فوائد
امام ابن جوزی
آزمائش ضروری ہے
دُنیا میں اس سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرکے اپنی تمام ضروریات پوری کرانا چاہے بھلا بتاؤ پھر آزمائش کیا ہوئی؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا (کہ تمام خواہشات پوری ہوتی جائیں) مرادوں کا الٹنا، سوال کے جواب میں تاخیر ہونا اور چند دن دشمنوں کی تسلی ہونا تو ضروری ہے۔
اب جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ سلامت رہے، دشمنوں کے خلاف اس کی مدد ہوتی رہے بغیر کسی آزمائش کے عافیت میسر رہے تو گویا اس نے تکلیف کو جانا ہی نہیں اور تسلیم کا معنی سمجھا ہی نہیں۔
غور کرو کیا رسول پاک کی بدر کے موقع پر نصرت نہیں ہوئی پھر دیکھو احد میں آپ کو کیا معاملہ پیش آیا؟ اور کیا آپ کو بیت اللہ سے روکا نہیں جاتا تھا پھر دیکھو کہ غلبہ کے ساتھ لوٹائے جا رہے ہیں۔
لہٰذا اچھا اور خراب حال دونوں ساتھ ساتھ ہیں اچھا ہو تو شکر ضروری ہے اور خراب ہو تو سوال اور دُعا کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے۔
پھر اگر جواب نہ ملے تو سمجھ لو کہ امتحان مقصود ہے اور اپنے فیصلہ پر جھکانا چاہتے ہیں اور یہی وہ موقعہ ہے جہاں ایمان ظاہر ہوتا ہے اور تسلیم کے سلسلے میں لوگوں کے جوہر ظاہر ہوتے ہیں لہٰذا اگر ظاہر اور باطن دونوں ہی اعتبار سے تسلیم کا مظاہرہ ہو تو کامل کی شان یہی ہے اور اگر باطن میں فیصلہ کرنے والے سے نہیں صرف فیصلہ سے طبیعت کچھ متاثر ہو جائے (تو کوئی عیب نہیں) کیونکہ طبیعت تو تکلیف سے گھبراتی ہی ہے البتہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ معرفت میں کچھ کمی ہے۔
اور اگر خدانخواستہ زبان سے بھی اعتراض کر بیٹھا تو یہ جاہلوں کا حال ہے ہم ایسے حال سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
احسانات وانعامات کا وسیلہ
مجھ کو معلوم ہوا کہ کسی شخص سے ایک شخص نے کچھ سوال کیا تو اس طرح کہا کہ میں وہی ہوں جس پر آپ نے فلاں دن اتنا اتنا حسان کیا تھا۔ تو اس نے کہا ”خوش آمدید ایسے شخص کو جو ہمارے ہی احسان کو ہم تک پہونچنے کا وسیلہ بنائے“۔ یہ کہہ کر اس کی ضرورت پوری کردی۔
تو میں نے اس سے ایک اشارہ نکال کر مناجات شروع کی اور عرض کیا:
یاالٰہی! تو نے ہی مجھ کو بچپن کے زمانہ سے ہدایت دی، گمراہی سے حفاظت کی، بہت سے گناہوں سے بچایا، علم کی طلب کا الہام کیا، جبکہ بچپن کی وجہ سے علم کے مرتبہ کی سمجھ بھی نہیں تھی۔ اور والد کی خواہش بھی شامل نہ تھی کیونکہ ان کا انتقال ہو چکا تھا۔ علم میں تفقہ حاصل کرنے اور تصنیف کرنے کیلئے فہم سے نوازا۔ علم کے حصول کے اسباب مہیا کئے، بغیر میری محنت کے میرے رزق کا انتظام کیا۔ اس طرح کہ مخلوق سے مانگنے کی ذلت بھی نہیں اٹھانی پڑی۔ دشمنوں سے حفاظت کی، لہٰذا کوئی ظالم میری طرف نہ بڑھ سکا۔ اتنے علوم میرے اندر اکٹھا کئے جو عام طور پر ایک شخص کے اندر جمع نہیں ہو پاتے، جبکہ اکثر لوگوں کو یہ نعمت نہیں ملی ہے۔ پھر ان کے ساتھ مزید انعام یہ کیا کہ میرے دل کو اپنی معرفت ومحبت سے متعلق کرلیا۔ اپنی طرف رہنمائی کے لئے عمدہ اور خوبصورت تحریر کا سلیقہ عطا فرمایا اور لوگوں کے دلوں میں مقبولیت رکھ دی۔ جس کی وجہ سے لوگ میری طرف متوجہ ہوتے ہیں، میری نصیحت کو قبول کرتے ہیں، اس میں کچھ شک نہیں کرتے، میری تقریر کے مشتاق رہتے ہیں۔ اور اس سے اکتاتے نہیں ہیں۔ پھر تو نے مجھ کو نامناسب لوگوں کے اختلاط سے محفوظ رکھا۔ اور خلوت کی توفیق سے نوازا۔ اور خلوت میں بھی کبھی علم سے انس پیدا کیا اور کبھی اپنی مناجات کو انس کا سبب بنایا۔ غرض اگر میں ان انعامات واحسانات کو شمار کرنے بیٹھوں جو تو نے کئے ہیں تو دسویں کا دسواں حصہ بھی نہ شمار کر سکوں۔
وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا
اگر تم لوگ اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہ شمار کرسکو گے
پس اے میری طلب سے پہلے ہی مجھ پر احسانات کرنے والے کریم! اب جبکہ میں مانگ رہا ہوں تو اپنی ذات سے وابستہ امیدوں کے متعلق مجھ کو محروم نہ کر۔ کیونکہ میں تیرے گزشتہ انعامات ہی کو وسیلہ بنا رہا ہوں۔
مومن کے تصورات
چونکہ مومن کو آخرت کی دھن لگی رہتی ہے، اس لئے دُنیا کی ہر چیز اس کو آخرت کی یاد پر ابھارتی ہے۔ او رجس کو کوئی چیز اپنی طرف متوجہ کرلے تو سمجھ کو کہ اس کا شغل وہی ہے۔
کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اگر چند پیشے والے کسی آباد مکان میں جاتے ہیں تو کپڑا بیچنے والا فرش اور بستر کو دیکھتا ہے اور اس کی قیمت کا اندازہ لگاتا ہے۔ بڑھئی کی نظر چھت کی کڑیوں (اور دروازے کی لکڑیوں) پر پڑتی ہے۔ معمار دیواروں کو دیکھتا ہے اور جولاہہ بُنے ہوئے کپڑوں اور پردوں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
ایسے ہی مومن بھی جب تاریکی دیکھتا ہے تو اس کو قبر کی تاریکی یاد آجاتی ہے، کوئی تکلیف پیش آتی ہے تو عذاب کو سوچتا ہے، اگر تیز گھبرا دینے والی آواز سنتا ہے تو نفخہء صور کو یاد کرتا ہے۔ لوگوں کو سوتا ہوا دیکھتا ہے تو قبر کے مردے یاد آجاتے ہیں اور کوئی لذت پاتا ہے تو جنت کو یاد کرتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کی ساری توجہ آخرت ہی کی طرف ہوتی ہے۔ جو یہاں کی ہر نعمت سے اس کو غافل کئے ہوئے ہے۔
سب سے بڑا تصور جو اس کو حاصل ہوتا ہے، وہ یہ کہ وہ سوچتا ہے کہ جنت میں ہمیشہ کا قیام ہوگا۔ اس کی بقاءپر فنا اور زوال نہیں آئے گا۔ ساری تکلیفیں دور ہو جائیں گی اور جس وقت وہ اپنے کو ان دائمی لذتوں میں، جنکے لئے فنا نہیں ہے، لطف اندوز ہوتے ہوئے تصور کرتا ہے تو مستی سے پھڑک اُٹھتا ہے، اور اس پر جنت کے راستے میں پیش آنے والی تکلیفیں مثلاً درد وغم، بیماری، آزمائش، رشتہ داروں کی موت، اعزّہ کی جدائیگی اور کڑوے گھونٹوں پر صبر وغیرہ آسان ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ کعبہ شریف کے مشتاقوں پر صحرائے زرود (عرب کا ایک بڑا ریگستانی صحرا) کی ریت گوارا ہو جاتی ہے۔ اور صحت کا خواہشمند دوا کی کڑواہٹ کی پرواہ نہیں کرتا ہے۔
اور وہ جانتا ہے کہ پھل کی عمدگی یہاں کے بیج کی عمدگی پر موقوف ہے۔ اس لئے عمدہ سے عمدہ بیج منتخب کرتا ہے اور زندگی کے موسم خریف میں بغیر کسی سُستی کے کھیتی کر لینے کو غنیمت سمجھتا ہے۔
پھر مومن تصور کرتا ہے کہ کہیں جہنم اور سزا کا معاملہ پیش آوے، یہ سوچکر اس کی زندگی مکدر ہو جاتی ہے اور قلق بڑھ جاتا ہے۔
لہٰذا اس کے پاس دونوں حالتوں میں دُنیا اور سامان دُنیا سے بے رخی رہتی ہے اور اس کا دل کبھی تو شوق کے میدانوں میں دوڑتا ہے اور کبھی خوف کے صحرا میں حیران رہتا ہے۔ اس لئے وہ عمارتوں پر نگاہ نہیں رکھتا۔
تو پھر جب موت آتی ہے تو چونکہ سلامتی کی وجہ سے مضبوط اور اپنے لئے نجات کا امیدوار ہوتا ہے اس لئے آسان ہو جاتی ہے۔
پھر جب قبر کے اندر اترے گا اور سوال کرنے والے فرشتے آئیں گے تو ایک دوسرے سے کہے گا کہ اس کو چھوڑ دو، ابھی تو اس کو راحت ملی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم کو بھی ایسی کامل بیداری عطا فرمائیں، جو فضائل کے حصول کی تحریک پیدا کرے اور رذائل کو اختیار کرنے سے روکے۔ یقینا اگر اس نے توفیق دے دی تو بیڑا پار ہے، ورنہ پھر کوئی چیز نافع نہیں ہے۔
(امام ابن جوزی کی کتاب صیدالخاطر سے انتخاب)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔