں یہ بنیادی حدیث ہے اسی طرح وہ حدیث بھی اس اصول کی بنیاد ہے جس میں آپ نے جانور نما کھلونوں کے سر کاٹ دیئے تھے اور اس کے بعد وہ کھلونے ایسے لگتے تھے جیسے درخت ہوں۔ ہیئت کی اس تبدیلی کے بعد وہ بچوں کے کھیلنے کیلئے چھوڑ دیئے گئے تھے۔
مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ہر قسم کے منکرات سے ایک جیسا سلوک نہیں فرماتے تھے۔ کبھی آپ نے جنس کو تلف کردیا اور کبھی آپ نے تصویروں والے پردے کے گدے بنا لیے اور گڑیوں کے سر کاٹ کر ان کے ڈھانچے کو کھیلنے کیلئے چھوڑ دینے کا طریقہ اپناتے تھے۔
ٹیلی ویژن، نغموں کی کیسٹیں اور ویڈیو فلمیں تلف کی جائیں یا کسی اور استعمال میں لائی جائیں اس کا فیصلہ اس امر پر موقوف ہے کہ اگر تلف کرنے کی سزا زیادہ مؤثر ہے اور آئندہ فروخت کنندہ تائب ہو جائے گا تو ان اجناس کونذر آتش کردیا جائے، جن کیسٹوں میں برہنہ تصویریں ہوں، تو ان کا تلف کرنا زیادہ بہتر ہے لیکن اگر کوئی فائدہ مند لیکچر یا علمی (سائنسی) مواد ریکارڈ کرکے قابل استعمال بنا لیا جائے تو یہ بھی درست ہے، دونوں طریقوں میں سے جو طریقہ بھی محتسب قرین مصلحت سمجھے اُس کے اختیار کرنے میں وہ آزاد ہے۔
محتسب کا میدان عمل:
نماز سے غفلت برتنے والوں کو مسجد میں لائے بغیر نہ چھوڑنا، محتسب اسلام کے اس بنیادی رکن کی بروقت ادائیگی کو سختی سے ممکن بنائے اور ہمارے ملک (مملکت سعودی عرب) میں اقامت صلوٰت کے لئے سرسری کارروائی کی جاتی ہے، محکمہ احتساب کے اہل کار بازاروں میں پھر مائیکرو فون پر اس جملے کی تکرار کرتے رہتے ہیں، نماز کا وقت ہوگیا، نماز کا وقت ہو گیا اگر کوئی دکاندار یا سیلزمین شٹر ڈال کر بیٹھے رہے تو زیادہ ہوا تو انہیں مخاطب کرکے کارروائی پوری کردے گا کہ اب تک نماز پر نہیں گئے۔محتسب کی اس بلا توبیخ یاد دہانی پر بھی ہمارے شہری دارالافتاءسے تقاضا کرتے ہیں کہ محتسب کو نرم رویہ رکھنے کی تلقین کی جائے، سبحان اللہ، نماز کی طرف توجہ دلانا ہر مسلمان مرد وعورت پر واجب ہے، اتنی سی یاد دہانی تو تمام شہریوں کی ذمہ داری ہے محتسب کی ذمہ داری عام شہریوں سے بڑھ کر ہے، اسکا وقار ہو، محض کسی چوراہے پر اس کی موجودگی خرید وفروخت کرنے والوں کیلئے نماز کی بروقت ادائیگی کو تازہ رکھتی ہو، محتسب کی شخصیت سے نماز کا خیال آجانا شہریوں میں اس قدر راسخ ہو کہ محتسب کی صورت دیکھتے ساتھ انہیں مسجد جانے کا خیال آجائے، چاہے ابھی اذان بھی نہ دی گئی ہو اور کتنا اچھا ہے کہ محتسب خود سے کہے ابھی اذان نہیں ہوئی!
اگر اذان کے بعد کوئی شخص دکان میں رہ جاتا ہے تو ایک دو بار نرمی اختیار کرنے کے بعد محتسب تادیبی کارروائی کرنے کا مجاز ہو۔
جمعہ اور عیدین اسلام کے شعائر ہیں، محتسب اس بات کو یقینی بنائے کہ جمعہ کے روز قبل از خطبہ دکانیں بند ہوں اور خطیب کے منبر پر بیٹھنے سے پہلے نمازی جامع مسجد میں پہنچ کر نفل ادا کر چکے ہوں۔ اقامت صلوٰت کی اہمیت اور اس فریضے سے پیچھے رہ جانے والوں کے متعلق رسول اللہ کی تادیبی کارروائی کرنے کے ارادے کو بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
”اگر گھروں میں عورتوں اور نابالغ بچوں کے جل جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نماز کیلئے کسی شخص کو متعین کرکے (محلوں میں)نکل جاتا اور جو مرد گھروں میں بیٹھے ملتے ان کے مکانات نذر آتش کر دیتا“۔
اس حدیث کی بنیاد پر فقہاءکرام محتسب کو نماز سے پیچھے رہ جانے والے مردوں کیلئے تادیبی کارروائی کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ فقہاءکرام نماز استسقاءجو فرض عین نہیں ہے اس کیلئے بھی یہی تجویز کرتے ہیں کہ عوام الناس کو نماز استسقاءسے پیچھے نہ رہنے دیا جائے۔
تجارتی لین دین پر نظر رکھنا، بازار کا تمام کاروبار محتسب کی کڑی نگرانی میں ہونا چاہیے، خلافت کے زمانے میں اسلامی ریاست کے تمام صوبوں بشمول اندلس (اسپین) مصر، بغداد، خراسان اور دیگر صوبہ جات سب بازاروں میں محتسب تعینات تھے اور ہر دکان دار خواہ خوردہ فروش ہو یا تھوک کا کاروبار کرنے والا اپنے اوپر محتسب کی نگرانی کو محسوس کرتے تھے، ترازو اور باٹ کی جانچ پڑتال، غذائی اجناس میں ملاوٹ، کوالٹی کنٹرول اور کیمیائی مرکبات کی تحلیل کیلئے آلات لئے محتسب پوری بازار کو کھنگال ڈالتا تھا۔
شاہراہوں کی نگرانی کرنا، بازار میں خرید وفروخت کے دوران میں خواتین اور مردوں میں اختلاط نہ ہونے دینا، مشکوک حرکات پر نظر رکھنا، کوئی خفیہ مقام اس کی نظر سے اوجھل نہ ہو، وقفوں وقفوں سے وہ ایسے مقامات کا جائزہ لیتا تھا، اگر مرد و عورت تنہائی میں شک پیدا کریں تو پوری تسلی کرے اور غیر محارم کے درمیان ملاقات نہ ہونے دے، ان مقامات پر اگر نشہ آور اشیاءکا استعمال ہوتا ہو تو اس کا فوری طور پر تدارک کرے۔ بازار اور راستوں کی نگرانی میں بے شمار امور آجاتے ہیں جن کا آپ بآسانی تصور کر سکتے ہیں اور اس طرح آپ محتسب کی بازار اور راستوں کی نگرانی سے متعلق وسیع سرگرمیوں کا بھی تصور کر سکتے ہیں۔ مزید برآں ان ذمہ داریوں سے عہدہ برآہونے کیلئے محتسب کے معاونین کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ تجارتی لین دین میں سودی معاملات کی نگرانی، آجر اور اجیر کے درمیان غیرمنصفانہ معاہدے غرض لین دین اور معاہدے کی اس طرح نگرانی کرے گا کہ شریعت کےخلاف تجارتی معاملات نہ ہو سکیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں، بیشتر سودی معاملات فریقین کی رضا مندی سے طے پاتے ہیں اور محکمہ قضاءمیں یہ معاملات آنے ہی نہیں پاتے، محتسب کا یہ فریضہ ہے کہ وہ سودی معاہدات اور معاملات کالعدم قرار دے، جن اڈوں پر ایسا بیوپار ہوتا ہو انہیں منہدم کردے اور سود خوروں کو قرار واقعی سزا دے۔
اسی طرح محتسب سٹہ بازی پر کڑی نظر رکھے گا، ہمارے بازاروں میں سٹہ بازی کس قدر رواج پا گئی ہے یہ آپ سے پوشیدہ نہیں۔ محتسب کی نگرانی اور تادیبی کارروائی سے سٹے بازی کا خاتمہ ہو جائے تو اشیاءکی قیمتیں اعتدال پر آجائیں گی، عام گاہک کے علاوہ چھوٹے سرمایہ دار بھی بازار میں فعال ہو جائیں گے اور اجارہ داری کا خاتمہ ہو جائے گا۔
سادہ لوح دہقان اپنا غلہ فروخت کرنے کیلئے شہروں کا رخ کرتے ہیں، آڑھت کے ملازمین شہر سے باہر ہی بازار سے کم داموں میں سودا کر لیتے ہیں،اس طرح دہقان بازار کے نرخ سے مطلع ہی نہیں ہو پاتا، محتسب اس بات کو یقینی بنائے گا کہ دیہی علاقوں سے غلہ اور دوسری اجناس فروخت کرنے والے منڈی تک بلاخوف وہراس پہنچ سکیں اور منڈی کے بھائو کے مطابق اپنی اجناس فروخت کریں۔
بعض فقہاءکرام نے محتسب کے اعمال میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ وہ چیزوں کے نرخ متعین کرے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں یہ پیچیدہ اور اختلافی مسئلہ ہے لیکن فقہاءکرام کی اس رائے سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ محتسب کو کس قدر وسیع اختیارات دیے جا سکتے ہیں۔
تاریخ اسلامی میں بازار اور عوامی راستوں پر محتسب کا وجود اسی طرح معمول کی بات تھی جس طرح تاجر اپنی اپنی دکانوں پر معمول کے مطابق کام کرتے ہیں۔
شہر پناہ (ناکے) شاہ راہیں، پلیں اور خفیہ راستوں کی حفاظت، راستوں یا شاہراہوں پر بھتہ لینے والے یا اٹھائی گیروں کو پکڑنا قاضی کا کام نہیں ہے، راستوں اور شاہراہوں کو محفوظ بنانا، پلوں کی دیکھ بھال کرنا اور اگر کہیں دراڑ پڑنے یا پل کے شکستہ ہونے کا امکان ہو تو اس کی قبل از وقت مرمت کا بندوبست کرائے اور متعلقہ ادارے کو اس کی اطلاع دے۔ اگر شہر کے گردا گرد حفاظتی دیوار موجود ہو تو اس کی شکست وریخت کا وہ ذمہ دار ہے، شہر میں داخل ہونے والے چور راستے بھی اس کی نظر میں ہوں، اسی طرح اگر ریل کا نظام موجود ہو تو پٹڑی کی حفاظت اور اس کی پائیداری کا ریکارڈ رکھے۔ حادثات سے بچائو کی تدابیر اختیار کرے اور خدانخواستہ حادثات کی صورت میں اس کی تفتیش کے علاوہ اس کا مناسب تدارک بھی کرے اور متعلقہ محکمہ کو حفاظتی اقدامات کا پابند بنائے۔
فقہاءکرام کے سابقہ اقوال کی روشنی میں ہم اپنے حالات اور جدید سہولیات کو سامنے رکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اگر محکمہ احتساب کو اس کا تاریخ ساز کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تو کون کون سے محکمے یا وزارتیں اس محکمہ یا وزارت میں ضم کرنا ہوں گی۔
محکمہ پولیس اور شہریوں کے حقوق سے متعلقہ محکمے:
بیشتر اسلامی ملکوں میں محکمہ پولیس اور شہری حقوق کے ادارے مغربی ممالک کی طرز پر کام کرتے ہیں۔ گویا یہ بات ہمارے معاشروں میں تسلیم کر لی گئی ہے کہ تھانہ، گشت، چھاپے، تفتیش اور تشدد بے جا اور امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے ہنگامی اور معمول کی ڈیوٹیاں الامر بالمعروف والنھی عن المنکر سے کوئی تعلق نہیں رکھتی بلکہ یہ محکمانہ کارروائیاں اور روٹین کے کام ہیں اور حسبہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اگر ان تمام محکموں کو حسبہ کے سپرد کردیا جائے تو آپ حسبہ کے وسیع فرائض کا تصور کر سکتے ہیں حسبہ کے افسران اور اہل کار جن کی تربیت علمائے کرام فرمائیں گے اور ان کے قلب واذہان میں اس بات کو بٹھائیں گے کہ وہ یہ سارے فرائض عبادت سمجھ کر ثواب کی نیت اور دوزخ سے بچنے کیلئے انجام دیں گے۔ جس شخص کی بابت علمائے کرام غیر مطمئن ہوں اُسے اول تو یہ فرائض سونپے نہیںجائیں گے اور اگر وہ ملازمت کے دوران میں غیر تسلی بخش کارکردگی دکھلائے تو اسے سبکدوش کر دینے کی تجویز دیںگے۔
جیسا کہ ہم پچھلی سطور میں عرض کر چکے ہیں کہ ایسے تمام حقوق جو ثابت شدہ ہیں اور عدالتی دائرہ کار میں نہیں آتے وہ سب حقوق حسبہ کے فرائض میں شامل ہیں کہ وہ حقدار کو اس کا حق دلائیں۔ چنانچہ فقہاءکرام فرماتے ہیں کہ امیر آدمی اگر ادھار مقررہ وقت پر نہیں چکاتا تو محتسب اس سے بزور دائن کو رقم دلوائے گا۔ اراضی پر ناجائز قبضہ چھڑانا قاضی کے فیصلے کے مطابق حق دار کو حق پہنچانا اور اس بات کی تسلی کرنا کہ اس فیصلے پر عملدرآمد ہو گیا ہے، یہ سب فرائض اور اختیارات محتسب کو حاصل ہوں گے۔
بلدیہ:
بلدیہ کے فرائض بھی حسبہ کے ضمن میں آتے ہیں، گندے پانی کی نکاسی، کھلے تالاب اور جوہڑ، پینے کا پانی، زیر آب پانی کو آلودگی سے محفوظ رکھنا، غرض بلدیہ کے جتنے فرائض ہیں وہ حسبہ کے ماتحت ہوں گے۔ ہمارا دین، دین طہارت ہے، بدن اور کپڑوں کے علاوہ باطن کو پاک رکھنا ہمارے دین کی تعلیمات ہیں۔ نبی نے فرمایا الطھور شطر الایمان ”پاکی اختیار کرنا ایمان کا ایک بڑا حصہ ہے“ پاک رہنا اور اپنے ماحول کو پاک رکھنا عبادت ہے، ناپاکی اور پلیدی پھیلانا منکر ہے لہٰذا اس منکر کو مٹانا اورمعروف (پاکی) کو رواج دینا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔ اور یہ فرائض حسبہ کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں۔
محکمہ شہری دفاع:
احکام سلطانیہ کی تمام کتابوں میں فقہاءکرام نے یہ صراحت کی ہے کہ محتسب گلی محلوں کا جائزہ لے گا اور اس بات کا کھوج لگائے گا کہ کہیں کسی محلے بازار میں آگ پھیلنے کا امکان تو نہیں۔ ہمارے زمانے میں حادثات پھیلانے والے جتنے اسباب ہو سکتے ہیں وہ سب حسبہ کی نگرانی میں کام کریں گے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ برقی رو کی تاریں، گرڈ اسٹیشن، ٹرانسفارمر، پٹرول پمپ، لوبار کی بھٹیاں اور اگر وسیع نظر سے دیکھیں تو کارخانے اور فیکٹریاں، دھواں اگلتی گاڑیاں، سبحان اللہ ان حادثات سے بچائو کیلئے پڑتال کرنا اور حفاظتی آلات کی فراہمی کو یقینی بنا کر شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کرنا الامر بالمعروف والنھی عن المنکر ہے۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ موجودہ آگ بجھانے والا عملہ کتنا غافل اور عبادت کے تصور سے کس قدر دور ہوتا ہے، دوسری طرف علماءکرام کی تربیت اور ان کے فتاوی کی روشنی میں کام کرنے والے حسبہ کے اہلکار جو عبادت کے شعور کے ساتھ یہ فرائض انجام دیں گے تو اللہ کے فضل اور اسلام کی برکات سے کس قدر حادثات سے بچائو ممکن ہو جائے گا۔ اور تمام تعریفیں تو بس اکیلے اللہ کیلئے سزاوار ہیں۔
محکمہ نارکوٹکس:
صنعتی انقلاب سے پہلے افیون جیسے نشہ آور اشیاءسے فقہاءکرام واقف تھے، موجودہ زمانے میں یورپی آلات سے انسانیت کے دشمنوں نے انتہائی خطرناک مرکبات جیسے ہیروئن کی لعنت سے کوئی معاشرہ نہیں بچا ہوا، نشہ کے خلاف کوئی ملک بھی مؤثر کارروائی نہیں کر سکا۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ یہ کام حسبہ کے اہلکار بخوبی انجام دے سکتے ہیں، ایک طرف وہ اُسے خود بھی عبادت سمجھیں گے اور دوسری طرف علماءکرام کی بھی انہیں سرپرستی حاصل ہوگی جن کی آراءاور فتاوی کی روشنی میں وہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے سکیں گے۔
اوقاف:
اوقاف کے چند اختیارات ایسے ہیں جو فقہاءکرام نے وزارت حسبہ کے فرائض میں شامل کئے ہیں۔ ان میں سے سب سے اہم فریضہ یہ ہے کہ وہ مساجد کے اماموں کا ریکارڈ رکھیں (بدعت کرنے والا) اور اگر کسی مسجد میں مبتدع امام ہو (بدعت کو رواج دینے والا یا خلاف شرع نئے مسئلے نکالنے والا) تو اُسے سبکدوش کر دیں اور اگر مصلحت کا تقاضا ہو تو تادیبی کارروائی بھی کر سکیں، دروس اور خطبوں میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ اُمت میں تفرقہ پیدا نہ ہو، مساجد کی تعمیر، اُن کی مرمت اور مساجد کا احترام اس حد تک ہو کہ ظاہر میں بھی مسجد کا وقار ہو اور باطن میں بھی مسجد کا وقار ہو، ظاہر میں مساجد کا وقار اس طرح قائم ہوگا کہ کوئی عمارت مسجد سے بلند نہ ہونے پائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
”(اُس کے نور کی طرف ہدایت پانے والے) ان گھروں میں پائے جاتے ہیں جنہیں بلند کرنے کا اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ نے اذن دیا ہے۔ ان میں ایسے لوگ صبح وشام اُسکی تسبیح کرتے ہیں“۔
اس آیت کامفہوم ظاہری بھی ہے اور باطنی بھی، محلے کا سب سے مقدس اور قابل احترام مقام مسجد ہو، بازار میں بھی مسجد ہی سب سے زیادہ باوقارہو اور شہر کی جامع مسجد سب کیلئے مقدس اورمحترم ہو، طہارت خانے ہمارے ایمان کا اظہار ہوں۔ الطھور شطر الایمان۔
یہ بات نہایت افسوسناک ہے کہ ہمارے شہروں کے تجارتی مراکز مساجد سے بہت اونچے ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ بھیانک صورت یہ ہے کہ سعودی فرانسیسی بینک کی عمارت مسجد سے بھی بہت اونچی ہے۔ منکرات کے مقامات مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات سے بلند وبالا! جب ہم نے اسلام کے شعائر کی اہانت کر ڈالی تو ہم خود بھی بے وقار ہو کر اقوام عالم میں اپنا وزن کھو بیٹھے ہیں۔
حسبہ کے اہلکار وقف زمینوں کا ریکارڈ رکھیں گے اور اس بات کویقینی بنائیں گے کہ کوئی اثر و رسوخ رکھنے والا ووقوف اراضی کو لاوارث سمجھ کر معمولی نذرانے کے عوض سینما گھر یا مخلوط تفریح گاہ یا کسی اور تجارتی یا غیر تجارتی مصرف میں استعمال نہ کر پائے۔
محکمہ صحت:
علمائے کرام نے اطباءکی نگرانی کو بھی حسبہ کے فرائض میں شمار کیا ہے۔ مستند طبیب کے علاوہ غیر مستند اور عطائی حکیموں کو مسلمانوں کی صحت سے نہ کھیلنے دینا۔ حسبہ کے اہلکار نہ صرف بیماریوں سے متعلق ڈاکٹروں کے مستند ہونے کی تسلی کریں گے بلکہ گھروں میں جا کر ولادت کا پیشہ کرنے والی دایا کا بھی ریکارڈ رکھیں گے اور صرف مستند دایا کو ہی ولادت کا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت ہوگی۔ شفا خانوں میں خواتین کے لئے پردہ اور مردوں کی مداخلت اورمرد وزن کے اختلاط پر کڑی نظر رکھیں گے۔
ادویہ سازی، شفا خانوں کی صفائی اور ٹسٹ لیبارٹری کا معیاری ہونا اور صحت کے معیار سے متعلق جدید دور میں جتنے جانچ پڑتال کے ذرائع ہیں، ان کی کارکردگی کو تسلی بخش رکھنا حسبہ کے فرائض میں شامل ہے۔ حسبہ کے اہلکار اس بات پر بھی نظر رکھیں گے کہیں غیر شرعی علاج کا طریقہ تو رائج نہیں مثال کے طور پر تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک جو جادو اور شعبدہ بازی کے قبیل سے ہوں اسی طرح فال گری کے ذریعے یا علم جفر کے ذریعے عوام الناس کی صحت اور مال سے کھیلنے والے دھوکا باز جعل سازوں پر کڑی نظر رکھیں گے۔ وہ اس بات کا جائزہ لے گا کہ جادو گر کے پاس لوگوں کی آمدورفت تو نہیں اگر کہیں ایسا ہو تو وہ جادوگر پر حد نافذ کرنے کی اپیل کرے گا۔
محکمہ تعلیم:
علمائے کرام نے تعلیم وتربیت کی نگرانی کا فریضہ وزارت حسبہ میں شامل کیا ہے اور بعض علمائے کرام نے حسبہ کی مداخلت اس حد تک جائز قرار دی ہے کہ معلم رائج معاوضے سے زیادہ معاوضہ نہ لیتا ہو یا اگر زائد معاوضہ کسی اضافی علم سے متعلق ہو یا علم کے معیار سے متعلق ہو اور وہ اس کا حق ادا نہ کر پا رہا ہو تو حسبہ کے اہلکاروں کو ایسے معلم کو سزا دینے کا اختیار حاصل ہوگا۔ طالب علم کو سخت سزا نہ دی جائے یا اس پر پڑھنے کا زیادہ بوجھ نہ ڈالاجائے۔
اگرچہ موجودہ زمانے میں محکمہ تعلیم کے فرائض بے شمار ہیں ہم یہ نہیں سفارش کر رہے کہ پورا محکہ تعلیم حسبہ کے ماتحت کردیا جائے لیکن تعلیم سے متعلق اور الامر بالمعروف والنھی عن المنکر کے تحت جتنے شعبے آتے ہیں وہ سب حسبہ کی نگرانی میں کام کریں۔ مخلوط تعلیم کی نگرانی کرنا، اقامتی سکولوں میں بچوں کی تربیت کا ریکارڈ رکھنا، اس بات کو یقینی بنانا کہ کوئی مدرس شیطان کے بہکاوے میں آکر طالب علم کو جنسی تشدد کا نشانہ نہ بنائے، یہ بات آپ سب کے علم میں ہوگی کہ جنسی تشدد کے واقعات میں خوفناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور جن ممالک میں مخلوط تعلیم کا رواج ہے وہاں بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں اس حد تک اضافہ ہو گیا ہے کہ خود مغربی یورپ میں بچیوں کے الگ تعلیمی اداروں کا رواج بڑھ رہا ہے۔
حسبہ کے اہلکار اس بات کا جائزہ لیں گے کہ کوئی مدرس نشے کا عادی تو نہیں، اسی طرح نصاب کا جائزہ لے گا کہ اس میں شرک اور بدعات پر مبنی مواد تو شامل نہیں ہے۔
جانوروں سے حسن سلوک:
آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ علمائے کرام نے جانوروں کے حقوق کی نگرانی کو باقاعدہ حسبہ کے فرائض میں شامل کیا ہے۔ شاہراہوں اور بازاروں میں حسبہ کے اہلکار اس بات کی نگرانی کریں گے کہ جانور پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہ لادا جائے، جانور بیمار اور لاغر نہ ہو، گدھا گاڑی کا مالک یا کوچوان جانور پر حد سے زیادہ چابک نہ برسا رہا ہو۔
ٹرانسپورٹ اور بندرگاہیں:
علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ حسبہ کے اہلکار کشتیوں اور سمندری جہاز کے معیاری ہونے کا جائزہ لیں گے، سواریوں کی جان ومال اور آبرو کو یقینی بنائیں گے۔ امام ابویعلی فرماتے ہیں کہ حسبہ کے اہلکار خواتین کیلئے الگ نشستوں اور مردوں کے الگ نشستوں کا بندوبست کریں گے اسی طرح مردوں اور عورتوں کیلئے قضائے حاجت اور طہارت خانے بھی الگ الگ بنائے جائیں گے اور حسبہ والے اس بات کا جائزہ لیں گے۔
احکام جنائز:
قبرستان کی نگرانی کرنا اور میت کے حقوق کی حفاظت کرنا حسبہ کے فرائض میں شامل ہے۔ میت کی شرعی طریقے سے تکییف وتدفین کو یقینی بنانا، لاوارث لاشوں کی حفاظت کرنا اورانہیں اسلامی شریعت کے مطابق پوری عزت واحترام کے ساتھ غسل اور تکفین کے بعد قبرستان میں دفن کرانا حسبہ کے فرائض میں شامل ہے۔ قبرستان کی حدود میں تجاوزات نہ ہونے دینا، اسی طرح قبرستان میں کسی صالح انسان کی قبر کو سجدہ گاہ نہ بنانے دینا کہ وہاں سالانہ عرس ہو یا قبر کا طواف کیا جائے یا وہاں صاحب قبر کے نام کی خیرات تقسیم جائے، ان سب امور کی نگرانی وزارت حسبہ کرے گی۔
کسٹم:
یہاں ہم مالی معاملات سے متعلق بحث نہیں کر رہے اور نہ ہی ہماری مراد غیر شرعی ٹیکس ہیں کیونکہ غیر شرعی ٹیکس کبیرہ گناہوں میں شمار ہوتا ہے مگر ہماری بحث منکرات سے متعلق ہے، کسٹم عملہ کے ساتھ حسبہ کے اہلکار غیر ممنوعہ اشیاءکی درآمد پر کڑی نظر رکھیں گے۔
ابلاغ عامہ کی نگرانی:
اخبارات اور رسائل میں کس قسم کا مواد شائع ہو رہا ہے، عریاں تصاویر، ممنوعہ اور غیر شرعی اشیاءکے اشتہارات، ویڈیو کیسٹ اور فحش مواد پر مبنی CDs، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کو شرعی ضوابط میں لانا، وزارت حسبہ کے بنیادی فرائض میں شامل ہے، اسی طرح بدعات اور خرافات پر مبنی مواد یا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے والامواد مزید برآں اخبارات، رسائل اور ابلاغ عامہ سے متعلق دوسرے ذرائع ابلاغ کیلئے لائسنس جاری کرنا باقاعدہ وزارت حسبہ یا محکمہ حسبہ کی منظوری سے ہو۔
اگر محکمہ احتساب کو وہ سارے اختیارات سونپ دیئے جائیں جو علمائے کرام نے کتاب وسنت کی رو سے مرتب کئے ہیں تو معاشرے سے بہت جلد منکرات کا خاتمہ کیاجا سکتا ہے اور بڑھتی ہوئی عریانی اور فحاشی کے سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ایمان اور آبرو کی حفاظت فرمائے۔آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
«