یوم غضب
یہ مضمون مطبوعات ایقاظ کی کتاب روز غضب کا حصہ ہے۔ مضمون کو براہ راست کتاب سے مطالعہ کرنے کے لئے یہاں کلک کریں
توراتی صحیفوں میں مذکور بربادی کا پیش خیمہ
شیخ سفر الحوالی
”بربادی کا منحوس پیش خیمہ“ Abomination of Desolation یا "Transgression that desolates" یعنی ”ویران کرنے والی خطا کاری“ یا اجاڑنے والی مکروہات [ دیکھئے صحیفہ دانیال : ٨:١٣، ٩:٢٧۔ مترجم] اہل کتاب کی ایک باقاعدہ اصطلاح ہے۔ یہ بہت واضح ہے۔ مگر ان لوگوں نے حسب معمول اس کے گرد بھی ابہام اور غموض کا ایک جالا بن دیا ہے۔ لفظ بھی اور اس کا مفہوم بھی اب دونوں ابہام کا شکار ہیں۔
مضاف اور مضاف الیہ کی اس ترکیب کے اور بھی کئی مترادفات بنتے ہیں۔مثلاً ”بربادی کی وحشت“ یا پھر ”بربادی کی بدنمائی“ مفہوم کے لحاظ سے اس کے اور بھی کئی ترجمے ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ”بربادی کا پیش خیمہ بننے والی نافرمانی“ یا پھر ”برباد کن نافرمانی“ یا ”برباد کن بدکاری“ اس کا جو واضح تر معنی بنتا ہے وہ یہ ہے: ”بدکار مملکت“!!
جہاں تک Bates کا تعلق ہے تو اس نے اپنی تحقیق کے نتیجے میں اس لفظ کا جو ترجمہ کیا ہے وہ ہے: ”بدکار تباہ کن امر“ اس کے الفاظ کا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے: ”پلید تباہ کن امر“ یا پھر ”ناپاک تباہ کن امر“۔ شاید سب سے موزوں تر ترجمہ جو کہ خدائی کلمات کے موافق تر ہو سکتا ہے یہ ہو: ”پلید مفسد“ یا پھر ”ناپاک مفسد“۔
تو پھر آئیے صحیفہءدانیال میں جو وارد ہوا وہ پڑھتے ہیں۔ کیونکہ اسی نے اس امر کی ایک تاریخی اہمیت بنا دی ہے۔
البتہ اس سے پہلے اس امر کا دانیال کی ان پیشین گوئیوں سے جو ہم نے پچھلے باب میں بیان کیں تعلق واضح ہو جانا چاہئے۔ چنانچہ ان (پچھلی) پیشین گوئیوں میں ایک فرشتے نے جب دانیال کے چار جانوروں والے خواب کی تعبیر بیان کی تو اس نے ایک فیصلہ کن انداز میں اپنی تعبیر اس بات پر ختم کی:
”اور تمام آسمانوں کے نیچے سب ملکوں کی سلطنت اور مملکت اور سلطنت کی حشمت حق تعالیٰ کے مقدس لوگوں کو بخشی جائیگی۔ اس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے اور تمام مملکتیں اس کی خدمت گزار اور فرمانبردار ہوں گی۔ یہاں پر یہ امر تمام ہوا“۔ (دانیال ٧:٧٢۔٨٢)
مگر دانیال خوفزدہ ہو جاتا ہے اور اس معاملے میں مزید جاننے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ گویا کہ مورت والا خواب اس کو ایک عمومی پیشین گوئی لگتی ہے جو کہ خواب دیکھنے والے (بادشاہ بخت نصر) کے ساتھ متعلق ہے جبکہ چار جانوروں والے خواب پر غور وفکر کی اس کو بطور خاص ضرورت محسوس ہوئی۔ تب اس نے اس بات کی اور بھی زیادہ واضح تفسیر پانے کی خواہش کی کہ زمانہء قریب اور زمانہء بعید میں اس سلسلہ میں کیا پیش آنے والا ہے۔ عام طور پر ایک انسان کیلئے یہ دونوں پہلو ہی بہت اہم ہوتے ہیں۔ جہاں تک مستقبل قریب کا تعلق ہے تو ہر آدمی ہی تجسس رکھتا ہے کہ اس کے زمانے کے لوگوں کے ساتھ عنقریب کیا پیش آنے والا ہے اور آئندہ حالات کیا ہونے والے ہیں۔ کوئی عالم ہو یا جاہل اپنے دور کے ساتھ اتنی دلچسپی ضرور رکھتا ہے۔ جہاں تک مستقبل بعید کا تعلق ہے تو انجام دیکھنے کا معاملہ بھی ہر آدمی کیلئے دلچسپی کا باعث ہوتا ہے کہ دُنیا کا معاملہ کہاں پہنچے گا اور جس امت سے وہ تعلق رکھتا ہے اس کا انجام کیا ہونے والا ہے خصوصاً ایک نبی کو یا نبی کے ایک پیروکار کو اس سے بہت زیادہ دلچسپی ہو گی کہ اہل ایمان اور اہل کفر کا معاملہ دُنیا میں کس کروٹ بیٹھے گا۔
یوں دانیال نبی کو تیسرا خواب دکھایا جاتا ہے۔ [ دانیال کی پچھلی پیشین گوئیوں والے خواب میں بھی اور یہاں بھی حیوانات کو دکھایا گیا ہے۔ یہ بات کچھ بہت باعث تعجب بات نہ ہونی چاہئے۔ اس بات کا وحی ہونا تو خیر خدا کے علم میں ہے مگر محض ’حیوانات“ کو ان خوابوں میں مذکور دیکھ کر ان کو افسانہ قرار دینا درست نہ ہو گا۔ سچے خوابوں کا حیوانات اور جمادات کے رمزیہ تصورات کی صورت میں آنا خود ہمارے دین سے بھی ثابت ہے۔ مثلاً یوسف علیہ السلام کے زمانے میں بادشاہ مصر کا سات گائیں اور گندم کی سات بالیں دیکھنا۔ ایک آدمی کا پرندوں کو اپنے سر سے روٹیاں اٹھاتے دیکھنا۔ اسی طرح رسول اللہ کا غزوہ احد سے پہلے ایک گائے کا ذبح ہوتے دیکھنا جس کی تعبیر آپ نے اپنے صحابہ کی شہادت سے کی وغیرہ وغیرہ (مترجم)]
”تب میں نے آنکھ اٹھا کر نظر کی اورکیا دیکھتا ہوں کہ دریا کے پاس ایک مینڈھا کھڑا ہے جس کے دو سینگ ہیں۔ دونوں سینگ اونچے تھے لیکن ایک دوسرے سے بڑا تھا اور بڑا دوسرے کے بعد نکلا تھا۔ میں نے اس مینڈھے کو دیکھا کہ مغرب وشمال وجنوب کی طرف سینگ مارتا ہے یہاں تک کہ نہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا ہو سکا نہ کوئی اس سے چھڑا سکا پر وہ جو کچھ چاہتا تھا کرتا تھا، یہاں تک کہ وہ بہت بڑا ہو گیا۔ اور میں سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بکرا مغرب کی طرف سے آکر تمام روئے زمین پر ایسا پھرا کہ زمین کو بھی نہ چھوا۔ اور اس بکرے کی دونوں آنکھوں کے درمیان ایک عجیب سینگ تھا اور وہ اس دو سینگ والے مینڈھے کے پاس جسے میں نے دریا کے کنارے کھڑا دیکھا آیا اور اپنے زور کے قہر سے اس پرحملہ آور ہوا اور میں نے دیکھا کہ وہ مینڈھے کے قریب پہنچا اور اسکا غضب اس پر بھڑکا اور اس نے مینڈھے کو مارا اور اس کے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور مینڈھے میں اس کے مقابلے کی تاب نہ تھی۔ پس اس نے اسے زمین پر پٹک دیا اور اسے لتاڑا اور کوئی نہ تھا کہ مینڈھے کو اس سے چھڑا سکے۔ اور وہ بکرا نہایت بزرگ ہوا اورجب وہ نہایت زور آور ہوا تو اس کا بڑا سینگ ٹوٹ گیا اور اس کی جگہ چار عجیب سینگ آسمان کی چار ہوائوں کی طرف نکلے۔ اور ان میں سے ایک چھوٹا سا سینگ نکلا جو جنوب اور مشرق اور جلالی ملک کی طرف بے نہایت بڑھ گیا اور وہ بڑھ کر اجرام فلک تک پہنچا اور اس نے بعض اجرام فلک اور ستاروں کو زمین پر گرا دیا اور ان کو لتاڑا۔ بلکہ اس نے سماوی افواج [اردو بائبل میں لفظ ہیں۔ ”اس نے اجرام کے فرمانروا تک اپنے آپ کو بلند کیا“ مگر عربی بائبل کے الفاظ ہیں: وحتی الی رئیس الجند تعظم اور انگریزی بائبل کے الفاظ ہیں:
It magnified itself even as the prince of the host ۔ اس لئے ہم نے ترجمے میں اردو بائبل کے الفاظ ’اجرام کے فرمانروا‘ کی جگہ ’سماوی افواج کے فرمانروا‘ کے لفظ استعمال کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آگے چل کر مصنف اس جملے کو صہیونیوں کے ہاتھوں اسلامی خلافت کے سقوط پر منطبق کرتے ہیں یعنی: ”اس نے بعض اجرام فلک اور ستاروں (اسلامی عظمت کے بعض نشانات یا بعض اسلامی قوتوں کو) زمین پر گرا دیا اور ان کو لتاڑا۔ بلکہ اس نے سماوی افواج (محمد کے پیروکاروں) کے فرمانروا تک اپنے آپ کو بلند کیا اور اس سے دائمی قربانی (بیت المقدس میں مسلمانوں کی زیارت کا حق اور مسجد اقصیٰ میں مسلمانوں کی آزادانہ عبادت) کو چھین لیا اور اس کا مقدس گرا دیا....“ (مترجم)] کے فرمانروا تک اپنے آپ کو بلند کیا اور اس سے دائمی قربانی کو چھین لیا اور اس کا مقدس گرا دیا اور اجرام خطا کاری کے سبب سے دائمی قربانی سمیت اس کے حوالے کئے گئے او راس نے سچائی کو زمین پر پٹک دیا اور وہ کامیابی کے ساتھ یوں ہی کرتا رہا....“ (دانیال: ٨: ٣۔١٢)
دانیال کہتا ہے:
”تب میں نے ایک قدسی کو کلام کرتے سنا اور دوسرے قدسی نے اسی قدسی سے جو کلام کرتا تھا پوچھا کہ دائمی قربانی اور ویران کرنے والی خطا کاری کی رؤیا جس میں مقدس اور اجرام پامال ہوتے ہیں کب تک رہے گی؟ اور اس نے مجھ سے کہا کہ: دو ہزار تین سو صبح وشام تک۔ اس کے بعد مقدس پاک کیا جائے گا“۔ (دانیال: ٨: ١٣۔ ١٤)
عہد قدم کے کیتھولک نسخے میں صحیفہ دانیال کی یہ اختتامی عبارت یوں آتی ہے:
”دو ہزار تین سو صبح وشام تک پھر القدس کو اس کے حقوق واپس دلائے جائیں گے“۔
تب دانیال فرشتے سے اس کی تعبیر پوچھتا ہے۔ تب فرشتہ اس سے یوں مخاطب ہوتا ہے۔
”اے آدم زاد! سمجھ لے کہ یہ رؤیا (خواب) آخری زمانہ کی بابت ہے“۔ اور جب وہ مجھ سے باتیں کر رہا تھا میں گہری نیند میں منہ کے بل زمین پر پڑا تھا لیکن اس نے مجھے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور کہا کہ: ”دیکھ میں تجھے سمجھائوں گا کہ قہر کے آخر میں کیا ہو گا کیونکہ یہ امر آخری مقررہ وقت کی بابت ہے۔ جو مینڈھا تو نے دیکھا اس کے دونوں سینگ سادی اور فارس کے بادشاہ ہیں اور وہ جسیم بکرا یونان کا بادشاہ ہے اور اس کی آنکھوں کے درمیان کا بڑا سینگ پہلا بادشاہ ہے اور اس کے ٹوٹ جانے کے بعد اس کی جگہ جو چار اور نکلے وہ چار سلطنتیں ہیں جو اس کی قوم میں قائم ہوں گی لیکن ان کا اقتدار اس کا سا نہ ہوگا۔ [واقعتا ہوا بھی ایسے ہی۔ چنانچہ اسکندر کی وفات کے بعد یونانیوں کی دولت چار مملکتوں میں تقسیم ہوئی، جسے کہ یطلیموسوں کا دور کہا جاتا ہے۔] اور ان کی سلطنت کے آخری ایام میں جب خطاکار لوگ حد تک پہنچ جائیں گے تو ایک ترش رو اور رمز شناس بادشاہ برپا ہو گا یہ بڑا زبردست ہو گا لیکن اپنی قوت سے نہیں۔ اور یہ عجیب طرح سے برباد کرے گا اور برومند ہو گا اور کام کرے گا اور اپنی چترائی سے ایسے کام کرے گا کہ اس کی فطرت کے منصوبے اس کے ہاتھ میں خوب انجام پائیں گے اور دل میںبڑا گھمنڈ کرے گا اور صلح کے وقت میں بہتیروں کو ہلاک کرے گا۔ وہ بادشاہوں کے بادشاہ سے بھی مقابلہ کرنے کیلئے اٹھ کھڑا ہو گا لیکن بے ہاتھ ہلائے ہی شکست کھائے گا۔ اور یہ صبح شام کی رویا جو بیان ہوئی یقینی ہے لیکن تو اس رویا کو بند کر رکھ کیونکہ اس کا علاقہ بہت دور کے ایام سے ہے“۔ (دانیال: ٨: ٧١: ٦٢)
مگر دانیال کا تجسس ابھی اور بڑھتا ہے۔ خصوصاً جبکہ دانیال ایک ایسے دور میں رہتا ہے جس میں بابل اور فارس کی شہنشاہتوں کے مابین بڑے بڑے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ دانیال کو بہت تجسس ہے کہ اس کی مصیبت زدہ اور غلام کر لی جانے والی قوم کا کیا انجام ہوتا ہے۔ اس کو یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ مقدس (بیت المقدس) کا کیا بنتا ہے اور اس پر کون تسلط پاتا ہے۔ تب وہ ازسرنو دُعا ومناجات کرنے لگتا ہے۔ گریہ زاری کرتا ہے یہاں تک کہ خدا کی جانب سے اس کو ایک اور رؤیا دی جاتی ہے جو پچھلی رؤیاؤں سے بھی زیادہ واضح اور دقیق ہے اور اس میں زمانہ اور تعداد کی بابت زیادہ دقت پائی جاتی ہے۔مگر اس کی تعبیر بہت پیچیدہ کر دی گئی ہے۔ جس کو پڑھ کر ہمیں اس بارے میں کوئی شک نہیں رہتا کہ یہاں ان لوگوں نے ضرور کوئی تحریف کی ہے اور اس کے جلی پن کو ابہام میں بدل دیا ہے۔ یہ ’ہفتوں والے خواب‘ رؤیا الاسابیع کے نام سے مشہور ہے جس میں فرشتہ دانیال سے کہتا ہے:
”تیرے لوگوں اور تیرے مقدس شہر کیلئے ستر ہفتے مقرر کئے گئے کہ خطا کاری اور گناہ کا خاتمہ ہو۔ بدکرداری کا کفارہ دیا جائے۔ ابدی راستبازی قائم ہو اور ختم رؤیا وختم نبوت ہو۔ [اردو بائبل کے الفاظ ہیں: ”رؤیا و نبوت پر مہر ہو“ مگر ہم نے اس کی جگہ ’ختم رؤیا وختم نبوت ہو‘ کے لفظ استعمال کئے ہیں کیونکہ عربی بائبل میں ’ختم الرؤیا والنبوت‘ کے لفظ آئے ہیں اور انگریزی بائبل میں آتا ہے:
and to seal up the vision and prophecy
] اور پاک ترین مقام محموح کیا جائے۔ پس تو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے محسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہونگے .... (دانیال: ٩: ٢٢۔ ٢٥)
یہاں تک کہ فرشتہ اسے کہتا ہے:
”اور ایک بادشاہ آئے گا جس کے لوگ شہر اور مقدس کو مسمار کریں گے اور اس کا انجام گویا طوفان کے ساتھ ہو گا اور آخر تک لڑائی رہے گی۔ بربادی مقرر ہو چکی ہے۔ اور وہ ایک ہفتہ کیلئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا اور ہفتہ کے وسط میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کرے گا اور فصیلوں پر اجاڑنے والی مکروہات رکھی جائیں گی۔ یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائے گی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اس اجاڑنے والے پر واقع ہو گی“۔ (دانیال: ٩: ٢٦۔٢٧)
بائبل کے کیتھولک نسخے میں ہے:
”ایک بادشاہ آئے گا اور وہ لوگ شہر اور مقدس کو مسمار کریں گے اور طوفان کے ساتھ ہی اس کا خاتمہ ہو گا۔ انجام تک ہی وہ قتال اور اجاڑنے کا عمل جاری رہے گا۔ اور وہ ایک ہفتے کیلئے بہت سوں سے پختہ عہد قائم کرے گا اور آدھے ہفتے میں وہ ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کرے گا۔ اور ہیکل کے اطراف میں بربادی کی بدنمائی ہو گی یہاں تک کہ وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اس اجاڑنے والے پر واقع ہوگی“۔
اس ابہام کے باعث ہم یقینی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہاں تحریف واقع ہوئی ہے۔ اگرچہ بعض تحقیق نگاروں نے اس کی ایسی تفسیر کرنے پر قابل تحسین محنت بھی کی ہے جو میلاد مسیح یا بعثت محمد کے ساتھ مطابقت رکھے۔
بہرحال دانیال ان واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا زمانی تسلسل جانا جاتا ہے۔ مگر یہ واقع کیسے ہونگے؟ آخر انسان ہے اور اس بات کا جواب پانے کیلئے ابھی تجسس قائم ہے۔ خدا مہربان ہے ہر بار دُعا سن لیتا ہے۔ دانیال پھر دُعا ومناجات اور گریہ وعبادت کا سہارا لیتا ہے۔ تب فرشتہ پھر آتا ہے اور اس سے مخاطب ہوتا ہے:
”پر اب میں اس لئے آیا ہوں کہ جو کچھ تیرے لوگوں پر آخری ایام میں آنے کو ہے تجھے اس کی خبر دوں کیونکہ ہنوز یہ رؤیا زمانہءدراز کیلئے ہے“۔ (دانیال: 10: ٤١)
یہاں اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس بات کی بار بار نشاندہی ہوئی ہے کہ اس رؤیا کی تعبیر زمانہء آخر میں وقوع پذیر ہونے والی ہے تاکہ دانیال کو کوئی غلط فہمی باقی نہ رہ جائے۔ کیونکہ دانیال کو مستقبل قریب کو جاننے کا تجسس تھا جبکہ یہ رؤیا اس سے اہم تر معاملے کی خبر دے رہی ہے جو کہ آخری زمانے کے واقعات ہوں گے۔ اور فرشتہ دانیال کو تاکید کرتا ہے کہ وہ اس بات کو فراموش نہ کردے اور یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ یہ قریبی زمانے میں پیش آنے والا ہے۔ اگرچہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دانیال کو بعض قریب میں رونما ہونے والے واقعات بھی بتا دیتا ہے جو کہ فارس اور یونان کے بادشاہوں کے مابین جنگ اور پھر شمال کے ملک اور جنوب کے ملک کے مابین جنگوں کے واقعات الگ سے بتاتا ہے۔ اس میں ہمارے لئے قابل توجہ اس کے یہ الفاظ ہیں:
”چنانچہ شاہ شمال آئے گا اور دمدمہ باندھے گا اور حصین شہر لے لیگا اور جنوب کی طاقت قائم نہ رہے گی۔ وہ اس جلالی ملک میں قیام کرے گا اور اسکے ہاتھ میں بربادی کا ناپاک سبب ہو گا“۔ (دانیال: ١١: ١٥۔ ١٦)
یہ اشارہ ہے ایک مشرکانہ حکومت کی جانب جو بیت المقدس پر تسلط حاصل کرے گی اور اس میں اپنی عبادات قائم کرے گی۔ اہل کتاب میں اختلاف ہوا ہے کہ وہ کونسی حکومت ہو گی؟ مگر ہمارے لئے یہ اہم نہیں۔ ہمیں جس بات سے غرض ہے وہ یہ کہ صحیفہ دانیال ’بربادی کے ناپاک سبب‘ کی ماہیت واضح کرتا ہے جو کہ زمانہء آخر میں روپذیر ہوگا اور جس کو وہ ’درندہ‘ یا ’چھوٹا سینگ‘ اسی سرزمین میں قائم کرے گا اور یہ کہ ’بربادی کا یہ ناپاک سبب‘ ایک مملکت ہو گی۔ چنانچہ ایک ہی نام ہے یعنی ’بربادی کا ناپاک یا منحوس سبب‘ مگر یہاں وہ مملکت مشرکانہ حیثیت میں بیان ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا وصف جو کہ پہلے گزر چکا وہ یہ کہ یہ ’اسرائیلی‘ ہوگی!!
بہرحال یہ گفتگو ختم ہوتی ہے تو قیامت کے آنے اور مردوںکے اٹھائے جانے کا ذکر ہوتا ہے۔ فرشتہ دانیال کو نصیحت کرتا ہے:
”لیکن تو اے دانیال ان باتوں کو بند رکھ اور کتاب پر آخری زمانہ تک مہر لگا دے۔ بہتیرے اس کی تفتیش وتحقیق کریں گے اور دانش افزوں ہوگی“۔ (دانیال: ٢١:٤)
تاہم ایک فرشتہ دوسرے کو مخاطب کرکے، اور دانیال کو سناتے ہوئے، یہ بھی کہتا ہے:
”اور جب وہ مقدس لوگوںکے اقتدار کو نیست کر چکیں گے تو یہ سب کچھ پورا ہو جائے گا“۔ (دانیال: ١٢:٧)
تب دانیال کہتا ہے:
”اور میں نے سنا پر سمجھ نہ سکا۔ تب میں نے کہا اے میرے خداوند ان کا انجام کیا ہوگا؟ اس نے کہا اے دانیال تو اپنی راہ لے کیونکہ یہ باتیں آخری وقت تک بند وسربمہر رہیں گی“....
”اور جس وقت سے دائمی قربانی موقوف کی جائے گی اور وہ اجاڑنے والی مکروہ چیز نصب کی جائے گی ایک ہزار دو سو نوے دن ہوں گے۔ مبارک ہے وہ جو ایک ہزار تین سو پنتیس روز تک انتظار کرتا ہے۔ پر تو اپنی راہ لے جب تک کہ مدت پوری نہ ہو کیونکہ تو آرام کرے گا“ .... (دانیال: ١٢: ٨۔١٣)
یہاں صحیفہء دانیال ختم ہو جاتا ہے اور دانیال مطمئن ہو رہتا ہے جبکہ اسے یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ بیت المقدس کے حقوق ٥٤ سال بعد واپس ہو جائیں گے!!
مگر اہل کتاب ان واقعات جن کی پیشین گوئی ہوئی ہرگز مطمئن نہ ہوئے اور نہ ہی ہوں گے سوائے ان میں سے ایک ایسے شخص کے جو تعصب چھوڑنا قبول کرے اور آنکھیں کھول کر حقائق کو دیکھنے پر تیار ہو۔ یہ خود بھی تھکتے ہیں اور پوری دُنیا کو بھی اور ساتھ ہمیں بھی تھکاتے ہیں....
اوپر کی جو گفتگو اختصار سے پیش کی گئی اس میں وہ بہت اہم پیشین گوئیاں مذکور ہو گئی ہیں جو ”دانیال کی پیشین گوئیوں“ کے ذیل میں اہل کتاب کے ہاں پائی جاتی ہیں۔ ان پیشین گوئیوں میں کئی امور ہمارے سامنے آتے ہیں۔
١) پچھلے باب میں ہم ”چھوٹے سینگ“ کی بابت جو ذکر کر آئے ہیں اس کا یہاں اور بھی تاکید سے ذکر ہوا ہے۔ یہ ”چھوٹا سینگ“ ان پیشگوئیوں کی رو سے مکار ہے۔ حیلہ جو ہے۔ زندیق یعنی الحاد کو پھیلانے والا ہے۔ یہ اپنی قوت کے بل پر قائم نہیں بلکہ دوسروں کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔اس کا دشمن قدوسیوں کی قوم ہے جو کہ آج اس دور میں خاتم الانبیاءکی امت ہی ہو سکتی ہے۔ چنانچہ یہ ان پر اپنی بڑائی کرتا ہے۔ ان کے سرداروں کے سردار (خلیفہ) کو گراتا ہے بغیر اپنی کسی فوج کو استعمال کئے۔ یہ سب سے خبیث حرکت یہ کرتا ہے کہ اپنی فوج کے ساتھ بیت المقدس کو پامال کرتا ہے اور اس کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے اور یہاں عبادت کو موقوف کر دیتا ہے۔ یہاں بیت اللہ کو گراتا ہے اور اس میں اپنی وہ مملکت بناتا ہے جس کو ’بربادی کا ناپاک سبب‘ قرار دیا گیا ہے۔
٢) یہ ”چھوٹا سینگ“ یہ کام جس دور میں کرتا ہے تو یہ آخری (ابدی) مملکت کے اقتدار کا دور ہے یعنی کہ قدوسیوں کے اقتدار کا دور۔ [مراد ہے مسلمانوں کے اقتدار کا دور (مترجم)] یہ فارس اور روم کی سلطنت کا دو رنہیں.... اس ناپاک مملکت کا قیام ان پیش گوئیوں کی رو سے یہ معنی نہیں رکھتا کہ یہ قدوسیوں (امت محمد) کی ابدی مملکت کا خاتمہ ہے۔ یہ بات صحیفہء دانیال متعدد موقعوں پر بہت واضح کرتا ہے یعنی اس ناپاک ریاست کا قیام ایک وقتی واقعہ ہو گا۔ زمان اور مکان کے لحاظ سے یہ ایک محدود وقفہ آئے گا جس کا قدوسیوں کی ابدی مملکت کچھ دیر کیلئے شکار ہو گی۔ چنانچہ اس ناپاک ریاست کا سرزمین مقدس پر قابض ہو جانا ان پیشین گوئیوں میں اس انداز کا نہیں جو دانیال کے صحفیے میں چار حیوانات والی رؤیا کے اندر آتا ہے اور جس میں کہ ایک بڑا دیوہیکل جانور باقی جانوروں پر غالب آجاتا ہے۔ مگر یہاں، یعنی چھوٹے سینگ کے معاملے میں، ایسی کوئی بھی بات نہیں ملتی۔ یہ ایک چھوٹا سینگ ہے۔ اس کے تسلط کا دائرہ بہرحال محدود ہے۔ البتہ اس کا مکرو خباثت بہت عظیم ہے اور اس کو چالبازی کی بڑی صلاحیت دی گئی ہے۔ پھر اس کے پیچھے ایک سپر پاور ہے جو کہ اس کی پشت بان ہے۔ پھر یہ واقعہ کچھ ایسے دور میں پیش آتا ہے جو کہ ایک شدید مصیبت اور فتنہ وتکلیف کا دور ہے۔ (ملاحظہ کیجئے دانیال: ٢١:١: ”اور وہ ایسی تکلیف کا وقت ہو گا کہ ابتدائے اقوام سے اس وقت تک کبھی نہ ہو گا“) مگر اس پیشین گوئی میں ہی یہ واضح ہے کہ یہ تکلیف کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور قدوسی (اُمت محمد) پھر سے فتح پا لیتے ہیں اور اس روز خوش ہوتے ہیں جس روز یہ ’بربادی کا منحوس سبب‘ ٹلتا ہے اور بیت المقدس پاک کیا جاتا ہے۔ مزید برآں یہ ”چھوٹا سینگ“ منہدم کرتا ہے اور تعمیر کرتا ہے۔ یعنی یہ خدا کے مقدس گھر کو گراتا ہے اور وہاں پر پلیدی کے مقامات تعمیر کرتا ہے۔ چنانچہ اس ’پلیدی کے مقام‘ کے حوالے سے بعض اہل کتاب کے شارحین لکھتے ہیں یہ کوئی ’بت ہو گا جو ہیکل میں نصب‘ کیا جائے گا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ’ہیکل ہو گا جو مسجد میں قائم‘ کیا جائے گا۔ ’مقدس میں پلیدی کے قیام‘ کی یہ تفسیر جو وہ کرتے ہیں۔ اور جو ہم نے کی ہے دونوں ہی ’پلیدی‘ کی تفسیر کرتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی امت کے عبادت خانے میں کہیں باہر کی قوم کی عمارت کھڑی ہونا، اقتدار اور فوجی طاقت کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ اس ’پلیدی‘ کا ایک خصوصی معنی ہے اور ایک عمومی۔ اس کا عمومی معنی ہے اس سرزمین مقدس میں ایک پلید مملکت کا قائم ہو جانا جبکہ اس کا خصوصی معنی ہو گا اس مملکت کا بیت المقدس مسجد کے احاطے میں کوئی بت یا پلید مرکز قائم کرلینا جس کی یا جس کے اندر یہ اپنی پوجا پاٹ کرے گی! پھر اسی طرح اس بت یا اس پلیدی کا خدا کے گھر سے ہٹایا جانا بھی (مسلمانوں کی) ایک فوج اورایک اقتدار کے بغیر نہ ہو گا جس طرح کہ رسول اللہ نے فتح مکہ کے بعد بیت اللہ سے بتوں کی پلیدی ہٹائی تھی۔ ایسا ہی کام آپ کے پیروکار کریں گے جب وہ بیت المقدس لیں گے اور اس میں پلید ریالست کی پھیلائی ہوئی پلیدی اور نحوست اور بربادی کے اسباب کا خاتمہ کریں گے (اور یہ بھی کیا بعید کہ مسجد اقصیٰ میں تب بھی کوئی ہیکل نہ ہو اور مسجد کے اندر پلیدی صرف صہیونی ریاست کا یہ پرچم ہو) یہی وجہ ہے کہ اہل کتاب کے اکثر شارحین اس بابت کوئی شک نہیں رکھتے کہ ’ویران کرنے والی خطا کاری‘ دراصل ایک تباہی لے آنے والی ریاست کا قیام ہے جو ارض قدس میں ہو گا۔ مگر یہ ریاست کونسی ہوگی؟ اس کے جواب میں یہ بات غور طلب ہونی چاہئے کہ تینوں امتیں جو اس سرزمین کو مقدس مانتی ہیں اور اس خطے کی تعظیم کرتی ہیں (مسلمان، عیسائی اور یہودی) یہاں اس سرزمین میں ان تینوں امتوں کا باری باری اقتدار قائم ہو چکا اور تینوں کا ایک دوسرے کے بعد یہاں غلبہ ہو لیا۔ اب لازمی بات ہے کہ ان تینوں میں سے ایک کا اقتدار ضرور ہی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔
یہاں ہم اس پوزیشن میں آجاتے ہیں کہ ہم صرف دانیال کے کلام سے ہی نہیں بلکہ تاریخی اور واقعاتی شواہد کی بنا پر بھی اس ریاست کا تعین کریں جو بربادی کا منحوس پیش خیمہ ہو گی۔ اس معاملے میں ایک بے انتہا اہم بات یہ ہے کہ اس بربادی کا منحوس پیش خیمہ بننے والی ریاست کا مسیح علیہ السلام کی بعثت کے بعد ہونا ضروری ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ انجیل متی اور ان کے کچھ دوسرے صحیفوں میں یہ بات بوضاحت پائی جاتی ہے کہ مسیح علیہ السلام نے ایک بار دانیال کی پیشین گوئی کا بذات خود حوالہ دیا تھا اور اس میں مذکور تباہی کا وقت زمانہء آخر بتایا تھا جس کی کہ آگے چل کر تفصیل آرہی ہے۔ چنانچہ یہاں سے ان لوگوں کا دعویٰ صاف باطل ہو جاتا ہے جو کہتے ہیں کہ یہ ’بربادی کا منحوس سبب‘ یا یہ ’پلیدی‘ بیت القدس میں پائے جانے کا واقعہ قبل مسیح دور سے تعلق رکھتا ہے اور یہ کہ اس سے مراد وہاں پر ’زیوس‘ بت کے ہیکل کا بننا ہے جو کہ قبل مسیح ہو چکا ہے۔ کیونکہ انجیل متی کی رو سے یہ واقعہ بہرحال عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے بعد ہی رونما ہو سکتا ہے۔
اسی طرح ان لوگوں کے دعویٰ کی غلطی بھی واضح ہے جو اس ’بربادی‘ کا تعلق ان واقعات سے جوڑتے ہیں جو عیسی علیہ السلام کے اٹھائے جانے کے کئی عشرے بعد (٧٠ءیا ١٣٥ء) میں پیش آئے۔ اس بات کا غلط ہونا بھی کئی وجوہ سے واضح ہے:
١) تاریخی واقعات کی فہرست میں یہ واقعات معمولی سمجھے جاتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ میں ایسے واقعات بارہا پیش آچکے ہیں جیسا کہ عہود قضاہ میں پیش آچکا ہے۔
٢) دوسری بات یہ کہ یہودی اس وقت عیسی علیہ السلام کی رسالت کے ساتھ کفر کرکے کافر ہو چکے تھے جبکہ ان واقعات کی آفت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانے والوں پہ ٹوٹی تھی۔
٣) پھر یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کے چند عشرے بعد پیش آنے والے یہ واقعات ان حالات اور شروط سے مطابقت نہیں رکھتے جو دانیال اور مسیح علیہ السلام نے بیان کی ہیں۔ بلکہ یہ ان بیشتر توراتی صحیفوں کے بیان کردہ ان امور سے مطابقت نہیں رکھتے جو یہود کی سرزمین مقدس میں واپسی، ان کے وہاں محاکمہ اور ان کے وہاں منحوس اجتماع ہونے اور خدا کی منتخب امت کے ہاتھوں ان پر خدا کا غضب نازل ہونے ایسے واقعات سے بحث کرتے ہیں اور جن کے بارے میں آگے چل کر ہم گفتگو کریں گے تاکہ قاری کے ہاں کوئی شک باقی نہ رہے کہ بربادی کا یہ عظیم واقعہ پرانے دور سے متعلق نہیں بلکہ اس کو ابھی پیش آنا ہے۔
جہاں تک ان توراتی صحیفوں کے یہودی شارحین کا تعلق ہے تو وہ تو چونکہ مسیح علیہ السلام پر ہی سرے سے ایمان نہیں رکھتے اور نہ عیسیٰ علیہ السلام کی بیان کردہ کسی بات کو درخور اعتنا جانتے ہیں لہٰذا وہ تو ’بربادی کے اس منحوس سبب‘ کی تفسیر یہ کرتے ہیں کہ یہ ہیکل کے مقام پر کسی بت کا قائم ہونا ہے۔ اس کے بعد وہ اس اختلاف کو حل کرنے میں سرگرداں ہو جاتے ہیں کہ ہیکل کے مقام پر بت کے قائم ہونے کا یہ واقعہ کب پیش آیا یا کب پیش آئے گا۔ ان میں سے بعض کا خیال ہے یہ قبل مسیح سے متعلق ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس کے بعد۔ البتہ اس بارہ میں یہ شدید اضطراب میں مبتلا ہوئے ہیں کہ اس زمانے کی بابت کیا کریں جس کا تعین دانیال کے صحیفے نے بہت دقت کے ساتھ کیا ہے۔ خصوصاً ان میں سے وہ لوگ تو اور بھی مشکل میں پڑے جو دانیال کی بتائی ہوئی مدت میں دنوں کا مطلب ظاہری معنی میں دن ہی مراد لیتے ہیں۔ البتہ ان میں سے جنہوں نے دنوں کی تفسیر سالوں سے کی وہ یہ ماننے کا آپ سے آپ پابند ہوا کہ یہ واقعہ پرانے زمانے میں پیش نہیں آیا اور نہ ہی دو ہزار تین سو سال پورے ہونے سے پہلے یہ پیش آئے گا۔پرانے زمانے میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہ ہوا ہونے کی بطور خاص یہ دلیل بھی بہت واضح ہے کہ دانیال کی پیشین گوئی میں دنوں سے مراد اگر ظاہری معنی میں دن ہی لئے جائیں تو تاریخی طور پر کہیں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ ٢٣٠٠ دن بعد کوئی مملکت قائم ہوئی ہو اور وہ ٤٥ دن قائم رہی ہو اور پھر وہ ختم ہو گئی ہو!!
یہ ایک اتنا معمولی واقعہ ہوتا کہ تاریخ کو ایک جملہ معترضہ سے بڑھ کر اس کا کوئی ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہ ہوتی!!
پھر جبکہ صورتحال یہ ہے کہ خود توراتی صحفیے ہی دن کی تفسیر سال سے کرتے ہیں۔ مثلا صحیفہء حزقبال میں آتا ہے:
”اور چالیس دن تک بنی یہوداہ کی بدکرداری کو برداشت کر۔ میں نے تیرے لئے ایک ایک سال کے بدلے ایک ایک دن مقرر کیا ہے“۔ (حزقبال: ٤:٦)
پھر اسی طرح دانیال کی اپنی پیشین گوئی کے الفاظ: ”مبارک ہے وہ جو .... انتظار کرتا ہے“ اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ لمبی مدت ہے ورنہ ٤٥ دن انتظار کیلئے کوئی مدت نہیں بلکہ انتظار کیلئے ٤٥ سال ہی مناسب مدت ہو سکتی ہے....
پھر اہم بات یہ ہے کہ ہمارے پاس یہود ہی کی شہادت موجود ہے۔ یہودیوں میں سے ایک گروہ شروع سے لے کر اب تک علی الاعلان یہ کہتا آیا ہے کہ صہیونی اقتدار جو کہ ارض مقدس میں اس وقت قائم ہے وہی بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ یہودیوں کا یہ وہ گروہ ہے جو اپنے پیروکاروں کو شروع سے لے کر آج تک صہیونی افکار کی خطرناکی سے خبردار کرتا آیا ہے۔ یہ گروہ اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یہودیوں کا اس وقت سرزمین مقدس میں اکٹھا ہونا خدا کا غضب نازل ہونے اور خدائی انتقام واقع ہونے کا مقدمہ ہے۔ امریکہ میں یہودیوں کے اس گروہ کی خاصی تعداد موجود ہے اور اس کے علاوہ دوسرے ملکوں میں اس کا قابل لحاظ وجود ہے۔ پھر ان میں سے بعض لوگ ایمان تو اسی حقیقت پررکھتے ہیں البتہ اس کی تفسیر ایک سیکولر انداز میں کرتے ہیں ان میں مشہور ترین شخصیت عالمی لغت دان مفکر ”نعوم چومسکی“ ہے۔ پھر اسی عقیدے کے حامل بعض ایسے یہودی گروہ بھی ہیں جو مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ہی سکونت پذیر ہیں مگر دولت اسرائیل کے ساتھ نہیں۔ ان میں کی مشہور شخصیت حاضام ہیرش ہے جو کہ یاسرعرفات کی کابینہ میں وزیر امور یہود ہے۔ اس کا گروہ ”ناتوریم کارٹا“ کہلاتا ہے یعنی ”پاسبانان بستی“۔
یہود کو چھوڑ کر اب ہم عیسائی شارحین کی طرف آتے ہیں....
وہ مشترک غلطی جو ان دونوں گروہوں (یہودیوں اور عیسائیوں) کو گمراہ کرتی آئی ہے وہ یہ کہ ’بربادی کی نحوست‘ سے ان کے نزدیک مراد یہودیوں کے علاوہ کوئی قوم ہے۔ یہودیوں کے علاوہ جتنی اقوام ہیں وہ ان دونوں گروہوں کی اصطلاح میں ’بت پرست‘ کہلاتی ہیں۔ چنانچہ یہاں سے ان کے لئے یہ بات آسان ہو جاتی ہے کہ یہ کسی بھی غیر یہودی قوم کے اقتدار کو ’بت پرست مملکت‘ قرار دے کر اسی کو ’بربادی کا پیش خیمہ‘ ٹھہرا دیں اور یوں کسی بھی غیر یہودی مملکت کو دانیال کی اس پیشین گوئی کا مصداق بنا دیں۔ یہاں تک کہ ٹی بی بیٹس بھی باوجود اس کے کہ وہ یہ مانتا ہے کہ یہودی بھی اپنی پوجا پاٹ میں مشرک ہوجائیں گے ’بربادی کی نحوست‘ کی تفسیر ’اشوری مملکت‘ سے کرتا ہے جو اس کے خیال میں آخری زمانہ میں بیت المقدس پر حملہ آور ہو گی۔ (دیکھیے اس کی کتاب کا صفحہ ٢٠٩)
Bates کا تو ہو سکتا ہے کوئی عذر ہو کیونکہ اس نے یہ سب کچھ قیام اسرائیل سے بہت پہلے لکھا تھا اور اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہ آسکتا تھا کہ سرزمین مقدس میں کبھی یہودیوں کی کوئی مملکت بھی قائم ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں یہودیوں کے یروشلم واپس آنے کا ذکر کیا بھی وہاں ان کا ذکر بطور مملکت نہیں کیا بلکہ ایک ٹولے یا گروہ کے طور پر کیا۔ جیسا کہ ہم پچھلے باب میں اس پر کچھ بات کر آئے ہیں۔
مزید یہ کہ Bates بھی اور اس جیسے اس زمانے کے اور لوگ بھی یہی تصور رکھتے تھے کہ یہودی سرزمین مقدس میں مسلمان حکومتوں کے زیر اقتدار شدید مظلوم اور مقہور ہوں گے لہٰذا میلینیم پورا ہوتے ہی یا پھر مسیح کا ظہور تو ہونے کے ساتھ ہی یہودی مسیح پر ایمان لے آنے میں دیر نہ کریں گے۔ بلکہ ماکنٹوش تو مسیح کا معجزہ ہی یہ بتاتا ہے کہ اس بار ان پر یہودی ایمان لے آئیں گے۔ ماکنٹوش لکھتا ہے:
”ساری دُنیا کی حیرت اس دن اس بات پر ہو گی کہ یہ پلید قوم کیونکر رب کی تقدیس کرنے لگی ہے“۔ [بحوالہ مجلہ ”المراعی الخضراءاشاعت جولائی ١٩٣٤ ص ١٦، ضمیمہ ”پیشین گوئیوں کی شرح“]
اس کی وجہ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ ”ان (یہودیوں) میں سے صرف ایک تہائی ہو گی جو بھسم کر دینے والی آگ سے نجات پائیں گے“ اس کا اشارہ صحیفوں کی ان عبارتوں کی جانب ہے جو ’بربادی کے سبب‘ کے انجام سے بحث کرتی ہیں اور جن پر ہم اگلی فصل میں گفتگو کریں گے۔
چنانچہ ان عیسائی شارحین کے ہاتھ صرف آدھی حقیقت لگی ہے یعنی یہودیوں کا کافر اور نجس ہونا۔ رہا یہ کہ ان کی ایک مملکت بھی قائم ہو گی تو یہ حقیقت کا وہ آدھا حصہ ہے جو پرانے عیسائی شارحین کے ہاتھ نہ لگا۔ اس کے باوجود یہ پرانے عیسائی شارحین ان صحفیوں کے ان تمام مفسروں اور تاریخ نگاروں سے بہتر ثابت ہوئے ہیں جن کی تفاسیر پر ہمارے آج کے دور کے اہل کتاب بنیاد پرستوں کا سہارا ہے اور جس کی بنیاد پر یہ ’یروشلم میں بربادی کے پیش خیمہ‘ کی انتہائی خباثت پر مبنی تفسیر کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک بد بخت سٹیفن رنس مین ہے جو ’صلیبی جنگوں کی تاریخ‘ نامی مشہور کتاب کا مصنف ہے اور یوں لکھتا ہے:
”فروری ٨٣٦ءکے ایک روز یروشلم میں خلیفہ عمر بن الخطاب کا داخلہ ہوا....
خلیفہ کے ایک طرف پیٹریارک صغرونیوس چل رہا تھا کیونکہ ہتھیار پھینک دینے کے بعد شہر کی انتظامیہ کا اب وہی سربراہ تھا۔ عمر نے شہر میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ہیکل سلیمانی (؟!!) کا رخ کیا جہاں سے اس کے پیشوا محمد آسمان کی طرف معراج پر گئے تھے۔ جس دوران پیٹریارک عمر کو وہاں قیام کی حالت میں دیکھ رہا تھا تب اس کے ذہن میں مسیح کے یہ اقوال گھومنے لگے اور وہ اپنی غمناک آنکھوں سے مسیح کے ان الفاظ کا مصداق دیکھنے لگا:
”پس جب تم بربادی کا وہ منحوس سبب دیکھ لو جس کی دانیال نے پیش گوئی کر رکھی ہے....“
پیٹریارک کا یروشلم میں خدمت عامہ کا یہ آخری کام تھا جو اس نے انجام دیا۔ اپنی طویل زندگی میں، جو کہ ارتھوڈکس مذہب کی خدمت اور مسیحی دُنیا کے اتحاد کیلئے کوششیں کرتے گزری، پیٹریاک نے یہ سب سے المناک سانحہ دیکھاتھا“۔ (دیکھئے کتاب ”صلیبی جنگوں کی تاریخ“ ص ٧١، ٩١)
یہی رائے مشہور عرب عیسائی مورخ فلپ ہٹی کی بھی ہے۔
جبکہ عیسائیوں میں سے وہ محققین جن کو خدا نے ہدایت نصیب فرمائی انہوں نے اس ذہنیت کا رد بھی کیا ہے۔ بلکہ ان میں سے بعض نے تو عمر کے بیت المقدس میں آنے کی بابت تورات سے ایک پیشین گوئی کا بھی حوالہ دیا ہے جو کہ صیحفہء زکریاہ میں آیا ہے۔
”اے بنت صہیون تو نہایت شادمان ہو۔ اے دختر یروشلم خوب للکار کیونکہ دیکھ تیرا بادشاہ تیسرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اس کے ہاتھ میں ہے“....
”اور وہ قوموں کو صلح کا مژدہ دے گا اور اس کی سلطنت سمندر سے سمندر تک اور دریائے فرات سے انتہائے زمین تک [اس سے پہلی فارس یا روم کے کسی بادشاہ کی فرمانروائی بحر فارس سے بحر روم تک اور دریائے فرات سے عدن (یمن) تک کی تمام زمین پر نہیں ہوئی۔ یہ صرف عمر کا امتیاز ٹھہرا کہ ان کی اس پوری سرزمین پر فرمانروائی ہوئی اور پھر عمر بن الخطاب کے بعد اس ”ابدی مملکت“ کے دوسرے خلفاءکو بھی یہ بات حاصل رہی۔]ہوگی“۔ (زکریاہ: ٩:٩۔١٠)
یہ وہ پیشین گوئی ہے جسے عیسائی زبردستی عیسیٰ علیہ السلام کے بیت المقدس داخلہ پر چسپاں کرتے ہیں جب آپ تن تنہا بیت المقدس کی زیارت کو آتے تھے۔ بے شک اسلام کے فتح بیت المقدس کی کوئی بھی پیشین گوئی نہ ہو اور بے شک بیت المقدس کے فاتح عمر نہ ہوں پھر بھی ’بربادی کا منحوس سبب‘ جیسا وصف امت توحید اور اس کی فتوحات سے کوئی دور کا بھی میل نہیں رکھتا کہ اس امت نے اور اس کی فتوحات نے تو انسانیت کو اندھیروں اور بربادی کی نحوستوں سے نکال کر روشنی اور پاکیزگی سے روشناس کرایا تھا۔ یہ بات خدا کے فضل سے ایسی ہے کہ ساری تاریخ اس بات پر گواہ ہے اور اس کا انکار محض وہی شخص کرے گا جسے تعصب اور ہٹ دھرمی نے اندھا کر دیا ہو اور کینہ وبغض نے اس کے قوائے تفکر معطل کر دیئے ہوں۔
پھر اگر یہ عیسائی عمر کے ہاتھوں فتح بیت المقدس کے واقع کو دانیال کی پیشین گوئی میں مذکور ’بربادی کے منحوس سبب‘ پر ہی معاذ اللہ چسپاں کرتے ہیں تو پھر اس پر تو ٢٣٠٠ سال کی وہ مدت ہی پوری نہیں ہوتی جو دانیال کی پیشین گوئی میں مذکور ہوتی ہے چاہے اس مدت کی پیمائش آپ دانیال کی وفات کے وقت سے کرلیں چاہے سکندری کیلنڈر سے۔ کیونکہ دانیال سن ٤٥٣ قبل مسیح میں فوت ہوتا ہے۔ چنانچہ دانیال کے سن وفات اورعمر کے فتح بیت المقدس کے مابین جو مدت بنتی ہے (=٦٣٨+٤٥٣) ١٠٩١سال!!
اگر آپ سکندری کیلنڈر کے حساب سے کریں تو پھر یہ مدت صرف (=٦٣٨+٣٣٣) ٩٧١ سال بنتی ہے!!
یہاں اب یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ دانیال کے ذکر کردہ اعداد پر کچھ بات کی جائے اگرچہ ہم چاہتے تھے کہ اس پر بعد میں گفتگو ہو کیونکہ ثابت حقائق اور مستند واقعات ہمیں اس پر گفتگو سے مستغنی کر دیتے ہیں۔ تاہم اس معاملے کی پوری تصویر سامنے لائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں:
دانیال کی پیشین گوئی کی رو سے ’بربادی کا منحوس سبب‘ ٢٣٠٠سال تک جا کر قائم ہو گا یعنی کہ ٢٣٠٠ سال بعد۔ کیونکہ یہ اسلوب (کب تک، اس وقت تک) اس رؤیا میں بار بار آتا ہے اور کچھ دوسرے صحیفوں میں بھی آتا ہے۔ یہ دراصل تراجم کی غلطی ہے یا یوں کہیے غالباً یہ لفظی ترجمہ کی غلطی ہے۔ خاص طور پر جبکہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ صحیفہ دانیال میں بار بار یہ تاکید ہوتی ہے کہ اس پیشین گوئی کا تعلق زمانہ آخر سے ہے جب خدا کا غضب آئے گا اور یہ کہ اس کا واقع ہونا ابھی بہت دور ہے یہ بات صحیفہ سے مکرر ثابت ہے۔
اس معاملے میں کسی بھی محقق کو، جو کہ اس پیشین گوئی میں دن سے مراد سال لیتا ہے ہم سے اختلاف نہیں۔ پیچھے ہم یہ واضح کر آئے ہیں کہ کہ اس کی لفظی تفسیر یعنی دن سے مراد دن ہی لینا درست نہیں۔
اصل اختلاف یہ ہے کہ ٢٣٠٠سال کی اس مدت کا نقطئہ آغاز کیا مانا جائے؟
اس بارے میں ان لوگوں کے جتنے اقوال ہیں وہ چانسی Chauncy کی جھوٹی شرح سے معلوم کئے جا سکتے ہیں جو کہ اس کے اپنے بقول پچاسی تفاسیر کا خلاصہ ہے۔ چانسی کے ذکر کردہ اقوال کا خلاصہ ہندوستان کے مشہور عالم اور مناظر علامہ رحمہ اللہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”اس پیشین گوئی کی مدت کے زمانہءآغاز کا تعین کرنے کے معاملہ میں ان کے علماءکے نزدیک شروع سے لے کر ایک بڑا اشکال پایا جاتا ہے۔ زیادہ تر نے یہ رائے اختیار کی ہے کہ اس مدت کا نقطہءآغاز ان چار زمانوں میں سے کوئی ایک زمانہ ہے جن میں فارس کے سلاطین نے یکے بعد دیگرے یروشلم کی بحالی کی بابت فرامین جاری کئے تھے۔ یہ چار زمانے یوں بنتے ہیں:
پہلا: سن ٦٣٦قبل مسیح۔ جب فورس نے فرمان جاری کیا
دوسرا: سن ٥١٨قبل مسیح۔ جب دارا نے فرمان جاری کیا
تیسرا: سن ٤٥٨ق مسیح۔ جب اردشیر نے عزیر کیلئے فرمان جاری کیا۔
چوتھا: سن ٤٤٤قبل مسیح۔ جب اردشیر نے نحمیاہ نبی کیلئے اپنا آخری فرمان جاری کیا۔
جبکہ دنوں سے یہ سال مراد لیتے ہیں اس بنا پر اس مدت کا خاتمہ ] یعنی اس واقعہ کے پیش آنے کا وقت جیسا کہ پیچھے ہم واضح کر آئے ہیں[ ان زمانوں کے حساب سے یوں بنتی ہے:
چوتھے حساب سے یہ وقت سن ١٨٥٦عیسوی میں پورا ہوا۔
تیسرے حساب سے یہ وقت سن ١٨٤٣ عیسوی میں پورا ہوا
دوسرے حساب سے سن ١٧٨٢ عیسوی میں۔
اورپہلے حساب سے سن ١٧٦٤ عیسوی میں۔
چانسی جس نے اپنی کتاب ١٨٣٨ءمیں لکھی،کہتا ہے:
”پہلی اور دوسری مدت تو گزر گئی تیسری اورچوتھی ابھی رہتی ہے، تیسری مدت کے درست ہونے کا امکان زیادہ ہے اور میرے نزدیک بھی یہی یقینی ہے۔
مگر اب ہم یہ دیکھتے ہیں اور ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ تیسری اورچوتھی مدت بھی کوئی واقعہ ہوئے بغیر گزریں۔ اب پھر کونسا حساب لگایا جائے؟
چانسی خود ہی کہتا ہے:
”بعض کے نزدیک اس مدت کا نقطئہ آغاز سکندر رومی (صحیح یہ ہے کہ سکندر یونانی) کے ملک ایشیا (سلطنت دارا فارسی) پرحملہ آور ہونے کاسال ہے۔ اس حساب سے اس مدت کے پورا ہونے کاسال ١٩٦٦ءبنتا ہے“۔(دیکھے علامہ رحمہ اللہ کی کتاب اظہار الحق ص ٩٣ ،٩٤ )
اس پر علامہ رحمہ اللہ جو کہ ١٨٩١ءمیں فوت ہوئے، تعلیقا لکھتے ہیں:
”پہلی اور دوسری مدت کا جھوٹ ہونا اس(جانسی) کے اپنے عہد میں ہی واضح ہو گیا۔ جیسا کہ اس نے خود اعتراف کیا ہے۔ تیسری مدت، جس کا اس کے زعم میں درست ہونے کا بہت زیادہ امکان تھا بلکہ یقینی تھا، بھی جھوٹ ثابت ہوئی۔ پھر چوتھی بھی جھوٹ نکلی، اب پانچویں مدت رہتی ہے“ (اظہار الحق ص ٩٤)
اب چونکہ شیخ رحمہ اللہ کا اصل مضمون اپنی اس کتاب میں یہ تھا کہ وہ اہل کتاب کے صحیفوں میں تحریف ہونے کاثبوت دیں اور یہ ثابت کریں کہ یہ صحیفے شک سے ماورا نہیں اور اس مقصد کیلئے ان صحیفوں میں ہونے والی پیشین گوئیوں کے بطلان کے شواہد پیش کریں اسلئے شیخ اپنی کتاب میں یہ توقع ظاہر کرتے ہیں کہ یہ چوتھی مدت بھی جھوٹ ہی ثابت ہو گی چنانچہ لکھتے ہیں:
”جو شخص اس دور میں زندہ رہے گا ان شاءاللہ دیکھ لے گا کہ یہ (پانچویں مدت) بھی جھوٹ ہی ہے“۔
بلکہ شیخ رحمہ اللہ ان لوگوں کی اس بات کا (”کہ وقت اس پیشین گوئی کی سچائی کو خود ثابت کرے گا“)کے جواب میں دعوی کر کے اس کی یہ بات جھٹلاتے ہیں اور اس کی علت یہ بیان کرتے ہیں کہ ان (اہل کتاب) کا یہ کلام سرے سے ثابت نہیں۔ (دیکھے اظہار الحق ص ٩٤)
مگرہم یہ کہتے ہیں کہ:
خدا شیخ رحمہاللہ پر اپنی رحمت فرمائے۔ ان کیلئے اس بات کی گنجائش تھی کہ وہ اس معاملے کو معلق رہنے دیں اور جزم کے ساتھ نہ کہیں کہ یہ واقعہ پیش نہیں آئے گا۔ کیونکہ کسی ایسے واقعے کا بالجزم انکار کر دینا جس کا وقوع پزیر ہونا عقلا محال نہیں ایک بے احتیاطی شمار ہو گی بے شک ان کے بات کرنے کا مقصد بائبل میں تحریف ثابت کرنا ہی ہو۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ان صحیفوں کی ایک ایک بات تحریف شدہ ہو۔ لہٰذا کم از کم بھی یہ ہونا چاہیے کہ جب ایک چیز محتمل ہے اورمحال نہیں تو پھر اس کیلئے گنجائش چھوڑ دی جائے۔
پھر چونکہ شیخ رحمہ اللہ کا مقصد اصل میں تحریف کے موضوع پر بات کرنا تھا لہٰذا انہوں نے اس آخری قول (پانچویں مدت) کے راجح یا غیر راجح ہونے پر کچھ گفتگو نہیں کی۔ لہذا لازم ہے کہ اس پر ہم کچھ بات کریں:
ان چاروں اقوال (چار مدتیں جوغلط ثابت ہوئیں) میں اصل غلطی یہ ہے کہ ان میں اس مدت کا نقطہ آغاز بحالی یروشلم کے فرمان والے سال سے متعین کیا جاتا ہے۔ جبکہ اس بات کا اس پیشین گوئی (مینڈھے اوربکرے والی پیشین گوئی) میں کہیں کوئی ذکر نہیں۔ بحالی یروشلم کا ذکر دراصل ہفتوں والی پیشین گوئی میں آتا ہے، جس کا پیچھے ذکر ہو چکا۔ یہ ایک الگ رؤیا ہے۔ اگرچہ ہمارے نزدیک زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس رؤیا میںبھی یہ عبارت (یروشلم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے لے کر) کہیںبعد میں ڈالی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ چنانچہ ان کے وہ شارحین جنہوں نے اس مدت کا نقطئہ آغاز سکندر کے ایشیا میں ظہور کا سال متعین کیا ہے یہ اپنی یہ رائے اپنانے میں راجح تر ہیں کیونکہ انہوں نے یہ بات اس رؤیا میں سے ہی مستنبط کی ہے۔ دانیال کی موت کے بعد لوگوں نے سکندری کیلنڈر اختیار کر لیا تھا۔ سکندری کیلنڈر کا نقطئہ آغاز بعض کے نزدیک سن ٣٣٤قبل مسیح ہے۔ مگرزیادہ صحیح اور مشہور تر یہ ہے کہ یہ سن ٣٣٣ قبل مسیح ہے۔ یہ تمام تر عرصہ سکندری کیلنڈر ہی عالمی حساب کیلئے معتبر مانا جاتا رہا ہے تاآنکہ کلیسا نے قوت پانے کے بعد عالمی کیلنڈر ولادت مسیح سے شروع کیا۔
سکندری کیلنڈر کو بنیاد بنایا جائے تو دانیال کی بتائی ہوئی مدت کا حساب یوں بنتا ہے:
’بربادی کی نحوست کا سبب قائم ہونے کا سال: (٣٣٣-٢٣٠٠) = ١٩٦٧۔ ١٩٦٧!! عین وہی سال جب یروشلم (بیت المقدس) اسرائیل کے زیر مسلط آیا!!
واقعتا یہ ایک المناک واقعہ تھا واقعتا۔ یہ سال قدوسیوں کی امت پر بہت بھاری گزرا!!
واقعتا یہ سال صہیونیوں اوراہل کتاب بنیاد پرستوں کیلئے ایک بڑا مژدہ لے کر آیا!!
اور واقعتا یہ سال ___ان پیشینگوئیوں اور پیش گوئیوں کے اعداد سے قطع نظر بھی___ یہودیوں کی تاریخ میں پچھلے دو ہزارسا ل سے لے کر اب تک کا عظیم ترین واقعہ ہے!!
اب جب ”بربادی کا منحوس پیش خیمہ“ ہم نے اپنی آنکھوں سے قائم دیکھ لیا۔ اس کی ساری نحوست، وحشت و بربریت، اس کی بدکاریاں، اس کا شرک، اسکا الحاد، مسجد اقصی میں نمازوں کو معطل کرنے کے واقعات، مسجد اقصی کو جلانے اور گرانے کی سب مذموم کوششیں ہم نے خود دیکھ لیں ___خدا سے دُعا ہے کہ وہ اس کے شر کو یہیں روک دے اور مسجد اقصیٰ کے باقی ماندے حصے کو گرانے کی اس کو طاقت نہ دے___ تو اب ہم مسیح کے اس قول کی طرف آتے ہیں جو آپ نے (انجیل متی میں) دانیال کی پیشین گوئی کے حوالے سے فرمایا ہے تاکہ مسیح کے اس قول کی رو سے ہم دیکھیں کہ ان عیسائی انجیلی صہیونیوں کی کیا حقیقت ہے کیا یہ واقعتا مسیح کے پیروکار ہیں جس طرح کہ ان کا دعوی ہے یا پھر یہ دانستہ یا نادانستہ صہیونی ’درندے‘ کے پیروکار ہیں؟
انجیل متی میں مسیح کی بابت آتا ہے:
”اور جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھا تھا اس کے شاگردوں نے الگ اس کے پاس آکر کہا: ہم کو بتا کہ یہ باتیں (ہیکل کا مسمار ہونا وغیرہ) کب ہوں گی اور تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہو گا؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ: خبردار! کوئی تم کو گمراہ نہ کر دے۔ کیونکہ بہتیرے میرے نام سے آئیں گے او رکہیں گے میں مسیح ہوں اور بہت سے لوگوں کو گمراہ کریں گے۔ اور تم لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ سنو گے۔ خبردار! گھبرا نہ جانا! کیونکہ قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت چڑھائی کرے گی اور جگہ جگہ کال پڑیں گے اور بھونچال آئیں گے۔ لیکن یہ سب باتیں مصیبتوں کا شروع ہی ہوں گی .... اور بہت سے جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے.... مگر جو آخر تک برداشت کرے گا وہ نجات پائے گا۔ اور بادشاہی کو اس خوشخبری کی منادی تمام دنیا میں ہو گی تاکہ سب قوموں کے لئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔
”پس جب تم اس اجاڑنے والی مکروہ چیز کو جس کا ذکر دانیال نبی کی معرفت ہوا، مقدس مقام میں کھڑا ہوا دیکھو (پڑھنے والا سمجھ لے) تو جو یہودیہ میں ہوں وہ پہاڑوں پر بھاگ جائیں۔ جو کوٹھے پر ہو وہ اپنے گھر کا اسباب لینے کو نیچے نہ اترے۔ اور جو کھیت میں ہو وہ اپنا کپڑا لینے کو پیچھے نہ لوٹے....
”اس وقت اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوںگے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔ دیکھو میں نے پہلے ہی تم سے کہہ دیا ہے۔ پس اگر وہ تم سے کہیں کہ دیکھو وہ بیابان میں ہے تو باہر نہ جانا یا دیکھو وہ کوٹھڑیوں میں ہے تو یقین نہ کرنا۔ کیونکہ جیسے بجلی پورب سے کوند کر پچھم تک دکھائی دیتی ہے ویسے ہی مرد کے بیٹے کا آنا ہوگا۔ [اُردو بائبل میں لکھا ہے: ”ویسے ہی ابن آدم کا آنا ہو گا۔ انگریزی بائبل میں ہے:
Shall also the coming of son of man be، لہٰذا ہم نے اردو بائبل کی عبارت ’ابن آدم‘ کی جگہ ’مرد کا بیٹا‘ دیا ہے۔ جس سے مراد محمد اور آپ کی امت ہونی چاہئے نہ کہ عیسی علیہ السلام جو کہ ’عورت کا بیٹا‘ ہیں نہ کہ ’مرد کا بیٹا‘ .... (مترجم)] جہاں مردار ہے وہاں گدھ جمع ہو جائیں گے“۔ (انجیل متی ٢٤: ٣۔٨، ١١، ١٣۔١٨، ٢٣۔٢٨)
حسب معمول .... بڑے بڑے واقعات کی پیشین گوئیاں ہیں مگر عبارتوں کا ابہام حیران کن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تفسیر میں ان لوگوں کے مابین بے پناہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ اس لئے کہ ان میں تحریف ہوتی ہے یعنی کہیں کوئی کمی کر دی گئی اور کہیں کوئی زیادتی۔ اس کے باوجود اس کی ایک ہی تفسیر ہو سکتی ہے اس کے علاوہ کوئی اور تفسیر درست نہیں ہو سکتی۔ ہماری ان اہل کتاب سے صرف ایک درخواست ہے اور وہ یہ کہ حل رموز کی جو کلید ہم نے ان کو ہدیہ کی ہے یہ اس سے مدد لیں۔ تب ان کو بڑی حد تک قابل قبول تفسیرات دریافت ہو سکیں گی اس مفروضہ کے باوجود کہ ان میں کہیں بھی کوئی تحریف پائی جا سکتی ہے۔ یہاں حل رموز کا تعلق ’مرد کے بیٹے‘ سے ہے جو کہ محمد ہی ہو سکتے ہیں۔ انجیلوں میں محمد کیلئے کیلئے ’مرد کا بیٹا‘ کے الفاظ اس لئے استعمال ہوتے ہیں کہ محمد اور عیسی علیہ السلام میں فرق ہو سکے۔ کیونکہ محمد مرد کے بیٹے ہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کنواری (مریم) کے بیٹے۔
جبکہ ”اجاڑنے والی مکروہ چیز جس کا ذکر دانیال نبی کی معرفت ہوا“ اب ویسے ہی ہمارے لئے واضح ہو گیا ہے۔ یہ ”اجاڑنے والی مکروہ چیز جب مقدس مقام پر کھڑی ہوئی“ دیکھ لی جائے تو پھر مرد کا بیٹا، اپنے لشکروں کے اعتبار سے نہ کہ اپنی ذات کے اعتبار سے، آئے گا۔
چنانچہ صحیفہء دانیال کا معاملہ ہو یا انجیل متی کی اس عبارت میں مذکور پیشین گوئی کا، موضوع ایک ہی ہے۔ ”قوم پر قوم اور سلطنت پر سلطنت“ کا آنا دونوں پیشین گوئیوں میں مذکور ہے۔ دونوں میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ ”مرد کے بیٹے“ کی مملکت قائم ہوتی ہے اور اس کے وفادار لشکر اس پلید چیز (مردار) کو ختم کرنے کیلئے چڑھائی کرتے ہیں۔
پہلے دانیال کی عبارت دیکھیے:
”میں نے رات کو رؤیا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص پسر مرد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیم الایام تک پہنچا۔ وہ اسے اس کے حضور لائے اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور امتیں اور اہل لغت اس کی خدمت گزاری کریں۔ اس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اس کی مملکت لازوال ہوگی“۔ (دانیال: ٧: ١٣۔١٤)
پھر انجیل متی کی عبارت دیکھیے:
”اور اس وقت پسر مرد کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور پسر مرد کوبڑی قدرت اور جلال کے ساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی اور وہ نرسنگے کی بڑی آواز کے ساتھ اپنے فرشتوں کو بھیجے گا اور وہ اس کے برگزیدوں کو چاروں طرف سے آسمان کے اس کنارے سے اُس کنارے تک جمع کریں گے“۔ (انجیل متی: ٢٤:٠٣۔٣١)
جبکہ ’بربادی کا منحوس پیش خیمہ‘ بھی ان دونوں صحیفوں میں مذکور ہوا ہے۔ بلکہ انجیل متی اور انجیل مرقص (١٣۔١٥) میں یہ تصریح تک کر دی گئی کہ یہ وہی خرابات ہوں گی جو دانیال نبی کی معرفت بتائی گئی۔ گویا وہ دانیال اور یہ مسیح کی پیشین گوئی دو الگ الگ واقعات کی بابت نہیں بلکہ ایک ہی واقعہ کی بابت ہے۔ البتہ انجیل لوقا میں اس خرابات کی ایک اور نشانی بھی بتائی گئی ہے: ”جب تم دیکھو کہ یروشلم کے گرد فوجوں کا گھیرا ہے“ (١٢:٢) جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ بیت المقدس میں یہ نجاست فوجی طاقت کے بل بوتے پر پھیلائی جائے گی۔ جیسا کہ پیچھے ہم بیان کر آئے۔ چنانچہ ان سب توراتی اور انجیلی عبارتوں کا بنیادی طور پر ایک ہی موضوع ہے اور میرا نہیں خیال کہ اہل کتاب کا کوئی بنیاد پرست ان سب پیشین گوئیوں کے ایک ہی واقعے کے بابت ہونے کے معاملے میں اختلاف کرے گا۔ اب اگر یہ صحیح ہے تو مسیح علیہ السلام کی کیا نصیحت اور کیا حکم ہے جو کہ اس زمانے کوپائے ___یعنی بربادی کے مکروہ سبب کے قائم ہونے کے وقت___ تو وہ کیا کرے؟
مسیح علیہ السلام اس دور میں جب یہ واقعہ ہو گا جھوٹے مسیحوں سے خبردار رہنے کی شدید ترین تاکید کرتے ہیں اپنی بات کے شروع میں بھی اور آخر میں بھی یہی بات کرتے ہیں۔ جھوٹے لوگوں کی اس بات سے خبردار رہنے کی بھی تاکید کرتے ہیں کہ وہ کہیں گے کہ مسیح علیہ السلام آگیا اور مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے۔ پھر مسیح اس بات سے بھی خبردار کرتے ہیں کہ کوئی ان بربادی لانے والے منحوسوں کے ساتھ رہے اور اس بات پر شدید زور دیتے ہیں کہ آدمی ان تخریب کاروں سے جتنا دور بھاگ سکے، بھاگے کیونکہ ان پر خدا کی غضب ناک پکڑ آنے والی ہو گی جو کہ دوسرے نجات دہندہ (محمد ) کے ہاتھوں آئے گی جو کہ مرد کا بیٹا ہو گا نہ کہ کنواری کا فرزند اور جسکے لشکر صہیونیوں کی اس مملکت پر چڑھ آئیں گے جس طرح کہ گدھ مردار کو نوچ ڈالتے ہیں .... کہ مردار ہوں یا صہیونی دونوں ہی نجس ہیں۔
بے انتہا واضح نصیحت ہے اور مسئلہ بھی ___مسیح علیہ السلام کی اس وصیت میں___ بہت واضح کر دیا گیا ہے۔ تو کیا جیری فول ویل، پاٹ روبنسن اور جمی سواگرٹ جیسے لوگ اس بات کو سمجھیں گے؟!
اور کیا برگزیدوں کی امت (امتِ اسلام) بھی یہ بات سن رہی ہے تاکہ اس سرگردانی میں نہ پڑے جس میں عیسائی پڑ رہے ہیں؟
ہو سکتا ہے عیسائی بنیاد پرست حسب معمول ہم سے اس بات پر بحث کریں کہ ”پسر مرد“ یا ”انسان کا بیٹا“ یا ”فرزند آدم“ کوئی آسمانی شخصیت ہے۔ [ دیکھیے کتاب: حاشیہ مرقص، ص (١٦٧) عہد جدید (طباعت کیتھولک)] نہ کہ محمد ۔
اگر ہو بھی، مگر یہ مسیح علیہ اسلام کی اس نصیحت کے بارے میں کیا کہیں گے جو اس وقت کیلئے ہے جب یروشلم میں ’تباہی کا منحوس سبب‘ قائم ہو جائے گا؟
کیا مسیح علیہ السلام کی یہ نصیحت ان کی اس حرکت سے کوئی میل رکھتی ہے جو یہ (عیسائی بنیاد پرست) قیام اسرائیل کے حق میں بے پناہ شور کرکے اور ’بربادی کے اس منحوس سبب‘ کی پزیرائی میں خوشی کی شہنائیاں بجا کر کر رہے ہیں اور پوری دُنیا کو یہ مژدہ سنا رہے ہیں کہ اس صہیونی مملکت کا قیام نزول مسیح علیہ السلام کیلئے تمہید ہے اور اپنے پیروکاروں کو ارض مقدس کی زیارت کی تلقینیں کر رہے کہ مسیح آیا کہ آیا۔ لہٰذا اگر یہ ارض مقدس میں ہوں گے تو مسیح علیہ اسلام سے ملاقات کا شرف پائیں گے۔ یوں یہ سب کچھ کرکے ابلاغی اور عوامی سطح پر ایک ایسا دبائو پیدا کرتے ہیں جس کے زیر اثر امریکہ اور پوری دُنیا ہمیشہ اس ’بربادی کا پیشہ خیمہ‘ بننے والی منحوس ریاست کے ساتھ کھڑے ہوں اور اس کے ہر ظلم میں اس کا ساتھ دیں؟ کیا یہ خود مسیح علیہ السلام کے قول ہی کے ساتھ عناد برتنے کی ایک حرکت نہیں!؟
پھر کیا ان کی سب کی سب انجیلیں ان کے خود ساختہ خدا (مسیح علیہ السلام) کو سولی چڑھانے اور اس کے خلاف سازشیں کرنے کا اصل کردار یہودیوں کو قرار نہیں دیتیں؟ کیا دُنیا کے عقلمندوںنے کوئی ایسی قوم بھی دیکھی ہے جو اپنے معبود کے قاتل کو تو مقدس جانے البتہ ان لوگوںکے ساتھ جو اس پر بطور رسول ایمان رکھتے اور اس سے بے پناہ محبت کرتے ہوں، دشمنی روا رکھے!!؟
کیا انجیل کی نصوص میں یہودیوں کے یہ وصف مسیح علیہ السلام نے ہی بیان نہیں کئے: ”سانپ کے بچے“، ”انبیاءکے قاتل“، ”ریاکار“، ”اندھے رہنما“، ”بددیانت“....؟ اور نہیں تو انجیل متی کی فصل ٢٣ ہی پڑھ لیں معلوم ہوجائے گا کہ ارض مقدس میں کس سانپ کو تحفظ دینا یہ اپنا مذہبی فریضہ مان رہے ہیں!
ان جھوٹے مسیحوں کے پیروکار یہ لاکھوں کروڑوں عیسائی بنیاد پرست اس غفلت سے کب جاگیں گے....؟