عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
دعوت
:عنوان

:کیٹیگری
محمد قطب :مصنف

"دعوت کا منہج" مکمل کتابی شکل میں شائع  ہوچکا ہے۔ آن لائن پڑھنے یا ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
دعوت
(سلسلہ وار مضمون)
(محمد قطب)
رسول اللہ کے پاس اپنے ساتھیوں کو تربیت دینے اور اسلام کیلئے کارآمد بنانے کیلئے جو سب سے بڑا عملی ذریعہ ہمیں نظر آتا ہے وہ ہے اللہ اور آخرت پر ایمان کو گہرا کر دینا۔ خدا کو ان کا ہمہ وقتی موضوع بنا دینا اور ان کو اس بات کا عادی کر دینا کہ ان میں کا ہر ہر آدمی اپنی ہمت کے بقدر خدا کے ساتھ وقت گزارنا سیکھے .... جبکہ اس معاملہ میں، دین کے ہر معاملہ ہی کی طرح، آپ خود ان کے لئے سب سے بڑا نمونہ تھے ....

حقیقت یہ ہے کہ تربیت کے عمل میں ’نمونہ‘ سب سے زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے ....

خدا تعالیٰ جو کہ نفس انسانی کا خالق ہے، خوب جانتا ہے کہ خالی وعظ و نصیحت کافی نہیں چاہے وہ کتنا ہی بلیغ اور مؤثر کیوں نہ ہو، جب تک کہ وہ ایک انسانی دل میں جگہ نہ پا لے اور جب تک کہ وہ اس کو اپنے رنگ میں نہ رنگ لے اور لوگوں کے سامنے اس کی ایک جیتی جاگتی صورت نہ بن جائے۔ تب جا کر وہ لوگوں کو اس کی جانب بلائے جبکہ وہ عملی نمونہ کی صورت میں ان پر واضح کر چکا ہو کہ ’حق کی اتباع‘ دراصل ہوتی کیا ہے؟

خدا تعالیٰ یقینا اس بات پر قادر تھا کہ وہ قرآن کو کسی قرطاس میں لکھا لکھایا نازل کر دے اور پھر عرب امیوں کے اندر یہ الہامی قدرت پیدا کر دے کہ وہ اس کو پڑھنے لگیں .... مگر وہ لطیف اور خبیر جانتا ہے کہ انسانی نفوس کے اندر کسی حقیقت کو یوں نہیں اتارا جاتا اور نہ ہی اس راہ سے ان میں وہ تاثیر پیدا کی جا سکتی ہے جس کا پیدا کیا جانا اس میں مطلوب ہوا کرتا ہے اور جو کہ ایک مطلق حقیقت کو ایک متحرک حقیقت بنا دیتی ہے اور انسانی زندگی میں ایک ہلچل لے آتی ہے۔ قرآن کو لکھا لکھایا اتارنے کی بجائے اس نے اس کو ایک بشر کے قلب پر نازل کیا۔ اس کلام نے اس دل میں گھر کرلیا اور وہ اس کے رنگ میں رنگ کر اس کا عملی پرتو بنا جسے ساری دُنیا دیکھ اور محسوس کر سکتی تھی۔ اب قرآن کے اس عملی پرتو کو دیکھ کر ہر وہ انسان اس کی طرف لپکا جس کا سینہ خدا نے اسلام کیلئے کشادہ کیا۔ لوگوں کے دل اس کی طرف مائل ہوئے۔ بلکہ وہ اس کے تابع فرمان ہوئے اور خدا کے دین میں جوق درجوق آنے لگے۔

عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا گیا رسول اللہ کا اخلاق بیان کریں۔ فرمایا:

”آپ کا اخلاق قرآن ہی تھا“۔ (مسند احمد)

عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول کی روشنی میں ہی ہم اس آیت کا مطلب سمجھیں گے:

وما علی الرسول الا البلاغ المبین (النور: ٥٤)

”رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ صاف صاف پیغام پہنچا دے“۔

اور اس آیت کا بھی:

وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون (النحل: ٤٤)

”ہم نے تم پہ ذکر نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اس تعلیم کی تشریح وتوضیح کرتے جائو جو ان کیلئے اتاری گئی ہے“۔

سو ’پہنچا دینا‘ محض یہ نہیں کہ رسول لوگوں سے کہ دے: ”تمہارا رب تمہیں فلاں اور فلاں حکم فرماتا ہے“ .... ’بیان‘ سے مراد کوئی لیکچر نہیں اور نہ کوئی درسی انداز کا سبق ہے جو رسول لوگوں کو دے آیا کرے .... اگرچہ ’پہنچا دینا‘ اور ’بیان کر دینا‘ اس معنی میں بھی مطلوب ہے تاکہ لوگ اپنے دین کے امور کا باقاعدہ علم لے لیں .... رہا یہ کہ یہ علم نفوس کے اندر گہری اتر جانے والی ایک حقیقت بنے اور پھر نفوس میں اتر جانے والی یہ حقیقت ایک عملی اور معاشرتی واقعہ بنے .... تو یہ ایک اور بات ہے۔ اس کیلئے ضرورت یہ ہے کہ رسول ان تک اپنے رب کی بات کو کچھ یوں پہنچاتے کہ پہلے یہ ایک انسانی حقیقت بن چکا ہو اور عمل میں ڈھل چکا ہو۔ تاکہ لوگ اس کی اقتدا کریں اور اس کا ایک عملی سبق لیں کہ اس پر عمل کیونکر ہونا ہے۔ اس میں داعیوں کیلئے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ اس مسئلہ کی تفصیل کی جانب اگرچہ ہم ذرا دیر بعد آئیں گے۔

چنانچہ رسول اللہ کا اپنا حال یہ تھا کہ خدا کو اپنی سوچ اور اپنی تمام حرکات وسکنات کا محور بنا رکھا تھا۔ آپ کی زندگی خدا کا ہمہ وقت ذکر تھا۔ آپ کا ہر لحظ خدا کے ساتھ گزرتا تھا، نہ دل کسی وقت خدا کی یاد سے غافل۔ نہ زبان سے اس کی یاد روپوش۔ خدا نے آپ کی تربیت فرمائی اور کیا ہی خوب تربیت فرمائی۔ آپ کو وہ خاص طاقت اور ہمت بخشی جو خدا سے اس ہمہ وقتی تعلق کی تاب لا سکے .... ایک بشر کیلئے یہ ایک بے حد جان جوکھوں کا کام تھا ....

خدا کے ساتھ رہنے کی یہ بلند ترین سطح جس پر رسول اللہ رہے .... یہ انسانوں کے بس کی بات نہ تھی۔ حتی کہ یہ صحابہ کے بس کی بات نہ تھی۔ ہر حال، ہر لحظہ اور ہر شکل میں خدا کی یاد رکھنا اور خدا کے ساتھ زندگی بسر کرنا۔

یہ تو بہرحال ایک خاص صفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے رسولوں کو عطا فرمائی اورپھر ان میں سے سید المرسلین کو اس میں سب سے بڑا حصہ نصیب فرمایا۔ جہاں تک صحابہ کا تعلق ہے تو انہوں نے آپ سے عرض کی بھی کہ جب وہ آپ کے پاس ہوتے ہیں تو ان کی اور ہی حالت ہوتی ہے پھر جب وہ آپ سے دور ہوتے ہیں تو تب ان کی وہ حالت باقی نہیں رہتی، تب آپ نے فرمایا: ”بخدا تم پر اگر ہمیشہ وہی حالت برقرار رہے جو میرے پاس رہ کر تم پہ طاری ہوتی ہے اور اگر تم ہمیشہ ذکر میں رہو تو فرشتے تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے راستوں میں تم سے آکر ہاتھ ملایا کریں۔ مگر حنظلہ ایک گھڑی (کوئی حالت) ہوتی ہے اور ایک گھڑی (کوئی دوسری)“۔ (رواہ مسلم والترمذی واحمد وابن ماجہ)

اس کے باوجود وہ گھڑی بھی جس کی صحابہ نے رسول اللہ سے شکایت کی تھی وہ کوئی گراوٹ کی گھڑی نہ تھی۔ وہ کوئی خدا سے یکسر غافل ہو جانے کی گھڑی نہ تھی۔ خدا کا صحابہ کی بابت خود یہ وصف بیان کر دینا ہی ہمیں کفایت کرتا ہے کہ وہ (قباماً وقعوداً وعلی جنوبھم) کھڑے، بیٹھے اور لیٹے خدا کی یاد میں مگن رہتے ہیں۔ وہ فرق جو اس گھڑی میں اور اس گھڑی میں جب وہ رسول اللہ کے پاس ہوتے تھے محض درجے کا فرق تھا نہ کہ ماہیت کا۔ رسول اللہ کے پاس ہوتے ہوئے تو وہ کسی اور ہی دُنیا میں پہنچے ہوتے تھے!

ہم اس وصف کی جانب لوٹ آتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کا بیان فرمایا ہے:

یہ وہ لوگ تھے جو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے خدا کی جانب متوجہ اور خدا کی یاد میں محو ہوتے۔ صحابہ کا خدا کی یاد اور خدا کے ذکر میں محو ہونا کس طرح تھا؟ کیا یہ وہ ذکر ہے جو آدمی کو ’فنا‘ تک لے جاتا ہے جیسا کہ صوفیہ کے ہاں ملتا ہے جو کہ ’فنا‘ کو ہی وجود کی اصل حقیقت قرار دیتے ہیں؟ یا یہ وہ ذکر ہے جو انسان کی تمام تر چستی اور توانائی کو ایک جیتے جاگتے معاشرے میں متحرک کرتی ہے اور ایک بھرپور زندگی کے اندر اس کو خدا کی خوشنودگی پانے پر تیار کرتی ہے؟

وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا ان سے عین اس لمحے کیا چاہتا ہے؟ اس سوال کا جواب جس لمحہ ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہوتا یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان سے جہاد فی سبیل اللہ کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ’علم وآگہی کا حصول‘ ہوتا اور جو کہ ہر مسلم پر فرض ہے یہ ’ذکر‘ اس لمحہ ان کو علم کے حصول پر مجبور کر رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب رزق حلال کا حصول ہوتا یا انفاق فی سبیل اللہ ہوتا یا زمین کی خدائی نقشے پر تعمیر وآبادی ہوتا اس لمحہ یہ ذکر ان سے یہ سب کام کروا رہا ہوتا تھا .... جس لمحہ اس سوال کا جواب ”عاشروھن بالمعروف“ [”ان (اپنی بیویوں) سے نیک معاشرت اختیار کرو“۔] ہوتا اس لمحہ وہ اس فرض کی ادائیگی کو خدا کے ذکر کا تقاضا سمجھتے .... یہی حال ان کا دین کے سب فرائض اور زندگی کے سب میدانوں میں ”خدا کے ذکر“ کی بابت تھا۔

وہ خدا کو ہر دم یاد کرتے اور اپنے آپ سے سوال کرتے کہ خدا کی چاہت پوری کرنے میں وہ اب تک کیا کر پائے ہیں اور یہ کہ وہ جس حال میں ہیں وہ خدا کو خوش کر دینے والا ہے یا نہیں؟ اس کا جواب اثبات میں پاتے تو خدا کی حمد اور تعریف اور شکر کرنے میں لگ جاتے اور اس کا تقرب پانے میں اس سے بھی بڑھ کر مصروف عمل ہو جانے کے متمنی وکوشاں ہوتے اور اگر وہ اس کا جواب کسی وقت نفی میں پاتے تو ’خدا کی یاد‘ ان سے استغفار کروانے لگتی! یعنی اس حال میں بھی وہ خدا کو یاد کرتے مگر اس لئے کہ وہ اپنے اس حال سے، جس میں خدا ان کو دیکھنا نہیں چاہتا، نکل آئیں۔ یہ چیز بھی ان کیلئے ’خدا کا ذکر‘ کرنا تھا!

والذین اذا فعلوا فاحشہ او ظلموا انفسھم ذکرو اللّٰہ فاستغفروا لذنوبہم ومن یغفر الذنوب الا اللّٰہ ولم یصروا علی ما فعلوا وھم یعلمون اولئک جزائوھم مغفرہ من ربہم وجنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا ونعم اجرا العاملین (آل عمران: ١٣٥ ۔ ١٣٦)

”اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ ان کو یاد آجاتا ہے۔ تب وہ اس سے اپنے قصوروں کی معافی مانگنے لگتے ہیں ___ اور کون ہے اللہ کے سوا جو گناہ معاف کر دے___ جبکہ وہ دیدہ و دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا انکے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انہیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے، ایسے نیک عمل کرنے والوں کیلئے“۔

اب ذرا انہی آیات کو دیکھ لیجئے جن میں صحابہ کا کھڑے بیٹھے اور لیٹے ’خدا کے ذکر‘ میں مشغول ہونا بیان ہوا ہے ....

الذین یذکرون اللّٰہ قیاما وقعودا وعلی جنوبہم ویتفکرون فی خلق السماوات والاَرض (آل عمران: ١٩١)

”وہ جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت پر غور کرتے ہیں“۔

اس لمحہ خدا کی یاد میں محو ہونے کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ وہ زمین اور آسمان کی ساخت میں بھی ذرا غور کریں اور یوں وہ زمین اور آسمانوں کی ساخت میں اور ان کے مابین جو جہان پائے جاتے ہیں ان کی تخلیق اور پیدائش کے معاملہ میں کسی ’مقصد‘ اور ’غایت‘ تک پہنچیں اور اس کارخانہ ہستی میں جو ’حق‘ ایک خاموشی کی زبان میں محو گفتگو ہے اس سے شناسائی حاصل کریں۔

خلق السماوات والارض بالحق وصورکم فاحسن صورکم والیہ المصیر (التغابن: ٣)

”اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے، اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے، اور اسی کی طرف آخرکار تمہیں پلٹنا ہے“۔

وما خلقنا السماءوالارض وما بینہما بالملا ذلک خلق الذین کفروا فویل للذین کفروا من النار (ص: ٢٧)

”ہم نے آسمان اور زمین کو اور اس جہان کو جو ان کے درمیان ہے، فضول پیدا نہیں کردیا ہے۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے، اور ایسے کافروں کیلئے بربادی ہے جہنم کی آگ سے“۔

چنانچہ یہ لوگ خدا نے ان کو جو علم عطا کیا ہے اس علم کی بنا پر اور کائنات اور انسانی زندگی کے اندر جو خدائی سنتیںاور خدائی قوانین کارفرما ہیں ان کے تجزیہ ومشاہدہ کی بنا پر اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اس کارخانہ حیات کا وجود عبث اور بے مقصد ہو یہ ممکن ہی نہیں اور یہ کہ اس کی ایک ایک جزئیات میں جب بے پناہ حکمتیں پائی جاتی ہیں پھر یہ ’کل‘ ایک عبث محض کیونکر ہو سکتا ہے .... پھر جب وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں تب یہ دُنیا کی زندگانی ان کی نظر میں منتہائے وجود نہیں رہتی۔ نہ ان کی نظر میں یہ ممکن ہی رہتا ہے کہ یہ دینا ہی وجود کی انتہا ہو۔ کتنے انسان اس ہنگامہء حیات میں مخلوق پر ظلم وقہر ڈھاتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم کئے جاتے ہیں۔ کتنے انسان یہاں ظلم سہتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک ظلم سہے جاتے ہیں۔ اگر یہ دُنیا کی زندگانی ہی منتہائے وجود ہے تو پھر ”حق“ یہاں کہاں ہے؟؟ پھر تو یہ عبث اور باطل ہو گی کہ اس میں ’حق‘ ہی روپوش ہے۔

اب یہاں ان کا ’خدا کا ذکر‘ کرنا اور تخلیق میں چھپے ہوئے ’حق‘ پر ان کا غور وفکر کرنا ان کے شعور و وجدان کو یوم آخرت کی جانب لے چلتا ہے۔ جہاں وہ جنت اور جہنم کو موجود پاتے ہیں۔ تب وہ جہنم سے خدا کی پناہ مانگنے لگ جاتے ہیں۔

ویتفکرون فی خلق السماوات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار (آل عمران: ١٩١)

”اور وہ آسمان وزمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (تب وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) ”پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے تو پاک ہے (اس سے کہ عبث کام کرے) پس اے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے“۔

آگ کے ذکر پر آگ سے خوفزدہ ہونا اس ایمان کا تقاضا ہے۔ اب یہ اس آگ سے نجات کا پروانہ پانے کیلئے یہیں دُعاگو ہونے لگتے ہیں۔ یوں یہ ’ذکر‘ ’دُعا‘ میںبدل جاتا ہے:

ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظالمین من انصار (آل عمران: ١٩١)

”خدایا! تو نے جس کو دوزح میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ہی ذلت و رسوائی میں ڈال دیا اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا“۔

پھر ان کی نگاہ متلاشی ہونے لگتی ہے کہ وہ مالک کے حضور میں کیا پیش کریں جو ان کی خلاصی اور کامیابی کیلئے سفارش کا کام دے سکے اور ان کے خدا کے ہاں سرفراز کر دے:

ربنا اِننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان آمنوا بھم فآمنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار۔ ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک ولا تخزنا یوم القیامہ انک لا تخلف المیعاد (آل عمران: ١٩٣۔ ١٩٤)

”مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ پس اے ہمارے آقا! جو قصور ہم سے ہوئے ہیں ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوں کے ساتھ کر۔ خداوندا! جو وعدے تو نے رسولوں کے ذریعے سے کئے ہیں، ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے روز ہمیں رسوائی میں نہ ڈال۔ بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے“۔

فاستجاب لہم ربہم ....

تب خدا کی طرف سے جواب آتا ہے! خدا ان کی اس گریہ زاری اور اس مناجات کو باریابی بخشتا ہے۔ مگر کلام کی خوبصورتی دیکھیئے۔ خدا کس چیز کو باریابی بخشتا ہے؟ کیا محض ذکر کرنے کو؟ کیا محض ان کے غور وفکر کرنے کو؟ کیا محض تدبر اور تفکر کرنے کا ان کو یہ صلہ دیتا ہے؟ کیا محض گریہ زاری کا یہ جواب دیتا ہے؟ یہ سب کچھ ایک مومن سے بلاشبہ مطلوب ہے مگر دیکھیے جواب میں کیا آتا ہے:

فاستجاب لہم ربہم انی لا اضیع عمل عامل منکم من ذکر او انثی بعضکم من بعض فالذین ھاجروا واخرجوا من دیارھم واوذوا فی سبیلی وقاتلوا وقتلوا لاکفرن عنہم سیاتھم ولادخلنہم جنات تجری من تحتہا الانہار ثوابا من عنداللّٰہ واللّٰہ عندہ حسن الثواب (آل عمران: ١٩٥)

جواب میں اُن کا رب فرماتا ہے!

”میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت۔ تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اورمیرے لئے لڑے اور مارے گئے ان کے سب قصور میں معاف کر دوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے“۔

یہاں ہے ’تربیت‘ سے متعلق وہ درس جو ان آیات میں دیا گیا ہے۔ آیات میں یہ بات شروع جس چیز سے کی گئی وہ صحابہ کا یہ وصف ہے جو یہاں بیان ہوا ”وہ جو کھڑے، بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے خدا کا ذکر کرتے اور خدا کی یاد میں محو رہتے ہیں“ .... مگر اس ذکر کی ماہیت کیا ہے؟ یہ وہ ذکر ہے جو ایک جیتی جاگتی اور حرکت وعمل سے پر زندگی کو جنم دیتا ہے۔ یہ وہ ذکر ہے جو زمین کے اندر ہلچل برپا کرتا ہے.... یہ ہجرتوں میں لگے ہوئے لوگ .... یہ دیس نکالا پانے والے انسان .... یہ لوگ جو خدا کی خاطر اور اس کے مشن کی تکمیل کی راہ میں اذیت پاتے اور اذیت سہتے ہیں .... اور اس پر صابر وثابت قدم رہتے ہیں.... یہ باطل سے برسرپیکار لوگ اور خدا کی خاطر موت کو گلے لگا لینے والے انسان .... فاستجاب لہم ربہم خدا ان کی پکار سن لیتا ہے اور ان کی مناجات کو شرف باریابی بخش دیتا ہے!

’ذکر‘ کے کچھ ایسے ہی تصور پر رسول اللہ نے اپنے اصحاب کی صورت گری کی تھی، سب سے پہلے اپنی شخصیت بابرکات کے اسوہ سے مدد لے کر، پھر ارشاد اور تلقین اور تعلیم سے کام لے کر اور پھر ایک مسلسل نگرانی، محنت اور احتساب کی راہ سے .... یہاں تک کہ وہ انسانی بلندی کی ان سطحوں کو چھونے لگے جن کی تاریخ میں واقعتا کہیں مثال نہیں ملتی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب آئیے ذرا یہ دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ کا ہدف کیا تھا؟ یعنی اس قدر عظیم الشان محنت جو آپ نے اپنے اصحاب کی تربیت اور تیاری پر صرف فرمائی، اس سے آپ ہدف کیا حاصل کرنا چاہتے تھے؟ کیا یہ اتنی محنت محض اس لئے تھی کہ اصحاب آپ کے مخلص حواری بن جائیں؟ کیا محض یہ مقصد تھا کہ صحابہ پکے سچے مومن بن جائیں؟ بلاشبہ یہ ایک غایت درجہ کا نیک مقصد ہے اور اس پر محنت کرنا بنتا ہے۔ مگر! کیا اتنی ساری محنت؟

رسول اللہ نے جتنی محنت صرف کی اس کا ایک حصہ بھی اس مذکورہ بالا ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کافی ہو سکتا تھا بلکہ اس حد تک باحسن انداز ہو سکتا تھا جس کا کہ کوئی رسول اپنی امت کیلئے خواہشمند ہو۔ اس کیلئے وہ محنت بھی کافی تھی جو عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نے اپنے حواریوں کی تربیت میں میں صرف کی تھی جو کہ آپ کے گردا گرد اکٹھے ہو گئے تھے اور آپ کے مخلص پیروکار بنے اور پھر آپ کے بعد آپ کے دین کی نشر واشاعت میں جت گئے جبکہ وہ رافت اور رحمت اور زھد واخلاق میں ایک زبردست مثال تھے ۔

ثم قفینا علی آثارھم برسلنا وقفینا بعیسی ابن مریم واتیناہ الانجیل وجعلنا فی قلوب الذین اتبعوہ رافہ ورحمہ ورھبانیہ ابتدعوھاما کتبناھا علیہم الابتغاءرضوان اللّٰہ (الحدید: ٢٧)

”ان کے بعد پے درپے ہم نے اپنے رسول بھیجے، اور ان سب کے بعد عیسیٰ بن مریم کو مبعوث کیا اور اس کو انجیل عطا کی اور جن لوگوں نے اس کی پیروی اختیار کی ان کے دلوں میں ہم نے ترس اور رحم ڈال دیا اور رھبانیت انہوں نے خود ایجاد کرلی، ہم نے اسے ان پر فرض نہیں کیا تھا، مگر اللہ کی خوشنودی کی طلب میں انہوں نے آپ ہی یہ بدعت نکال لی“۔

مگر محمد کا ہدف اپنے سے پہلے رسولوں کی طرح اہل ایمان کی محض ایک جماعت تیار کر دینا نہ تھا۔ آپ کا ہدف اس سے کہیں بڑا اور کہیں زیادہ جلیل القدر تھا۔ آپ کا مقصد ایک ایسی مضبوط جمعیت کی تیاری تھا جو زمین پر خیر امت اخرجت للناس کی صورت دھار لے۔

وہ فرق جو محمد سے پہلے کے کسی بھی رسول کی تیار کردہ اہل ایمان کی جمعیت اور رسول اللہ کے ہاتھوں تیار ہونے والی اہل ایمان کی جمعیت کے مابین ہے یہ فرق دراصل ان ذمہ داریوں کے اندر جن کا خدا نے ان پہلوں کو مکلف کیا تھا اور ان ذمہ داریوں کے اندر جو خدا نے اس امت پر عائد کی ہیں، پوشیدہ ہے۔ یہ فرق اس کردار کے اندر پوشیدہ ہے جو زمین کے اندر ان پہلے والوں سے مطلوب تھا اور جو اس امت سے مطلوب ہے۔

جہاں تک پہلی مومن جماعتوں کا تعلق ہے تو ان کی بابت اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیا ہے:

وما امروا الا لیعیدوا اللّٰہ مخلصین لہ الدین حنفاءویقیموا الصلوہ ویؤتوا الزکات وذلک دین القیمہ (البینہ: ٥)

”اور ان کو اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا تھا کہ اللہ کی بندگی کریں، اپنے دین کو اس کیلئے خالص کرکے، بالکل یکسو ہو کر، اور نماز قائم کریں اور زکوٰت دیں۔ یہی نہایت صحیح ودرست دین ہے“۔

جہاں تک رسول اللہ کی جماعت کا معاملہ ہے تو ان پر عین یہی ذمہ داری بھی عائد ہے، یعنی یہ کہ یہ دین اور بندگی کو خدائے وحدہ لاشریک کیلئے خالص اور مختص کرتے ہوئے خدا کی عبادت کریں اور ہر طرف سے یکسو ہو کر خدا کی جانب رخ کرلیں اور یہ کہ نماز قائم کریں اور زکوٰت ادا کریں وغیرہ مگر اس سے بڑھ کر ان کو ایک اور بات کا بھی پابند بنایا ہے اور یہ بس اسی امت کے ساتھ خاص ہے:

کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر و تومنون باللّٰہ (آل عمران: ١١٠)

’تم وہ بہترین امت ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کیلئے میدان عمل میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔

وَلذین جعلنا کم اَمت وسطا لتکونوا شہداءعلی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدا (البقرہ: ١٤٣)

”اور اسی طرح تو ہم نے تمہیں ایک ”امت وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دُنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو“۔

پہلی امتوں کو برپا کیا گیا تھا کہ وہ اللہ پر ایمان لائیں اور خود اپنی ذات میں اللہ پر ایمان کی راہ پہ کاربند وثابت قدم رہیں۔ مگر اس امت کو انسانیت کیلئے برپا کیا گیا ہے۔ اس کو ایک ایسا نمونہ بننا ہے جسے دیکھ کر ساری کی ساری بشریت سیدھے راستے کا پتہ پائے۔ کتنا بڑا فرق ہے کہ ایک شخص کو محض اپنی ذات کے اندر اور اپنی قوم کے ایک محدود دائرے میں نیک اور پاکباز بن کر رہنا ہے جبکہ ایک دوسرے شخص کو جہان میں نمونہ بن کر دکھانا ہے۔ صرف اپنی قوم کے اندر نہیںبلکہ پوری انسانیت کی سطح پر۔ اس کو زمین کے ہر خطے پر اثر انداز ہونا ہے۔

بلاشبہ دونوں کی اساس ایک ہے۔ یعنی خدائے وحدہ لاشریک کی خالص اور بلاشرکت غیرے بندگی۔ مگر وہ فرق ان دونوں میں بہرحال قائم ہے کہ ان دونوں کو اس مشن میں کہاں پہنچنا ہے۔ اساس بلاشبہ ایک ہے مگر ایک کی بنیاد اٹھائی جانی ہے کہ اس پر ایک چھوٹے مجمع کی اور محدود گنجائش کی عمارت کھڑی کی جائے اور ایک دوسری کی بنیاد اٹھائی جانی ہے کہ اس پر ایک عظیم الشان اور ایک فلک بوس عمارت کھڑی کی جانا ہے۔ دونوں کی بنیاد اٹھانے میں عمدگی سے کام لیا جانا ہے۔ دونوں کی بنیاد اٹھانے پر محنت اور مشقت ہونی ہے مگر کہاں وہ بنیاد اور کہاں یہ بنیاد۔ کہاں وہ محنت اور کہاں یہ محنت۔ کہاں وہ عمدگی جو وہاں مطلوب ہے اور کہاں وہ عمدگی اور مضبوطی کا معیار جو یہاں مطلوب ہے! ....

یہ فرق سب سے پہلے ہمیں خدا کی کتاب کے اندر ہی واضح طور پر نظر آتا ہے۔

ہر امت کو ہی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی دعوت دی جاتی رہی ہے۔ مگر کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جس میں اس مسئلہ یعنی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کو اتنا زیادہ پھیلایا گیا ہو اور پھر اس قدر اس پر زور دیا گیا ہو جتنا کہ ہم خدا کی آخری کتاب میں دیکھتے ہیں۔ ہر امت کا ہی معاملہ یہ رہا ہے کہ اس سے جن فرائض کو ادا کرنے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ان فرائض کو اس جوہری قضیہ (اللہ اور آخرت پر ایمان) کے ساتھ براہ راست جوڑا گیا کیونکہ یہی ہر چیز کی بنیاد ہے اور یہی ہر چیز کا مصدر ومنبع۔ مگر جس طریقے سے دین کے سب فرائض اور اعمال کو اس آخری رسالت کے اندر اس جوہری قضیہ (اللہ اور آخرت پر ایمان) کے ساتھ جوڑا گیا، باوجود اس کے کہ اس امت پر عائد کردہ ذمہ داریاں کہیں زیادہ وسیع تر اور زندگی کے جوانب پر محیط تر ہیں، اور جس شدت سے فرائض کو ایمان سے برآمد کرنے کی تاکید ہوئی ہے وہ کہیں کسی اور رسالت میں نہیں پائی گئی۔ [اس سلسلہ میں آپ چاہیں تو ملاحظہ فرمائیے مؤلف کی کتاب ”لا الہ الا اللّٰہ، عقیدہ وشریعہ ومنہاج حیات“ کی فصل: ”مقتضیات لا الہ الا اللّٰہ فی الرسالہ المحمدیہ “ (مؤلف)]

پھر قرآن کے اس انداز ہدایت کے عین متوازی ہم رسول اللہ کی اس سنت اور منہج کو دیکھتے ہیں جس پر آپ نے اصحاب کی تربیت فرمائی۔ خواہ یہ آپ کے منہج کا وہ پہلو ہو جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان پہ انسان کی تمام تر توجہ اور محنت کو مرکوز کراتا ہے اور خواہ یہ آپ کے منہج کا وہ پہلو ہو جو اسلام کے تمام تر اعتقادی اور سلوکی فرائض کو اس جوہری قضیہ (ایمان باللّٰہ والیوم الآخر) کے ساتھ جوڑتا اور اسی سے برآمد کراتا ہے۔

مکی دور میں ابھی وہ احکام اور وہ ہدایات اور تعلیمات نازل ہوئی ہی نہیں تھیں جو مومن جماعت کی سیاسی، اقتصادی اور اجتماعی زندگی کو چلانے کیلئے بعد ازاں نازل کی گئیں۔ یہ سارا مکی دور رسول اللہ کی دعوتی اور تربیتی زندگی میں مختص ہی اس بات کیلئے کر دیا جاتا ہے کہ انسانی نفوس کے اندر عقیدہ کے بیج بہت گہرے کرکے بو دیں اور یوں ان نفوس کو ان تقاضوں کیلئے تیار کر دیں جو اس عقیدہ سے آگے چل کر جنم لیں گے اور جن کی بابت خدا کو علم تھا کہ ان کا وقت آنے والا ہے ....

اب ہم ان اہل ایمان کی بابت بھی کچھ بات کریں گے جو اس حقیقت پر ایمان لائے تھے کہ بندگی وپرستش خدائے وحدہ لاشریک کے سوا کسی کیلئے سزاوار نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو کہ بعث ونشوز اور حساب وجزا پر ایمان لائے تھے .... کیونکہ یہی وہ بنیادی جمعیت تھی جو رسول اللہ کے ہاتھوں تیار ہوئی تھی اور جو کہ ہماری اس فصل کا اصل موضوع ہے .... البتہ اس گفتگو کے دوران ہمیں ہرگز اس بات سے توجہ نہ ہٹانی چاہیے کہ رسول اللہ اس قضیہ کو پیش کرنے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے میں کس قدر تھکے ہوں گے۔ چاہے یہ آپ کی وہ محنت ہو جو آپ کو قریش کے ان طاغوتوں کے بالمقابل کرنا پڑی جو ہر دم اس دعوت کے خلاف گھات لگائے رہتے تھے اور ہر ہر طرح سے اس کے خلاف برسر جنگ رہے اور چاہے یہ آپ کا وہ مجاہدہ ہو جو آپ نے عوام کے بالمقابل جو کہ اس وجہ سے آپ کی دعوت کے خلاف برسر جنگ تھے کہ یہ ان کے موروثی عقائد اور ان کے باپ دادا کے راستے کے خاتمہ کی دعوت تھی اور پھر اس لئے بھی کہ وہ ان طاغوتوں کی زنجیر غلامی میں جکڑے ہوئے تھے چاہے ان میںسے کسی کو اس بات کا ادراک ہو یا نہ ہو اور چاہے کوئی اس غلامی کو بخوشی قبول کرتا ہو یا نہ۔

یہ مرحلہ، جس کی ہم بات کر رہے ہیں، آپ کی زندگی میں کچھ اس طرح گزرتا ہے کہ لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں میں سے کچھ خاص تقاضوں پر تمام تر زور صرف کر دیا جاتا ہے اور پوری توجہ مرکوز کر دی جاتی ہے....

جہاں تک اس لا الہ الا اللّٰہ کی زبان سے ادائیگی کا معاملہ ہے تو وہ اس مرحلہ میں اس دعوت پر ایمان کی ایک ظاہر اور واضح علامت تھی۔ کیونکہ ابھی اس مرحلے میں شہادتین کو زبان سے ادا کر دینا سوائے ایک ایسے شحص کے جو اس پر واقعتا اور دل سے ایمان لا چکا ہو، کسی کے بس کی بات تھی ہی نہیں۔ اس کا برتہ صرف وہی شخص رکھتا تھا جو رسول اللہ کے روبرو ہدیہء ایمان پیش کرکے اپنے آپ کو خطرات کے سپرد کر سکے اور اپنی جان کو چاروں طرف سے پیش آنے والی اذیت رسانی کی نذر کر سکے۔ جبکہ جاہلیت ہر طرف اس دعوت کے خلاف اعلان جنگ رکھتی تھی اور اس کے خلاف دشمنی اور عداوت کا بازار گرم کر چکی تھی۔ سو اگرچہ لا الہ الا اللّٰہ کا اقرار کر لینا اس وقت تک ایمان کی ایک قطعی اور یقینی علامت تھی کیونکہ اس اقرار کی قیمت ادا کئے بنا اس وقت کوئی چارہ نہ تھا اور سوائے ایک ایسے شخص کے جو اس قیمت کے ادا کر دینے پر پوری طرح تیار ہو چکا ہو اور لا الہ الا اللّٰہ کی حقیقت کو دل سے قبول کر چکا ہو کوئی شخص اس کلمہ کا زبان سے اقرار کر ہی نہ سکتا تھا مگر پھر بھی کیا رسول اللہ نے اس بات کو کافی جانا کہ ان لوگوںنے اس لا الہ الا اللّٰہ کی دل سے تصدیق کر دی ہے اور زبان سے اقرار کر لیا ہے!؟؟

اگر رسول اللہ بس اس بات کو کافی جان لیتے تو کیا وہ ٹھوس اور مستحکم جمعیت وجود میں آتی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے روئے زمین کا پورا رُخ ہی تبدیل کردیا؟؟؟

یہ بات کافی تھی تو آخر آپ کی دارالارقم میں ان سے مجلسیں کیا ہوئیں؟ یہ صحبت وملاقات جو کئی سال چلی پھر کیا ہوئی؟ گھنٹوں کے گھنٹے آپ کا ان کے ساتھ گزار دینا پھر کیا تھا؟ کیا صرف یہ بتانے کیلئے ان کو لا الہ الا اللّٰہ پر ایمان لے آنا چاہیے، جبکہ وہ ایمان لا کر ہی تو آپ کی صحبت میں بیٹھنے لگے تھے!؟ کیا ان سے لا الہ الا اللّٰہ کا زبان سے اقرار کروانے کیلئے، جبکہ اس کا زبان سے اقرار کر کے ہی تو وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے!؟ یہ سب محنت، یہ سب صحبت تو لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں پر ان کو تربیت دینے کیلئے اور لا الہ الا اللّٰہ کے نقشے پر ان نفوس کو تشکیل دینے کیلئے تھی جبکہ اس سارے کام میں عملی نمونہ خود آپ کی اپنی ذات اور شخصیت تھی۔

اس مرحلے میں بطور خاص، اور دعوت کے جو مرحلے میں بطور عموم، اس لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں میں سے ایک تقاضا حق کے معاملے میں اذیت ملنے پر صبر کرنا تھا۔ اس حقیقت کو قبول کرنا تھا کہ عقیدہء حق کو جب آدمی قبول کر لے تو پھر اس کی راہ میں سب کچھ برداشت کرنا اس عقیدہ کا ہی ایک تقاضا ہے .... تو پھر کیا محض ایمان لے آنا اور لا الہ الا اللّٰہ کی دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کر لینا خودبخود انسان کو صابر بنا دیتا ہے کہ اس عقیدہ کی راہ میں جو بھی اذیت آئے، آدمی اس پر صبر واستقامت کا ثبوت دے اور اس دعوت کو قبول کرنے کی جتنی بھی بڑی قیمت جان یا مال کی صورت میں دینی پڑے آدمی دے دے؟ کیا یہ کام لا الہ الا اللّٰہ کی تصدیق اور اقرار سے آپ سے آپ ہونے لگتا ہے یا اس کیلئے ایک بہت ہی خاص انداز اور خاص نوعیت کی محنت کرانا پڑتی ہے تاکہ انسان نفسیاتی اور شعوری طور پر وہ پختگی حاصل کرلے جو اسے ہر قسم کے دبائو کا سامنا کرنے کی طاقت دے، بغیر اس کے کہ اس دبائو کی شدت سے انسان دہرا ہو جائے یا سرے سے جاتا رہے؟ اور پھر یہ بات وہ کہاں سے سیکھیں گے؟ کیا بس یہ کہ دینے سے کہ ’صبر کرو‘سب جذبات قابو میں آجائیں گے، عزیمتیں جوان ہو جائیں گی اور دُنیا اپنی تمام تر کشش وجاذبیت کے باوجود آدمی کی نگاہ میں حقیر و بے قیمت ہو جائے گی اور انسان اس سے کسی بڑے اور عظیم تر ہدف پر نگاہ جمائے گا اور اس کی خاطر ہر قسم کی اذیت برداشت کرنے پر تیار ہو جائے گا مگر حق کے معاملے میں اپنے کردار پر کوئی آنچ نہ آنے دے گا؟؟؟ بخدا نہیں۔ بے حد ضرورت ہے کہ اس کی باقاعدہ تعلیم ہو۔ تلقین ہو۔ تربیت ہو۔ ٹریننگ دی جائے۔ شخصیتوں کو بنایا سنوارا جائے اور باقاعدہ نگہداشت کا انتظام کیا جائے .... محض کلمات کے ساتھ نہیں بلکہ عملی نمونہ کے ذریعے جسے وہ اپنے سامنے مجسم طور پر دیکھیں، جس میں ان کو وہ سب کچھ دکھائی دے جس کی ان کو دعوت دی جا رہی ہے اور اس نمونہ کا ایک اعلیٰ معیار ہو۔ تب وہ اس سے سیکھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں ....

چنانچہ سید الرسل کو اس ظلم و اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے پہاڑ ہوں تو وہ بھی ہل جائیں....

جھٹلائے جانے کی اذیت، اور ایک صادق اور امین کو صاف جھوٹا کہ دیا جائے تو یہ کس قدر شاق گزرتا ہے .... مذاق اور استہزاءکی اذیت اور جبکہ حق پر ایمان رکھنے والے کو ٹھٹھہ اور مذاق ہو تو یہ کس قدر اذیت ناک ہے جبکہ وہ جانتا ہو کہ جس چیز پروہ ایمان رکھتا ہے حق دراصل وہی ہے۔ خیر بھی وہی ہے۔ ہدایت بھی وہی ہے اور نجات اور فلاح بھی اسی میں ہے اور یہ کہ ٹھٹھہ اور استہزاءکرنے والے پرلے درجے کے جاہل اور گمراہ ہیں۔ یہ سب کتنی بڑی اذیت ہے۔ پھر آپ کو مخالفانہ پراپیگنڈہ کی اذیت دی جاتی ہے۔ ہر طرف بدنام کردیا جاتا ہے۔ اچھوت بنا دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگوں کیلئے ایک ہوا بنا کر رکھ دیا جاتا ہے۔ لوگ چاہیں بھی تو کسی کو آپ کی آواز میں آواز ملانے کی آزادی نہیں۔ حتی کہ بات سننے کی اجازت نہیں۔ لوگ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر پاس سے گزرتے ہیں۔ جسمانی طور پر اذیت دی جاتی ہے۔ نفسیاتی طور پر مجروح کیا جاتا ہے۔ پتھر پڑنے تک نوبت آتی ہے۔ یہاں تک کہ خون بہہ کر پیروں تک پہنچتا ہے، راستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں جیسا کہ ابولہب اور اس کی بیوی کرتے رہے۔ سجدے میں پڑے ہوئے سر پر غلاظت لا کر دھر دی جاتی ہے جبکہ آپ اپنے رب کا ذکر کرنے میں مصروف ہیں .... غرض اذیت کی ہزار صورتیں ہیں جو آپ پر حملہ آور ہوتی ہیں۔

یہ سب کچھ آپ کو حق کے ساتھ تمسک میں اور بھی پختہ کر دیتا ہے۔ حق پر آپ اور بھی بڑھ کر اصرار کرنے لگتے ہیں .... پھر دوسری طرف لالچ دیے جاتے ہیں۔ دل فریب پیشکشیں ہوتی ہیں۔ انسان کو دُنیا میں جس کسی بات کی چاہت ہو سکتی ہے، وہ لاحاضر کی جاتی ہے۔ اقتدار وبادشاہت، دولت وسرمایہ، جاہ وحشمت، چودھراہٹ۔ مگر وہ اپنے چچا کو پیشکش لانے والوں کیلئے جواب دے دیتے ہیں ”بخدا اے چچا۔ یہ لوگ کبھی سورج لا کر میرے دائیں ہاتھ پہ دھر دیں اور چاند میرے بائیں ہاتھ میں دے دیں، اس امید پر کہ میں اس مشن سے باز آجاؤں تو بھی میں اس کو چھوڑنے والا نہیں چاہے میں اس کو سرے پہنچانے میں ہلاک کیوں نہ ہو جاؤں“۔ [دیکھیے کتب سیرت]

یوں اس طریقے سے رسول اللہ اپنے اصحاب کو ایک سبق پڑھاتے ہیں۔ یہ سبق محض کلمات کے ساتھ نہیں۔ گو کہ کلمات بھی سبق اور تعلیم دینے میں مطلوب ہوتے ہیں۔ دراصل یہ ایک عملی سلوک ہے جو کہ کلمات کی عملی شرح کا کام دیتا ہے اور یوں ’کلمات‘ کو ’عملی حقائق‘ میں بدل دیتا ہے۔ جس کی بدولت یہ عملی حقائق دنیائے واقع میں نظر آنے لگتے ہیں۔

لا الہ الا اللّٰہ کے اس وقت کے تقاضوں میں ___ بلکہ ہر وقت کے تقاضوں میں ___ یہ بات تھی کہ آدمی دل کو خدا کی محبت سے بھر لے۔ خدا کی عظمت و کبریائی کو ہر دم نگاہ میں رکھے۔ خدا سے جڑا رہے۔ خدا کی جانب رخ کئے رکھے اور اپنے ہر رویہ وسلوک کے اندر خدا کے تصور اور شعور کو جلی کرے۔ تو کیا ایسا ممکن تھا کہ آدمی زبان سے اس لا الہ الا اللّٰہ کا اقرار کرلے اور ’تصدیق‘ کے فریضہ سے عہدہ برآہو جائے۔ تو بس اتنا ہو جانے سے آپ سے آپ ہی آدمی کے اندر یہ شعور اور احساس گھر کر لے اور اس کے رویہ وسلوک میں خدا کا ہمہ وقتی تصور بولنے لگے؟ یا پھر اس کیلئے تعلیم اور تلقین اور یاد دہانی اور تربیت کی ضرورت تھی؟

نفوس کو یہ رخ دینا اور دلوں میں یہ چیز پیدا کرنا مربی اعظم کے سوا کس کا کام ہو سکتا تھا؟ یہ عمل بھی صرف الفاظ کا ضرورت مند نہیں بلکہ یہ ایک عملی کردار تھا کہ جس کو اصحاب چھوئیں۔ محسوس کریں اور سیکھیں۔ آپ کو ہر لحظہ خدا کے ذکر میں مشغول پائیں۔ خدا کی جانب متوجہ پائیں۔ آپ کو ہر لحظہ خدا کی رحمت پہ نظر جمائے ہوئے دیکھیں۔ خدا کے آگے عاجز اور منکسر، تائب، دُعائیں کرتے ہوئے اور خدا کو پکارتے ہوئے، انابت کا نمونہ بنے ہوئے آپ کو وہ ہر وقت دیکھیں۔

لا الہ الا اللّٰہ کے اس وقت کے تقاضوں میں ___ بلکہ ہر وقت کے تقاضوں میں ___ یہ بات تھی کہ خدا کی قضاءاور قدر پر ایمان پیدا کیا جائے۔ اس بات پر ایمان پختہ کیا جائے کہ بس وہی ہے جو ہر معاملے کی تدبیر کرتا ہے۔ وہی ہے جو فیصلے کرتا ہے۔ جو چاہے کر گزرتا ہے۔ زمام امور اسی کے ہاتھ ہے۔ اکیلا وہی رزق دیتا ہے۔ تنہا وہی نفع نقصان کا مالک ہے۔ زندگی اور موت اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز کا مالک وہی ہے۔ ہر واقعہ اسی کا رہین اشارہ ہے۔ کائنات کے اندر اور انسانوں کے سب معاملات میں اسی کا تصرف چلتا ہے۔ اس کے اذن کے بغیر کوئی چیز رونما نہیں ہوتی۔ جب تک وہ نہ چاہے کچھ نہیں ہوتا اور جو وہ چاہے وہ ہو کر رہتا ہے۔

تو کیا محض لا الہ الا اللّٰہ کی تصدیق کر دینا اور اس کا بس زبان سے اقرار کر لینا اس بات کیلئے کافی تھا کہ اتنا ہونے سے آپ سے آپ ہی قضا وقدر پر ایمان دلوں میں جنم پا لے اور نفوس کے اندر گہرا اتر جائے؟ یا پھر اس کیلئے تعلیم اور تلقین کی ضرورت تھی اور نفوس کو ایک رخ دینے اور رویہ و سلوک کو خاص انداز سے تربیت دینے کی احتیاج تھی؟ اور کیا اس بات کو دلوں میں راسخ کرنے کیلئے اتنا کافی تھا کہ آپ ایک تقریر یا چند تقاریر فرما دیں یا کوئی درس دے دیں یا کسی سلسلہ دروس کو کافی جانیں؟ یہ کوئی ’نظریہ‘ نہیں جس کو درسی انداز میں پڑھایا جائے یا حفظ کرایا جائے اور پھر اس میں آدمی کا درسی انداز میں ٹیسٹ لیا جائے۔ یہ تو عملی سبق ہے اور عملی امتحان۔ یہ مرغوبات نفس سے ہر لمحہ کا ٹکرائو ہے۔ شہوات نفس سے ہر وقت کی مڈبھیڑ ہے۔ نفس کے وسوسوں کے خلاف ہر لمحہ مزاحمت ہے۔ یہ زندگی کے ہر تلخ تجربے سے ایمان اور استقامت کے ساتھ گزرنا ہے۔ زندگی کے تلخ وترش سے ایمانی اسباق لینا ہے۔ اس میں سبق یاد کرنا تو ہے مگر یہ صرف دماغی کام نہیں یہ وجدان کی شرکت بھی چاہتا ہے، شعور کی بھی۔ یہ اعصاب کا بھی امتحان ہے۔ یہ اعضاءکا بھی عمل ہے۔ یہ روح کو بھی مشغول کرتا ہے اور نفس کو بھی تسخیر کرتا ہے۔ غرض انسان کی کل ہستی ہی اس ایمان کا سبق یاد کرتی ہے۔

پیشتر ازیں، میں اپنی کسی کتاب میں کہہ چکا ہوں:

”اگر آپ کسی انسان سے پوچھیں: تمہیں رزق دینے والا کون ہے؟ تو وہ جھٹ سے بولے گا: خدا کی ذات! گویا یہ ایک بدیہی بات ہے مگر خدانخواستہ جب اس پر کبھی رزق کی تنگی ہو ہو یا یوں کہیے جب اس کے رزق کا نقصان ہوتا ہوا نظر آئے، تب وہ کیا کہتا ہے؟ فلاں نے میری روزی چھین لی، یا یہ کہ ’فلاں میری روزی چھیننے کے درپے ہے‘! اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ اس سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ جو بات اس نے جھٹ سے کر دی تھی اور جو ہم کو سامنے کی بات لگتی تھی اس کو ’حقیقت‘ بن جانے کیلئے وقت چاہیے تھا اور ایک شدید محنت بھی۔ یا یوں کہیے جو چیز عقلی اور ذہنی طور پر ایک بدیہی حقیقت نظر آئے اس کو وجدان بننے کیلئے کئی مراحل سے گزرنا ہوتا ہے۔ ذہن میں اترنے کے باوجود دل میں گھرنے کیلئے ایک حقیقت کو وقت لگتا ہے اور محنت بھی۔ پھر اس دل میں اتری ہوئی حقیقت کو رویہ وسلوک میں ڈھلنے پر تو اور بھی محنت ہوتی ہے۔ زبان سے مان لی جانے والی چیز احساسات کے اندر بھی بسنے لگے اور وہ احساسات پھر ایک رویہ اور کردار کو جنم دیں، بلاشبہ یہ ایک محنت طلب کام ہے“۔

سورہ بقرہ کی ایک آیت پڑھتے ہوئے ایک بار میری توجہ معاً ایک بات پر مرکوز ہو کر رہ گئی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

واذ نجینا کم من آل فرعون یسومونکم سوءالعذاب یذبحون ابناءکم ویستحیون نساءکم وفی ذلکم بلاءمن ربکم عظیم (البقرہ: ٤٩)

”یاد کرو وہ وقت جب ہم نے تم کو فرعونیوں کی غلامی سے نجات بخشی۔ انہوں نے تمہیں سخت عذاب میں مبتلا کر رکھا تھا۔ وہ تمہارے لڑکوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس حالت میں تمہارے رب کی طرف سے تمہاری بڑی آزمائش تھی“۔

دو باتیں یکجا کر دی گئیں: بنی اسرائیل پر ’بدترین عذاب‘ آل فرعون کی جانب سے روا رکھا جاتا ہے (آل فرعون فرعون یسومونکم سوءالعذاب یذبحون اَبناءکم ویستحیون نساءکم) مگر ابتلا یہ خدا کی جانب سے ہے (وفی ذلکم بلاءمن ربکم عظیم)؟

جب کسی انسان پر کوئی انسان ظلم وستم ڈھائے تو کیا ’جھٹ سے‘ یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ یہ ابتلا خدا کی جانب سے ہے؟ ذہن فوری طور پر اسی شخص کی جانب جاتا ہے جس کے ہاتھ میں کوڑا نظر آئے۔ بڑی محنت کے بعد جا کر انسان کو یہ بات سمجھانے اور ذہن نشین کرانے میں کہیں کامیابی ہوتی ہے کہ بظاہر تو یہ اسی شخص کا فعل ہے مگر اس کے پیچھے خدا کی فاعلیت ہے۔ سو یہ فعل کسی انسان کی جانب سے ہے مگر ابتلا خدا کی جانب سے۔ پھر جب وہ اس بات کو پا لیتا ہے اور یہ بات اس کے قلب وشعور میں جاگزیں ہو جاتی ہے تب وہ اس ابتلاءکو دور کرنے کیلئے کس کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور کس سے درخواست کرتا ہے؟ یہی وہ درس ہے جو ہمیں ایمان کی اس حقیقت سے لینا اور یاد کرانا ہوتا ہے!

اس کا یہ مطلب نہیں کہ مومن جب خدا کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور تبدیلی حالت کیلئے اس سے درخواست کرتا ہے تو وہ ’اسباب‘ کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر اب وہ ’اسباب‘ پہ سہارا نہیں کرتا اور نہ وہ یہ سوچتا ہے کہ اسباب میں آپ سے آپ کچھ کر دینے کی خاصیت ہے۔ اب وہ یقین رکھتا ہے کہ اسباب خواہ وہ ہوں جو وہ خود اختیار کرتا ہے یا اسباب وہ ہوں جو اس کے خلاف اختیار کئے جاتے ہیں سب خدا کے اشاروں کے پابند ہیں۔ خدا کی مقرر کی ہوئی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں۔ تب اس کا تمام تر رخ اس ذات کی جانب رہتا ہے جو فیصلے کا اصل مالک ہے جس کے اذن سے ہی کوئی حادثہ جنم لے سکتا ہے اور جس کے حکم سے ہی کوئی شخص حرکت کر سکتا ہے .... اور وہ ذات اللہ ہے جو ہر چیز پہ انتہائی دسترس رکھنے والا ہے۔

لا الہ الا اللّٰہ کے اس وقت کے تضاضوں میں ___ بلکہ ہر وقت کے تقاضوں میں ___ یہ بات تھی کہ آدمی خدا واسطے کی اخوت رکھے۔ کسی سے محبت رکھے تو خدا واسطے کی محبت ہو۔ بغض رکھے تو خدا واسطے کا بغض ہو۔ دوستی ہو تو خدا واسطے کی۔ براءت ہو تو خدا واسطے کی (الولاءوالبراءفی اللّٰہ) .... اب یہ سب باتیں اس عرب ماحول کے لحاظ سے، بلکہ قدیم اور جدید ہر جاہلی ماحول کے لحاظ سے، کچھ ایسی باتیں تھیں جو کہیں سنیں نہ دیکھیں۔ یہ ماحول او ررسم کے بالکل برخلاف چلنا تھا ....

جہاں تک عرب جاہلیت کی بات ہے تو اس کے اندر خونی رشتہ ہی وہ اصل رشتہ تھا جو کہ توانا اور دیرپا جانا جائے۔ اس کے سوا ہر رشتہ یا تو کمزور ولاغر تھا اور یا پھر سرے سے غیر موجود ....

اپنی اس آج کی جاہلیت میں پرانی جاہلیت کے اس محدود قریبی خونی رشتے کی جگہ قوم اور وطن کے رشتے نے لی لی جو کہ آج کی جاہلیت کی نظر میں تفاخر کی بنیاد ہے اور جس کی عصبیت آج ویسے ہی پائی جاتی ہے جیسی عصبیت پرانی عرب جاہلیت کے اندر خون اور قبیلہ وبرادری کیلئے پائی جاتی تھی .... پس اگر کوئی اختلاف آیا ہے تو وہ حجم میں آیا ہے نہ کہ جوہر میں!

جہاں تک محبت اور بغض کا تعلق ہے تو وہ پرانی عرب جاہلیت ہو یا کسی بھی اور دور کی جاہلیت، اس کی بنیاد انسان کے مفادات ہیں اور زیادہ تر یہ مادی اور عارضی مفادات ہوتے ہیں .... یا پھر ایک اور جہت سے اس کی بنیاد انسان کی اَنا ہوتی ہے: ’میں‘، ’میری بڑائی‘، ’میری دولت‘، ’میرا اقتدار‘، ’میری قوم‘ اور ’میں‘ اگر کوئی لیڈر ہوں تو ’میرے پیچھے چلنے والے‘ اور ’میں‘ اگر کوئی عام شخص ہوں تو ’میرے بڑے‘ اور ’میرے لیڈر‘!

پھر جہاں تک (ولاءوبراء) دوستی ودشمنی کا تعلق ہے تو اس کا معاملہ بھی محبت اور بغض جیسا ہی ہے۔ اس کا بھی کوئی مستقل اصول نہیں سوائے ان مفادات کے جو آج یہاں پائے جا سکتے ہیں اور کل وہاں .... سو اس کی صورتیں بدلتی ہی رہیں گی۔ یہ کہیں ایک جگہ پر رک جانے والا معاملہ نہیں۔ آج جو دوستی ہے کل وہ دشمنی میں بدل سکتی ہے۔ آج کے دشمن کل کے دوست ہو سکتے ہیں۔ اس وجہ سے نہیں کہ کسی کے اصول بدل جائیں گے یا قدروں اور معیاروں میں کوئی تبدیلی آئے گی بلکہ اس وجہ سے کہ مفادات کوئی اور صورت دھار سکتے ہیں۔ مفادات کا کیا ہے آج کہیں ہیں تو کل کہیں اور ہوں۔ وفاداریوں کو ان کے ساتھ ہی جگہ بدلنی ہوگی .... جاہلیتیں سب کی سب، ہر جگہ اور ہر دور کی جاہلیتیں اس معاملے میں ایک سی ہیں!

تو کیا محض لا الہ الا اللّٰہ کی تصدیق کر دینا اور اس کا بس زبان سے اقرار کر لینا اس بات کیلئے کافی تھا کہ ایک اتنی بڑی تبدیلی قلب وذہن کے اندر جنم لے لے اور جاہلیت کا پورا نظام، جاہلیت کی رسم اور ریت، جاہلی سیاست، جاہلی معیشت، جاہلی اجتماعیت، جاہلی سوچ اور جاہلی رویے .... غرض جاہلیت کی پوری عمارت جس بنیاد پر کھڑی ہوتی ہے شعور کی دُنیا میں وہ سب دھڑام سے گر جائے؟ یا پھر اس کیلئے تعلیم وتلقین کی ضرورت تھی اور نفوس کو ایک خاص رخ دینے اور رویہ وسلوک کی ایک خاص انداز میں صورت گری کرنے کی احتیاج تھی؟

بے شک لا الہ الا اللّٰہ انسانی نفس کو ایک بڑی تبدیلی کیلئے تیار کر دیتا ہے اور اس کو تبدیلی کی راہ پر بھی ڈال دیتا ہے .... پھر بھی اس لا الہ الا اللّٰہ کی بنیاد پر جنم پانے والی نئی قدریں، نئے معیار، نئے پیمانے، نئے حقائق، نئے رشتے اور نئی زندگی، سب کچھ ایک لحظہ کے اندر وجود میں نہیں آجاتا۔ سب کچھ آپ سے نہیں ہوجاتا.... باوجود اس کے کہ وہ ایمان ہی کا لحظہ ہوتا ہے۔ نئی عمارت بہرحال ایک ایک اینٹ کرکے بنتی ہے تاآنکہ وہ ایک خاص حد تک استوار ہو جائے ....

یہ کام بہرحال ’تربیت‘ کا متقاضی ہے۔

اور یہ وہ کام ہے جو مربی اعظم نے باحسن انداز انجام دیا۔ ایک تسلسل کے ساتھ لگاتار محنت کرکے، توجہ کے ساتھ، ہوشمندی کے ساتھ، ہمہ وقت نگرانی، پوری پوری نگہداشت، ترغیب، تحریص، جائزہ، احتساب .... یہاں تک کہ آپ اس کام کو اس اعلیٰ مقام تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئے۔ تب خدا واسطے کی اخوت نفوس کے اندر خونی رشتوں پر برتری لے جانے لگی۔ محبت اور بغض کو ارضی مفادات سے کوئی سروکار نہ رہا۔ جہاں ایک طرف مفادات اور انا کا پلڑا ہوتا اور ودسری جانب خدا واسطے کے رشتے اور خدا واسطے کی وفاداری کا سوال اٹھتا، وہاں ’خدا واسطے‘ کا پلڑا ہی جھک جاتا۔ دوستی ودشمنی ایمانی قدروں کے ساتھ ہی مستقل طور پر وابستہ ہوئی اور نفس کو ان سب معنوں میں اللہ کیلئے خالص کر دیا گیا۔

لا الہ الا اللّٰہ کے اس وقت کے تقاضوں میں ___ بلکہ ہر وقت کے تقاضوں میں ___ کچھ اعلیٰ اخلاقی قدریں بھی آتی تھیں۔

لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں میں کچھ تو وہ اخلاقی قدریں تھیں جو عرب ماحول کے اندر پائی تو جاتی تھیں مگر جاہلیت نے ان کو خراب کرکے کچھ اور رخ دے دیا تھا اور جس کے باعث وہ اصل معنی میں مکارم اخلاق نہ رہے تھے .... مثلاً دلیری اور بہادری جو کہ عربوں کے ہاں پائی جاتی تھی مگر جاہلیت نے اس کو جاہلی حمیت میں تبدیل کر دیا تھا جیسا کہ سورہ فتح [ اذا جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیہ حمیت الجاھلیہ(الفتح:٢٦) ”جب ان کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلانہ حمیت بٹھا لی“۔] میں اس کا ذکر ہوا .... یا جیسے مثلاً جود وسخاوت تھی جو عربوں میں بے پناہ پائی جاتی تھی اور جس کو جاہلیت نے مکارم اخلاق کی بجائے کچھ اور رخ دے دیا تھا، اور اس جود وسخاوت کو مال لٹا کر دھوم پانے کی چاہت میں تبدیل کردیا تھا، جیسا کہ اس کا سورہ البقرہ [کالذی ینفق مالہ رئاءالناس ولا یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فمثلہ کمثل صفوان علیہ تراب فاصابہ وابل فترکہ صلداً لا یقدرون علی شیءمما کسبوا واللّٰہ لا یہدی القوم الکافرین (البقرہ: ٢٦٤)

”اس شخص کی طرح جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے، نہ آخرت پر۔ اس کے خرچ کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چٹان تھی، جس پر مٹی کی ایک تہہ جمی ہوئی تھی۔ اِس پر جب زور کا مینہ برسا تو ساری مٹی بہہ گئی اور صاف چٹان کی چٹان رہ گئی۔ ایسے لوگ اپنے نزدیک خیرات کرکے جو نیکی کماتے ہیں اس سے کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں آتا اور کافروں کو سیدھی راہ دکھانا اللہ کا دستور نہیں ہے“۔] میں ذکر ہوا ہے اور جس کی کہ تصحیح کرنے کی ضرورت تھی کہ کرم وسخاوت اپنی اصل فطری روش میں آجائے اور خالصتاً ایک اخلاقی قدر بن جائے اور تاکہ کرم اور سخاوت بھی خدا واسطے کا ہو جائے۔

جبکہ لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں میں کچھ اخلاقی قدریں وہ تھیں جو عرب جاہلیت میں کہیں نہیں پائی جاتی تھیں اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ وہ دُنیا کی کسی جاہلیت میں پائی جائیں۔ مثلاً انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے پر ظلم سے روکنا اور انسانی زندگی کو جنگل کے قانون کی بجائے عدل اور قسط پر قائم کرنا اور انسان کا، اس کے رنگ یا اس کی قومیت یا اس کی زبان یا اس کے وطن یا اس کی سماجی حیثیت یا اس کی سیاسی اور معاشی اوقات سے قطع نظر، محض بطور انسان ہی احترام کرنا .... جو کہ ممکن ہی نہیں جب تک کہ نفس اللہ کیلئے تجرد حاصل نہ کر لے۔ [ڈیمو کریسی کو زعم ہے کہ دُنیا میں یہ وہ پہلا نظام ہے جس نے ان اصولوں کا تعین کیا اور ان کو عملاً دُنیا میں قائم کیا اور یہ کہ ڈیمو کریسی ہی دُنیا میں وہ پہلا نظریہ ہوا ہے جس نے ’دوسرے‘ کو زندہ رہنے کا حق دیا اور ’دوسرے‘ کو اپنا مطالبہ اور اپنی بات رکھنے کی آزادی دی!

اس بات کا عملی مظاہرہ دیکھنا ہو تو ذرا ایک نظر بوسنیا ہرزگوینا، چیچنیا، فلپائن، کشمیر اور فلسطین پر ڈالی جائے جہاں پر باور کیا جاتا ہے کہ ڈیمو کریسی راج کرتی ہے بلکہ اس بات کا مشاہدہ کرنے کیلئے ایک نظر جہاں کہیں بھی مسلمان یہود اور نصاری اور غیر مسلموں کے زیر اقتدار رہتے ہیں ڈال لی جائے اور دوسری طرف تاریخ کے ان سب ادوار پر نگاہ ڈال لی جائے جہاں یہود اور نصاری اور غیر مسلم مسلمانوں کے زیر اقتدار زندگی گزارتے رہے ہیں.... اور یوں موازنہ کر لیا جائے کہ ’انسان‘ کو جینے اور اپنی راہ چلنے کا حق کہاں میسر رہا ہے!]

یہاں ہمارے پیش نظر یہ نہیں کہ ہم لا الہ الا اللّٰہ کے سب تقاضوں کا کوئی علی سبیل الحصر ذکر کریں۔ حتی کہ لا الہ الا اللّٰہ کے ان تقاضوں کا حصر بھی یہاں ہمارے ہاں پیش نظر نہیں جو مکی دور میں سامنے لائے گئے۔ یہاں ہمارے اس بات کرنے کا مقصد صرف یہ واضح کرنا ہے کہ یہ کلمہ، جب سے یہ خدا کے ہاں سے نازل ہوا ہے، کبھی بھی محض تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام نہ تھا جیسا کہ ارجائی فکر لوگوں کو باور کراتا ہے .... اور یہ کہ محض تصدیق کرنا اور زبان سے اقرار کرنا، حتی کہ اس وقت بھی جب زبان سے لا الہ الا اللّٰہ بول دینا دل گردے کا کام تھا اور اس کا اعلان کر دینا دُنیا جہاں بھر کے خطرات کو دعوت عام دینا تھا اور اس پر صرف وہی شخص تیار ہوتا تھا جو واقعتا اس پر ایمان لا چکا ہو، لا الہ الا اللّٰہ کا یہ اقرار اور تصدیق آپ سے آپ اس وقت بھی انسان سے وہ کارنامے نہ کرواتی تھی جو کہ اس لا الہ الا اللّٰہ کی بنیاد پر رسول اللہ کے ہاتھوں تربیت پا کر آدمی سے رونما ہونے لگتے تھے۔

وہ سب کچھ جو مسلمانوں کی اس مٹھی بھر جماعت نے مکی دور میں کر دکھایا تب ہی ممکن ہوا جب وہ اس لا الہ الا اللّٰہ پر اس کے تقاضوں سمیت ایمان لائے اور پھر ان تقاضوں پہ تربیت پانے پر سرگرم ہوئے اور پھر دُنیائے واقع میں اس کو عمل کی حقیقت میں بدل دینے پر تیار ہوئے ....

اس گفتگو سے ہمارے پیش نظر یہ ثابت کرنا بھی نہیں کہ لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں پر اس مسلم جماعت کی تربیت کر دینا ہی وہ منفرد ترین کام تھا جو رسول اللہ نے اپنی دعوت کے مکی دور میں انجام دیا۔ لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں پر ایک مسلم جماعت کی تربیت اور تیاری تو ہر اس داعی اور مربی سے مطلوب ہے جو کسی بھی بقعہء ارض میں یا تاریخ کے کسی بھی دور میں اسلام کی دعوت کو کھڑا کرنے کے کام کو ہاتھ ڈالتا ہے۔ یہ تو ہر قیادت سے ہمیشہ ہی مطلوب ہے۔ دراصل وہ منفرد ترین کام جو رسول اللہ نے اس سلسلہ میں بالفعل انجام دیا، یہ تربیت کی وہ حیرت انگیز حد تک بلند سطح تھی جس تک رسول اللہ نے صحابہ کو پہنچا دیا تھا۔ لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں پر ایک انسانی جماعت کی اس درجہ کی تربیت رسول اللہ ہی کا کام تھا.... تربیت کی وہ سطح جس میں واقعیت اور مثالیت ایک ہو گئی تھی۔ جس میں مندوبات اور مستحبات نفوس کے اندر فرائض اور واجبات کا درجہ اختیار کر گئے تھے۔ نیکیاں جو محض مستحب تھیں اور خدا ورسول ان کو اس کا پابند تک نہ کرتے تھے یہ آپ سے آپ اس کے پابند ہو جاتے تھے .... یہ یوم آخرت پر ایمان کی وہ بلند سطح تھی جس پر وہ پہنچ گئے تھے یوں کہ گویا ان کا ہر لمحہ اِس جہان میں نہیں بلکہ اُس جہان میں گزرتا تھا۔ عالم آخرت کے آنے میں ان کے ہاں ’صدیاں‘ باقی نہ رہی تھیں۔ یہ ہے وہ اصل امتیاز جو اسلام کی اس نسل اول نے اس مربی اعظم کے ہاتھوں تربیت پا کر قائم کر لیا تھا۔ یہ محض لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں کی پابندی نہ تھی، جو کہ ہر دور کے داعیوں سے ہی مطلوب ہوا کرتی ہے بلکہ یہ اس لا الہ الا اللّٰہ کے تقاضوں کی پابندی میں ایک منفرد ترین سطح تک پہنچنا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

لا الہ الا اللّٰہ کے یہ تقاضے پھر رفتہ رفتہ وسعت اختیار کرنے لگے۔ ان میں اب نفس انسانی اور حیات انسانی کے نئے نئے جوانب شامل کر دیئے جانے لگے۔ جن کو ایک ایک کرکے وہ علیم وخبیر وحی کے پیغامات کی صورت میں اتار رہا تھا۔ اس کے علم اور حکمت کا جب اور جیسا تقاضا ہوتا ویسی ہی وحی اترتی اور اہل ایمان لا الہ الا اللّٰہ کے ایک کے بعد ایک تقاضے کے پابند ہوتے چلے گئے۔ جونہی کسی نئے تقاضے کا اضافہ ہوتا پہلے تقاضے ایک صاحب ایمان کو صاحب ایمان رہنے کیلئے کافی نہ رہتے۔

امام ابوعبید القاسم بن سلام (١٥٧ھ ۔ ٢٢٤ھ) اپنی کتاب الایمان کے صفحہ ٥٤ ومابعد فرماتے ہیں:

”ہم نے جب اس مسئلہ کو بعثت نبوی اور تنزیل خداوندی کی جانب لوٹایا تو یہی پایا کہ خدا نے ایمان کی اساس اس بات کو بنایا کہ آدمی شہادت دے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت وبندگی کے لائق اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ پس نبی مکہ کے اندر ایک عشرہ سے زائد قیام کے دوران اسی شہادت کو ادا کر دینے کی دعوت دیتے رہے۔ تب ابھی ”ایمان“ جو بندوں پر فرض تھا اس شہادت کو ادا کر دینے کے سوا کچھ نہ تھا۔ پس جس نے اس پر لبیک کہا وہ مومن ٹھہرا۔ اس کے علاوہ دین کے اندر وہ اس کے سوا کسی بات کا پابند نہ تھا۔ نہ ابھی اس پر زکات فرض تھی نہ روزے اور نہ دوسرے شرعی احکام۔ لوگوں پر اس وقت یہ جو تخفیف تھی، جیسا کہ علماءبتاتے ہیں، خدا کی جانب سے بندوں پر نرمی اور مہربانی تھی۔ کیوونکہ وہ ابھی ابھی جاہلیت کو اور جاہلی گم گشتہ راہی کو چھوڑ کر اسلام میں آئے تھے۔ اگر وہ فوراً ان کو سب کے سب فرائض کا پابند کر دیتا تو ان کے دل اس سے فرار اختیار کرنے لگتے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا زبان سے اقرار کیا جانے کو ہی وہ ’ایمان‘ جانا جو کہ ان سے تاحال مطلوب تھا۔ مکہ کی زندگی زندگی وہ اسی حال پر رہے۔ مدینہ کے اندر بھی ڈیڑھ سال کے لگ بھگ عرصہ یہی معاملہ رہا۔ پھر جب اسلام کے اندر وہ خوب انابت اختیار کر گئے اور اس میں رغبت بڑھی تب اللہ تعالیٰ نے ان پر کچھ اور ’ایمان‘ فرض کر دیا اور وہ یہ کہ ان کو بیت المقدس کی بجائے اب کعبہ کی طرف کرکے نماز پڑھنا تھا .... پس اگر وہ کعبہ کی جانب تحویل قبلہ کر دیا جانے کے بعد ایک دن بھی کعبہ کی جانب رخ کرکے نماز پڑھنے سے انکاری ہوتے اور ’ایمان‘ کی اسی حالت کو اپنے لئے کافی جانتے جس کی بنا پر اس سے پہلے وہ مومن کہلانے کا حق رکھتے رہے تھے .... اور اسی قبلہ پر مصر رہتے جس کی جانب ان کی پڑھی ہوئی نماز اس سے پہلے قبول ہو جاتی رہی تھی تو اب وہ ان کو ہرگز ہرگز کفایت نہ کرتا بلکہ ایسا کرنے سے ان کا وہ پہلا اقرار ہی کالعدم ٹھہرتا۔ وجہ یہ ہے کہ اس سے پہلے وہ جو اطاعت کرتے رہے تھے وہ اس اطاعت سے کوئی بڑھ کر ’ایمان‘ کہلانے کی حقدار نہ تھی جو ان کو اب کرنا تھی۔ اب جب انہوں نے فریضہء نماز کو بھی ویسے ہی قبول کیا جیسے کہ اس سے پہلے اقرار شہادت کے فریضہ کو قبول کرکے مسلمان ٹھہرے تھے تو اب یہ دونوں ہی باتیں ان کیلئے وہ ’ایمان‘ کہلاتا تھا جو کہ اب تک ان پر فرض ہوا تھا۔ یعنی فریضہء اقرار کے ساتھ اب فریضہء نماز کو بھی شامل کردیا گیا تھا .... اب وہ کچھ عرصہ اس حالت پر رہے۔ پھر جب نماز میں ان کو جس طرف کو کہا گیا وہ ادھر ہی کو اور بلاتاخیر رخ کر لینے پہ آمادہ ہوئے اور دلوں میں اس پر شرح صدر پایا تب اللہ نے ان کے ’ایمان‘ میں زکوٰت کا فرض شامل کر دیا۔ اب ایمان کے پہلے سے موجود فرائض کے ساتھ زکوٰت آ شامل ہوئی۔ جیسا کہ ارشاد ہوا: واقیموا الصلوہ واتوا الزکوٰت (البقرہ: ٨٣، ١١٠) اور فرمایا: خذمن اموالھم صدقہ تطھرھم وتزکیھم بھا (التوبہ: ١٠٣) اب اگر وہ زکوٰت کو بس زبان سے قبول کرتے اور عملاً صرف نماز پڑھتے مگر زکوٰت نہ دیتے تو یہ بات ان کے پچھلے کئے پر بھی پانی پھیر دیتی اور یہ ان کے اقرار شہادت اور اقامت صلوٰتہ ہر دو کو کالعدم کر دیتی جیسا کہ اس سے پہلے ان کا نماز پڑھنے سے انکاری ہونا ، ان کے اقرار شہادت کے منافی ہوتا۔ اس کی ایک زبردست دلیل ابوبکر صدیق کا مہاجرین اور انصار کی معیت میں زکوٰت نہ دینے کے مسئلے پر عربوں کے خلاف جہاد کرنا تھا۔ ابوبکر کا ان سے یہ جہاد کرنا ویسا ہی تھا جیسا رسول اللہ کا اہل شرک کے خلاف جہاد کرنا۔ ان دونوں میں کوئی بھی فرق نہ تھا۔ چاہے وہ قتل وخونریزی ہو۔ چاہے ان کی ذریت کو غلام بنانے کا مسئلہ ہو اور چاہے ان کے مال کو مال غنیمت بنانے کا۔ جبکہ وہ محض مانعین زکوٰت تھے نہ کہ منکرین زکوٰت۔ پھر ایسا ہی معاملہ اسلام کے باقی احکام و شرائع کا ہوا! .... جب بھی شریعت کا ایک نیا حکم اترتا تو وہ شریعت کے اس سے پہلے کے نازل شدہ احکام کے ساتھ شامل کر دیا جاتا جو پہلے احکام کی حیثیت ہوتی اب وہ اس نئے حکم کی حیثیت ہوتی، ان سب احکام پر عمل پیرا ہونے کو مجموعی طور پر ’ایمان‘ کا نام دیا جاتا اور ایسا کرنے والوں کو مومن۔ یہ ہے وہ مقام جہاں وہ لوگ مغالطے کا شکار ہوئے جو ایمان کو محض زبان کا قول قرار دیتے ہیں“۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 
Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز