"دعوت کا منہج" مکمل کتابی شکل
میں شائع ہوچکا ہے۔ آن لائن پڑھنے یا
ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
دعوت
(سلسلہ وار مضمون)
محمد قطب
اُردو استفادہ:حامد كمال
الدين
اگر ہم اس ٹھوس
بنیادوں کی حامل ایمانی جمعیت پر نگاہ ڈالیں جسے رسول اللہ نے تیار کیا تھا اور اس
کی اٹھان پر ذرا غور کرلیں تو اس کے بعد پھر اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ آخر وہ
ہدف کیا تھا جس کی خاطر رسول اعظم نے اپنے مکہ کے تیرہ سال اور مدینہ کے دس سال اس
قدر عظیم الشان محنت کی اور کس مقصد کیلئے ایسے زبردست اور منفرد ترین انسانی
نمونے تیار کئے؟ کیا محض اس لئے کہ آپ اہل ایمان کی ایک جماعت بنا جائیں جو اللہ
اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو نماز قائم کرتی ہو زکوٰت دیتی اور خدا کی عبادت
گزار ہو!؟
یہ ہدف حاصل کرنے
کیلئے اس محنت کا ایک حصہ ہی کافی تھا جو آپ نے مبذول فرمائی تھی۔ بلاشبہ یہ ایک
برگزیدہ ہدف ہے اور اس پر محنت کئے جانے کا حق بنتا ہے مگر رسول اعظم اس عمل سے اس
سے بھی ایک بڑے اور برگزیدہ ہدف کو حاصل کرنا چاہتے تھے، جیسا کہ پیچھے اس امر کی
جانب ہم اشارہ کر آئے ہیں ....
اس جمعیت کا مشن
دراصل صرف اتنا نہیں تھا کہ جیسے اس سے پہلے کی مومن جماعتیں اپنی حد تک خدا کی
عبادت کر لیتی رہیں ویسے ہی یہ بھی ___ اپنی حد تک ___ خدا کی عبادت گزار بن کر
رہے۔ اس کا مشن دراصل یہ تھا کہ یہ توحید کو پوری دُنیا میں پھیلا دے اور انسانیت
کو ایک بڑی سطح پر بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی میں لے آئے، جیسا کہ
ربعی بن عامر رضی اللہ عنہ نے فارس کے سپہ سالار اور وقت کے ایک طاغوت رستم کے
روبرو کھڑے ہو کر کہا تھا .... اب ایک ایسی جماعت بہرحال ایک خاص تیاری چاہتی ہے۔
اس کی تیاری کیلئے صرف اتنی محنت کافی نہیں جو ایک ایسی جمعیت کی تیاری کیلئے
درکار ہو جسے اپنی حد تک اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لا کر رہنا ہو اور اپنی حد تک
ہی خدا کا عبادت گزار بننا ہو۔
صنعت و تجارت کی
دُنیا میں لوگ جانتے ہیں کہ مقامی کھپت کیلئے تیار کیا گیا مال اس مال سے بہت
مختلف ہوتا ہے جسے برآمد (ايكسپورٹ) کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ مقامی کھپت کیلئے
تیار کیا گیا مال نسبتاً آسانی سے تیار ہوتا ہے اور اس میں کوئی سا بھی معیار چل
جاتا ہے مگر برآمد کیا جانے والا مال عمدگی کی ایک خاص سطح کو پہنچا ہونا ضروری
ہوتا ہے۔ اس میں کوالٹی کا وہ معیار درکار ہوتا ہے کہ یہ باہر کی مارکیٹ میں اپنے
آپ کو منوائے اور ہر دوسرے مال کو پیچھے چھوڑ جائے ....
اگر دنیوی صنعت
وتجارت کا یہ حال ہے تو اس تجارت میں اس اصول کا نگاہ میں رہنا بالا ولی ضروری ہے
جو ایک برگزیدہ تجارت ہے اور جس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے:
یاایھا الذین آمنوا
ھل ادلکم علی تجارت تنجیکم من عذاب الیم۔ تومنون باللّٰہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل
اللہ باموالکم وانفسکم ذلکم خیر لکم ان کنتم تعلمون (الصف: ١٠۔ ١١)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو
تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر، اور جہاد کرو اللہ
کی راہ میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو“۔
پوری انسانیت کی
ہدایت کیلئے جس جمعیت کا وجود میں آنا درکار تھا اس کیلئے لازم تھا کہ وہ منفرد
ترین جمعیت ہو۔ وہ اپنی ترکیب میں ہر دوسری جمعیت پر برتری لے گئی ہو۔ وہ محض اپنے
رویہ وکردار اور اپنی شخصیت سے اس دین کیلئے چلتے پھرتے انداز میں یہ شہادت دے کہ
یہی دین حق ہے اور یہی واجب اتباع ہے اور یہ کہ اس کے سوا کوئی دین اور کوئی طرز
زندگی، اس کی ٹکر کا نہیں۔ بلکہ اس کے پاسنگ بھی نہیں اور نہ دُنیا میں اس کا کوئی
متبادل ہے ....
یہاں ایک ایسا انسانی
نمونہ درکار تھا جو پوری کی پوری جاہلیت کا سامنا کر سکے۔ نہ صرف اس کی برابری کر
سکے بلکہ اس پر برتری پا لے اور اس کی بنیادوں کو ہلا ڈالے اور اس کی جگہ پر ایک
نئی عمارت اٹھا سکے ایک ایسی عمارت جو صحیح بنیادوں پر اٹھائی گئی ہو اور جس میں
ایمان کی ایک نئی حقیقت بسنے لگے .... عین یہی وہ چیز تھی جو رسول اللہ کے ہاتھوں
انجام پا گئی تھی ....
رسول اللہ کی تیار کی
ہوئی اس منفرد جمعیت کی ٹکر محض عرب جاہلیت کے ساتھ نہ تھی، بے شک واقعاتی ترتیب
کے لحاظ سے یہی وہ پہلی جاہلیت تھی جو اس جمعیت کے راستے میں سب سے پہلے اس کے
مدمقابل آئی .... دراصل پوری زمین ہی اس وقت جاہلیت کے اندھیروں میں روپوش تھی
چاہے وہ بت پرست جاہلیت ہو، جیسے مثلا آتش کے پجاری، یا جنات کے پوجنے والے یا
بتوں کو ماننے والے یا ستاروں کی پرستش کرنے والے یا اور طرح کے طاغوتوں کی بندگی
کرنے والے، اور یا پھر وہ تحریف شدہ آسمانی ادیان کے پیروکار ہوں ....
ان ساروں کے مدمقابل
ہی یہ نیا دین کھڑا تھا۔ رسول اللہ اس ساری جاہلیت کے مدمقابل کھڑے تھے اور آپ کی
جمعیت میں آپ کی وہ جماعت جو آپ سے تربیت پا رہی تھی ....
تو کیا محض ایک مسلم
جماعت جو اپنی ذات کی حد تک درست طور پر خدا کی عبادت گزار ہو کافی تھی کہ وہ اس
پوری جاہلیت کے ساتھ ٹکر لے سکے؟ کجا یہ کہ اس کو تبدیل بھی کر دے؟ کجا یہ کہ اس
کو ہٹا کر اس کی جگہ صحیح دین بھی قائم کر دے؟!
ہرگز نہیں! ضروری تھا
ایک ایسی جماعت کھڑی ہوتی جو ایک غیر معمولی ساخت کی حامل ہوتی اور دُنیا کے اندر
ایک نئے انداز کے معاشرے کو جنم دیتی۔ یہ رسول اللہ کی جماعت تھی: ایک مضبوط جمعیت
جس کے اوپر تاریخ کی ایک بہت بڑی بنیاد اٹھائی گئی اور جس نے کہ اپنے وجود سے زمین
کی کایا پلٹ دی۔
کتب سیرت ہمارے لئے
اس مضبوط ایمانی جمعیت کے بارے میں بہت کچھ بیان کرتی ہیں اور اس بلند معیار کی
بھی نشاندہی کرتی ہیں جس پر وہ لوگ پہنچ گئے تھے .... یہاں اگرچہ ہمارا موضوع
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی سوانح بیان کرنا نہیں جبکہ کتب سیرت بآسانی دستیاب
ہیں۔ یہاں ہمارا موضوع صحابہ میں سے کچھ خاص متعین شخصیات پر گفتگو کرنا بھی نہیں
باوجود اس کے کہ ان شخصیات کو اور ان کے کردار کو جب بھی موضوع بحث لایا جاتا ہے
تو نفوس کو ایک نشاط ملتا ہے اور ان شخصیات کی عظمت کی دلوں پر دھاک بیٹھتی ہے۔
یہاں ہمارے پیش نظر صرف ان صفات کا علم لینا ہے جو اس منفرد انسانی جمعیت کی
بنیادوں میں پڑی تھیں .... جس سے اصل مقصد یہ ہے کہ اس پر غور وفکر کیا جائے اور
اپنے لئے فکر وعمل کی ایک تصویر بنائی جائے۔
اس کے باوجود کچھ
نمونے تو ایسے ہیں جو مجھے مجبور کئے جاتے ہیں کہ ان کی جانب کچھ اشارہ کر ہی دیا
جائے۔ یہ سب تصویریں، جن کے یہ چند نمونے ہیں، ان سے متاثر ہوئے بغیر آدمی رہ ہی
نہیں سکتا۔ یہ تصویریں صحابہ میں سے بڑی بڑی شخصیات کی بھی نہیں بلکہ بعض نمونے تو
ان میں سے ایسے ہیں جو ایسے اشخاص سے تعلق رکھتے ہیں جن کا تاریخ نے چند سطروں سے
زیادہ ذکر نہیں کیا۔ بعض کے نام تک ذکر نہیں کئے۔ مگر یہ تابناک تصویریں ہیں ان پہ
کچھ دیر رک جانے میں حرج نہیں۔
٭ یہ ایک عورت
ہے۔ اس پر غشی کا دورہ پڑتا ہے۔ جس کے دوران یہ برہنہ ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ کے
پاس آکر شکایت کرتی ہے اور دُعا کی درخواست کہ غشی سے شفا پائے۔ رسول اللہ اس سے
فرماتے ہیں: ”تم چاہو تو میں تمہارے لئے دُعا کر دیتا ہوں، اور چاہو تو صبر کرو
اور جنت پائو“ یہ عرض کرتی ہے: ”یا رسول اللہ میں صبر ہی کروں گی بس دُعا کر دیجئے
کہ میں برہنہ نہ ہوں“ آپ اس کیلئے دُعا کرتے ہیں جس کے بعد وہ برہنہ نہیں ہوتی“۔
٭ یہ ایک گھرانہ
ہے۔ فاقے سے بُرا حال ہے۔ آخر شوہر ایک دن بیوی سے کہتا ہے: رسول اللہ کے پاس سے
ضرورت مند خالی نہیں آتے۔ کیا ہم بھی رسول اللہ کو اپنا ماجرا نہ سنائیں۔ آپ کے
پاس کچھ ہوگا تو ہم کو بھی مرحمت فرمائیں گے۔ عورت بولتی ہے: ”تم چاہتے ہو کہ خدا
کا شکوہ رسول کے ہاں جا کر کرو“ تب بیوی بھی صبر کئے رہتی ہے اور شوہر بھی۔
٭ حضرت عمر
رعایا کا احوال جاننے کیلئے رات کے وقت گشت کیلئے نکلتے ہیں۔ کہیں سے بچوں کے رونے
کی آواز سنتے ہیں۔ آواز کے پیچھے چلتے ہوئے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں
ایک عورت ہے جو چولہے پہ ہنڈیا دھرے بیٹھی ہے۔ پاس بچے بیٹھے روئے جا رہے ہیں۔ عمر
پوچھتے ہیں: ”یہ بچے کیوں روتے ہیں؟“ عورت جواب دیتی ہے: ”بھوکے ہیں“۔ عمر سوال
کرتے ہیں: ”یہ ہنڈیا میں کیا دھرا ہے؟“ عورت کہتی ہے: ”پتھر ڈال رکھے ہیں انہی کو
ہلاتی جاتی ہوں کہ یہ بہل جائیں آخر تو سو ہی جائیں گے۔ گھر میں پکانے کو کچھ نہیں
ہے۔ عمر کو ہمارا خیال ہی نہیں، عورت نہیں جانتی کہ وہ عمر ہی سے بات کر رہی ہے۔
عمر کہتے ہیں: ”بھلا عمر کو تمہارے ماجرے کی کیا خبر؟“ عورت جواب دیتی ہے: ”تو پھر
اس نے مسلمانوں کی امارت سنبھالی ہی کیوں؟“ عمر رو پڑتے ہیں۔ بیت المال میں جاتے
ہیں۔ ساتھ میں خادم ہے۔ روغن اور آٹا اٹھاتے ہیں اور عورت کے گھر کی جانب رخ کرتے
ہیں۔ خادم اصرار کئے جاتا ہے ”امیر المؤمنین یہ مجھے اٹھانے دیجئے“ عمر نہیں
مانتے۔ جواب دیتے ہیں ”تو کیا قیامت کو میرا بوجھ تم اُٹھاؤ گے؟“ عورت کے ہاں پہنچ
کر کھانا پکانے لگتے ہیں۔ آٹا ہنڈیا میں ڈالتے ہیں اور روغن سے بھونتے ہیں“۔ بار
بار آگ میں پھونکنے کیلئے جھکتے ہیں دھواں ہے کہ آپ کی گھنی داڑھی کے آرپار ہو رہا
ہے .... وقت کا خلیفہ آدھی دُنیا کا حکمران جب تک تسلی نہیں کر لیتا کہ بچے سیر ہو
کر سو گئے واپس نہیں لوٹتا!
٭ ایک مجاہد جنت
اور شہادت کی طلب میں معرکہء قتال کیلئے نکلتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں چند کھجوریں
ہیں۔ اس کو ہاتھ میں پکڑی کھجوریں ختم کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ ہاتھ سے کھجوریں
پھینک دیتا ہے اور گویا ہوتا ہے۔ ان کے ختم ہونے تک میں زندہ رہا تو یہ تو بڑی
لمبی زندگی ہے! یہ کہنے کے ساتھ ہی معرکہ میں جا شامل ہوتا ہے اور شہادت جس کیلئے
دیوانہ ہو رہا تھا آخر پا لیتا ہے!
٭ ایک مجاہد
معرکہء قتال کی تیاری کیلئے زرہ بکتر پہنتا ہے۔ اس کا ساتھی اسے متنبہ کرتا ہے:
”تمہاری زرہ بکتر میں گردن کے پاس ایک کڑی ٹوٹی ہے اور وہاں سوراخ ہو گیا ہے“ تب
یہ اپنے ساتھی سے مسکراتے ہوئے کہتا ہے: ”ارے واہ! اس اتنی سی جگہ سے پار ہو کر
اگر مجھے کوئی تیر لگنا ہے پھر تو میرا خدا کے ہاں بڑا مول ہے“ یہ معرکے میں اترتا
ہے۔ عین اسی سوراخ سے تیر گزرتا ہے اور یہ خدا کی راہ میں شہادت پا لیتا ہے ....
ایسی مثالیں صحابہ کی
زندگی میں ختم ہونے میں نہیں آتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید ان صفات کا تعین
کرنے کیلئے جن کو بنیاد بنا کر اسلام کی اس پہلی جمعیت کی تیاری عمل میں لائی گئی،
بہتر طریقہ یہ ہو کہ ہم ان اوصاف کو جمع کریں جو اللہ نے یا اس کے رسول نے اس
منفرد ترین جماعت کے وصف میں بیان فرمائے، یا پھر اللہ اور اس کے رسول کے ان احکامات
کاایک جائزہ لیں جو اس جماعت کو دیے گئے اور انہوں نے اس کا پابند ہو کر دکھانے
میں اطاعت کا بہترین نمونہ پیش کیا، یا پھر ان ہدایات کو ذہن میں لائیں جو ان
اصحاب کو دی گئیں اور وہ ان پر پورے شوق اور لگن سے پورا اترنے پر کاربند ہوئے۔ یہ
سب مل کر ہمارے لئے وہ اوصاف ٹھہرتے ہیں جن کو ہم اس منفرد ترین انسانی جمعیت کی
تیاری کی بنیاد قرار دیں۔
”فلاح پا گئے ایمان لانے والے جو:
”اپنی نماز میں خشوع اختیار کرتے ہیں“
”جو لغویات سے منہ موڑ لیتے ہیں“
”جو زکوٰت کے فاعل ہیں“
”جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، سوائے اپنی
بیویوں کے اور ان عورتوں کے جو ان کی ملکِ یمین میں ہوں۔ (ہاں ان کی بابت) یہ قابل
ملامت نہیں ہیں البتہ جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں“
”جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد وپیمان کا پاس رکھتے ہیں“۔
”جو اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں“
”یہی وارث ہیں
”جو میراث میں فردوس پائیں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں
گے“۔[المؤمنون: ١۔ ١١)]
”بھلا یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ شخص جو تمہارے رب کی اس کتاب
کو جو اس نے تم پر نازل کی ہے حق جانتا ہو، اور وہ شخص جو اس حقیقت کی طرف سے
اندھا ہے، دونوں یکساں ہو جائیں؟ نصیحت تو دانشمند ہی قبول کیا کرتے ہیں“
”وہ جو اللہ کے ساتھ کیا ہوا اپنا عہد پورا کرتے ہیں اور
پہچان کر لینے کے بعد اس کو توڑتے نہیں“
”وہ جو ان سب روابط کو، جن کو برقرار رکھنے کا اللہ نے حکم
دیا ہے، برقرار رکھتے ہیں۔ اپنے رب سے ڈر کر رہتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں
کہ کہیں ان سے بری طرح حساب نہ لیا جائے“
”جن کا حال یہ ہوتا ہے کہ محض اپنے رب کا چہرہ پا لینے کی
غرض سے صبر کئے رہتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے اعلانیہ
اور پوشیدہ خرچ کئے جاتے ہیں، اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں۔ آخرت کا گھر
انہی لوگوں کیلئے ہے“
”خلد کے باغات ان ہی کی قیامگاہ ہوں گے۔ یہ خود بھی ان میں
داخل ہوں گے اور ان کے آباؤ اجداد اوران کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جو جو
صالح ہیں وہ بھی ان کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ فرشتے ہیں کہ ہر ہر دروازے سے ان کے پاس
آئیں گے“
”کہیں گے! سلامتی ہو تم پر، اس صبر کے بدلے جو تم کرتے رہے،
کیا ہی اچھا (بدلہ) ہے اس دار آخرت کا“۔[(الرعد: ١٩۔ ٢٤)]
”بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر
آتا ہے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں
تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے
ہیں“
”وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس
میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں“
”ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں۔ ان کے لئے بڑے درجے ہیں ان کے
رب کے پاس۔ مغفرت ہے اور بہترین رزق ہے“۔[(الانفال: ٢۔ ٤)]
”مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے مددگار
ومعاون ہیں، بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں۔ برائیوں سے روکتے ہیں۔ نمازوں کو پابندی سے
بجا لاتے ہیں۔ زکوٰت ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار ہیں۔ یہ وہ
لوگ ہیں جن پر اللہ بہت جلد رحمت فرمائے گا۔ بے شک اللہ غلبے والا حکمت والا
ہے“۔[(التوبہ: ٧١)]
”لیکن خود رسول اللہ نے اور ان کے ساتھ کے ایمان لانے والوں
نے اپنے مال اور جان لگا
کر جہاد کیا۔ یہی لوگ
بھلائیوں والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں“۔[(التوبہ: ٨٨)]
اللہ تعالیٰ کو وہ
لوگ بہت ہی پسند ہیں جو اس کی راہ صف بستہ ہو کر لڑتے ہیں گویا کہ وہ ایک سیسہ
پلائی ہوئی دیوار ہیں“۔[(الصف: ٤)]
”اور دوڑ پڑو خدا کی مغفرت کی جانب اور اس جنت کی طرف جو
زمین اور آسمانوں کی چوڑائی رکھتی ہے اور خدا سے ڈر کر رہنے والوں کیلئے تیار کی
گئی ہے“
”وہ پرہیز گار کہ خوشحالی ہو یا بدحالی (خدا کی راہ میں)
بدستور خرچ کرتے ہیں۔ جو غصے کو پی جاتے ہیں۔ دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ایسے ہی نیکو کاروں سے محبت کرتا ہے“
”اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد
ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً
اللہ انہیں یاد آجاتا ہے تب وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں ___
اور اللہ کے سوا ہے بھی کون جو گناہ معاف کر سکتا ہو ___ اور وہ دیدہ و دانستہ
اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے“
”ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف
کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور
وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے“۔[(آل عمران: ١٣٣۔ ١٣٦)]
”اللہ کی طرف بار بار پلٹنے والے۔ بندگی میں لگے ہوئے لوگ۔
اس کی تعریف کے گن گانے والے (راہ حق میں) سفر (بھاگ دوڑ) کرنے والے۔ رکوع کرنے
والے۔ سجدوں میں پڑے رہنے والے۔ بھلائیوں کا حکم دینے والے۔ بدی سے روکنے والے۔
اللہ کی حدوں کے رکھوالے۔ اے نبی ایسے مومنوں کو خوشخبری دے دو“۔[(التوبہ: ١١٢)]
”مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، مومن مرد اور مومن عورتیں،
مطیع وفرماں بردار مرد اور مطیع و فرماں بردار عورتیں، راست باز مرد اور راست باز
عورتیں، صابر مرد اور صابر عورتیں، عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی
عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ
دار عورتیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت
اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں .... اللہ نے ان کیلئے مغفرت اور بڑا
اجر مہیا کر کر رکھا ہے“۔[(الاحزاب: ٣٥)]
”محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار
پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں۔ تم جب دیکھو گے انہیں رکوع وسجود اور اللہ کے فضل
اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پائو گے۔ سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود
ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی صفت تورات میں۔ اور انجیل میں ان
کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اسے
مضبوط کیا، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی۔ کاشت کرنے والوں کو وہ
خوش کرتی ہے تاکہ کافر ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے
ہیں اور جنہوںنے نیک عمل کئے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا
ہے“۔[(الفتح: ٢٩)]
”اور یہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، خواہ اپنی
جگہ محتاج کیوں نہ ہوں۔ بات یہ ہے کہ جو بھی اپنے دل کے بخل سے بچایا گیا وہی
کامیاب وبامراد ہے“۔[(الحشر: ٩)]
”جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے دامن بچا کر
رکھتے ہیں اور اگر غصہ آجائے تو درگزر کر جاتے ہیں“
”جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اور ان
کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے، اور ہم نے جو کچھ بھی ان کو دیا ہے اس میں
سے خرچ کرتے ہیں“”اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو پھر جو کوئی معاف کر دے اور
اصلاح کرے، اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا“”اور جو لوگ
اپنے پر ظلم ہونے کے بعد بدلہ لیں ان کو ملامت نہیں کی جا سکتی“۔[(الشوری: ٣٧۔ ٤١)]
”اور دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی برتر ہو اگر تم مومن
ہو“۔[(آل عمران:١٣٩)]
”کہہ دیجئے: میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا
ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور
اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔[(یوسف: ١٠٨)]
”وہی تو ہے جس نے اپنی مدد سے اور مومنوں کے ذریعہ سے تمہاری
تائید کی اور مومنوں کے دل ایک دورے کے ساتھ جوڑ دیے ہیں۔ تم روئے زمین کی ساری
دولت بھی خرچ کر ڈالتے تو ان لوگوں کے دل نہ جوڑ سکتے تھے مگر وہ اللہ ہے جس نے ان
لوگوں کے دل جوڑے، یقینا وہ بڑا زبردست اور دانا ہے“۔[(الانفال: ٦٢۔ ٦٣)]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے
کے گواہ بنو اگرچہ (تمہارے انصاف اور تمہاری راست گوئی کی) زد تمہاری اپنی ذات پر
یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو“۔[(النساء: ١٣٥)]
”اے ایمان والو! اللہ کی خاطر راستے پر قائم رہنے والے اور
انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ
انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر
کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے“۔[(المائدہ: ٨)]
المّ ١ ذٰلِکَ الکِتٰبُ
لاَرَیبَ ج فِیہِ ج ھُدًی لِّلمُتَّقِینَ ٢ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ وَیُقِیمُونَ
الصَّلٰوہَ وَمِمَّا رَزَقنٰھُم یُنفِقُونَ ٣ وَالَّذِینَ یُؤمِنُونَ
بِمَا اُنزِلَ اِلَیکَ وَمَا اُنزِلَ مِن قَبلِکَ ج وَ بِالاٰخِرَہِ ھُم
یُوقِنُونَ ٤ اُولٰئِکَ عَلیٰ ھُدًی مِّن رَّبِّھِم ق وُ اُولٰئِکَ ھُمُ
المُفلِحُونَ ٥
”الف، لام، میم۔ یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں۔
ہدایت ہے ان پرہیز گاروں کیلئے جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق
ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تم پر
نازل کیا گیا اور اس پر جو تم سے پہلے نازل کیا گیا۔ اور یہ آخرت کا یقین کرتے
ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور یہی ہیں جو فلاح پانے
والے ہیں“۔
المؤمن للمؤمن کا
لبنیان یشد بعضہ بعضا (اخرجہ الشیخان)
”مومن کا معاملہ مومن کے ساتھ مل کر یوں ہوتا ہے جیسے عمارت،
جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے“۔
مثل المؤمنین فی
توادھم وتراحمھم کمثل الجسد اذا اشتکی منہ عضو تداعی لہ سائر الجسد بالسھر الحمی
(متفق علیہ)
”باہمی مودت اور ایک دوسرے کیلئے دل پسیج جانے کے معاملے میں
مومنوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک جسد۔ اس کا ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو تو سارا
جسم ہی تپ اور بے آرامی سہتا ہے“۔
ان اللّٰہ قد اذھب
عنکم عبیہ الجا ھلیہ وفخرھا بالانساب، کلکم لآدم وآدم من تراب (رواہ ابو داؤد
والترمذی)
”یقینا اللہ نے جاہلی انداز حمیت اور باپ دادا کے نسب پر فخر
کرنے کو تم سے دور کر دیا۔ تم سب آدم کا نسب ہو اور آدم کا نسب مٹی“۔
لیس الشدید بالصرعہ،
ولکن من یملک نفسہ عندالغضب (اخرجہ الشیخان)
”طاقتور وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے، طاقتور وہ ہے جو طیش کی
حالت میں خود پر قابو پالیتا ہو“
وتبسمک فی وجہ اخیک
صدقہ (رواہ الترمذی)
”اپنے بھائی کے روبر تمہارا مسکرا دینا بھی صدقہ ہے“۔
ان قامت الساعہ وبید
احدکم فسیلہ فلیغرسھا (رواہ احمد)
”قیامت آجائے، جبکہ تم سے کسی کے ہاتھ میں کھجور کی قلم ہو
تب بھی اس کو زمین میں ضرور ہی لگا دے“۔
مثل القائم فی حدود
اللّٰہ، والواقع فیھا، کمثل قوم استھموا علی سفینہ وکان بعضہم اعلاھا وبعضہم
اسفلھا فکان الذین فی اسفلھا اذا استقوا مروا علی من فوقھم، فقالوا: لو انا خرقنا
فی نصیبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا! فلو ترکوھم وما ارادوا ھلکوا جمیعاً ولو اخذوا
علی ایدیھم نجوا ونجوا جمیعاً (اخرجہ البخاری)
”ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی حدوں کی رکھوالی کرنے والے ہیں
اور ان کی مثال جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کر جاتے ہیں کچھ یوں ہے کہ جیسے کچھ لوگ
بحری جہاز پہ سوار ہوں اور قرعے ڈال کر جہاز میں اپنی اپنی جگہوں کا تعین
کرلیں۔کچھ لوگوں کے حصہ میں جہاز کی بالائی منزل آئے اور کچھ کے حصہ میں زیریں
حصہ۔ زیریں منزل کے لوگوں کو جب بھی پانی کی ضرورت ہو تو ان کو اوپر والوں کے بیچ
سے گزر کر جانا پڑے۔ آخر یہ کہتے ہیں: کیوں نہ ہم اپنے حصہ کے جہاز میں ایک سوراخ
کر لیں اور اوپر والوں کیلئے باعث مزاحمت نہ بنیں! اب اگر وہ ان کو جو کرتے ہیں
کرنے دیں تو سب مرتے ہیں۔ البتہ اگر وہ ان کو ہاتھ سے روک دیتے ہیں تو وہ بھی بچتے
ہیں اور سارے ہی بچتے ہیں“۔
ان اللّٰہ کتب
الاحسان علی کل شیئ، فاذا اقتلتم فاحسنوا القتلہ، واذا ذبحتم فاحسنوا الذبحہ،
ولیحد احدکم شفرتہ ولیرح ذبیحتہ (رواہ مسلم والنسائی والترمذی وابودائود وابن ماجہ)
”خدا نے ہر چیز میں احسان فرض ٹھہرا دیا ہے۔ پس جب تم کو قتل
بھی کرنا ہو تو قتل کرنے میں نیکی اور رحمدلی سے کام لو۔ جب تم کو (کوئی جانور)
ذبح کرنا ہو تو ذبح کرنے میں احسان کا انداز اپناؤ۔ آدمی نے چھری تیز کر رکھی ہو
اور ذبح ہونے والی مخلوق کو (مقدور بھر) آرام پہنچائے“۔
الا انی اتقاکم للٰہ
واخشاکم لہ، ولکنی اصوم وافطر، واقوم وانام، واتزوج النساءفمن رغب عن سنتی فلیس
منی (رواہ الشیخان)
”خبردار میں تم میں سب سے زیادہ خدا کا پرہیز گار ہوں اور سب
سے زیادہ خدا کی خشیت کرتا ہوں۔ مگر میں روزہ رکھ بھی لیتا ہوں اور روزہ چھوڑ بھی
لیتا ہوں۔ میں رات کو قیام بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں۔ میں عورتوں سے رشتہ
ازدواج میں منسلک بھی ہوں۔ پس جو میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ میں سے نہیں“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسی ہی منفرد صفات
کی بنا پر، اور ان صفات کے اعلیٰ ترین درجوں پر پہنچا کر رسول اللہ نے اہل ایمان
کی وہ بنیادی جمعیت تیار کی تھی۔ تب یہ جمعت روئے زمین کے واقع میں کیا تبدیلی لے
کر آئی؟
ابتدائی طور پر یہ وہ
نیوکلیس تھا جس کے گرد جزیرہء عرب کے اندر ہرطرف مسلمان اکٹھے ہونے لگے۔ موجودہ
دور کی زبان استعمال کرنا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ یہ وہ ’کور‘ تھی جس کے گرد پھر وقفے وقفے سے ’عوام‘ آملتے
رہے اور جن کے بل پر پھر یہ دعوت انسانی وجود کے ہر افق پر پھیل گئی.... گو اس کی
ابتدائی تجربہ گاہ اور کامیاب ترین تجربہ گاہ جزیرہ العرب بنا ....
حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ
دعوت جس کو زمینی حقائق کے اندر ایک بنیادی تبدیلی لے کر آنا ہوتی ہے اس کیلئے
عوام میں پذیرائی پانا اور عوامی رو بننا ناگزیر ہوتا ہے۔ مگر ایسی ’عوامی
پذیرائی‘ اور ’عوامی رو‘ کو جس چیز کے گرد اکٹھا ہونا ہوتا ہے وہ ایک ایسی قیادت
ہے جو اس کو تربیت دینے پر قدرت رکھتی ہو اور پھر اس قیادت کے گرد ایک ایسا
نیوکلیس ہے جو اس قیادت اور اس کے افکار کا ایک زبردست عملی انعکاس بن گیا ہو یہاں
تک کہ ’عوام‘ کی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگا ہو۔ یہاں تک کہ لوگ آپ سے آپ ’قیادت‘ کے
گرد بنے ہوئے اس ’نیوکلیس‘ کے گرد جمع ہونے لگیں اور اسی کے رنگ میں رنگے جانے
لگیں۔ ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ یہ عوامی اکٹھ تربیت میں اس سطح کو بہرحال نہیں
پہنچا ہوگا جس سطح پر ’قیادت‘ نے اس ’بنیادی جمعیت‘ کو ایک خاص محنت، تربیت
اورنگہداشت کرکے پہنچا لیا ہوگا۔
خود رسول اللہ کا
تیار کردہ معاشرہ سارے کا سارا اس معیار کو نہیں پہنچا تھا جس تک آپ کی تیار کردہ
وہ ایک خاص کھیپ پہنچی ہوئی تھی جس کو کہ آپ نے معاشرے کی قیادت کیلئے تیار کیا
تھا۔ چنانچہ اس معاشرے میں جہاں علم اور ایمان کی بے مثال تصویریں پائی جاتی تھیں
وہیں وہ لوگ بھی تھے جن کو قرآن نے ’مثاقلین‘ (بوجھل ہو رہنے والے) قرار دیا۔ انہی
میں ’مبطئین‘ (جہاد کیلئے نکلنے میں پس و پیش کرنے والے) بھی پائے جاتے تھے۔ ان
میں ضعیف الایمان بھی تھے۔ ان ہی میں وہ لوگ بھی تھے جو ہر نئے واقعے سے متاثر ہو
جاتے تھے اور ہر نئی فتح یا شکست ان کے رخ پر اثر انداز ہوتی تھی اور جو کہ
افواہوں تک سے متاثر ہو جایا کرتے تھے۔ معاشرے کے یہ سب طبقے ابھی منافقین کے
علاوہ تھے، چاہے یہ وہ منافقین ہوں جن کا نفاق کھلا تھا اور چاہے وہ منافقین جو
اپنے نفاق کو چھپا کر رکھتے تھے۔
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہیں کیا ہو گیا کہ جب تم سے
اللہ کی راہ میں نکلنے کیلئے کہا گیا تو تم زمین کی جانب بوجھل ہو گئے“۔[(التوبہ: ٣٨)]
”اور یقینا تم میں بعض ایسے بھی ہیں جو (جہاد کیلئے نکلنے
میں)پس وپیش کرتے ہیں، پھر اگر تمہیں کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اللہ
تعالیٰ نے مجھ پر بڑا فضل کیا کہ میں ان کے ساتھ موجود نہ تھا اور اگر تمہیں اللہ
کا کوئی فضل مل جائے تو اس طرح گویا تم میں ان میں دوستی تھی ہی نہیں، کہتے ہیں
کاش! میں بھی ان کے ہمراہ ہوتا تو بڑی کامیابی کو پہنچتا۔“[(النساء: ٧٢۔ ٧٣)]
”تم نے ان لوگوں کو بھی دیکھا جن سے کہا گیا تھا کہ اپنے
ہاتھ روکے رکھو اور نماز قائم کرو اور زکوٰت دو! اب جو انہیں لڑائی کا حکم دیا گیا
تو ان میں سے ایک فریق کا حال یہ ہے کہ لوگوں سے ایسا ڈر رہے ہیں جیسا خدا سے ڈرنا
چاہیے یا کچھ اس سے بھی بڑھ کر۔ کہتے ہیں خدایا! یہ ہم پر لڑائی کا حکم کیوں لکھ
دیا؟ کیوں نہ ہمیں ابھی کچھ اور مہلت دی؟ ان سے کہو، دُنیا کا سرمایہءزندگی تھوڑا
ہے اور آخرت ایک خدا ترس انسان کیلئے زیادہ بہتر ہے اور تم پر ظلم ایک شمہ برابر
بھی نہ کیا جائیگا“۔[(النساء: ٧٧)]
”جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی تو یہ اسے لے کر
پھیلانے لگے حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچاتے
تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجاتی جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ
اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور رحمت نہ ہوتی تو
معدودے چند کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ گئے ہوتے“[(النساء: ٨٣)]
رہے منافقین تو ان کا
تو ذکر ہی کیا....
اب اگر یہ سب لوگ
رسول اللہ کے تعمیر کردہ معاشرے میں پائے جاتے ہیں جبکہ رسول اللہ بنفس نفیس ان کے
درمیان موجود ہیں اور لوگوں کی اصلاح کیلئے ایک کے بعد ایک وحی اترتی ہے جس سے
لوگوں کو اپنے احساسات اور رویے تک درست کر لینے میں مدد ملتی ہے تو اس سے واضح
ہوا کہ ’عوامی اکٹھ‘ کی بابت یہ ضروری نہیں کہ وہ بھی سارے کا سارا ’معیاری‘ ہو۔
نہ یہ ممکن ہی ہے کہ یہ ’عوامی اکٹھ‘ بھی عین اس چنیدہ جمعیت کے پائے کا ہو جس کو
قیادت نے بڑی محنت اور عرق ریزی کے ساتھ تیار کیا ہو .... مگر تاریخی حقائق اس بات
پر گواہ ہیں کہ رسول اللہ نے جس چنیدہ قسم کی جمعیت کو تعلیم اور تربیت دے لی تھی
اور خاص اپنی نگرانی میں اور اپنے زیرسرپرستی ان کی تیاری پروان چڑھائی تھی ....
وہ جمعیت بلاشبہ اپنے ایمان میں وہ رسوخ اور صدق عزیمت میں وہ مقام رکھتی تھی کہ
وہ بھاری بھر کم معاشروں کا بوجھ بڑی آسانی سے اٹھا لے اور ان کو لے کر اپنے مقاصد
کی جانب رواں دواں ہو لے اور یہ کہ ان معاشروں کے اندر جتنے بھی ”مثاقلون“ (بوجھل
ہو رہنے والے) اور ”مبطئون“ (پست ہمتی دکھانے والے) اور ضعیف الایمان لوگ پائے
جائیں یا جتنے بھی ایسے عناصر پائے جائیں جو ہر نئی خبر پہ چونک جانے والے اور ہر
نئے واقعے سے متاثر ہونے والے ہوں، حتی کہ معاشرے کے منافق طبقے بھی کیوں نہ پائے
جاتے ہوں اور سیدھے سیدھے دشمن بھی کیوںنہ موجود ہوں، یہ سب کو غیر موثر کرکے رکھ
دے اور معاشرے کا رخ اپنے ہی اہداف کی جانب رکھے۔
یہ ہے وہ سبق جو ہمیں
سیرت کے اس واقعہ سے لینا ہے۔ یعنی ایک مضبوط، راسخ الایمان اور ایک اعلیٰ معیار
کی سمجھ بوجھ کی مالک جمعیت کی تیاری۔ کیونکہ ایک ایسی جمعیت پائے جانے کے بغیر
عوام کو اگر دعوت کے گرد اکٹھا کر بھی لیا جائے تو معاشروں کو چلایا نہیں جا سکتا۔
’معاشرے‘ ایک بھاری بھر کم چیز ہیں۔ کشش ثقل ان پر اثر انداز ہو کر رہتی ہے۔ ان کو
تھام کر بلندی کی ایک خاص سطح پر برقرار رکھنا ایک خاص عمل چاہتا ہے۔ بھاری بھر کم
معاشرے چلیں اور ٹھیک چلتے جائیں اور پیر پیر پر ان کا رخ درست ہوتا رہے اور ہر
انحراف کا بروقت اور ساتھ ساتھ سدباب ہوتا رہے .... یہ ہرگز معمولی کام نہیں اس
کیلئے ایک خاص معیار کی انسانی جمعیت پہلے وجود میں لے آئی جانا ضروری ہے۔
پس ایک گہرے فہم اور
ایک اعلیٰ ترین کردار کی مالک انسانی جمعیت کی تیاری ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ یہ
’تعیش‘ کے زمرے میں نہیں آتی۔ یہ ’زائد از ضرورت‘ نہیں۔ یہ وہ چیز نہیں جس کے بغیر
بھی ’گزارا‘ ہو جائے۔ معاشروں کو چلانے میں اس کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ جب رسول اللہ
نے معاشرہ پر اثر انداز ہو سکنے والی مضبوط ایمانی جمعیت تیار کرلی اور پھر اس کو
’عوام‘ کی قیادت پر بھی مامور کردیا، چاہے یہ عسکری اور جنگی قیادت کا معاملہ ہو،
چاہے یہ انفرادی زندگی کے اندر ایک اخلاقی قیادت کا بہم پہنچانا ہو، چاہے معاشرتی
زندگی کے اندر ایک سماجی قیادت کا لایا جانا ہو، چاہے یہ فکری اور نظریاتی قیادت
کا معاملہ ہو جو معاشروں کو حقیقت اسلام سے آشنا کرے اور قول اور کردار سے معاشروں
کو تعلیم دے .... غرض جب آپ نے یہ کام انجام دے لیا تو اصل میں آپ کی نگرانی کے
اندر تربیت پا لینے والی یہ خاص جمعیت تھی جس نے پھر جزیرہء عرب میں جاہلیت سے
مڈبھیڑ کی اور بالآخر اس کو شکست دی، اس کو وجود سے ختم کیا، اس کی بنیادیں تک
ملیامیٹ کر دیں اور اس کی جگہ ایک بالکل نئی عمارت کھڑی کر دی۔
یہ عمل درحقیقت کوئی
اتنا آسان نہیں تھا۔
یہ اندازہ اسی کو ہو
سکتاہے جو وقائع تاریخ کا تتبع کرتا ہو اور جو قرآن کی ان آیات پر تدبر کرتا ہو جو
حق اور باطل کے اس معرکے کی حقیقت بیان کرتی ہیں جو رسول اللہ کی زیر سرکردگی
جزیرہء عرب کے اندر لڑا گیا۔ وہی شخص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ اس کشمکش کے اندر کس
قدر محنت اور جدوجہد صرف ہوئی تب جا کر کہیں پلڑا دین حق کے حق میں ایک فیصلہ کن
انداز سے جھکا۔ خواہ وہ نفسیاتی جدوجہد ہو جو ’صبر‘ کی صورت میں صرف کی گئی اور جس
کے بل پر بڑی دیر تک اس معرکے کی تپش سہی جاتی رہی اور اس کیلئے نفوس کو سرگرم
رکھا گیا، یا پھر یہ بدنی اور مادی جدوجہد ہو۔ وہ قربانیاں کتنی بڑی ہیں جو حق
وباطل کے اس بے نظیر معرکے کے اندر دی گئیں۔ وہ کیسی کیسی جانفروشی تھی جو اس راہ
میں دکھائی گئی۔ کیسی کیسی اخلاقی قدریں اور مثالیں ہیں جو ہر ہر موڑ پر قائم کی
گئیں .... پھر اسی شخص کو یہ اندازہ ہو سکتا ہے کہ اس چنیدہ انسانی جمعیت کی
رہنمائی کیلئے اور پھر اس جمعیت کے ذریعے سے ’عوامی جمگھٹوں‘ کو ایک بار پھر
بہترین راہ پر ڈال دینے کیلئے نبی کا بنفس نفیس موجود ہونا کیا معنی رکھتا ہے ....
اور پھر وہی شحص یہ اندازہ کر سکتا ہے کہ جہاد کے اس پورے عمل میں اس مٹھی بھر
جمعیت کی کیا ’اہمیت‘ بنتی ہے جس نے رسول اللہ کے ہاتھوں تربیت پا کر بہت تھوڑے
عرصے میں جزیرہ عرب کے اندر زندگی کا دھارا بدل دیا اور پھر روئے زمین کے اندر بھی
زندگی کا دھارا بدل کر رکھ دیا۔
یہ کشمکش ہرگزکوئی
معمولی کشمکش نہ تھی .... ایک ایسی کشمکش جس کو ایک طرف فاسد عقائد اور گم گشتہ
راہ نظریات کا سامنا ہے۔ دوسری طرف فساد زدہ قدریں ہیں۔ تیسری طرف فساد زدہ رویے
اور طرز ہائے سلوک ہیں۔ چوتھی طرف فساد زدہ نفوس ہیں جو اس انحراف کے باعث جو
عقائد کے اندر اور قدروں کے اندر اور معاشرہ وسماج اور رویوں کے اندر ایک مدت دراز
سے آیا ہوا ہے نہ صرف منحرف ہو گئے ہیں بلکہ اسی کے قالب میں ڈھل گئے ہیں اور اسی
انحراف کو اپنے لئے درست پوزیشن جانتے ہیں اور سیدھا کئے جانے کو سمجھتے ہیں کہ یہ
ٹیڑھا کیا جانا ہے۔ باطل ان کیلئے حق ہو گیا ہے جس کا ان کے خیال میں ہر صورت تحفظ
کیا جانا ہے اور اس کے راستے میں ان کو مرنا اور مرانا تک گوارہ ہے!
بوجوہ اس کشمکش کو جو
حق اور باطل کے مابین تھی اللہ تعالیٰ نے ان دھاتوں سے تشبیہ دی ”جنہیں زیور اور
ساز وسامان بنانے کیلئے آگ میں تپاتے ہیں“:
”اللہ نے آسمان سے پانی برسایا (جس سے) ہر ندی نالہ اپنی ظرف
کے بقدر بہہ نکلا۔ پھر پانی کے ریلے نے اوپر چڑھے جھاگ کو اٹھا لیا۔ اور ایسے ہی
جھاگ ان (دھاتوں) پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور ساز وسامان بنانے کیلئے آگ میں
ڈال کر تپاتے ہیں۔ اسی مثال سے اللہ حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو
جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسانوں کیلئے نافع ہے وہ زمین میں ٹھہر
جاتی ہے۔ اسی طرح مثالوں سے اللہ اپنی بات سمجھاتا ہے“۔[(الرعد: ١٧)]
یہ واقعی ایک آگ
ہے۔تپش رکھتی ہے۔ داغ دیتی ہے۔ اس کے پاس آکر دماغ کھولنے لگتا ہے۔ برداشت مشکل ہو
جاتی ہے۔ پھر بھی اہل ایمان اس کی تاب لے آتے ہیں۔ صبر اور عزیمت اختیار کرتے ہیں۔
خدا پر بھروسہ کرتے ہیں۔ توکل اور انابت سے کام لیتے ہیں۔ اسی کے اندر سے راستہ
بنا کر خدا کی جانب بڑھنے پر مصر رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ان مومن
مجاہد صابر نفوس کی صفائی ہوتی ہے۔ ناخالص مادے جل جاتے ہیں۔ جو کچھ خالص ہے وہ
نفوس کے اندر بچ رہتا ہے۔ نفوس اب مکمل طور پر خدا کے اور خدا کیلئے ہو رہتے ہیں۔
ایک اخلاص اور تجرد آتا ہے۔ اب یہ نفوس جب آگے بڑھتے ہیں تو زمین کے اندر بھی جو
ناخالص مادے پائے جاتے ہیں ختم ہونے لگتے ہیں۔ بدی اور برائی اور خباثت کا روئے
زمین سے بھی خاتمہ ہونے لگتا ہے۔ باطل کی سلطنت اور کروفر خاک میں ملتا ہے اور
معاشرے کے اندر حق سر اٹھا لیتا ہے ....
اسلام کی یہ اساسی
جمعیت ان سب کٹھن مرحلوں سے گزر کر ہی آگے بڑھی تھی۔ اس کو یہ پورا راستہ چلنا پڑا
تھا۔ آخرکار وہ اپنے گردوپیش میں اپنا پورا کردار ادا کرنے پر قادر ہوئی .... یہاں
تک کہ جزیرہء عرب میں معاملہ اسلام کے حق میں پوری طرح اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے
استوار ہوگیا۔
تب اس جمعیت نے اس سے
بھی وسیع تر کردار سنبھا ل لیا ....
جزیرہء عرب اس تحریک
کا نقطہء آغاز تھا، صحیح ہے۔ یہیں رہ کر اس کو تیار ہونا تھا۔ یہیں سے اس کو اپنے
عمل کی ابتدا کرنی تھی مگر اس کا ہدف پوری زمین تھی!
یہ دین تمام انسانوں
کیلئے نازل ہوا تھا۔ یہ مومن جو جزیرہء عرب میں رسول اللہ کی زیرقیادت کھڑے ہوئے
وہ پوری انسانیت کے ہادی تھے۔ ان کو تمام دُنیا کے انسانوں کو دین حق کی طرف لے کر
آنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان کو اس دین کی حقیقت پوری دُنیا پر ظاہر کرنا
تھی اور بنی نوع انسان کو سب کے سب بنی نوع انسان کو تعلیم دینا تھی۔
وکذلک جعلناکم اَمت
وسطا لتکونوا شہداءعلی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ: ١٤٣)
”اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ’امت واسطہ‘ بنایا ہے تاکہ تم
لوگوں پر شہادت قائم کرو اور رسول تم پر شہادت قائم کرے“۔
ولتکن منکم امت یدعون
الی الخیر و یامرون بالمعروف وینہون عن المنکر و اولئک ھم المفلحون (آل عمران: ١٠٤)
”تم میں ایک امت تو ایسی رہنی چاہیے جو (لوگوں کو) نیکی کی
طرف لائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے
والے ہوں گے“۔
یہ ہرگز کوئی آسان
کام نہ تھا ....
تاریخ عموماً انہی
معرکوں پر توجہ مرکوز کرتی ہے جو فوجوں کے درمیان لڑے گئے ہوں۔
یہ حقیقت شاید درست
بھی ہے کہ فوجوں کے مابین لڑے جانے والے معرکے بالآخر کسی کشمکش کو سرے پہنچانے
میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جاتے ہیں مگر خود یہ کشمکش کیا ہے جس پر فوجیں
آمادہء جنگ ہیں، اصل سوال یہ ہوتا ہے۔ فوجوں کو مصروف جنگ دیکھ کر اس کشمکش سے جو
اس جنگ کا باعث بنی، صرف نظر کر لینا اور خود اس کشمکش کو بھی ایک فوجی اور جنگی
کارروائی جان لینا کہ جس کا فیصلہ بس فوجوں ہی کے کرنے کا ہو! یہ زاویہ نگاہ اس
کشمکش کی حقیقت کے اہم ترین جوانب کو روپوش کرا دیتا ہے اور اس کو بہت ہی محدود
معنی میں محصور کر دیتا ہے اور معاملے کی اصل حقیقت اور اس کے اہم تر جواب کو معطل
یا ثانوی اور حاشیائی کر دینے کا باعث بنتا ہے۔ یہ اصل اور اہم تر جوانب وہ عقائد،
وہ نظریات اور وہ قدریں ہوا کرتی ہیں جن کے باعث ابتدائً یہ کشمکش برپا ہوئی ہوتی
ہے۔
یہ کشمکش جو جزیرہء
عرب میں برپا ہوئی تھی اور پھر زمین کے ایک بڑے حصے پر پھیل گئی تھی .... دور حاضر
کی زبان استعمال کی جائے تو دراصل ایک تہذیب کی جنگ تھی۔ ایک صحت مند تہذیب اور
ایک فاسد تہذیب کی کشمکش۔ ایک ایمانی تہذیب اور ایک جاہلی تہذیب کی کشمکش۔ ایک ہمہ
گیر کشمکش۔ جو نفس انسانی کے تمام جوانب کو گھیر لے۔ جو حیات انسانی کے تمام جوانب
کا احاطہ کرے .... یہ الگ بات کہ اس میں فوجی اور جنگی کشمکش کی نوبت کا آنا اس
کشمکش کا وہ اہم ترین نقطہ تھا جو ہمیشہ کیلئے نہ سہی پھر بھی کچھ دیر کیلئے ایک
فیصلہ کن حیثیت اختیار کرلے!
تاریخ کے بعض ادوار
میں غلبہ تاتاریوں نے بھی پایا اور زمین کے ایک بڑے حصہ کو روند ڈالا۔ مگر انہوں
نے کوئی تہذیب کھڑی نہ کی۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ انہوں نے تہذیب کا صفایا
کیا اور اس کی جگہ محض ایک بے تہذیبی اور ایک فساد برپا کیا اور کفر وسرکشی کا بول
بالا کیا .... تاآنکہ خدا نے ان کو اسلام میں آجانے کی توفیق دے دی۔
تاریخ جدید کے اندر
مغرب کے لشکروں نے بھی دُنیا پر غلبہ پایا اور زمین کا ایک بڑا حصہ روند ڈالا مگر
وہ کوئی حقیقی تہذیب کھڑی نہ کر پائے جس کے بارے میں کہا جائے کہ اس کو واقعی ہونا
چاہیئے اور واقعی اس کو پھلنا پھولنا چاہیے۔ باوجود اس کے کہ مادی برتری اور
ٹیکنالوجی اور سائنس ترقی میں کوئی ان کا ثانی نہیں انہوں نے بھی روئے زمین پر کچھ
رائج کیا تو وہ جنگل کا قانون تھا: طاقتور کا حق ہے کہ کمزور کو کھا جائے یا پھر
اس کو پچھاڑ کر آگے گزر جائے۔ نظریات کا وہ فساد پھیلایا اور اخلاق اور اعلیٰ
قدروں کی وہ دھجیاں اڑائیں کہ جاہلیت کی تاریخ میں بھی اس کی مثال ملنا مشکل ہو۔
جنگی کشمکش اصل کشمکش
ہوتی ہی نہیں۔ یا کم از کم یہ کہہ لیجئے کہ جنگی کشمکش تنہا وہ چیز نہیں جو اصل
کشمکش ہو۔ اصل چیز وہ قدریں ہیں جو اس کشمکش کے پیچھے بولتی ہوں۔ اصل چیز وہ قدریں
ہیں جن کی خاطر فوجیں میدان میں اترتی ہیں۔ اصل چیز دیکھنے کی یہ ہے کہ کس فوج کی
جیت کی صورت میں کن قدروں کی جیت ہوگی! یہ وہ چیز ہے جس میں اسلامی فتوحات دُنیا
کی ہر توسیع پسندانہ جنگ سے متمیز و ممتاز نظر آتی ہیں۔
یہ کوئی شہوت توسیع
پسندی نہ تھی جو اسلامی فتوحات کے اس عظیم الشان واقعہ کے پیچھے کار فرما تھی۔ یہ
نہ ملک گیری کی ہوس تھی اور نہ ’دیگر اقوام‘ کو ذلیل اور مسخر کرنے کا جذبہ تھا جو
مسلم عرب افواج کو زمین کے ایک وسیع خطہ کے اندر متحرک کر رہا تھا۔ یہ وہ ہدف تھا
جو خود خدا نے ان کیلئے متعین کردیا تھا اور وہ یہ کہ یہ آگے بڑھ کر اطراف عالم
میں توحید نشر کریں،جاہلیت کو انسانی زندگی کی قیادت سے بے دخل کریں اور اس کی
سرکشی کاخاتمہ کریں تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور دین ایک اللہ وحدہ لاشریک کیلئے
ہو جائے:
وقاتلوھم حتی لا تکون
فتنہ ویکون الدین کلہ للّٰہ (الانفال: ٣٩)
یہ ہدف وہ تھا جو سپہ
سالار فارس کے روبرو ربعی بن عامر کی زبان پر بے ساختہ آجاتا ہے:
اخراج الناس من عبادت
العباد الی عبادت رب العباد، ومن جور الادیان الی عدل الاسلام، ومن ضیق الدنیا الی
سعہ الدنیا والاخرہ
”یہ کہ لوگوں کو نکال لایا جائے:
بندوں کی بندگی سے
بندوں کے رب کی بندگی کی طرف
ادیان کے جور وستم سے
اسلام کے عدل کی جانب
اور دُنیا کی تنگی سے
دُنیا وآخرت کی وسعت کی جانب“....
چنانچہ یہ اعلیٰ
قدروں پر مشتمل ایک حسین تہذیب کی پیش قدمی تھی اور جس کے پیش نظر بنی نوع انسان
کو طاغوت کی عبادت وبندگی سے آزادی دلا کر اللہ کی بندگی میں لانا تھا۔ انسان کو
اوھام اور خرافات کے چنگل سے چھڑا کر حقیقت کو گلے لگانے کے قابل بنانا تھا۔ ظلم
وجور سے نجات دلا کر عدل اور قسط اور خدا خوفی سے آشنا کرانا تھا۔ جہالت سے
چھٹکارا دلا کر علم اور آگہی سے روشناس کرانا تھا اور ظلمات سے نکال کر روشنی میں
لے کر آنا تھا۔
دُنیا کے اندر کسی
ثقافتی تحریک نے بھی تاریخ کو وہ حسن نہیں دیا جو کہ اسلامی فتوحات کے حصے میں
آیا۔
اسلامی فتوحات کے اس
بے نظیر واقعہ پہ نگاہ ڈالیے آدمی حیرت واعجاب کے سمندر میں غوطہ زن ہو جاتا ہے۔
حیرت و اعجاب کی اس میں بس یہی بات نہیں کہ مسلم افواج کے ہاں ایک محیر العقول
جنگی صلاحیت نظر آتی ہے جس کی بنا پر اسلام کے دور اول کیلئے یہ واقعہ ایک معمول
کی حیثیت رکھتا ہے کہ اہل ایمان کی مٹھی بھر افواج جو کہ سازوسامان بھی پورا پاس
نہیں رکھتیں اپنے سے کئی گنا زیادہ اور سازوسامان سے لدی ہوئی افواج کو، جو کہ
فارس و روم میں صدیوں کے عسکری فنون اور جنگی تجربات رکھنے پر اتراتی نہیں تھکتیں،
یوں اپنے راستے سے ہٹا دیتی ہیں جیسے یہ کوئی چیز ہی نہ ہوں .... جس کی کوئی تفسیر
کی ہی نہیں جا سکتی سوائے اس کے کہ خدا کی مدد شامل حال ہونے کے ساتھ ساتھ یہ اس
منفرد عقیدہ کا ان کی زندگیوں میں اثر تھا جو کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے
والوں کی شخصیت میں ضرور ایک اثر دکھاتا ہے اور یہ کہ یہ اس تربیت کا اثر تھا جو
ایک صحیح عقیدہ کی بنا پر ان کو دی گئی تھی اور جس نے ان میں ہمت اور عمل کی وہ
روح پھونک دی تھی کہ یہ تعداد میں بہت تھوڑے اور سازوسامان میں معمولی ہونے کے
باوجود نصف صدی سے بھی کم مدت کے اندر مغرب میں بحر اوقیانوس تک پہنچے اور مشرق
میں ہندوستان تک۔ ایک تحریک کے پھیلنے کی یہ وہ رفتار ہے جو تاریخ میں اس سے پہلے
کبھی سننے میں آئی اور نہ بعد میں۔
دیکھنے والے کے حیرت
و اعجاب کی اس میں بس یہی بات نہیں کہ کس طرح اس مٹھی بھر جمعیت کو دُنیا کی عظیم
ترین فوجی طاقتوں کے روبرو ایک محیر العقول جنگی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے اور وہ کس
رفتار سے دُنیا میں ہر طرف پیش قدمی کرتی ہے ___ باوجود اس کے یہ بات بھی تاریخ کا
کوئی معمولی واقعہ نہیں۔ بلاشبہ یہ بات بذات خود بھی تاریخی طور پر ایک بہت ہی بڑی
اور غیر معمولی دلالت رکھتی ہے ___ مگر اس میں حیرت واعجاب کی اصل بات تو یہ ہے کہ
یہ تحریک محض شہر اور قلعے فتح نہیں کرتی بلکہ یہ دلوں کو فتح کرتی ہے۔ دل اس کے
گرویدہ ہوتے ہیں اور ایک بے انتہا مختصر مدت میں روئے زمین کے کروڑوں انسان دین حق
کو قبول کر لیتے ہیں .... بغیر کسی بھی زبردستی کے!
یہ قتال لوگوں پر
قبول اسلام کیلئے زبردستی کرنے کی خاطر دراصل تھا ہی نہیں۔
لا اکراہ فی الدین قد
تبین الرشد من الغی (البقرہ: ٢٥٦)
”دین کے معاملے میں کوئی زور وزبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط
خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے“۔
یہ قتال تو تھا دراصل
جاہلیت کو راستے سے ہٹانے کیلئے جاہلیت جو محض کچھ عقائد اور نظریات کا نام نہیں
تھا۔ بلکہ ان عقائد پر باطل کے باقاعدہ نظام قائم تھے اور اس باطل کو جاہلی فوجوں
اور لشکروں اور طاقت کی حمایت حاصل تھی۔ اب اگر اس کا تسلط لوگوں کے اوپر سے ختم
کر دیا جاتا ہے تو لوگ آزاد ہو جاتے ہیں جس کے بعد وہ اپنے حق میں جو فیصلہ کرنا
چاہیں کریں۔
قد تبین الرشد من
الغی فمن یکفر بالطاغوت ویؤمن باللّٰہ فقد استمسک بالعروہ الوثقی لا انفصام لہا
واللّٰہ سمیع علیم (البقرہ: ٢٥٦)
”صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔ اب جو
کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا، اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام
لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔ اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے
اور جاننے والا ہے“۔
اب اس جاہلیت کے تسلط
سے آزاد کرا دیا جانے کے بعد وہ شخص بھی جو اپنے دین پہ باقی رہنا چاہتا ہے اور
اپنی گمراہی کے واضح ہوجانے کے باوجود اسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ کرتا ہے اس کو
بھی اپنی جان اور مال اور اپنے دین اور اپنی پوری ہستی کا تحفظ حاصل ہے جب تک کہ
وہ اہل ایمان پر ظلم وتعدی یا ان سے قتال کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا!
لا ینھاکم اللّٰہ عن
الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبروھم وتقسطوا الیہم ان
اللّٰہ یحب المقسطین (الممتحنہ: ٨)
”اللہ تمہیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ
نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور
تمہیں تمہارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو یقینا پسند کرتا
ہے“۔
یہ کروڑوں انسان جو
دین اسلام میں بغیر کسی اکراہ کے اور جوق درجوق داخل ہوئے .... یہ اسلام میں تب
داخل ہوئے جب انہوں نے اسلام کو انسانوں کی ایک جمعیت کے اندر حقیقت کا روپ پائے
ہوئے دیکھا۔ جب ان کو انسانوں کی ایک تعداد کے اندر یہ اسلام عملاً چلتا پھرتا نظر
آیا اور اس دین کو انسانی شکل میں دُنیا کے اندر نمودار ہوتے دیکھا تو پھر وہ اس
کو پسند کئے بغیر رہ ہی نہ سکے۔ لوگوں کے دل آپ مجبور ہو رہے تھے کہ وہ اس دین کو
قبول کرلیں۔ اسلام کو ایک ایسی انسانی صورت میں اگر پیش نہ کیا گیا ہوتا.... عقیدہ
کو اگر کردار میں یوں تبدیل نہ کیا گیا ہوتا اور لوگ اسلامی تصور حیات کو انسانی
صورت میں چلتا پھرتا کیوں نہ دیکھ لیتے تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اتنی محدود مدت
میں اس نئے دین کے اندر داخل نہ ہوپاتی بے شک ان کو جنگ کے میدان میں شکست ہی کیوں
نہ دے لی گئی ہوتی۔ تلوار خطہء ارض فتح کر سکتی ہے مگر دلوں کو مفتوح نہیں کر سکتی!
خدا اگر خود اپنے
رسول سے یہ کہتا ہے: ولو کنت فظاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک ”اے نبی اگر کہیں
تم تندخو اور سخت دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گرد سے چھٹ جاتے“.... جبکہ آپ اللہ کے
رسول ہیں تو پھر یہ فاتحین جو کہ نبی بھی نہیں کیونکر اقوام عالم کے دِل جیت سکتے
تھے اگر وہ مکارم اخلاق اور اعلیٰ قدروں میں بلندی کی ایک خاص سطح کو نہ پہنچے
ہوتے!؟
یہ واقعہ کہ تاریخ کی
اس خاص گھڑی میں قوموں کی قومیں داخل اسلام ہو جاتی ہیں دراصل اس منفرد انداز
تربیت کے ثمرات میں سے ایک ثمر ہے جس پر رسول اللہ کے ہاتھوں اسلام کی اس تاسیسی
جمعیت کی اٹھان ہوئی تھی۔ یہ انسانی جمعیت جس کی تربیت اور تیاری پر آپ نے اپنی
تمام تر محنت اور توجہ صرف کر دی تھی بالآخر خدائی تقدیر کا ایک عملی ذریعہ بنی۔
خدا نے انسانی تاریخ میں ایک واقعہ کو رونما تو کرنا تھا یہ اس کی تقدیر تھی مگر
رسول اللہ کے ہاتھوں تربیت پائی ہوئی اس جمعیت نے خدائی تقدیر کیلئے ایک ظاہری
پردے کا کام بہرحال دیا۔
ھو الذی ارسل رسولہ
بالھدی ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ (الصف: ٩)
”وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ
بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی
ناگوار ہو“۔
یہ حیرت و اعجاب جو
اسلامی فتوحات کو دیکھنے والے ہر شخص کے حصہ میں آتا ہے صرف یہ بھی نہیں کہ ایک
مختصر ترین مدت میں قوموں کی قومیں اور ملکوں کے ملک داخل اسلام ہوتے ہیں بلکہ یہ
حیرت و اعجاب اس عدل کو دیکھ کر بھی ہوتا ہے جو رسول اللہ کے ہاتھوں تربیت پائے
ہوئے ان مسلمانوں نے اپنے مفتوحہ ممالک میں قائم کرکے دکھایا تھا۔ یہ عدل وانصاف
جو مفتوحہ ممالک میں وہاں کے اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ ہی نہ تھا بلکہ یکساں
طور پر ان کے ساتھ بھی تھا جو اپنے دین پر باقی رہنے پر مصر ہوئے تھے۔ حضرت عمر کا
یہ واقعہ آج ہر شخص جانتا ہے کہ عمرو بن العاص کا بیٹا جب مصر میں ایک قبطی کے
بیٹے کو چھڑی سے مارتا ہے تو وہ شکایت لے کر سیدھا مدینہ حضرت عمر کے پاس پہنچتا
ہے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر کی زبان سے نکلا ہوا یہ جملہ بھی آج ہر شخص کی زبان
پر ہے جو آپ نے اپنے گورنر عمرو بن العاص کو مخاطب کرکے کہا تھا: ”تم لوگوں نے
انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا جبکہ ان کی مائوں نے ان کو آزاد پیدا کیا ہے“ یہ
تاریخ کا کوئی معمولی وقوعہ نہیں!
دیکھنے والوں کا حیرت
واعجاب یہاں بھی نہیں رکتا۔ بے شمار باتیں ہیں جو دیکھنے والوں کی نگاہیں خیرہ
کرکے رکھ دیتی ہیں۔ قوموں کی قومیں صرف اس نئے دین میں ہی داخل نہیں ہوتیں بلکہ اس
دین کی زبان کو بھی گلے سے لگاتی ہیں۔ کوئی زبردستی نہیں ہوتی مگر عربی زبان متعدد
اقوام کی پسندیدہ زبان بن جاتی ہے۔ قومیں اس تہذیب پر یوں فریفتہ ہوتی ہیں کہ اپنی
زبان تک بھول جاتی ہیں۔ [ مثلاً حالیہ مصر، شام، لبنان، عراق، سوڈان، لیبیا،
تیونس، الجزائر، مراکش، موریتانیا وغیرہ جہاں ماقبل اسلام زبانیں ناپید ہو چکی ہیں
حتی کہ وہاں کے غیر مسلم بھی عربی بولتے ہیں۔] یہاں تک کہ ان قوموں کے وہ لوگ بھی
جو اپنے دین پر باقی رہتے ہیں وہ بھی عربی زبان بولنے لگتے ہیں۔ سب کی زبان عربی
ہو جاتی ہے۔ اب یہ عربی میں بولتے ہیں۔ عربی میں سوچتے ہیں اور عربی ہی میں مراسم
بندگی بجا لاتے ہیں۔
مزید یہ کہ رسول اللہ
کا ایک منتخب جتھے کی تربیت و تیاری کی بابت حد سے بڑھا ہوا اعتنا اس بات کی ضمانت
بھی بنا ___ گو اصل میں تو یہ خدا کا فضل تھا ___ کہ وہ منہج جو اس تحریک کی بنیاد
تھا وہ تحریک کے بانی و موسس کے دُنیا سے چلے جانے کے بعد بھی اسی شان سے جاری
وساری رہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ خلافت راشدہ ___ اپنی تمام تر آب وتاب کے ساتھ
اور زندگی کے ہر پہلو میں اپنی قائم کی ہوئی اعلیٰ ترین اور حسین ترین قدروں کے
ساتھ ___ اسی حقیقت کا مصداق نظر آتی ہے کہ یہ تحریک آپ کے بعد بھی اپنا تمام تر
حسن برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور بڑے بڑے بحران بھی اس کو پٹڑی سے ہلا نہ
سکے۔
باوجود اس کے کہ وحی
منقطع ہو گئی اور تحریک کا عظیم قائد نظروں سے روپوش ہو گیا تحریک اسی کے منہج کا
تسلسل بنی رہی ایک آدھی دُنیا میں پھیل جانے کے باوجود اس کے پایہء استقلال میں
کوئی لغزش آئی اور نہ چال میں کوئی فرق آیا .... ’خلافت راشدہ‘ اسی حقیقت کا نام
ہے!
صحیح ہے کہ یہ دور
بہت دراز نہ ہوا، اورنہ ہی یہ تقدیر میں تھا کہ یہ ہمیشہ ہمیشہ تک باقی رہے، اور
جلد ہی معاملہ نیچے بھی آنے لگا .... مگر وہ سطح جس پر رسول اللہ نے اپنے اصحاب کو
پہنچا لیا تھا معاشرے کا اس سطح سے نیچے آنا دراصل ’اسلام‘ سے نیچے آنا نہ تھا۔
ایک مثالی دور کا باقی نہ رہنا ’اسلام‘ کا خاتمہ نہ تھا، جیسا کہ مستشرقین اور
دُشمنان اسلام نے ایک بڑے خاموش انداز میں ہمارے پڑھے لکھوں کے ذہن میں ڈال دیا
ہے۔ اسلام کا مثالی دور اخلاق اور کردار اور اقدار کے معاملے میں دراصل مسلم
معاشرے کا آسمان کی بلندیوں پر پہنچ کر پرواز کرنا تھا اور اس کا بڑا حصہ اس بات
پر مشتمل تھا کہ لوگ مستحباب کو بھی ازخود اپنے لئے فرائض کا درجہ دے رکھتے تھے جس
کو کہ ’تطوع‘ کہا جاتا ہے .... اب اگر اس کے بعد لوگ فرائض کے التزام یا اس سے
قریب قریب کی کسی سطح پر آجاتے ہیں اور ان کے پیروں میں وہ نشاط نہیں رہتا کہ یہ
بھی بلندی کی اسی سطح پر پرواز کریں جس پر اس سے پہلے کا معاشرہ کرتا رہا تو اس کو
تنزل تو بہرحال کہا جائے گا مگر یہ اسلام کی ایک مثالی حالت کو چھوڑ آنا ہے نہ کہ
اسلام ہی کو چھوڑ آنا۔ چنانچہ اس بلندی سے نیچے اتر کر بھی مسلمانوں نے دُنیا میں
جو توحید نشر کی اور دُنیا کو جس طرح تہذیب اور اعلیٰ قدریں سکھاتے رہے ___ یہاں
تک کہ سترھویں صدی تک کا یورپ بھی مسلمانوں کی سکھائی ہوئی تہذیبی قدروں سے
استفادہ کرتا نظر آتا ہے .... سترھویں صدی یعنی مسلمانوں کے مثالی دور کے بعد سے
لے کر پوری دس صدیاں ___ اتنا عرصہ مسلمان جو دُنیا پر اپنی علمی اور اخلاقی برتری
منوا کر رہے تو یہ بھی کیا کم ہے۔
اس کے باوجود اسلام
کا وہ مثالی دور محض کوئی بجلی کی چمک ایسا واقعہ بھی نہ تھا جس نے کوئی لمحے بھر
کو روشنی کی اور پھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے نگاہوں سے روپوش ہو گئی اور جس کی بابت بعد
والے یہ پوچھیں کہ یہ واقعہ ہوا بھی یا نہیں۔ اسلام کا یہ مثالی دور ایک ایسا حسین
واقعہ ہے جو آج تک اس راہ پر چلنے والوں کیلئے راستے کو روشن کر رہا ہے اور جب تک
خدا چاہے یہ آنے والی نسلوں کیلئے روشنی فراہم کرتا رہے گا۔ اسلام کا یہ مثالی دور
اپنی مثالی واقعیت کے ساتھ آج بھی ہر نسل کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہر نسل صفحہ تاریخ
پہ لکھنے کیلئے اسی کی روشنائی استعمال کرتی ہے۔ ہر نسل اسلام کی جانب بڑھتے ہوئے
اسی کے نشانات قدم کو دیکھتی ہے اور انہی کی سطح کو چھونے کی خواہش کرتی ہے۔ یہ
اگر وہاں نہ بھی پہنچ پائے پھر بھی اس کا رخ اسی کی جانب رہتا ہے۔ کوئی نسل اسلام
کی اس بلندی کو بے شک نہ پہنچ پائے یہ بھی کیا کم ہے اس کا رخ بہرحال بلندی ہی کی
جانب ہو۔ وہ اپنے آپ کو اس بلندی کی سمت سے آوازیں پڑتی بدستور محسوس کرے۔ وہ اپنے
اہداف کا تعین کرنے میں ذرہ بھر دشواری نہ پائے۔ وہ چڑھائی جو صحابہ نے چڑھ لی تھی
کوئی دوسری نسل نہ چڑھ پائے محض اس کی کوشش کر لے تو بھی کیا کم ہے۔ بے ہدف اور بے
سمت بیٹھ رہنے سے تو یہ بھی کہیں بہتر ہے کیونکہ بیٹھ رہنے کا تو ایک ہی مطلب ہے
اور وہ یہ کہ یہ اترائی میں اور بھی لڑھکتی جائے .... کہ زمین بہرحال کشش رکھتی
ہے۔
تاریخ اسلام میں جتنی
بھی تحریکیں اصلاح اور تجدید کیلئے اٹھیں ___ جو کہ ہر دور میں ہی اٹھتی رہیں اور
شمار سے باہر ہیں، آج کی اسلامی بیداری کی تحریک ان میں سے ایک ہے ___ ایسی ہر
اصلاحی اور تجدیدی تحریک دراصل اسلام کے اس دور اول کا ہی ایک انعکاس ہے___ ہر
تحریک اسی کے آثار میں سے ایک اثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستشرقین اور دشمنان اسلام
جتنے بھی ہیں ہمیشہ اس بات کیلئے کوشاں رہے ہیں کہ اسلام کے اس دور اول ہی کی صورت
کو کسی طرح مسلمانوں کے ذہن میں مسخ کردیں۔ یوں اسلام کی ہر نسل جہاں سے روشنی کی
کرن پاتی ہے کسی طرح اس روشنی کو ہی بجھا دیں تاکہ ان میں بلندی کی جانب اٹھنے کا
خیال ہی پیدا نہ ہو۔ گو ان کی یہ کوشش خدا سے فضل کامیاب ہونے والی نہیں۔ خدا کی
تقدیر ہے جس سے ٹکر لینا ان کے بس کی بات نہیں۔
یریدون لیطفئوا نور
اللّٰہ بافواھہم واللّٰہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون (الصف: ٨)
”یہ لوگ اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے اللہ کے نور کو بجھا
دینا چاہتے ہیں۔ اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا
خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو“۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں ہم ایک اور امر
کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں جس کو کہ رسول اللہ کے منہج تربیت میں، جو آپ نے اس
منتخب ایمانی جمعیت کو دی، بے حد زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ ہے رسول اللہ کا اپنے
اصحاب سے بکثرت مشورہ فرمانا اور ان کو حتی الامکان شریک رائے رکھنا۔
سب سے پہلے تو یہی
سوال بہت اہم ہے کہ رسول اللہ کو کسی سے صلاح مشورہ کی کیا سرے سے کوئی ضرورت تھی
جبکہ آپ کو ہدایات دینے کیلئے آسمان سے وحی اترتی تھی اور جب خدا کو کچھ وضاحت
فرمانا منظور ہوتا تو وحی کے ذریعے ہر معاملہ رسول اللہ پر کھول کر رکھ دیا جاتا
تھا اور جب بھی کہیں کسی انحراف کا خدشہ پیدا ہوتا مسلم جماعت کا رخ درست کر دینے
کیلئے براہ راست خدا کی جانب سے احکامات نازل ہو جاتے تھے؟ بلکہ خود رسول اللہ کی
تو اپنی تصحیح کیلئے وحی اتر آتی تھی جیسا کہ عبداللہ بن ام مکتوم کے واقعہ میں
ہوا۔ اور جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے معاملہ میں ہوا! جس کو وحی ملتی ہو اور جس کے
ہر اقدام کو درست رکھنے کیلئے خدا ہدایات بھیجتا ہو کیا وہ انسانوں سے مشورہ کرنے
کا حاجت مند ہوتا ہے؟!
ظاہر ہے کہ نہیں۔
رسول اللہ مشورہ کے ضرورت مند نہ تھے۔ مکہ کا دور ہو یا مدینہ کا، دعوت کی ذمہ
داریاں نبھانا اور مومن جماعت کی قیادت کرنا سب خدا کی براہ راست نگرانی کے تحت ہو
رہا تھا۔ یہ دراصل تربیت کا حصہ تھا اور تربیت کے بنیادی لوازمات۔
صرف سمع اور طاعت کی بنیاد
پر کی گئی تربیت کچھ فرض شناس اور پابند حکم سپاہی تو پیدا کر سکتی ہے مگر اس سے
عظیم الشان قیادتیں جنم نہیں لیتیں!
رسول اللہ کا پابند
حکم ہونا صحابہ کی نگاہ میں یقینا ایک عبادت تھی اور اس کی فرضیت خدا کی طرف سے ان
پر عائد کر دی گئی تھی:
من یطع الرسول فقد
اطاع اللّٰہ (النساء: ٨٠)
”جس نے رسول کی اطاعت کی اُس نے دراصل خدا کی اطاعت کی“۔
وما ارسلنا من رسول
الا لیطاع باذن اللّٰہ (النساء: ٦٤)
”ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے اسی لئے بھیجا ہے کہ اذن
خداوندی کی بنا پر اس کی اطاعت کی جائے“۔
وما اتاکم الرسول
فخذوہ ومانہاکم عنہ فانتھوا (الحشر: ٧)
”جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک
دے اُس سے رک جائو“۔
یاایہا الذین آمنوا
اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول (النساء: ٥٩)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو
رسول کی“۔
فلیحذر الذین یخالفون
عن امرہ ان تصیبہم فتنہ او یصیبہم عذاب الیم (النور: ٦٣)
”پس ڈر جانا چاہیے ان لوگوں کو جو رسول کے حکم کی خلاف ورزی
کرتے ہیں کہیں وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہوجائیںیا ان پر دردناک عذاب نہ آجائے“۔
ما کان لاھل المدینہ
ومن حولہم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللّٰہ ولا یرغبوا بانفسہم عن نفسہ
(التوبہ: ١٢٠)
”مدینہ کے باشندوں اور گردونواح کے بدویوں کو یہ ہرگز زیبا
نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہو کر
اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے“۔
مگر اس کے باوجود آپ
کے پیش نظر صرف یہ نہیں تھا کہ آپ کے اصحاب آپ کے پابند حکم سپاہی ہوں اور بس۔
اگرچہ آپ کا پابند حکم ہونا فلاح بھی تھی اور نجات بھی اور یہ بیک وقت خدا کی
عبادت بھی تھی .... دراصل آپ کے پیش نظر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تھا کہ ممکنہ حد
تک آپ ان میں کے ایک ایک فرد کوقیادت میں تبدیل کر دیں اور یوں اپنے بعد انسانیت
کو اور انسانی معاشروں کو ایک زبردست قیادت دے کر جائیں۔ تاکہ خدا کی یہ تقدیر اور
ارادہ انہی کے ذریعے انسانی دُنیا کے اندر روپذیر ہو۔
وکذلک جعلناکم اَمت
وسطا لتکونوا شہداءعلی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ: ١٤٣)
”اسی طرح ہم نے تو تمہیں ایک اُمت وسط بنایا ہے تاکہ تم
دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو“۔
اب قیادت اور سرکردگی
کی اہلیت پیدا کرنے کیلئے جو تربیت درکار ہے اس میں یہ بے انتہا ضروری ہے کہ قائد
اپنے زیر تربیت افراد سے مشاورت کرے ....
آگہی اور سوجھ اور
اعتماد مشاورت اور تبادلہ آراءسے پیدا ہوتی ہے اور مشاورت اور تبادلہء آراءسے ہی
ترقی پاتی ہے۔ یہ آگہی اور سوجھ اور اعتماد اس ’بصیرت‘ کا باقاعدہ حصہ تھا جو
اصحاب میں پیدا کی جانا مطلوب تھی۔
قل ھذہ سبیلی ادعو
الی اللّٰہ علی بصیرت انا ومن اتبعنی و سبحان اللّٰہ وما انا من المشرکین (یوسف: ١٠٨)
”صاف کہہ دو: میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا
ہوں ایک خاص بصیرت پر رہتے ہوئے، میں خود بھی اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک
ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔
آیت کے سیاق سے یہ واضح
ہے کہ ایمان کے ساتھ ساتھ ’بصیرت‘ داعی کی ایک باقاعدہ اہلیت اور اس کی تربیت کی
ایک باقاعدہ سطح ہے اور یہ بھی باقاعدہ طور پر ہی مطلوب ہے۔ چنانچہ ”سبحان اللّٰہ
وما انا من المشرکین“ کے الفاظ اگر عقیدہ اور ایمان کی ضرورت پر دلالت کرتے ہیں تو
”بصیرت“ الگ سے اور مستقل بالذات انداز میں داعی کی ضرورت قرار پاتی ہے۔
پس یہ درست ہے کہ
’ایمان‘ مطلوب ہے۔ مگر ’بصیرت‘ بھی عین اسی طرح مطلوب ہے۔ تاکہ انسانوں کا کوئی
مجموعہ اس دین کو لے کر انسانی زندگی میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ سکے اور تاکہ
ایک تحریک اپنی محنت اور جدوجہد کے پورے ثمرات دے اور تاکہ اس جدوجہد کا کوئی حصہ
یا یہ پوری جدوجہد ہی کوئی غلط یا بے کار حرکت ہو جانے کے سبب سے اکارت نہ چلی
جائے۔
قائد کی جانب سے اپنے
پیروکاروں کے ساتھ مشاورت کیا جانا انکے اندر یہ قابلیت پیدا کرتا ہے کہ وہ خود
اپنے ذہن سے سوچیں اور مختلف مواقف اور مختلف آراءکا باقاعدہ وزن کریں اور ان میں
سے درست ترین اور لائق ترین رائے کو اختیار کرتے ہوئے عین وہ موقف اپنائیں جس کا
کہ اپنایا جانا ضروری ہو۔
پھر یہ مشاورت کی
جانا ان کو نتائج کی ذمہ داری اٹھانے پر بھی تیار کرتا ہے۔ چنانچہ رائے دینا جہاں
ایک امانت ادا کرنا ہے وہاں ایک ذمہ داری اٹھانا بھی ہے .... پس مشارت جتنی زیادہ
ہوگی مشورہ دینے والے اتنا ہی گہرائی سے سوچنے کے عادی ہوں گے اور اتنا ہی بات کو
گہرائی میں جا کر دیکھنے اور پرکھنے کے عادی بنیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ اتنا ہی ان
کے اندر ذمہ داری اٹھانے کی اہلیت بڑھے گی۔ یوں انسان ایک ایسی صورتحال کیلئے تیار
ہو جائے گا کہ جب اس کو خود عملی فیصلے کرنے پڑیں اور خود اس کو مختلف حالات کا
سامنا کرنا پڑے تو وہ ان کا سامنا کرنے سے جی نہ چرائے اور نہ ذمہ داری اٹھانے کو
کوئی ہوّا سمجھے جبکہ یہی وہ صفات ہیں جو ایک کامیاب قیادت کے اندر مطلوب ہوتی
ہیں۔
بلاشبہ ہر انسان
کامیاب قیادت نہیں بن سکتا۔ مگر کوئی شخص قیادت کی صلاحیت رکھتا بھی ہو تو اس کی
صلاحیتیں اس وقت تک نکھر کر سامنے نہ آئیں گی جب تک کہ وہ کسی مجموعہ کے اندر رہتے
ہوئے ایک مربی سے مطلوبہ تربیت نہ پا لے۔ یوں کسی ایک مجموعہ کے اندر رہنے سے ہر
شخص کی صلاحیتیں خودبخود نکھر کر سامنے آئیں گی۔ قیادت ہر ایک کو اپنی صلاحیت
دکھانے کا موقعہ فراہم کرے گی تو کوئی شخص جتنا نمایاں ہونے کے قابل ہوگا خودبخود
ہو جائے گا .... رہا یہ کہ قیادت ان کو فرمانبرداری اور حکم بجا لانے کی ہی تربیت
دے اور سب کے سب امور میں ان سے بس سمع اور اطاعت ہی مطلوب ہو تو کوئی بھی اس فضا
میں مہارت اور تجربہ کاری حاصل نہ کر پائے گا۔ ایسے لوگوں پر جب کوئی ذمہ داری
آپڑے گی تو وہ اضطراب اور انتشار کا شکار ہوں گے اور ’باصلاحیت قائد‘ کے چلے جانے
کے بعد سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا بے شک انہوں نے قائد کی زندگی زندگی کتنی ہی
سمع و اطاعت اور کتنی ہی سپاہیانہ جانفروشی نہ دکھائی ہو!
یہ وجہ ہے جو ہم
دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ مشاورت کی اتنی کیوں ضرورت محسوس
کرتے تھے، جبکہ آپ شخصی طور پر اس مشاورت سے بے نیاز تھے۔ رسول اللہ دراصل ان کو
کسی بڑی مہم کیلئے تیار کر رہے تھے اور جانتے تھے کہ ان کو کس چیز کیلئے تیار کر
رہے ہیں۔ رسول اللہ کو اپنے پیچھے بہت ہی زیرک، معاملہ فہم اور منجھے ہوئے قائدین
کی ایک کھیپ کو چھوڑ کر جانا تھا۔ یہ سب ایک خاص معیار کے مشیر تھے۔ ان کو رائے
اختیار کرنے میں کمال کی تربیت دی گئی تھی۔ اور یہ اس لئے کہ آپ کے بعد کام جوں کا
توں چلتا رہے اور تاکہ جب وہ عظیم ترین قائد جس پر وحی اور الہام اترتا تھا دُنیا
سے چلا جائے تو اس کا کام لوٹ کر پیچھے ہرگز نہ آنے پائے بلکہ اس کو آگے بڑھانے
کیلئے بہترین، باصلاحیت اور تجربہ کار قیادت موجود ہو اور آنے والے وقت میں اپنی
ذمہ داری ادا کرنے کیلئے پوری طرح مستعد۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے وہ ’بنیادی
جمعیت‘ جسے رسول اللہ نے سینت سینت کر پروان چڑھایا اور یہ ہے اس کا وہ کردار جو
صفحہء تاریخ پہ ہمیں جلی ترین صورت میں نظر آتا ہے۔
ایک ’بنیادی جتھے‘ کی
تیاری، کوئی تعیش Luxury نہیں تھا۔ نہ ہی وہ عظیم الشان محنت جو رسول اللہ نے بنفس
نفیس اس کی تربیت اور تیاری پر فرمائی کوئی ’زائد از ضرورت‘ محنت تھی۔ یہ محنت خدا
کی ہدایت سے ہوئی۔ یہ خدا کا الہام تھا۔ اس کی اعانت اور اس کی توفیق تھی۔ یہ اس
دین کا لازمی ترین فرض اور ضرورت تھی۔ دین جس مقصد کیلئے اتارا گیا اس کے روبہ عمل
آنے کا یہ لازمی ترین تقاضا تھا۔
اب اس کے بعد ہم اپنے
دور کی طرف آتے ہیں۔ اپنے اس دور کا ایک طرف ہمیں یہ تعین کرنا ہے کہ اس کا اصل نقشہ
ہے کیا اور دوسری طرف اس بات کا تعین کرنا ہے کہ رسول اللہ نے اپنے دور میں جس ایک
بنیادی ایمانی جتھے کی اول اول تیاری کی تھی اور جس نے کہ آخرکار اس دین کو لے کر
معاشروں کی سرزمین پر چلنے کا بار اپنے کاندھوں پر اٹھایا تھا اس عمل کی ہمارے
اپنے دور کے اندر کیونکر تقلید ہو سکتی ہے۔
آج جاہلیت کی صورت
حال کیا ہے؟
امام ابن تیمیہ
فرماتے ہیں:
”ہاں رہا رسول اللہ کی بعثت کے بعد کا دور، تو یہ ممکن ہے کہ
مطلق جاہلیت کسی ایک ملک میں پائی جائے اور کسی دوسرے میں نہ پائی جائے، جیسا کہ
مطلق جاہلیت دارالکفار کے اندر اب بھی پائی جاتی ہے۔ یا یہ کہ مطلق جاہلیت کسی ایک
شخص میں پائی جائے اور کسی دوسرے میں نہ پائی جائے، جیسا کہ مطلق جاہلیت ایک ایسے
شخص کے اندر پائی جائے گی جو ابھی اسلام لے کر نہیں آیا اگرچہ وہ دارالاسلام میں
کیوں نہ بستا ہو۔ رہا یہ کہ پورا زمانہ جاہلیت میں ہو تو محمد کی بعثت کے بعد ایسا
نہ ہوگا۔ آپ کی امت میں سے بہرحال ایک طائفہ ایسا رہے گا جو حق کی بنا پر برتری پا
کر رہے گا اور قیامت تک باقی رہے گا۔ رہی معتبد جاہلیت (یعنی جزوی جاہلیت) تو وہ
دیار اسلام کے بعض خطوں میں پائی جا سکتی ہے اور بہت سے مسلمانوں کے اندر بھی
موجود ہو سکتی ہے“۔ [اقضاءالصراط المستقیم فی مخالفہ اصحاب الجحیم (ص ٧٨۔ ٧٩)]
یہ اگر آٹھویں صدی
ہجری کا حال ہے جبکہ مسلمان ابھی اپنے دین کے بہت سے امور سے تمسک رکھتے ہیں، گو
وہ دین کے بہت سے امور میں اس وقت کوتاہ بھی ہو رہے تھے .... امام ابن تیمیہ کے زمانہ
میں اگر یہ معاملہ ہے تو امام ابن تیمیہ ہمارے آج کے اس دور کی صورتحال کو دیکھ
لیں تو کیا کہیں؟ .... جبکہ ما انزل اللہ کے متصادم شرائع کو باقاعدہ قانون بنا
دینے کی بدعت رائج ہر طرف عام ہو گئی ہے۔ ما انزل اللہ سے قطعی بے نیاز ہو کر جائز
اور ناجائز کا تعین ہوتا ہے۔ صرف خدا کی اتاری ہوئی شریعت پر فیصلے ہونا بسا اوقات
خلاف آئین قرار پاتا ہے۔ اس بات کا مطالبہ کیا جانا تک بہت جگہوں پر جرم ہے بلکہ
گردن زنی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں لوگ محض اسی ’جرم‘ کے ’ارتکاب‘ پر پس زنداں چلے جاتے
ہیں۔ اصل یہ ہو گیا ہے کہ عورتیں برہنہ اور بے پردہ ہو کر باہر آئیں۔ کسی کا باپرد
ہونا عام معمول کے خلاف واقعہ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے گویا یہ معاشرے کی ریت سے
ایک انحراف اور بدعت کا درجہ رکھتا ہے اور ذرائع ابلاغ کو اور ’ادب‘ کو حق ہے کہ
ایسے رجعت پسند اور خلاف معمول رویوں کو بڑے بڑے اچھوتے انداز میں مذموم اور قابل
نفرین بنائیں .... کئی ملکوں میں زنا اور بدکاری کو قانون کا تحفظ حاصل ہے جب تک
کہ یہ بدکاری طرفین کی رضامندی سے ہوتی رہے۔ گویا ’طرفین‘ ہی اس معاملہ کے متعلقہ
فریق ہیں اور خدا کو تو اس معاملہ میں کوئی دخل ہی نہیں اور نہ ہی آج کی جاہلیت کا
یہ عرف اور رواج خدا کو اجازت دیتا ہے کہ وہ لوگوں کے ’ذاتی معاملات‘ میں دخل دے۔
’خدا‘ کا کیا کام کہ وہ لوگوں کے اجتماعی معاملات میں جائز اور ناجائز کا تعین
کرے۔ خدا کی خاطر ولاءاور براء.... یعنی خدا کیلئے کسی کا دوست اور حلیف ہونا اور
خدا کی خاطر ہی کسی کا حریف ہونا خواہ مخواہ کا تعصب اور ’امتیازی رویہ‘
(ڈسكريمينيشن) قرار پاتا ہے۔ اس دور کا ذوق ایسے رویے کا ہرگز متحمل نہیں۔ کیونکہ
جدید ذرائع مواصلات کی بدولت آج کی یہ دُنیا ایک ہی بستی بن چکی ہے۔ اب کسی کیلئے
جائز نہیں کہ اس میں جوعرف اور رواج چلتے ہیں اور جو افکار اور جو فیشن اس میں
پذیرائی پاتے ہیں ان سے الگ راہ اختیار کرے، چاہے اس کی کوئی بھی وجہ ہو۔ پھر ایسا
کرنے کی وجہ اگر دین ہو اور ’عقیدہ‘ کا فرق ہو تو وہ سب سے زیادہ ناروا کام ہے اور
تعصب اور ’امتیازی رویہ‘ کی سب سے بُری صورت .... اسلام کی یہ بات، آج اس کا
’رواج‘ نہیں۔ وہ چیز اس کا ’رواج‘ نہیں.... وہ چیز .... وہ چیز .... تقریباً کسی
بھی چیز کا ’رواج‘ نہیں!
ابن تیمیہ اگر آج کے
مغرب کو دیکھ لیں اور بہت سے مسلم ملکوں میں جو ’چلتا‘ ہے اس کو دیکھ لیں تو اس کی
بابت کیا رائے رکھیں!؟
بداءالاسلام غریبا
وسیعود کما یداغریباً فطوبی للغرباء[حدیث کا حوالہ پیچھے کتاب میں گزر گیا ہے۔]
”اسلام آغاز تھا تو یہ اجنبی تھا۔ یہ دوبارہ اسی طرح جیسے
آغاز میں تھا پردیسی اور اجنبی ہو رہے پس خوشخبری ہو اس دور کے ’پردیسیوں‘ کو“!
آج کے ان ’پردیسیوں‘
(غرباء) کو اس وقت کیا کرنا ہے؟ اور وہ کیا کام ہے جس کی بنا پر خدا کے ہاں وہ اس
اعزاز کے مستحق ہیں؟
بے شک ہر وہ محنت اور
جہد جو آج کے یہ ’غربائ‘ اسلام کی اس غربت ثانیہ کے خاتمہ کیلئے کریں گے وہ اس پر
خدا سے اجر پائیں گے اور اس پر قرآن کریم کی نص شاہد ہے:
”یہ اس لئے کہ اللہ کی راہ میں وہ جو بھی پیاس سہیں، جو بھی
مشقت اٹھائیں، یا بھوک برداشت کریں، جس زمین پر بھی پائوں دھریں جبکہ اس سے کافر
خفا ہوتے ہوں اور دشمن کو جو بھی زک پہنچائیں، ہر ہر کے بدل ان کا نیک عمل (خدا کے
ہاں) لکھا جاتا ہے۔ یقینا اللہ تعالیٰ نیکیوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ اور (اسی
طرح) جو کچھ بھی یہ اللہ کی راہ میں خرچ کریں وہ تھوڑا ہو یا بہت اور (سعی جہاد
میں) یہ جو وادی بھی پار کریں، یہ سب بھی ان کے نام لکھا جاتا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ
ان کے ان اعمال کا اچھے سے اچھا بدلہ ان کو دے“۔[(التوبہ: ١٢٠۔ ١٢١)]
مگر یہ بات اس میں
مانع نہیں کہ آج کے ان ’غربا‘ کے پاس آگے بڑھنے کا ایک باقاعدہ پروگرام ہو اور یہ
اس مقصد کے حصول کیلئے ایک زبردست منصوبہ پاس رکھتے ہوں۔ اس عمل کی ان کے ہاں
اولویات (پرياريٹيز) پوری طرح واضح ہوں اور وہ یہ اندازہ رکھتے ہوں کہ ان کے اس
دور میں ’اسلام‘ جس غربت اور اجنبیت کا شکار ہے اس کی نوعیت کیا ہے اور اس کے
ازالہ کیلئے کیا چارہ کار اختیار ہو۔
تو کیا اس بات کی
گنجائش ہے کہ حقیقت اسلام پر تربیت پایا ہوا ایک مضبوط ایمانی جتھا تیار نہ کیا
جائے، جو کہ ’عوام‘ کو اسلام کی اصل سمت میں اپنے اردگرد چلا لینے پر قدرت پائے، اور
اس کے بغیر ہی کام چل جائے؟
ہم یہ شروع میں ہی
واضح کر دینا چاہیں گے کہ:
ہم ہرگز اس امید میں
نہیں بیٹھے اور نہ کوئی اس امید میں بیٹھ رہ سکتا ہے کہ ایک ویسا ہی مضبوط ایمانی
جتھا تیار ہو جیسا کہ رسول اللہ نے ابتدائے اسلام کے اندر بنفس نفس تیار کیا تھا۔
نہ یہ تقاضا ہم ’بنیادی جمعیت‘ کی بابت کریں گے اور نہ اس جمعیت کی ’عوامی توسیع‘
ہی کی بابت .... اس کے باوجود کچھ ضروری مواصفات ایسے ہیں جن کو پختگی سے پیدا کر
لئے بغیر کوئی بھی چارہ کار نہیں اور ان کے بغیر ہرگز بیل منڈھے چڑھنے کی نہیں،
چاہے ان کو پختہ کرنے میں ہماری کتنی ہی محنت یا کتنا ہی وقت لگے اور چاہے اس پر
ہمیں کتنی ہی تنگی اُٹھانا پڑے۔
’تربیت‘ اور ’تیاری‘ سے ہرگز ہماری یہ مراد نہیں کہ آج کی
تحریکیں بھی فضا میں عین اسی بلندی پر جا کر پرواز کریں اور اسی ہمت اور قوت سے
اڑان بھریں جس پر کہ صحابہ رسول کو پہنچایا گیا تھا۔ اس کا تو اسلام آپ کو سرے سے
پابند کرتا ہی نہیں.... اگرچہ افراد کی حد تک اسلام کا کوئی بھی دور ایسے نمونوں
سے خالی نہیں رہا جو ایمانی افق کی اس بلندی کو ہاتھ لگا آتے رہے جس پر صحابہ فائز
تھے۔
کم از کم دین کے
اساسیات اور فرائض کی سرزمین پر تو چلئے۔ کم از کم کے قریب پہنچنے کی کوشش تو ہو۔
تاکہ ایک طرف اس عمل کی خدا کے ہاں مقبولیت ہو اور دوسری طرف یہ دُنیا میں ثمر آور
ہو۔
تو پھر وہ بنیادی
مواصفات کیا ہیں جو کہ اسلام کی ایک بنیادی جمعیت کے اندر، جس کو کہ بالآخر عوام
کے اندر اپنی جڑیں پھیلانی اور ان کو ایک سمت دینی اور ان کو تربیت دینی ہے، سب سے
پہلے روپذیر ہو جانی چاہئیں؟
کیا اس کیلئے کوئی سا
بھی انسان کام دے دے گا اوراس میں بس یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر
ایمان لے آیا ہے۔ نمازی ہے۔ زکوٰت دیتا ہے اور دیندارانہ مظاہر رکھتا ہے؟ بلاشبہ یہ
عظیم مواصفات ہیں۔ یہ سب کی سب مطلوب بھی ہیں۔ مگر یہ کس درجے اور معیار میں مطلوب
ہیں؟ اور کیا ایک بنیادی جمعیت کے اندر، جس کو کہ معاشرے پر اثر انداز ہونا ہے، بس
یہی اور ایسی ہی مواصفات درکار ہیں؟
اس سے پہلے محض بطور
ایک مثال میں بات کر آیا ہوں، اسی کی جانب پھر ایک بار اشارہ کرتا ہوں .... کسی
انسان کو آپ راستے میں روک کر سوال کریں: روزی دینے والا کون ہے؟ کیا کوئی شک ہے
کہ وہ کہہ دے: خدا کی ذات! مگر جب روزی کے معاملہ میں اس پر تنگی آتی ہے اور کوئی
اس کا نقصان کرتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے فلاں شخص میری روزی کے درپے ہے۔ تو کیا اس
کا وہ جملہ جو اس نے جھٹ سے کہہ دیا تھا کہ ’روزی دینے والی خدا کی ذات ہے‘ اس کے
شعور واحساس کے اندر ایک ایمان اور یقین کی صورت اختیار کرچکا تھا جب اس نے یہ
زبان سے ادا کر دیا تھا؟ دل کا یقین تو وہ چیز ہے جو رویہ وسلوک میں ڈھل جائے۔ کیا
اس سے اس جملہ کا اقرار کروانے پر اکتفا کیا جائے گا یا ضرورت ہے کہ ابھی یہ اس کے
دل کی گہرائی میں اُترے تاکہ ’لفظ‘ ایک ’یقین‘ کی صورت دھارے؟ یہی معاملہ خدا کے
نفع ونقصان کے مالک ہونے کی صفت پر ایمان کا ہے۔ یہی معاملہ خدا کے زندگی اور موت
دینے پر قدرت کے یقین کا ہے۔ فتنہ کے آگے لفظ نہیں ایمان اور یقین ہی کھڑا رہ سکتا
ہے۔
ومن الناس من یقول
آمنا باللّٰہ فاذا اوذی فی اللّٰہ جعل فتنہ الناس کعذاب اللّٰہ (العنکبوت: ١٠)
”لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے
اللہ پر۔ مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی
آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا“۔
تو کیا ایک ایسا سنے
سنائے انداز کا ایمان ان افراد کے معاملے میں گزارا کرے گا جن سے یہ بنیادی ایمانی
جمعیت تشکیل پائے اور پھر ایک پورے معاشرتی عمل کی بنیاد اپنے کاندھوں پر اٹھائے؟
کیا ایسا ایمان آزمائش میں کھڑا رہے گا، جبکہ آزمائش خدا کی ایک سنت ہے:
الم۔ احسب الناس ان
یترکوا ان یقولوا آمنا وھم لا یفتنون ولقد فتنا الذین من قبلہم فلیعلمن اللّٰہ
الذین صدقوا ولیعلمن الکاذبین (العنکبوت: ١۔٣)
”الف۔ لام۔ میم۔ کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ بس وہ اتنا
کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ”ہم ایمان لائے“ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا؟
حالانکہ ہم ان سب لوگوں کی آزمائش کر چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں۔ اللہ کو تو
ضرور یہ دیکھنا ہے کہ سچے کون ہیں اور جھوٹے کون“۔
پھر جبکہ ’فتنہ‘ کسی
ایک ہی صورت میں محصور نہیں۔ فتنہ محض اذیت اور تکلیف نہیں:
ونبلوکم بالشر والخیر
فتنہ (الانبیاء: ٣٥)
”اور ہم اچھے اوربرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر
رہے ہیں“۔
’آسائش‘ کا فتنہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ بہت سے لوگ جو ’اذیت‘
اور ’دُکھ‘ کے فتنہ میں ثابت قدم رہتے ہیں وہ ’سکھ‘ کے فتنہ کے آگے پرکاہ بنے
دیکھے گئے ہیں۔ مال کا فتنہ، اقتدار کا فتنہ، جاہ ومنصب، لیڈری، پیچھے چلنے والوں
اورمددگاروں کی کثرت.... بہت سے اس فتنہ کی تاب نہیں لاتے۔ تو کیا ہر وہ شخص جو
کسی ’مشکل گھڑی‘ میں ڈٹ جانے کی طاقت رکھتا ہو وہ ’معاشرے پر اثر انداز ہونے والی‘
اس بنیادی جمعیت کی عمارت میں ایک اینٹ کا کام دے سکتا ہے؟ کجا یہ کہ آدمی کے
قیادت کی صف میں شامل ہو جانے کیلئے بھی بس اسی وصف کو بہت کافی قرار دیا جائے!؟
یہاں میں ایک اور
مثال کی جانب اشارہ کرتا ہوں جو کہ میںا پنی کتاب واقعنا المعاصر میں ذکر کر چکا
ہوں:
اخوت، اسلام کا ایک
بہت خوبصورت اور زبردست تصور ہے۔ اس پر آپ اچھے سے اچھے اور خوبصورت سے خوبصورت
پیرائے لکھ سکتے ہیں اور اس پر آپ بہت موثر گفتگو بھی کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ یہ اسلام
کی ایک اہم معاشرتی بنیاد ہے اور یہ اسلام کی وہ بنیاد ہے جو رسول اللہ نے اپنے
زیر تربیت اس جمعیت کی تیاری میں بطور خاص پیش نظر رکھا تھا جو آپ کے زیر سایہ
پروان چڑھی تھی۔ چنانچہ آپ نے مہاجرین اور انصار کے مابین مواخات قائم کی۔ تب یہ
ایک ایسی اخوت تھی جو خون کے رشتوں پر فوقیت لے گئی۔ عرب جاہلیت کے ہاں کوئی مضبوط
ترین رشتہ تھا تو وہ نسب کی اخوت اور خون کا رشتہ تھا۔ مگر اس پر یہ دین کی اخوت
اور ایمان کا رشتہ برتری لے گیا تھا۔
مگر جیسا کہ میں اپنی
کتاب واقعنا المعاصر میں کہہ آیا ہوں:
لوگوں پر خوب آسائش
کا وقت ہو تو ’اخوت‘ کا مظاہرہ کرنا کچھ ایسا مشکل نہیں۔ سکھ کا دور ہو اور گنجائش
خوب ہو تو ’اخوت‘ کچھ زیادہ مہنگی نہیں پڑتی۔ مگر جب راستہ تنگ ہو یہاں تک کہ اتنا
تنگ ہو کہ ایک وقت میں یا تو میں ہی وہاں سے گزر سکتا ہوں یا میرا بھائی ہی۔ دونوں
کیلئے اکٹھے گزر لینا ممکن نہیں۔ ایک کو پہلے گزرنا ہوگا دوسرے کو صبر کرنا ہوگا
.... کیا یہاں میں اپنے بھائی کو اپنے سے پہلے گزرنے پہ اصرار کروں گا یا میں خود
ہی پہلے گزرنا پسند کروں گا؟ چلئے ہم اس حد تک بلند سطح تک تو نہیں جاتے جہاں پہلے
اور بعد کی بات نہیں بلکہ گزر ہی ایک شخص سکتا ہو اور دوسرا گزرنے سے ہی رہ جاتا
ہو۔ یعنی یا میں گزر پائوں گا یا میرا بھائی۔ یہ بہرحال معاملے کی بہت بلند سطح
ہے۔اس کی پابندی فرض بہرحال نہیں ہے گو یہ وہ سطح ہے جس پرصحابہ پائے گئے تھے اور
خدا نے اس پر ان کی ستائش فرمائی تھی ] ویؤثرون علی اَنفسہم ولو کان بھم خصاصہ
(الحشر: ٩) ”اور یہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ
اپنی جگہ خود محتاج کیوں نہ ہوں[ سو یہ تو وہ سطح ہے جو صحابہ کے ہاں ایک معمول بن
گئی تھی اور جس پر ہونا آج نایاب ہو گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاملے کے بہت سے
پہلو ہیں۔ مگر دو باتیں بطور خاص ایسی ہیں جن میں بہت زور دینے کی ضرورت محسوس
کرتا ہوں اورجو کہ آج اس دور کی اس ایمانی جمعیت کے افراد میں پائی جانی ناگزیر
ہیں جس کو آج کی جاہلیت سے مڈھ بھیڑ کرتی ہے .... جس کو آج کی اس جاہلیت سے نبرد
آزما ہونا ہے جو سرکشی کی آخری حد تک پہنچ چکی ہے اور جو کہ حاملین اسلام کو ہر
طرف سے گھیرے میں لے چکی ہے: یہ دو چیزیں ہیں: خدا کیلئے اخلاص اور تجرد ہونا اور
دوسری سوجھ اور آگہی۔ تحریکی معنی میں آگہی بھی اور سیاسی معنی میں ہوشمندی بھی۔
جن لوگوں کو کچھ
صلاحیتیں ودیعت ہوئی ہوتی ہیں ان کیلئے اپنی ’ذات‘ فتنہ بن جاتی ہے۔ انا، خود
پسندی، خود مرکزیت شیطان کا ایک ایسا حربہ ہے جو ایک کارکن اور سپاہی کی نسبت ایک
ایسے شخص پر زیادہ کارگر ہوتا ہے جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت نمایاں ہونے
لگتا ہے اور دوسروں کی نسبت کچھ خصوصی مقام پاتا ہے۔ ایک باصلاحیت آدمی کو خراب
کرنے کے مواقع شیطان ایک عام مسلمان کی بہ نسبت کہیں زیادہ پاتا ہے۔ پھر جوں جوں
اس کی صلاحیت کی دھاک بیٹھتی ہے اور جوں جوں شخصیت نمایاں ہوتی ہے توں توں شیطان
کی تگ وتاز کا میدان بھی وسیع ہو جاتا ہے۔
پھر اگر انسان کسی
قیادت کے منصب پر فائز ہو تب تو فتنہ اپنے عروج کو پہنچتا ہے۔ پھر اگر وہ کوئی تن
تنہا لیڈر ہو جائے تو پھر تو اس فتنہ کی کوئی حد ہی نہیں رہتی .... یہاں اگر نفوس
نے خدا کیلئے تجرد پانے پر بہت محنت نہ کر رکھی ہو اور اس پر اس کی باقاعدہ تربیت
نہ ہو ئی ہو تو معاملہ کسی بڑے خلط کا شکار ہو جاتا ہے۔ یہاں آدمی کی دعوت اور
آدمی کی ذات کے باہم خلط ہو جانے کا ایک بڑا اندیشہ ہوتا ہے۔
’فی الوقت دعوت کی نمائندگی میرے دم سے ہے’! قیادت کیلئے
مطلوبہ صفات لے دے کر ایک مجھ میں ہی تو ہیں’! لہٰذا میری ذات کو اگر کوئی چیز
نقصان پہنچاتی ہے تو دراصل یہ دعوت کا نقصان ہے۔ مجھے جو شخص یا جو بات اطمینان
دیتی ہے وہی دعوت کا مفاد ہے! یہاں ’میں‘ اور ’دعوت‘ ایک ہو جاتے ہیں۔ یہاں سے
شیطان کو ایک نفس میں کھل کھیلنے کا موقعہ ملتا ہے۔ تب ہماری سب سوچوں کا محور
ہماری ’ذات‘ ہو جاتی ہے۔ یہ معاملہ ہمیں ’خود مرکزیت‘ کی حد تک پہنچا دیتا ہے۔
یہ جو فلاں شخص ہے یہ
میرے یعنی ’دعوت‘ کے راستے میں کھڑا ہے۔ یہ فلاں شخص ’میرے‘ ساتھ اختلاف کرتا ہے۔
یہ جو فلاں شخص ہے یہ ’میرے‘ سامنے اڑتا ہے۔ یہ جو فلاں شخص ہے اس سے ’میں‘ کچھ
مطمئن سا نہیں ہوں .... بس اس شخص کا وجود ہرگز ’دعوت‘ کے مفاد میں نہیں، بلکہ تو
وہ ’دعوت‘ کیلئے خطرہ ہے .... پس فلاں شخص کو بولنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔
فلاں شخص کو ’پیچھے‘ کر دیا جانا چاہیے .... فلاں شخص کو زبان بند رکھنے پر مجبور
اور اس کا کردار حاشیائی ہو جانا چاہیے .... وہ بھی اس صورت میں اگر ’دعوت کا
مفاد‘ اس بات کا متقاضی نہ ہو کہ اس شخص کو ’جماعت‘ ہی سے باہر ہو جانا چاہیے تاکہ
’دعوت‘ مخالفوں کے بوجھ سے ہلکی پھلکی ہو کر آگے بڑھتی رہے اور ’سیدھے راستے‘ پر
رواں دواں رہے یعنی اس راستے پر جہاں ’میں‘ اور ’میری شخصیت‘ اور ’میری لیڈر شپ‘
اور ’ہماری دعوت‘ یکجا رہتے ہوں!
اسلام کے تحریکی عمل
کو پیش آنے والی بھیانک ترین آفات میں سے یہ ایک آفت ہے۔ یہ وہ آفت ہے جس نے افغان
جہاد میں ڈیڑھ لاکھ شہیدوں کا خون ضائع کروایا۔ اس نے ہر جگہ امت کے وسائل کو
اجاڑا، اس نے ہر خطے کے اندر مسلمانوں کی ہر اس امید کا خون کیا جو ان کو آگے
بڑھنے کیلئے ایک کرن کی صورت کبھی کہیں دکھائی دی۔ یہ اب بھی بہت سی مسلم جماعتوں کے
اندر اور ان جماعتوں کے مابین دراڑیں ڈالنے، تفرقہ اور حزبیت پیدا کرنے اور ٹوٹ
پھوٹ اور نفرت وکینہ بڑھانے کا سبب بن رہی ہے۔ یہی وہ اصل آفت ہے جو ’اختلاف‘ کو
بہت جلد ’اصولوں پر اختلاف‘ کا رنگ دے دیتی ہے اور جماعتوں کے مابین کھینچا تانی
کو ’فہم‘ اور ’طریق کار‘ کا فرق بنا دیتی ہے!
البتہ جب ہم اللہ
وحدہ لاشریک کیلئے تجرد حاصل کرنے پر محنت کرتے ہیں تو پھر ہم تنقید کو کھلے دل سے
قبول کرتے ہیں خواہ وہ تنقید ہماری ذات پر ہو یا ہمارے افکار پر یا ہمارے رویہ
وطرز عمل پر۔
اسلام کی مثالی جماعت
سے ہم اس امر کی ایک مثال بیان کر دیتے ہیں اس لئے نہیں کہ ہم یہ آس رکھے ہوئے ہیں
کہ ایسے مناظر ہمیں اپنے ہاں بھی جا بجا دیکھنے کو ملیں گے بلکہ اس لئے کہ واضح ہو
کہ اللہ کیلئے پایا گیا تجرد اور بے لوثی نفوس میں کیا تبدیلی لے کر آتی ہے اور ان
کو اخلاق کی کن بلندیوں تک پہنچاتی ہے جبکہ یہ نفوس بشر ہی ہوتے ہیں نہ کہ فرشتے
بن گئے ہوتے ہیں۔ نہ ہی فرشتہ بن جانے کی بشری نفوس سے کبھی توقع ہونی چاہیے!
یہ عمر بن خطاب ہیں۔
منبر پر کھڑے خطبہ دیتے ہیں:
”لوگو سمع اور طاعت اختیار کرو“
سلمان فارسی کھڑے ہو
کر ٹوکتے ہیں: ”اس سمع اور اطاعت پر آج تمہارا کوئی حق نہیں رہا“ حضرت عمر سوال
کرتے ہیں ”کیوں؟“ سلمان جواب دیتے ہیں: ”جب تک تم یہ وضاحت نہ کر دو کہ تمہارے پاس
غنیمت کے مال سے یہ ایک زائد چادر کیسے آئی۔ تم دراز قامت ہو۔ ہر آدمی کے حصے میں
جو ایک ایک چادر آئی وہ تمہیں پوری نہ آسکتی تھی“ تب حضرت عمر اپنے بیٹے عبداللہ
کو مخاطب کرتے ہیں: عبداللہ خدا لگتی بات کرنا۔ یہ چادر جس کا میں نے تہہ بند
بنایا ہے کیا تمہاری نہیں؟ عبداللہ جواب دیتے ہیں یہ چادر میری تھی۔ میںنے اپنے
حصے کی چادر اپنے باپ کو دے دی تھی کیونکہ یہ دراز قامت ہیں اور ہر مسلمان کی طرح
ان کے اپنے حصے میں جو چادر آئی وہ ان کو کفایت نہیں کرتی تھی۔ تب سلمان آواز بلند
کرتے ہیں: ”اب آپ حکم دیں۔ ہم سنیں گے اور مانیں گے“!
یہ عمر بن خطاب ہیں۔
وقت کے خلیفہ۔ آدھی دُنیا کے حکمران۔ کسی دینی جماعت کے امیر نہیں!
کیا خیال ہے یہاں
کتنے دینی جماعتوں کے امیر ایسے ہیں جو اپنے اوپر تنقید ہوتی برداشت کر لیتے ہیں؟
کتنے امیر ہیں جن کو جب کسی مسلمان بھائی کی جانب سے حق بتایا جائے تو وہ اپنی بات
سے رجوع کر لیتے ہیں؟
جب ہم خدا کی خاطر
متجرد اور بے لوث ہو جاتے ہیں تو پھر ہماری اپنی ذات ہماری سوچ کا محور نہیں رہتی۔
تب معاملہ ہماری اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتا۔ جب ہم خدا کی خاطر بے لوث اور بے
غرض ہو جاتے ہیں تب ہم اپنے علاوہ کسی دوسرے کا نامور اور مقبول ہونا اپنے لئے
چیلنج نہیں جانیں گے جبکہ وہ دوسرا واقعی ناموری کا حق رکھتا ہو۔ لوگوں کے اِس کے
ساتھ لگنے پر یا لوگوں کے منہ پر اس دوسرے کی تعریف اور ستائش سن کر تب ہم تکلیف
محسوس نہیں کریںگے۔ نہ اس کو ہم اپنی تنقیص جانیں گے۔ ہر وہ کام جو ہمارے زیر
قیادت نہیں ہوتا اس کو ہم اپنی مخالفت پر محمول نہیں کریں گے۔ اس پر ہم اپنے
پیروکاروں کی نظر میں اس کی اہمیت کم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کریں گے۔ اس پر ہم
یہ پریشانی محسوس نہیں کریں گے کہ لوگ ہمیں چھوڑ کر کہیں اس ’دوسرے‘ کے گرد اکٹھے
نہ ہونے لگیں۔
جب ہم اللہ کیلئے
تجرد حاصل کر لیں گے تو ہمارے نزدیک لوگوں کے ’اچھا‘ ہونے کا معیار یہ نہیں رہے گا
کہ کون کتنا ہمارا یا ہماری جماعت کا وفادار ہے اور کون کتنے جذبے سے ہمارے دھڑے
میں شامل ہے۔ بلکہ کسی کے ’اچھا‘ ہونے کی ہمارے نزدیک ایک ہی کسوٹی ہوگی اور یہ
وہی کسوٹی ہوگی جو خدا کے ہاں سے نازل ہوئی ہے یعنی ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم۔
تب لوگوں کی بابت رائے قائم کرنے کا وہی طریقہ اور وہی بنیاد ہوگی جو خدا نے مقرر
ٹھہرا دی ہے۔
یا ایہا الذین آمنوا
کونوا قوامین بالقسط شہداءللّٰہ ولو علی انفسکم اولوالدین والاقربین (النساء: ١٣٥)
”اے ایمان والو! انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ
بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے
والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو“۔
یا ایہا الذین آمنوا
کونوا قوامین للّٰہ شہداءبالقسط ولا یجرمنکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا۔ اعدلوا ھو
اقرب للتقوی (المائدہ: ٨)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے
والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تمہیں اتنا مشتعل نہ کر
دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ انصاف کرو۔ یہی خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے“۔
جب ہم خدا کیلئے اپنے
نفوس میں تجرد اور بے لوثی اور بے غرضی پیدا کر لیں گے تو وہ بہت کچھ جو ہمارے
مابین اس وقت ہو رہا ہے، پھر نہیں ہو گا اور تب ہماری محنت ایک دوسرے کو پچھاڑنے
کیلئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کیلئے ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری چیز جس پر ہم
بہت زور دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں وہ ہے سوجھ اور آگہی اور ہوشمندی (Awareness)۔ یہ دراصل وہ ’بصیرت‘ ہے جس کا ذکر قرآنی آیت میں بھی ہوا ہے:
قل ھذہ سبیلی ادعوا
الی اللّٰہ بصیرت انا ومن اتبعنی وسبحان اللّٰہ وما انا من المشرکین (یوسف: ١٠٨)
”کہہ دو: یہ ہے میرا راستہ، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں ایک
خاص بصیرت پر رہتے ہوئے، میں بھی اور میرے پیروکار بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور شرک
کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں“۔
جہاں تک اس بنیادی
جمعیت کا تعلق ہے جس کو معاشرے پر اثر انداز ہونا ہے تو اس میں کے ہر فرد کے اندر
بصیرت ناگزیر ہے۔ اس کے بغیر ’گزارا‘ ہو جانے کا سوال ہی نہیں۔ کیونکہ یہی وہ چیز
ہے جو اسلام کیلئے کئے جانے والے کام کا ایک رخ بنائے گی۔ بصیرت ہی وہ چیز ہے جس
پر اس عمل کا درست رہنا موقوف ہوگا۔ کب ہمیں چلنا ہے؟ کب رکے رہنا ہے؟ کیسے چلنا
ہے؟ کدھر کو اور کیونکر آگے بڑھنا ہے؟ کسی برسراقتدار طبقے کے ساتھ کیا رویہ
اختیار کرنا ہے، تصادم یا ترک تصادم .... یا پھر دوستی اور تحالف!؟ اس بنیادی جتھے
کی تیاری پہ محنت کرنی جو معاشرے پر اثر انداز ہو یا پھر ابھی عوام اور عوامی کام
کی طرف متوجہ ہونا ہے؟ اور اگر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے تو بھی عوام سے
کیا کہنا ہے: کیا قومی مسائل کو اپنی دعوت کے زیر استعمال لانا ہے اور روٹی اور
بیروزگاری اور مہنگائی پہ عوام کی توجہ لینی ہے یا لوگوں کے ساتھ عقیدہ، ایمان اور
تربیت کے موضوعات پہ پورا زور دینا ہے؟ پھر یہ کہ دشمنوں کو ابھی ہم نے اپنے مسل
دکھا کر مرعوب کرنا ہے یا ان سے ابھی رخ پھیر کر رکھنا ہے؟ اور پھر یہ بھی کہ
ہمارے دشمن ہیں کون کون اور کہاں کہاں؟ کیا یہ مقامی مخالفین ہی ہمارے دشمن ہیں یا
پھر وہ عالمی جاہلیت ہے جو ایک وسیع دائرہ اثر رکھتی ہے اور جو کہ دُنیا بھر سے
یہود، نصاری، مشرکین اور منافقین کے ملنے سے وجود میں آتی ہے؟ ایسے بیسیوں سوال
ہیں جو کہ جواب طلب ہیں اور جن کا جواب دینے کیلئے ایک خاص درجے کی سوجھ اور آگہی
اور ہوشمندی درکار ہے۔ یہ سیای سوجھ بھی ہے اور تحریکی زیرک پن بھی۔ یہ پیدا کر
لینے کے بعد ہی اپنے لئے ہم ایک ایسا مناسب اور درست اور محفوظ طریق عمل تجویز کر
سکتے ہیں جو اندریں حالات ہمارے لئے ممکنہ طور پر بہترین نتائج برآمد کرنے کی
ضمانت دے سکے۔
یہ بات ابتداً واضح
ہو جانی چاہیے کہ ایک مناسب اور درست اور محفوظ طریق عمل تجویز کرنے سے ہمارا مقصد
یہ نہیں ہوگا کہ ہم اپنی ذات کو ہر قسم کی اذیت اور نقصان سے بچا لینے کی ضمانت
حاصل کریں۔ ہم جو بھی کر لیںجاہلیت کسی صورت میں ہمیں اپنے حال پہ چھوڑنے پر تیار
نہ ہوگی نہ وہ ہم سے اپنی دشمنی اور اذیت رسانی کو کبھی موقوف کرے گی۔ یہ بات پہلے
سے ہم پر واضح ہونی چاہیے کہ جاہلیت لا الہ الا اللّٰہ کی دعوت دی جانا کبھی بھی
برداشت نہ کرے گی۔ ہم صرف یہ کوشش کریں گے اور ازحد خیال رکھیں گے کہ ہماری کسی
غیر ذمہ دارانہ حرکت سے دعوت کا نقصان نہ ہو جائے۔
ایک مناسب اور درست
اور محفوظ طریق عمل اپنانے سے ہمارا ہدف یہ نہیں ہوگا کہ ہم اقتدار تک پہنچیں یا
اقتدار کا کچھ حصہ پائیں چاہے اس کیلئے ہمیں اپنے ان اصولوں اوران قدروں (ويليوز)
کی قربانی ہی کرنی پڑے جو کہ ہمارے دین اور ہمارے عقیدہ کا حصہ ہیں، چاہے اصولوں
اور قدروں کی یہ قربانی حالات اور زمانے کے ساتھ چلنے کی دلیل کے تحت ہو یا ’دعوت
کا مفاد‘ کے نام سے!
یہ بات اول بھی اور
آخر بھی ہم پر واضح رہنی چاہیے کہ ہر معاملے کی بابت خدا کی کچھ سنتیں ہیں جو نہ
بدلتی ہیں نہ ٹلتی ہیں نہ کسی کا لحاظ کرتی ہیں اور نہ کسی کی رعایت۔ اور یہ کہ
اگر ہم ان کو نظر انداز کریں گے یا یہ زعم رکھیں گے کہ ہم ان کو پھلانگ کر گزر
سکتے ہیں تو ہم اپنے اس تحریکی عمل میں کسی بھی ہدف تک نہ پہنچیں گے۔
’بصیرت‘ کا ایک حصہ اکتساب علم پر موقوف ہے علم اور تعلیم کا
محتاج ہے۔ اس میں خدا کی سنتوں کا علم پانا شامل ہے جو کہ کتاب اللہ اور سنت رسول
اللہ میں واضح کی گئی ہیں۔ اس میں تاریخ کا فہم اور تدبر شامل ہے۔ یہاں تک کہ
تاریخ سے اسباق اور نتائج کشید کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے.... اس میں امت کے
حاضر اور ماضی کا مطالعہ شامل ہے۔ اس میں ان اسباب سے آگہی رکھنا ضروری ہے جس نے
امت کو اس حال تک پہنچایا جو آج اس کو درپیش ہے.... اس میں اپنے زمانے سے واقفیت
پانا شامل ہے۔ دشمنوں کی حالت سے آگاہ ہونا اور دشمن کے منصوبوں سے واقف ہونا اور
ان طریقوں اور ہتھکنڈوں کو نگاہ میں کرنا جنہیں دشمن اسلام کے تحریکی عمل کے خاتمہ
کیلئے اختیار کرتا ہے .... سب کچھ ’بصیرت‘ میں آتا ہے۔
’بصیرت‘ کا ایک حصہ تجربہ ومہارت سے عبارت ہے۔ اسلام کے
تحریکی عمل میں ہونے والے تجربات سے آگاہی اور ان سے اسباق کشید کرنے کی صلاحیت
پانا اور مختلف تحریکی اقدامات سے برآمد ہونے والے نتائج کا درک حاصل کرنا.... اسی
میں آتا ہے۔
’بصیرت‘ کا ایک حصہ تربیت کے ذریعے وجود پاتا ہے۔
’بصیرت‘ کا ایک حصہ مشاورت اور تبادلہء آراءسے تشکیل پاتا
ہے۔ خصوصاً وہ مشاورت اور تبادلہء آراءجو ایک قیادت اور اس کے رفقائے عمل کے مابین
ہوتا ہے اور جس میں کہ معاملات کی جانچ پرکھ اور نقطہء ہائے نظر سننے اور بتانے
اور رائے کے اندر پختگی لے کر آنے کی صلاحیت پیدا کی جاتی ہے۔ اس سے مراد ایسی
مشاورت نہیں جو محض ایک خانہ پری کیلئے کر لی جاتی ہے اور ’مقربین‘ کی ایک محدود
سی تعداد کے ساتھ کی جاتی ہے اور وہ بھی سمع اور طاعت کے دبائو میں رکھ کر۔ جس میں
کہ رائے دینے والوں کو پیشگی علم ہوتا ہے کہ ’زیادہ اعتراضات‘ کرنے کا کیا انجام
ہوسکتا ہے اور یہ کہ قائد کا دل خوش کرتے نہ رہنے کی صورت میں اس کو اس شرف سے ہی
ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں کہ اس سے مشورہ طلب کیاجائے۔ ’اختلاف‘ اور ’اعتراض‘ کرنے
والوں کیلئے تو جماعت کے اندر جگہ تک نہیں رہتی!
پس جب یہ چیز، جسے ہم
نے بصیرت کا نام دیا ہے نہیں پائی جاتی یا جب یہ اپنی ناقص حالت میں پائی جاتی ہے
تو ایک افراتفری اور ایک بے ہنگم انداز اضطراب کا پایا جانا یقینی ہوتا ہے جیسا کہ
آج ہمارے اس دور کے تحریکی عمل میں ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہیں وہ بعض
مواصفات جو معاشرے پر اثر انداز ہونے والی ایک ابتدائی جمعیت کے اندر لازماً پائے
جانے چاہئیں۔ تو کیا اپنے تحریکی عمل میں ہم نے ان کا حصول یقینی بنا لیا ہے؟
یہ بات ہمارے ذہنوں
میں بے حد واضح ہو جانی چاہیے اور شروع ہی سے واضح رہنی چاہیے کہ ہمارے پیش نظر
محض ایک ایسی جماعت کا قیام نہیں جس کو بس اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنا ہے۔
شعائر عبادت جیسے کیسے ہو ادا کرنے ہیں اور پھر دعوت کے کام میں لگ جانا ہے ....
بلاشبہ یہ ایک نیک عمل ہے اور اپنی جگہ قابل ستائش ہے۔ قیامت کے روز ان شاءاللہ اس
پر آپ ماجور بھی ہوں گے مگر یہ وہ کل کام نہیں جو اس امت کو، جس حال تک وہ پہنچ
گئی ہے، وہاں سے نکال لائے۔ نہ ہی اس کا وہ نقشہ ہے جو آج کی اس جاہلیت کو اپنا رخ
موڑ لینے پر مجبور کردے۔
جبکہ اسلام کے اس
تحریکی عمل سے آج جو اس وقت مطلوب ہے وہ یہی ہے کہ یہ اس امت کو ایک بالکل نیا رخ
دے دے اور فکری، ذہنی، شعوری اور سماجی اور تہذیبی طور پر یہ اپنی جس حالت کو پہنچ
گئی ہے وہاں سے اس کو نکال لایا جائے دوسری طرف یہ جاہلیت جو آج کے معاشروں کے اندر
فکری، ذہنی، شعوری، روحانی اور سماجی وتہذیبی طور پر سرچڑھ کر بول رہی ہے اس
جاہلیت کا رخ موڑ کر رکھ دیا جائے۔
یہ ہدف بہرحال پورا
نہیں ہوگا جب تک کہ ایک بہت ہی خاص معیار کی جماعت تیار نہیں کر لی جاتی۔ جس کی
ہیئت ترکیبی میں ان سب عناصر سے کام لیا گیا ہو جو اس جماعت کی تشکیل میں پیش نظر
رکھے گئے تھے جو کہ مربی اعظم کے ہاتھوں تیار ہوئی تھی۔ بے شک یہ اس معیار کی نہ
ہو جس معیار کی وہ جماعت تھی اور نہ یہ ممکن ہی ہے کہ اس کے بعد کسی اور دور میں
یا اسلام کی کسی اور نسل میں وہ معیار پیدا کر لیاجائے .... چنانچہ معیار بے شک وہ
نہ ہو مگر ہیئت ترکیبی عین وہی ہونی چاہیے۔ مواد ممکنہ حد تک بہرحال وہی ہونا
چاہیے جو وہاں استعمال ہوا تھا۔
اب اس بات کا تقاضا
ہے کہ اسلام کو ایک ایسی بنیادی جمعیت کی فراہمی میں لگ جایا جائے جو معاشرے کی
قیادت پر قدرت رکھے۔ اسی جمعیت کی تیاری اور تربیت پر تمام تر محنت صرف کر دی
جائے۔ اس میں ممکنہ طور پر بہترین معیار لایا جائے۔ اس کو ناخالص اجزاءسے پاک کرنے
اور اس کو زیادہ سے زیادہ خالص کرنے کے سب ممکنہ طریقے اختیار کئے جائیں۔ پھر اس
کے ذریعے سے عوام پر اثر اندازہوا جائے۔
رہا یہ کہ اس تربیت
کیلئے کیا ذرائع اختیار کئے جائیں گے تو ہمیں بھی وہی ذرائع اختیار کرنا ہوں گے جو
مربی اعظم نے اپنے اصحاب کی تربیت اور تیاری میں اختیار فرمائے تھے: یعنی اللہ اور
آخرت پر ایمان کو گہرا کرنا۔ اللہ سے تعلق پختہ کرنا، یہاں تک کہ ذہن کا محور
’خدا‘ ہو جائے۔ نفوس کو زیادہ سے زیادہ خدا کے ساتھ رہنے کا عادی کر دینا۔ عمل کو
ایمان سے برآمد کرنا۔ رویہ اور طرز عمل کو ایمان کا بے ساختہ نتیجہ بنانا اور
ایمانی طرز عمل کو زندگی کے اندر اپنا رکھنے کی مشق ہونا.... پھر اس کے بعد سوجھ
اور آگہی اور ہوشمندی کی ذہنیت کو ترقی دینا۔ اس ذہنیت کو پروان چڑھانے کیلئے اپنے
دور کے اندر پائے جانے والے سب ممکنہ وسائل کو بروئے کار لانا.... جبکہ اس سارے
عمل کے دوران اس بات کو ہر وقت پیش نظر رکھنا کہ تربیت کے اس عمل میں سب سے اہم
اور سب سے موثر ذریعہ یہ ہوگا کہ آدمی خود نمونہ بن کر دکھائے۔ پھر اس کے بعد
تعلیم، تذکیر، پند و نصیحت، وعظ سب کچھ آتا ہے۔ جس کے ساتھ ساتھ ایک ایک آدمی پر
محنت، ایک ایک آدمی کی نگہداشت، تصحیح اور پھر ایک طویل صبر.... مسلسل محنت یہاں
تک کہ نفوس اس چیز کو قبول کر لیں.... یہاں تک کہ نفوس پھراس کے عادی ہو جائیں....
یہاں تک کہ یہ ایک راستہ بن جائے اور پختہ ہو جائے۔
یہ کام وقت لے گا۔
ایک بے انتہا، مشقت طلب کام ہے۔ بہت محنت چاہتا ہے۔ صبر آزما ہے۔ اس کو ایک خاص
سطح اور ایک خاص حجم تک پہنچنا ہے۔ یہ ایک ہی دن میں آپ کو اپنے ثمرات نہ دے دے
گا۔اس میں جلد بازی کی گنجائش نہیں۔ اس کے مرحلوں کو پھلانگ کر گزرنا ممکن نہیں۔
یہ اس صورت میں اگر ہم ایک ایسے عظیم الشان مشن کو سرے لگانے میں واقعی سنجیدہ ہیں
جو ایک طرف اس امت کی حالت کو بدل رکھ دے اور اس کو، جس حالت میں یہ گرفتار ہے، اس
سے نجات دلائے اور دوسری طرف یہ جاہلیت کو، جہاں تک کہ اس کی پہنچ ہو چکی ہے، پلٹ
جانے پر مجبور کردے اور اس کا رخ موڑ کر رکھ دے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔