عقیدہ
ایک عام آدمی اگر عقیدہ کی بعض تفصیلات سے واقف نہیں
(عقیدہ طحاویہ کی شرح از علامہ ابن ابی العزالحنفی پر شیخ سفر الحوالی کی تعلیقات سے اُردو استفادہ)
علامہ ابن ابی العز الحنفی شارح الطحاویہ کہتے ہیں:
”رسول اللہ پر جو کچھ نازل ہوا آدمی اگر اس کے کسی ایک حصہ کا علم لینے یا اس پر عمل پیرا ہونے سے عاجز ہے تو بھی جائز نہیں کہ وہ خود جس چیز سے عاجز ہے دوسروں کو اس سے روکے یا حوصلہ شکنی کرے۔ اس کیلئے یہی کافی ہے کہ وہ شرعی ملامت سے خود بچ گیا ہے۔ لیکن کوئی دوسرا اس فرض کا قیام کرتا ہے تو لازم ہے کہ وہ اس پر خوش ہو اور دل سے راضی ہو اور یہ تمنا کرے کہ کاش وہ بھی یہ کام کر سکتا۔ اس کیلئے جائز نہیں کہ وہ محمد کے آوردہ امور میں سے کچھ باتوں پر ایمان لائے اور کچھ پر ایمان لانے سے احتراز برتے۔ محمد پر جو نازل ہوا سارے کے سارے پر ایمان لانا فرض ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ ہر وہ چیز جو اس میں سے نہیں اس کو اس میں شامل نہ ہونے دیا جائے خواہ وہ کوئی روایت ہو (جو کہ ثابت نہیں) یا رائے ہو (جو کہ دین نہیں) اور نہ ہی یہ ہونے دیا جائے کہ جو چیز خدا کے ہاں سے نازل نہیں ہوئی اعتقاد میں یا عمل کے اندر اس کی پیروی ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ولا تلبسوا الحق بالباطل وتکتموا الحق وانتم تعلمون
”حق کو باطل سے مخلوط نہ کرو اور جانتے بوجھتے حق کو مت چھپاؤ“۔
شرح از شیخ سفر الحوالی:
مسلمان کا فرض تو یہی ہے کہ وہ اپنے دین میں تفقہ حاصل کرے اور انبیاءکے منہج کے موافق اپنے عقیدہ کی تفاصیل جانے۔ تاہم کوئی شحص اگر یہ کہتا ہے کہ میں تمام کا تمام مفصل اعتقاد رکھنے سے عاجز ہوں اور یہ کہ میں عقیدہ کی بابت تمام کی تمام احادیث اور آیات کا بالتفصیل اعتقاد پانے سے قاصر ہوں اور یہ کہ اگر ان نصوص میں بظاہر کہیں تعارض نظر آتا ہے تومیں یہ قدرت نہیں رکھتا کہ ان میں جمع اور توفیق کر سکوں .... خصوصاً تقدیر اور صفات وغیرہ ایسے موضوعات میں .... تو ہم اس سے کہیں گے: ٹھیک ہے جو شخص اس بات پر قدرت نہیں رکھتا اس پر سے اس بات کی فرضیت ساقط ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اس بات سے عاجز ہے۔ البتہ تمہارے لئے یہ پھر بھی جائز نہیں کہ کوئی دوسرا اگر یہ فرض ادا کرتا ہے تو تم اس کو غلط جانو یا مذمت ملامت کرو اور اس کی مخالفت کرنے لگو۔ بلکہ تمہارا یہ فرض بنتا ہے کہ تم ایسے شخص کی تائید بھی کرو اور اس کی نصرت بھی اور جہاں تک ہو سکے اس سے علم لو۔ اور یہ بھی کہ اگر کوئی دوسرا یہ فرض بجا لاتا ہے تو تم اس پر خوشی محسوس کرو۔ کیونکہ یہ ایک طرح سے دین کا دفاع شمار ہوتا ہے۔
اسی زمرہ میں دین کے اندر پیدا ہونے والے فرقہ جات کا علم آتا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ دین میں پیدا ہونے والے فرقوں کا احوال جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ایسے شخص سے بھی ہم یہی کہیں گے کہ اگر تم فرقوں کی بابت علم نہیں بھی رکھتے پھر بھی معاشرے میں انکے ساتھ تم کو بہرحال پورا اترنا ہے۔ تو پھر کم از کم یہ ہے کہ جو کوئی ان فرقوں سے نبردآزما ہونے کیلئے آگے بڑھے اس کی عیب جوئی ہرگز نہ کرو بلکہ جب کوئی دین میں گمراہ فرقوں کے مدمقابل آنے کا فرض انجام دے تو لازم ہے کہ تم اس پر خوشی محسوس کرو۔
جو شخص ایمان مفصل (عقیدہ کی تمام تفصیلات) کو جاننے سے عاجز ہو اس کا فرض ہے کہ وہ کتاب پر کلی انداز کا ایمان رکھے اور اس کی ہر بات کیلئے آمادہ تسلیم رہے۔ اس کیلئے یہ پھر بھی جائز نہیں کہ وہ ایمان کی ایک بات تسلیم کرے اور دوسری کو رد کردے۔ تعارض عقل ونقل کے ضمن میں اس سے پہلے ہم یہ ذکر کر آئے ہیں کہ یہ (عقل پرست) حضرات بھی ضروری نہیں کہ ہر ہر معاملے میں نقل کو عقل کی بنیاد پر مسترد کرتے ہوں۔ یہ لوگ بھی نقل (نصوص شریعت) کو عقل کی بنیاد پر صرف وہیں مسترد کرتے ہیں جہاں یہ تاویل کرنا ضروری جانتے ہوں اور جہاں صرف عقل پر انحصار کرنا ان کو ضروری معلوم ہو، جو کہ خوئے تسلیم کے منافی ہے۔ دین کے اندر کوئی ایسی تقسیم نہیں کہ فلاں فلاں مسئلے پر ہم کو آمادہء تسلیم ہونا ہے اور فلاں فلاں معاملے میں ہم پر تسلیم واجب نہیں، لہٰذا وہاں ہم تاویل کرنے اور عقل کو فیصلہ سونپ دینے کے مجاز ہیں! بلکہ ہم پر جو واجب ہے وہ یہ کہ ہر معاملے میں ہم سرتا سر تسلیم ہوں اور شریعت جس طرح پوری کی پوری خدا کی جانب سے نازل ہوئی ہے ویسے ہی پوری کی پوری پر ایمان لائیں۔
اگر ہمیں اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ وحی کا اترنا مخلوق پر خدا کا سب سے بڑا انعام ہے اور اگر ہم یہ تخیل کرنے پر قدرت پالیں کہ خدا کی طرف سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ وحی اگر نہ اتری ہوتی تو اس وقت انسانیت کس حال میں ہوتی جبکہ اب بھی حال یہ ہے کہ اگر ہم شرک اور گمراہی کی صورتیں اور شکلیں گننے لگیں تو ان کا شمار تک نہ کر سکیں۔ ہندوستان میں جا کر دیکھ لیں آج بھی لوگ کیسی کیسی اشیاءکو پوجتے ہیں، یہاں تک کہ لوگ انسانی اعضاء تناسل تک کو پوجتے ہیں .... آج وحی کے ہوتے ہوئے اگر یہ حال ہے تو کہیں اگر یہ وحی کی روشنی سرے سے نہ ہوتی تو زمانہ کیسے گھپ اندھیرے میں ڈوبا ہوتا .... تو پھر لازم ہے کہ ہم اس وحی کا صحیح مرتبہ اور مقام متعین کریں اور اس کی کماحقہ قدر کریں۔
وحی کو اس کا کماحقہ رتبہ دینے کیلئے دو باتیں لازم ہیں:
-1 یہ کہ کوئی چیز جو وحی نہیں اس کو وحی میں شامل نہ ہو جانے دیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر وہ حدیث جو موضوع اور من گھڑت ہے ہم خدا کی شریعت اور خدا کے رسولوں کو اس سے مبرا اور منزہ جانتے ہیں۔ ایسی حدیث کی روایت تک جائز نہیں سوائے اس کے کہ مقصد لوگوں کو اس کے شر سے خبردار کرنا ہو۔
-2 یہ کہ خدا کی شریعت کو ہم انسانی آراءسے بھی منزہ اور مبرا جانیں۔
خدا کا دین اپنی اصل حالت میں ہی محفوظ رہنے کے لائق ہے اور خدا کے حکم سے اس کو محفوظ ہی رہنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تابعین اور بعد کے علماءسلف کا طریقہ کار یہ رہا ہے کہ دین میں جو راستہ مقرر کردیا گیا بس اس کی اتباع کریں اور اس کے اندر کسی نئی بات کے ہو جانے سے شدید حد تک چوکنا رہیں۔ سو وہ بدعت اور اصحاب بدعت سے خبردار رہتے تھے۔ یہاں تک کہ دین میں جدت اور بدعت کا چلن کرنے والوں سے بحث وگفتگو تک کے روادار نہ ہوتے تھے۔ چنانچہ ایوب سختیانی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ وہ بعض اھل بدعت لوگوں کی بات ذرا سن لیں۔ آپ نے جواب دیا نہیں ایک بات تو کیا آدھی بات تک نہ سنوں گا۔ یہ کہا اور ان لوگوں کو چھوڑ کر چل دیے۔ علماءسلف میں سے کسی کو کچھ لوگوں کی بابت بتایا گیا کہ وہ کسی بدعت کا شکار ہیں۔ یہ قسم اٹھا کر گویا ہوئے کہ یہ اور وہ اہل بدعت ایک چھت تلے کبھی اکٹھے نہ ہوں گے۔
حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں آتا ہے جیسا کہ آجری نے کتاب الشریعہ میں ذکر کیا کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: آؤ میرے ساتھ مناظرہ کرلو۔ حسن بصری رحمہ اللہ نے جواب دیا: ”جہاں تک میرا تعلق ہے تومیںنے اپنا دین (صحابہ وغیرہ کے ذریعہ سے) جان رکھا ہے۔ رہے تم تو اگر تم راستہ بھٹک گئے ہو تو جہاں جا کر ڈھونڈنا چاہو ڈھونڈتے پھرو“۔
ایسا ہی ایک شخص امام مالک کے پاس آیا اور کہنے لگا: آئو مناظرہ کرلو۔
امام مالک کہنے لگے: اچھا فرض کرلو تم مجھ سے مناظرہ جیت گئے، پھر؟
وہ شخص بولا: تو تم میرے ہم خیال ہو جائو گے۔
امام مالک نے اگلا سوال کیا: فرض کرو میں تمہارا ہم خیال بھی ہو گیا۔ اب کوئی تیسرا شخص آکر ہم دونوں کو مناظرے میں ہرا دیتا ہے۔ تب کیا کرنا ہوگا؟ وہ شخص (بڑے اخلاص کے ساتھ) بولا: تب ہم اس کے ہم مسلک ہو جائیں گے۔
”سبحان اللہ!“ امام مالک نے جواب دیا۔ ”ارے بھائی خدا نے جو دین نازل کیا ہے وہ ایک ہی ہے جو کہ ہمیں رسول اللہ سے بلاکم وکاست پہنچ گیا ہے۔ یہ آئے روز بدل لینے والی چیز نہیں“۔
عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کاقول ہے: ”جو شخص اپنے دین کو بحث اور جدلیات پر موقوف رکھتا ہے اس کو تو روز ہی نقل مکانی کرنا پڑے گی“؟
ایسا آدمی کب اور کس بات پر جم کر کھڑا ہوگا؟ عقلیات اور جدلیات کا بازار تو کبھی بند ہونے کا نہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔