باب دہم:
یہ مضمون مطبوعات ایقاظ کی کتاب روز غضب کا حصہ ہے۔ مضمون کو براہ راست کتاب سے مطالعہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
اہل کتاب کے سب صحیفے ہی بربادی کی
اس نحوست اور پلیدی کا تعین کرتے ہیں
ڈاکٹر سفر الحوالی
یہود کی مجرمانہ خصلتوں پہ بات کرنا اور ان کی گھنائونی حرکتوں کا پول کھولنا اگر کوئی سام دشمنی (antisemitism) ہے جیسا کہ صہیونیوں کا دعویٰ ہے: تو سام دشمنی پر مبنی سب سے بڑی کتاب پھر تورات ہی قرار پائے گی!
عیسائی کلیسائوں نے آج تک جتنی لعنتیں یہود پر برسائیں ان سب کو بھی اگر اکٹھا کر لیا جائے اور بعض عالمی شہرت یافتہ ناولوں میں یہودیوں کی جو تصویر کشی ہوئی ہے ___ مثال کے طور پر شیکسپیر اور ڈکنز کے لکھے ہوئے ناول ___ ان کو بھی ساتھ میں شامل کر لیا جائے .... حتی کہ اس کے ساتھ ہم سب عرب شعرا کو اکٹھا کرکے کبھی ان سے بھی اسرائیل کی ہجو لکھوائیں .... تو یہ سارا کچھ ملا کر بھی اس قدر شدید نہ ہوگا جو خود توراتی صحیفوں کے اندر ان کے بارے میں وارد ہوا ہے۔
مصیبت یہ ہے کہ بیشتر یہود تورات کی ان نصوص کو پڑھنے سے گریز کرتے ہیں۔ نہ صرف یہود بلکہ ان کی محبت میں سرشار بنیاد پرست عیسائی بھی ان کو نہیں پڑھتے۔ بلکہ بہت سے عرب اور دُنیا کی ایک بڑی تعداد بھی تورات کی ان نصوص سے ناواقف ہے۔
صرف دانیال کا صحیفہ نہیں بلکہ تورات پوری کی پوری ہی بربادی کی اس پلیدی اور نحوست کا تعین کرتی ہے جس کا ذکر تورات میں طویل وعریض فصول کے اندر پھیلا ہے۔ تورات ان کے ان اوصاف سے ہی بات شروع کرتی ہے اور انہی پر بات ختم کرتی ہے۔ اسی بات کو واضح کرنے کیلئے طرح طرح کا انداز بیان اور طرح طرح کے استعارے اور مجاز کا استعمال کرتی ہے۔ اس میں اسی بات کی تکرار کرتی ہے کہیں اس کے ذکر میں طوالت اختیار کرتی ہے اور کہیں اختصار۔
جہاں تک ان کے مذموم اوصاف کا تعلق ہے تو ان کا کوئی حد حساب نہیں۔ ان میں ہر گھٹیا خصلت کا ذکر ہے اور کوئی ایک بات بھی نہیں چھوڑی گئی۔ البتہ ایک وصف ایسا ہے جو عربی اشعار کے ردیف و قافیہ کی طرح ہر صحیفے میں دہرایا جاتا ہے۔ پڑھنے والا خواہ کوئی ہو یہ بات اس کو حیران کر جاتی ہے اس کی یہ حیرانگی پھر اور بڑھ جاتی ہے جب وہ دیکھتا ہے اس وصف کا تو اس قوم سے دور نزدیک کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہو سکتا جو خدا کی چہیتی ہونے کا دعویٰ کرے اور اپنے اس دعویٰ کا ثبوت بھی خود اسی کتاب سے دے۔ یہ وصف ہے نجاست یعنی پلیدی۔ یہ خون ابتری کی نجاست ہے۔ یہ وحشت وبربریت سے عبارت ہے۔ یہ تشدد سے پر ہے۔ یہ غدر اور خیانت کی ناپاکی ہے اور پھر عذر تراشنے کی۔ یہ ذاتی پلیدی ہے جو کسی چیز سے نہیں دھلتی ....
”ہر چیز تو اپنے آپ کو سجی سے دھوئے اور بہت سے صابون استعمال کرے تو بھی خداوند خدا فرماتا ہے تیری شرارت کا داغ میرے ہاں عیاں ہے تو کیونکر کہتی ہے میں ناپاک نہیں ہوں؟“ (یرمیاہ ٢:٢٢، ٢٣)
”یروشلم سخت گناہ کرکے نجس ہو گیا ....
”اس کی نجاست اس کے دامن میں ہے“ (نوحہ ١: ٨۔٩)
”تو نے اپنی بدکاری اور شرارت سے زمین کو ناپاک کیا“۔ (یرمیاہ ٣: ٢)
”کیا تو نے دیکھا برگشتہ اسرائیل نے کیا کیا ہے؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کے نیچے گئی اور وہاں بدکاری کی“۔ (یرمیاہ ٣: ٦)
”اس نے اپنی بدکاری کی برائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زناکاری کی“۔ (یرمیاہ ٣:٩)
پھر خدا فیصلہ کرتا ہے کہ اس کو ناپاکی سے کبھی صاف نہ کرے:
”تیری ناپاکی میں خباثت ہے کیونکہ میں تجھے پاک کیا چاہتا ہوں پر تو پاک ہونا نہیں چاہتی۔ تو اپنی ناپاکی سے پاک نہ ہوگی جب تک میں اپنا قہر تجھ پر پورا نہ کر چکوں“۔
یہی وجہ ہے کہ ارمیاہ کا صحیفہ پھر اس کو یہ خبر سناتا ہے:
”برگشتہ اسرائیل کی زنا کاری کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا“۔ (یرمیاہ ٣:٨)
اس سزا کا سبب نہ صرف واضح ہے بلکہ بار بار دہرایا جاتا ہے:
”زمین اپنے باشندوں سے نجس ہوئی کیونکہ انہوں نے شریعت کو عدول کیا، آئین سے منحرف ہوئے۔ عہد ابدی کو توڑا۔ اس سبب سے لعنت نے زمین کو نگل لیا“۔ (یسعیاہ: ٢٤: ٥۔٦)
یہ لعنتیں ”استثنائ“ کے اندر ایک ایک کرکے بتائی گئی ہیں:
”لیکن اگر تو ایسا نہ کرے تو خداوند اپنے خدا کی بات سن کر اس کے سب احکام اور آئین پر جو آج کے دن میں تجھ کو دیتا ہوں احتیاط سے عمل کرے تو یہ سب لعنتیں تجھ پر نازل ہوں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ شہر میں بھی تو لعنتی ہوگا اور کھیت میں بھی لعنتی ہوگا۔ تیرا ٹوکرا اور تیری کھٹوتی دونوں لعنتی ٹھہریں گے۔ تیری اولاد اور تیری زمین کی پیداوار اور تیرے گائے بیل کی بڑھتی اور تیری بھیڑ بکریوں کے بچے لعنتی ہوں گے۔ تو اندر آئے لعنتی ٹھہرے گا اور باہر جائے بھی لعنتی ٹھہرے گا۔ خداوند ان سب کاموں میں جن کو تو ہاتھ لگائے لعنت اور اضطراب اور پھٹکار کو تجھ پر نازل کرے گا جب تک کہ تو ہلاک ہو کر جلد نیست ونابود نہ ہو جائے۔ یہ تیری ان بداعمالیوں کے سبب سے ہوگا جن کو کرنے کی وجہ سے تو مجھ کو چھوڑ دے گا“۔ (استثناء٢٨: ١٥ ۔ ١٦)
”استثنائ“ کے اندر ان لعنتوں کا ذکر جاری رہتا ہے۔ پورے چوبیس بند ان لعنتوں کے ذکر سے پر ہیں تاآنکہ بات یہاں ختم ہوتی ہے:
”اور چونکہ تو خداوند اپنے خدا کے ان حکموں اور آئین پر جن کو اس نے تجھے دیا ہے عمل کرنے کیلئے اس کی بات نہیں سنے گا، اس لئے یہ سب لعنتیں تجھ پر آئیں گی اور تیرے پیچھے پڑی رہیں گی اور تجھ کو لگیں گی۔ جب تک تیرا ستیاناس نہ ہو جائے اور وہ تجھ پر اور تیری اولاد پر سدا نشانی اور اچنبھے کے طور پر رہیں گی“۔ (استثناء٢٨ : ٤٥ ۔ ٤٦)
چنانچہ آپ دیکھتے ہیں ایک طرف اُنکی ’ناپاکی‘ کا ذکر برابر چلتا ہے ساتھ ’لعنت‘ کا ذکر ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر تیسری بات ’رسوائی‘ شامل کر دی جاتی ہے اور یہ تین باتیں دہرا دہرا کر ہوتی ہیں:
”جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا۔ وہ اور اس کے بادشاہ اور امرا اور کاہن“۔ (یرمیاہ ٢ : ٦٢)
یہ ناپاکی ان پر اوپر سے بھی پڑتی ہے اور نیچے سے بھی۔ یسعیاہ نبی کہتا ہے:
”نجس لب لوگوں میں بستا ہوں“۔ (یسعیاہ ٦ : ٥)
یہاں تک کہ موت کے بعد بھی اور ارض مقدس سے جلاوطن ہو جانے کے بعد بھی ناپاکی ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ چنانچہ عاموس کے صحیفے میں آتا ہے:
”اس لئے خداوند یوں فرماتا ہے کہ تیری بیوی شہر میں کسبی بنے گی اور تیرے بیٹے اور تیری بیٹیاں تلوار سے مارے جائیں گے اور تیری زمین جریب سے تقسیم کی جائے گی اور تو ایک ناپاک ملک میں مرے گا اور اسرائیل یقینا اپنے وطن سے اسیر ہو کر جائیگا“۔ (عاموس ٧:١٧)
ان کی ناپاکی اور بدکاری ___ توراتی صحیفوں کی رو سے ___ تاریخ کی ناپاک ترین قوموں سے بھی بڑھ جاتی ہے:
”میری دختر قوم کی بدکرداری سدوم کے گناہ سے بڑھ کر ہے جو ایک لمحہ میں برباد ہوا اور کسی کے ہاتھ اس پر دراز نہ ہوئے“۔ (نوحہ ٤ : ٥ ۔ ٦)
”خداوند فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم کہ تیری بہن سدوم نے ایسا نہیں کیا نہ اس نے نہ اس کی بیٹیوں نے جیسا تو نے اور تیری بیٹیوں نے کیا ہے“۔ (حزقی ایل : ١٦ : ٤٨)
ان میں سے ایک بڑا جرم ان کی سفاکی اور خونریزی ہے۔ چنانچہ حزقی ایل نبی خدا سے سوال کرتا ہے اور اس کا جواب یوں آتا ہے:
”اے خداوند خدا کیا تو اپنا قہر شدید یروشلم پر نازل کرکے اسرائیل کے سب باقی لوگوں کوہلاک کریگا؟ تب اس نے مجھے فرمایا: کہ اسرائیل اور یہوداہ کے خاندان کی بدکرداری نہایت عظیم ہے۔ ملک خونریزی سے پر ہے اور شہر بے انصافی سے بھرا ہے“۔ (حزقی ایل ٩ : ٨ ، ٩)
نوحہ حزقی ایل میں ان کے ظلم و وحشت اور بربریت کی تصویر یوں کھینچی گئی ہے گویا حزقی ایل نبی صہیونیوں کے انتفاضہ پر ڈھائے جانے والے ظلم اور بربریت کی داستان بیان کر رہا ہے:
”جنہوں نے اس میں صادقوں کا خون بہایا۔ وہ اندھوں کی طرح خون میں بھٹکتے اور خون سے آلودہ ہوتے ہیں۔ ایسا کہ کوئی ان کے لباس کو بھی نہیں چھو سکتا۔ وہ ان کو پکار کر کہتے تھے: دور رہو ناپاک! دور رہو، دور رہو! چھونا مت!“ (نوحہ : ٤ : ١٣ ۔ ١٥)
اب ذرا توراتی صحیفے کے ان کے بارے میں یہ الفاظ بھی سنیے:
”حبشی اپنے چمڑے کو یا چیتا اپنے داغوں کو بدل سکے تو تم بھی جو بدی کے عادی ہو نیکی کر سکو گے“۔
”پس میں بھی تیرا دامن تیرے سامنے سے اٹھا دوں گا تاکہ تو بے پردہ ہو۔ میں نے تیری بدکاری، تیرا ہنہنانا، تیری حرام کاری اور تیرے نفرت انگیز کام جو تو نے پہاڑوں پر اور میدانوں میں کئے دیکھے ہیں۔ اے یروشلم تجھ پر افسوس! تو اپنے آپ کو کب تک پاک وصاف نہ کرے گی“۔ (یرمیاہ : ١٣ : ٢٢ ، ٢٦ ۔ ٢٧)
ان کو توراتی صحیفوں میں اس انداز سے خطاب کیا جانا ایک معمولی بات ہے جیسا کہ یسعیاہ ان کو مخاطب کرتا ہے:
”تم اے جادوگرنی کے بیٹو! اے زانی اور فاحشہ کے بچو! ادھر آگے آؤ۔ تم کس پر ٹھٹھا مارتے ہو؟ تم کس پر منہ پھاڑتے اور زبان نکالتے ہو؟ کیا تم باغی اولاد اور دغا باز نسل نہیں ہو، جو بتوں کے ساتھ ہر ایک ہرے درخت کے نیچے اپنے آپ کو برانگیختہ کرتے اور وادیوں میں چٹانوں کے شگافوں کے نیچے بچوں کو ذبح کرتے ہو؟“ (یسعیاہ : ٥٧ : ٣ ۔ ٦)
ھوسیع نبی کے صحیفہ کے بقول خدا کہتا ہے:
”میں نے اسرائیل کے گھرانے میں ایک ہولناک چیز دیکھی۔ افرائیم میں بدکاری پائی جاتی ہے اور اسرائیل نجس ہوگیا“۔ (ھوسیع : ٦ : ١٠)
اپنے اور اپنے قاری کے وقت کا خیال کرتے ہوئے اور اخلاقی سنسر کی قینچی تلے آنے کے ڈر سے ہم ان ناپاکیوں اور نحوستوں کا اس سے زیادہ ذکر نہ کریں گے۔ بس ہم حزقی ایل کے ان الفاظ کو بھی نقل کردینا کافی جانیں گے جو وہ افرائیم (یروشلم) کے جرائم کی بابت کہتا ہے:
”پھر خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد کیا تو الزام نہ لگائے گا؟ کیا تو اس خونی شہر کو ملزم نہ ٹھہرائے گا؟ تو اس کے سب نفرتی کام اس کو دکھا اور کہ: خداوند یوں فرماتا ہے کہ: اے شہر تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے واسطے بتوں کو اپنے ناپاک کرنے کیلئے بناتا ہے۔ تو اُس خون کے سبب سے جو تو نے بہایا مجرم ٹھہرا اور تو بتوں کے باعث جن کو تو نے بنایا ہے ناپاک ہوا۔ تو اپنے وقت کو نزدیک لاتا ہے اور اپنے ایام کے خاتمہ تک پہنچا ہے اس لئے میں نے تجھے اقوام کی ملامت کا نشانہ اور ممالک کا ٹھٹھا بنایا ہے۔ تجھ سے دور و نزدیک کے سب لوگ تیری ہنسی اڑائیں گے کیونکہ تو فسادی اور بدنام مشہور ہے۔ دیکھ اسرائیل کے امرا سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں باپ کو حقیر جانا ہے۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اوربیوائوں پر ستم کیا ہے۔ تو نے میری پاک چیزوں کو ناچیز جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا۔ تیرے اندر وہ لوگ ہیں جو چغل خوری کرکے خون کرواتے ہیں اور تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو فسق وفجور کرتے ہیں۔ تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ کی حرم شکنی کی۔ تجھ میں انہوں نے اس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی۔ کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی اور کسی نے اپنی بہو سے بد ذاتی کی۔ اور کسی نے اپنی بہن، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا۔ تیرے اندر انہوں نے خونریزی کیلئے رشوت خواری کی۔ تو نے بیاج اور سود لیا اور ظلم کرکے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔ خداوند خدا فرماتا ہے: دیکھ تیرے ناروا نفع کے سبب سے جو تو نے لیا اور تیری خونریزی کے باعث جو تیرے اندر ہوئی میں نے تالی بجائی۔ کیا تیرا دل برداشت کرے گا اور تیرے ہاتھوں میں زور ہو گا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا؟ میں خداوند نے فرمایا اور میں ہی کر دکھائوں گا ہاں میں تجھ کو قوموں میں پراگندہ اور ملکوں میں تتر بتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کر دوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں “ ....
”اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم زاد! بنی اسرائیل میرے لئے میل ہو گئے ہیں۔ وہ سب کے سب پیتل اور رانگا اور لوہا اور سیسا ہیں جو بھٹی میں ہیں۔ وہ چاندی کی میل ہیں۔ اس لئے خداوند خدا فرماتا ہے کہ چونکہ تم سب میل ہو گئے ہو اس لئے دیکھو میں یروشلم میں تم کو جمع کروں گا۔ جس طرح لوگ چاندی اور پیتل اور لوہا اور سیسا اور رانگا بھٹی میں جمع کرتے ہیں اور ان پر دھونکتے ہیں تاکہ ان کو پگھلائو اسی طرح میں اپنے قہر اور اپنے غضب میں تم کو جمع کروں گا اور تم کو وہاں رکھ کر پگھلائوں گا۔ ہاں میں تم کو اکٹھا کروں گا اور اپنے غضب کی آگ تم پر دھونکوں گا اور تم کو اس میں پگھلا ڈالوں گا۔ جس طرح چاندی بھٹی میں پگھلائی جاتی ہے اسی طرح تم اس میں پگھلائے جائو گے اور تم جانو گے کہ میں خداوند نے اپنا قہر تم پر نازل کیا ہے“....
”اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ: اے آدم زاد اس سے کہ تو وہ سرزمین ہے جو پاک نہیں کی گئی اور جس پر غضب کے دن میں بارش نہیں ہوئی۔ جس میں اس کے (جھوٹے دجال صفت) نبیوں نے سازش کی ہے۔ شکار کو پھاڑتے ہوئے گرجنے والے شیر ببر کی مانند وہ جانو کو کھا گئے ہیں۔ وہ مال اور قیمتی چیزوں کو چھین لیتے ہیں۔ انہوں نے اس میں بہت سی عورتوں کو بیوہ بنا دیا ہے۔ اس کے کاہنوں نے میری شریعت کو توڑا اور میری مقدس شریعت کو ناپاک کیا ہے۔ انہوں نے مقدس اور عام میں کچھ فرق نہیں رکھا اور نجس وطاہر میں امتیاز کی تعلیم نہیں رکھی اور میرے سبتوں کو نگاہ میں نہیں رکھا اور میں ان میں بے عزت ہوا۔ اس کے امرا اس میں شکار کو پھاڑنے والے بھیڑیوں کی مانند ہیں جو ناجائز نفع کی خاطر خونریزی کرتے ہیں“....
اس ملک کے لوگوں نے ستمگری اور لوٹ مار کی ہے۔ اور غریب اور محتاج کو ستایا ہے اور پردیسیوں پرناحق سختی کی ہے“۔ (حزقی ایل : ٢٢ : ١ ۔ تا ۔ ٢٩)
جی ہاں۔ انہوں نے اس سرزمین کے باسیوں پر ظلم ڈھائے۔ ان کا امن اور چین چھینا۔ ان کا ملک ہتھیایا اور ان کے کھیتوں کے مالک بن بیٹھے۔
تو کیا ہم اس پلیدی اور ناپاکی اور بربادی کی نحوست کا صحیفہء حزقیال سے مزید مطالعہ کرتے جائیں یا حز قیال کی اس گفتگو کی جانب رخ کریں جو اس نے اس نحوست اور ناپاکی کی سزا سنائی ہے؟
ہمارا خیال ہے ہمیں یہیں پر رک جانا چاہیے۔ اس لئے نہیں کہ اس سے ہمارے اختصار کے اسلوب پر زد آتی ہے بلکہ اس لئے کہ اس موضوع پر مزید بات کرتے ہوئے خود ہمیں قاری سے شرم محسوس ہوتی ہے اور اخلاقی پابندی کا جو اپنا ایک سنسر ہے اس کی حدود کا بھی خیال کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ حزقیال کے صحیفے نے اسی باب میں آگے چل کر سامرہ اور یروشلم کی دونوں یہودی ریاستوں کیلئے دو نحوستوں کی مثال دو قحبہ گر عورتوں (اہولہ اور اہولیبہ) کی صورت میں بیان کی ہے۔ جبکہ ان دونوں ناموں میں بھی ایک زبردست لفظی معنویت پنہاں ہے۔ان دونوں عورتوں کی کہانیاں ویسے ان رپورٹوں سے بہت مناسبت رکھتی ہیں جو امریکی پریس میں جمی سواگرٹ اور دیگر صہیونی عیسائیوں کے بارے میں ان کی گھٹیا اور غیر اخلاقی حرکتوں کا پول کھولنے کیلئے عام ہوئی ہیں۔ مگر یہ ہمارے موضوع سے متعلق نہیں اور نہ اخلاقی طور پر ہم ان کو بیان کرنے کے متحمل ہیں۔ میں کچھ نہیں کہ سکتا آیا دیندار عیسائی اپنے بچوں اوربچیوں کو اپنی (کتاب مقدس!؟) میں ایسی عبارتیں پڑھنے کی اجازت دیتے ہوں گے یا وہ اپنی مذہبی کتاب کی یہ عبارتیں اکیلے ہی پڑھتے ہونگے جیسا کہ وہاں رات گئے کی ان فلموں کے معاملہ میں ہوتا ہے جن کو اٹھارہ سال سے کم عمر لوگوں کے دیکھنے پر پابندی ہوتی ہے؟
جہاں تک اھولہ اور اس کی بہن (اھلوبہ) کی سزا کا تعلق ہے تو اس کا ذکر کر دینے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حزقیال کے اسی باب میں آتا ہے:
”خداوند خدا یوں فرماتا ہے کہ: میں ان پر ایک گروہ چڑھا لائوں گا اور ان کو چھوڑ دوں گا کہ ادھر ادھر دھکے کھاتی پھریں اور غارت ہو۔ اور وہ گروہ ان کو سنگسار کرے گی اور اپنی تلواروں سے ان کو قتل کرے گی۔ ان کے بیٹوں اور بیٹیوں کو ہلاک کرے گی اور ان کے گھروں کو آگ سے جلا دے گی۔ یوں میں بدکاری کو ملک سے موقوف کر دوں گا“۔
سو مبارک ہو ہاتھوں میں پتھر اٹھا رکھنے والے ان دلیروں کو جو ”ان کو سنگسار کریں گے“ مبارک ہو ان سب جوانوں کو آج کے دور کی اھولہ اور ’اھلیبہ‘ کو سنگسار کر رہے ہیں!!
رہ گئی تلوار اور آگ تو ان شاءاللہ اس کا وقت بھی جلد ہی آنے والا ہے۔ یہاں اجمالی طور پر جو بات ہوئی اس کی تفصیل آئندہ باب میں آئے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔