معاصر تحریکوں میں عجلت
پسندی
کے آجانے کے اسباب اور نتائج
محمد قطب
بنیادی طور پر تین باتیں دور
حاضر کی اسلامی تحریکوں میں جلد بازی کے آجانے کا سبب بنی ہیں:
١) اس بات کا دقیق جائزہ نہ لیا
جانا کہ اس وقت مسلم اقوام کا حقیقت اسلام سے فاصلہ کس قدر ہے۔
٢) عوام میں اسلام کی خاطر پائے
جانے والے جوش وخروش سے دھوکہ کھا جانا اور یہ سمجھ بیٹھنا کہ یہ مہم پرمشقت ضرور
ہے مگر اس میں منزل کا آجانا بہت دور نہیں۔
٣) اس بات کا ___کافی اور پیشگی___
اندازہ نہ ہونا کہ دشمن کاردعمل کیا ہو سکتا ہے اور اس کی جانب سے کیا کیا کچھ چال
چلی جا سکتی ہے۔
جلد پسندی کے ان تینوں اسباب
کی ہم کچھ وضاحت کریں گے۔
نصف صدی پیشتر جب اسلام کی
دعوت عام ہونا شروع ہوئی تب مسلم اقوام کی صورتحال کے تمام پہلو ابھی کھل کر واضح
نہ ہو پائے تھے۔ اسلام کے ظاہری اعمال کے کچھ بقایا جات ایک دیکھنے والے کو غلط
فہمی میں مبتلا کر سکتے تھے، جس بنا پر وہ یہ تصور بنا لیتا کہ مسلم اقوام میں
اسلام کا ابھی بہت کچھ باقی ہے.... جبکہ معاملہ یہ تھا کہ استعمار کی فکری یلغار
مسلم معاشروں میں اوپر کی سطح پر ابھی اس حد کو نہیں پہنچی تھی جتنی کہ اب دیکھی
جا سکتی ہے۔ معاشرے میں دین کے روایتی مظاہر دراصل اسلامی تہذیب کے بقایا جات تھے
مگر یہ یہ اس نقب پر ابھی پردہ کئے کھڑے تھے جو اس فکری یلغار کی صورت میں معاشرے
کو اندر سے لگ چکا تھا۔ چنانچہ صورتحال اپنی اصل حقیقت میں نہ دیکھی جا سکتی تھی۔
جہاں تک اس فکری یلغار کا
تعلق ہے تو وہ تو اسی وقت سے شروع ہو چکی تھی جب عالم اسلام کے ممالک مغرب کے
مقبوضہ جات بنے اور عالم اسلام میں لوگ مغرب کی مادی اور سائنسی ترقی کو دیکھ دیکھ
کر کر مبہوت ہونے لگے کیونکہ مسلمان زندگی کے ہر میدان میں حد درجہ پسماندہ تھے۔
پھر اصل کام اس تعلیمی اور ابلاغی نظام نے کیا جو اس یلغار کو دلوں اور دماغوں میں
گہرا کر گیا اور جس کے نتیجے میں بڑی تدریج کے ساتھ ہر نئی نسل فکری اور عملی طور
پر اسلام سے دور ہونے اور مغرب کے نئے ’دین‘ کو اپنانے میں پہلی نسل سے دو ہاتھ
آگے ہوجاتی رہی.... مگر آج سے ساٹھ ستر سال پہلے جب دعوت اسلامی کا ایک بڑی سطح پر
آغاز ہوا تو ابھی صورتحال ایسی ہی تھی کہ مغرب زدگی کے اس عمل نے عوامی اور
معاشرتی سطح پر ابھی یہ سب گل نہیں کھلائے تھے جو بعد میں دیکھنے میں آئے۔ یہ وہ
دور تھا جب برہنہ ہونا ابھی صرف بڑے خاندانوں کی بیگمات تک محدود تھا۔ متوسط طبقے
کی خواتین اس برہنگی سے ابھی بڑی شرم محسوس کرتی تھیں۔ اگرچہ اخبارات وجرائد میں
تصویروں اور خبروں اور افسانوں کی صورت میں یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر اور پڑھ پڑھ کر
ان میں بھی بڑی خاموشی سے اس چیز کی خواہش کروٹ ضرور لینے لگی تھی۔ یہ تو تھی
متوسط اور خاصی حد تک پڑھے لکھے طبقے کی بات۔ پھر جہاں تک عام گلی محلے کی بیٹیوں
کا معاملہ تھا وہ تو اس برہنگی سے ہول کھاتی تھیں اور اس بات کو انتہائی لچر جانتی
تھیں۔
یہ وہ دور تھا جب کسی لڑکے
اور لڑکی میں محبت کا معاملہ اگر کبھی ہو جاتا تھا ___اور وہ بھی ایسی محبت جسے آج
کے ادب میں ’معصوم‘ کہا جاتا ہے___ تو وہ حیا سے مر جانے کی بات ہوتی تھی۔ اپنے
تعلق کو آخری حد تک چھپانے کی ضرورت محسوس نہ کرنے والی لڑکی حد درجہ نیچ جانی
جاتی تھی! یہ وہ دور تھا جب کتب اور جرائد میں مغربی فکر مغربی شخصیات کے نام سے
ہی پھیلایا اور شائع کیا جاتا تھا اور فحش ادب لکھنے والے اگر مقامی ہوتے بھی تھے
تو وہ اسے اپنے فرضی نام سے شائع کرنا مناسب سمجھتے تھے۔ تھیٹر، سینما، ریڈیو سب
کچھ تھا، یہ سب کچھ اس فکری یلغار کو آگے بڑھانے میں مدد بھی دیتا تھا مگر اس صنعت
نے مقامی سطح پر ابھی بہت زیادہ وہ ترقی نہیں کی تھی اور اس کی تاثیر بھی ابھی
بالکل ابتدائی قسم کی تھی۔
مختصر یہ کہ معاشرے کے ظاہری
بگاڑ میں ابھی وہ شدید تیزی نہیں آئی تھی جو اس سے کچھ دیر بعد دیکھنے جانے میں
آئی۔ پھر خاص طور پر اس نے جو آخری زقند بھری وہ تو سب کچھ ہوا ہی دوسری جنگ عظیم
کے بعد۔
یہ تو تھا اس بگاڑ کے بیرونی
مظاہر کا معاملہ۔ دوسری جانب ہماری ’مشرقی روایات‘ ___کم از کم ظاہری حد تک___
ہنوز قائم تھیں اور دیکھنے والے کو یہ فریب دینے کیلئے کافی تھیں کہ ہماری یہ
روایات اس فکری یلغار کے سامنے جس طرح اس سے نصف صدی پہلے کھڑی تھیں ویسے ہی نصف
صدی بعد بھی کھڑی رہ جائیں گی۔ یہ فریب ہوتا بھی کیوں نہ لوگوں کی بڑی تعداد ابھی
نمازی تھی۔ حتی کہ بڑے دارالحکومتوں میں بھی جو کہ اس فکری یلغار کا گڑھ ہوا کرتے
تھے لوگ مسجدوں میں بڑی تعداد میں آتے تھے۔ رمضان میں چھوٹے بڑے سب روزے رکھتے۔ بے
روزہ بھی کسی کے سامنے کھانے پینے کی جرات نہ کرتا۔ شادی ہمیشہ والدین کی جان
پہچان سے بلکہ انہی کے ہاتھوں انجام پاتی۔ خاندانی روابط قابل رشک تھے۔ یہ وہ دور
تھا جب خاندان کے سربراہ کی سنی جاتی اور گھر کے بڑوں کی مانی جاتی تھی۔ بچے بچیاں
جوان ہو کر بھی روایات سے نہیں نکلتے تھے۔ اگر کوئی اپنی خاندانی اور معاشرتی
روایات سے پیر باہر رکھتا تو لوگ کم از کم بھی اس سے منہ پھیر لینے اور اس کو شدید
برا جاننے کی ضرورت محسوس کرتے۔ ابھی یہ شہروں کا حال تھا۔ دیہات میں تو جیسے ابھی
کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ نسلوں سے جو طرز زندگی چلا آتا رہا دیہات میں ابھی وہ من وعن
باقی تھا۔ دیہات کے لوگ ’شہروں کی بے راہ روی‘ سے گھن کھاتے تھے اور ’پرانا زمانہ‘
گزر جانے پر حسرت سے آہ بھرتے تھے۔
ایسے مظاہر کو بادی النظر
دیکھنے والے سے بہت سے حقائق روپوش رہ سکتے تھے!
کوئی تھوڑی دیر سے نہیں،
عرصہ دراز سے اسلام واقعی روایات کا ایک مجموعہ بنا کر رکھ دیا گیا تھا۔ یہ روایات
اسلام کی حقیقی روح سے خالی تھیں۔ یوں بھی قوموں کی زندگی میں ایک خاص مرحلے میں
جا کر روایات سے وابستگی اس نوبت کو پہنچ جاتی ہے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر میں
یہ لگتا ہے کہ لوگ واقعی دین کی حقیقت پر قائم ہیں۔ لیکن روایات اگر کسی شعوری
بنیاد پر قائم نہیں تو کچھ عرصے بعد یہ ایک ایسے درخت کی طرح سوکھنا اور سکڑنا
شروع ہو جاتی ہیں جسے جڑوں سے غذا ملنا بند ہو گیا ہو۔ روایات اور مظاہر بھی ایک
ایسا ہی درخت ہے جسے فکر اور شعور کی غذا کافی مقدار میں نہ ملے تو ایک طرف یہ
سوکھنا اور سخت لکڑی بننا شروع ہو جاتا ہے تو دوسری طرف اسے اپنا پورا پھیلائو
برقرار رکھنے میں بھی شدید دشواری پیش آتی ہے۔ پھر بھی روایات کے اس درخت کا بھرم
صدیوں تک رہ سکتا ہے اگر معاشرے میں نیچے کی سطح پر کوئی زوردار بھونچال یا فضا
میں کوئی طوفان نہ آجائے۔ اب ایک ایسے درخت کا کھڑا رہنا یا کھڑا نہ رہنا بہت اہم
سوال نہیں رہ جاتا جس کا ڈھ جانا بہرحال ٹھہر گیا ہو۔ اس درخت کو تو آخرکار مٹی
خود کھا جاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ کسی اور فکر کی یلغار کی شدت اسے ’وقت‘ سے پہلے
گرا دیتی ہے۔
عالم اسلام کے ساتھ جو
معاملہ ہوا وہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ عالم اسلام پر مغرب کی فکری یلغار کے جو
ہتھوڑے برسے اور جو کہ بڑی شدت اور بڑی بے رحمی سے برسائے گئے، ان کا ہدف ہماری
یہاں کی روایات نہیں بلکہ ان کا اصل ہدف درحقیقت اسلام تھا۔ روایات کے پیچھے وہ
دراصل اسلام کو ملیامیٹ کر دینا چاہتے تھے۔ ان کے پیچھے واقعی اسلام اپنی روح کے
ساتھ ہوتا تو صورتحال مختلف ہوتی مگر خالی روایات ان ضربوں کا بھلا کہاں تک مقابلہ
کرتیں جو بڑی منصوبہ بندی سے اور ایک لگاتار انداز میں اور بہت ہی بے دردی کے ساتھ
سو سال تک برسائی جاتی رہیں۔
ساٹھ ستر سال میں یہ منظر
نامہ حیران کن حد تک تبدیل ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ قوم جو ان شہروں اور ان دیہات
میں ساٹھ ستر سال پہلے بستی تھی، گویا وہ سب کی سب کہیں کو سدھار گئی اور اس کی
جگہ گویا یہاں کوئی اور قوم آبسی ہے جن کے آپس میں صرف نام ملتے ہیں۔ پرانے جسے ’بے
راہ روی‘ کہتے تھے وہ یہاں ’ترقی پسندی‘ اور ’روشن خیالی‘ بن کر ہر طرف پھیل گئی۔
زہریلے سانپ کا زہر جس طرح جسم میں پھیلتا ہے اسی تیزی سے یہ زہر معاشرے میں ہر
طرف پھیل گیا۔ اب وہ وقت نہیں جب برہنگی بڑے خاندانوں کی بیگمات کا خاصہ سمجھا
جائے۔ متوسط طبقے کی بیٹیاں بھی اب کسی سے پیچھے نہیں۔ حتی کہ رفتہ رفتہ یہ آفت اب
دیہات کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی ہے!
لڑکوں اور لڑکیوں میں
’معصوم‘ ہی نہیں ’غیر معصوم‘ تعلقات بھی معمول کی چیز ہو چکے بلکہ کسی نوجوان کا
اس ’معمول‘ سے بچ رہنا آج حیرانگی کا باعث جانا جاتا ہے! خاندان ٹوٹ پھوٹ چکا۔
حاندان کے سربراہ کا دور اقتدار ختم ہوا۔ بڑوں کی ماننا ماضی کا قصہ کہلایا۔ لڑکے
اور لڑکیاں اپنے معاملات اب خود بہتر جاننے لگے ہیں اور والدین کو ’دخل در
معقولات‘ کی بہت کم اجازت ہے۔ ’دین‘ اور ’مذہب‘ عموماً جمود اور بند ذہنیت کی
علامت سمجھا جانے لگا۔ دیندار ہونا پسماندگی کا نشان اور زندگی کی دوڑ میں پیچھے
رہ جانے کا سبب جانا گیا۔ نقش کہن پہ اَڑنا آدمی کے ان پڑھ ہونے کی دلیل بنا اور
کسی بھی اعلیٰ قدر پر جم جانا جمود اور کم عقلی جانا گیا اور کہا یہ گیا کہ یہ
زمانہ جمود کا نہیں ارتقاءکا ہے۔
ساٹھ ستر سال میں یہ سب کچھ
تبدیل ہوگیا۔ اس کو علم اور ارتقا کا نام دیا گیا۔ مہذب دنیا کے شانہ بشانہ چلنے
کا عنوان دیا گیا اس کو ٹیکنالوجی اور انفارمیشن کا انقلاب کہا گیا۔ روز بروز یہ
عمل اب اور بھی ’ترقی‘ کی سمت گامزن ہے!
ہم بھی یہ مانتے ہیں کہ
انسانی دنیا میں اس نئی تبدیلی نے جو ایک کھلبلی مچا دی ہے عالم اسلام کو ان عالمی
تبدیلیوں سے لاتعلق بہرحال نہیں رہنا تھا۔ مگر ہمارا دعویٰ ہے کہ صورتحال اس سے
یکسر مختلف ہوتی اگر اسلام ان مسلم معاشروں میں ایک زندہ حقیقت ہوتا نہ کہ محض
روایات کا ایک مجموعہ جن میں زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں۔
جہاں تک ٹیکنالوجی اور
سائنسی ترقی کا تعلق ہے تو وہ ایک مسلمان کیلئے کسی الجھن کا باعث ہونی ہی نہیں
چاہئے۔ مسمانوں نے پہلے بھی تو ایک مختصر ترین وقت میں دنیا بھر کی سائنسی ترقی کو
اپنے اندر جذب کر لیا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ خود بھی پھر سائنس میں بے انتہا قیمتی
بلکہ بنیادی اضافے کئے جن میں سے نمایاں ترین ’سائنسی تحقیق کا تجرباتی طریقہ کار‘
ہے جو مسلمانوں نے دنیا میں متعارف کرایا۔ اور وہ سب سائنسی انکشافات الگ ہیں جو
سائنس کی موجودہ ترقی کی بنیاد میں پڑے ہیں۔ مگر بات یہ ہے مسلمان سائنس پڑھتا ہے
تو اس سے اس کا عقیدہ متاثر نہیں ہوتا۔ اللہ پر اور یوم آخرت پر اس کا ایمان
متزلزل نہیں ہوتا۔ کیونکہ مسلمان ایک مستقل ہستی کا مالک انسان ہے۔ ایک ایسی
متوازن ہستی جس میں سائنس اور ایمان دونوں سما سکتے ہیں۔ نہ صرف سما سکتے ہیں بلکہ
باہم متعاون ہو سکتے ہیں۔ یہاں سائنس اور ایمان کے مابین نہ کسی تعارض کا امکان ہے
اور نہ کسی تضاد کا۔
انما یخشی اللّٰہ من عبادہ
العلماء(فاطر:٨٢)
”حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے
بندوں میں سے صرف علم وآگہی رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں“۔
سائنس اور ایمان کا یہ تضاد
تو دراصل یورپ میں وقوع پذیر ہوا جس کا سبب اُس ’دین‘ کا اپنا خلل تھا جس پر اس سے
پہلے یورپ ایمان رکھے ہوئے تھا۔ یہ خلل اس تصور میں تھا جو یورپ کو اس کے دین نے
بنا کر دیا تھا۔ اس لئے نہیں کہ ’دین‘ اپنی فطرت میں ’سائنس‘ سے متعارض ہے اور نہ
ہی اس وجہ سے ’سائنس‘ اپنی طبیعت میں ’دین‘ کا کوئی متبادل ہے بلکہ اس وجہ سے کہ
یورپ جسے ’دین‘ سمجھتا تھا خود اس میں ’سائنس‘ سے تعارض پایا جاتا تھا اور جس کی
وجہ سائنس کو آخرکار اور مجبوراً ’دین‘ کا متبادل بننا پڑا۔
سو اگر اسلام ان مسلم
معاشروں میں ایک زندہ حقیقت ہوتا نہ کہ محض روایات کا ایک ایسا مجموعہ جن میں
زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں، تو یہ امت ضرور اس پوزیشن میں ہوتی کہ یہ انسانیت کو
عمرانی ارتقاءکا ایک بالکل منفرد نمونہ پیش کرتی۔ یہ تہذیبی ترقی کا ایک ایسا
نمونہ ہوتا جو تمدن کے اس مغربی نقشے سے یکسر مختلف ہوتا جس میں ایک سے بڑھ کر ایک
رخنہ پڑتا رہا ہے۔ مغرب کو کچھ ایسی کوتاہ نظری نصیب ہوئی ہے کہ تاریخ کے کسی دور
میں بھی اس کو انسان پورا نظر نہیں آسکا۔ کبھی یہ انسانی وجود کا صرف روحانی پہلو
دیکھتا تھا اور اب کچھ صدیوں سے اسے اس کا صرف مادی پہلو نظر آتا ہے۔ مغرب کی
تاریخ میں ہمیشہ یہ محدود نظری رہی ہے کہ آخرت کا تصور کرنے کیلئے دنیا نظر سے
روپوش ہو جائے او ردنیا کو توجہ دینے کیلئے آخرت سے دامن کش ہونا پڑے۔ کسی بھی
حالت میں انسانی وجود کو پورا لینا اس کیلئے ممکن نہیں رہا اور انسانی ضرورت کا
ایک کلی تصور رکھنا کبھی مغرب کے بس کی بات نہیں رہی۔ انسان تو دراصل ایک مشت خاک
اور ایک نفخہءروح کا مجموعہ ہے۔ یہ دونوں عنصر آپس میں مل کر گتھم گتھا ہوں تو
انسان وجود میں آتا ہے۔ یہ بات ایک مسلمان پر بہت واضح ہے۔
اذ قال ربک للملائکہ انی
خالق بشراً من طین۔ فاذا سویتہ ونفخت فیہ من روحی فقعوا لہ ساجدین (ص : ٧١۔٧٢)
”جب تیرے رب نے فرشتوں سے
کہا: میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس
میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جائو“۔
امت کا اب اس بات سے عاجز
رہنا کہ وہ اپنے زمانے میں ہونے والی سائنسی اور تکنیکی ترقی کو ایک بہترین انداز
میں اپنے اندر سمیٹ لے اور اس سے اپنے زمانے کے شایان شان عمرانی ارتقا کا ایک
منفرد نمونہ پیش کر سکے.... ایک ایسی بات ہے جو اپنے اندر ایک واضح دلالت رکھتی ہے
جسے اس دور کے داعیان اسلام کی نظر سے ہرگز روپوش نہیں رہنا چاہئے تھا۔ اس واقعے
کی عمومی دلالت یہ تھی کہ مسلمانوں میں اس دین کی فاعلیت کا اصل شعلہ بجھ چکا ہے
یا پھر اس حد تک سرد پڑ چکا ہے کہ اب یہ امت اپنے زمانے کے حالات سے اس زندہ انداز
کا تفاعل کرنے سے عاجز آچکی ہے جس زندہ انداز سے تاریخ میں یہ اپنے زمانے کے ساتھ
پورا اترتی آئی ہے۔ اُمت میں زندگی کے ساتھ تفاعل اختیار کرنے اور زندگی کے ساتھ
پورا اترنے کے جذبے کا یوں سرد پڑجانا اور زندگی کے ہر میدان میں ایک سرد مہری کا
آجانا ظاہر ہے واضح اسباب رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ اس ذہنیت کا اس دین
کی طبیعت اور مزاج سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ یہ ایک زندہ اور زندگی سے بھرپور دین
ہے۔ یہ تاریخ میں عجیب وغریب کمالات دکھا چکا ہے۔ جب بھی کسی معاشرے نے اس دین پر
پوری سچائی اور پورے شعور کے ساتھ ایمان رکھا اور دنیائے واقع میں اسے حقیقت کا
روپ دینے کیلئے اسے اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھا دنیا نے ہمیشہ معجزات دیکھے۔ ضرور
کچھ ایسے امراض ہونگے جن کا تعلق اس دین سے بہرحال نہیں۔ دلوں کی بیماریاں جسموں
کو بھی مریض کرکے رہتی ہیں!
الا ان فی الجسد مضغہ اذا
صلحت صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ، الا وھی القلب (اخرجہ البخاری)
”خبردار جسم میں ایک ایسا
لوتھڑا ہے جو اگر صحیح ہو تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اس میں خرابی آئی تو سارے جسم
میں خرابی آجاتی ہے، یہ دل ہے“۔
چنانچہ اسلام کے داعیوں پر
اگر یہ امراض واضح ہو گئے ہوتے جو امت کے جسم کو کھا چکے تھے تو وہ ابتدائے کار
میں ان امراض کے علاج کو ہی اولیت دیتے۔ اگر ان پر یہ واضح ہو گیا ہوتا کہ
پسماندگی کے یہ سب مظاہر جو مسلمانوں کی زندگی میں بول بول کر اپنا آپ بتا رہے ہیں....
خواہ وہ علم اور سائنس میں پسماندگی ہو، خواہ مادی افلاس ہو، خواہ سیاسی محکومیت
ہو، خواہ جنگی پسپائی ہو، خواہ عمرانی تنزل ہو اور خواہ تہذیبی اور ثقافتی
افلاس.... یہ سب جس چیز کا شاخسانہ ہے وہ مسلمانوں کی عقیدے میں پسماندگی ہے جو
مسلمانوں کے اس آخری دور میں بطور خاص مسلم ذہن اور مسلم معاشرے میں آئی ہے.... ان
داعیوں پر اگر یہ واضح ہو گیا ہوتا تو وہ اپنی دعوت اور اپنی تحریک کیلئے اس سے
کوئی مختلف منہج اپناتے جو کہ وہ اب تک اپنائے رہے۔ تب ان کا، اس مرض کا علاج کرنے
کا، طریق کار بھی اس سے کہیں مختلف ہوتا۔
یہ حقیقت، کہ یہ امت اسلام
کی جو اصل صورت ہے اس سے ابھی دور ہے، ان داعیوں پر بھی ضرور واضح تھی۔ ہمارے اس
دور کی تحریکوں کو بھی ان کا ضرور ادراک تھا۔ ہمیں شک اس بارے میں نہیں۔ کیونکہ یہ
حقیقت ہے ہی اتنی واضح کہ اس کا روپوش رہنا کسی سے ممکن نہیں۔ البتہ یہ بات کہ یہ
امت اسلام کی اس اصل صورت سے، جس پر کہ اسے ہونا چاہئے، کتنی دور ہے اور اصل اسلام
سے اس کے فاصلے کی نوعیت اور کیفیت کیا ہے۔ یہ بات البتہ ضرور ایسی تھی جو بہت سے
داعیوں کی نگاہ سے چھپی رہی۔ اس کا سبب روایات کی وہ دبیزتہہ تھی جو سات عشرے
پیشتر یہ فریب دے رہی تھی کہ یہ معاشرہ کسی نہ کسی حد تک اپنی اصل پر قائم ہے۔ اس
سے داعیوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ عمارت کی بنیادیں تاحال سلامت ہیں اور ان میں
کہیں کہیں تھوڑی بہت مرمت کی ضرورت ہے!
اسلامی تحریک کو اس وقت
چاہئے یہ تھا کہ وہ مظاہر کا پردہ اٹھا کر ان بنیادوں کا جائزہ لیتی اور پھر یہ
فیصلہ کرتی کہ یہ بنیادیں پوری طرح قائم ہیں یا تاریخ میں بار بار کے ان بھونچالوں
نے انہیں ہلا کر رکھ دیا ہے.... تاآنکہ اس بات کا درست فیصلہ ہوتا کہ عمارت کہیں
کہیں سے صرف مرمت کی ضرورت مند ہے یا بالکل ہی ایک تاسیس نو کی۔
امت میں اس بار جو خرابی آئی
تھی وہ صرف عملی زندگی تک محدود نہ رہی تھی۔ اس کا دائرہ بنیادی مفہومات تک چلا
گیا تھا۔ مفہومات اور تصورات میں آجانے والا انحراف اس انحراف سے کہیں سنگین ہوا
کرتا ہے جو محض عملی زندگی تک محدود ہو۔ اس کا علاج بھی اتنا ہی دشوار ہوا کرتا
ہے۔
خرابی اگر کسی فرد یا جماعت
یا امت کی صرف عملی زندگی تک محدود ہو، مگر اس کے مفہومات اور تصورات اپنی جگہ
صحیح شکل میں قائم ہوں، تو اس خرابی کی اصلاح چاہے جتنی بھی پرمشقت ہو اتنی مشکل
بہرحال نہیں ہوتی جتنی کہ اس وقت، جب عمل کے پیچھے تصور اور مفہوم بھی بگڑ چکا ہو۔
کیونکہ ایسی صورت میں آپ کو دوہری محنت کرنا پڑتی ہے۔ مفہومات کی تصحیح پر محنت
الگ ہوتی ہے جو کہ اس عمل کا اصل مشقت طلب پہلو ہے اور عمل کی تصحیح پر الگ محنت
ہوتی ہے۔
ہمارے اس دور میں جب اسلامی
دعوت اور اسلامی تحریک کا آغاز ہوا تو حقیقت میں اس وقت اسلام کے بنیادی مفہومات
اور تصورات ہی بگاڑ اور انحراف کا شکار ہو چکے تھے۔ جیسا کہ اس سے پہلے ہم اشارہ
کر چکے ہیں۔ یہاں تک کہ لا الہ الا اللّٰہ کا مفہوم بھی اس بگاڑ سے محفوظ نہ رہا
تھا۔ بلکہ یوں کہیے اس بگاڑ کا آغاز ہی لا الہ الا اللّٰہ کا مفہوم بگڑنے سے ہوا
تھا۔ لا الہ الا اللّٰہ محض اب ایک کلمہ بن کر رہ گیا تھا جسے زبان سے ادا کر دیا
جانا ہو۔ اس کے ساتھ کچھ اور بچ گیا تھا تو وہ چند شعائر عبادت تھے اور وہ بھی کچھ
لوگوں کے ہاں جن پر ایک روایتی انداز اس سے کہیں غالب تھا جتنا کہ ان مراسم بندگی
کی ایک زندہ شعور کے ساتھ ادائیگی جو کہ انسان کو زندگی کے ایسے ہمہ گیر منہج کے
ساتھ جوڑ دیتی ہے جو اس کی پوری زندگی کا احاطہ کرلے۔ یہاں نماز روزہ کا بھی وہ
تصور بڑی حد تک روپوش تھا جو انسان کو مراسم بندگی سے لے کر عملی زندگی، سیاست،
معیشت، سماجی روابط اور فکری رحجانات میں بیک وقت ایک مستحکم اور باہم مربوط روش
پر چلا سکے۔
بے شمار عوامل ایسے تھے جو
لوگوں کے ذہن وفکر کے اندر اسلام کے بنیادی مفہومات میں بگاڑ لے آنے کا سبب بنے۔
جس کے نتیجے میں اسلام کے یہ بنیادی تصورات اپنی اس شکل میں کہ جیسے یہ اللہ کے
ہاں سے نازل ہوئے تھے اور جن کو اسلام کی نسل نو نے سب سے پہلے اپنے قلب وذہن میں
بٹھایا تھا اور اپنی زندگی میں ان کو ایک زندہ اور چلتی پھرتی حقیقت بنا دیا
تھا.... اور پھر ان کے بعد کی نسلیں بھی انہی تصورات کو اپنے قلب وذہن میں بٹھاتی
اور اپنی زندگی کی حقیقت بناتی رہی تھیں.... اسلام کے یہ بنیادی تصورات اب کے
لوگوں کے قلب وذہن میں رہے تھے اور نہ عملی زندگی میں۔
ارجائی فکر اپنی اس کوشش میں
کامیاب ہو چکا تھا کہ ’ایمان‘ کے مفہوم سے ’عمل‘ کو خارج کر دے اور لوگوں کو یہ
باور کرا دے کہ ایمان بس تصدیق کر دینے کا نام ہے یا زبان سے اقرار کر لینے کا!
اور یہ کہ جو زبان سے لا الہ الا اللّٰہ کہہ دے بس وہ مومن ہے چاہے اسلام کے اعمال
میں سے کسی ایک پر بھی کاربند نہ ہو!
صوفی فکر اسلام کو بس روح کی
ریاضتوں میں تبدیل کر چکا تھا۔ یوں اسلام کا مطلب کچھ خاص ورد کرنا تھا۔ کچھ خاص
اذکار اسلام کی پہچان بن گئے۔ وجد اور عشق اسلام کے بنیادی فرائض بنے جو دنیائے
واقع میں تبدیلی لانے کیلئے ایک پتہ تک نہ ہلا سکیں۔ نہ امر بالمعروف کیلئے کوئی
تکلیف کرے اور نہ نہی عن المنکر کا دردسر مول لے اور نہ جہاد کی کوئی سبیل.... یہ
سب کچھ اصل خلل کے علاوہ تھا جو عقیدہ میں اولیاءاور درگاہوں کی پوجا پاٹ کے سبب
آچکا تھا اور جس کی رو سے غیر اللہ کیلئے عبادت کے ایسے افعال روا کر لئے گئے تھے
جو صرف اللہ تعالیٰ کیلئے سزاوار ہیں۔
پھر رہی سہر کسر اس سیاسی
استبداد نے نکال دی جو یہاں بنو امیہ کے دور سے شروع ہوا تو پھر بنو عباس اور پھر
ممالیک اور پھر عثمانیوں کے دور تک آتے آتے ہر دور میں اور اپنے ہر مرحلے میں اور
سے اور بڑھتا رہا۔ اس سیاسی استبداد نے لوگوں میں ایک ایسی ذہنیت پروان چڑھائی کہ
آدمی بس اپنے کام سے کام رکھے اور معاشرے کو درست کرنے سے بہت کم سروکار۔ یہاں کا
سیاسی استبداد بھی اس بات کا سبب بنا کہ عبادت کا تصور بس چند مراسم دین تک محدود
ہو جائے اور اگر نیکی اور فضیلت کے کاموں کی طرف کسی کی توجہ ہو بھی تو وہ ایسے
کام ہوں جو اجتماعی اور سماجی معاملات میں آدمی کے دخل دینے کا باعث نہ بنیں۔
توکل ایک زبردست عقیدہ تھا
مگر اب اس سے مراد یہ لی جانے لگی کہ اسباب اختیار کرنا موقوف اور معاملہ بس خدا
پر ڈال دیا جائے۔
عقیدہءتقدیر کم ہمتی اور
نامردی کیلئے ’شرعی عذر‘ ٹھہرا۔ حالانکہ یہی تقدیر کا عقیدہ مسلمانوں کو جری
وبہادر بناتا تھا اور ایک دنیا سے ٹکر لے لینے پر آمادہ کر دیتا تھا۔ قضا وقدر کا
عقیدہ کبھی مسلمان کو بتایا کرتا تھا:
قل لن یصیبنا الا ما کتب
اللّٰہ لنا ھو مولانا وعلی اللّٰہ فلیتوکل المؤمنون۔ قل ھل تربصون بنا الا احدی
الحسنیین ونحن نتربص بکم ان یصیبکم اللّٰہ بعذاب من عندہ او بایدینا فتربصوا انا
معکم متربصون (التوبہ: ٥١۔ ٥٢)
”ان سے کہو: ”ہمیں ہرگز کوئی
(برائی یا بھلائی) نہیں پہنچتی مگر وہ جو اللہ نے ہمارے لئے لکھ دی ہے۔ اللہ ہی
ہمارا مولیٰ ہے۔ اور اہل ایمان کو ایک اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے“۔ ان سے کہو: ”تم
ہمارے معاملے میں جس چیز کے منتظر ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ دو بھلائیوں میں
سے ایک بھلائی ہے (یعنی فتح یا شہادت) اور ہم تمہارے معاملے میں جس چیز کے منتظر
ہیں، وہ یہ ہے کہ اللہ خود تم کو سزا دیتا ہے یا ہمارے ہاتھوں دلواتا ہے؟ اچھا تو
اب تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی تمہارے ساتھ منتظر ہیں“۔
اب ایک ایسا وقت آگیا تھا کہ
مسلمان کیلئے دنیا اور آخرت کے راستے الگ الگ ہو گئے۔ حالانکہ اس سے پہلے دونوں
جہان میں سرخرو ہونے کیلئے اس کو ایک ہی راہ چلنی ہوتی تھی۔ نہ دنیا کی راہ آخرت
سے الگ تھی اور نہ آخرت کی دنیا سے اور ان دونوں میں تعارض ایک مسلمان کی سمجھ سے
باہر ہوا کرتا تھا۔
وابتغ فیما اتاک اللّٰہ
الدار الآخرہ ولا تنس نصیبک من الدنیا (القصص: ٧٧)
”اللہ نے تجھے جو کچھ دیا ہے
اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر“۔
ھو الذی جعل لکم الارض ذلولا
فامشوا فی مناکبھا وکلوا من رزقہ والیہ النشور (الملک: ١٥)
”وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے
زمین کو تابع کر رکھا ہے۔ پس چلو اس کی چھاتی پر اور کھائو خدا کا رزق، اس کے حضور
تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے“۔
چنانچہ دیندار مسلمانوں کی
ایک بڑی کثرت ’دنیا‘ کے راستے کو چھوڑ چھڑا کر ___جس میں علم، سائنس، قوت کے
اسباب، زمین پر قبضہ واقتدار مستحکم رکھنا، بستیاں بسانا او معاشروں کی حالت
سدھارنا سب کچھ آتا تھا___ اس ’دنیا‘ کے راستے کو چھوڑ کر اللہ سے ’اخروی‘ تقرب
پانے کیلئے ہر چیز سے فراغت پانے کے طلبگار ہوئے۔ جس کا طریقہ ذکر وورد کی مجلسیں
منعقد کرنا تھا اور عشق و وجد کی ریاضتیں، کاروبارِ دنیا کی جانب متوجہ ہونا اب ان
لوگوں کا کام ٹھہرا جن کو آخرت سے سروکار نہیں۔ یوں دنیا ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی
گئی جو دولت اور اقتدار پجاری تھے اور جن کو اللہ کے سامنے جواب دہی اور حساب کتاب
کا شعور تک نہ تھا۔ یہ اُدھر دنیا میں فساد مچاتے رہے اور یہ اِدھر اپنی آخرت
سنوارتے رہے!
یہ سب امراض جو اُمت کی ایک
بڑی اکثریت کو لاحق ہوئیں اور جو کہ دین کو اس کی حقیقت سے فارغ کر چکی تھیں اور
لا الہ الا اللّٰہ کو، امت کی زندگی میں، اس کی اصل فاعلیت سے محروم کر چکی
تھیں.... ان امراض کا تقاضا تھا کہ قبل اس کے کہ عوام کو ساتھ ملا کر چلایا جائے،
کام کا آغاز امت میں لا الہ الا اللّٰہ کا مفہوم درست کرنے اور معاشرے پر اثر
انداز ہو سکنے والی ایک بھاری جمعیت کی تربیت وتیاری سے کیا جاتا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طرف اگر یہ معاملہ تھا
کہ مسلم معاشروں میں پرانی روایات کا ___آج سے ساٹھ ستر سال پہلے___ اس حد تک بھرم
قائم تھا کہ اسلام کی نشاہ ثانیہ کیلئے کام کرنے والے اس سے دھوکہ کھا کر اس اصل
مرض سے غافل ہو جائیں جو کہ امت میں ___ایک بڑی سطح پر___ اس کے عقیدے اور اس کے
تصور اسلام ہی کو لگ چکا تھا.... تو دوسری طرف عوام کا وہ جو ش وجذبہ، جو اسلام کی
نشاہ ثانیہ کیلئے دیکھنے میں آتا رہا، اس فریب کو بڑھا دینے اور تحریکوں کو معاشرے
کی اصل صورت حال سے غافل کر دینے میں اور بھی بڑا سبب بنا۔
لوگوں میں اسلام کی نشاہ
ثانیہ کے کام کیلئے جو جوش وجذبہ پایا گیا وہ واقعی دیدنی تھا۔ مصر میں چند سال کے
اندر امام حسن البنا شہید کے گرد جو لوگ اکٹھے ہوئے ایک اندازے کے مطابق ان کی
تعداد نصف ملین (پانچ لاکھ) کو پہنچتی ہے جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ یہ ایک
بہت بڑی شرح تھی خصوصاً جبکہ ہم یہ ذہن میں رکھیں کہ اس وقت مصر کی کل آبادی بیس
ملین (دو کروڑ) کو ابھی نہیں پہنچی تھی۔ اس تعداد میں سے ہم عورتوں، بچوں، بوڑھوں
اور ایسے لوگوں کو نکال دیں جو کسی بھی عوامی کام میں شریک نہیں ہو سکتے، یا جو
’ہر حال میں خوش رہنے‘ والے لوگ ہوتے ہیں اور ہر نئے آنے والے کو سلام کرتے ہیں!
ان لوگوں کو نکال دیں تو امام حسن البنا کے گرد پانچ لاکھ کی تعداد ہرگز کوئی
چھوٹی تعداد نہیں۔
اس میں بھی شک نہیں کہ امام
شہید [اخوان المسلمون کے حلقے میں بلکہ وہ لوگ بھی جو اخوان سے کسی نہ کسی معنی میں
منسلک ہیں یا رہے ہیں ان کے ہاں ’امام شہید‘ حسن البنا کیلئے لقب کے طور پر چلنا
ہے۔ مصنف نے بھی ہر جگہ یہی لقب استعمال کیا ہے۔ ترجمے میں ہم بھی اس کو جوں کا
توں ذکر کریں گے۔ مترجم] کو جو روحانی تاثیر کا قدرتی ملکہ حاصل تھا، اور وگوں کے
دلوں میں گھر کر لینے کی جو خاص صلاحیت تھی وہ بھی اس بات کا سبب بنی کہ لوگ ان کی
دعوت کیلئے شدید حد تک جوش وخروش محسوس کریں۔ ایک ایسا شخص جو ان کی طرح دلوں میں
بسنا نہ جانتا ہو اور ان جیسی صلاحیتوں کا مالک نہ ہو، اتنے تھوڑے عرصے میں
انسانوں کی اتنی بڑی تعداد کو اپنے چاروں طرف اکٹھا کبھی کر ہی نہیں سکتا تھا۔
لیکن ہمیں ایک نظر عوام پر
ڈالنی ہے جن میں اخوان کی دعوت یوں دنوں میں مقبولیت حاصل کر گئی۔ لوگوں کی اتنی
بڑی تعداد علی وجہ التحدید آخر کس بنا پر امام کے ساتھ اکٹھی ہوئی؟
لوگوں کو ایک ایسا شخص مل
گیا تھا جو ان میں پائی جانے والی روحانیت کی پیاس بجھا رہا تھا اور بڑے ہی پڑھے
لکھے اور جدید تعلیم یافتہ انداز میں یہ پیاس بجھا رہا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے انہوں
نے روحانیت کا درس ذکر کے ان خاص حلقات میں سنا تھا جو ان پڑھ عوام میں مقبول رہے
ہیں اور جو کہ صوفیاءکے مشائخ طریقت کے ہاں چلتے ہیں اور جس سے کہ عام پڑھے لکھے
الرجک ہوتے ہیں مگر وہ اس کا متبادل بھی کہیں نہیں پا رہے ہوتے.... اب ان کو یہ
متبادل امام شہید کی شخصیت میں اور ان کی تاثیر کلام میں مل گیا جو روحانیت میں ان
کی پیاس بجھا رہا تھا مگر بیک وقت ان کے ’پڑھا لکھا‘ ہونے پر حرف بھی نہ آنے دیتا
تھا۔ یہ ’شیخ‘ روحانیت کا ایسا نشہ بھی نہ ہونے دیتا تھا جس سے انسان کی عقل وہوش
سلب ہو جائے.... عوام کو ایک ایسا رہنما مل گیا تھا جو ان کی نظر میں ان کی، اسلام
کی ان ملکوں پر پھر سے حکمرانی کروا دینے کی، آرزوئیں پوری کرنے جا رہا تھا.... وہ
بھی عین اس وقت جب لوگ ابھی سقوط خلافت کے زخم چاٹ رہے تھے۔ اسلام پسند عوام کو
ایک ایسا راہبر نظر آرہا تھا جو خباثت اور بے حیائی کے اس طوفان کو تھام دینا
چاہتا تھا جس کا معاشرہ گرفتار ہو چکا تھا اور جس سے یہ لیڈر لوگوں کو اعلیٰ اخلاق
اور تہذیبی اقدار کی جانب واپس لانا چاہ رہا تھا.... یہ پانچ لاکھ عوام حسن البنا
سے اس سب کچھ کی توقع کر رہے تھے بغیر اس کے کہ یہ خود کوئی بڑا خطرہ مول لینے پر
تیار ہوں اور اس نیک مقصد کیلئے امام کے پروگراموں میں بڑی پابندی کے ساتھ شریک
ہونے اور ان کی باتوں کو بڑی عقیدت کے ساتھ سننے سے زیادہ کچھ اور کرنے پر آمادہ
ہوں!
یہ عوام جس تیزی کے ساتھ
امام کے گردا گرد اکٹھے ہوئے تھے، جب حالات مشکل اور دشوار ہوئے تو یہ اتنی ہی
تیزی کے ساتھ ان کے گرد سے چھٹ گئے۔ ایسے گئے کہ یہ مجلسیں پھر نہ جم سکیں۔ ان کو
یہ اندازہ تک نہ تھا کہ حالات کبھی ایسے بھی ہو جائیں گے کہ حسن البنا کی ایمان افروز
تقریریں سننا اتنا مہنگا اور اتنا خطرناک ہو سکتا ہے.... نہ ہی وہ ابھی اس بات
کیلئے تیار ہو پائے تھے کہ وہ ان خطرناک حالات کے ساتھ پورا اترلیں۔ ان کو اگر
پہلے سے معلوم ہوتا یا کم از کم اندازہ ہی ہوتا کہ معاملہ یوں خطرناک موڑ بھی مڑ
سکتا ہے تو وہ یا ان میں سے بہت سے شروع میں ہی امام کے ساتھ ہو لینے پر تیار نہ
ہوتے!
اب امام شہید کے گرد ان
نوجوانوں کے سوا جن کو انہوں نے اپنی خاص نگرانی میں تربیت دی تھی اور جن میں عمل
کی جوت جگائی تھی، ان نوجوانوں کے سوا کوئی باقی نہ رہا....
عوام کے یہ غول جو امام کے
گرد بہت شروع میں اکٹھے ہونے لگے تھے اور جو کہ امام کا بیشتر وقت اور توجہ لے رہے
تھے اور جن کی وجہ سے امام کا ’کام‘ بہت ہی زیادہ بڑھ گیا تھا اور جو کہ وقت آنے
پر پھر ان کے ساتھ کھڑے نہ رہ سکے.... ایسے عوام کا اتنے شروع میں یوں اکٹھے ہو
جانا اور تحریک کی ساری توجہ لے لینا کیا واقعتا دعوت کو آگے بڑھانے کا سبب بنا یا
پیچھے لے جانے اور راستے کا بوجھ بن جانے اور سفر کو مشکل کر دینے کا!؟
اس بات کا جائزہ ہم آگے چل
کر دشمن کے ردعمل کے ضمن میں بات کرنے کے دوران بھی لیں گے۔ مگر یہاں ہم ذرا دیر
رک کر ایک اہم سوال پر غور کرنا چاہیں گے۔
آخر کس چیز نے تحریک کو اس
بات پر آمادہ کیا کہ وہ اپنے اس بالکل ابتدائی مرحلے میں ہی عوام کی جانب اس بڑی
سطح پر متوجہ ہو جائے!؟ یہ ایک غلط فہمی تھی جو بنیادی طور پر حسن نیت پر قائم
تھی۔ یہ عوام کے بارے میں ضرورت سے زیادہ حسن ظن تھا۔ سمجھ یہ لیا گیا تھا کہ عوام
میں بس ایک عملی بگاڑ آیا رہا ہے اس سے زیادہ کوئی خراب نہیں پس اگر ان کو پرتاثیر
انداز میں پند ونصیحت کر لی جائے جگہ جگہ درس دیئے جائیں اور پروگرام کئے جائیں تو
معاملہ درست ہو جائیگا اور عوام کے یہ غول کے غول اسلام کی راہ پر چل پڑیں گے اور دعوت
کیلئے مخلص سپاہی بن کر کام دیں گے یا کم از کم بھی تحریک میں بھرتی ہونے کیلئے
تیار خام مواد کا کام دیں گے اور دعوت اسلام پسند عوام کی اس کثرت کو ساتھ لے کر
منزل مقصود کی جانب رواں دواں ہو جائیگی!
تحریک کی قیادت پر اس
ابتدائی مرحلے میں یہ واضح نہ ہو پایا ___جس طرح کہ پھر بعد میں خودبخود واضح
ہوگیا___ کہ یہ خلل جو اس بار امت میں نیچے کی سطح پر آیا صرف عملی بگاڑ تک محدود
نہیں۔ یہ بگاڑ دراصل اسلام کے بنیادی مفہومات اور اسلام کے بنیادی تصوات تک کو
اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے خاص طور پر یہ کہ اللہ کی شریعت کی تحکیم کا مسئلہ عوام
کی سطح پر بالکل سمجھا نہیں گیا اور یہ کہ معاملہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ایک بڑی
جدوجہد اسلام کے بنیادی حقائق کو ذہنوں میںاتارنے کیلئے کی جائے قبل اس سے کہ عوام
کو ساتھ لے کر چلا جائے۔ یہ ضرورت بعد میں واضح ہوئی بھی [ امام شہید نے ١٩٤٨ءمیں
”معرکہ المصحف“ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین شروع کیا تھا جس میں بڑی شدت سے واضح
کیا گیا تھا کہ امت کی موجودہ وضع ہی دراصل اسلامی نہیں اور یہ کہ یہ اس وقت تک
اسلامی نہیں ہو گی جب تک یہ امت سب شریعتوں کو چھوڑ کر ایک اسلام کی شریعت کو اپنا
حکمران نہیں بناتی ہے۔ حسن البنا کی تحریک میں اس سے پہلے شریعت کے نفاذ کی بات
ضرور کی جاتی رہی تھی مگر امت کا شریعت کے بغیر اسلام کی اصل وضع پر ہی نہ ہونا یہ
ایک نیا لہجہ تھا جو حسن البنا کی تحریک نے اس وضاحت بیانی کے ساتھ ابھی اپنایا
تھا، کم از کم عوامی سطح پر یہ اس سے پہلے اس انداز سے واضح نہ کیا گیا تھا۔ مگر
یہ سلسلہ مضامین بھی فلسطین کی جنگ کی نذر ہوگیا۔ پھر کچھ ہی دیر بعد یعنی ١٩٤٩ءمیں
امام پر قاتلانہ حملہ جان لیوا ثابت ہوا قبل اس کے کہ ان کے رفیق کار ان کی دعوت کے
اس نئے رخ کو پوری طرح سمجھ لیتے۔] .... لیکن اس وقت جب تحریک کا عوام کی جانب رخ
ہو جانے پر خاصا وقت اور محنت صرف ہو چکی تھی۔ اس سارے عرصے میں، عوام پر جو توجہ
اور محنت کی گئی، وہ بس اس بنیاد پر تھی کہ لوگوں میں ایک ولولہ اور جوش وجذبہ
پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اگر موثر پروگراموں کے ذریعے یہ کام کر لیا جائے تو وہ
دعوت کیلئے مخلص سپاہی بن کر ساتھ چلیں گے اور نہیں تو کم از کم دعوت میں سپاہی بن
کر بھرتی ہونے کیلئے خام مواد کا کام تو ضرور ہی دیں گے.... پھر جب عوام پر یہ
شبانہ روز محنت کر لی گئی اور لوگ یوں دیوانہ وار اکٹھے ہو گئے، حسن البنا کی گونج
پورے مصر میں سنائی دینے لگی اور اس عوامی مقبولیت کو سیاسی میدان میں آزمانے کی
بھی تدبیر ہوئی .... تو لازمی بات تھی کہ اس سے دشمنوں کے کان کھڑے ہو جاتے۔ اب
دشمن کی جانب سے ایسے ایسے ردعمل سامنے آئے کہ جن میں سے بعض کی توقع بھی نہ کی جا
سکتی تھی۔
جب کسی ملک میں عوام اٹھ
کھڑے ہوتے ہیں تو وہاں برسراقتدار مقامی طاقتیں اس سے پریشان ہو جاتی ہیں۔ لیکن
معاملہ اگر اسلامی تحریکوں کا ہو تو اس سے صرف وہاں کی مقامی طاقتیں ہی نہیں عالمی
طاقتیں بھی بیک وقت کان کھڑے کرتی ہیں .... بلکہ ایسے واقعات سے عالمی طاقتوں کر
پریشانی کہیں بڑھ کر ہوتی ہے۔ اس امر کا پورا ادراک کر لینے کیلئے تاریخ کے بعض
صفحات پڑھ لینا ضروری ہے۔
پچھلی دو صدیوں میں یہ بات
بہت کھل کر سامنے آگئی تھی کہ عالم اسلام کا معاملہ ہر میدان میں روز بروز نیچے جا
رہا ہے .... سلطنت عثمانیہ جس سے یورپ کئی صدیاں ہول کھاتا رہا تھا اب دو صدیوں سے
ضعیفی کا شکار تھی اور روز بروز نحیف اور لاغر ہوتی جا رہی تھی۔ سلطنت عثمانیہ بڑی
تیزی سے سمٹ رہی تھی اور زار کاروس ایک کے بعد ایک کرکے اس کی سب املاک لئے جا رہا
تھا مگر اس کو اسے روک دینے کی ہمت نہ ہوتی تھی اور نہ ہی خلافت عثمانی کے پاس اس
کو کوئی سبیل تھی کہ یہ اپنے مقبوضہ خطے روس سے واگزار کرا سکے۔ خطہءبلقان کے
ممالک یورپی ملکوں کی آشیرباد کے زیراثر خلافت سے باغی ہو چکے تھے۔ عالم اسلام کے
اندر کی غیر مسلم اقلیتیں الگ سے عالم بغاوت بلند کئے پھر رہی تھیں۔ دولت عثمانیہ
کا ہاتھ حالات کی چکی میں آچکا تھا اور یہ اپنی مرضی سے حرکت کرنے کی بھی طاقت نہ
رکھتی تھی۔ رہی مسلم امت تو اس کا حال بھی سلطنت عثمانیہ سے کم برا نہ تھا۔ یہ مدت
سے پسماندگی کا شکار تھی۔ ہر طرف جہالت و ناخواندگی اور غربت وافلاس کا دور دورہ
تھا۔ جمود کی حالت طاری تھی۔ بند ذہنیت پوری امت کی نفسیات میں بول رہی تھی۔ مائوف
ذہنیت حالات فہمی کی متحمل نہ رہی تھی .... معاملہ عین اس حالت کو پہنچ چکا تھا۔
جب یورپ نے دیکھا کہ موقعہ بڑی دیر اور انتظار کے بعد ہاتھ آیا ہے کہ اس ازلی دشمن
کا کام اب تمام کر دیا جائے۔ یورپ کی طاقتوں نے مل کر پروگرام بنایا اور پورے عالم
اسلام کو اپنے قبضے میں لے لینے کے منصوبے کے ساتھ یورپ آگے بڑھا۔ یوں عالم اسلام
کو یورپ کی ’کالونیاں‘ بنانا ٹھہرا۔ صلیبی یورپ کے ساتھ اب کے ایک نیا عنصر بھی
شامل تھا۔ یہ عالمی یہودیت تھی جو کہ اپنی ہی مار پر تھی اور یہ خود بھی اس موقعہ
کیلئے بڑی دیر سے پر تول رہی تھی جو مسلمان ان سب کو آپ اپنے ہاتھ سے فراہم کر رہے
تھے۔ صلیب اور صہیون دونوں مل کر ہماری جانب آگے بڑھے اور فلسطین میں ایک یہودی
وطن کی بنیاد ڈالی۔
سلطان عبدالحمید کی جانب سے
فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کا مطالبہ رد ہو جانے کے بعد عالمی یہودیت اور عالمی
صلیبیت میں عثمانی سلطنت کو گرا دینے پر آخری حد تک یکسوئی پائی جانے لگی۔ اب
دونوں کا منصوبہ ایک تھا اگرچہ ہر فریق اس منصوبے پر عملدرآمد سے اپنا مطلب نکالنا
چاہ رہا تھا۔ اس منصوبے میں کہیں کوئی رخنہ باقی نہ تھا اور اس پر عملدرآمد میں
صلیبیت اور صہیونیت کو کہیں کسی مشکل کا سامنا نہ تھا کیونکہ امت اپنے دین اور
دنیا کا شعور کھو بیٹھی تھی اور وہ عزم وہمت جس کی اللہ تعالیٰ نے اسے تاکید کی
تھی کہیں روپوش ہو چکی تھی۔
ولا تہنوا ولا تحزنوا وانتم
الاعلون ان کنتم مؤمنین (آل عمران: ١٣٩)
”دل شکتہ نہ ہو، غم نہ کرو،
تم ہی بالاتر ہو اگر تم مومن ہو“۔
عالم اسلام کو عسکری اور
سیاسی میدان میں چاروں شانے چت کر لینے کے بعد اسلام سے جنگ آزمائی کیلئے جو
خطرناک ترین اسلحہ استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا وہ ’فکری یلغار‘ تھی۔ اس کا مقصد
صلیبی اور صہیونی اقتدار کے خلاف مسلمانوں کی قوت مزاحمت کو کچل دینا تھا اور اس
کا طریقہ یہی ہو سکتا تھا کہ دلوں میں اس عقیدے کی کوئی جگہ باقی نہ رہنے دی جائے
اور اس کی جگہ ایسی نسلیں تیار کی جائیں جو ذلت اور غلامی کو ذہنی طور پر قبول کر
لینے پر راضی ہوں اگرچہ کوشش یہ کی جائے کہ ’رضا مندی‘ سے بھی بڑھ کر یہ نسلیں ذلت
میں لطف ومسرت کا بے حد سامان پائیں اور اپنی نجات کا راز بھی اپنی فکر وتہذیب کی
موت میں پائیں!
صلیبی صہیونی منصوبہ ساز سے
یہ بات اوجھل نہ تھی کہ یہاں کی مسلمان قومیں اس غفلت سے کبھی بھی اور کسی بھی وقت
بیدار ہو سکتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ہو سکتا ہے یہ قومیں یورپ کی ذلت آمیز غلامی
کو مسترد کر دیں اور ’آزادی‘ کا مطالبہ کرنے لگیں۔ منصوبہ سازوں نے اس بات کا پہلے
سے حساب رکھا ہوا تھا۔ اس مقصد کیلئے اس نے شروع امر سے یہاں قومیت اور وطنیت کے
بیچ بو دیئے تھے اور ایسی قیادتیں تیار کرنا شروع کر دی تھیں جن سے عوام راہنمائی
پائیں اور ان کے گرد اکٹھا ہوں۔ یہ سب کچھ استعمار کی زیر نگرانی ہوا تھا اور اس
عمل کو ظاہری یا مخفی انداز میں اسی کی مدد حاصل رہی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ
اگر یہاں استعمار کے خلاف کبھی بغاوت ہو، جس کا کہ استعمار کو ہمیشہ ہی خدشہ رہا
ہے، تو اس کا نقصان استعمار کے حق میں اور اس کا فائدہ یہاں کی قوموں کے حق میں کم
سے کم رہے۔ مثلاً یہ قومیں زیادہ سے زیادہ اگر کسی چیز کا تصور کریں تو وہ عسکری
آزادی ہو، بشرطیکہ وہ اپنے اندر اس بات کی قوت پائیں یا پھر عسکری اور سیاسی انداز
کی آزادی کا سوچیں، جو کہ کم از کم ظاہری آزادی ضرور ہو۔ مگر یہ اس بات کی جانب
ہرگز نہ آئیں کہ ایک فکری، تہذیبی، اور ذہنی آزادی کی سوچ سوچیں اور جسم کے ساتھ
روح کو بھی اس استعمار کی قید سے آزاد کرانے پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ استعمار ان
اقوام کو کسی مجبوری کے تحت اگر سیاسی معنی میں آزادی دے بھی دیتا ہے تو بھی یہاں
کے قومی اور وطنی نظاموں کی شکل میں اور ایک کے بعد ایک انقلاب آتے رہنے کی صورت
میں، جس کیلئے عوام تالیاں بجانے اور داد ودہش دینے میں مسلسل مشغول رہیں گے....
یہاں کی اقوام عملاً مغرب ہی کی دست نگر رہیں گی۔
مختصر یہ کہ وہ اصل چیز جس
سے یہ صلیبی صہیونی دشمن واقعی خوف کھاتا تھا اور جس کو ہر قیمت پر روک دینا چاہتا
تھا وہ یہ کہ ان اقوام میں حقیقی اسلامی بیداری آجائے۔ اس کے ساتھ مفاہمت کی اس کے
پاس کوئی صورت نہیں اور اس کے ساتھ کوئی درمیانی راستہ نکال لیا جانا ناممکن
ہے.... امت میں حقیقی اسلامی بیداری (صحوہ اسلامیہ) کا آجانا دشمنوں کیلئے ایک
ڈرائونا خواب رہا ہے اور وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ ان کے مفادات کیلئے کس قدر خطرناک
ہو سکتی ہے۔
الذین اتینا ھم الکتاب
یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم (البقرہ : ١٤٦)
”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی
ہے، وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں“۔
اب جب امام شہید کے ہاتھوں
اسلامی تحریک پروان چڑھنے لگی تو عالمی صلیبی صہیونی دشمن بڑے غور سے اور ایک خوف
کی حالت میں امام کی اس تحریک کو جانچ رہا تھا اور پوری باریکی کے ساتھ اس کا
جائزہ لے رہا تھا کیونکہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ اپنی خطرناکی میں کس سطح کو
پہنچ چکی ہے۔ مشہور برطانوی مستشرق جِب کی صرف ایک بات سے ہی آپ اس امر کا اندازہ
کر سکتے ہیں اور یہ تو معلوم ہی ہے کہ مستشرقین صلیبی صہیونی جاسوسی کا علمی اور
ثقافتی شعبہ ہیں۔ جِب نے ”اسلام میں جدید رحجانات“ (ماڈرن ٹرينڈ ان اسلام)
کے عنوان سے ایک کتاب لکھی تھی جس کی پہلی طباعت ١٩٣٦ءمیں منظر عام پر آئی۔ اس کتاب
میں وہ جمال الدین افغانی اور محمد عبدہ کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے ظاہری طور پر اس
کو بے حد سراہتا ہے مگر کتاب کے ایک حاشیے میں ایک جگہ اس پر یوں تعلیق لگاتا ہے۔
”اس (جمال الدین افغانی اور
محمد عبدہ کی تحریک کے بعد) ابھی حال ہی میں ایک نئی جماعت منظر پر آئی ہے جس کا
نام الاخوان المسلمون بتایا جاتا ہے۔ اس کا رہنما حسن البنا نام کا ایک شخص ہے۔ اس
جماعت کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا۔ اگرچہ ظاہر یہی ہوتا ہے کہ اس
کا خطرہ ایک خاص نوعیت کا ہے“۔
اس اتنی تعلیق سے ہی واضح ہے
کہ تیس کے عشرے کی ابھی ابتدا تھی تو مغرب اس خطرے کو کس انداز سے دیکھ رہا تھا
اور یہ کہ اس پانی کی گہرائی وہ بڑی دقت کے ساتھ ماپنا چاہتا تھا۔ چنانچہ مغرب میں
اس نوخیز جماعت کے بننے کے ساتھ ہی خطرے کی گھنٹیاں بجا دی گئی تھیں!
لازمی بات ہے اس نئی دعوت کے
گرد جوں جوں لوگ اکٹھے ہونے لگے توں توں مغرب کی نظر میں یہ خطرہ بڑا ہونے لگا
تھا۔ یہ جماعت جو اسلام کو لے کر پوری زندگی میں ساتھ چلنا چاہتی تھی اور اسلام کی
خاطر جگہ جگہ اب لوگ اس کے گرد جمع ہو رہے تھے .... مغرب اس تحریک سے تاحال ایک
سیاسی اور سماجی خطرہ ہی محسوس کر پایا تھا۔ اتنے تھوڑے عرصے میں وہ اس بات کا
پورا اندازہ تو ابھی کر ہی نہ پایا تھا کہ اس جماعت کے اندر میں کیا کچھ ہو رہا
ہے۔ عالمی دشمن کو پورے طور پر معلوم نہ تھا کہ اس جماعت کے اندر مجاہد سپاہ تیار
ہو رہی ہے جو اسلام کی خاطر موت پانا زندگی کی سب سے بڑی آرزو سمجھتی ہے!
یہ بم 1948ءمیں پھٹا۔ بلکہ
عین اس وقت اور اس موقع پر پھٹا جس سے زیادہ خطرناک وقت اور موقعہ کوئی ہو ہی نہیں
سکتا تھا۔ یہ واقعہ فلسطین میں ہوا اور اس وقت ہوا جب فلسطین میں یہودی وطن قائم
کیا گیا....
اس بم نے سب کے اوسان خطا کر
دیئے۔ اس کے پھٹنے کی آواز تحریک کے قائدین کی توقع سے بھی بڑھ کر رہی!
یہ بات کہ اس تحریک کے
رہنمائوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ صلیبیت و صہیونیت اسلام کی دشمن ہیں اور یہ
کہ صلیبی صہیونی دشمن کو اس تحریک سے بہت کچھ اندیشہ ہے اور یہ کہ یہ دشمن اس
تحریک کو ختم کر دینا چاہتا ہے اور اسے لوگوں کا اس تحریک سے لگائو رکھنا ایک آنکھ
نہیں بھاتا تو یہ بات تو ظاہر ہے کسی بیان کی محتاج نہیں۔ یہ وہ باتیں ہیں جو ایک
عام مسلمان کو بھی آپ سے آپ معلوم ہوتی ہیں۔ ایک مسلمان کو اس ضمن میں قرآن کی یہ
آیات پڑھ لینا ہی کافی ہے۔
ولن ترضی عنک الیہود
ولاالنصاری حتی تتبع ملتھم (البقرہ: ١٢٠)
ان تمسسکم حسنہ تسؤھم وان
تصبکم سیئہ یفرحوا بھا (آل عمران: ١٢٠)
”تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان
کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں“۔
لتجدن اشد الناس عداوہ للذین
امنوا الیھود والذین اشرکوا (المائدہ: ٨٢)
”تم اہل ایمان کی عداوت میں
سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤ گے“۔
ودکثیر من اھل الکتاب لو
یردونکم من بعد ایمانکم کفارا حسداً من عند انفسہم من بعد ما تبین لھم الحق
(البقرہ: ١٠٩)
”اہل کتاب میں سے اکثر لوگ
یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر پھر کفر کی طرف لے جائیں۔ اگرچہ
حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے، مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ
خواہش ہے“۔
ایک مسلمان کو قرآن میں یہ
آیات پڑھ لینا ہی کفایت کرتا ہے تاکہ اسے معلوم ہو کہ یہ دشمنی قائم ہے اور قائم
رہے گی .... البتہ یہ بات کہ یہ دشمنی اس وقت کس حد کو پہنچی ہوئی ہے اور اس مکروہ
سازش کی نوعیت اس وقت کیا ہے اور اس منصوبے کی عملی تفصیلات فی الوقت کیا ہیں تو
اس بات سے آگاہ ہونا ایک اور بات ہے.... اور جو بات حالات کی ترتیب سے سامنے آئی،
اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ تحریک کی قیادت کو اس بات کا اندازہ جس حد تک اور جس
دقیق انداز سے ہونا چاہئے تھا وہ نہیں تھا....
یہودی منصوبہ سازوں نے عالم
اسلام کے اس اہم ترین گوشے میں اپنا یہودی وطن بسانے کیلئے جو کچھ منصوبہ بندی کی
تھی اس میں ہر اس چیز کا خیال رکھا گیا تھا جو کسی انسان کے ذہن میں آسکتی تھی۔
چنانچہ جب سے سلطان عبدالحمید نے فلسطین میں یہودی وطن کے قیام کے بدلے میں یہودیوں
کی بھاری پیش کشیں ٹھکرا دی تھیں، جن میں کہ سلطان عبدالحمید کو ذاتی طور پر ایک
بھاری رشوت کی پیشکش جو کہ سونے کے پانچ ملین پائونڈ اسٹرلنگ (جو کہ اس وقت کے
حساب سے بہت بڑی دولت سمجھی جا سکتی ہے) تک پہنچتی تھی، اور اس بات کی یقین دہانی
کہ روس، برطانیہ اور فرانس کو آمادہ کیا جائے گا کہ وہ عثمانی قلمرو کے اندر
اقلیتوں کو بغاوت پر اتر آنے سے باز رکھیں (جو کہ دولت عثمانیہ کا بہت بڑا سیاسی
دردسر تھا) اور یہ یقین دہانی کہ عثمانی سلطنت کی قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی
معیشت کو سہارا دینے کیلئے لمبی مدت کے بھاری قرضے دیئے جائیں گے (جو کہ دولت
عثمانیہ کا بہت بڑا معاشی دردسر تھا) .... جب سے سلطان عبدالحمید نے یہودیوں کی ان
بھاری دل لبھانے والی مگر زہرناک پیش کشوں کو ٹھکرا دیا تھا اسی وقت سے یہودیوں نے
اپنے وطن کے قیام کیلئے ایک بہت لمبی مدت کی منصوبہ بندی کی داغ بیل ڈال دی تھی۔
کافی تیاری کر لینے کے بعد اس منصوبہ کے عمل درآمد کیلئے جو میعاد مقرر کی گئی وہ
پچاس سال تھی، جیسا کہ ہرٹزل نے ١٨٩٧ءمیں سوئٹزرلینڈ کے شہر بال میں منعقدہ کانفرنس
میں اعلان کیا تھا۔
دیکھتے ہی دیکھتے عبدالحمید
کو معزول کر دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی گئی تاکہ سارے کا سارا صلیبی
یورپ عثمانی سلطنت پر ٹوٹ پڑے اور اس ’مرد بیمار‘ کا کام تمام کرکے اس کا ترکہ
اپنے درمیان تقسیم کرلے۔ یہ ترکہ زیادہ تر برطانیہ اور فرانس کے حصے میں آیا۔ (یہ
ترکہ اب تک جوں کا توں انہی کے پاس ہے سوائے اس ایک فرق کے کہ مرکز ثقل برطانیہ جو
کہ اُس وقت کی ’آزاد‘ دنیا کا چودھری تھا، سے منتقل ہو کر امریکہ کے پاس چلا گیا
جو کہ اِس وقت کی ’آزاد دنیا‘ کا رکھوالا ہے) برطانوی انتداب کے تحت آئندہ کیلئے
اکھاڑا فلسطین کو بنایا گیا تاکہ بلفور ڈیکلریشن کے سائے میں یہودی وطن کی بنیاد رکھی
جائے۔ اسی لئے اس ڈیکلریشن میں کہا گیا تھا کہ ”ملکہءمعظمہ فلسطین میں یہودیوں کے
قومی وطن کے قیام کو ہمدردانہ نگاہ سے دیکھتی ہیں“!
یہ منصوبہ فلسطین یہود کو دے
دینے پر ختم نہیں ہو جاتا تھا۔ بلکہ فلسطین کے گرد جو ممالک تھے ان کو بھی چھوٹے
چھوٹے راجواڑوں میں تقسیم کر دیا گیا اور اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا کہ ان
راجواڑوں میں اکھاڑ پچھاڑ اور کھینچا تانی معمول کا واقعہ بنا رہے اوران سب ممالک
کا کوئی وزن نہ تو جنگ کی دنیا میں رہے اور نہ سیاست کی دنیا میں اور نہ معیشت کی
دنیا میں۔ پھر ان میں جگہ جگہ سرحدوں پر جھگڑے ہوں اور ان کے اندر قومی اور وطنی
تحریکیں ہر ملک میں لوگوں کو نہ صرف ملکی مسائل میں مشغول رکھیں بلکہ مسلمانوں کی
وحدت کو پھاڑ کر بھی رکھیں۔
پھر یہ مکر وفریب یہاں بھی
نہیں رکا۔ کسی بھی امت کے نوجوان اپنے دشمن کیلئے ایک مسلسل خطرہ ہوتے ہیں۔ خصوصاً
جب وہ کسی بڑے کام پر سنجیدگی سے جت جائیں۔ لہٰذا کسی قوم کے نوجوانوں کو کسی بھی
کام پر پوری سنجیدگی کے ساتھ لگ جانے سے ہر قیمت پر روک دینا اور اس مقصد کیلئے سب
وسائل کو بروئے کار لانا، خصوصاً ایسے کاموں میں ان کو دل مار کر لگ جانے سے روک
رکھنا جن سے دشمن کے منصوبوں کو خطرہ ہو .... بہت ضروری سمجھا گیا۔ امت کے
نوجوانوں کو پامردی سے محروم اور بے راہ رو کر دینے کیلئے سب وسائل آزمائے گئے
تاکہ یہ نوجوان نیچ کام کے سوا کسی چیز کا سوچیں تک نہیں اور کسی بلند کام کا تو
خیال تک ذہن میں نہ لائیں۔ رسول اللہ نے فرمایا تھا: ان اللّٰہ یحب معالی الامور
ویکرہ سفاسفھا (رواہ الطبرانی فی المعجم الکبیر) کہ ”اللہ تعالیٰ کو بلند اور عظیم
کام پسند ہیں اور نیچ کام سخت ناپسند“۔
چنانچہ امت کے نوجوانوں کو
سینما فراہم کیا گیا۔ ریڈیو کے ذریعے ’تفریح‘ فراہم کی گئی اور تھیٹر کی راہ
دکھائی گئی (یہ اس وقت کی بات ہے جب ابھی ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، وی سی آر اس کے
بعد کی بات ہے۔ نہ ہی یہود ابھی ہمارے نوجوانوں کو فٹ بال اور کرکٹ کے عالمی بخار
میں مبتلا کر سکے تھے)۔ ہمارے پڑھے لکھے مگر دین سے لاعلم نوجوانوں کو ’آزادی
نسواں‘ پر اظہار خیال کی دعوت دی گئی۔ ’آزاد خیالی‘ کی طرح ڈال کر لڑکے لڑکیوں کو
ایک دوسرے کو ’سمجھنے‘ کی ترغیب دی گئی۔ یوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے مابین
’معصوم تعلقات‘ کو شدومد کے ساتھ متعارف کرایا گیا کہ جانتے تھے یہ ’معصوم تعلقات‘
خود بخود ’غیر معصوم‘ ہو جاتے ہیں۔ نوجوانوں کو بہت کچی عمر میں سیاسی تعصبات کی
بھینٹ چڑھایا جانے لگا جو کہ ان کا قیمتی وقت بھی اور ان کی صلاحیتیں بھی برباد کر
دیں اور ان کو کسی مثبت کام کی جانب توجہ تک نہ کرنے دیں اور اپنی زندگی کا قیمتی
ترین دور لایعنی مصروفیت میں گزار دیں۔ ہمارے زیادہ پڑھے لکھے نوجوان اس قسم کے موضوعات
پر بہت طویل بحثیں اور مناظرے کر سکتے تھے کہ مغربی آرٹ یا موسیقی یا ادب میں کس
سکول آف تھاٹ کو کس سکول آف تھاٹ پر کونسی اور کس قسم کی برتری حاصل ہے اور ہمارے
عام نوجوان مقامی موسیقاروں پر ہی یہ شوق پورا کر لیتے تھے اور وہ یہاں کی مقامی
گلوکارائوں کی ایک دوسری پر فضیلت کے موضوع پر سیر حاصل بحث کر سکتے تھے! غرض اس
طرح کی لایعنی مشغولیات کی کوئی حد نہ رہی تھی۔
عین پورے وقت پر، ہرٹزل کی
دی ہوئی پچاس سال کی یہ میعاد جب پوری ہونے کو آئی (١٨٩٧ءمیں اس نے پچاس سال کے اندر
یہودی وطن کے قیام کا اعلان کیا تھا) یہودی وطن کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔عرب
ملکوں کی فوجوں نے ڈرامے کی کارروائی پوری کرنے کیلئے جنگیں لڑیں۔ بہت ہی خوبصورت
طریقے سے شکست ’حاصل‘ کی گئی۔ خوب خوب غداریاں اور خیانتیں ہوئیں۔ اسلحے کے ڈھیر
ردی نکل آئے۔ فوجی پلٹنیں کچھ دیر تک ’دائیں بائیں‘ کرتی رہیں اور بالآخر اس لائن
پر جا کر رک گئیں جو متارکہ جنگ اور پھر تقسیم اراضی کیلئے طرفین میں پہلے سے طے
کی جا چکی تھی!
یہاں اس موقعہ پر، جو کہ
دشمن کے منصوبوں کے حساب سے نازک ترین موقعہ تھا، یہ بم پھٹا اور اس کے کانوں کے
پردے پھاڑ دینے والے شور نے ہر طرف ہلچل مچا دی ....
الاخوان المسلمون کے فدائی
فلسطین کے معرکے میں جا اترے تھے! یہاں یہود کو پہلی بار اخوان سے متعارف ہونے کا
موقعہ ملا اور وہ تجسس جو ان کو پچھلے کچھ عرصے سے الاخوان المسلمون کی تحریک کے
بارے میں تھا وہ عین اس نازک موقعہ پر دور ہوا۔ یہود کو معلوم ہوا، اور ان کے ساتھ
عالمی صلیبیت کو بھی، کہ الاخوان المسلمون کیا ہیں!
یہ بہت ہی زوردار بم تھا اور
اس سے اٹھنے والا شور پوری دنیا کو ورطہءحیرت میں ڈال چکا تھا! یہ واقعہ اس سے بہت
زیادہ سنگین تھا جتنا کہ اخوان کی قیادت کبھی اندازہ کر سکتی تھی ....
یہودی جو عرب فوجوں کو شکست
پر شکست دیتے جا رہے تھے جونہی اخوان کے فدائیوں سے بھڑے تو یہ محسوس کئے بغیر نہ
رہے کہ یہ کسی اور معدن کے بنے ہوئے لوگ ہیں اور ان فوجوں سے بہت مختلف ہیں جو اس
ڈرامہ نما جنگ میں میں اپنا کردار ادا کرنے آئی تھیں.... یہ ایک عقیدے کیلئے جینے
اور عقیدے کیلئے مرنے والے لوگ تھے اور اب وہ اپنے اس عقیدے کیلئے مرنے کی خاطر
میدان میں اتر آئے تھے۔ اخوان کے یہ فدائی جان ہتھیلی پہ لئے معرکہءفلسطین میں موت
کا تعاقب کر رہے تھے۔ یہود کو اور انکے پیچھے صلیبیوں کو مسلمانوں کا عین وہی
نمونہ نظر آگیا جس سے تاریخ کے ایک طویل عرصے تک ان کو پالا پڑا رہا تھا۔
اس نئے واقعے نے ان کو شدید
پریشان اور ہراساں کر دیا تھا۔ اس بات کا تصور بھی ان کے بس سے باہر تھاکہ ایسے
انسانوں سے ایک بار پھر ان کو پالا پڑ سکتا ہے جو تاریخ اسلام کی شروعات میں دیکھے
گئے تھے.... اور پھر وہ بھی مصر سے جہاں استعمار کی فکری یلغار نے اپنا کام بہت
پہلے سے اور فرانسیسی حملے کے وقت سے شروع کر دیا تھا تاکہ مصر کو سب سے پہلے
اسلام بھلا دیں.... بلکہ اسلام ہی نہیں عرب قومیت بھی بھلا دیں اور عرب قومیت کی
جگہ ان میں مصری قومیت کا شعور بیدار کریں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں عرصہ دراز تک
”مصر مصریوں کا ہے“ کا نغمہ الاپا جاتا رہا تھا۔ اور اس نعرے سے مراد یہی تھی کہ
مصر اسلام ہی نہیں عرب قومیت سے بھی بیگانہ ہو جائے.... مگر اب ان کی پریشانی کی
کوئی حد نہ رہی تھی۔ اسی مصر سے اسلام کیلئے مرنے والے اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد کا
ورد کرتے ہوئے دیوانہ وار موت کے پیچھے بھاگ رہے تھے جن کے ساتھ جنگ میں ڈٹے رہنا
یہود کیلئے ممکن نہ تھا اور وہ اپنے مورچے اور اپنا اسلحہ اور سب سازو سامان چھوڑ
کر راہ فرار اختیار کرر ہے تھے۔
اب ان پر یہ واضح ہوا کہ
پڑوس میں یہ نوخیز اسلامی تحریک جب تک جیتی جاگتی ہے تب تک مستقبل میں اسرائیل کی
توسیع کا خواب تو رہا ایک طرف خطے میں اسرائیل کا امن وبقا بھی ممکن نہیں۔ اور یہ
کہ اسرائیل کو اگر زندہ رہنا ہے اور امن واستقرار حاصل کرنا اور خطے میں توسیع
کرنی ہے تو پھر اس تحریک اسلامی کا کام تمام ہونا چاہئے۔ بہت تھوڑے عرصے میں جماعت
الاخوان المسلمین کو کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے رہنما کو قاتلانہ حملے میں ختم
کردیا گیا اور پھر ناقابل بیان واقعات کا ایک تانتا بندھ گیا۔
تحریک پر قبل از وقت ہاتھ
ڈال دیا گیا اور وہ بھی بہت ہی بے رحم انداز کے ساتھ.... اس سے بھی کہیں بے رحم
انداز کے ساتھ جس کی کہ توقع کی جا سکتی تھی۔
درست کہ تحریک کا کوئی
راہنما خود بھی یہ توقع نہیں رکھتا تھا کہ تحریک ہر اذیت سے محفوظ رہے گی کیونکہ
خدائی سنت ہمیشہ یہی رہی ہے اور اس سنت کے ہوتے ہوئے ایسی امید رکھنا محال ہے۔
لیکن یہ توقع کوئی بھی نہ کر سکتا تھا کہ اخوان پر ظلم وتعدی اس وحشت ناک حد کو
پہنچے گی۔ تحریک کے ہر دلعزیز راہنما کو بھرے بازار میں دن دہاڑے گولی مار دی جاتی
ہے۔ ہسپتال حکومتی احکامات پر طبی امداد دینے سے انکار کر دیتے ہیں تاکہ خون کا
آخری قطرہ تک جسم سے نچڑ جائے۔ ہزاروں نوجوان دھر لئے جاتے ہیں۔ ان کو جیلوں میں
ٹھونس دیا جاتا ہے اور اس بے دردی سے اذیتیں دی جاتی ہیں جن سے درندے پناہ
مانگیں.... یہ بات البتہ ضرور ایسی تھی جو کسی کے سان گمان میں نہیں تھی اور کوئی
بھی اس کا پیشگی تصور نہیں کر سکا تھا۔
ان وحشی درندوں کی بربریت کا
ظاہر ہے کوئی بھی وجہ جواز نہیں تھا، خواہ وہ کتنا ہی اپنے جرائم کو مختلف پردوں
میں چھپائیں اور ان کو حفظ امن عامہ کا نام دیں یا بدامنی کو روکنے کا۔ اس پر نہ
دنیا میں کوئی پردہ پڑ سکتا ہے اور نہ قیامت کے روز جب:
یومئذ یومنھم اللّٰہ دینہم
الحق ویعلمون ان اللّٰہ ھو الحق المبین (النور: ٢٥)
”اس دن اللہ وہ بدلہ انہیں
بھرپور دے گا جس کے وہ مستحق ہیں اور انہیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ ہی حق ہے سچ
کو سچ کر دکھانے والا“۔
مگر ہم یہاں سوال یہ کرنا
چاہتے ہیں کہ تحریکی مراحل طے کرنے میں تحریک نے اپنی طرف سے کیا درست حکمت عملی
اختیار کی تھی یا کہیں جلد بازی ہوئی اور کچھ کام قبل از وقت کر لئے گئے؟
یہاں کوئی بھی یہ خیال ذہن
میں نہ لائے کہ اس تحریک نے اگر کوئی اور حکمت عملی اپنا لی ہوتی تو اس کو جنگ کئے
بغیر چھوڑ دیا جاتا .... پیچھے ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی
قوم سے جب یہ تقاضا کیا تھا کہ وہ آپ کے ساتھ جنگ وجدل سے ہاتھ کھینچ کر ذرا صبر
سے کام لے لیں تاآنکہ خدا کی جانب سے جو ہونا ہے وہ ہو رہے تو قوم کے سرداروں کی
طرف سے کیا جواب آیا تھا:
وان کان طائفہ منکم آمنوا
بالذی ارسلت بہ وطائفہ لم یومنوا فاصبروا حتی یحکم اللّٰہ بیننا وھو خیر الحاکمین۔
قال الملاالذین استکبروا من قومہ لنخرجنک یا شعیب والذین آمنوا معک من قریتنا
اولتعودن فی ملتنا قال اولو کنا کارھین (الاعراف: ٨٧۔ ٨٨)
”اگر تم میں سے ایک گروہ اس
دعوت پر جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، ایمان لے آیا ہے اور دوسرا ایمان نہیں
لایا، تو صبر کے ساتھ دیکھتے رہو، یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے، اور
وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے“۔
”اس کی قوم کے سرداروں نے،
جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا تھے، اس سے کہا: ”اے شعیب، ہم تجھے اور ان لوگوں
کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں اپنی اس بستی سے نکال کر رہیں گے، یا پھر تم لوگوں
کو ہماری ہی ملت میں واپس آنا ہوگا“ ۔ شعیب نے جواب دیا: ”کیا زبردستی ہمیں پھیرا
جائے گا خواہ ہم راضی نہ ہوں؟“
ناممکن! ہو نہیں سکتا کہ
جاہلیت کبھی لا الہ الا اللّٰہ کی دعوت کو دیکھنا برداشت کرلے۔ یا اس سے جنگ بندی
پر آمادہ ہو یا اس کے معاملے میں صبر سے کام لے۔
ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ
تحریک اگر صحیح منہج پر ہی ثابت قدم رہتی تو ہر اس اذیت سے محفوظ رہتی جو ظلم وتشد
د اور قتل وغارت کی ہر اس آخری حد کو پہنچ سکتی تھی۔ اس اذیت سے تو اسلام کی وہ
پہلی جماعت محفوظ نہ رہی تھی جسے رسول اللہ نے خود اپنے زیر نگاہ تربیت دے کر تیار
کیا تھا اور جو کہ اپنی دعوت کے ہر مرحلے میں اس صحیح ترین منہج پر چلتی رہی تھی
جس پر چلنا کسی انسانی تحریک کے بس میں ہو سکتا ہے۔ یہ وہ جماعت تھی جسے ہر ہر قدم
پر وحی ربانی خود لے کر چلتی اور راہ دکھاتی رہی تھی۔ ایسی بہترین جماعت بھی ظلم
وتشدد، قتل وغارت، جلاوطنی اور بھوک سے مار دیئے جانے کی ظالمانہ کارروائیوں سے
محفوظ نہ رہی تھی.... چنانچہ صحیح منہج پر چلنا اور صحیح حکمت عملی اپنانا دراصل
اس لئے مقصود نہیں ہوتا کہ دعوت کو لے کر چلنے والے اشخاص کا بچائو کیا جائے....
ہاں البتہ یہ خود دعوت کے بچائو کیلئے ضرور مطلوب ہوتا ہے۔ اس بات کا انتظام
بہرحال ضروری ہوتا ہے کہ دعوت سے پورے ثمرات لئے جائیں اور دعوت اپنا مشن پورے
طریقے پر ادا کر پائے۔
اخوان کی تحریک پر بڑی بے دردی سے اور وقت سے
پہلے ہاتھ ڈال لیا گیا، جبکہ یہ دعوت کسی مضبوط بنیاد پر ابھی معاشرے پر اثر اندا
ہونے والی بنیادی جمعیت کی تیاری کا کام مکمل نہ کر سکی تھی۔ یقینا اس نے ایسے
مخلص فدائی تیار کر لئے تھے جو اللہ کی راہ میں موت پانے کیلئے ہر دم مستعد اور
دعوت الی اللہ کی خاطر جواں مردی کے ساتھ ہر اذیت سہ لینے پر تیار تھے.... یقینا
اس نے ایسے افراد پیدا کر لئے تھے جن میں اخوت اور محبت صرف خدا کی خاطر تھی اور
جو کہ خونی رشتوں کی محبت پر بھاری تھی.... یقینا اس نے ایسے پاک صاف لوگ تیار کر
لئے تھے جو معاملے کے کھرے اور ہر بات میں اللہ سے ڈرنے والے تھے.... یقینا اس نے
ایسے افراد بنائے تھے جو دین کیلئے اپنا سب کچھ لٹا دینے پر تیار تھے اور دین کی
راہ میں قوت برداشت کا مظاہرہ کرنا جانتے تھے.... یہ سب صفات یقیناایسی ہیں جو اس
بنیادی جتھے میں پائی جانا ضروری ہوں جسے معاشرے کی کایا پلٹنی ہو.... مگر یہی سب
کچھ نہیں۔ ایک بنیادی جمعیت کیلئے یہ صفات بہرحال کافی نہیں۔ معاشرے پر اثر انداز
ہونے والے افراد صرف پاک طینت، پاکباز اوردین کیلئے اپنا آپ لٹا دینے والے افراد
نہیں ہوتے۔ اس کام کو اس سے کچھ زیادہ اوصاف بھی مطلوب ہوا کرتے ہیں۔
ان افراد کو مجسم دعوت ہونا ہے۔ جہالت کی
تاریکی میں ڈوبی اور غلامی کی ذلت میں گرفتار اس پوری امت کیلئے یہی نجات دہندہ
ہیں.... خدا سے دوری کے سبب فاصلے جو اس امت کی زندگی میں آگئے تھے ان سب کو انہی
لوگوں نے سمیٹنا تھا۔ یہ کام اخلاص اور فدائیت کے علاوہ اور بہت کچھ کا متقاضی ہے۔
وہ تربیت جو اس ابتدائی مرحلے میں مطلوب ہے اس
پر ہم آئندہ فصل میں گفتگو کریں گے۔ چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو ہو جو اس بنیادی
جمعیت کیلئے ضروری ہے جسے معاشرے کی قیادت کرنی ہے اور چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو
ہو جو عوام کے اس طبقے کو دی جانا ہے جو تحریک کے ساتھ مل کر چلنے والے ہوں....
مگر یہاں ہم صرف ان اسباب کا جائزہ لیں گے جو تحریکی زندگی میں اس جلد بازی کا سبب
بنے اور پھر ان آثار پر گفتگو کریں گے جو اس جلد بازی کا نتیجہ بن کر سامنے آئے۔
اخوان کی تحریک نے ، قبل اس سے کہ اس بنیادی
جمعیت کی تیاری پختہ بنیادوں پر مکمل کر لے جو بعد میں معاشرے پر اثر انداز ہو سکے
اور معاشرے کی قیادت کرے، ایک عوامی انداز اپنا لیا تھا اور اسی انداز میں رفتہ
رفتہ آگے بڑھتی گئی۔ معاملہ یہ ہے کہ عوام کو، انکا دینی فہم وشعور پختہ کئے بغیر،
ساتھ لے کر چلنا اوران کے بل پر برسراقتدار طبقوں سے جا الجھنا اور ایسے معرکے
چھیڑ لینا جن میں طرفین کے مابین طاقت کی کوئی نسبت ہی نہیں، تحریک کے وارے کا
نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے نتائج پھر خود دعوت ہی کے حق میں اچھے ثابت نہیں ہوئے....
اس جلد بازی کے نتیجے میں لا الہ الا اللّٰہ کی
حقیقت جو معاشرے میں بڑے عرصے سے دھندلاہٹ کا شکار تھی، اگر کچھ اور نہیں بڑھ گئی
تو برقرار ضرور رہی۔ کیونکہ عقیدے کے اس بنیادی موضوع (لا الہ الا اللّٰہ) کے ساتھ
کچھ دوسرے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل آملے تھے اور لا الہ الا اللّٰہ کے حوالے
سے معاملہ ابھی لوگوں پر اور خود تحریک پر بھی پوری طرح واضح نہ ہو پایا تھا کہ
مسئلہ خالصتاً اللہ کی بندگی کرنے کرانے کا ہے نہ کہ تحریک کا اصل سروکار ان مسائل
سے ہے جو اس دعوت کے سیاسی، معاشی اور سماجی مضمرات ہو سکتے ہیں۔ اور نہ ہی یہ بات
پورے طور پر تحریکی نوجوانوں کے شعور میں پختہ ہو سکی تھی کہ یہ سب کے سب سیاسی،
معاشی اور سماجی مسائل ایک خاص ترتیب سے اور ایک خاص وقت آنے پر ہی لا الہ الا
اللّٰہ کی دعوت کے ساتھ جڑتے ہیں بلکہ خود لا الہ الا اللّٰہ کے اندر سے پھوٹتے
ہیں اور یہ کہ یہ سب مسائل ایک خاص ترتیب سے لا الہ الا اللّٰہ کی ذیل میں آنے
چاہئیں نہ کہ لا الہ الا اللّٰہ کے ساتھ برابر میں ذکر ہونے چاہئیں اور یہ تو ہونا
ہی نہیں چاہئے کہ یہ سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل لا الہ الا اللّٰہ سے ہٹ کر ذکر
ہوں اور تحریک کا ایک مستقل موضوع بنیں اور یہ تو کسی صورت ہونا ہی نہیں چاہئے کہ
یہ مسائل لا الہ الا اللّٰہ سے بھی پہلے ذکر ہونے لگیں۔
یہ بات بھی فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ عوامی
انداز اختیار کرنے اور عوام کو قبل از وقت ساتھ لے کر چلنے میں جو جلد بازی کا
مظاہرہ ہوا، جبکہ ابھی عوام کے اندر اسلامی شعور پختہ نہیں ہو پایا تھا بلکہ شاید
یہ کہنا غلط نہ ہو کہ عوام میں اسلام کا جامع فہم ابھی وجود بھی نہ پا سکا تھا مگر
چلئے ہم یہی کہہ لیتے ہیں کہ عوام میں ابھی شعور کی پختگی نہیں آئی تھی۔ اسلامی
تحریک کی اس مقبولیت نے ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں اور بڑے بڑے سیاسی گرگوں کو
الگ پریشانی میں مبتلا کر دیا۔ یوں ان کو ایک بڑی سطح پر اپنے ’ووٹروں‘ کی فکر پڑ
گئی جو اب بڑی تیزی کے ساتھ ان کے ہاتھ سے جا رہے تھے اور اس نئی اسلامی تحریک سے
جا مل رہے تھے۔ یہ سیاسی جماعتیں اور قیادتیں بھی اخوان کی تحریک کو اس کے اصل
اصلاحی مشن سے ہٹاکر سیاسی مناظرہ بازی میں الجھانے لگی تھیں۔ اخوان کو لاجواب
کرنے کیلئے یہ ان سے تقاضا کر رہی تھیں کہ وہ اپنا سیاسی منشور اور تفصیلی پروگرام
سامنے لائیں اور یہ واضح کریں کہ وہ اقتدار پا کر ملک کی حالت کیونکر سنوار دیں
گے۔ اس سے اخوان کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اپنے سیاسی منشور اور معاشی وسماجی
پروگرام، جو اقتدار پانے کی صورت ہیں وہ ملک کے اندر لے کر آئیں گے، عوام کے سامنے
اور ان پارٹیوں کے سامنے واضح کریں یوں اس سیاسی مناظرے اور جواب در جواب بحث میں
اخوان کو مجبور ہونا پڑا کہ وہ اپنے اصل مسئلے ___یعنی لا الہ الا اللّٰہ کی
دعوت___ کو نہ چاہتے ہوئے بھی پس منظر میں چلا جانے دیں۔
یہ لا الہ الا اللّٰہ کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ
ہے جو ویسے تو عموماً بھی مگر اس مرحلے میں تو خاص طور پر جب ذہن وشعور کی تشکیل
ہو رہی ہو اور تحریک وجود پا رہی ہو .... اس لا الہ الا اللّٰہ کے مسئلہ کو ان
نتائج سے بالکل کوئی سرکار نہیں ہونا چاہئے جو دنیوی زندگی میں اس سے مسلمانوں کو
حاصل ہو سکتے ہیں، خواہ وہ اقتدار کا حصول ہو، خواہ سیاسی استقرار اور استحکام ہو،
خواہ معاشی خوشحالی ہو اور خواہ سماجی امن وسکون ہو.... کیونکہ عین ممکن ہے دنیا
کی زندگی میں ان سب باتوں میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔ عین ممکن ہے لا الہ الا
اللّٰہ کہنے کا انجام دینوی زندگی میں کسی وقت فرعون کے ان جادوگروں کا سا ہو جو
ایمان لے آئے تھے اور پھر ان کو اس کی پاداش میں موت اور سولی کو گلے لگانا پڑا۔
یا پھر دنیا میں ان کا انجام اصحاب الاخدود جیسا ہو، جو سب کے سب آگ کے گڑھوں میں
پھینک کر زندہ جلا دیئے گئے تھے.... مگر وہ اپنے بعد والوں کیلئے ایمان کی ایک
خوبصورت اور زندہ مثال بن گئے اور ان کے نصیب میں وہ اعزاز آیا جو وہ اپنے لئے
پسند کر چکے تھے، یعنی اللہ کو جی بھر کر راضی کر لینا اور اس کے ہاں جا کر خلد کے
باغات میں جا بسنا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور جہاں بہشت میں آبشاریں گرتی ہیں۔
عوام کو اکٹھا کرنے کی جلدی کرنا اور پھر ان
عوام کو قافلے میں لے چلنے کی جلدی کر بیٹھنا، جبکہ ان کے شعور میں ابھی پختگی نہ
لائی جا سکی ہو بلکہ ابھی تحریک خود اپنے نوجوانوں میں پختگی نہ لا سکی ہو، ایک
ایسی غلطی تھی جس نے اسلام کے اس اساسی مسئلے (یعنی توحید) کے گرد پائی جانے والی
دھندلاھٹ کو کچھ اور بھی بڑھا یا۔ اب اسلامی دعوت کی بنیاد یہ ٹھہر گئی تھی کہ
اسلام نافذ ہو جانے سے وہ سب سیاسی، سماجی اور معاشی مسائل حل ہو جائیں گے جو آج
اس وقت لوگوں کی زندگی اجیرن کر دینے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اس بنا پر خود بخود
ضروری ٹھہرا کہ ایسے عملی اور تفصیلی پروگرام عوام کے سامنے لائے جائیں جن سے واضح
ہو کہ اسلامی تحریک کو اقتدار مل جانے کے بعد فی الواقع ایسا ہو جائے گا تاکہ ان
سیکولر جماعتوں کا منہ بند ہو سکے جو اسلامی جماعت کو بار بار اس بات کا چیلنج
دیتی ہیں!
یہ بات کہ ہر بحران کا اسلام ہی اصل حل ہے،
اپنی جگہ اٹل حقیقت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کا ذمہ اٹھایا ہے اور اس کا وعدہ کر
رکھا ہے: ولو ان اھل القری آمنوا واتقوا لفتحنا علیہم برکات من السماءوالارض
(الاعراف: ٩٦) ”اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش
اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“۔ البتہ یہ
بات کہ یہ حل جس کا اسلام وعدہ کرتا ہے، اسلام پسندوں کے برسراقتدار آتے ہی ظہور
پذیر ہو جائے گا، اس پر بہرحال کتاب اللہ سے کوئی دلیل ملتی ہے اور نہ تاریخ کے
وقائع سے۔ خود اسلام کے دور اول میں جب مسلمانوں کو اقتدار حاصل ہوا اور وہ ایک
ایسی ریاست کا قیام عمل میں لانے میں کامیاب ہوئے جو اللہ کا قانون چلاتی تھی،
مسلمان بہت برسوں تک تنگی اور ترشی کی شدید اور ناقابل بیان حالت میں گرفتار رہے
تھے اور ایک لمبا عرصہ ان کو صبر کرنا پڑا تھا تاآنکہ حضرت عمر کے دور میں جا کر
کہیں خوش حالی کا دور آیا اور اس سارا عرصہ لوگ بڑے صبر کے ساتھ یہ سب سختی برداشت
کرتے رہے کیونکہ وہ ایمان کی حقیقت جان چکے تھے اور ایمان کو دلوں میں اتار چکے
تھے۔ پھر کیونکہ وہ اپنا آپ دعوت اسلام کی نذر کر چکے تھے اور پھر یہ کہ ان کی کل
امید اور ان کا اصل مطمع نظر صرف اور صرف آخرت تھی اور دنیا کی خوشحالی کو کبھی
انہوں نے اپنا نصب العین بنایا ہی نہ تھا اور ہ وہ اپنی دنیا سنور جانے کے کبھی
منتظر رہے تھے۔ یہی وہ اصل اہلیت تھی جس نے اس دعوت کو اس لائق بنایا کہ وہ زمین
میں تمکین پائے، معاشروں میں اپنے پیر گاڑے اور پھر انسانی افق پر ہر سمت کو
پھیلتی جائے۔
اگر کہیں رسول اللہ نے ___معاذ اللہ___عوام کو
یہ لالچ دی ہوتی کہ آپ کے اقتدار پا لینے کی صورت میں ان کے سب دنیاوی مسئلے حل ہو
جائیں گے اور خوش حالی کا دور دورہ ہو جائے گا تو لوگ کبھی بھی اس سختی اور تنگی
کو برداشت نہ کر سکتے جو کہ اسلامی ریاست کے قیام میں آنے کے ساتھ ہی مسلمانوں پر
حملہ آور ہوئی اور پھر برسوں تک ان کے صبر کا امتحان لیتی رہی تھی، اور نہ ہی وہ
اس صبر واستقامت کا مظاہرہ کر سکتے جس کی بنیاد پر انہوں نے اللہ کے فضل سے تاریخ
کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ اب جب ہم لوگوں کو ___جبکہ ان کے دل ابھی لا الہ الا اللّٰہ
کی حقیقت کیلئے دنیا ومافہیا سے بیگانہ نہیں ہوئے___ یہ باور کراتے ہیں کہ
مسلمانوں کے اقتدار پانے کی صورت میں ان کی سب مشکلیں دنوں کے اندر جاتی رہیں گی
اور پھر دوسری طرف اسلام پسند اگر کبھی اقتدار پا لیتے ہیں تو وہ دیکھیں کہ برسوں
گزر جانے کے بعد بھی ان کی یہ مشکلات حل نہیں ہوتیں بلکہ یہ مشکلات ___صلیبی
صہیونی دشمنی کے باعث___ کئی گنا اور بھی بڑھ جاتی ہیں تو کیا یہ لوگ صبر کریں گے
جو کہ ہمارے ساتھ شامل ہی خالصتاً اللہ کی اطاعت وبندگی کے دروازے سے گزر کر نہیں
ہوئے بلکہ دنیا سنور جانے کے شوق میں یہ ہمارے ساتھ آملے تھے!؟ کیا یہ تنگی کے ان
دنوں میں اور دنیا کا بہت کچھ ہاتھ سے چلا جانے پر اور اس کٹھن جہاد کی راہ پر
صابر وثابت قدم رہیں گے تاآنکہ اللہ کا وعدہ اپنے وقت پر جا کر پورا ہو جس کا کہ
صرف اللہ کو علم ہے.... یا پھر یہ الٹا اسلامی حکومت پر ہی برس پڑیں گے جس نے اپنے
وعدے پورے نہیں کئے اور جس بات کا کہہ کر وہ ان کے ووٹ لیتی رہی اور جس مقصد کی
خاطر وہ اقتدار میں آئی اسکا ان کو دور دور تک کوئی نام ونشان تک نظر نہیں آتا!!؟
دعوت کا کام تو یہ ہے کہ وہ ہر چیز سے پہلے اور
ہر چیز کو بھلا کر لوگوں پر بس یہی واضح کرے کہ بندوں پر خالق کا حق کیا ہے۔ بڑی
دیر تک لوگوں کو صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ کی خالص بندگی کا حق کیسے ادا
ہو سکتا ہے اور اللہ کے پاس سے جو ہدایت اور جو شریعت آئی ہے اس کی پابندی کس قدر
ضروری ہے، بغیر اس بات کی پرواہ کئے کہ اللہ کیلئے بندگی اور عبادت کو خالص کر
دینے کا دنیا کی زندگی میں کیا نتیجہ نکلتا ہے اور زمینی معیاروں کی رو سے اس سے
کچھ ’حاصل‘ ہوتا ہے یا صرف گھاٹا پڑتا ہے۔ اللہ کی بندگی کا اصل بدلہ صرف آخرت ہے۔
ہاں یہ بھی ضرور ساتھ میں واضح کیا جائے کہ اللہ کا اس امت سے بطور خاص یہ وعدہ ہے
کہ وہ اسے دنیا کی زندگی میں بھی تمکین سے نوازے گا اور ان کی خوف وبدامنی کی حالت
کو چین اور بے فکری سے بدل دے گا مگر اس بات کیلئے اللہ کی شرط بہت واضح ہے: یہ کہ
وہ اللہ کی بلا شرکت غیرے بندگی کریں اور اس کیلئے اپنی اطاعت وفرمانبرداری اور
اپنی عبادت کو خالص کر دیں نہ کہ اس کا یہ وعدہ اس بات سے مشروط ہے کہ وہ اسلام
پسندوں کے حق میں بیلٹ بکس بھر دیں اور ان کو پارلیمان میں اکثریت دلا کر اقتدار
پر فائز کر آئیں۔
وعداللّٰہ الذین آمنوا منکم وعملوا الصالحات
لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم ولیمکنن لہم دینہم الذی ارتضی لہم
ولیبد لنہم من بعد خوفھم امنا یعبدوننی لا یشرکون بی شیا(النور: ٥٥)
”اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے
ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے
گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لئے ان کے اس دین کو
مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے۔ اور
ان کی (موجودہ) حالتِ خو ف کو امن سے بدل دے گا۔ بس وہ میری بندگی کریں اور میرے
ساتھ کسی کو شریک نہ کریں“۔
بلاشبہ دعوت جب اس بنیاد پر اٹھائی جائے گی تو
وہ بہت ہی آہستگی کے ساتھ بڑھے گی۔ بہت تھوڑی مدت میں عوام کی بہت بڑی تعداد ساتھ
نہیں چلے گی۔ مگر اس صورت میں تمکین فی الارض پانے کا درست عمل بھی شروع ہو چکا
ہوگا۔ کیونکہ یہ ایک طرف خدائی منہج کا تقاضا ہے تو دوسری طرف اللہ کی سنت بھی
ہمیشہ یہی رہی ہے اور یوں اللہ کا لکھا ہو کر رہتا ہے۔
واللّٰہ غالب علی امرہ ولکن اکثر الناس لا
یعلمون (یوسف: ٢١)
”اللہ اپنا کام کرکے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ
جانتے نہیں ہیں“۔
...............................................................................................
دعوت کی حقیقت پر یہ جو دھندلاہٹ پڑی تھی اس میں کئی گنا اضافہ پھر عین اس وقت ہوا جب ایک طرف اس تحریک کے کچھ دھڑے حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور مسلح لڑائی کرنے پر اتر آئے اور دوسری طرف اسی تحریک کے کچھ دھڑے پارلیمان میں جا بیٹھے!
عالمی صلیبی صہیونی طاقتیں جس طرح اسلامی تحریک سے پریشان ہو چکی تھیں اور پھر ساتھ میں کچھ دوسرے عوامل بھی شامل ہو گئے تھے اس سے عالمی سیاست میں ایک خاص شدت پر مبنی تبدیلی آئی تھی، جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں مگر اس تبدیلی کا جو عالم اسلام سے متعلقہ پہلو ہے اس کی جانب یہاں ایک اچٹتا اشارہ کردیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
برطانیہ اور فرانس جو کہ اپنے وقت کی دو بڑی طاقتیں تھیں دوسری جنگ عظیم (1939 ۔ 1945) سے اپنا بہت سا نقصان کرا کے فارغ ہوئی تھیں۔ جبکہ امریکہ اس جنگ سے بڑی عافیت کے ساتھ نکلا تھا اور یہ جنگ اس کا کوئی خاص قابل ذکر نقصان نہ کر پائی تھی۔ یہ دیکھ کر امریکہ کو یہ شوق چرایا کہ جس کو اُس وقت کی ’آزاد دنیا‘ کہا جاتا تھا وہ اس کا لیڈر بن جائے اور برطانیہ اور فرانس دونوں کو عالمی اثر ورسوخ اور دنیا بھر کی چودھراہٹ سے فارغ کر دے۔ اس کی صورت یہ تھی کہ تیسری دنیا اور خصوصاً عالم اسلام میں برطانیہ اور فرانس کی بجائے اب امریکہ کی ایجنٹ حکومتیں بیٹھیں۔ ایسی حکومتوں کو ایک نئی ہیروانہ شان کے ساتھ مسند اقتدار پر بٹھانا ضروری تھا جن کو ان کے عوام اس نظر سے دیکھیں کہ یہ استعمار کو شکست فاش دے کر میدان جیتنے میں کامیاب ہوئی ہیں اور یہ کہ قوم کو غیر ملکی اقتدار سے نجات دلانا ان شیر بہادروں کا ہی کمال تھا۔ مگر یہ ڈرامہ، جس کا جنگ عظیم کے نتائج کے پس منظر میں حقیقت ہونا آپ سے آپ باور ہو جانا تھا، اپنی تہہ میں دراصل ایک اور گھناؤنا مقصد بھی رکھتا تھا .... اور اس مقصد کو پورا کرنے کی حد تک صلیبیت اور صہیونیت کے درمیان آپس میں پورا پورا تعاون ہو رہا تھا بلکہ مشترکہ منصوبہ بندی بھی.... اور وہ گھناؤنا مقصد یہ تھا کہ ان ڈرامائی تبدیلیوں اور ان ہیروانہ کارناموں کے پردے میں خطے کے اندر، خصوصاً عرب علاقے میں، اسلامی تحریکوں پر بھی ہاتھ صاف کر دیا جائے تاکہ اسرائیل امن وچین سے جی سکے اور عالم اسلام کے عین پڑوس میں اس چھوٹے سے یہودی ملک کو ترقی واستحکام کے وہ سب مواقع حاصل ہو سکیں بلکہ اس کی اس مزید توسیع کیلئے بھی راستہ صاف ہو سکے جس کا کہ اسرائیل کی پیدائش کے وقت خواب دیکھا گیا تھا۔ اسلامی تحریکوں کو راہ سے ہٹانے کیلئے یہ مکروہ عزائم پھر اور بھی شدت پکڑ گئے جب یہ دیکھا گیا کہ یہ پہلی ضرب اسلام کی اس ایک بڑی تحریک کا کام تمام کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی جس میں کہ امام شہید کو قتل کر دیا گیا تھا اور نوجوانوں کو بڑی تعداد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اس ضرب نے تحریک کا کام تمام نہیں کیا بلکہ الٹا محسوس یہ ہوا گویا یہ اس تحریک کے مقبول ہونے کیلئے بنیاد بن گئی ہے اور اس کو ایک نیا ولولہ دے کر دور دور کے ملکوں تک پہنچا آنے میں کامیاب ہوئی ہے۔
اب ان اسلامی تحریکوں کو قابو کرنا اور پوری قوت سے کچل دینا ٹھہر گیا تھا۔ اس مقصد کیلئے لیڈروں کے انتخاب کا خاص خیال رکھا گیا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کے سب لیڈر فوجی حکمران تھے! ہر فوجی ضروری نہیں اس مہم کیلئے مناسب ہو، اس مقصد کیلئے تین بنیادی شرطیں کسی فوجی حکمران میں پائی جانا ضروری سمجھی گئیں۔ اس کے بعد پھر کچھ اضافی صلاحیتیں بھی ہوں تو کچھ حرج نہیں۔ اقتدار کا جنون، بے رحمی اور اسلام سے بغض۔ اس کے لئے آئیڈیل کے طور پر جس شخص کو لیا گیا یہ وہی تھا جو اس تجربے کی پہلی عملی مثال بنا تھا.... کمال اتا ترک!
یہ تین بنیادی صفات کسی شخص میں پائی جائیں تو اقتدار حاصل کرنے کے بعد طبعی طور پر وہ جو پہلا کام کرے گا وہ یہی کہ وہ اسلامی تحریکوں پر گرفت کرے اور وہ بھی اس شدت اور بے رحمی کے ساتھ جس کی کہ اس سے توقع ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود معاملے کو حالات اور اتفاقات پر نہیں چھوڑ دیا گیا تھا بلکہ بڑی تدبیر ومنصوبے کے ساتھ اس بات کا انتظام کیا جاتا تھا کہ اسلامی تحریکیں بظاہر بڑے قدرتی انداز کے ساتھ نئی سے نئی آفت میں جا پڑیں۔ (3) ان کی چیدہ چیدہ شخصیات قتل ہوں، ان کے نوجوان ہزاروں کی تعداد میں جیلوں میں سڑنے کیلئے ڈال دیئے جائیں اور ان کو ایسی ایسی وحشت ناک اذیتیں دی جائیں جن کو سن کر آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں .... یہاں سے اس بات کی ’حکمت‘ سمجھ آتی ہے کہ کیوں یہاں کے حکمران سویلین کی بجائے ہمیشہ فوج سے لئے گئے۔ فوجی دور میں وہ بہت کچھ بڑی آسانی سے کھپ جاتا ہے جو سویلین دور میں مشکل ہو۔ فوجی قوانین، فوجی احکامات، فوجی عدالتیں، آہنی ہاتھ، آہنی اقدامات .... حکومت سول لوگوں کی ہو تو عموماً یہ جرائم اتنی بے باکی سے نہیں کر سکتے۔ نہ ہی ایسا آہنی ہاتھ ڈال سکتے ہیں نہ تشدد کی اس آخری حد پہ اتر سکتے ہیں اور نہ اس قدر دہشت پھیلا سکتے ہیں۔
یوں ہر اس ملک میں جہاں فوجی اقتدار تھا مسلمانوں پر ایک کے بعد ایک آفت آتی رہی۔ یہ سب کچھ محض ’اتفاق‘ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس خطے میں اذیت رسانی کے ایسے ایسے طریقے ایجاد کئے گئے جن کی تاریخ میں کہیں مثال نہیں ملتی سوائے سپین کی ’تفتیشی عدالتوں‘ کے جن کا مقصد بھی اسلام کا اندلس سے مکمل خاتمہ کر دینا تھا.... اسلامی تحریک کو پے درپے ضربیں لگتی رہیں۔ ہر چند سال بلکہ بعض حالات میں ہر چند ماہ گزرنے پر اس تحریک کا کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی ملک میں خون کیا جا رہا ہوتا تھا۔ اسلامی تحریکوں پر ڈھایا جانے والا ہر ظلم زیادہ سے زیادہ ’خبر‘ ہوتا تھا۔ جو بڑی بے چارگی سے دُنیا بھر میں گشت کرتی اور بہرے کانوں سے ٹکرا ٹکرا کر فضا میں منتشر ہو جاتی۔ اس پر صلیب و صہیون خوشی سے رقص کرتے اور اس بات پر اطمینان محسوس کرتے کہ ان کے ’لاڈلے‘ عالم اسلام میں بڑی خوش اسلوبی سے یہ مہم پوری کر رہے ہیں جو ’بڑوں‘ نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو سونپ رکھی ہے۔
اس تکلیف دہ صورتحال سے اسلامی تحریک میں بیک وقت دو روشوں نے جنم لیا۔ جو کہ دو مختلف بلکہ متضاد سمتوں میں آگے بڑھنے لگی تھیں۔ ایک وہ روش تھی جو عموماً نوجوانوں میں مقبول ہوئی اور اس کے مقبول ہونے کا سبب یہاں کا وحشت ناک ظلم وبربریت تھا جس سے نوجوان اور بھی طیش میں آئے اور طاقت کا جواب طاقت سے اور تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا فیصلہ کیا جس کے پیچھے یہ سوچ کارفرما تھی کہ ان کی یہ مسلح مزاحمت (4) آخرکار حکومتی بربریت کا خاتمہ کر دے گی اور حکومتی کارندوں یا پھر ان کے بڑوں کو .... اس بات پر مجبور کر دے گی کہ وہ اپنا یہ اسلوب تبدیل کر لیں۔ دوسری روش وہ تھی جو عموماً بزرگوں میں مقبول ہوئی جو کہ پے درپے ضربیں سہہ سہہ کر تھک ہار چکے تھے اور ممکنہ حد تک کسی عافیت کی راہ پر چلنا چاہتے تھے۔ ان حضرات نے فیصلہ کیا کہ یہ جمہوری کھیل میں حصہ لیں تاکہ ان کے بارے میں یہ نہ کہا جائے کہ یہ تشدد کے حامی ہیں .... یہ دونوں روشیں اپنی اپنی جگہ اس بات کا سبب بنیں کہ لا الہ الا اللہ کے مسئلے کے گرد جو دھندلاہٹ پہلے سے موجود تھی اب اس میں اور بھی اضافہ ہو جائے۔
اس بات سے قطع نظر کہ ان میں سے ہر فریق اپنے اپنے طریق کار کیلئے کیا کیا جواز پیش کرتا ہے، یہاں ہم ان نتائج سے بحث کریں گے جو کہ تحریکی عمل میں اس جلد پسندی سے پیدا ہوئے، جس کا آغاز بہت شروع سے ہو گیا تھا اور جس نے کہ پہلے سے موجود الجھنوں میں اور سے اور نئی الجھنوں کا اضافہ کیا اور تحریکی عمل کے درست سمت میں آگے بڑھنے کی راہ میں نئی سے نئی رکاوٹیں پیدا کیں۔ جلد بازی کے یہ اقدامات اگرچہ بظاہر مثبت اور تحریک کیلئے مفید اور ہدف سے قریب کر دینے والے دکھائی دیتے تھے مگر دراصل یہ تحریک کی اپنی ہی راہ کو دشوار گزار بنا رہے تھے۔
اگر ہم اس اعتبار کو درست سمجھتے ہیں کہ اسلام کی دعوت کو اس وقت جو صورتحال درپیش ہے وہ ___بعض پہلوؤں سے مختلف ہونے کے باوجود___ مجموعی طور پر اس صورتحال سے بہت قریب اور مشابہ ہے جو مسلم جماعت کو ابتدائے اسلام میں مکہ کے اندر درپیش تھی .... تو پھر تشدد کا سہارا لینا دعوت کی کوئی خدمت نہ ہو سکتا تھا۔ اس سے اسلام اور جاہلیت کے مابین جو اصل تنازعہ ہے، یعنی لا الہ الا اللہ کا تنازعہ، وہ بجائے اس کے کہ واضح ہوتا اور بھی چھپ جاتا۔ اس بات کو ہرگز فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس تحریک میں اول سے لے کر آخر تک کا سب سے اہم مسئلہ ہے ہی یہ کہ اس تنازعے کی اصل حقیقت ___یعنی لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر کھڑا ہونے والا تنازعہ___ ہر کس وناکس پر آخری حد تک واضح ہو جائے۔ چاہے وہ تحریک کے اپنے نوجوان ہوں، چاہے تحریک کے مخاطب عوام ہوں اور چاہے دیکھنے سننے والے اور یہ کہ دعوت کی راہ میں کوئی قابل ذکر اور حقیقی پیش رفت ہو جانا ممکن ہی نہیں جب تک یہ اصل قضیہ تصور و عقیدہ سے لے کر سلوک اور عمل تک ہر سطح پر واضح انداز میں سرفہرست نہیں لے آیا جاتا۔
اب جب ہم حکمرانوں کے ساتھ ایسے معرکے شروع کر لیتے ہیں جن میں طرفین کے مابین طاقت کا کوئی نسبت تناسب ہی نہیں۔ جبکہ جوازِ اقتدار کا مسئلہ ابھی لوگوں کے ذہن میں واضح تک نہ کیا جا سکا ہو، تو اس سے بیک وقت دو مسئلے پیدا ہوتے ہیں اور یہ دونوں ہی تحریک کیلئے شدید نقصان دہ ہیں:
پہلا مسئلہ: یہ کہ اسلامی تحریک اور برسراقتدار طبقوں کے مابین کسی ایسی مسلح چپقلش ہو جانے کے بعد، جلد یا بدیر، دیکھنے والوں کی نگاہ میں مسئلہ سارے کا سارا اس بات پر آرہتا ہے کہ کون مرا اور کس نے مارا، کون جیتا اور کون ہارا۔ اور یہ تو سب کو بھول ہی جاتا ہے یا بڑی حد تک پس منظر میں چلا جاتا ہے کہ اصل بات کیا تھی جس کی وجہ سے یہ لڑائی ہو رہی ہے۔ دیکھنے والوں کی نگاہ سے روپوش ہو جاتا ہے کہ طرفین میں اصل تنازعہ اس بات پر ہے کہ دنیا میں بندگی کس کی ہو اور زمین پر چلے کس کی؟ اس طول پکڑتی اور روزانہ کا معمول بنتی ہوئی لڑائی میں اب کون کس کو بتائے گا کہ فریقین کے مابین جھگڑا اس بات پر ہے کہ قانون چلانے کا حق کس کو ہے کیا اللہ وحدہ لاشریک کو یا انسانوں کو اور یہ کہ اقدار اور معیارات مقرر کرنے کا حق کسے ہے اور لوگوں کیلئے زندگی کا رخ متعین کرنے کا حق کس کو ہے کیا اللہ کو یا غیر اللہ کو؟ یہی وہ اصل مسئلے اور اصل تنازعے ہیں جو اسلام اور جاہلیت میں اور اہل حق اور اہل باطل کے مابین ازل سے چلے آرہے ہیں، اسی مقصد کیلئے دنیا میں رسول مبعوث ہوئے، اسی مقصد کیلئے آسمان سے وحی اترتی رہی اور اسی مسئلے کی بنیاد پر جنت اور دوزخ وجود میں آئیں۔
دوسرا مسئلہ: یہ کہ یہ کام کرکے ہم اسلام دشمن حکومتوں کوایک زبردست موقعہ آپ اپنے ہاتھ سے فراہم کر دیتے ہیں کہ وہ لوگوں کو یہ باور کرا لیں کہ وہ دراصل اسلام سے جنگ نہیں کر رہے بلکہ دہشت گردی سے نمٹنا چاہ رہے ہیں۔ لوگ کچھ نہ کچھ دیر بعد اس بات کو بہرحال سچ ماننے لگتے ہیں۔ اس میں دعوت سراسر نقصان میں رہتی ہے۔ کیونکہ اس سے لوگوں کو ان حکومتوں کا اصل گھناؤنا چہرہ اسلام دشمنی کرتا ہوا اپنی عریاں ترین حالت میں دیکھنے کا موقع نہیں ملتا بلکہ لوگوں کے سامنے وہ ’مذہبی جنونیوں‘ سے اپنا ’دفاع‘ کر رہا ہوتا ہے۔ نہ ہی اس کام سے لوگوں کے ذہن میں جوازِ اقتدار رکھنے کا مسئلہ واضح ہوتا ہے، جبکہ یہ مسئلہ بھی ان بنیادی اور اساسی مسائل میں ہے جن پر جاہلیت اور اسلام کی جنگ اپنے درست اور طبعی انجام کو پہنچنے کیلئے ہمیشہ سہارا کرتی ہے۔
پھر اسی طرح جب ہم پارلیمنٹ میں شمولیت اختیار کرتے ہیں تو تب بھی ہم لا الہ الا اللہ کو اصل بنیادی مسئلے کے طور پر پیش کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔
ہماری پہلی ناکامی یہ ہوتی ہے کہ شریعت کا قیام اور فرمانبرداری کا مسئلہ جو کہ دین میں ایک لازمی ترین فرض کا درجہ رکھتا ہے اب وہ ایک اختیاری کام بن جاتا ہے جس کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے ہونا ہوتا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ (الاحزاب: 36) | کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے |
یہ مسئلہ کہ اللہ تعالیٰ کی، زمین میں بلاشرکت غیرے بندگی ہو، جو کہ اصل میں لا الہ الا اللہ کا مسئلہ ہے، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی تنہا اور بلا شرکت غیرے عقیدے میں معبود ہو، وہی تنہا اور بلاشرکت غیرے مراسم بندگی میں معبود ہو۔ ایک اسی کا قانون ہو اور اسی کی شریعت۔ ایک اسی کو، اور بلا شرکت غیرے، یہ اختیار ہو کہ وہ انسانوں کیلئے زندگی کی اقدار اور معیار مقرر کرے اور ایک وہی بلا شرکت غیرے انسانوں کیلئے زندگی گزارنے کا طریق کار طے کرے.... اور پھر وہ جو طے کر دے وہ حرف آخر ہو اور ہر حال میں فرض ولازم۔ ایک مسلمان کو، جب تک کہ وہ اسلام کا اقراری ہے، اسے قبول کرنے یا قبول نہ کرنے کا ذرہ بھر اختیار نہ ہو، اور اس مالک الملک کا فرمایا ہوا اور نازل کیا ہوا ہر اس شخص پر فرض ٹھہرا دیا جائے جو زبان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتا ہے، چاہے وہ اندر سے منافق اور اسلام کو ناپسند کرنے والا کیوں نہ ہو۔ کیونکہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کر لینے کے بعد پھر اگر وہ اللہ کی طرف سے آئی ہوئی شریعت سے سرعام منہ موڑتا ہے، اور اس کے فیصلے پہ سرتسلیم خم نہیں کرتا، تو اس کے زبان کے اقرار کی بنا پر اس کا مواخذہ ہو گا، اور وہ اسلام سے مرتد قرار دیا جائے گا۔ یہاں اس معاملے میں اختیار کیسا!؟
وَيَقُولُونَ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالرَّسُولِ وَأَطَعْنَا ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِّنْهُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ وَمَا أُوْلَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ۔وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ۔ (النور: 47۔ 48) | یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ اور رسول پر اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ مگر اس کے بعد ان میں ایک گروہ (اطاعت سے) منہ موڑ جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں ہیں۔ جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے |
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا۔(النساء: 65) | نہیں، اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ سربسر تسلیم کر لیں |
اب جب ہم جمہوری کھیل میں شامل ہوتے ہیں تو اپنے اس فعل سے جو پہلا کام ہم کرتے ہیں وہ یہ کہ وہ چیز جس کا خدا کی طرف سے ہر مسلمان پابند محض ہے ہم اس کو عوام کے استصواب کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ خدا کی طرف سے جو بات حرف آخر ہے ہم اس کا فیصلہ عوام کے ووٹوں سے کرواتے ہیں کہ چاہیں تو اس کو قبول کر لیں اور چاہیں تو رد کر دیں۔ اس کے ساتھ ہم ___جمہوری قواعد کی رو سے___ بعض لوگوں کو یہ کہنے کا موقعہ دیتے ہیں اور ان کی یہ بات ’جمہوری قواعد‘ کی رو سے غلط نہیں ہوتی کہ ”تم تو اقلیت میں ہو، پارلیمنٹ کی اکثریت پر تم اپنی رائے اور اپنا منشور آخر کیوں ٹھونسنا چاہتے ہو؟“ اس کی وجہ یہی ہے کہ جمہوریت کی دنیا میں یہ مسئلہ ’ہماری رائے‘ اور ’ہمارے منشور‘ کی حیثیت رکھتا ہے نہ کہ ’حرف آخر‘ کی حیثیت جو کہ شریعت کا تقاضا ہے۔ ایک مسلمان کیلئے شریعت ہر حال میں قانون ہے مگر یہاں شریعت کو قانون کا درجہ پانے کیلئے اس بات کا انتظار کرنا پڑتا ہے کہ پارلیمنٹ میں اس کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد ایک خاص حد کو پہنچے تو پھر شریعت ’پاس‘ ہو۔
الجزائر میں جاہلیت نے اسلام کے ساتھ جو کیا، جب اسلام پسند پارلیمنٹ میں ووٹوں کی اس تعداد تک پہنچ گئے تھے جس کی اقتدار پانے کیلئے جاہلیت شرط لگایا کرتی تھی! یہ ظلم جو وہاں اسلام پسندوں کے ساتھ ہوا اس سے صرف نظر کرتے ہوئے بھی کہ یہ ایک ایسا سبق ہے جس سے جمہوری راستے پر چلنے والے اسلام پسندوں کو ہرگز ہرگز غافل نہیں رہنا چاہئے .... چنانچہ الجزائر میں جاہلیت نے اسلام کے ساتھ جو کیا اس سے قطع نظر کرتے ہوئے ضروری ہے کہ یہ مسئلہ بالکل ایک اور مختلف بنیاد پر متعین کیا جائے۔ شریعت کو حکمران بنانا خدائی فیصلہ ہے اور ہر مسلمان آپ سے آپ اس کا پابند۔ اس پر انسانوں کے ووٹوں کا کیا کام؟ اس پر لوگوں کو ووٹ دینے اور اس کو قبول یا رد کرنے اور شریعت کو پاس کرنے یا نہ کرنے کا اختیار کیسا؟ اللہ کی شریعت کو پاس نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہوئے وہ مسلمان کیونکر رہ سکتے ہیں!؟
دو باتوں کو خلط کر دینا درست نہیں۔ اسلام کا زمین کے کسی خطے میں قائم ہونا ___اللہ کی مشیئت کے بعد___ اہل ایمان کی ایک ایسی مضبوط جمعیت کے وہاں پائے جانے پر موقوف ہونا جو اللہ کے اس اٹل فیصلے اور قانون کو دنیائے واقع میں عملی حقیقت کا روپ دے دیں، ایک بالکل اور بات ہے.... اور خود اس قانون کا جو خدا کی طرف سے نازل ہو چکا ہے قانون کا درجہ پانے کیلئے محل نظر ہونا یا پارلیمنٹ کی ووٹوں کا محتاج ہونا یا ’انتخاب‘ اور ’استصواب‘ کا موضوع ہونا بالکل ایک اور بات۔
بطور مسلمان ہمارے لئے خدا کی نازل کردہ شریعت کسی کے ’پاس کرنے‘ کی محتاج نہیں ہو سکتی۔ کسی کے ووٹ سے اس کے قانون کا درجہ پانے یا نہ پانے کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ ہم اس کو انتخاب کا موضوع نہیں بنا سکتے۔ خواہ ہم اس کو معاشرے میں جاری وساری کر دینے کی طاقت رکھتے ہوں اور خواہ ہم، اپنے کمزور وناتواں ہونے کے باعث، اس بات کی طاقت نہ رکھتے ہوں جیسا کہ مسلمان مکہ میں کمزور ہونے کے باعث بہت دیر تک اس پوزیشن میں نہ تھے کہ شریعت کو معاشرے میں جاری کر دیں۔
یہ بہرحال ضروری ہے کہ کوئی تحریک اسلام کو اور اسلامی شریعت کو لوگوں کے سامنے اس حیثیت میں پیش کرے: یعنی یہ کہ شریعت خدا کے اٹل فیصلہ کا نام ہے۔ ہر انسان آپ سے آپ، اور بغیر کسی اضافی شرط کے، اس کا پابند ومحکوم ہے۔ اس سے منہ پھیرنے والا خدائی فیصلہ کی رو سے مرتد ہے اور یہ کہ سب لوگ، خواہ وہ حاکم ہوں یا محکوم، اس کو عملاً قائم کر دینے کے پابند ہیں۔ خواہ کوئی جماعت، کوئی کونسل ان سے ’نفاذ شریعت‘ کا مطالبہ کرنے کیلئے پائی جائے یا نہ۔ کیونکہ اللہ کی شریعت کا حکمران ہونا کسی انسان کے مطالبہ کرنے یا نہ کرنے پر موقوف نہیں، جبکہ یہ رب العالمین کا اپنا حکم ہے جو اس نے باقاعدہ فرمان کی صورت میں اپنے ہاں سے بندوں کیلئے نازل فرما رکھا ہے .... اور ایسا نہ کرنے کی اس نے کسی کیلئے کوئی گنجائش نہیں چھوڑ رکھی ہے۔
اب یہ جو مفہوم ہے یہ لوگوں کے ذہن سے بالکل ہی روپوش ہو جاتا ہے ___یا کم از کم بھی یہ کہ اس میں وہ اصل جان باقی نہیں رہتی___ جب ہم جمہوری کھیل کا حصہ بن جاتے ہیں جس کا پہلا اصول یہ ہے کہ کسی چیز کا قانون ٹھہرنا اس بات پر موقوف ہے کہ انتخابات میں یا پارلیمان میں اس کو اکثریت کے ووٹ ملیں۔ ہماری دوسری ناکامی یہ ہوتی ہے کہ جمہوری تماشے میں شامل ہو کر ہم جوازِ اقتدار کے مسئلے کو بھی بے جان کر دیتے ہیں۔ جمہوری اصولوں کی رو سے اقتدار کا جواز وہی رکھتا ہے جو اکثریت کے ووٹ لیتا ہے۔ اسلام کا سرے سے یہ معیار نہیں۔ خدائی معیار یہ ہے ___جس طرح کہ ہم نے پچھلی فصل میں بیان کیا ___ کہ اقتدار کا جواز وہ رکھتا ہے جو اللہ کی شریعت کو حکمران بناتا ہے۔ رہا وہ جو اللہ کی شریعت سے منہ موڑتا ہے اور شریعت کو حکمران نہیں بناتا، اللہ کے دین کی رو سے وہ تو اقتدار کا ذرہ بھر جواز نہیں رکھتا چاہے وہ اکثریت کے ووٹ تو کیا سو فیصد کے سو فیصد ووٹ کیوں نہ لے چکا ہو۔ اس کا اقتدار سوفیصد ناجائز ہوگا۔ یہی وہ اصل نقطہءاختلاف ہے جو اسلام اور جمہوریت کے بیچ پایا جاتا ہے۔ اس بات کا دو ٹوک ہونا ناگزیر ہے۔
اب جب ہم جمہوریت کے کھیل میں حصہ لیتے ہیں تو اس کھیل کے اصولوں کی رو سے ہمیں اس شخص یا اس پارٹی کیلئے اقتدار کا جواز تسلیم کرنا پڑتا ہے جو اکثریت کے ووٹ لے جائے، چاہے وہ اللہ کی شریعت کو حکمران نہ بھی بناتا ہو۔ کیونکہ اس کھیل کے یہی اصول ہیں اور اس کھیل میں حصہ لینے کیلئے یکطرفہ طور پر ہم یہ اصول تبدیل نہیں کر سکتے۔ اب اس طریقے سے ہم ایک ایسی غلطی میں جا پڑتے ہیں جو کہ ہمارے عقیدے کی خلاف ورزی ہے۔ ایسا کرکے ہم ایک ایسی چیز کا جواز تسلیم کر لیتے ہیں جسے ہمارے رب نے کفر کہا ہے اور وہ اس طرح کہ ہم غیر ما انزل اللہ کی حکمرانی کو، جو کہ کفر ہے، جمہوری اصولوں کے احترام میں تسلیم کر لیتے ہیں۔
اب ہم جتنا بھی اپنے نجی اور عوامی بیانات میں یہ کہتے رہیں کہ غیر ما انزل اللہ کی شریعت کو ہم تسلیم نہیں کرتے مگر جمہوری کھیل کے اصولوں کی رو سے ہم اپنے آپ کو یہ (غیر شریعت کی حکمرانی) تسلیم کرنے کا اس وقت پابند کر چکے ہوتے ہیں جب ہم اس کھیل میں شمولیت پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں بلکہ جب ہم، متعدد مواقع پر، اس کھیل میں حصہ لینے کی باقاعدہ اجازت طلب کرتے اور بعض اوقات جب ہمیں اس کی اجازت نہیں دی جاتی تو ہم اس پر احتجاج کرتے ہیں۔
اس کھیل کے دوران ہمارے مخالفین نے، کئی مواقع پر، ہمیں شرمندہ اور لاجواب کرنے میں کوئی کسر بھی نہ چھوڑی بلکہ سیاست اور صحافت میں ہمیں بار بار وہ اس سوال پر لے آتے رہے کہ ”انتخابات میں اگر آپ ہار جاتے ہیں اور دوسری غیر اسلامی جماعتیں انتخابات جیت جاتی ہیں تو ان کی حکومت کے بارے میں آپ کا کیا موقف ہوگا؟“ افسوس اور صد افسوس کہ ہمیں کہنا پڑا: ”ہم قوم کے فیصلے کا احترام کریں گے“ ہم سے سوال ہوا: ”آپ کے اقتدار میں آنے کے بعد اگر قوم آپ کو مسترد کر دے اور اگلی بار ”دوسروں“ کو منتخب کر لے تو؟“ افسوس اور صد افسوس کہ ہمیں کہنا پڑا ”ہم قوم کے فیصلے کے پابند رہیں گے“ ارے کیا تب بھی جب قوم کا فیصلہ خدا کے فیصلے کے خلاف ہو!؟؟
لا الہ الا اللہ کے مسئلے کو اور جوازِ اقتدار کے مسئلے کو بے جان کر دینے میں آخر اس سے بڑھ کر کیا بات ہو سکتی؟
یہ سب کچھ جان بوجھ کر جب ہم نے اس کھیل میں حصہ لیا تو اس کھیل کے اصولوں کو تسلیم کرنے کے ہم آپ سے آپ پابند ہوئے۔ یہ ایک سیدھی اور منطقی بات ہے۔ ہاں اگر کھیل کے ان باطل اصولوں کو مسترد کرنا ہے تو اس کا طریقہ یہی ہے کہ سرے سے ہم یہ کھیل کھیلتے ہوئے ہی نظر نہ آئیں۔ تب ہمارا موقف خود اپنی نظر میں بھی اور لوگوں کی نظر میں بھی منطقی ومعقول ہو گا جب ہم لوگوں سے کہیں گے: ”ہم اس کھیل میں اس لئے حصہ نہیں لیتے کہ اس کے اصول اللہ کے فیصلے اور اس کے حکم سے متعارض ہیں“۔
قدرتی بات ہے جب ہم یہ کہیں گے تو ہمارے مخالف ہمارے بارے میں یہ عام کریں گے اور ہمیں یہ کہہ کر بدنام کریں گے کہ: تم جمہور پسند نہیں ہو۔ تم عوام اور جمہوریت کے دشمن ہو۔ ہم ان سے صاف کہیں گے تم جو چاہو کہتے رہو ہم ایک ایسے نظام کو تسلیم نہیں کر سکتے جو کسی مخلوق کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اللہ کی شریعت سے متصادم قانون چلائے۔ کیونکہ اگر ہم یہ تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر ہم مسلمان نہیں رہنے کے۔ اور جو چیز ہم پر خدا نے آسمان سے اتاری ہے وہ اسلام اور خدا کی فرمانبرداری ہے نہ کہ تمہاری یہ جمہویت جس کا تم ہمیں طعنہ دیتے ہو۔ ہمیں جس بات کا خدا نے ہر حال میں پابند بنایا ہے وہ اسلام ہے نہ کہ جمہوریت۔ قیامت کے روز جس بات پر وہ ہمارا حساب کرے گا وہ ’اسلام‘ ہے نہ کہ جمہوریت۔ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّهِ الإِسْلاَمُ (آل عمران: 19) ”اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے“۔ وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ (آل عمران: 85) ”اس اسلام (فرماں برداری) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام ونامراد رہے گا“۔
ٹھیک ہے اسلام میں شوری ہے۔ مگر اس شوری کا مطلب ڈیمو کریسی نہیں ہے۔ شوری اس بہترین طریقے کا نام ہے جو خدا کی طرف سے نازل ہونے والی ایک نص کو نافذ کرنے کیلئے اور جہاں خدا کی طرف سے واضح نص موجود نہ ہو وہاں مسلمانوں کے باصلاحیت طبقوں سے اجتہاد (5) کروانے کیلئے اختیار کیا جاتا ہے۔ رہی ڈیمو کریسی تو وہ ابتداءً حاکمیت انسانیت کے دائرہ اختیار میں دیتی ہے اور اپنی بات چلانے اور مطلق وغیر مشروط طور پر منوانے کا حق ایک اللہ وحدہ لاشریک کو نہیں دیتی۔ کتنا بڑا بعد المشرقین ہے ان کی اس جمہوریت اور اسلام کی اس شوری میں۔ أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّهِ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدۃ: 50) ”کیا پھر یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک تو اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے“۔
اب اگر ہمارے جمہوریت کے کھیل میں حصہ لینے کا، لا الہ الا اللہ کے مسئلے اور جوازِ اقتدار کے مسئلے کو بے جان کر کے رکھ دینے کے سوا، اور کوئی بھی نقصان نہ ہو تو ایک یہی نقصان اس قدر کافی ہے کہ اس کے پیش نظر ہم اس کھیل سے دور رہیں۔ چاہے اس سے حاصل ہونے والے وہ جزوی فوائد کتنے بھی ہوں جو ہم پارلیمنٹ میں شمولیت کرکے حاصل کرتے ہیں اور جن سے، پارلیمنٹ میں شامل نہ ہونے کی صورت میں، ہمیں ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شراب اور جوا بھی تو حرام کیا ہے، حالانکہ ان دونوں میں خود قرآن کی اپنی صراحت کے مطابق لوگوں کیلئے کئی ایک فائدے ہو سکتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود اس نے ان دونوں کو، جس طرح کہ آیت نے صراحت کی ہے، حرام کر دیا ہے کیونکہ ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے بڑا ہے۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء: 65) | پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے۔ اگرچہ ان میں لوگوں کیلئے کچھ منافع بھی ہیں۔ مگر ان کا گناہ ان کے فائدہ سے بہت زیادہ ہے |
یہ ایک ایسا فقہی قاعدہ ہے جس سے ہم اس معاملے میں ہدایت پا سکتے ہیں جس میں شریعت کی واضح نص نہیں۔ پارلیمنٹ اور پارلمینٹ میں شمولیت کے مسئلے پر بھی شریعت کی نص موجود نہیں لیکن اس مسئلے پر ہوش مندی کے ساتھ غور کر لیا جائے تو یہ نتیجہ نکالنا دشوار نہیں کہ ایسا کرکے ہم لا الہ الا اللہ کے اصل مسئلے کو اور لا الہ الا اللہ کے بنیادی تقاضوں کو بے جان کرکے رکھ دیتے ہیں۔ ایسا کرکے ہم شریعت کے اس مسئلے کو بھی بے جان کر دیتے ہیں کہ اقتدار کا جواز کون رکھتا ہے۔ یہ بات ہماری اصل دعوت پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ بات دعوت کے ان دو بنیادی اور اساسی قضیوں کی بابت لوگوں کا ذہن منتشر کر دیتی ہے:
پہلا قضیہ یہ کہ: شریعت کا حکمران ہونا، اور خود بخود قانون کا درجہ رکھنا، خدائی پابندی ہے نہ کہ ایسا مسئلہ جس پر لوگ ووٹ دیں یا عوامی نمائندے بحث کریں۔ شریعت کو قانون بنا دینے والی چیز یہ بات نہیں کہ آیا لوگ اس کو منظور کرتے ہیں یا نہیں یا کوئی مجلسِ قانون ساز اس کے بارے میں کوئی شق پاس کرتی ہے یا نہیں۔ بلکہ شریعت کو آپ سے آپ قانون بنا دینے والی چیز ہمارا مسلمان ہونا ہے بلکہ ہمارا زبان سے یہ دعویٰ کر دینا ہی کہ ہم مسلمان ہیں آپ سے آپ شریعت کو قانون بنا دیتا ہے۔
دوسرا قضیہ، جو ہمارے پارلیمنٹ میں جا بیٹھنے سے بے جان ہو جاتا ہے یہ کہ: اللہ کے دین میں ’جائز اقتدار‘ یا ’ناجائز اقتدار‘ کا مسئلہ اس بات سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا کہ انتخابات میں کس نے کتنے ووٹ لئے ہیں۔ لوگوں کی تائید یا عدم تائید کسی چیز سے تعلق رکھ سکتی ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ حکمران ’شخصیت‘ ہو سکتی ہے جسے ”اللہ کی شریعت کو نافذ کرنے کیلئے“ اقتدار پر فائز ہونا ہے نہ کہ لوگوں کی تائید یا عدم تائید کا تعلق اس مسئلہ سے ہے کہ یہ منتخب ہونے والا شخص یا گروہ کس انداز سے حکومت کرے۔ نظام حکومت کو طے کرنا کسی کا اختیار نہیں، خواہ وہ حاکم ہو یا محکوم۔ اللہ کے فیصلے کے بعد کسی کا فیصلہ نہیں۔ اور اللہ نے اپنا یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ ایک اسی کی شریعت انسانوں کیلئے قانون ہے۔ بلکہ اس نے تو یہ بھی فیصلہ کر دیا ہے اور وہ بھی بڑی صراحت کے ساتھ کہ جو اس کی اس شریعت سے منہ موڑے وہ سرے سے مومن نہیں۔
فَلاَ وَرَبِّكَ لاَ يُؤْمِنُونَ حَتَّىَ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لاَ يَجِدُواْ فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواْ تَسْلِيمًا (النساء: 65) | نہیں، اے محمد، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کریں |
وَمَا أُوْلَئِكَ بِالْمُؤْمِنِينَ (النور: 47) | ”اور ایسے لوگ ہرگز مومن نہیں“ |
٭٭٭٭٭٭٭
یہ ہیں کچھ بنیادی مسائل جو تحریکی اور دعوتی عمل میں بہت واضح کر دیئے جانے چاہئیں۔ جب تک عوام یہ مسائل تحریک سے سن سن کر پوری گہرائی کے ساتھ ان کو سمجھ نہیں لیتے اور ان پر ان کا ایمان اور یقین راسخ نہیں ہو جاتا اس وقت تک تحریک کی عوامی بنیاد پختہ نہیں ہوتی۔ تحریک کو یہ عوامی بنیاد بے انتہا پختہ کرنا ہوتی ہے۔ اسلام کا اقتدار اسی عوامی سرزمین پر قائم ہونا ہوتا ہے۔ عالمی جاہلیت ہر وقت اسلامی تحریک کی تاک میں لگی رہے گی اور دنیائے واقع میں اس دین کے پیر جم جانے کا ہرگز کوئی موقعہ نہیں دے گی۔ لہٰذا اسلام کی عمارت اٹھانے کیلئے عوام کی یہ زمین بہت ہی پختہ کی جانے کی ضرورت رہے گی۔ اسلام کے بنیادی مفہومات اور تصورات پر معاشرے کا اپنا ہی ایمان اس قدر راسخ اور پختہ ہونا چاہئے جو آج کے کسی بھی عالمی دباؤ کے سامنے چٹان بن کر کھڑا رہے بلکہ خود آگے بڑھ کر اس کا مقابلہ کرے۔ ہر وہ دھندلاہٹ جو ہم اپنے کسی عمل سے لوگوں کے ذہن میں اسلام کے ان بنیادی اور اساسی مسائل کے گرد پیدا کر لیں گے وہی دعوت کے راستے کی اصل رکاوٹ ہو گی اگرچہ ہم یہ گمان کریں کہ یہ کام ہمیں اپنے ہدف سے قریب کر دے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭
یہ تھا ایک بہت ہی مختصر اور سرسری ذکر ان اسباب کا جو ہماری آج کی اسلامی تحریکوں میں عجلت پسندی آجانے کا باعث بنے ہیں، اور ان نتائج کا جو پھر اس عجلت پسندی کے نتائج کی صورت میں سامنے آئے ہیں اور جو کہ ہم پر یہ حق رکھتے ہیں کہ ہم ان کا بغور جائزہ لیں اور ان کی روشنی میں اپنے نقطہ ہائے نظر درست کریں اور آئندہ کیلئے منہج درست کرنے کی کوشش۔
اب آئندہ فصول میں ہم تربیت پر جو کہ دراصل مطلوب ہے گفتگو کریں گے۔ چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو ہو جو کہ اس بنیادی جمعیت کی ضرورت ہے جسے بالآخر معاشرے پر اثر انداز ہونا اور معاشرے کو ساتھ لے کر چلنا ہے اور چاہے یہ تربیت کا وہ پہلو ہو جو دعوت کے مخاطب عوام کو دی جانا ضروری ہے۔ تاکہ عوامی سرزمین اس حد تک تیار ہوجائے کہ اس پر اسلام کی عمارت کی بنا رکھی جائے اور اسلام کی تحریک آخرکار اپنے وسیع تر مقاصد حاصل کرے۔ اپنی اس گفتگو میں ہم دعوت کے نبوی منہج سے مدد لیں گے۔ دعوت اور تحریک کے نبوی منہج میں نقطہءابتدا ہمیں یہی نظر آتا ہے کہ ایک ایسی ٹھوس اور مضبوط جمعیت کی تیاری عمل میں لائی جائے، جو معاشرے کی ہر میدان میں قیادت کر سکے اور اس پوری عمارت کا وزن اپنے کاندھوں پر اُٹھا لے۔
٭٭٭٭٭٭٭