ایمانی جمعیت جو معاشرے پر اثر انداز ہو
محمد قطب
محتاج بیان نہیں کہ ہر رسول اپنی رسالت اور اپنے مشن کا خود ہی عنوان ہوا کرتا ہے۔ وہ خود ہی ایک ایسا نمونہ ہوتا ہے جسے اس کے پیروکاروں کو اپنی زندگیوں میں اختیار کرنا ہوتا ہے۔ ان کو حتی الوسع یہ کوشش کرنی ہوتی ہے کہ اپنے اس نبی کے اقول وافعال اور حرکات وسکنات ہی کا عملی مظہر بنیں اور اس کے امر ونہی کو حقیقت میں تبدیل کر دیں۔ ہر رسول کے پیروکاروں کو یہی کام کرنا ہوتا ہے۔
وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللّٰہ (النساء: ٤٦)
”ہم نے جو کوئی بھی رسول بھیجا وہ اسی لئے تو بھیجا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے“۔
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا (الحشر: ٧)
”جو کچھ رسول تمہیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رُک جائو“۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوہ حسنہ لمن کان یرجواللّٰہ والیوم الاخر وذکراللّٰہ کثیرا (الاحزاب: ٢١)
”دراصل تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے“۔
فاذا انھیتکم عن شی فاجتنبوہ، واذا امرتکم بامر فاتوا منہ ما استطعتم (اخرجہ البخاری)
”پس جب میں تم کو کسی بات سے روک دوں تو اس سے رک جایا کرو اور جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جہاں تک استطاعت ہو اس کو پورا کرو“۔
پھر یہ بھی محتاج بیان نہیں کہ آخری رسالت سب رسالتوں میں ایک منفرد ترین رسالت ہے۔ کیونکہ اس پر دین کی تکمیل ہو گئی ہے۔ یہ پوری انسانیت کے لئے اتری ہے نہ کہ کسی خاص قوم کیلئے، جیسا کہ پچھلی رسالتوں میں ہوتا رہا ہے اور پھر اس لئے بھی کہ یہ وہ رسالت ہے جو ایک بے مثال جامعیت رکھتی ہے اور انسانی زندگی کے سب جوانب کا احاطہ کرنے اور ہر پہلو سے انسانی زندگی پر حاکم بننے کے لئے اتاری گئی ہے۔ پھر یہ بعثت محمد سے لے کر قیامت تک کے سب ادوار کیلئے انسانیت کو زندگی کا ایک مکمل ترین منہج عطا کرتی ہے۔
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ ٣)
”آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوا“۔
قل یا ایھا الناس انی رسول اللّٰہ الیکم جمیعا (الاعراف : ١٥٨)
”اے محمد! کہو کہ : اے انسانو میں تم سب کی طرف خدا کا پیغمبر ہوں“۔
وما ارسلناک الا رحمہ للعالمین (الانبیاء: ١٠٧)
”اے محمد! ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔
وانزلنا الیک الکتاب بالحق مصدقا لما بین یدیہ من الکتاب و مھیمناً علیہ فاحکم بینہم بما انزل اللّٰہ (المائدہ : ٤٨)
”پھر اے محمد! ہم نے تمہاری طرف یہ کتاب بھیجی جو حق لے کر آئی ہے اور اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی اور انکا احاطہ کرنے والی ہے“۔
خدائی منصوبہ تھا کہ یہ سب امتیازات آخری رسالت کا خاصہ بنیں۔ ان سب امتیازات کے ساتھ ہی نبی آخر الزمان کی بعثت عمل میں لائی گئی۔
ما کان محمد آبا احد من رجالکم ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبین (الاحزاب : ٤)
”(لوگو) محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، مگر وہ اللہ کے رسول اورخاتم النبیین ہیں“
لا نبی بعدی (متفق علیہ)
”میرے بعد اب کوئی نبی نہیں“۔
’ختم رسالت‘ کا یہی تقاضا ٹھہرتا تھا کہ آخری رسالت میں نہ صرف لوگوں کی ہر وہ ضرورت پوری کر دی گئی ہو جو اس رسالت کے نزول کے وقت ان کو پیش آئے بلکہ اس میں ان سب ضرورتوں کو بھی بدرجہءا تم پورا کر دیا گیا ہو جو قیامت تک کبھی مستقبل میں بھی پیش آسکتی ہوں، یہاں تک کہ اگر لوگ اس رسالت اور اس مشن سے چمٹے رہیں تو کبھی خراب نہ ہوں اور نہ ہی اپنی دنیا و آخرت بنانے کیلئے وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کے کبھی ضرورت مند ہوں ۔
ترکت فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا ، کتاب اللّٰہ وسنتی (متفق علیہ)
”میں تم میں ایک ایسی (زبردست) چیز چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ اگر اس سے چمٹے رہو تو کبھی راستہ نہ بھٹکو، یہ ہے کتاب اللہ اور میری سنت“۔
آخری رسالت کی اگر یہ شان ہے تو پھر یہ ایک طبعی بات تھی کہ خدا کا آخری رسول سب رسولوں میں عظیم الشان ہوتا۔ یہ وہ سب سے عظیم ہستی ہوتی جس نے اس زمین پر کبھی پاؤں دھرا ہو.... اور یہ کہنا بھی ہرگز بعید از حقیقت نہ ہو گا کہ وہ مرد صفت لوگ جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس تربیت دی وہ ___اللہ کے رسولوں کے بعد___ تاریخ کے عظیم ترین لوگ ہیں۔
بطور عموم ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اصول اور وہ انسانی قدریں جن پر تربیت کا کوئی عملی منہج مشتمل ہو اس معاملے میں گہری تاثیر کی حامل ہوتی ہیں کہ وہ کس نوعیت کے انسان تیار کریں گی۔ جس قدر یہ قدریں اوریہ اصول عظیم ہوں گے اتنے ہی زبردست معیار کے وہ لوگ ہونگے جو ان قدروں اور ان اصولوں سے ذہنی اور اخلاقی تربیت پا کر تیار ہوئے ہونگے.... ایک دوسرے پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مربی کی شخصیت بھی اس معاملے میں گہری تاثیر کی حامل ہوتی ہے کہ جو لوگ اس سے تربیت پائیں وہ کس معیار کے نکلیں گے۔ جس قدر عظیم مربی کی شخصیت ہو گی اتنے ہی عظیم المرتبت اور بلند خیال و بلند اخلاق وہ لوگ ہونگے جو اس سے تربیت پا چکے ہوں.... ایک تیسرے پہلو سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ فطری استعداد جو تربیت پانے والوں میں رکھی گئی ہو وہ اس معاملے میں گہری تاثیر کی حامل ہوتی ہے کہ وہ کسی مربی سے تربیت پا کر سیرت اور کردار میں عظمت کی کس حد کو پہنچ سکتے ہیں۔ جتنی تربیت پانے والوں کی فطری استعداد ہو گی اور جس قدر وہ نفس کے عیوب سے پاک ہو گی اتنی ہی اعلی تربیت ان لوگوں کی ہو سکے گی....اب اگر ہم ان تینوں بنیادی عناصر کو مدنظر رکھیں تو ہم ان بنیادوں کے بارے میں اپنا ایک ذہن بنا سکتے ہیں جن پر اس جمعیت کی تیاری عمل میں لائی گئی تھی جو آگے چل کر معاشرے پر اثر انداز ہوئی اور جو کہ رسول اللہ نے بنفس نفیس تیار کی۔ ان تینوں عناصر کو سامنے رکھ کر ہم رسول اللہ کے ہاتھوں تیار ہونے والی اس بنیادی جمعیت کے معیار اور نوعیت کا تعین بھی کر سکتے ہیں جس نے ایک محدود ترین عرصے میں تاریح کا رخ بدل دیا تھا۔
جہاں تک تربیت کے ان اصولوں کا تعلق ہے تو اس کی بابت یہی کہ دینا کافی ہے کہ ان کی اساس اور ابتدا توحید سے ہوتی ہے۔ یعنی لا الہ الا اللّٰہ۔ توحید ہی وہ چیز ہے جس نے اس امت کو وجود دیا اور ’خیرامت‘ کی حیثیت میں دنیا کو اس امت سے متعارف کرایا:
کنتم خیر امت اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنہون عن المنکر وتؤمنون باللّٰہ (آل عمران: ١١٠)
”تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت و اصلاح) کیلئے میدان میں لائی گئی۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو“۔
البتہ یہ ’خیریت‘ یعنی اس امت کے بہترین ہونے کی یہ صفت کسی اور میں اس درجہ کی نہ پائی گئی جس درجہ کی یہ اس بے مثال جمعیت میں پائی گئی جسے رسول اللہ نے اپنے زیر نگرانی مکہ کے تربیتی مرحلے میں تیار کیا اور پھر مدینہ میں اسکے بقیہ حصے کی تکمیل کی....
توحید ___ اپنی اس حقیقت کے ساتھ جس کے ساتھ یہ نازل ہوئی اور جسے رسول کے دل میں بٹھایا گیا اور جس پر پھر آپ نے اپنے ساتھیوں کو تربیت دی___ دراصل کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ اور یہ کائنات کی حقیقت میں وہ سب سے عظیم وصف ہے جو کائنات کی ساخت میں اصل محرک ہے اور انسانی نفوس کی تعمیر میں اصل عنصر۔
اللّٰہ لا الہ الا ھو الحی القیوم (آل عمران:)
”اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے سوا بندگی کرانے کا کسی کو حق نہیں.... وہ زندہءجاوید ہستی جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے“۔
کائنات اپنی فطرت میں عبادت کرنے والی ہے۔ انسان اپنی فطرت میں عبادت کرنے والا ہے۔ مگر آسمان اور زمین خدا کے آگے مطیع و فرمانبردار ہیں۔ رہ گیا انسان جس کا ایک پہلو تو اسی طرح مطیع و فرمانبردار ہے مگر دوسرا پہلو استکبار اور پہلو تہی کر لیتا ہے۔
ثم استوی الی السماءوھی دخان فقال لہا وللارض ائتیا طوعاً اوکرھا۔ قالتا اتینا طائعین (حم السجدہ: ١١)
”پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اس وقت محض دھواں تھا۔ اس نے آسمان اور زمین سے کہا ”فرمانبرداری میں آجاؤ خواہ تم چاہو یا نہ چاہو“ دونوں نے کہا! ”ہم بخوشی فرمانبردار ہوئے“۔
الم تر ان اللّٰہ یسجدلہ من فی السماوات ومن فی الارض والشمس والقمر والنجوم والجبال والشجر والدواب وکثیر من الناس وکثیر حق علیہ العذاب (الحج:١٨)
”کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے سربسجود ہیں وہ سب جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، سورج اور چاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت اور جانور اور بہت سے انسان۔ اور بہت سے وہ بھی ہیں جن پر عذاب کا مقولہ ثابت ہو چکا ہے“۔
انسان کی فطرت طبعاً موحد ہے۔
فاقم وجہک للدین حنیفا فطرہ اللّٰہ التی فطر الناس علیہا لا تبدیل لخلق اللّٰہ ذلک الدین القیم ولکن اکثرا الناس لا یعلمون (الروم:٣٠)
”پس تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی سمت میں جما دو۔اس فطرت کو قائم کرتے ہوئے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں۔ یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورھم ذریتہم واشھدھم علی اٰنفسہم الست بربکم قالوا بلی شھدنا (الاعراف: ١٧٢)
”وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود انکے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا: ”کیا میںتمہارا رب نہیں ہوں“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں۔ ہم سب گواہ بنتے ہیں“۔
کل مولود یولد علی الفطرہ (البخاری)
”ہر نومولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے“۔
انی خلقت عبادی حنفاءکلھم (مسلم)
”میں نے اپنے سب بندے طبعا موحد پیدا کئے ہیں“۔
مگر خدا کا انسان کیلئے ایک فضل اور تکریم تھی کہ اس نے نہ چاہا کہ انسان کو بزور توحید پر چلائے جیسا کہ اس نے دوسری مخلوقات کو بزور اپنے حکم کا مطیع کر رکھا ہے۔ اس کی بجائے انسان کو اوروں پر فضیلت اور اعزاز دیا ہے۔
ولقد کرمنا بنی آدم وحملناھم فی البرو البحر ورزقناھم من الطییات و فضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلا (الاسراء: ٧٠)
”یقینا ہم نے اولاد آدم کو بڑی عزت دی اور ان کو خشکی و تری میں سوار کرایا اور انکو پاکیزہ نعمتوں سے روزی پہنچائی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فوقیت بخشی“۔
یہ تکریم ہی کا ایک مظہر ہے کہ انسان کو چناؤ کی آزادی دے دی گئی ہے۔
ونفس وما سواھا فالھمھا فجورھا وتقواھا قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا (الشمس : ٧۔١٠)
”’قسم ہے نفس انسانی کی اور اس کی موزوں ترین ساخت دینے کی ۔ پھر سمجھ دی اس کو بدکاری کی اور (بڑائی سے) بچ نکلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوا“۔
باوجود اس کہ یہ آزادی انسان کیلئے ایک اعزاز ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص انسان کو دیا پھر بھی بعض فطرتیں بگڑ جاتی رہیں اور بجائے اس کے کہ اپنی اس آزادی کو ہدایت کا راستہ اور اس پر استقامت اختیار کریں یہ اس آزادی کو خدا کی نافرمانی کیلئے استعمال کرنے لگیں اور اس کو عبادت سے بڑائی اختیار کر جاتی رہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں میں کچھ مومن ہوئے اور کچھ کافر۔
ھوالذی خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (التغابن: ٢)
”وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا۔ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن“۔
چنانچہ ایمان لانے والے لوگ اپنی سلیم فطرت پہ چلنے والے ہوئے اور اپنے ایمان میں پائی جانے والی سچائی اور رسوخ اور مضبوطی کے بقدر خدا کی جانب بڑھنے والوں میں رفعت اور منزلت پانے لگے اور اس مقصد کی طرف گامزن ہوئے جو کہ تمام کائنات کی تخلیق کی اصل غایت ہے اور جو کہ اس آیت میں بیان ہوئی۔
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (الذاریات: ٥٦)
”جنوں اور انسانوں کو میں نے اس کے سوا کسی کام کیلئے پیدا نہیں کیا کہ بس وہ میری بندگی کریں“۔
بندگی کو اللہ وحدہ لاشریک کیلئے خالص کر دینا.... یہ توحید انسانی نفوس میں کیا تبدیلی لے آتی ہے؟
کیا آپ نے کبھی لوہے کا ٹکڑا دیکھا جس میں برقی رو گزار دی گئی ہو یا جس پر مقناطیس لگا دیا گیا ہو۔ لوہے کے اس ٹکڑے میں کیا تبدیلی آجاتی ہے؟ اس میں ___جیسا کہ طبیعات کا علم ہمیں بتاتا ہے___ اس کے سب ذرات ایک نئی ترتیب اختیار کر لیتے ہیںگویا لوہے کا وہی ٹکڑا ہے مگر اب اس کی ہستی کچھ اور ہے۔ اس میں ایک ایسی برقی اور مقناطیسی قوت آجاتی ہے جو اس سے پہلے نہیں تھی۔ یہ ایک ایسی قوت ہوتی ہے جو اب حرکت پیدا کر سکتی ہے جبکہ اس سے پہلے وہ بالکل بے جان تھا نہ خود ہل سکتا تھا اور کسی اور چیز کو ہلا سکتا تھا....
یہ طاقت جو لوہے کے اس ٹکڑے میں یک دم آگئی آخر اس کی ہستی میں اس سے پہلے کہاں گم تھی؟ یہ بکھری ہوئی حالت میں تھی اور بے ربط تھی۔ اس حالت میں نہ یہ ظاہر ہو سکتی تھی اور نہ عمل کر سکتی تھی۔ تب اس قوت کا کوئی ایسا وجود نہ تھا جو کوئی واقعہ بن سکے اور دیکھنے اورمحسوس ہونے میں آسکے.... مگر اب یہ ایک خاص ترتیب سے جڑ گئی ہے۔ اب یہ ظاہر بھی ہونے لگی ہے۔ عمل بھی کرنے لگی ہے اور اس کے آثار عالم واقع میں بھی دیکھے جانے لگے ہیں۔
کچھ ایسا ہی واقعہ انسانی نفوس میں بھی رونما ہوتا ہے جب اسلام کی بشاشت ان سے یکجا ہوتی ہے، جب انسانی نفوس توحید سے آشنا ہوتے ہیں اور جب لا الہ الا اللہ کے ساتھ ایمان لے آتے ہیں.... نفس کے بے ربط اور بے سمت عنصر مجتمع ہو جاتے ہیں اور انتشار سے نجات پا کر یکسو اور یک سمت ہو جاتے ہیں۔
مگر، ذرا ایک لمحہ رک کرذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ یہ ’انتشار‘ نفوس میں کس طرح اثر انداز ہوتا ہے؟ کیا نفس انسانی طبعاً ایسی ہے یا یہ، جب یہ کسی نگہداشت اور ہدایت و راہنمائی کے بغیر چھوڑ دی جائے، تب ایسی ہو جاتی ہے؟ جب انسان اپنے نفس کو وہ پاکیزگی (تزکیہ) دینے میں غفلت برتتا ہے۔
قد افلح من زکاھا وقد خاب من دساھا (الشمس: 10)
”کامیاب ہوا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام ہوا وہ جس نے اس کو خاک آلود کیا“۔
تب وہ انتشار پیدا ہوتا ہے جو مختلف معبودوں کے بیک وقت پیچھے چلنے سے جنم پاتا ہے.... یہ انتشار مختلف شہوات کے دباؤ سے وجود میں آتا ہے.... زندگی میں ایک متعین ہدف اختیار نہ کئے جانے کا نتیجہ ہوتا ہے.... یہ ___کم از کم___ تین اسباب ضرور ایسے ہیں جو انسانی نفوس میں انتشار کو جنم دیتے ہیں۔ پھر جونہی ایمان آتا ہے تو انتشار کے یہ اسباب عنقا ہونے لگتے ہیں تب نفس انسانی اس انتشار سے سمٹ کر اور اس بے حالی سے نجات پا کر مجتمع ہوتی ہے اور اس کی ہستی ایک خاص ترتیب اور خاص حالت میں آجاتی ہے۔ تب یہ ایک زوردار قوت کی صورت دھار لیتی ہے۔ اب یہ خود حرکت کرتی ہے اور دوسروں کو حرکت دے سکتی ہے۔
عرب جاہلیت کا ایک انسان مختلف خداؤں کو پوجتا تھا جن میں سے کچھ تو ظاہر تھے جیسے کہ بت اورکچھ پوشیدہ تھے مثلاً قبیلہ اور باپ دادا کا راستہ....
جہاں تک بتوں کا معاملہ ہے تو وہ تو زبان زدعام ہے۔ یہاں تک کہ بادی النظر یہی لگتا ہے کہ شاید یہی بس وہ معبود تھے جو عرب جاہلیت میں خدا کے سوا پوجے جایا کرتے تھے مگر بغور دیکھنے والا یہ ادراک کئے بغیر نہیں رہتا کہ محض لکڑی پتھر کے بت ہی وہ معبود نہ تھے جو خدا کو چھوڑ کر پوجے جاتے تھے۔ مثلاً ایک جاہلی شاعر [شاعر کا نام ہے درید بن الصمہ]کا یہ قول دیکھ لیں۔
وھل انا الا من غزیہ ان غوت غویت وان ترشد ارشد
”میں (قبیلہ) غزیہ کا ایک حصہ ہی تو ہوں....وہ اگر ضلالت کی راہ اختیار کرے تو میں وہی راہ اختیار کروں گا اور اگر وہ راستی اختیار کرے تو میں کر لوں گا“۔
’پیروکاری‘ میں پرستش اگر یہ نہیںتو پھر کیا ہے؟ آدمی جانتا ہے کہ اس کا قبیلہ گمراہی اور گم گشتگی پر ہے پھر یہ جانتے بوجھتے ہوئے اسی کی راہ اختیار کرتا ہے کیونکہ اس کے محسوسات میں وہ معبود کا درجہ رکھتا ہے جس کی کسی صورت مخالفت نہیں ہو سکتی۔ حق کا معاملہ ہو تب اور گمراہی کا معاملہ ہو تب۔
’باپ دادا کا راستہ‘ الگ سے ایک معبود تھا جس کی خدا کے سوا باقاعدہ پرستش ہوتی تھی۔
واذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللّٰہ قالوا بل نتبع ماالفینا علیہ آباءنا او لو کان آباؤھم لا یعقلون شیئا ولا یہتدون (البقرہ: ١٧٠)
”ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو شریعت نازل کی ہے اس کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہ راست نہ پائی ہو تو کیا تب بھی ....؟
یہ باپ دادا کا راستہ ہی ہے جو ابو طالب کو اسلام قبول کرنے سے روک رکھتا ہے ___باوجود اس کے کہ وہ اپنے بھتیجے سے محبت کرتا ہے،اس کی دیکھ بھال اور اس کا ازحد خیال رکھتا ہے اور کفار قریش سے ان کی حفاظت کرتا ہے___ محض اس ڈر سے کہ کہیں یہ نہ کہا جانے لگے کہ اس نے باپ دادا کی راہ ترک کر دی۔ اس پرستش سے بڑھ کر کیا پرستش ہو گی؟
جہاں تک دور حاضر کی جاہلیت میں رہنے والے ایک انسان کا تعلق ہے تو وہ جن معبودوں کو پوجتا ہے انکی تعداد بھی زیادہ ہے اور وہ چھپ رہنے میں بھی عرب جاہلیت کے معبودوں کی نسبت بڑھ کر ہیں۔ ’قومیت‘ یا ’قومی مصلحت‘ پرانی عرب جاہلیت میں پائے جانے والے’ قبیلے‘ کا نیا متبادل ہے جو کہ اس سے بڑا بھی ہے اور اس سے خطرناک تر بھی۔ لوگوں کے ذہنوں پر اس کا نظریاتی تسلط بھی ’قبیلے‘ سے بڑھ کر ہے۔ ’عالمی رائے عامہ‘ آج باپ دادا کے راستے‘ کا متبادل ہے جو کہ اس سے بڑا بھی ہے اور اس سے خطرناک تر بھی۔ اور یہ دنیا کے کمزوروں اور بے خانماؤں کو اور سے اور بدحال کرنے میں بھی اس سے برتر تاثیر رکھتا ہے۔ جبکہ یہ کچھ شیاطین کے ہاتھ کی کاریگری ہوتی ہے جو آج پوری زمین پر فرمانروائی کر رہے ہیں خواہ وہ پس پردہ فرمانروائی ہے یا کھلی کھلی دھونس۔
پھر اسی طرح ’ترقی‘ ایک معبود ہے .... ’سائنس‘ ایک معبود کا درجہ رکھتی ہے.... سیکولر ازم معبود ہے .... ’پیداوار‘ معبود ہے.... ’شخصی آزادی‘ معبود ہے.... خواہشات وشہوات جس طرح آج معبود بنی ہیں اس کی تو بھلا بات ہی چھوڑ دیجئے!
یہ پہلے بھی ___خدا کو چھوڑ کر___ پوجی جایا کرتی تھیں اور آج بھی یہ باقاعدہ معبود کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان خدائوں کا شمار تک ممکن نہیں۔ یہ وہ معبود ہیں جو اپنے پجاریوں کو ہمیشہ برباد کرتے ہیں اور ان کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر آتے ہیں....
یہ خواہشات اپنی طبعی حیثیت میں انسانی فطرت ہی کا ایک جزو ہیں۔ یہ دراصل نفس انسانی کی ایک ناگزیر غذا ہیں۔ یہ اس لئے ہیں کہ زمین کی تعمیر وآبادی کے عمل میں انسان ایک طبعی نشاط پائے، جبکہ یہ زمین کی تعمیر وآبادی اس مشن کا ایک حصہ ہے جو خلافت سے موسوم ہے اور جو کہ انسان کی تخلیق کا عنوان بنا تھا:
واذا قال ربک للملائکہ انی جاعل فی الارض خلیفہ (البقرہ: ٣٠)
”جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا: میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں“۔
ھو انشاکم من الارض واستعمرکم فیہا (ھود:٦١)
”وہی ہے جس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اسی زمین میں اس نے تمہاری آبادی چاہی“۔
زین للناس حب الشہوات من النساءوالبنین والقناطیر المقنطرہ من الذھب والفضہ والخیل المسومہ والانعام والحرث ذلک متاع الحیاہ الدنیا واللّٰہ عندہ حسن الماب (آل عمران:١٤)
”لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ___ عورتیں، اولاد، سونے، چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں___ بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں۔ یہ دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے“۔
مگر جس طرح یہ ایک اچھی اور مفید غذا ہیں اسی طرح یہ زہر قاتل بھی بن جاتی ہیں جب یہ اپنی حد سے تجاوز کر جائیں۔ اس کا معاملہ بالکل جسم کی غذا ہی کی مانند ہے۔ جسم کو اپنا طبعی نشاط برقرار رکھنے کیلئے ایک خاص مقدار میں لحمیات، نشاستہ، نمکیات اور ویٹامینوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر آپ ان میں سے کسی چیز کی مقدار بے انتہا بڑھا دیں تو وہ جسم کے وظائف میں نشاط کے بجائے الٹا خلا لے آنے کا باعث بنتا ہے۔ تب یہ غذا غذا نہیں رہتی۔ تب یہ انسان میں وہ فطری نشاط لے آنے پر قدرت نہیں رکھتی جس کا استعمال ہونا جسم میں ضروری ہوتا ہے۔ اب یہ امراض کا سبب بنتی ہے۔ یہی حال نفس کا ہے۔ نفس کو ان خواہشات اور ’محرکات‘ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس میں وہ طبعی حرکت جنم پائے جس کی اس دُنیا میں بہرحال ضرورت ہے۔ مگر جب وہ ان خواہشات وشہوات کو اپنی خدمت میں لانے کی بجائے خود اس کی خدمت میں لگ جاتی ہے___ اور وہ اس لئے کہ ان کی دل کشی بے انتہا زیادہ ہے اور نفس میں ان کو اور سے اور لینے کیلئے طلب بڑھ جاتی ہے۔ تب نفس کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ نفس فساد کا شکار ہوتی ہے اور اپنے صحت مند نشاط کی ادائیگی سے عاجز آتی ہے۔ بے شک وہ الٹے الٹے قسم کے نشاط میں مگن بھی رہے۔ جیسا کہ جسم کا ایک صحت مند خلیہ سرطان کا شکار ہوتا ہے تو وہ عمل اور نشاط تو کر رہا ہوتا ہے مگر یہ ایسا نشاط ہوتا ہے جو تباہی لے آنے واا ہو۔
چنانچہ یہاں سے ’آزمائش‘ کی ابتدا ہوتی ہے۔ یہ ’آزمائش‘ انسان کی پیدائش کے اہداف میں سے ایک باقاعدہ ہدف ہے:
انا خلقنا الانسان من نطفہ امشاج نبتلیہ فجعلناہ سمیعاً بصیرا (الانسان: ٢)
”ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کیلئے ہم نے اُسے دیکھنے اور سننے والا بنایا“۔
انا جعلنا ما علی الارض زینہ لہا لنبلوھم ایہم احسن عملاً (الکہف: ٧)
”واقعہ یہ ہے کہ روئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اسے زمین کی زینت بنایا ہے تاکہ ان لوگوں کو آزما لیں کہ ان میں سے کون عمدہ تر عمل کرتا ہے“۔
چنانچہ یہ ’آزمائش‘ کا تصور اس بات کی بنیادبنتا ہے کہ انسان اس متاع ارضی کی کیونکر اور کہاں تک کھپت کرے.... کیا یہ ان حدوں پر رک جائے جو خدا نے مقرر کر دی ہیں اور جن کے اندر رہنے میں خواہشات وشہوات کی ضرر رسانی نہیں رہتی ___کہ وہ لطیف اور خبیر ہے اور اپنی مخلوق اور اس کی ضرورت کو خوب جانتا ہے اور ہر اس بات سے باخبر ہے جو انسان کو فائدہ دے اور درست رکھے___ یا پھر وہ اسراف کرے اور ان حدوںکو پھلانگ جائے۔ اور تب یہ متاع ارضی زہر بننے لگے جو فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنے بلکہ فائدے کے بجائے نقصان ہی نقصان دے؟
الا یعلم من خلق وھو الطیف الخبیر (الملک: ١٤)
”کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا ہے۔ وہ تو بارک بیں اور حد درجہ باخبر ہے“۔
تلک حدود اللّٰہ فلا تعتدوھا (البقرہ: ٢٢٩)
”یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے ہرگز تجاوز نہ کرو“۔
تلک حدود اللّٰہ فلا تقربوھا (البقرہ:١٨٧)
”یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں، ان کے قریب نہ پھٹکنا“۔
عرب جاہلیت کے دور کا انسان بھی شہوات وخواہشات میں غرق تھا۔ جہاں تک اس کا سماج اسے اجازت دے اور جہاں تک اس کی معاشی حالت اجازت دے وہ خواہشات سے جس حد تک لد سکتا ہو لد جائے اور جی بھر کر مزے کرے۔ اس میں اس کو کوئی بھی خرابی نظر نہ آتی تھی۔ بلکہ یہ اس کے لئے ایک فخر اور اعزاز کی بات تھی اور اس کو وہ اچھے سے اچھے پیرائے میں ذکر کرتا تھا۔
جاہلیت کا ایک عرب شاعر شراب اور شباب اور خونریزی سے لطف لینے پر فخر کرتا ہے اور برملا کہتا ہے کہ اگر یہ تین چیزیں نہ ہوں تو زندگی میں لطف ہی کیا۔ بلکہ ملامت کرنے والوں سے گویا ہوتا ہے:
الا ایھذ اللائمی احضرا لوغی .... و ان اشھد اللذات ھل اَنت مخلدی؟
”ابے او ناصح! مجھے ملامت کرتا ہے کہ میں معرکہء خونریزی میں پڑتا ہوں اور لطف وسرود کا شیدائی ہوتا ہوں۔ میں ایسا نہ کروں تو کیا تم مجھے خلود بخش دو گے؟“۔
چنانچہ جب اس دُنیا کی زندگی میں خلود اور ہمیشگی پانا ناممکن ہے تو جاہلی ’منطق‘ یہ کہتی ہے کہ خواہشات وشہوات سے انسان جس قدر جی بھر سکے بھر لے۔ کیونکہ یہ بس ایک ہی موقع ہے۔ گیا تو پھر نہ آئے گا!
رہا معاصر جاہلیت کا انسان تو اس کی زندگی میں بھی اصل یہ ہے کہ انسان بس خواہشات وشہوات کیلئے جئے۔ وہ کوئی کام اور محنت کرتا ہے تو اس لئے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایسے وسائل کا مالک بنے جو اس کی ’لذت‘ پوری کروائیں۔ اس کی شہوت اقتدار ہے تو وہ اس کے حصول میں دن رات ایک کر رہا ہے۔ قوت اور اثر ورسوخ ہے تو صبح شام اس کے تعاقب میں بھاگتا ہے۔ اس کی شہوت جنس ہے یا جسم کا لطف ہے ___اور جس کا بائولا پن آج کی جاہلیت نے ہر شخص میں پیدا کر رکھا ہے نہ اس سے کوئی بچہ محفوظ ہے اور نہ بڑا۔ نہ مرد بچا ہے اور نہ عورت___ تو اس کا بہتر سے بہتر حصول یقینی بنانے میں ہر شخص سرگرم عمل ہے۔
جہاں تک مقصد کا تعلق ہے تو اس جاہلیت کے پاس کوئی ایسا مقصد نہیں جو اس حیات دنیوی سے اور اس میں پائے جا سکنے والے لطف ولذت سے بڑا ہو۔
وقالوا ماھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما یھلکنا الا الدھر (الجاثیہ:٤٢)
”یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دُنیا کی زندگی ہے۔ یہی ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے علاوہ کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو“۔
ان ھی الا حیاتنا الدنیا نموت ونحیا وما نحن بمبعوثین (المؤمنون:٣٧)
”زندگی کچھ نہیں ہے مگر بس یہی دُنیا کی زندگی۔ یہیں ہم کومرنا اور جینا ہے اور ہم ہرگز اُٹھائے جانے والے نہیں ہیں“۔
فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یرد الا الحیاہ الدنیا ذلک مبلغہم من العلم (النجم:٢٩:٣٠)
’اے نبی آپ اس شخص سے رخ پھیر لیں جس نے ہماری یاد سے منہ موڑ رکھا ہے اور دُنیا کی زندگی کے سوا جسے کچھ مطلوب نہیں ہے۔ ان کے علم کی انتہا بس یہی (دُنیا) ہے“۔
یعلمون ظاہرا من الحیات الدنیا وھم عن الآخرت ھم غافلون (الروم:٧)
”لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں“۔
انسان جب اس حیات فانی میں مگن ہو جاتا ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے اور حقیر اہداف تک محدود ہو رہتا ہے ___چاہے وہ اہداف اسے کتنے ہی عظیم نظر کیوں نہ آئیں___ تو وہ اپنی ہستی کا ایک بڑا حصہ کھو دیتا ہے۔ خدا نے جس معیار کی یہ مخلوق بنائی اس کا بڑا حصہ اس کے ہاتھ سے چلا جاتا ہے۔ خدا نے اس کو تخلیق کیا تو ایک مشت خاک سے وجود دیا پھر اپنے ہاں سے روح کی ایک پھونک اس میں ڈال دی۔ انسان جب اس دُنیائے فانی کا ہو جاتا ہے تو اس بلندی اور عظمت سے گر جاتا ہے جو کہ انسان کی ہستی کا اصل مقام ہے۔
اذ قال ربک للملائکہ انی خالق بشرا من طین فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین (ص: ١٧۔٢٧)
”جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جائو“۔
پھر جہاں تک عرب جاہلیت کے انسان کا تعلق تھا تو اس کا کل ھم وغم اس کا قبیلہ تھا اور اس کے گرد گھومنے والے حالات و واقعات اور اخبار وآراء۔ اسی وجہ سے نام ونسب کی حفاظت ہوتی تھی۔ آباء واجداد پر فخر ہوتا۔ دوسروں کی ہجو ہوتی۔ رزم ومعرکہ کے تذکرے ہوتے۔ پلٹنے جھپٹنے کی داستانیں سنی جاتیں۔ عرب کے انسان کی کل دُنیا اس کا یہی قبیلہ تھا۔ اس کو اسی میں رہنا اور اسی کیلئے رہنا تھا۔ یہی ان کے شعراءکی جولانی طبع کا موضوع تھا۔ یہی ان کی بیٹھکوں اور چوپالوں کی گفتگو تھی اور یہی ان میں آپس کی مقابلہ بازی کا اصل میدان تھا .... اسی کے ساتھ ان کی وہ دوڑ شامل ہو جاتی تھی جو وہ کثرت اموال واولاد کیلئے اور شہوت وخواہشات سے جی بھر کر اور ایک دوسرے سے بڑھ کر حظ پانے کیلئے کیا کرتے تھے۔
جہاں تک معاصر جاہلیت کے انسان کا تعلق ہے تو وہ اس سے بھی کہیں گم گشتہ راہ ہے اور اس حیات فانی اور اس کی حسی لذت کے اندر محدود ہونے میں اور پاکیزہ قدروں سے دوری میں اور زندگی بلند وپاکیزہ مقاصد سے برگشتہ ہونے میں یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے جس میں عرب جاہلیت کا انسان گرفتار تھا۔ آج کا انسان صرف حسی لذت کا طلبگار ہے اور بس اسی پر فریفتہ ہے۔ اور چونکہ آج کی جاہلیت کے صورت گر اپنے دور کے انسان کو ہر پاکیزہ قدر اور ہر بلند مقصد سے دور رکھنے پر حریص ہیں لہٰذا وہ اپنا تمام زور اس بات پر صرف کر چکے ہیں کہ اس حیات فانی کو آرائش وزیبائش سے بھر دیں اور گھٹیا متاع ارضی اور لذت وقتی کو حد سے زیادہ مزین اوردلفریب بنا دیں اور اس کیلئے ایسے ایسے وسائل اور ذرائع اختیار کریں جو ایک معقول انسان کے سان گمان تک میں نہ آسکیں۔
ہر جاہلیت میں، خواہ وہ نئی ہو کہ پرانی، انسان جب اسی دُنیا کی زندگی کو تخیل کی انتہا جان بیٹھتا ہے اور کسی اور زندگی میں اور مرکر اٹھائے جانے میں اور حساب اور جزا میں یقین نہیں رکھتا .... تب یہ زندگی اس کی نگاہ میں ایک بے ہودہ اور لغو چیز بن جاتی ہے جس کا کوئی مقصد ہے اور نہ معنی۔ کسی قدر اور کسی معیار کی اس میں کوئی وقعت اور کوئی قیمت نہیں رہ جاتی۔ کسی چیز کی کوئی قیمت ہے تو بس اسی حد تک جس حد تک یہ انسان کی اس شہوت اور اس مفاد کو پورا کرے جو اس کی اس مختصر اورمحدود عمر میں اس کو پیش آئے۔ اس ’انسان‘ کو حیرت اور سرگردانی ہر طرف سے گھیر کر رکھتی ہے اور جاہلی انسان کی یہ خاصیت سب سے نمایاں ہو جاتی ہے۔ موجودہ دور کا ایک جاہلی شاعر ایلیا ابو ماضی اپنے ان اشعار میں جاہلی انسان کی اسی کیفیت کو نمایاں کرتا ہے:
جئت لا اعلم من این ولکنی اَتیت!
ولقد ابصرت قدامی طریقاً فمشیت!
وسابقیٰ ما شیا ان شئت ھذا اَوابیت
کیف جئت؟ کیف ابصرت طریقی؟ لست ادری!
”میں آیا ہوں کہاں سے، نہیں معلوم بس میں آگیا ہوں۔
میں نے اپنے آگے چلنے کیلئے راستہ پایا تو چلنے لگا ہوں۔
میں اس پر چلتا رہوں گا اگر چاہوں تب بھی اور اگر نہ چاہوں تب بھی۔
میں کیونکر آیا؟ میں نے کیونکر اپنا یہ راستہ پایا! کیا معلوم!“
یہی وجہ ہے کہ ’شراب‘ ہمیشہ ایک جاہلی انسان کی ضرورت رہی ہے۔ کیونکہ یہ زندگی کے لئے مقصدیت کے احساس سے فرار کا ایک ذریعہ ہے۔ زندگی کے عبث اور بے مقصد ہونے کا احساس نفس پر بہرحال گراں ہوتا ہے۔ لوگ ’کھیل تماشے‘ میں بھی اسی لئے غرق رہتے ہیں کیونکہ یہ ’وقت گزارنے‘ کا ایک ذریعہ ہے۔ وگرنہ ’وقت‘ بہت ہی گراں گزرتا ہے۔ لوگ جب اپنی سعی روزگار سے اور کمائی کی کشمکش سے فارغ ہوں تو وقت گزارنا ایک سوال بن جاتا ہے۔
عرب جاہلیت میں شراب، مجالس نائو نوش اور جواءوغیرہ اس ’فرار‘ کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ آج کی جاہلیت میں شراب کے ساتھ منشیات بھی شامل ہو گئی ہیں۔ رقص وسرود کے تھیٹر، کھیل تماشے اور دل کے بہلاوے کے طرح طرح کے انتظام، جواءخانے.... پھر جب اس ’بے کار وبے مقصد زندگی‘ سے فرار کسی اور طریقے سے ممکن نہ ہو تو اب یہاں نفسیاتی اضطراب ہے، اعصابی امراض ہیں، قسم ہا قسم کا جنون ہے۔ کچھ بھی کارگر نہ ہو تو پھر خودکشی!
٭٭٭٭٭٭
یہ سب اسباب ہیں جو اس انتشا رکے پیچھے کار فرما ہوتے ہیں جو جاہلیت میں نفس انسانی پر حاوی ہوا رہتا ہے۔ پھر جب ایمان آتا ہے تو نفس کو اس انتشار سے نجات ملتی ہے اور وہ مجتمع اور یکسو ہو جاتی ہے۔
ایمان کا بنیادی مفہوم ہے: کہ اس بات کا اعتقاد اور یقین پیدا کیا جائے کہ بس ایک ہی معبود ہے جو تنہا عبادت کے لائق ہے اس کے سوا کوئی پرستش کے لائق نہیں: اور یہ کہ اس کے سوا سب معبودان، اللہ کے سوا پوجے جانے والے سب خدا نرے بے حقیقت ہیں۔ ان کا وجود ان کے پجاریوں کے تخیلات کے سوا کہیں نہیں اور یہ باطل تخیلات حق سے ہرگز کفایت نہیں کرتے .... جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی معبود کی عبادت برحق نہیں سوائے ایک اللہ کے کیونکہ اس کے سوا درحقیقت کوئی لائق بندگی نہیں۔ سو عبادت اور پرستش کا ہر وہ عمل جو اس کے سوا کسی اور ذات کیلئے ہو، سرے سے باطل اور سراسر غلط ہے کیونکہ یہ ایک ایسی ذات کیلئے ہوا ہے جس کا درحقیقت الوہیت پر کوئی حق ہے ہی نہیں .... علاوہ ازیں اس سے مراد یہ ہو گی کہ آدمی اپنے آپ کو ہر اس بات کا پابند کرے جو خدا کے ہاں سے آئی ہو گی کیونکہ اس امر کا تصور ممکن ہی نہیں کہ معبود حقیقی وہ ہو یعنی عبادت پر تنہا حق اسی کا ہو مگر اس کی نافرمانی ہو اور اس کے سوا کسی اور کی اطاعت ہوتی ہو! انجام کار اس کا مطلب یہ ہو گا کہ خدا ہی وہ واحد ذات ہے جو انسانوں کو قانون اور شریعت صادر کرے۔ وہی ہے جو حلال اور حرام کا تعین کرے۔ وہی ہے جو اشیاءکے حسن وقبح کی تحدید کرے۔ وہی ہے جو جائز وناجائز کا تقرر کرے۔ وہی ہے جو ان حدوں کا تعین کرے جن کے اندر رہتے ہوئے انسان کو متاع زندگانی سے حظ اٹھانا ہے۔ وہی ہے جو انسانوں کیلئے زندگی کا منہج اور طرز عمل طے کرے اور ان کے یہاں زندہ رہنے کیلئے اہداف مقرر کرے۔
اس ایمان کی شان یہ ہے کہ یہ ’انتشار‘ کے اسباب میں سے کوئی ایسا سبب باقی نہ رہنے دے جو نفس انسانی کو بے سمت کر دینے کا باعث ہو....
جب انسان کا معبود بس ایک ہی ذات ہو جاتی ہے تو پھر اس کے لاشعور اور اس کے احساسات میں ان باطل اور من گھڑت خدائوں کی موت واقع ہو جاتی ہے جن میں سے ایک ایک کے پیچھے اس نفس کو بھاگنا پڑتا ہے اور اس کے باعث سو سو حصوں میں تقسیم ہونا پڑتا ہے۔ ہر معبود کے اپنے مطالبے اور اپنے تقاضے ہیں۔ ہر معبود کے خوش کرنے کو ایک خاص جہت میں چلنا پڑتا ہے۔ یہ جہتیں باہم متعارض رہتی ہیں۔ ان معبودوں کے مابین نفس انسانی بار بار بٹتی اور حصوں بخروں میں منقسم ہوتی ہے۔ ہر معبود کو، اس نفس پر خدائی کرنے کو، کسی دوسرے معبود کو ہٹا کر اس کی جگہ لینی پڑتی ہے۔ اس کھینچا تانی میں ’انسان‘ کا ستیاناس ہو جاتا ہے:
ضرب اللّٰہ مثلاً رجلا فیہ شرکاءمتشاکسون ورجلا سلماً لرجل ھل یستویان مثلاً الحمد للّٰہ بل اکثرھم لا یعلمون (الزمر: ٢٩)
”اللہ ایک مثال دیتا ہے۔ ایک شخص تو وہ ہے جس کی ملکیت میں بہت سے کج مزاج آقا شریک ہیں جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچتے ہیں اور دوسرا شخص پورا کا پورا ایک ہی آقا کا غلام ہے۔ کیا ان دونوں کا حال یکساں ہوسکتا ہے؟ الحمدﷲ بات یہ ہے کہ ان میں کے اکثر لوگ سمجھتے نہیں“۔
مگر جب معبود ایک ہو جاتا ہے اور انسان کے سب پہلو اور سب گوشے اس کی بندگی میں یکجا ہوتے ہیں تو خواہشات ان طبعی حدود کی پابندی اختیار کر لیتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے متعین فرما دی ہیں۔ تب یہ نفس کیلئے صالح غذا بنتی ہیں۔ نہ پھر یہ زہر مہلک ہوتی ہیں اور نہ انسان کے ہم وغم کا کلی سبب اور اس کی تمام تر توجہ کا محور بنتی ہیں جیسا کہ ایک غیر اللہ کے پجاری کے ساتھ ہوتا ہے جو کھڑا اور بیٹھا خواہشات کی تسکین کیلئے پریشان رہتا ہے۔ نہ کبھی سیر ہوتا ہے نہ مطمئن۔ نہ پیاس بجھتی ہے اور ہوس مٹتی ہے۔ نفس کو اس مشقت سے آرام پانے کی کبھی فرصت ہی نہیں ملتی....
جب معبود ایک ہوتا ہے اور نفس اس کی بندگی پر مجتمع اور یکسو ہوتی ہے تو وہ ہدف بھی علی وجہ البصیرت متعین ہو جاتا ہے جو اس کے درون میں سب اہداف کو ایک ترتیب دے دیتا ہے۔ جب انسان ایک اور زندگی پانے اور مر کر اُٹھنے اور حساب وجزا کیلئے پیش ہونے پر یقین کرتا ہے تو ان قدروں اور معیاروں کا تعین ہونے لگتا ہے جو زندگی میں پاکیزہ اور بلند اہداف کو وجود دینے کا سبب بنتے ہیں اور زندگی کے بے مقصد اور عبث ہونے کے تصور کو مٹاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
یہ شان اگر ان اصولوں کی ہے جنہیں معاشرے پر اثر انداز ہونے والی بنیادی جمعیت کو وجود دینا تھا تو تعظیم کے چند کلمات ہمیں مربی کی شان میں بھی کہنے ہیں جنہوں نے ان اصولوں پر ایک جمعیت کھڑی کی اور جو کہ تاریخ انسانی کے عظم ترین مربی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ان کلمات میں یا کسی بھی انداز کے کلمات میں ہم آپ کا حق ادا نہ کر پائیں گے۔ اس مربی کیلئے خدا کی اپنی شہادت ہی کافی ہو سکتی ہے جو کہ ہر نعمت اور فضل کا بخشندہ ہے:
وانک لعلی خلق عظیم (القلم:٤)
”اور بے شک تم اخلاق کے بڑے مرتبے پر ہو“۔
ہم اس جمعیت سے ہرگز شناسائی نہ پا سکیں گے جب تک ہم اس عظیم الشان تاثیر کا کچھ نہ کچھ ادراک نہ کر لیں جو رسول اللہ کے بنفس نفیس وجود نے صحابہ کے اندر برپا کر دی تھی۔
پیروکار ہمیشہ اپنے قائد کی صفات کے ہی خوشہ چین ہوا کرتے ہیں جس کے پیچھے ان کی وہ اتھاہ محبت ہوتی ہے جو ان میں اپنے قائد کیلئے موجزن ہوتی ہے یہ اس کی صحبت کا فیض ہوتا ہے جو ان کو خوش قسمتی سے مل جاتا ہے۔ اپنے قائد کی صفات اور اس کی شخصیت کا پرتو بننا یہ بسا اوقات لاشعوری طور پر بھی ہونے لگتا ہے۔ کیونکہ قائد کی شخصیت سے متاثر ہونا خود بخود اس بات کا سبب بنتا ہے کہ اس جیسا بننے کی کوشش کرنے پر پیروکار اپنے آپ کو مجبور پائیں۔ اس جیسے اعمال، اس جیسے اقوال، اس جیسے مواقف، اسی سے ملتے جلتے تصرفات انسان کی مجبور ی بن جاتے ہیں بشرطیکہ وہ واقعتاً اس سے متاثر ہو چکا ہو۔ واقعتا یہ صحابہ کے ساتھ ہوا بھی جب ان کی محبت اپنے نبی کیلئے ہر محبت پر سبقت لے گئی اور نبی کیلئے ان کی تعظیم وتوقیر ہر ایسے قائد کی تعظیم وتوقیر سے بڑھ گئی جس نے تاریخ انسانی میں کبھی کچھ پیروکار رکھے ہوں تب اتباع کے زبردست واقعات بھی جنم پانے لگے۔
ہرقل نے ابوسفیان سے، جبکہ ابھی وہ اسلام نہ لائے تھے، سوال کیا کہ وہ اہل ایمان کا نبی کے ساتھ آنکھوں دیکھا حال بیان کریں۔ تب ابوسفیان نے جواب دیا: میں نے لوگوں میں سے کبھی کسی کو کسی سے ویسے محبت کرتے نہیں دیکھا جس طرح اصحاب محمد، محمد کے ساتھ محبت کرتے ہیں۔
مگر رسول اللہ کے ساتھ آپ کے اصحاب کا معاملہ محض اس بات تک محدود نہ تھا کہ وہ لاشعوری طور پر ہی آپ سے متاثر ہوں۔ یہ ایک حد درجہ شعوری عمل بھی تھا۔ آپ سے محبت کرنا اور آپ کی گرویدگی اختیار کرنا ان لوگوں کیلئے خدا کا باقاعدہ حکم تھا جو خدا کے ساتھ ایمان لائیں اور اپنا چہرہ خدا کو سونپ دیں۔ خود رسول اللہ کی یہی ہدایت تھی۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوہ حسنہ لمن کان یرجو اللّٰہ والیوم الآخر وذکر اللّٰہ کثیرا (الاحزاب:٢١)
”درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے۔ ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے“۔
وما اتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتہوا واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ شدید العقاب (الحشر:٧)
”رسول تم کو جو دے وہ لے لو اور جس سے روکے اس سے رک جاؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے“۔
ما کان لاھل المدینہ ومن حولھم من الاعراب ان یتخلفوا عن رسول اللّٰہ ولا یرغبوا بانفسہم عن نفسہ (التوبہ:١٢٠)
”مدینہ کے رہنے والوں کو اور ان کے گرد ونواح کے اعراب کو یہ ہرگز زیبا نہ تھا کہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر گھر بیٹھ رہتے اور اس کی طرف سے بے پروا ہو کر اپنے اپنے نفس کی فکر میں لگ جاتے“۔
یاایھا الذین امنوا استجیبوا للّٰہ وللرسول اذا دعاکم لما یحییکم (الانفال:٢٤)
”اے ایمان والو، اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسول تمہیں اس چیز کی طرف بلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے“۔
لا یؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من نفسہ ومالہ وولدہ (اخرجہ الشیخان)
”تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں جب تک کہ میں اس کو اس کے اپنے آپ سے، اس کے مال اور اس کی اولاد سے زیادہ عزیز نہیں ہوتا“۔
صلوا کمارایتمونی اصلی (اخرجہ البخاری)
”نماز پڑھو جس طرح تم مجھے نماز پڑھتا دیکھتے ہو“۔
خذوا عنی مناسککم (اخرجہ مسلم)
”مناسب حج مجھ سے سیکھو“۔
یہ اس وجہ سے کہ آپ محض ایک لیڈر نہیں جسے انسانوں کی ایک جماعت کی قیادت کرنا ہے۔ بلکہ آپ نبی ہیں جسے اپنے رب کا پیغام پہنچانا ہے اور لوگوں کیلئے جو نازل ہوا ان کو اس کا بیان کرکے دینا ہے۔ چنانچہ آپ کی اطاعت خدا کا حکم ہے لہٰذا آپ کی اطاعت باقاعدہ طور پر خدا کی عبادت ہے۔
یاایھا الذین آمنوا اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللّٰہ والیوم الآخر ذلک خیر واحسن تاویلا (النساء:٥٩)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو اطاعت کرو اللہ کی اور اسکے رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے“۔
من یطع الرسول فقد اطاع اللّٰہ (النساء:٨٠)
”جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل خدا کی اطاعت کی“۔
چنانچہ رسول اللہ کیلئے آپ کے پیروکاروں میں یہ دونوں باتیں مجتمع ہو گئیں۔ ایک ایسی اتھاہ محبت اور گرویدگی جو ہر رشتے اور ہر تعلق پر بھاری پڑ جائے اور آپ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا ایسا التزام جسے محض خدا کی عبادت سمجھ کر کیا جائے۔ چنانچہ آپ کو وہ مقام بھی حاصل تھا جہاں اصحاب آپ سے ایک فطری اور بے ساختہ انداز میں اور بے پناہ حد تک متاثر تھے اور آپ کے اس قدر گرویدہ اور آپ پر اس قدر فریفتہ تھے کہ جس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں پائی جا سکتی.... ایک منفرد ترین شخصیت کا نفوس پر اثر انداز ہونا اور کچھ منفرد ترین اصولوں کا ان نفوس پر اثر انداز ہونا.... یہ دونوں کام بیک وقت ہونے لگے تھے....
جہاں تک ان اصولوں کا تعلق ہے تو اس پر ابھی پیچھے ہم اجمالاً کچھ بات کر آئے ہیں اور تفصیل کے ساتھ اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے۔
جہاں تک رسول اللہ کی اس شخصیت کا تعلق ہے جو اس تبدیلی کا محرک بنی تو یہاں اس مقام پر ہم اتنا ہی کہ پائیں گے کہ:
یہ ایک جامع ترین شخصیت تھی۔ یہاں تک کہ جو پچھلے رسولوں میں سے ایک ایک کی شخصیت میں متفرق طور پر ملتا ہے وہ سب کچھ آپ کی ایک ہی شخصیت میں اکٹھا ہو گیا تھا: عیسی علیہ السلام کی روحانیت، نوح علیہ السلام کا صبر، موسیٰ علیہ السلام کی قوت فیصلہ وشدت اقدام، ابراہیم علیہ السلام کی رقت قلب.... اور اس کے ساتھ پھر آپ کے اپنے بے شمار فضائل جن میں آپ سب سے منفرد ہیں اور جو آپ سے پہلے کسی بھی نبی کو حاصل نہ ہوئے.... اس شخصیت میں ایک زیرک اور منفرد ترین سیاسی قائد بھی تھا جو ایک قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو ایک مختصر سی مدت میں ایک پرچم تلے مجتمع کر دے اور اس کو قوت اور توانائی کے آتش فشاں میں بدل کر رکھ دے اور دُنیا کی ایک پسماندہ ترین قوم کو اقوام عالم میں عظیم ترین منزلت دلوا دے.... اس میں وہ عسکری قائد بھی تھا جو دُنیا کا منفرد ترین لشکر ترتیب دے اور اس کے اندر جرات و بسالت جوانمردی اور جفاکشی کی وہ روح پھونک دے جو اس کو دنیا کی بڑی سے بڑی قوت کے ساتھ بھڑوا دے.... اس میں ایک مربی کی شخصیت بھی تھی جو اپنے پیروکاروں کے تزکیہ وتربیت میں کوئی کمی نہ رہنے دے اور ان کو اخلاقی بگاڑ کے پاتال سے اٹھا کر اخلاق کی عظمت کے آسمان تک پہنچا دے.... اس میں ایک عبادت گزار کی شخصیت بھی تھی جس کا ہر لمحہ خدا کے ساتھ گزرتا ہے اور جو اس کی بندگی اور تعظیم کے احساس سے لحظ بھر غافل نہیں ہوتا اور جو رات کی خاموش ساعتوں میں اور دن کے ہنگاموں میں برابر خدا کی جانب متوجہ رہتا ہے.... اس میں ایک مجاہد شخصیت بھی تھی جو باطل سے ہر لمحہ برسرپیکار ہے.... یہ ایک مثالی ترین شوہر بھی ہے اور ایک مہربان اور شفیق باپ بھی.... یہ سب کچھ ایک ہی شخصیت میں جمع ہو جاتا ہے اور بڑی بات یہ کہ یہ سب کچھ ایک کمال توازن کے ساتھ پایا جاتا ہے۔ اس کا ایک پہلو کسی دوسرے پہلو پر حاوی نہیں ہو پاتا۔ کسی ایک پہلو کی سرگرمی کسی دوسرے پہلو کو معطل کرنے کی قیمت پر نہیں ہوتی۔ یہ شخصیت ہر جانب سے ہمہ وقت روشن ہے.... پھر کیا تعجب جو پیروکاروں پر اس شخصیت کی تاثیر ایک ایسی بے مثال تاثیر ہو جو اس سے پہلے نہ تو کوئی نبی اپنی قوم میں برپا کر سکا ہو اور نہ کوئی انسان بشریت کی تاریخ میں۔
٭٭٭٭٭٭
اجمالاً جس طرح ہم نے ان اصولوں اور فکری بنیادوں کی جانب اشارہ کیا جو اس مسلم جمعیت کی تیاری میں کام آئے جسے رسول اللہ نے قائم کیا تھا اور اجمالا جس طرح ہم نے اس مربی اعظم کی شخصیت کی جانب اشارہ کیا ہے جس نے معاشرے پر، بلکہ تاریخ انسانی پر، اثر انداز ہونے والی یہ منفرد انسانی جمعیت تیار کی.... ویسے ہی چند کلمات اجمالاً ہم ان بندگان خدا کی بابت کہیں گے جن کے کاندھوں نے اسلام کو قائم کرنے کا یہ بار عظیم اٹھایا۔
اللّٰہ اعلم حیث یجعل رسالتہ (الانعام:١٢٤)
”اللہ خوب جانتا ہے وہ اپنی پیغمبری کہاں بھیجے“۔
آخری رسالت کے لئے خدا کا اپنے اس نبی کو منتخب کرنا، اور اس سرزمین کو منتخب کرنا جس سے پوری دنیا میں یہ پیغام پھوٹ کر نکلے، اور اس قوم کو منتخب کرنا جو اس پیغام کو سب سے پہلے وصول کرے.... اس سب کے پیچھے بلاشبہ خدا کی عظیم الشان حکمتیں کار فرما ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے اپنی آخری رسالت کے لئے اپنا سب سے عظیم پیغمبر چنا۔ ایک ایسی سرزمین کا انتخاب کیا جو اس کے علم کی رو سے آخری رسالت کے چہار وانگ پھیل جانے کیلئے مناسب ترین تھی.... ایک ایسی سرزمین جو اپنے دور کی بڑی بڑی سلطنتوں میں سے کسی کی دلچسپی کا مرکز نہ تھی۔ کیونکہ یہ لق ودق صحرا تھا۔ یہاں یہ مسلم جمعیت وجود پاتی ہے اور اپنی جڑیں راسخ کر لیتی ہے بغیر اس کے کہ کوئی بیرونی قوت اس کو دبانے یا اس کی جڑیں کاٹنے یا اس کے کام کو دشوار کر دینے کیلئے ابتدائی طور پر دخل انداز ہو۔ یہاں تک کہ جب ان ’سپر طاقتوں‘ کو خطرے کا الارم سنتا ہے اور وہ اس سے نمٹنے کیلئے تیار ہوتی ہیں تب تک یہ جمعیت اپنا ابتدائی کام مکمل کر چکی ہوتی ہے۔ اس نے اپنی دولت قائم کر لی ہوتی ہے اور یہ ایک ایسی قوت فراہم کر لیتی ہے جو دشمن کو خوف میں مبتلا کر دے۔
جہاں تک اس سرزمین کے باشندہ انسانوں کا تعلق ہے تو خدا کے علم کی رو سے یہ اس رسالت کا حق ادا کرنے کیلئے اور اس کو آفاق میں نشر کرنے کیلئے مناسب ترین لوگ تھے۔ درست ہے کہ بت پرست تھے.... مشرک تھے.... اڑیل ضدی تھے.... اپنی بات چھوڑنے پر تیار نہ ہوتے تھے.... مگر ان سب باتوں کے باوجود وہ اپنے دور کی اقوام میں سب سے زیادہ سلیم الفطرت تھے۔ سب اقوام کوجاہلی تہذیبوں نے عیش سامانی کی راہ پر لگا کر اور طرح طرح کی نزاکتیں سکھا کر اور زندگی کے چائو دلوا کر بگاڑ دیا تھا اور ان کو کمینگی اور گھٹیا پن قبول کر لینے پر آمادہ کر لیا تھا جیسا کہ جزیرہء عرب کے دائیں بائیں دونوں عظیم شہنشاہتوں .... فارس اور روم میں پیش آچکا تھا۔ اور وہ ذلت الگ جو حاکم کے اقتدار کا تقدس مان کر اور اس کے سامنے کمتر اور ذلیل رعایا بن کر قومیں قبول کر چکی تھیں اور جس کے نتیجے میں حکمران آقا بن جاتا تھا اور قوم غلاموں کی تصویر پیش کرتی۔ یہ ایک سرکش آقا اور ذلیل غلام کا تعلق تھا۔
عرب جاہلیت نے بھی بلاشبہ عرب مشرکین کے نفوس کو بگاڑا تھا.... مگر جیسا کہ بعد میں ثابت ہوا یہ بگاڑ نفوس میں بہت نیچے تک نہیں گیا تھا۔ نیچے فطرت کا بہت کچھ ابھی سلامت تھا۔ سو جونہی اس نئے عقیدے نے بگاڑ کی وہ تہہ اوپر سے کھرچ دی تو عقیدہ کی یہ روشنی بہت جلد عرب انسان کے اندر چھپی اس فطرت سے آملی جو دوسری اقوام کی نسبت بڑی حد تک بچی رہ گئی تھی.... تب پھر یہ سب عجوبے رونما ہونے لگے!
سوائے ان کافروں کے جنہوں نے اپنے کفر پر آخری لمحے تک اصرار کیا اور دیدہ دلیری سے اس دین حق کے خلاف لڑے.... وہ نفوس جنہوں نے اس پیغام کو قبول کیا انہوں نے البتہ اس کو بس یونہی ہی قبول نہ کیا بلکہ کمال خوبصورتی کے ساتھ قبول کیا جس کی کہ تاریخ میں کیا رسولوں کے پیروکاروں میں بھی مثال نہیں ملتی۔ یہ بے انتہا سلیم الفطرت لوگ تھے۔ جاہلیت کا بگاڑ ان کی فطرت کی تہہ میں نہیں بیٹھ سکا تھا۔ دین کیلئے ایسا گہرا اخلاص جو ان کے ہاں پایا گیا کبھی کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ دلیری، جانفروشی اور قربانی میں کوئی ان کا ثانی نہ تھا۔ یہ سب کچھ ان کے سلیم الفطرت ہونے کی دلیل تھا۔
ایک اور عنصر جس کی طرف اشارہ ضروری ہے.... وہ ان کی نقل مکانی کی استعداد تھی اور ان کا سریع الحرکت ہونا۔ یہ ہر نئی جگہ کو اپنا وطن بنا لینے پر قدرت رکھتے تھے۔ ایسے روابط جو انسان کو ایک ہی جگہ کے ساتھ باندھ کر رکھ دیں.... ایسی محبت جو ایک کاشتکار کو اپنی دھرتی سے ہوتی ہے اور جس کے باعث چند قدم دور ہو جانے پر اس کو دیس کی یاد ستانے لگتی ہے.... وہ اس سے کسی حد تک محفوظ تھے۔ ان صفات کے ساتھ پھر جب ان کو اسلام ملا تو وہ زمین میں کچھ اس طرح پھیل گئے کہ اس سے پہلے کسی قوم نے اپنے دین کیلئے کبھی یوں نقل مکانی نہ کی تھی۔ یوں یہ جماعت دنیا میں انسانیت کیلئے ہر طرف نور اور ہدایت پھیلانے کیلئے نکل کھڑی ہوئی۔
٭٭٭٭٭٭
اجمالی طور پر ابھی تک ہم نے ان تین بنیادی عوامل پر گفتگو کی ہے جس نے اس بنیاد کو پختہ کرنے میں اپنا کردار ادا کیا جس پر سول اللہ نے امت اسلام کی ہر اول جمعیت تیار کی۔ یعنی وہ اصول اور وہ عظیم فکری بنیادیں جن پر اس جمعیت کی تعمیر ہوئی، بطور مربی رسول اللہ کی عظمت اور فطرت کی وہ سلامتی جو ان لوگوں کے ہاں پائی گئی جنہوں نے اسلام کے ان اصولوں اور ان فکری بنیادوں کو قبول کیا اور اس عظیم ترین مربی کی شخصیت سے متاثر ہونا سیکھا۔ ابھی البتہ ہم نے اس پر بات نہیں کی کہ رسول اللہ نے اپنے پیروکاروں کی جو تربیت کی اس کا کیا کردار تھا۔
جہاں تک ان اصولوں اور فکری بنیادوں کا تعلق ہے جن کے بل پر ان لوگوں کی کایا پلٹ گئی تھی تو یہ اصول دستیاب ہو سکتے ہیں ___جیسا کہ یہ آج بھی اسی طرح دستیاب ہیں جس طرح کہ یہ اس وقت تھے جب یہ خدا کے ہاں سے نازل ہوئے تھے___ تو یہ اصول بذات خود کچھ نہیں کرتے جب تک کہ ایک مربی ان اصولوں کے بیچ اپنے پیروکاروں کے اندر گہرے کرکے نہ بودے اور ان کی پرورش اور دیکھ بھال کرنے اور ان کو بہترین رخ دینے پر پوری جان نہ کھپا دے۔ ایک مربی بھی پایا جا سکتا ہے مگر وہ اپنی پوری تاثیر نہیں ڈال سکتا جب تک کہ وہ تربیتی عمل کو اپنی پوری توجہ نہ دے۔ لوگوں کا محض اس سے متاثر ہو جانا اس بات کیلئے کافی نہیں کہ ان کے نفوس کی تربیت عمل میں آجائے تآنکہ مربی ایک باقاعدہ انداز سے ان پر محنت کرنے اور مطلوبہ قدروں اور معیاروں کو ان کے اندر گہرا اتارنے اور فکری بنیادوں کو ان میں راسخ کرنے پر جانفشانی سے کام نہ کرے۔
تربیت کے اسلامی منہج پر اس سے پہلے میں اپنی کسی اور کتاب [محمد قطب کی کتاب ”منہج التربیہ الاسلامیہ“] میں گفتگو کر چکا ہوں۔
یہاں ہم صرف اس پر گفتگو کرنا چاہیں گے کہ ایک ایمانی جمعیت کی تیاری میں تربیت کا کیا کردار ہے کیونکہ ہمیں اپنی آج کی معاصر تحریکوں میں اسی موضوع کی ضرورت درپیش ہے اور تربیت کے کردار اور ضرورت پر گفتگو بہت اہم مواقع پر مفقود پائی جاتی ہے۔
ہم پیچھے کہہ آئے ہیں کہ لا الہ الا اللّٰہ پر ایمان لے آنے کا انسانی نفس پر گہرا اثر ہونا ہوتا ہے کیونکہ یہ نفس کے ’ذرات‘ کو ایک نئی ترتیب دے دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے لوہے کے ایک ٹکڑے میں برقی رو گزرانے سے تبدیلی آجاتی ہے۔ مگر یہ معاملہ ایک زندہ نفس کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ایک ایسی نفس جو اپنے احساسات وجذبات میں، شوق ورغبت رکھنے میں اور جذب وکیف میں پوری طرح زندہ ہو۔ اس معاملے میں اس کو ایک بے جان لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ تشبیہہ نہیں دی جا سکتی جو کہ اپنی اس حالت کو جس پر کہ وہ پایا جائے ایک طویل زمانے تک برقرار رکھ سکتا ہے۔ بلکہ ایک لوہے کا ٹکڑا بھی باوجود اس کے کہ وہ جذبات واحساسات نہیں رکھتا، اپنی اس حالت کو، جو کہ اس میں برقی رو گزار دینے کے بعد وقوع پذیر ہوتی ہے، ہمیشہ کیلئے برقرار نہیں رکھ سکتا جب تک کہ ایسے حفاظتی انتظامات نہ کئے جائیں جو اس کے پھر سے بکھر جانے اور پہلی حالت پر آجانے سے اسے روک کر رکھیں۔
جبکہ نفس انسانی میں اس بات کا امکان کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ اس میں جذبہ و خواہش اور شوق وانفعال کے جھونکے ہر طرف سے چلتے ہیں، کہ اس کے عناصر کی ترتیب بدل جائے اور اس کے ’ذرات‘ ایک بار ترتیب پا لینے کے بعد پھر سے بکھر جائیں جب تک کہ اس کے گرد ایسے حفاظتی انتظامات نہ کر دیئے جائیں جو اس کے ’ذرات‘ کو پھر سے بکھر جانے سے روک رکھیں اور جن میں کہ یہ صلاحیت ہو کہ جونہی اس کے نظام میں کوئی خلل آئے اور اس کے مجتمع عناصر یکسو ہو جانے کے بعد انتشار کا شکار ہونے لگیں تو وہ ان کو پھر سے وہی ترتیب دے دیں۔
پھر جس طرح لوہے کا ایک ٹکڑا مقناطیس ہٹا لینے کے بھی ایک مدت تک اپنی مقناطیسیت کھو نہیں دیتا مگر وہ بتدریج کم ہوتی جاتی ہے، اسی طرح ایک بشری نفس بھی ایمان لے آنے کے بعد ’حفاظتی انتظامات‘ کے بغیر چھوڑ دیا جائے تو وہ فوراً اپنی ایمانی کیفیت نہیں کھو دیتا مگر وہ بتدریج کم ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ ایمان فعال نہیں رہتا۔ ایمان پھر اس کو یک سمت اور یک سو نہیں رکھتا۔ یہاں تک کہ گویا عالم واقع میں ایمان موجود ہی نہیں.... یہاں جس چیز کی ضرورت سامنے آتی ہے وہ ہے .... ’ایمان پر تربیت پانا‘ نہ کہ ’صرف ایمان لے آنا‘۔
معاملہ یہ ہے کہ نفس انسانی ہر لمحہ ایک نئی حالت سے گزرتا ہے اور اس کی ہستی میں بہت سے گرداب آتے اور جاتے ہیں۔ خیالات، افکار، سوچیں اور پھر وہ خواہشات جن کی بابت قرآن نے کہا ہے:
زین للناس حب الشہوات من النساءوالبنیین والقناطیر المقنطرہ من الذھب والفضہ والخیل المسومہ والانعام والحرث ذلک متاع الحیاہ الدنیا واللّٰہ عندہ حسن الماب (آل عمران:١٤)
”لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ___عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں___ بڑی خوش نما بنا دی گئی ہیں۔ یہ دُنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان ہے۔ البتہ جو لَوٹنے کا بہترین ٹھکانا ہے وہ تو خدا کے پاس ہے“۔
ہم اس سے پہلے یہ کہہ آئے ہیں کہ نفس انسانی کے درون کی ہر دم بدلتی اور آرزو ھائے خواہشات کی زد میں آتی رہنے والی یہ حالت ___جو کہ بہرحال انسان سے اپنے مطلب کے اعمال اور رویہ اختیار کر لینے کی متقاضی رہتی ہے___ یہی دراصل اس ’آزمائش‘ کا نقطہء ابتدا ہے جس کا انسان کو دُنیا کی اس زندگی میں سامنا کئے رہنا ہے۔ اس آزمائش سے ہر نفس کو گزرنا ہوتا ہے اور اس میں پورا اترنے کے معاملے میں ہر نفس دوسرے نفس سے مختلف ثابت ہوتا ہے اور اس کی بابت ہر شخص کا رویہ دوسرے سے جدا ہوتا ہے یوں اس سے گزر کر ہر شخص اپنی آزمائش کروا لیتا ہے۔
انا جعلنا ما علی الارض زینہ لہا لنبلوھم ایہم احسن عملاً (الکہف: ٧)
”روئے زمین پر جو کچھ پایا جاتا ہے اس کو ہم نے زمین کی آرائش بنا دیا ہے تاکہ ہم ان کو آزما لیں کہ ان میں سے کون عمدہ عمل کرنے والا ہے“۔
اوپر کی آیت میں ان خواہشات و شہوات کا اجمالاً ذکر کر دیا گیا جو نفس انسانی میں موجزن ہوتی ہیںاور پھر اس کو ایک خاص قسم کے افعال اور رویے اختیار کر لینے پر مجبور کرتی ہیں۔ یہ اس وجہ سے کہ یہ مقام اجمال کا ہے نہ کہ تفصیل کا۔ [اس امر کی تفصیل بھی متعدد آیات اور احادیث میں وارد ہوئی ہے] مگر نفس کے انفعالات، نفس کی رغبتیں اور شوق، جذبات اور خیالات، خواہشات اور آرزوئیں اتنی ہیں کہ شمار نہیں ہو سکتیں۔ نہ یہ کبھی ختم ہونے میں آتی ہیں۔ نہ یہ زور لگانے سے کبھی رکتی ہیں۔ یہ چھوٹ چھوٹ کر نکلنے کیلئے ہمیشہ پر تولتی ہیں۔ انسان، جب تلک زندہ ہے اس کے اہداف کبھی سر ہوں گے اور نہ اس کے مطالبے کبھی رکنے میں آئیں گے۔ چنانچہ یہ ’آزمائش‘ ہر لحظہ قائم ہے۔ جب ایسا ہے تو پھر ’تربیت‘ کی ضرورت بھی ہر لحظہ قائم ہے۔ یہاں تک کہ نفس کو استقامت پر لے آیا جائے۔ نفس کو جس وضع پر لایا جانا اس آزمائش میں مطلوب ہو وہاں رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ نفس خواہشات وشہوات کی بندگی سے نجات پائے اور پھر استقامت کی اس راہ پر رہنا گویا اس کی سرشت بن جائے یہاں تک کہ اس کیلئے اصل یہ ہو کہ وہ اس راستے پر چلے اور اس راستے سے پیر کبھی باہر پڑ جانا خلاف معمول واقعہ ہو جائے۔ یوں اس پر خدا کا یہ قول (منطبق) ہو۔
ان الذین قالوا ربنا اللّٰہ ثم استقاموا تتنزل علیہم الملائکہ ان لا تخافوا ولا تحزنوا وابشروا بالجنہ التی کنتم توعدون (حم السجدہ:٣٠)
”جن لوگوں سے کہا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ”نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے“۔
پھر بھی انسان خطا سے معصوم نہیں۔ کسی کو یہ ضمانت نہیںکہ وہ کبھی بھی اپنے نفس کے جھانسے میں نہ آئے گا اور وہ خواہشات کے جال میں ہرگز نہ آنے پائے گا۔ لیکن اگر ایسا ہے تو دوسری طرف توبہ کا دروازہ ہر بشر کے آگے کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔
کل بنی آدم خطاءوخیر الخطائین التوابون (رواہ احمد وابن ماجہ)
”آدم کی سب اولاد غلطی کر لینے والی ہے۔ مگر ان خطا کاروں میں سب سے بہتر وہ ہیں جو پلٹ آتے رہیں“۔
یہاں ’تربیت‘ کی اہمیت سامنے آتی ہے اور بنی آدم کیلئے اس کا ناگزیر ہونا اور آخری حد تک اس کا اہتمام کرنا ایک حتمی ضرورت کے طور پر واضح ہوتی ہے۔
’تربیت‘ صرف اس معنی میں مطلوب نہیں کہ یہ نفس کی شہوت وخواہش اور نفس کے انفعال اور شوریدگی کو ضبط میں لانا ہے، گو یہ تربیت کی اہم اور ناگزیر بنیادوں میں سے ایک ہے۔ ’تربیت‘ دراصل رویہ وسلوک کے اور بہت سے مدارج اور اعلیٰ قدروں کو نفس میں گہرا لے جانے کے اور بہت سے مقامات کیلئے بھی مطلوب ہے....
دُنیا کی زندگانی میں اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے جو ’آزمائش‘ رکھی ہے وہ کوئی ایک ہی قسم کی نہیں۔ یہ قسما قسم آزمائش ہے۔ ’آزمائش‘ کی بعض صورتیں اس کے درون سے ہی اس پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ یہ اس کی داخلی اشتہا ہے اور اس کے اندر کی خواہش اور للچاہٹ۔ پھر آزمائش کی بعض صورتیں بیرون سے حملہ آور ہوتی ہیں اگرچہ یہ اس کے درون میں پائی جانے والی چاہت اور ہوس کے بل پر ہی اثر انداز ہوتی ہیں۔ یہ سیاسی عوامل ہوتے ہیں، معاشی حالات ہوتے ہیں اور سماجی اسباب۔ اسی میں لوگوں کے مابین پائے جانے والے رحجانات، رسوم اور فیشن آتے ہیں۔ یہ سب مل کر ’انسان‘ کو اپنے تقاضوں کے آگے سرنگوں کرنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ ان میں کا ایک بڑا حصہ، خصوصاً ایک جاہلی زندگی میں، انسان کی حقیقی ضرورت سرے سے نہیں ہوتا بلکہ یہ محض اھواءاور شرور نفس ہوتا ہے۔ اھواءاور شرور نفس کو ایک بدترین رخ دینے میں ایک بڑا کردار پھر ان مستکبرین کا ہوتا ہے جو مستضعفین کیلئے زندگی کا رخ متعین کرتے ہیں۔
ولو اتبع الحق اھواءھم لفسدت السماوات والارض ومن فیہن (المؤمنون: ٧١)
”حق اگر کہیں ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو زمین اور آسمان اور ان کی ساری آبادی کا نظام درہم برہم ہو جاتا“۔
تاآنکہ زندگی اس اعلیٰ سطح پر آکر استقامت اختیار کر لے جو زمین میں انسان کے شایان شان ہے، کہ انسان وہ مخلوق ہے جس کو خدا نے ایک خاص تکریم دے رکھی ہے اور بے شمار مخلوقات پر نمایاں فضیلت عطا فرمائی ہے، لازم ہے کہ انسان اپنے درون اور بیرون سے حملہ آور دبائو کی ان سب صورتوں کے آگے ایک سخت مزاحمت کرے، بے شک وہ اپنی اس مزاحمت کے باعث اپنی بہت سی جائز خواہشات کو پوراکرنے سے محروم کیوں نہ رہ جائے....
نفس کو اگر کسی بھی دیکھ بھال اور نگہداشت کے بغیر چھوڑ دیا جائے تو اس کا معدن کمزور پڑ جاتا ہے۔ پھر یہ ایک ناتواں نفس ہوتی ہے جو کسی دبائو اور کسی حملہ کے آگے مزاحمت کی طاقت نہیں رکھتی۔ محتلف عوامل کے آگے یہ بڑے آرام سے مچ جاتی ہے۔ ’خواہشات‘ اور ’واقعات‘ اس کو جو صورت دیں بس یہ وہی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ یہ بات مستکبرین کو اور بھی انگیخت دیتی ہے کہ کمزور نفوس پر وہ اپنا دبائو بڑھا دیں تاکہ وہ اپنے شرور نفس اور اپنی پراگندہ خیالی کیلئے لوگوں کو اور بھی جھکائیں۔ تب پھر زمین میں ایک بڑا فساد برپا ہو اور ہر طرف بگاڑ اور انحراف پھیل جائے:
ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس (الروم:٤١)
”بحر وبر میں، لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث، فساد پھیل گیا ہے“۔
”لوگوں کی بداعمالیوں کے باعث“ چاہے یہ جباروں کی سرکشی ہو اور چاہے کمزوروں کا ان کے مطالبوں کے آگے سر جھکانا، سب فساد ہے جو زندگی کو اس رخ پرنہیں آنے دیتا جس پر کہ، خدا کے حکم کی رو سے، اسے ہونا چاہئے....
یہاں ایک بار پھر تربیت کا وہ کردار نمایاں ہوتا ہے جو نفس میں وہ ٹھوس پن پیدا کرنے کیلئے ناگزیر ہے جو اس کو دبائو کی ان مختلف صورتوں کے آگے جم جانے کی صلاحیت دے۔ اسلام کی فکری بنیادوں اور نظریاتی اصولوں پر محنت انسان کی نفسیات اور اس کے کردار میں وہ قوت لے آنے کا باعث ہوتی ہے جو کسی حملے کے آگے ڈھیر ہو جانے یا کسی دبائو کے تحت لچک اپنانے سے نفس انسانی کا تحفظ کرے۔ جس قدر ان فکری اصولوں اور اخلاقی قدروں سے اس کا تمسک زیادہ ہوگا اسی قدر نفس میں وہ ٹھوس پن آئے گا جو اس معرکہء خیر وشر میں اس کی قوت مدافعت اور فعالیت میں اضافہ کرے۔ فکری بنیادوں اور اخلاقی قدروں سے یہ ’تمسک‘ جس چیز کا نتیجہ ہوتا ہے وہ ہے درست تربیتی عمل جس پر ایک لگاتار اور درجہ بدرجہ محنت ہوتی ہو۔ مگر فکری اصولوں اور نظریاتی بنیادوں سے انسان کا یہ تمسک بھی اسی بات کا محتاج ہے کہ پہلے نفس کو اھواءپر ضبط پانے کا باقاعدہ طور پر عادی کیا جائے جبکہ نفس کو عملاً کسی بات کا عادی کرنے کیلئے ایک مسلسل محنت کی ضرورت بہرحال مسلم ہے۔ چنانچہ فکری اصولوں اور اخلاقی قدروں پر محنت اور نفس کو عملاً مشقت اور برداشت کا عادی کرنا، یہ وہ دو باتیں ہیں جن کے بغیر اس مشن کے فرائض اور تکالیف کا قیام عمل میں آنا ممکن نہیں۔ ’تمسک‘ سے یہ دونوں ہی پہلو مراد ہیں:
فاستمسک بالذی اولی انک علی صراط مستقیم (الزخرف: ٤٣)
”تم پر جو کچھ وحی ہو، پس تم اسی سے پورا تمسک رکھو، یقینا تم ہی سیدھے راستے پر ہو“۔
والذین یمسکون بالکتاب واقاموا الصلوہ انا لا نضیع اجر المصلحین (الاعراف: ١٧٠)
”جو لوگ کتاب وحی سے تمسک اختیار کرکے رکھتے ہیں اور جنہوں نے نماز قائم کر رکھی ہے، یقینا ایسے نیک کردار لوگوں کا اجر ہم ضائع نہیں کریں گے“۔
تربیت کی ضرورت یہاں پر بھی ختم نہیں ہو جاتی۔ نہ ہی تربیت کے تحت دین کا یہ کل مطلوب ہے۔ خصوصاً اس امت میں۔
خدا کی مشیئت اس بات کی متقاضی ہوئی ہے کہ سب کے سب انسان ایک ہی امت نہ ہوں۔
ولو شاءربک لجعل الناس امت واحدہ ولا یزالون مختلفین الا من رحم ربک ولذلک خلقھم (ھود: ١١٨۔١١٩)
”بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا۔ مگر وہ اختلافات کرتے ہی رہیں گے۔ بچیں گے وہی جن پر تیرے رب کی رحمت ہے۔ اسی (آزادی انتخاب واختیار) کیلئے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا ہے“۔
ھو الذی خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (التغابن: ٢)
”وہی ہے جس نے تم کو پیدا کیا۔ پھر تم میں سے کوئی کافر ہے اور کوئی مومن....“
خدا کی یہ سنت ٹھہری ہے کہ زمین کی اس دُنیا میں مومنوں اور کافروں کے مابین ایک کشمکش برپا ہو اور اہل حق اور اہل باطل اپنے اپنے مسلک زندگی کے حق میں اور ایک دوسرے کے منہج عمل کے خلاف اپنا زور صرف کریں۔ تاکہ زمین میں غلبہء باطل کے باعث ناقابل تدارک حد تک فساد نہ پھیل جائے۔
ولولا دفع اللّٰہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض ولکن اللّٰہ ذوفضل علی العالمین (البقرہ:٢٥١)
”اگر اس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے نہ ہٹاتا رہتا، تو زمین کا نظام بگڑ جاتا، لیکن دُنیا کے لوگوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے“۔
خدا اس بات سے عاجز نہیں کہ وہ اہل باطل کو خود ہی تباہ کر دے اور ان کی سرکشی اور طغیانی کا آپ ہی صفایا کر دے جبکہ وہ وہی ذات تو ہے جو کسی چیز کو، جو جاننے کیلئے، صرف ”کُن“ کہتی ہے۔
انما قولنا نشی ئٍ اذا اردناہ ان نقول لہ کن فیکون (النحل: ٠٤)
”ہمیں کسی چیز کو وجود میںلانے کیلئے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا ہوتا کہ اسے حکم دیں ”ہوجا“ اور بس وہ ہو جاتی ہے....“
مگر خدا کی سنت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اہل باطل کی تباہی اہل حق کے ہاتھوں ہو اور اس کی اپنی مدد وتائید سے ہو، اور یہ کہ اہل حق کے حق میں یہ اس آزمائش کا ایک حصہ ہو جس کا، سنت خداوندی کی رو سے، اس زندگی میں پیش آنا ٹھہر گیا ہے۔ مگر بیک وقت یہ ان کے لئے ایک بڑا اعزاز اور شرف کا غیر معمولی مقام بھی ہو!
ذلک ولو یشاءاللّٰہ لا نتصر منہم ولکن لیبلوا بعضکم ببعض (محمد: ٤)
”یہ ہے تمہارے کرنے کا کام۔ اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے نمٹ لیتا مگر (یہ طریقہ اس نے اس لئے اختیار کیا ہے) تاکہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ سے آزمائے“۔
فلم تقتلوھم ولکن اللّٰہ قتلہم ومارمیت اذ رمیت ولکن اللّٰہ رمی ولیبلی المؤمنین منہ بلاءحسناً ان اللّٰہ سمیع علیم (الانفال: ١٧)
”پس حقیقت یہ ہے کہ تم لوگوں نے انہیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کئے گئے) تو یہ اس لئے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمائش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینا اللہ سننے اور جاننے والا ہے“۔
دین اسلام کا یہ پہلو، یعنی باطل کے خلاف مجاہدہ اور زمین کی اصلاح اور فساد سے اس کا تحفظ کرنے کی غرض سے باطل کے پیر اکھاڑ دینے میں مسلسل مصروف عمل رہنا.... یہ اس ’آزمائش‘ کی وہ بلند ترین چوٹی ہے جس تک انسان کو اس زندگی میں پہنچنا ہوتا ہے۔ یہی ”ذروہ سنام الاسلام“ .... اسلام کے کوہان کی چوٹی ہے۔ یعنی یہ منہتائے سعی وکاوش ہے۔
الا اخبرک براس الامر، وعمودہ، وذروہ سنامہ؟ قلت: بلی یا رسول اللّٰہ۔ قال راس الامر الاسلام، وعمودہ الصلاہ وذروہ سنامہ الجھاد (اخرجہ الترمذی)
”کیا میں تمہیں نہ بتائوں کہ دین کی اساس کیا ہے، دین کا ستون کیا ہے اور اس کے کوہان کی چوٹی کیا ہے؟ میں (معاذ بن جبل) نے عرض کی: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول! فرمایا: دین کی اساس حقیقت اسلام ہے۔ دین کا ستون نماز ہے اور دین کے کوہان کی چوٹی جہاد ہے“۔
اب یہ امر ایک اور بھی خاص درجے کی استعداد اور ایک طویل تربیتی عمل کا ضرورت مند ہے۔ جسمانی اور مادی استعداد سے پہلے ایک نفسیاتی اور روحانی استعداد۔ یہ تربیت کی ایک ایسی سطح ہے جس تک نہیں پہنچا جا سکتا تاآنکہ انسان اس سے پہلے کے دونوں مدارج کو پہنچ لے۔ یعنی نفسیاتی ونظریاتی صلاحیت اور ضبط خواہشات۔ یوں تربیت کے یہ تین مدارج سامنے آتے ہیں ضبط اھواءسے شروع ہو کر جہاں یہ نفس کیلئے ایک عادت اور معمول کا درجہ اختیار کر لے، اور فکری اصولوں اور اخلاقی قدروں میں پختگی کے مرحلہ سے گزرتے ہوئے نفس اور مال کے ساتھ جہاد کی استعداد تک پہنچنا اور اس پر صبر اور ثبات اختیار کرنا۔
اس کے بعد پھر ایک آخری سطح ہے۔ خیر القرون کی بابت اپنی اس گفتگو میں اس کی جانب اشارہ کر دینا بھی ضروری ہے، خاص طور پر امت کی نسل اول (صحابہ) کی بابت۔ یہ عبادت کی رضاکارانہ صورتوں کے ایک اعلیٰ معیار کا التزام ہے۔ یہ درجہ واجبات اور فرائض سے گزر کر آتا ہے۔ یہ مندوبات اور مستحبات کی سطح کو چھونا ہے جس میں آدمی مندوبات و مستحبات کو بھی اپنے حق میں واجبات کا درجہ دے لیتا ہے، بغیر اس کے کہ اللہ اور رسول اس کو اس بات کا پابند کریں۔ مگر اللہ اور رسول کی محبت میں آدمی ازخود یہ ذمہ اٹھا لیتا ہے۔ یہ عبادت کو اللہ کیلئے خالص کر دینے اور اس کی خوشنودی کی چاہت کرنے کا آخری درجہ ہے کہ ایک بات جو اس پر فرض نہ کی گئی ہو مگر وہ اس کو فرض ہی کی طرح ادا کرنے پر کاربند ہو۔ یہ ایک ایسی سطح ہے جس کے اعلیٰ ترین مقامات تک رسول اللہ کے زیر تربیت رہنے والی صحابہ کی وہ منفرد ترین نسل پوری کامیابی کے ساتھ پہنچی تھی۔ اگرچہ امت کی بعد کی نسلوں میں سے کوئی بھی نسل اور کوئی بھی دور ایسے افراد سے خالی نہ رہا جو بلندی کے اس عظیم مقام کو کامیابی سے چھو لیں۔
٭٭٭٭٭٭
یہ امور واضح ہو جانے کے بعد ہمارے لئے اس محنت کا اندازہ کر لینا ممکن ہو جاتا ہے جو مربی اعظم نے اپنے زیر تربیت نفوس کو اس بلند ترین مقام تک پہنچانے کیلئے صرف کی جس تک وہ بالفعل پہنچ گئے تھے اور جو کہ ایک ایسا مقام ہے جس کی انسانیت کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی....
اس محنت کا اندازہ کرنے کیلئے جو رسول اللہ نے اپنے اصحاب کی تربیت پر کی شاید یہ بات ہمارے لئے مددگار ہو کہ ہم تربیت کے اس عظیم ترین وسیلہ سے شناسائی حاصل کریں جس کو آپ نے اپنے اصحاب کے تزکیہ کیلئے اختیار فرمایا۔ یہ وہ وسیلہ ہے جو اسلام پر تربیت پانے کیلئے ہر دور اور ہر نسل کی ضرورت ہے۔ یہ ہے اللہ اور یوم آخرت کو نفوس میں گہرا کرنا اور خدا کی معیت میں زندگی صرف کرنا....
کوئی چیز بھی نفس کو درجہ بدرجہ ترقی دینے میں ایمان کی طرح نہیں۔ ایمان پر محنت ہی وہ چیز ہے جو اس بات کا انتظام کرتی ہے کہ نفس انسانی جب ایک بار راہ راست پر آجائے تو پھر دامن چھڑا کر بھاگنے نہ پائے اور شہوات وخواہشات کا بوجھ اس کو بلندی سے پستی کی جانب کھینچ لے جانے میں ناکام رہے۔ ایمان پر محنت ہی وہ چیز ہے جو نفس میں یہ شوق پیدا کرتی ہے کہ وہ پستیوں کی جانب کھنچنے کی بجائے بلندیوں اور رفعتوں کی جانب بڑھنے کیلئے زور لگائے اور مدارج سالکین میں اعلیٰ ترین درجات پانے کو بے تاب ہو۔
جس قدر انسان خدا کی معیت میں رہنے لگتا ہے، جس قدر خدا کی محبت اور خشیت دل میں پیدا کرتا ہے، جس قدر خدا کو ظاہر اور باطن میں یاد کرتا ہے اور اس کی رضا جوئی کرتا ہے.... اور جس قدر وہ یوم آخرت اور اس کے بعث ونشور، حساب وجزا اور جنت وجہنم کو سامنے رکھ کر زندگی بسر کرتا ہے اسی قدر اس میں خواہشات پر ضبط آتا ہے۔ اسی قدر اس میں اعلیٰ قدروں کا آئینہ دار ہونے کی ہمت آتی ہے۔ اسی قدر وہ اپنے آپ کو خدا کی راہ میں جہاد کیلئے تیار کرتا ہے اور اسی قدر وہ ___خدا کی خوشنودی پانے کیلئے___ عبادت کی رضا کارانہ صورتوں کے ایک اعلیٰ معیار کا التزام کرتا ہے۔
اگر ہم قرآن مجید کی آیات کا ایک استقراءکریں تو ہمیں ان امور پر بطور خاص ترکیز دی گئی نظر آتی ہے....
جہاں تک خدا کی پہچان کرانے کا تعلق ہے.... اس کے اسماءحسنی اور صفات اعلی کے ذریعے.... اس کی قدرت کے تذکرے کرکے جس کو کوئی چیز عاجز کر دینے والی نہیں۔ اور اس کے علم کا وصف بیان کرکے جس سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں، اور اس کی نگرانی کا ذکر کرکے جس سے کوئی چیز اوجھل نہیں، اور اس کی رحمت کا بیان کرکے جو ہر چیز پر وسیع ہے، اور اس کی قوت وجبروت کا ذکر کر کے جس کی راہ میں کوئی چیز ٹھہرنے والی نہیں.... تو خدا کا یہ تعارف قرآن میں اتنا زیادہ اور اتنا واضح ہے کہ محتاج بیان نہیں۔ یہ قرآن کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا موضوع ہے۔ قرآن میں جتنی جگہ اس موضوع نے گھیر رکھی ہے اور جتنی ترکیز اسے حاصل ہے، اور جس قدر تکرار اس کی قرآن میں ہوئی ہے وہ کسی اور موضوع کو حاصل نہیں۔ پھر خدا کی پہچان ہو جانے کے تقاضے بھی اتنے ہی زور اور اتنی شدت اور تکرار سے بیان ہوئے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کی بلاشرکت غیرے بندگی ہو، قلبی اعتقادات کے اندر بھی اور شعائر عبادت مانند نماز وروزہ وزکوٰت وحج، استعانت وفریاد، ذبیحہ ونذر و دُعاءوغیرہ کے اندر بھی اور اس کے اتارے ہوئے اوامر ونواہی، تشریعات واحکام اور قوانین وحدود کے اندر بھی۔
جہاں تک مناظر قیامت کا تعلق ہے، اپنے تمام تر متنوع اسالیب کے ساتھ اور کثرت ذکر اور تعدد مقامات کے ساتھ اور آخرت کی نعمتوں اور سختیوں کے تذکروں کے ساتھ.... تو وہ بھی اتنا زیادہ اور اتنا واضح ہے کہ دیکھنے والے کو قرآن میں گویا بس یہی نظر آتا ہے۔ ایک قابل التفات بات یہ ہے کہ قرآن مجید کی مدنی سورتوں میں بالخصوص ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الاخر کو سلباً وایجاباً ربط دیا جاتا ہے اور پھر اس کو انسان کے عقائد، شعائر، شرائع، اخلاق، اقدار اور رویہ وسلوک کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے.... ایک مومن کے حق میں بھی اور ایک کافر کے حق میں بھی:
ان الذین آمنوا والذین ھادوا والنصاری والصابئین من آمن باللّٰہ والیوم الآخر وعمل صالحا فلہم اجرھم عند ربہم ولا خوف علیہم ولا ھم یحزنون (البقرہ: ٦٢)
”نبی عربی کو ماننے والے ہوں یا یہودی، عیسائی ہوں، صابی جو بھی اللہ اور روز آخر پر ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے اور اس کے لئے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے“۔
واذا طلقتم النساءفبلغن اجلہن فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجہن اذا تراضوا بینھم بالمعروف ذلک یوعظ بہ من کان منکم یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر (البقرہ: ٢٣٢)
”جب تم اپنی عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں، تو پھر اس میں مانع نہ ہو کہ وہ اپنے زیر تجویز شوہروں سے نکاح کر لیں، جبکہ وہ معروف طریقے سے باہم مناکحت پر راضی ہوں۔ تمہیں نصیحت کی جاتی ہے کہ ایسی حرکت ہرگز نہ کرنا، اگر تم اللہ اور روز آخر پر ایمان لانے والے ہو“۔
یاایھا الذین امنوا لا تبطلوا صدقاتکم بالمن والاذی کالذی ینفق مالہ رئاءالناس لا یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر (البقرہ:٢٦٤)
”اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر اس شخص کی طرح خاک میں نہ ملا دو، جو اپنا مال محض لوگوں کے دکھانے کو خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے نہ روز آخرت پر“۔
یاایھا الذین امنوا اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم فان تنازعتم فی شیئٍ فردوہ الی اللّٰہ والرسول ان کنتم تؤمنون باللّٰہ والیوم الآخر ذلک خیر واحسن تاویلا (النساء: ٥٩)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرورسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں۔ پھر اگر تم میں کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے“۔
قاتلوا الذین لا یؤمنون باللّٰہ ولابالیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللّٰہ ورسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اوتوا الکتاب حتی یعطوا الجزیہ عن یدوھم صاغرون (التوبہ: ٦٩)
”جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں“۔
لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوہ حسنہ لمن کان یرجوا اللّٰہ والیوم الآخر وذکر اللّٰہ کثیرا (الاحزاب: ٢١)
”درحقیقت تمہارے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے“۔
’اللہ‘ اور ’یوم آخرت‘ پر ایمان میں یہ ربط ہمیں اگر مدنی سورتوں میں اس قدر واضح اور بار بار متصل نظر آتا ہے تو وہ مکی سورتوں میں بھی بہت نمایاں ہے گو وہاں ان دونوں کا ذکر علیحدہ علیحدہ زیادہ ہے:
الہکم الہ واحد فالذین لا یؤمنون بالآخرہ قلوبھم منکرہ وھم مستکبرون (النحل: ٢٢)
”تمہارا معبود تو بس ایک ہی معبود ہے۔ مگر جو لوگ آخرت کو نہیں مانتے ان کے دلوں میں انکار بس کر رہ گیا ہے اور وہ گھمنڈ میں پڑ گئے ہیں“۔
وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا واذا خاطبہم الجاہلون قالوا سلاماً والذین یبیتون لربھم سجدا وقیاماً والذین یقولون ربنا اصرف عنا عذاب جہنم ان عذابہا کان غراماً۔ انہا ساءت مستقرا ومقاما۔ والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما۔ والذین لا یدعون مع اللّٰہ الھا اخر ولا یقتلون النفس التی حرم اللّٰہ الا بالحق ولا یزنون ومن یفعل ذلک یلق اثاما۔ یضاعف لہ العذاب یوم القیامہ ویخلد فیہ مھانا۔ الا من تاب وعمل عملاً صالحا فائولئک یبدل اللّٰہ سیئاتہم حسنات وکان لہ غفورا رحیما ومن تاب وعمل صالحا فانہ یتوب الی اللّٰہ متابا۔ والذین لایشہدون زور واذا مروا باللغو مروا کراما، والذین اذا ذکروا بآیات ربہم لم یخروا علیہا صما وعمیانا والذین یقولون ربنا ھب لنا من ازواجنا وذریاتنا قرتہ اعین واجعلنا للمتقین اماما اولئک یجزون الغرفتہ بما صبروا ویلقون فیہا تحیتا وسلاما۔ خلدین فیہا حسنت مستقرا ومقاما (الفرقان: ٦٣۔٧٦)
”رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں بھئی تم کو سلام ہے۔ وہ جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔ جو دُعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب، جہنم کے عذاب سے ہم کو بچا لے، اس کا عذاب تو جان کا لاگو ہے، وہ تو بڑا ہی برا مستقر اور مقام۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ جو اللہ کے سوا کسی اور معبود کو نہیں پکارتے، اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے، اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ___ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا، قیامت کے روز اس کو مکرر عذاب دیا جائے گا اور اسی میں وہ ہمیشہ ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔ الا یہ کہ کوئی (ان گناہوںکے بعد) توبہ کر چکا ہو اور ایمان لا کر عمل صالح کرنے لگا ہو۔ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور وہ بڑا غفور رحیم ہے۔ جو شخص توبہ کرکے نیک عمل اختیار کرتا ہے وہ تو اللہ کی طرف پلٹ آتا ہے جیسا کہ پلٹنے کا حق ہے___ (اور رحمن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے اور کسی لغو چیز پر ان کا گزر ہو جائے تو وہاں سے بڑے وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ جنہیں اگر ان کے رب کی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو وہ اس پر اندھے اور بہرے بن کر نہیں رہ جاتے۔ جو دُعائیں مانگا کرتے ہیں کہ ”اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا“ یہ ہیں جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے ان کا استقبال ہو گا....“۔
اس امر کی تربیتی دلالت ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر دونوں کا پہلے قائم بالذات انداز میں پایا جانا اور ان میں سے ہر ایک کا نفس کی گہرائیوں تک جا پہنچنا اور پھر وہاں دونوں کا آپس میں مل جانا اور لازم وملزم ہو جانا اور ایک دوسرے کی تکمیل کرنا.... یہ اسلام کے منہج تربیت کی سب سے بڑی بنیاد ہے۔ یہی وہ محنت ہے جس سے مطلوبہ ثمرات حاصل ہو سکتے ہیں بشرطیکہ اس کی مسلسل نگہداشت ہو اور اس پر ایک قیادت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دے۔ یہی وہ کام ہے جو رسول اللہ نے انجام دیا اور اس میں عمدگی کا وہ معیار رکھا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی....
رسول اللہ کی، خصوصاً مکہ کے اندر، جو مسلسل محنت ہوئی وہ اپنے اصحاب کے نفوس میں ایمان باللہ کو گہرا کرنا تھا اور ایمان بالیوم الآخر کو گہرا کرنا .... پھر اس ایمان باللہ اور ایمان بالیوم الآخر کو ان نفوس میں باہم جوڑ دینا.... یہاں تک کہ ان میں سے ایک کا ذکر ہو تو دوسرا خودبخود ساتھ آئے: اگر انسان کو خدا کی بابت متنبہ کیا جائے تو وہ خودبخود یوم آخرت کی بابت متنبہ ہو اور آخرت کے ٹھاٹھ اور آخرت کی سختی خودبخود اس کی نگاہوں میں آجائے.... اور اگر کبھی آخرت کا تذکرہ ہو تو خدا کا مرتبہ اور مقام آپ سے آپ اس کی نگاہ میں آجائے جو کہ دُنیا اور آخرت کا مالک ہے اور کائنات کی ہر چیز کا حاکم ومتصرف۔
تربیت کی اس زبردست بنیاد کو اختیار کرکے رسول اللہ اپنے اصحاب کی تربیت کو جس بلندی پر لے جانے میں کامیاب ہوئے.... تربیت کی یہ بنیاد بھی اور تربیت کی یہ بلندی بھی دونوں ہمیں قرآنی آیات کے اس خوبصورت وصف میں واضح نظر آتی ہیں کہ یہ تبدیلی اصحاب رسول اللہ میں جس سرچشمہء حیات سے سیراب ہو کر آئی وہ سرچشمہ کیا تھا اور پھر یہ کہ اس سرچشمہ حیات سے منادی ایمان کے ہاتھوں سیراب ہو کر جو تبدیلی آئی وہ تبدیلی کس پائے کی تھی!
ان فی خلق السماوات والارض واختلاف اللیل والنہار لآیات لاولی الالباب الذین یذکرون اللّٰہ قیاما وقعودا وعلی جنوبہم ویتفکرون فی خلق السماوات والارض ربنا ما خلقت ھذا باطلا سبحانک فقنا عذاب النار، ربنا انک من تدخل النار فقد اخزیتہ وما للظالمین من انصار۔ ربنا اِننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفرعنا سیاتنا وتوفنا مع الابرار، ربنا واتنا ما وعدتنا علی رسلک ولا تخزنا یوم القیامہ انک لا تخلف المیعاد (آل عمران: ١٩٠۔١٩٤)
”زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں ان ہوشمند لوگوں کیلئے بہت نشانیاں ہیںجو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں (وہ بے اختیار بول اٹھتے ہیں) پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے، تو پاک ہے اس سے کہ عبث کام کرے۔ پس اے ہمارے رب! ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے، تو نے جسے دوزخ میں میں ڈالا اسے درحقیقت بڑی ذلت اور رسوائی میں ڈال دیا، اور پھر ایسے ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہو گا۔ مالک! ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا جو ایمان کی طرف بلاتا تھا اور کہتا تھا کہ اپنے رب کو مانو۔ ہم نے اس کی دعوت قبول کرلی۔ پس اے ہمارے آقا جو قصور ہم سے ہوئے ان سے درگزر فرما، جو برائیاں ہم میں ہیں انہیں دور کر دے اور ہمارا خاتمہ نیک لوگوںکے ساتھ کر، خداوندا! جو وعدے تو نے اپنے رسولوں کے ذریعے کئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ پورا کر اور قیامت کے دن ہمیں رسوائی میں نہ ڈال، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف کرنے والا نہیں ہے“۔
اللہ رب العالمین نے رسول اللہ کے ہاتھوں تیار ہونے والی اس جماعت کا یہ وصف جو خود بیان فرمایا بہت ہی عظیم الشان ہے۔ یہ وصف اس معاملے میں بہت واضح ہے کہ تربیت میں وہ لوگ کس رفعت کو پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ کی یاد اور اس کا ذکر ایک لمحہ کیلئے بھی ہو تو وہ نفس پر اپنے آثار چھوڑتا ہے۔ پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی ساخت میں غور وفکر کرتے ہیں“! خدا کی اس یاد اور اس ذکر کا ان کے نفوس پر بھلا کیا کیا اثر نہ ہوتا ہو گا!
ایک اور جہت سے دیکھیے تو خدا کی یاد اور خدا کی آگہی اور خدا کی طلب ایک نفس پر اس حالت میں وارد ہوتی ہی نہیں جب وہ خواہشات کی کشش ثقل سے پستی کی جانب کھینچ رہی ہو اور جب وہ متاع فانی کی چاہت کے ڈھلوان پر ’اترائی‘ کی جانب لڑھک رہی ہو .... کیونکہ یہ ’غفلت‘ کے لمحات ہوتے ہیں جب انسان خدا کے مرتبہ ومقام سے غافل ہوتا ہے۔ جبکہ خدا کی یاد اور خدا کی طلب کا لمحہ تو وہ لمحہ ہے جب انسان ’چڑھائی‘ کی جانب بڑھ رہا ہو! یہ مقیاس جب ہم مدنظر رکھ کر دیکھتے ہیں تو خدا کی یاد اور چاہت کا ہر لمحہ ہمیں رفعت، بلندی اور ’چڑھائی‘ کا لمحہ نظر آتا ہے.... اگر ایسا ہے تو پھر ان لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو ہر لمحہ خدا کی جانب متوجہ رہتے ہیں! جو ’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے‘ ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور زمین وآسمان کی پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں“! یہ لوگ کتنی ’چڑھائی‘ چڑھے ہوں گے اور اس بلندی پر ٹک رہنا کس قدر عزیمت کا کام ہو گا!؟ اس امر کی حقیقت کا ذرا واقعی تصور کیجئے کہ یہ کس قدر عظیم الشان کام ہے....
’چڑھائی‘ کا کام نفس انسانی پر ہمیشہ ہی شاق گزرتا ہے کجا یہ کہ نفس کو اس کا عادی ہی کر دیا جائے! یہ ایک واقعتا مشکل کام ہے۔ ’مشت خاک‘ بہرحال ایک بوجھ رکھتی ہے۔ ’بوجھ‘ ہمیشہ پستی کی جانب کھنچتا ہے۔ اوپر جانے کیلئے بلاشبہ زور لگتا ہے۔ نفس کو پستی میں گرنے نہ دینا ہی ایک خاص درجے کی قوت چاہتا ہے پھر اس کو اوپر اٹھانا تو اور بھی اس بات کا متقاضی ہے کہ بلندی کی جانب اٹھنے والی قوت پستی کی جانب کھینچنے والی قوت پر برتری پائے....
یہ حق ہے کہ اوپر جانے کا محرک بھی انسان کی ذات میں رکھ دیا گیا ہے۔ یہ اس کی فطرت کی تہہ میں موجود ہے۔ یہ نفخہء بریں ہے جو خدا نے انسان میں پھونک رکھی ہے:
اِذ قال ربک للملائکہ انی خالق بشرا من طین فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین (ص:١٧۔ ٢٧)
جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا ”میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جائو“۔
مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلند ہونے کے اس محرک کو، جو کہ انسان کی فطرت میںرکھ دیا گیا ہے، جلا دینے پر ہرگز کسی محنت کی ضرورت نہیں۔ اسی محنت کا نام دراصل ’تربیت‘ ہے۔ خواہشات واغراض جہاں نفس انسانی کے اندر خودبخود متحرک ہوتی ہیں اور اپنی چمک دمک کے باعث یہ نفس پر زود اثر ہوتی ہیں اور ہیجان خیز ثابت ہوتی ہیں وہاں آلہء ضبط جو خواہشات واغراض کو قابو میں لاتا ہے انسان کے اندر ایک خاص انداز میں فٹ کیا گیا ہے۔ یہ خواہشات کی طرح بھڑکنے والی چیز نہیں۔ یہ آہستگی سے عمل کرتا ہے مگر دور رس ہوتا ہے کہ اسے انسان کو لے کر خدا تک پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ انسان سے ایک خاص درجے کی توجہ اور ذہنی ونفسیاتی شرکت چاہتا ہے۔ یہ آپ سے آپ ہو جانے والا عمل نہیں۔ انسان کو شعوری طور پر اس کا ساتھ دینا ہوتا ہے۔ اس کیلئے عزیمت مطلوب ہے۔ بلند قدروں اور اعلیٰ اخلاقی معیاروں تک پہنچنا اور معالی الامور کو اپنا رکھنا۔ جو کہ خدا کو بے حد پسند ہے۔ ایک خاص درجے کی محنت چاہتا ہے.... انسان کی یہ صلاحیت جو اس کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتی ہے ایک باقاعدہ تربیت اور مشق چاہتی ہے۔ ایک بچہ زمین کی کشش ثقل کو مات دینے کیلئے اُٹھ کر کھڑاہوتا ہے اور چلنا سیکھتا ہے تو اس پر اس کی بہت مشق ہوتی ہے باوجود اس کے کہ چلنے اور بھاگنے پھرنے کی صلاحیت اس کی ہستی میں ودیعت کر دی گئی ہوتی ہے۔ یہ مشق نہ ہو تو چلنے کا عمل اتنا ہی موخر ہو گا اور وہ بے حرکت رہے گا۔
زین للناس حب الشہوات من النساءوالبنین والقناطیر المقنطرہ من الذھب والفضہ والخیل المسومہ والانعام والحرث ذلک متاع الحیات الدنیا واللّٰہ عندہ حسن الماب، قل اونبئکم بخیر من ذلکم للذین اتقوا عند ربہم جنات تجری من تحتہا الانہار خالدین فیہا وازواج مطھرہ ورضوان من اللّٰہ واللّٰہ بصیر بالعباد۔ الذین یقولون ربنا اننا امنا فاغفرلنا ذنوبنا وقنا عذاب النار الصابرین والصادقین والقانتین والمنفقین والمستغفرین بالاسحار (آل عمران: ١٤۔ ١٧)
”لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ___عورتیں، اولاد، سونے چاندی کے ڈھیر، چیدہ گھوڑے، مویشی اور زرعی زمینیں___ بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں،مگر یہ سب دُنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں، حقیقت میں جو بہتر ٹھکانا ہے وہ تو اللہ کے پاس ہے۔ کہو: میں تمہیں بتائوں کہ اس سے زیادہ اچھی چیز کیا ہے؟ جو لوگ تقوی کی روش اختیار کریں، اُن کے لئے اُن کے رب کے پاس باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی حاصل ہوگی، پاکیزہ بیویاں اُن کی رفیق ہونگی اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔ اللہ اپنے بندوں کے رویے پر گہری نظر رکھتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ”مالک ہم ایمان لائے، ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہمیں آتش دوزخ سے بچا لے“۔ یہ لوگ صبرکرنے والے ہیں، راستباز ہیں، فرماں بردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دُعائیں مانگا کرتے ہیں“۔
ایک طرف ’خواہشات‘ کا بوجھل وجود ہے، اور دوسری جانب اُوپر چڑھنے کا نسخہ بیان کردیا گیا ہے!
اسلام کا اس معاملے میں سب سے بڑاامتیاز یہ ہے کہ جب وہ انسان کو بلندی کی جانب لے جاتا ہے اور ’خواہشات کے بوجھ‘ کو ایک توازن دیتا ہے تو وہ انسان کو کسی ایسے منطقہ میں نہیں لے جاتا جہاں زمین کی کشش سرے سے ختم ہوجائے جیسا کہ رہبانیت اور ہندو مت اور بدھ مت ایسے دھرم انسان کے ساتھ کرتے ہیں۔ ایسی پرواز انسان کو فضا میں اڑان کامزہ تو بہت دیتی ہے مگر زمین سے اس کا رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ایسی تربیت پایا ہوا انسان پھر زمین کی تعمیر وآبادی میں کوتاہ ثابت ہوتا ہے اور زمین کو فساد سے تحفظ دینے اور جہاد اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر ایسے فرائض سے غافل رہتا ہے۔ جبکہ وہ خدا کی جانب سے ان سب باتوں کا بیک وقت مکلف ہے۔ اس لئے کہ خدا کے علم میں اسی بات کے اندر انسان کی اور زمین پر انسانی زندگی کی صلاح وفلاح ہے۔ اسی نے اس انسان کو پیدا کیا ہے اور وہی جانتا ہے کہ کونسی چیز اس انسان کو درست رکھ سکتی ہے اور کونسی چیز خود اس انسان کیلئے درست ہے:
الا یعلم من خلق وھو اللطیف الخبیر (الملک: ١٤)
”کیا وہی نہ جانے گا جس نے پیدا کیا؟ وہ تو باریک بین ہے اور زبردست باخبر“۔
ھو انشاکم من الارض واستعمرکم فیہا (ھود: ٦١)
”وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا، پھر اسی میں اس نے تمہاری آبادی چاہی“۔
الذین ان مکناھم فی الارض اقاموا الصلوہ واتوا الزکوٰت وامروا بالمعروف ونہوا عن المنکر وللّٰہ عاقبتہ الامور (الحج: ٤١)
“یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰت دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے“۔
یاایہا الذین امنوا ھل ادلکم علی تجارت تنجیکم من عذاب الیم تؤمنون باللّٰہ ورسولہ وتجاھدون فی سبیل اللّٰہ باموالکم وانفسکم ذلکم خیرلکم ان کنتم تعلمون (الصف: ١٠۔ ١١)
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسول پر اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے، یہی تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانو“۔
پھر اسی طرح جب وہ انسان کو زمین آباد کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور اس میں طیبات یعنی پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی تلقین کرتا ہے تو وہ اس کو خواہشات کی دلدل میں دھنسنے بھی نہیں دیتا۔ کیونکہ یہ دوسری انتہا ہے۔ تب بھی وہ فساد کا شکار ہوتا ہے اور مقصد حیات کی نسبت اس کا زمین میں پایا جانا بے سود ثابت ہوتا ہے۔ خواہشات واغراض کے بوجھ تلے دب کر وہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ ایسے فرائض کا بار کیسے اٹھا سکے گا۔ تب یہ فرائض اس کے لئے بے حد بھاری ہو جائیں گے۔ یہ فرائض پھر ایسے انسان کو حیات فانی کی لذتوں میں ایک بڑی رکاوٹ نظر آئیں گے اور خدا کی جانب بڑھنے کا راستہ اس کے لئے دشوار ہو جائے گا۔
لو کان عرضا قریبا وسفرا قاصدا لا تبعوک ولکن بعدت علیہم الشقہ (التوبہ: ٤٢)
”اے نبی! اگر فائدہ سہل الحصول ہوتا اور سفر ہلکا ہوتا تو وہ ضرور تمہارے پیچھے چلنے پر آمادہ ہو جاتے، مگر ان پر تو راستہ بہت کٹھن ہو گیا“۔
واذا انزلت سورہ ان آمنوا باللّٰہ وجاھدوا مع رسولہ استاذنک اولوا الطول منہم وقالوا ذنا نکن مع القاعدین۔ رضوا بان یکونوا مع الخوالف وطبع علی قلوبہم فہم لا یفقہون (التوبہ: ٨٦۔ ٨٧)
”جب کوئی سورت اس مضمون کی نازل ہوئی کہ اللہ کو مانو اور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو تم نے دیکھا کہ جو لوگ ان میں سے صاحب مقدرت تھے وہی تم سے درخواست کرنے لگے کہ انہیں جہاد کی شرکت سے معاف رکھا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہمیںچھوڑ دیجئے کہ ہم بیٹھنے والوں کے ساتھ رہیں۔ ان لوگوں نے گھر بیٹھنے والیوں میں شامل ہونا پسند کیا اور ان کے دلوں پر ٹھپہ لگا دیا گیا“۔
دراصل اسلام انسان کو جس مقام پر لاتا ہے وہ ایک توازن ہے جو انسان کے وجود کے دونوں عناصر کے مابین ایک زبردست انداز میں قائم ہو جاتا ہے۔ مشیت خاک کا عنصر اور نفخہء روح کا عنصر۔ تب یہ ایک ہی وقت میں دُنیا کیلئے بھی سرگرم ہوتا ہے اور آخرت کیلئے بھی۔ یہ زمین کے سینے پر چلتا اور دُنیا کے ہنگاموں میں شریک ہوتا ہے مگر یہ بیک وقت اس کیلئے آخرت کی کامیابی کا راستہ ہوتا ہے اور مر کر جی اٹھنے کی تیاری کا درجہ رکھتا ہے۔
ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا فامشوا فی مناکبہا وکلوا من رزقہ والیہ النشور (الملک: ١٥)
”وہی تو ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے پست ومطیع کر دیا، چلو اس کی چھاتی پر اور کھائو خدا کا رزق، اس کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے“۔
(جاری ہے)
٭ ............ ٭ ............ ٭
اللہ کے کلام سے
فرمایا رسول اللہ نے
علوم قرآن
علوم حدیث
توضیح مفہومات
معالجہ اغلوطات
ایمان
عقیدہ
شریعت
عبادت
اخلاق
فکر
منہج
مبادی فہم
تربيت
تحریک
بیداری
دعوت
حسبہ
قتال
مزاحمت
سیاست
معاشرہ
رواج ورجحانات
مفاہیم
ادبی تنقید
علوم طبعی وسماجی
خواتین
تہذیب اطفال
ابلاغ
تفریح
امت اسلام
اقوام عالم
تبصرہ وتعلیق
وقائع
تجزیہ
ادیان
فرقے
فکری وسماجی مذاہب
نظام
شخصیات وانجمنیں
کشمکش
ہوشیارکن
زنادقہ
جدال
عیسائیت
یہودیت
دیگر
اعتزال
روافض
خوارج
وحدت وجود
دیگر
عقلائیت
مادیت
سیکولرازم
جمہوریت
قومیت
دیگر
معضلات
فتاوی
مشورے
تصحیح اغلاط
اقتباسات
حاصل مطالعہ
خواطر
نوادر
لطائف
ادب
سیرت
سلف ومشاہیر
تُراث
تاریخ
اسباق
اصلاح وتجدید
ایمان کاسبق
آئیے اپنا فرض سمجھیں
اذکار وادعیہ
توضیحات
ازالہءشبہات
جوابات
مشکات وحی
اصول
جہاد
ثقافت
احوال
روبروئے باطل
رہنمائی
فوائد
بازیافت
رقائق
قارئین کے آراءوتاثرات
تبصرہ کتب ومجلات
متفرق