فوائد
عجیب یہ ہے ....
یہ تو کوئی عجیب نہیں کہ ایک زرخرید غلام مالک کے در پہ کھڑا رہے۔ اس کی خدمت میں صبح شام لگا رہے۔ اسے خوش کرنے کی ہر وقت فکر کرے۔ اس کے کاموں میں دوڑ دھوپ اور اس کی ہر ہر فرمائش کو پورا کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو.... ہوا جو زرخرید غلام!
عجیب بات یہ ہے کہ ایک مالک جسے غلام سے ذرہ بھر کی کوئی حاجت نہ ہو، جو غلام سے اور اس کے کام سے ہر طرح بے نیاز ہو.... ایک ایسا مالک، طرح طرح کے اکرام سے اور قسما قسم انعام کرکے، اپنے غلام کے قریب ہو.... اس کی ہر ضرورت پوری کرے اور ہر ہر موقعہ پر اسے اپنی قربت کا احساس دلائے....
یہ اللہ وحدہ لاشریک کی ذات ہے!!!
آج بہتر ہے
تمہیں اپنے آپ کو چھڑانا تو ہے۔ بہتر یہ ہے اپنی قیمت آج دے لو۔ ابھی بازار کھلا ہے۔ قیمت تمہارے پاس ہے۔ مال ابھی سستا ہے، کوئی پل کی بات ہے پھر نہ بازار رہے گا۔ نہ کوئی پیسہ ہاتھ میں ہوگا۔ قیمتیں آسمان سے باتیں کریں، سودا نہیں ہوگا۔ سب کچھ دو گے، مگر دینے کو پاس کچھ ہو تو.... اور لینے والا ماننے پر آئے تو۔
یہ ”سودا ہاتھ سے جاتا رہنے کا دن“ [ یوم التغابن (سورہ التغابن ٩)]ہوگا.... ”جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبائے گا“۔[ویوم یعض الظالم علی یدیہ (الفرقان)]
بدترین سزا
کوئی بری سے بری سزا بھی اتنی وحشتناک نہ ہوگی جتنا کہ آدمی کا دل سخت ہونا اور اس کا خدا سے دور ہونا۔
خدا نے جہنم کی آگ یونہی پیدا نہیں کی۔ جہنم کی آگ ایسے دلوں کو پگھلانے کیلئے ہی تو ہے جو خدا کے خوف سے اسی دنیا میں پسیج جانے پر تیار نہیں!
جتنا دل سخت ہوگا اتنا خدا سے دور ہوگا۔ پھر جب دل کی وادی سنگلاخ ہوتی ہے تو آنکھ میں قحط اتر آتا ہے۔ ایسی آنکھ سے پھر ایک آنسو برآمد نہیں ہوتا۔
چار چیزیں اچھے آدمی کا دل بھی سخت کر دیتی ہیں:
حد سے زیادہ کھانا، حد سے زیادہ سونا، حد سے زیادہ بولنا اور حد سے زیادہ لوگوں کے ساتھ گھلنا ملنا.... یوں کہ خدا کے ساتھ خلوت نہ رہے۔
جسم بیمار ہوتا ہے تو کھانے پینے کا مزہ ختم ہوجاتا ہے۔ دل بھی جب مبتلائے شہوت پڑ کر بیمار ہوتا ہے تو وعظ ونصیت اور سمجھانے بجھانے کا اثر ختم ہو جاتا ہے۔
(کتاب الفوائد از امام ابن القیم)
کارساز نے دراصل رخ پھیر لیا
دشمن کا تم پر وار ہوا تو بخدا اس وقت جب کارساز نے تم سے منہ موڑ لیا۔ یہ نہ سمجھو شیطان کا وار چل گیا۔ وہ کب وار نہیں کرتا۔ اصل بات یہ ہے کہ بچانے والے نے رخ پھیر لیا۔ ہر شخص اسی کا رہین التفات ہے۔ (کتاب الفوائد۔ از امام ابن القیم)
خطیب بغدادی لکھتے ہیں
امام ابوحنیفہ خلیفہ منصور عباسی کی مجلس میں داخل ہوئے۔ دربار میں ابوالعباس طوسی بھی تھا، جو کہ امام صاحب کے بارے میں بہت بری رائے رکھتا تھا۔ امام ابوحنیفہ اس سے باخبر تھے۔ ابوالعباس طوسی نے موقعہ تکا کر سوچا آج میں ابوحنیفہ کی جان لے سکتا ہوں۔ تب اس نے خلیفہ کی موجودگی میں امام صاحب سے فتوی طلب کیا:
”فرض کیجئے امیر المومنین نے کسی شخص کو کسی آدمی کی گردن مارنے کیلئے طلب کیا اور وہ شخص اس آدمی کو جانتا تک نہیں۔ کیا اس کیلئے جائز ہے کہ وہ حکم پر عمل کرتے ہوئے اس آدمی کی گردن مار آئے؟“
امام ابوحنیفہ نے جوابی سوال کیا:
”ابوالعباس۔ امیر المومنین نے اسے ناحق حکم دیا یا حق؟“
”ظاہر ہے حق کے ساتھ“ ابوالعباس نے معاملہ ہاتھ سے جاتے دیکھ کر کہا۔
”تو پھر حق پر عملدرآمد ضروری ہے اور اس میں کوئی پس و پیش جائز نہیں“! امام صاحب فیصلہ کن انداز میں فرمانے لگے۔ اس کے بعد امام ابوحنیفہ اپنے قریب بیٹھے ایک شخص سے کہنے لگے: اس نے مجھے باندھنا چاہا مگر میں نے اسے باندھ لیا! (تاریخ بغداد)
اس سے عقل چلی جاتی ہے
ایاس مزنی کے پاس فارس کا ایک فلسفی آیا اور ان سے بحث کرنا چاہی:
”ابو وائلہ۔ شراب کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟“
”حرام ہے“ ایاس مزنی نے جواب دیا۔
”عقل سے ثابت کرو“ فارسی شخص نے کہا۔ ”کہ شراب حرام ہے۔ آخر یہ وہی پھل تو ہے جسے تم کھاتے ہو۔ وہی پانی ہے جسے تم پیتے ہو۔ وہی آگ ہے جس پر تم ہر چیز پکاتے ہو۔ اس میں کونسی بات ہوئی کہ یہ حرام ہو گئی؟“۔
ایاس: ”تم اپنی بات مکمل کر چکے، یا کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہو؟“
فلسفی: ”کہہ چکا ہوں“۔
ایاس: ”اچھا یہ بتائوزمین پر سے خاک کی ایک مشت اٹھا کر میں تم پر پھینک دوں تو کیا تمہیں چوٹ آئے گی؟“۔
فلسفی: ”نہیں“۔
ایاس: ”اور اگر پانی کا ایک چلو تم پر پھینکوں تو تمہیں کوئی چوٹ آئے گی؟“
فلسفی: ”نہیں“۔
ایاس: ”اور اگر بھوسے کی ایک مٹھی بھر کر تم پر پھینک دوں تو کیا تمہیں بہت چوٹ آئے گی؟“۔
فلسفی: ”نہیں پھر بھی نہیں آئے گی“۔
ایاس: ”اور یہ دھوپ اور ہوا بھی تمہیں کوئی چوٹ نہیں لگاتی“۔
فلسفی: ”بالکل نہیں“۔
ایاس: ”اچھا تو اگر میں اسی ایک مٹھی بھر خاک کو چلو بھر پانی اور مٹھی بھر بھوسے میں گوندھ لوں اور اسی ہوا اور دھوپ میں سوکھنے کیلئے رکھ دوں۔ پھر اسی خشک ہوئے ڈھیلے کو تمہارے سر میں ماروں تو کیا تمہیں چوٹ آئے گی؟“
فلسفی: ”کیوں نہیں۔ اس سے تو جان بھی جا سکتی ہے“۔
ایاس: ”اور شراب سے عقل چلی جاتی ہے۔ اسکے بنیادی اجزاءحلال ہیں تو بھی یہ حرام ہے!“
(الاذکیاءلابن جوزی)
....................................