اصلاحِ دین بذریعہ مجدّد
ڈاکٹر سلمان العودہ
مترجم :محمد زکریا
اُمت مسلمہ کا ختم نبوت کے عقیدے پر مکمل اتفاق ہے اور اس میں کسی دوسری رائے کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔ جو شخص اب یہ کہے کہ نبوت کا سلسلہ محمد بن عبداﷲ کے بعد بھی جاری ہے تو وہ کافر ہو جائے گا۔ قرآن نے نبوت کا سلسلہ یہ کہہ کر محمد رسول اﷲ پر ختم کردیا ہے کہ مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (احزاب: 40) ”محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اﷲ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں“۔
نبوت کا سلسلہ منقطع ہونے کے بعد کسی شخص پر وحی اترنے کا امکان اور وہ رحمت جو محمد بن عبداﷲ پر اترا کرتی تھی اگرچہ مکمل ہو گئی مگر اصلاح اُمت کے لئے اﷲ تعالیٰ اُمت میں سے مجدّدین کو اس کام پر فائز کرتا ہے۔ ایک طرف نبوت کا سلسلہ بند ہوتا ہے تو اﷲ کی رحمت تجدیدِ دِین کیلئے مجدّدین پر وا ہوتی ہے اور یہ سلسلہ تا قیامت باقی رہنا ہے۔ ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ نے فرمایا:
ان اللّٰہ تعالیٰ یبعث لھذہ الامت علی راس کل مائہ سنہ من یجدّد لھا دینھا
(رواہ ابوداؤد واحمد)
کہ ”ہر صدی میں اﷲ تعالیٰ اِس اُمت کے لئے ایسے مجدد مبعوث کیا کرے گا جو اُن کے لئے دین کی تجدید کرتے رہیں گے“۔ (یعنی اصل دین کو اپنے اپنے زمانے میں حالات کے مطابق واضح کیا کریں گے)۔
یہ حدیث اگرچہ متواتر نہیں ہے مگر میری تحقیق کے مطابق کسی ایک امام نے بھی اسے قبول کرنے میں تردد نہیں کیا اور اس حدیث کو ائمہ حدیث وفقہ میں قبول عام حاصل ہے۔ ہر دور کے ائمہ حدیث وفقہ اپنے اپنے دور میں اس حدیث کا اطلاق کسی نہ کسی صورت پر کرتے رہے ہیں اور اس حدیث کی شروحات پر کتب لکھتے رہے ہیں۔
سو تجدید دِین اور اصلاح اُمت کا سلسلہ ہر صدی میں جاری رہنا اﷲ تعالیٰ کی ایک سنت ہے۔ اگر ہم حدیث کی معنویت پر غور کریں تو اس کے دو پہلو سامنے آتے ہیں:
اول) اﷲ تعالیٰ کا یہ وعدہ کہ تجدید کا سلسلہ برابر جاری رہے گا۔ یہ پہلو اﷲ کی حکمت اور قضا وقدر اور زمین پر جاری اس کی سنتوں کی طرف ہماری راہنمائی کرتا ہے اور اُمت مسلمہ کے لئے خوشخبری اور اُمید کا سامان فراہم کرتا ہے۔
دوم) اور اس کا دوسرا پہلو اُمت کے اہل علم کے لئے ایک پیغام لئے ہوئے ہے کہ وہ اصلاح اُمت کا فریضہ انجام دیں کیونکہ مجدد بہرحال اہل علم میں سے ہوگا۔ تو گویا تمام ہی اہل علم سے یہ ایک قسم کا مطالبہ بھی ہے۔ ہر زمانے اور ہر علاقے کے اہل علم کے لئے متوقع راہ عمل۔
ہم یہ بھی تسلیم کرنے کو تیار ہیں کہ آخری تجدید حضرت مہدی یا عیسیٰ علیہ السلام کریں گے لیکن اِس بات کو تسلیم کرنے کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ تمام اُمت ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر آخری مجددین کا انتظار کرے اور پھر ان ناکارہ لوگوں کے بیچ میں مجدد کا ظہور ہو اور پھر یکلخت وہ ان میں زندگی کی ایسی روح پھونک دے گا کہ وہ کل عالم کی قیادت باحسن طریق سے انجام دیں لیں۔ بھلا مجدّد مردہ جسموں میں جان ڈالنے کو مبعوث ہوگا۔ ناکارہ لوگوں کو جھٹ پٹ کارآمد بنا ڈالے گا۔ یہی بات معقول ہے کہ مجدد ایک کارآمد اور ذمہ دار اُمت کا راہ نما ہو، اُمت میں کثیر تعداد میں اہل علم وفضل موجود ہوں اور مجموعی طور پر اپنے زمانے میں اُمت مسلمہ نے جو کردار ادا کرنا ہو اس کی لیاقت موجود ہو۔ اگر کہا جائے کہ عمر بن عبدالعزیز، امام شافعی اور ابن تیمیہ اس اُمت میں مجدد ہو گزرے ہیں تو کیا عمر بن عبدالعزیز، امام شافعی اور حافظ ابن تیمیہ کے زمانے میں بس یہی لوگ کارآمد تھے اور اُمت کے بیشتر لوگ گم راہ، بے علم اور غیر فعال تھے۔
کچھ ضروری نہیں کہ مجدد بس ایک فرد ہی ہوا کرے بلکہ اغلب یہ ہے کہ تجدید کا کام ایک گروہ کے ہی کرنے کا ہو، ہاں طائفہ منصورہ ہی ایک ایسا گروہ ہے۔
عین ممکن ہے کہ پہلی تین صدیوں میں مجدد کا اطلاق ہر صدی میں ایک فرد پر کیا جا سکے اور اس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو مگر قرون فاضلہ کے بعد کسی ایک شخصیت پر مجدد کا اطلاق نہایت دشوار کام ہے ایک طرف تو اُس زمانے میں اُمت مسلمہ کئی براعظموں میں پھیل چکی تھی اور ہر علاقے میں ہی اصلاح کا کام ہو رہا تھا دوسری طرف رسول اﷲ کے دور سے یہ زمانہ متاخر بھی ہے اور اُس میں ایسی شخصیات کا پیدا ہونا بھی بعید ہے۔
ہماری اس رائے پر اتفاق کر لیاجائے اور ہمارے علاوہ اہل علم کی ایک وسیع تعداد اسی رائے کی حامی ہے تو اُمت کو اس نااُمیدی سے نکالنے میں خاصی پیش رفت ہو سکتی ہے کہ اصلاح اُمت کا کام مجدد نے ہی آکر کرنا ہے، ہم سے یہ کام ہونے کا نہیں۔ اب معلوم نہیں اس کا ظہور کب اور کہاں سے ہو، مانا کہ ہم میں وہ اہلیت نہیں، ہمارے اندر خامیاں بھی موجود ہیں مگر اس بات کو نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر شخص شریعت کا مخاطب ہے اور حسب استطاعت اس سے ایک قسم کا کردار مطلوب ہے پس صاحب علم کی ذمہ داری ہے کہ علم کو عام کرے، صاحب اقتدار اپنے دائرہ اختیار میں ذمہ دار ہے اور جس کے پاس نشر واشاعت کا کوئی امکان ہے وہ اس کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری نبھائے، کچھ مضائقہ نہیں کہ ایک قسم کا مجدد آپ کے گاؤں سے اٹھے، کسی درس گاہ میں کوئی اور تجدید اصلاح کا کام کرنے والا ہو، کسی ادارے میں یہ کام ایک اور شخص کر رہا ہو اور تو اور آپ خود اپنے کنبے کے مجدد ہوں۔
آپ کو کتنے مخلص مسلمان یہ کہتے ہوئے ملیں گے کہ پانی سر سے اونچا گزر گیا ہے۔ بُرائی کے اس سیلاب کے آگے جس نے بند باندھنے کی کوشش کی وہ اسی میں بہہ جائے گا۔ ہم اُن سے یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ بھائی پیہم کوشش اور صبر یہ وقت انبیاءپرآیا تھا تو اﷲ تبارک وتعالیٰ نے یہ کہہ کر اُن کی ہمت بندھائی۔
”یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھوٹ بولا گیا تھا تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی، پھر جب ایسا موقع آجاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا“۔
اسی طرح سورہ بقرہ کی ٢١٤ آیت میں ایک اور قاعدہ اسی کیفیت کیلئے بتلایا گیا ہے۔
”پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے، ان پر سختیاں گزریں، مصیبتیں آئیں، ہلا مارے گئے، حتی کہ وقت کا رسول اور اُس کے ساتھ اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اﷲ کی مدد کب آئے گی .... اُس وقت انہیں تسلی دی گئی کہ ہاں اﷲ کی مدد قریب ہے“۔
اس مایوسی کے عالم میں اﷲ کی بشارت کو یاد کیجئے۔ ازروئے حدیث اس بات پر یقین کہ ہر صدی میں تجدید کا کام کرنے والے موجود ہوتے ہیںخواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے وہ طائفہ منصورہ موجود ہوتا ہے، پھر یہ کاہے کو کہنا کہ اصلاح کا کام کرنا تو گویا سیلاب کے آگے بند باندھنا ہے۔ ہاں ہاں ایک سچا داعی حق، پیہم سرگرم، باعمل صاحب کردار عالم واقعی اس سیلاب کے آگے بند باندھ سکتا ہے۔
پہلے بھی اِس اُمت پر آفتیں آتی رہی ہیں بڑے بڑے مصائب فتنہ ارتداد، مانعین زکوٰت، خوارج، رافضیہ، معتزلہ، فتنہ تاتار اور اب ہمارے زمانے میں فتنہ مادیت مگر بھلا دکھلاؤ تو مرتدین کے ساتھ اﷲ نے کیا کیا۔ تاتاریوں کا سیلاب کیسے جھاگ بنا، سب گروہ مر کھپ گئے اور طائفہ منصورہ رواں دواں، کوہ ہمالیہ کی طرح زندہ و باوقار، ایک نئے معرکے کے لئے مستعد اپنی جگہ پر قائم ہے۔
دِین اسلام ہی اﷲ کا پسندیدہ دین ہے اب کسی نبی نے نہیں آنا، البتہ ہر صدی کے آغاز کے ساتھ تجدید ہوتی ہے، کل بھی ہوئی تھی آج بھی ہوگی بھلا ایک ہونے والا کام بھی کبھی رکا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔