انتفاضہ رجب کیا
’روز غضب‘
کا آغاز تو نہیں!؟
اسرائیل کے خاتمہ سے متعلق تورات کی پیشینگوئیوں
کا ایک تجزیاتی مطالعہ (دوسری قسط)
تالیف: ڈاکٹر سفر الحوالی
اردو استفادہ:حامد كمال الدين
پاکستان میں بیشتر قارئین کیلئے سفر الحوالی کا نام نیا ہے اگرچہ وہ بطور مصنف، خطیب، داعی اور مفکر ایشیاءسے یورپ تک جانے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں انہیں اب تک متعارف نہیں کرایا گیا۔ ان جیسے دیگر مفکرین اور قائدین بھی عرصہ دراز سے اصلاح امت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے میں نہ صرف ہمارے قائدین کی فہرست میں اضافہ ہو گا بلکہ جغرافیائی اور گروہی افکار سے نکل کر عالمی اور امت کی سطح پر آنے کا موقع بھی ملے گا، برسوں سے چھائی مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ برابر مسلمانوں کی اصلاح کے لئے رہنما پیدا کر رہا ہے جو آخرکار دنیا بھر کے مسلمانوں کو اعلائے کلمہ اللہ کیلئے قیادت فراہم کر سکیں گے۔ (انشاءاللہ)
زیر نظر کتاب ’روز غضب‘ جس کی دوسری قسط آپ کے سامنے ہے ڈاکٹر سفر الحوالی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی علماءکمیٹی کے نام ان کا خط بعنوان ”وعد کسنجر“ ہفت روزہ ضرب مومن کراچی میں ’مسجد اقصیٰ کی پکار‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
باب چہارم
کیا کوئی تبدیلی آئی ہے؟
مسجد اقصیٰ کے بھرے صحن میں مسلمانوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کے ساتھ ہی صہیونی فوجیوں نے اپنے ’امن منصوبے‘ کو آپ ہی موت کی نیند سلا دیا۔ یہ ’امن منصوبے‘ سے دراصل انکا ایک اظہار شفقت تھا! یہ ایک ایسے حمل کا اسقاط تھا جس کے وضع کروانے کی کئی برس کوشش کی گئی مگر اسقاط ہی بالآخر اس کا ایک طبعی اور منطقی حل قرار پایا! جس وقت اسرائیلی ہیلی کاپٹر عرفات کے سیکرٹریٹ کے بعض دفاتر پر بمباری کر رہے تھے تو دراصل یہ اوسلو سمجھوتوں کو خاک میں ملا دینے کی ہی ایک باقاعدہ کارروائی تھی!!
یہودیوں نے اپنے ہی کئے دھرے پر خود ہی پانی پھیر کر رکھ دیا! اپنی ہی محنت سے اگائی ہوئی فیصل نذر آتش کر ڈالی! آخر ہوا کیا!؟ کونسی تبدیلی آئی ہے؟ یہ جاننے کیلئے یہ دیکھا جانا ضروری ہے کہ آخر وہ کونسے اسباب تھے جو اس امر کیلئے وجہ جواز بنے کے میڈ ریڈ اور اوسلو میں امن کانفرنسوں کا یہ سارا ڈول ڈالا جائے اور امریکہ کو بھی صہیونی امن منصوبوں کو کامیاب کروانے کیلئے یہ سارے پاپڑ بیلنے پڑیں اور مشرق وسطی میں ان امن منصوبوں کیلئے سب کو راضی کرنے کیلئے مفت کا یہ دردسر لینا پڑے؟
میڈ ریڈ کی منحوس امن کانفرنس کے بعد ہم نے اُس وقت (آج سے دس برس پہلے) جو کچھ لکھا تھا اس کا کچھ حصہ پہلے یہاں لفظ بلفظ نقل کر دیا جانا ضروری معلوم ہوتا ہے:
”وہ چیز جسے ’امن پروگرام‘ کہا جاتا ہے کچھ اس وجہ سے معرض وجود میں نہیں آئی کہ بین الاقوامی حالات تبدیل ہوئے ہیں، یا یہ کہ سرد جنگ کے دور کا خاتمہ ہو گیا ہے یا یہ مشرق اور مغرب کے بلاکوں میں نئی عالمی قربت اور صلح جوئی کا تقاضا ہے ___ جیسا کہ مغربی ذرائع اباغ اور ان کی اندھی تقلید کرنے والا ہمارا مقامی عرب میڈیا یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے ___ یہ سب تبدیلیاں تو دراصل ایک اساسی تبدیلی کی محض ظاہری علامات (سيمپٹمز) ہیں.... اور یہ ہے وہ صہیونی منصوبہ جس کا مقصد اب ایک اور انداز سے پوری دنیا اور خصوصاً اسلامی خطے پر اپنی برتری کو مستحکم کرنا ہے....“
”سادہ سی بات ہے کہ پہلے سے چلنے والے اس منصوبے میں ایک ترمیم کرنا پڑ گئی ہے۔ اور وہ یہ کہ ’وسیع تر اسرائیلی ریاست‘ کے قیام کا خیال فی الحال چھوڑ دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں.... اس خیال کو ’جانے دینے‘ کے کچھ بہت ہی بنیادی اوراندرونی قسم کے اسباب ہیں۔ جن میں اہم ترین سبب یہ ہے کہ اپنے قیام کو چالیس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود، یہ یہودی ریاست اپنے آپ کو ہنوز ایک ایسی حالت میں گھرا ہوا پاتی ہے، جسے ایک ’مجموعہءاضداد‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ یہ اسرائیلی ریاست ابھی تک اس خطے میں ایک غیر طبعی اور اوپری قسم کی مخلوق کا درجہ رکھتی ہے اور اس کے چاروں طرف تاحد نظر دشمنی اور عداوت کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جس کی موجوں میں روز بروز تیزی آرہی ہے!“
”اور جہاں تک داخلی امن کا معاملہ ہے تو اس میں بھی یہ سراسر ناکام ثابت ہوئی۔ داخلی امن کی سطح پر ابھی یہ اس حد تک بھی کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکی کہ فلسطین کی جو اراضی یہ کئی عشرے پہلے نگل چکی، اور نہیں تو کم از کم وہیں پر امن قائم کرکے سکھ کا سانس لے سکے۔ پھر مزید خطوں کو نگلنے کا سوچ تو کیسے؟! اور تو اور ایک لبنان ہی، جو اس کا سب سے کمزور ہمسایہ ہے اور اس سے دشمنی رکھنے میں بھی اس کے باقی سب ہمسایوں کی نسبت کچھ کم ہی ہوگا.... ایک یہ لبنان ہی اس کے لئے لوہے کا گرم چنا ثابت ہوا ہے اور اس نے ابھی تک اس کے ناک میں دم کئے رکھا ہے۔ اس لبنان کے کچھ علاقوں پر جارحیت کا شوق ہی اسرائیل کو بہت مہنگا پڑا اور یہ معاملہ عالمی دھونس اور دھاندلی کے باوجود ’دبنے‘ کی بجائے کچھ اور ہی بڑھا بلکہ خراب سے خراب تر ہوا اور پھر جنوبی لبنان سے آخرکار اسرائیلی فوجی دستوں کو دم دبا کر بھاگ لینا ہی پڑا (اور اب انتفاضہ رجب میں بھی لبنان کی سمت سے ہی اس کیلئے زیادہ درد سر پیدا ہو رہا ہے)....“
”خود یہودی آباد کاری کا مسئلہ ہی اس قدر گہرا اور پیچیدہ اور دور رس مضمرات کا حامل ثابت ہوا ہے کہ اس کو حل کر لینا اس صہیونی ریاست کے بس سے باہر ہو رہا ہے۔ یہاں آکر بسنے کیلئے جتنے بھی سبز باغ دکھائے گئے تمام کوششوں کے باوجود بہت سے یہودی ان وعدوں کے جال میں نہیں آئے۔ ان کو جتنے بھی لالچ دیئے گئے وہ اس بات کیلئے پھر بھی تیار نہیں کہ وہ ایسی جگہ ہجرت کر آئیں جو سماجی المیوں اور معاشرتی ناچاقیوں سے بھری پڑی ہے۔ بدامنی کا خوف الگ ہے۔ آپس کی طبقاتیت کسی لعنت سے کم نہیں، سیاسی کھینچا تانی، پارٹی بازی اور باہمی تعصب زوروں پر ہے....“
”یوں بھی جہاں طرح طرح کے ناگ اکٹھے ہونگے وہاں انہیں ایک دوسرے کے ڈنگ تو کھانے ہی پڑیں گے.... اور وہ پتھر الگ سہنے پڑیں گے جو ان ناگوں کا سر کچلنے کیلئے مسلم نونہالوں سے روز اب ان کو پڑنے لگے ہیں۔ پھر بات پتھروں تک رہے تب بھی ہے مگر نوبت گولیوں تک جا پہنچے تو پھر....؟!“
”یہودی ریاست کو تو اسی بات کے لالے پڑ گئے ہیں کہ یہودیوں کی اسرائیل سے واپس دوسرے ملکوں کو ہونے والی نقل مکانی کا گراف اب روز بروز اوپر جانے لگا ہے۔ حکومت یہاں یہودیوں کی نسل بڑھانے کیلئے یہودیوں کو بے پناہ ترغیبات اور سہولیات فراہم کرتی ہے مگر یہودی باشندے ان اسکیموں کو کامیاب کروانے میں کوئی خاص متعاون نہیں دوسری جانب سروے ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کی آبادی حیران کن تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ان کا روزانہ ایک بچہ شہید ہوتا ہے تو اس کی جگہ سینکڑوں پیدا ہوتے ہیں!“
”اسرائیل کا تحریک مزاحمت کو کچلنے کا تجربہ اس قدر ناکام ہوا ہے کہ اس پر بحث کرنے تک کی گنجائش نہیں۔ فلسطینیوں کو اسرائیل اب تک کوئی گزند پہنچا سکا ہے تو وہ بھی اپنے زیر قبضہ علاقوں میں نہیں بلکہ فلسطینیوں کو نقصان پہنچانے کا یہ کام اسرائیل کے ان نام نہاد مسلمان ایجنٹوں کے ہاتھوں ہی ہوا جو لبنان، اردن، شام اور کویت وغیرہ میں حکومتی سطح پر فلسطینیوں کی بیخ کنی کے منصوبوں پر عمل پیرا ہیں....“
”ایسے میں پھر کیوں نہ اسرائیل خطے میں ان سب ملت فروش حکمرانوں سے ہاتھ ملا لے اور اس طرح ایک دوسرے منصوبے کی راہ پر گامزن ہو جس کی رو سے اسرائیل ’توراتی سرزمین‘ کی وسیع تر حدود سے دستبردار ہو کر ’توراتی سرزمین‘ کی ایک تنگ سی پٹی پر ہی قناعت کر لے!؟ اس میں تعجب کی بھی کیا بات، یہود کے ہاں ’بدائ‘ کا عقیدہ تو پہلے ہی پایا جاتا ہے جس کی رو سے خدا کو بھی ___ معاذ اﷲ ___ اپنی غلطی کا اندازہ ایک وقت کے بعد ہو سکتا ہے اور جس کی رو سے یہودی احبار (علمائ) رب کی غلطیوں کی تصحیح گاہے بگاہے کرتے رہتے ہیں!!!
”پھر اسرائیل کو ایک اور مشکل بھی درپیش ہے۔ مغربی معاشروں میں بسنے والے ایک عام انسان کو اپنی جانب سے مطمئن کئے رکھنا بھی اسرائیل کیلئے اتنا آسان نہیں۔ مغرب کے ایک عام انسان کے ذہن میں ڈیمو کریسی اور حقوق انسانی کے نعروں کو اس قدر گہرا اتارا گیا ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ اسرائیل پورے فلسطین کو غیر معینہ مدت تک ایک بڑی جیل اور ایک فوجی بیرک بنا کر رکھے“۔
”پھر اس کے ساتھ ساتھ عربوں کا بائیکاٹ بھی، چاہے وہ کتنا ہی ظاہری اور سطحی اور غیر موثر ہو، خطے میں موجود اقوام کے ہاں بہرحال ایک بڑی نفسیاتی رکاوٹ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس بنا پر بھی کسی ایسے جوڑ توڑ کی ضرورت ہے جس میں یہود کی بظاہر پسپائی ہو اور وہ فلسطینیوں کو محدود طور ’حق خود انتظامی‘ عطا کرنے پر مجبور ہوں.... تاکہ اسٹریٹجی کے اعتبار سے ایک بڑے ہدف تک رسائی ممکن ہو....“
”یہ ’بڑا ہدف‘ یہ ہے کہ اسرائیل ’جغرافیائی توسیع پسندی‘ کا خیال چھوڑ کر خطے میں اب ’سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی میدان میں دور رس کامیابیاں حاصل کرنے کی حکمت عملی‘ اختیار کرے۔ یہ وہ چیز ہے جو ایک سے زیادہ دانشوروں اور سرکاری حکام کی زبان پر آچکی ہے اور تجزیہ نگار اسے ’مشرق وسطی میں ایک ریاستہائے متحدہ (يونائيٹڈ اسٹیٹ آف مڈل ايسٹ) کا نام دیتے ہیں!!“
”یوں اس منصوبے کی رو سے یہ طے پایا کہ ثقافتی، سماجی اور اقتصادی رکاوٹوں کو درمیان سے ہٹا کر اور سیاسی راہوں (پوليٹيكل چينلز) کو چوپٹ کھول کر ایک ایسی صورتحال معرض وجود میں لائی جائے جس میں اسرائیل کے یہود کو مشرق وسطی میں عین وہی حیثیت حاصل ہو جو نیو یارک کے یہود کو امریکہ کے طول وعرض میں حاصل ہے۔ مسلمانوں کی تمام تر دولت اور ان کے سب کے سب قدرتی وسائل یہودیوں کی براہ راست دسترس میں آجائیں۔ مسلمانوں کی یونیورسٹیاں اور تعلیمی وثقافتی ادارے ان کے افکار ونظریات کی آماجگاہ بن جائیں۔ مسلمانوں کے شہر اور بستیاں ان کی تجارتی منڈیاں بنیں اور مسلمان شہری ان کی مصنوعات کے صارفین۔ یہاں جگہ جگہ انہی کے بنک ہوں اور انہی کے صنعتی اور سرمایہ کاری منصوبے۔ عام صحت مند مسلمانوں کی کوئی اہمیت ہو تو اس حد تک کہ وہ سود خور یہودی مہاجنوں اور ساہوکاروں کیلئے سستے ترین اور محنتی قسم کے مزدور ہوں! [ہمارے برصغیر میں بھی ہندوئوں اور مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور یہودی ساہوکار بنکوں کا کچھ ایسا ہی منصوبہ ہے اور ہمارے بہت سے سیاستدان، دانشور، صحافی، ادیب، شاعر اس مقصد کیلئے سرگرم عمل ہیں۔ اس پر بات کسی اور موقع پر کی جائے گی (مترجم)۔]
یہ ہے اس نام نہاد ’امن پروگرام‘ کا اصل ہدف اور اصل غرض وغایت۔ اس کی وہ جتنی بھی ملمع کاری کریں مگر اس کی اصل حقیقت یہی ہے۔
یہودی منصوبوں میں یہ تبدیلی کوئی آناً فاناً نہیں آگئی۔ یہ محض فکری اور میدانی تحقیق (intellectual and field studies) کا نتیجہ بھی نہیں ___ جیسا کہ بظاہر نظر آتا ہے ___ اس کے اسباب اور اس کی جڑیں دراصل اس سے کہیں زیادہ گہری ہیں۔ اس کا اصل سبب درحقیقت وہ چیز ہے جو یہودی ذہنیت کی گھٹی میں پڑی ہے اور یہ یہودی فطرت کا اصل پرتو ہے۔ ماضی وحال میں یہ یہودی تاریخ کی سب سے واضح اور دور سے نظر آنے والی حقیقت رہی ہے۔ مراد یہ ہے کہ یہودیوں کی ایک مستقل بالذات ہستی کا قائم ہو جانا، ان کی ایک اپنی الگ تھلگ ساکھ بن جانا اور جس طرح دنیا کی دوسری اقوام سیاسی اور سماجی طور پر مکمل خود انحصاری سے کام لے کر اپنا ایک الگ تھلگ وجود رکھتی ہیں، دنیا کی اور قوموں کی طرح یہود کا بھی خود انحصاری کے ساتھ آپ اپنا وجود رکھنا اور اپنے اس وجود کو دنیا سے منوانا.... یہ دراصل یہودیوں کی اس دائمی ذہنیت اور نفسیات بلکہ یہودیوں کی پوری تاریخ کے ساتھ ایک واضح تصادم رکھتا ہے۔ وہ سب سے بڑی غطی جو یہودی قومی ریاست اور ارض میعاد کو واپسی کے خواب دکھانے والے بابل کی اسیری سے لے کر یورپی قہر وذلت کے دور تک کرتے آئے ہیں اور جس کی بنیاد پر ہرزل (صہیونی تحریک کا بانی) فش مین اور وائز مین عشروں تک عملی منصوبہ بندی کرتے رہے.... ان کی وہ سب سے بڑی غلطی یہی تھی کہ یہ اپنی آرزوؤں کے جذباتی تعاقب میں اپنی تاریخ کی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھلا بیٹھے یا پھر جذبات نے انہیں یہ حقیقت بھلا دی .... کہ یہودی دوسری قوموں کی طرح مستقل بالذات ہو کر آپ اپنا اجتماعی وجود کبھی رکھ ہی نہیں سکتے۔ پھر جب وہ وقت آیا کہ ان کے وہ صدیوں کے خواب پورے ہوں اور دوسری قوموں کی طرح ان کی اپنی ایک الگ ہستی وجود میں آئے تب یہ تاریخی حقیقت امیدوں اور آرزوؤں کے ملبے تلے سے باہر آگئی اور نصف النہار کی طرح پوری دنیا کو نظر آنے لگی!
”کم از کم یہودیوں اور جدید صہیونی تحریک سے واقف دانشوروں سے یہ بات اوجھل نہیں کہ یہودیوں کی ایک معتد بہ تعداد اور یہودیوں کی بعض مذہبی اور فکری قیادتیں ایک الگ تھلگ یہودی ریاست کے قیام کو شدت سے مسترد کرتی رہی ہیں۔ یہی جماعتیں ہی دراصل ان توراتی پیشین گوئیوں کی صحیح عکاس ہیں۔ یہ یہودی جماعتیں صاف کہتی ہیں کہ یہودی ریاست کا قیام یہودیوں کی ہلاکت اور بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ اس پر وہ اپنے مذہبی صحیفوں اور اپنے تاریخی واقعات سے متعدد دلائل بھی پیش کرتی ہیں۔
اسرائیلی ریاست کے قیام نے یہود کو اب ایک ایسے پیچیدہ بحران میں پھنسا دیا ہے جہاں ایک طرف تلمود میں پڑھے جانے والے وہ خواب اور آرزوئیں ہیں جن سے یہودی نسل پرستی اور موروثی فضیلت کے سبق پڑھ پڑھ کر اب یہ ایسے ایسے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ جن کی کوئی حد ہے نہ حساب۔ دوسری طرف ان حوصلوں اور آرزوئوں کا منہ چڑانے کیلئے وہ بیمار یہودی ذہنیت ہے جس کی وجہ سے یہودی آج تک کبھی مستقل بالذات ہو کر اور خود اپنے آپ پر انحصار کرکے کسی مسئلے میں آگے لگنے کیلئے تیار نہیں ہوتے، چاہے وہ ان کا اپنا ہی مسئلہ کیوں نہ ہو؟ پھر یکایک کیسے ہو سکتا تھا کہ وہ نمایاں ترین عالمی مسائل میں اور پوری دنیا کے سیناریو پر اپنی مستقل بالذات حیثیت میں آگے آنے پر تیار ہو جائیں!! اپنا بوجھ آپ اٹھانے کے ڈر سے تو آج تک یہ مسیح موعود کے منتظر رہے ہیں کہ میسح آئے تو یہ کچھ کریں، یہ خود اتنی ہمت کبھی نہ کریں گے!!
”اپنی طویل ترین تاریخ کے کسی دور میں بھی یہودی کبھی کسی مسئلے میں اپنی مستقل بالذات حیثیت میں آگے نہیں آئے، چاہے وہ انکا اپنا ہی مسئلہ کیوں نہ ہو۔ اس قاعدے میں اگر کبھی کسی استثنا کا امکان تھا تو وہ صرف اور صرف موجودہ دور ہی میں ہو سکتا تھا مگر دیکھ لیجئے وہ بھی نہ ہوا!!! یہودی ہمیشہ دنیا میں ایک آکاش بیل کی طرح زندہ رہے۔ آکاش بیل ہمیشہ کسی اور تنومند درخت کا سہارا چاہتی ہے۔ یا پھر یوں کہئے کہ تاریخ کے ہر دور میں یہ ہمیشہ پیٹ کے کیڑوں کی طرح پلے ہیں جو صرف اور صرف کسی اور کی کھائی ہوئی خوراک پر ہی زندہ رہ سکتے ہیں۔ آپ واقعہ بنو قینقاع سے شروع ہو جائیں جس میں ان کے ظاہری باقاعدہ ترجمان مدینہ کے منافقین تھے پھر جنگ احزاب کے سازشاتی کرداروں تک آجائیں جس میں سامنے آکر مسلمانوں سے جنگ کرنے والی فوج قریش تھے یا پھر قریش کے عرب حلیف۔ تب بھی بنو قریظہ اور دیگر قبائل کو کھل کر سامنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی تھی.... پھر تاریخ کے اور واقعات سے گزرتے ہوئے آپ امریکی انتظامیہ تک آجائیں.... آپ دیکھیں گے کہ اقتصاد، ابلاغی ہتھکنڈوں اور سیاسی جوڑ توڑ کے کھلاڑی اگرچہ یہاں بھی یہودی ہیں مگر ان کا کیس لے کر چلنے کیلئے نکسن، کارٹر، ریگن اور بش جیسے لوگ ہی استعمال ہوتے ہیں جو کہ سب کے سب عیسائی ہیں!!“
”یہ پیٹ کے کیڑوں کی طرح ہی آج تک یورپ کی آنتوں میں پلے ہیں۔ یہ آکاش بیل ہمیشہ صلیبی بغض وکینہ کے درخت کا ہی سہارا تکتی رہی ہے۔ اور جیسے قرآن میں آتا ہے۔ آلا بحبل من اﷲ وحبل من الناس کہ ”کبھی ان کو اللہ کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو کبھی انسانوں کے ذمہ میں“ بالکل اس کے مصداق یہ اسلام کے خلاف پائے جانے والے صلیبی بغض وعداوت کی اوٹ میں یونہی پناہ پاتے رہے ہیں۔ پھر جب لگ بھگ دو ہزار سال کے بعد جا کر اب ان کی ایک ریاست اور حکومت وجود میں آئی تو اللہ کی وہ سنت بھی روبہ عمل ہوتی نظر آئی۔
تحسبھم جمیعا وقلوبھم شتی (الحشر: ١٤)
”تم ان کو اکٹھا سمجھتے ہو، مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں“۔
”یہودیوں کے سب سہانے خواب اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ آج کی اسرائیلی ریاست تعارضات کا ایک مجموعہ ہے۔ اس میں آپس کی اندرونی سرکشی زوروں پر ہے۔ آپ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے سے یہ ریاست آج بھی لاچار ہے۔ یہ آج بھی پوری دنیا سے خیرات حاصل کرتی ہے۔ پوری دنیا کے یہودی اور غیر یہودی ساہوکاروں کو نچوڑ نچوڑ کر عطیات لیتی ہے۔ پھر دنیا کا کوئی عالمی فورم ہو وہاں یہ ’امریکی مندوب‘ اور یورپی نمائندوں کی نظر کرم کی محتاج ہوتی ہے۔ اس کی ساری بہادری امریکہ کے بل بوتے پر ہوتی ہے۔ اس کی بہادری کا حال اس سے کچھ بہت مختلف نہیں جو کہانیوں میں ہم ایک ایسی لومڑی کے بارے میں سنتے آئے ہیں جو شیر کے چھوڑے ہوئے چیتھڑوں پر پلتی ہے!!“ [کہانیوں کی دنیا میں بیان کیا جاتا ہے کہ لومڑی نے ایک بار شیخی بگھاڑی کہ جنگل کے سب جانور اس سے بھی ویسے ہی ڈرتے ہیں جیسا کہ شیر سے۔ شیر نے کہا کہ لومڑی جھوٹی ہے۔ تب لومڑی شیر سے کہنے لگی: اگر میری بات پر یقین نہیں تو میرے ساتھ آکر خود دیکھ لو کس طرح جانور مجھ سے ڈر ڈر کر بھاگتے ہیں۔ یہ سن کر شیر لومڑی کے ساتھ ہو لیا۔ اب جہاں سے ’دونوں‘ کا گزر ہوتا جانوروں کو شیر سے ہیبت زدہ ہو کر تو بھاگنا ہی تھا۔ ادھر لومڑی شیر سے کہتی جاتی: اب تو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا!!]
”یہودی ہمیشہ پس پردہ رہ کر پتلیاں نچاتے ہیں۔ اگر یہ سامنے اسٹیج پر آجائیں تو ان کا سارا ننگ واضح ہو جائے اور ان کا جاود پھر کبھی نہ چلنے پائے۔ ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی امریکی صدر کے کاندھے پر سوار ہو جائیں۔ اگر وہ ان کے ساتھ سیدھا نہ چلے تو پھر اسے اتار دیں۔ مگر ان میں اتنی ہمت نہیں یا پھر یہ اس خیال کو ترجیح نہیں دیتے کہ امریکہ میں یہ اپنا ایک یہودی صدر بنوا لیں جو سیدھا سیدھا اور واضح طور پر یہودی صدر کے روپ میں سامنے آئے۔ (صرف اس بار انہوں نے ایک یہودی کو نائب صدر کے عہدے کیلئے نامزد کیا)“
”ایک اور چیز نے بھی اسرائیل کے یہودیوں کی راتوں کی نیند حرام کر رکھی ہے۔ زمین کے جس خطے کے بارے میں تورات ان کو مژدہ سناتی ہے کہ وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی یہودیوں کی اندھی اور لامحدود ہوس کیلئے یہ ممکن نہیں کہ فلسطین کے اسی مقبوضہ خطے کے محدود وسائل تک محدود رہے اوراردگرد کے اس وسیع تر خطے سے صرف نظر کئے رہے جو تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ اس یہودی حرص اور ہوس کیلئے یہ ممکن نہیں کہ اپنے اس مذہبی فرض کے احترام میں کہ انہیں ہر حال میں نیل سے فرات تک کی سرزمین پر ایک فوجی قبضہ ہی کرنا اور اس پر بس ایک یہودی ریاست کا قیام ہی عمل میں لانا ہے.... یہودی حرص اور ہوس کیلئے یہ ممکن نہیں کہ محض اپنے اس مذہبی فریضہ کے احترام میں یہ خطے کے اندر تیل کے بہتے چشموں کی دولت سے زہد و بے رغبتی برت رکھے.... کہ جب تک نازیوں کی طرح یہ اپنے زور بازو سے اس خطے پر خود قبضہ کرنے کا مذہبی خواب پورا نہیں کر لیتے تب تک یہاں کی دولت پر فریفتہ ہونے سے پرہیز کئے رہیں۔ جبکہ وہ یہ بھی جان چکے ہیں کہ ’دلی ہنوز‘ کتنی دور ہے اور انگور کس قدر کھٹے ہیں۔ فوجی قبضے کا تجربہ تو انہیں خود اس چھوٹی سی فلسطینی پٹی میں ہی بہت مہنگا پڑا ہے۔ چنانچہ فلسطین کے اسی علاقے کو سنبھالنا ان کے بس میں نہیں اور اسے قابو رکھنے کیلئے وہ جارحیت کی آخری حد تک جانے پر تیار ہیں مگر مقامی باشندے ہیں کہ وہاں بھی ان کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ مزید خطوں پر قبضے کا خواب وہ کیسے دیکھیں اور اس خواب کے پورا ہونے کے انتظار میں وہ خطے کی دولت سے زہد کیونکر اختیار کئے رہیں!؟
”اس خواب کا تو جتنا حصہ کسی نہ کسی طرح پورا ہو گیا وہی کافی ہے کہ انہیں اس خواب کو مزید عملی جامہ پہنانے کا خیال ترک کرنے پر مجبور کر دے۔ یہ ان کا میدان نہیں، بس اب وہ اسی خواب کو پورا کرنے کی کوشش جاری رکھیں جس میں بلاشبہ یہودیوں نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے اور یہ ہے ’بنکاری، میڈیا اور جاسوسی کی دنیا کی بے تاج بادشاہی۔ روتھ شیلڈ اور اس کی نظریاتی اولاد نے اس میدان میں واقعی کمال دکھایا ہے۔ یہ میدان ضرور ایسا ہے جو یہودیوں کی طفیلی ذہنیت اور سازشی فطرت کے ساتھ گہرا میل رکھتا ہے۔ ان کو اب یہی مناسب نظر آتا ہے کہ ’سود، میڈیا اور جاسوسی‘ کی دنیا پر ہی فرمانروائی رکھی جائے اور اس پر فرمانروائی کیلئے اتنی زمین بھی کافی ہے جو اتنی جنگیں کرکے فلسطین میں حاصل کر لی گئی۔ آکاش بیل کو اتنی سی زمین بھی بہت ہے۔ ساری خوراک تو اسے پھر بھی بیرون سے ہی ملتی ہے۔ کیوں نہ بس اسی اراضی کو بنیاد بنا کر یہ فکری اور ثقافتی میدان میں اردگرد کی دنیا کی عقل وفکر اور اعصاب کو قبضے میں کریں اور تعلیمی نصابوں تک پر اثر انداز ہو کر اردگرد کے اس پورے خطے کو اپنی گرفت میں کر لیں جس کی دولت کو دیکھ دیکھ کر آج پوری دنیا کے منہ سے لعاب بہ رہا ہے!!“
”کیوں اس بیش بہا قدرتی دولت اور ان بہتے خزانوں تک ان کی رسائی امریکیوں اور یورپیوں کی وساطت کی ہی مرہون منت رہے۔ کیوں نہ اس پر یہ ’قریبی ہمسایہ‘ بھی سب سے زیادہ حق جتائے!؟“
یہودیوں کی طمع اور لالچ اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے یہ محض اس لئے اجنتاب کریں کہ انہیں اخلاص کے ساتھ اپنے مذہبی تقاضوں پر عمل کرنا ہے! ان کی حرص وآز کو یہ منظور نہیں کہ نیل تا فرات کو بندوق کی نالی کے زور پر فتح کرنے کی راہ پر چل پڑنے کی یہ فاش غلطی ایک بار ان سے سرزد ہو گئی تو اب یہ اسے کرتے ہی چلے جائیں۔ ’جغرافیائی توسیع‘ کو مزید جاری رکھنا ایک خطرناک ترین غلطی ہے۔ اس کے بھلے نتائج نکلنے کی جب دور دور تک کوئی ضمانت نہیں تو پھر ایک ایک دمڑی کا حساب رکھنے والی قوم اس غلطی کا ارتکاب کیوں کرتی چلی جائے۔ تلمود سنانے والے پروہت پیشین گوئیاں کریں نہ کریں، مسیح نکلے نہ نکلے، اپنی جان اور مال دونوں کا نقصان کراتے چلے جانا اور وہ بھی غیر معینہ عرصے تک.... کہاں کی تک ہے!!!“ [ دیکھئے شیخ سفر الحوالی کا رسالہ ”القدس بین الوعد الحق والوعد المفتری“، ص ( ٩ تا ١٣)]
یہ اس تحریر کا ایک اقتباس ہے جو ہم نے آج سے دس سال پہلے قلمبند کی تھی۔ اب موجودہ حالات میں دیکھئے کیا کچھ تبدیل ہوا اور کیا کچھ اپنی جگہ باقی ہے:
اس گفتگو کا سلبی پہلو تو جوں کا توں باقی ہے جس کا ایک واضح سبب ہے اور وہ یہ کہ یہودی ذہنیت وہی یہودی ذہنیت ہے اور اس میں تبدیلی آجانا ممکن نہیں۔ جنگ اور امن کی اسٹریٹجی لاکھ بدلتی رہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ یہ صہیونی ریاست امن کے یہ بے پناہ فوائد اتنی آسانی سے ہار دے؟ اور یہ کیسے ممکن تھا کہ جس امن کے قیام کیلئے اتنے سارے ملک دوڑ دھوپ کرتے رہے وہ امن ہی اس کے لئے باعث نقصان ہو؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اس صہیونی ریاست کو اپنی زندگی کا اس وقت شدید ترین ضعف لاحق ہے حالانکہ کسی نے ابھی اس کے ساتھ جنگ کی تک نہیں حتی کہ اردگرد کی کوئی حکومت اس کے ساتھ جنگ کی نیت تک نہیں رکھتی! پھر اسے یہ اس قدر ضعف خوامخواہ کیوں لاحق ہے؟ لازمی بات ہے کہ اس ضعف کا سبب خود اس کی ذات میں ہے۔ ورنہ امن کانفرنسوں کی ایسی زبردست لوٹ، جس میں فلسطینیوں کو چند ٹکوں پر ٹرخا دیا گیا، ایسے بھاری بھر کم فوائد کے حامل منصوبے دنیا کے کسی اور قوم کو میسر ہوتے (چاہے وہ قوم یہود جتنی کائیاں نہ بھی ہوتی) اور یہ سب سمجھوتے کسی اور فریق کے ساتھ کئے گئے ہوتے تو کچھ یقینی نتائج تک ضرور پہنچا جا سکتا تھا۔ مگر یہودیوں کو ایک خاص طبیعت ملی ہے جو تمام انسانوں کی طبیعت سے مختلف ہے۔ مردانہ وار بات پر ڈٹ جانا اور جو کہنا اسے پورا کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ پیر پیر پر بات سے پھر جانا اور ہر موقعہ پر راہ فرار اختیار کرنا ان کی گھٹی میں پڑا ہے۔
میڈ ریڈ اور اوسلو میں طے پانے والے سمجھوتے جن مفروضوں کی بنیاد پر کر لئے گئے وہ مفروضے اختصار کے ساتھ یہ ہیں:
ایک مفروضہ یہ تھا کہ قیام امن کے ہو جانے سے یہودیوں اور عربوں کے درمیان پائی جانے والی نفسیاتی رکاوٹیں ختم کی جا سکیں گی۔ اس مفروضے کے قائم کرنے میں واقعی کوئی بڑا جھول نہیں سوائے اس بات کے کہ اس سمجھوتے کا فریق ایک یہودی قوم ہے جس کی نفسیات کی ساری بُنتی عقدوں اور پیچیدگیوں سے بُنی گئی ہے۔ اب جو عقدے اور پیچیدگیاں صدیوں سے ایک قوم نسل درنسل پالتی آئی ہو وہ ایک امن سمجھوتے سے کیونکر دور ہو جائیں!
ایک مفروضہ یہ تھا کہ امن ہر قوم کی ایک بنیادی ضرورت ہے۔ یہ بات بھی سچ ہے مگر ایک ایسی قوم کے حق میں سچ نہیں جو صدیوں سے محرومیاں پالتی آئی ہو اور جس نے آج تک سیکھا ہی صرف یہ ہو کہ محکوم ہو تو ذلت قبول کرکے رہے اور اقتدار ہاتھ میں آجائے تو اپنا تعصب اور صدیوں کا اپنا بغض وکینہ چھپائے بغیر نہ رہے!
مبادا کہ ہم پر نسل پرستی کا الزام آئے یا ہم پر بھی نسل پرستی کا دعویٰ دائر کر دیا جائے جیسا کہ فرانس کی عدالت میں جارودی کے خلاف نسل پرستی کا مقدمہ واقعی کر بھی دیا گیا تھا!! ہم اپنی اس بات پر ثبوت کیلئے کتاب اللہ سے کوئی آیت یا حتی کہ ’امیوں کی امت‘ میں سے بھی کسی بشر کے قول سے کوئی حوالہ نہیں دیں گے۔ اپنی اس بات پر دلیل ہم صرف تو رات کے حوالوں سے دیں گے جس کی پیشین گوئیوں کو بنیاد بنا کر اس پوری صہیونی تحریک کی اٹھان اٹھائی گی ہے۔ اب جو کان رکھتے ہیں ذرا سنیں!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باب پنجم
یہودی پھر یہودی ہیں!
یہودی پھر یہودی ہیں.... چاہے وہ یہودی ہوں جنہوں نے موسی کی زندگی میں بچھڑا پوجا اور خود موسی سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ انکو بھی ویسا ہی کوئی معبود گھڑ دیں جیسے معبود دوسری قومیں اپنے لئے گھڑے پھرتی ہیں.... خواہ وہ یہودی ہوں جو خدا سے عہد کرکے ہر بار اسے توڑتے رہے اور جنہوں نے موسی کو یہ تک کہ دیا کہ ہمیں تم پر اعتبار نہیں جب تک خدا کو خود اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں.... خواہ یہ وہ یہودی ہوں جنہوں نے خدا کے اس برگزیدہ پیغمبر کو یہ جوب دیا تھا کہ تم جائو اور تمہارا خدا، دونوں جا کر لڑو، ہم تو کہیں نہیں جائیں گے.... خواہ یہ وہ یہودی ہوں جو خدا کے کلام میں تحریف کرتے رہے.... جو سود اور حرام کا مال کھاتے رہے.... جو گستاخ یہ کہنے سے نہ ٹلے کہ ’خدا کے ہاتھ بندھے ہیں‘ .... جنہوں نے یہ کہنے میں کوئی باک محسوس نہ کیا کہ ’اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں‘.... خواہ یہ وہ یہودی ہوں جو نبیوں کو قتل کرتے رہے.... حق کو چھپاتے رہے.... نیکی کی تلقین اور برائی کو روکنے سے زبان تک بند رکھی.... خواہ یہ وہ یہودی ہوں جن پر دائود اور عیسی کی زبان سے پھٹکار بھیجی گئی.... خواہ یہ وہ یہودی ہوں جن کی صورت مسخ کرکے ان کو بندر اور سوئور بنا کر نشان عبرت بنا دیا گیا....
یا یہ وہ یہودی ہوں جو بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ اور خیبر کے یہودی کہلاتے ہیں جنہوں نے نبی آخر الزمان کے نور ہدایت کو نصف النہار کے وقت جھٹلا دیا.... جو خاتم المرسلین کے خلاف لات اور عزی کے پجاریوں کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے رہے.... جنہوں نے خیرالبشر کو جان سے مار دینے کی پہلے تدبیر سوچی اور پھر آخر میں اسے زہر دے کر ہمیشہ کیلئے سیاہ بخت ہوئے.... جن کی سازشوں سے دنیا کبھی محفوظ رہی اور نہ تاریخ کبھی خاموش ہوئی....
یا یہ آج کے دور کے یہودی ہوں.... یہ ہرزل Herzel (صہیونی تحریک کا بانی) ہویا اس کا تخریب کار ٹولہ.... بیگن ہو یا اس کی آل اولاد.... یہ اس وقت کے سفاک اور سنگ دل لیڈر ہوں.... یا یہ وہ یہودی ہوں جو بھیڑیوں کے جسم پر بھیڑوں کی کھال پہن کر پھرتے ہیں....
یا یہ وہ یہودی ہوں جو معصوم بچوں کی آنکھ کا نشانہ تاک کر بندوق چلاتے ہیں اور گولیاں بھی وہ استعمال کرتے ہیں جو جسم کے اندر جائیں تو پھر پھٹیں.... یہ وہ سورما ہوں جو مائوں کی آنکھوں کے سامنے ان کے جگر گوشوں کو موت کی نیند سلا کر اپنی بہادری کی دھاک بٹھاتے ہیں....
تب سے لے کر اب تک.... یہودیوں میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ تہذیب کا تمام تر ارتقا ان پر بے اثر ہی رہا۔ کوئی چیز اپنی جگہ سے نہیں ہٹی۔ پھر سزا کا عمل رکے یا تبدیل ہو تو کیونکر!؟
پھر یہ ہماری بھی بات نہیں، آئیے ذرا ان کی اپنی ہی تورات پڑھ لیجئے کہ اس میں خود انہی کے بارے میں کیا کچھ لکھا ہے۔ اسے ایک نظر پڑھیے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ ان کی تاریخ کا ماضی قدیم سے لے کر حال تک کونسا مرحلہ ایسا ہے جس پر تورات کی ان عبارتوں کا ہو بہو اطلاق نہیں ہوتا....
آپ دیکھیں گے تورات کی یہ عبارتیں ہر دور کے یہودیوں پر فٹ ہوتی ہیں.... وہ بچھڑے کے پجاری ہوں.... وہ بنو قریظہ کے بدعہد ہوں.... وہ حالیہ اسرائیل کے سفاک وحشی ہوں.... ہر دور کے یہودیوں پر ان کا اطلاق ہوتا ہے.... یہی وجہ ہے کہ ان عبارتوں کو لفظ بلفظ نقل کرتے ہوئے ہمیں کسی وضاحت یا تبصرے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی!
آئیے ان کی تورات میں پڑھیے، ان کے لیڈروں کا کیا کردار ہے، قوم کی کیا ذہنیت ہے، کاہنوں اور مذہبی پیشوائوں کے کیا کرتوت ہیں، ان کے معاشرے کی خود ان کی اپنی ہی تورات میں کیا تصویر ملتی ہے، یہ دوسروں سے کیا برتائو کرتے ہیں، بلکہ سب سے پہلے تو خدا کے ساتھ ہی کیسے پیش آتے ہیں.... چاہے وہ ماضی میں یہودہ اور اسرائیل کی ریاستیں ہوں، بابل کی اسیری ہو، دنیا میں صدیوں تک دربدر پھرنے کا دور ہو، یا دور حاضر کا موجودہ اسرائیل ہو.... آپ محسوس کریں گے کہ ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جو بات ان کے ایک دور پر صادق آتی ہے وہی بات ان کے ہر دور پر صادق آتی ہے۔
یہ جو کچھ آپ پڑھیں گے بس نمونے کی چند عبارتیں ہیں۔ تھوڑے کو بہت سمجھیے اور قطروں سے سمندر کا اندازہ خود کر لیجئے اور یہ سب کچھ بھی ابھی صرف تورات سے لیا گیا۔ تلمود کو تو ابھی ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ رہی تلمود تو آپ کیا جانیں تلمود کیا ہے!!؟
١) موسی کی زبان سے:
”اور ایسا ہوا کہ جب موسی اس شریعت کی باتوں کو ایک کتاب میں لکھ چکا اور وہ ختم ہو گئیں، تو موسی نے لاویوں سے، جو خداوند کے عہد کے صندوق کو اٹھایا کرتے تھے، کہا کہ اس شریعت کی کتاب کو لے کر خداوند اپنے خدا کے عہد کے صندوق کے پاس رکھ دو تاکہ وہ تیرے برخلاف گواہ رہے۔ کیونکہ میں تیری بغاوت اور گردن کشی کو جانتا ہوں۔ دیکھو ابھی تو میرے جیتے جی تم خدا سے بغاوت کرتے رہے ہو تو میرے مرنے کے بعد کتنا زیادہ نہ کرو گے؟“
(استثناءباب ٣١: آیت ٢٤ تا ٢٧)
٢) داؤد کی زبان سے:
اگر آپ موجودہ زبور کا نغمہ (١٠٦) پڑھیں تو آپ کو اس میں اور سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر اپنی نعمتوں اور قدرت کی نشانیوں کا جو ذکر کیا ہے، اس میں کافی مماثلت نظر آئے گی۔ خدا نے ان پر نعمتوں کی بارش کی مگر یہ ہر بار اس سے آنکھیں پھیر لیتے رہے۔ ہر بار اپنا عہد توڑتے، غیر اللہ کی عبادت کا رخ کرتے اور اللہ کی نعمتوں اور احسانات کا کفران کرتے رہے۔ چنانچہ دائود کی زبان پر ان کے لئے یہ وعید آئی:
”تب خدا نے قسم کھائی کہ وہ بیابان میں مرجائیں گے۔ خدا نے قسم کھائی کہ انکی نسل کو دیگر لوگوں سے شکست یاب ہونے دے گا۔ خدا نے قسم اٹھائی کہ وہ ان کی پشتوں کو ملکوں میں تتر بتر کر دے گا“۔[یہاں’ان کی پشتوں کو‘ کا لفظ اردو بائبل سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ اُردو بائبل میں عبارت یوں ہے: ”خدا نے قسم اٹھائی کہ وہ ہمارے باپ دادا کو ملکوں میں تتر بتر کر دے گا۔ مگر انگریزی بائبل اور عربی بائبل کی ان خط کشیدہ عبارتوں کو دیکھئے تو آپ تائید کریں گے کہ ترجمہ یہی بنتا ہے کہ ”خدا نے قسم اٹھائی کہ وہ ان کی پشتوں کو ملکوں میں تتر بتر کردے گا۔
Therefore He raised up His hand in an oath against them to overthrow them in the wilderness, to overthrow their descendents among the nations.
انگریزی بائبل King James کا معروف نسخہ دیکھئے: Psams:106:26,27
عربی بائبل: فرفع یدہ علیھم لیسقطھم فی البریہ ولیسقط نسلھم بین الامم ولیبددھم فی الاراضی (المزامیر ٦٠١: ٢٦، ٢٧) مترجم]
(زبور: نغمہ ١٠٦، آیت ٢٦، ٢٧)
”خدا نے ان لوگوں کو کئی بار بچایا۔ مگر انہوں نے خدا سے منہ موڑ لیا اور وہ ایسے کام کرنے لگے جو کچھ وہ کرنا چاہتے تھے۔ خدا کے لوگوں نے بہت برائیاں کیں“۔
(زبور: نغمہ ٦٠١۔ آیت ٤٣)
٣) کچھ ایسے ہی سخت انداز سے نحمیاہ نبی ان کو سرزنش کرتا ہے (دیکھئے نحمیاہ۔ باب ٩)
٤) پھر یسعیاہ نبی تو بہت تفصیل سے ان کے کرتوت بتاتا ہے، مگر ہم اختصار کیلئے اس کے کچھ حصے ہی نقل کریں گے:
”سن اے آسمان اور کان لگا اے زمین کہ خداوند یوں فرماتا ہے کہ میں نے لڑکوں کو پالا اور پوسا، پر انہوں نے مجھ سے سرکشی کی۔ بیل اپنے مالک کو پہچانتا ہے اور گدھا اپنے صاحب کی چرنی کو۔ لیکن بنی اسرائیل نہیں جانتے۔ میرے لوگ کچھ نہیں سوچتے۔ آہ خطا کار گروہ۔ بدکرداری سے لدی ہوئی قوم۔ بدکرداروں کی نسل۔ مکار اولاد جنہوں نے خداوند کو ترک کیا۔ اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ وبرگشتہ ہو گئے۔ تم کیوں زیادہ بغاوت کرکے اور مار کھائو گے۔ تمام سر بیمار ہے او ردل بالکل سست ہے۔ تلوے سے لے کر چاندی تک اس میں کہیں صحت نہیں۔ فقط زخم اور چوٹ اور سڑے ہوئے گھائو ہی ہیں جو نہ دبائے گئے نہ باندھے گئے نہ تیل سے نرم کئے گئے“۔
یسعیاہ (باب ١۔ آیت ٢.... ٦)
”اگر رب الافواج ہمارا تھوڑا سا بقیہ باقی نہ چھوڑتا تو ہم سدوم کی مثل اور عمورہ (قوم لوط کی بستیاں) کی مانند ہو جاتے“۔
یسعیاہ (باب ١۔ آیت ٩)
”اے سدوم کے حاکمو خداوند کا کلام سنو! اے عمورہ کے لوگو ہمارے خدا کی شریعت پر کان لگاؤ۔ خداوند فرماتا ہے تمہارے ذبیحوں کی کثرت سے مجھے کیا کام؟ میں مینڈھوں کی سوختنی قربانیوں سے اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خون میں میری خوشنودی نہیں۔ جب تم میرے حضور آکر میرے دیدار کے طالب ہوتے ہو تو کون تم سے یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہوں کو روندو؟
آئندہ کو باطل ہدیے نہ لانا۔ نجور سے مجھے نفرت ہے، نئے چاند اور سبت اور عیدی جماعت سے بھی۔ کیونکہ مجھ میں بدکرداری کے ساتھ عید کی برداشت نہیں۔
میرے دل کو تمہارے نئے چاندوں اور تمہاری مقررہ عیدوں سے نفرت ہے۔ وہ مجھ پر بار ہیں۔ میں ان کی برداشت نہیں کر سکتا۔
جب تم اپنے ہاتھ پھیلائو گے تو میں تم سے آنکھ پھیر لوں گا۔ ہاں جب تم دعا پر دعا کرو گے تو میں نہ سنوں گا۔ تمہارے ہاتھ تو خون آلودہ ہیں“۔
یسعیاہ ( ١: ١٠ تا ١٥)
یروشلم والوں کیلئے یسعیاہ نبی کی یہ جھڑک بھی ذرا سنیے:
”وفادار بستی کیسی بدکار ہو گئی! وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راست بازی اس میں بستی تھی لیکن اب خونی رہتے ہیں۔
تیری چاندی میل ہو گئی۔ تیرے مے میں پانی مل گیا۔
تیرے سردار گردن کش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام کا طالب ہے۔ وہ یتیموں کا انصاف نہیں کرتے اور بیوائوں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔
اس لئے خداوند رب الافواج اسرائیل کا قادر یوں فرماتا ہے کہ آہ میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا
اور میں تجھ پر اپنا ہاتھ بڑھائوں گا اور تیری میل بالکل خاکستر کر دوں گا اور اس رانگے کو جو تجھ میں ملا ہے جدا کر دونگا“۔
یسعیاہ (٢١:١ تا ٢٥)[ اردو بائبل کے الفاظ ہیں: ”اور تیری میل بالکل دور کر دوں گا“ مگر ہم نے عربی بائبل کے ان الفاظ واحرق خبثک کما بالحرض کی وجہ سے ان الفاظ میں ترجمہ کیا ہے: اور تیری میل بالکل خاکستر کر دوں گا“۔ (مترجم)]
پھر یسعیاہ نبی ان کو طرح طرح کی مثالیں بیان کرتا ہے اور انہیں بربادیوں کی وعیدیں سناتا ہے۔ تاآنکہ یہ کہتا ہے:
”ان پر افسوس جو بدی کو نیکی اور نیکی کو بدی کہتے ہیں اور نور کی جگہ تاریکی کو اور تاریکی کی جگہ نور کو دیتے ہیں اور شیرینی کے بدلے تلخی اور تلخی کے بدلے شیرینی رکھتے ہیں:
ان پر افسوس جو اپنی نظر میں دانشمند اور اپنی نگاہ میں صاحب امتیاز ہیں۔
ان پر افسوس جو مے پینے میں زور آور اور شراب ملانے میں پہلوان ہیں۔
جو رشوت لے کر شریروں کو صادق اور صادقوں کو ناراست ٹھہراتے ہیں۔
پس جس طرح آگے بھوسے کو کھا جاتی ہے اور جلتا ہوا پھوس بیٹھ جاتا ہے اسی طرح ان کی جڑ بوسیدہ ہو گی اور ان کی کلی گرد کی طرح اڑ جائے گی کیونکہ انہوں نے رب الافواج کی شریعت کو ترک کیا اور اسرائیل کے قدوس کے کلام کو حقیر جانا۔
اس لئے خداوند کا قہر اس کے لوگوں پر بھڑکا اور اس نے ان کے خلاف اپنا ہاتھ بڑھایا اور ان کو مارا۔ چنانچہ پہاڑ کانپ گئے اور ان کی لاشیں بازاروں میں غلاظت کی مانند پڑی ہیں۔ باوجود اس کے اس کا قہر ٹل نہیں گیا بلکہ اس کا ہاتھ ہنوز بڑھا ہوا ہے“۔
یسعیاہ ( باب ٥، آیت ٢٠ تا ٢٥)
اس کے بعد پھر یسعیاہ نبی ان یہودیوں کی سزا کی پیشین گوئی کرتا ہے۔ واضح رہے کہ تب نہ یہودیوں کی کوئی ریاست تھی اور نہ کوئی جتھا بندی، بلکہ اس وقت بھی یہ بابل کی اسیری گزار رہے تھے!! چنانچہ یسعیاہ نبی اس سے اگلی ہی آیت میں کہتا ہے:
”او وہ (خدا) دور سے ایک امت کیلئے ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور ان کو زمین کی انتہا سے سسکار کر بلائے گا اور دیکھ وہ دوڑے چلے آئیں گے۔ نہ کوئی ان میں تھکے گا نہ پھسلے گا۔ نہ کوئی اونگھے گا نہ سوئے گا۔ نہ ان کا کمربند کھلے گا اور نہ ان کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹے گا۔ ان کے تیر تیز ہیں اور ان کی سب کمانیں کشیدہ ہونگی۔ ان کے گھوڑوں کے سم چقماق اور ان کی گاڑیاں گردبار کی مانند ہونگی۔ وہ شیرنی کی مانند گرجیں گے۔ ہاں وہ جو ان شیروں کی طرح دھاڑیں گے وہ غرا کر شکار پکڑیں گے اور اسے بے روک ٹوک لے جائیں گے اور کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔ اور اس روز وہ ان پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور اگر کوئی اس ملک پر نظر کرے تو بس اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کے بادلوں سے تاریک ہو جاتی ہے“۔
یسعیاہ ( ٥: ٢٦ تا ٣٠)[اردو بائبل کی عبارت یہ تھی: ”اور وہ قوموں کیلئے دور سے جھنڈا کھڑا کرے گا“۔ مگر ہم نے اس کی جگہ یہ ترجمہ کیا ہے: ”اور وہ دور سے ایک امت کیلئے جھنڈا کھڑا کرے گا“۔ اگر آپ انگریزی اور عربی بائبل کی عبارتوں کو دیکھ لیں تو ’قوموں‘ کی جگہ ’ایک امت‘ کا ترجمہ ہی مناسب تر جانیں گے۔ انگریزی عبارت:
He will give a signed to a for-off nation and whistle to them from the ends of the earth. (Isaiah: 5:26, King James version)
عربی عبارت: فیر فع رایہ لامہ بعیدہ ویصفرلھا من اقصی الارض (اشعیاہ: ٥:٢٦) مترجم]
یہ امت جسے اللہ اپنے ان دشمنوں سے جنگ کا شرف بخشے گا، اس کی کچھ اور صفات اسی یسعیاہ نبی کے صحیفے سے اور کچھ دوسرے صحیفوں سے ابھی آگے چل کر بھی ہم نقل کریں گے۔ یسعیاہ نبی بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے مزید کہتا ہے:
”تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اسے تم سے روپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سنتا۔ کیونکہ تمہارے ہاتھ خون سے اور تمہاری انگلیاں بدکرداری سے آلودہ ہیں۔ تمہارے لب جھوٹ بولتے اور تمہاری زبان شرارت کی باتیں بکتی ہے۔ کوئی انصاف کی بات پیش نہیں کرتا اور کوئی سچائی سے محبت نہیں کرتا۔ وہ بطالت پر توکل کرتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں۔ وہ زبان کاری سے باروار ہو کر بدکرداری کو جنم دیتے ہیں۔ وہ افعی (ناگ) کے انڈے سیتے اور مکڑی کا جالا تنتے ہیں۔ جو انکے انڈوں میں سے کچھ کھائے مر جائے گا اور جو اُن میں سے توڑا جائے اس سے افعی نکلے گا۔ ان کے جالے سے پوشاک نہیں بنے گی۔ وہ اپنی دستکاری سے ملبوس نہ ہونگے۔ ان کے اعمال بدکرداری کے ہیں اور ظلم کا کام ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے پائوں بد ی کی طرف دوڑتے ہیں اور وہ بے گناہ کا خون بہانے کیلئے جلدی کرتے ہیں۔ ان کے خیالات بدکردای کے ہیں۔ تباہی اور ہلاکت ان کی راہوں میں ہے۔
”وہ امن کا راستہ نہیں جانتے اور ان کی روش میں انصاف نہیں اور وہ اپنے لئے ٹیڑھی راہیں بناتے ہیں جو کوئی ان پہ چلے گا وہ امن کو نہ دیکھے گا“۔
”اس لئے انصاف ہم سے دور ہے اور صداقت ہمارے نزدیک نہیں آتی۔ ہم نور کا انتظار کرتے ہیں پر دیکھو تاریکی ہے اور روشنی کا پر اندھیرے میں چلتے ہیں۔ ہم دیوار کو اندھے کی طرح ٹٹولتے ہیں۔ ہاں یوں ٹٹولتے ہیں کہ گویا ہماری آنکھیں نہیں۔ ہم دوپہر کو یوں ٹھوکر کھاتے ہیں گویا رات ہو گئی۔ ہم تن درستوں کے درمیان گویا مردہ ہیں“۔
”ہم سب کے سب ریچھوں کی مانند غراتے ہیں اور کبوتروں کی طرح کڑھتے ہیں۔ ہم انصاف کی راہ تکتے ہیں پر وہ کہیں نہیں اور نجات کے منتظر ہیں پر وہ ہم سے دور ہے“۔
”کیونکہ ہماری خطائیں تیرے حضور بہت ہیں اور ہمارے گناہ ہم پر گواہی دیتے ہیں کیونکہ ہماری خطائیں ہمارے ساتھ ہیں اور ہم اپنی بدکرداری کو جانتے ہیں“۔
”کہ ہم نے خطا کی۔ خداوند کا انکار کیا اور اپنے خدا کی پیروی سے برگشتہ ہو گئے۔ ہم نے ظلم اور سرکشی کی باتیں کیں اور دل میں باطل تصور کرکے دروغ گوئی کی۔ عدالت ہٹائی گئی اور انصاف دور کھڑا ہو رہا۔ صداقت بازار میں گر پڑی اور راستی داخل نہیں ہو سکتی“۔
”ہاں راستی گم ہو گئی اور وہ جو بدی سے بھاگتا ہے شکار ہو جاتا ہے۔ خداوند نے یہ دیکھا اور اس کی نظر میں برا معلوم ہوا کہ عدالت جاتی رہی۔ اور اس نے دیکھا کہ کوئی آدمی نہیں اور تعجب کیا کہ (مظلوم کیلئے) کوئی شفاعت کرنے والا نہیں۔ اس لئے اسی کے بازو نے اس کے لئے نجات حاصل کی اور اسی کی راست بازی نے اسے سنبھالا“۔
”ہاں اس نے راست بازی کا بکتر پہنا اور نجات کا خود اپنے سر پر رکھا اور اس نے لباس کی جگہ انتقام کی پوشاک پہنی اور عبرت کے جُبہ سے ملبَّس ہوا“۔
وہ ان کو ان کے اعمال کے مطابق جزا دے گا۔ اپنے مخالفوں پر قہر کرے گا اور اپنے دشمنوں کو سزا دے گا اور جزیروں کو بدلہ دے گا“۔
(تورات کا) صحیفہ یسعیاہ : باب ٥٩، آیت ٢ تا ١٨
٥) حزقی ایل نبی کے صحیفے میں یہ آتا ہے:
”چنانچہ اس (خدا) نے مجھ (حزقی ایل نبی) سے کہا:
”اے آدم زاد میں تجھے بنی اسرائیل کے پاس یعنی اس باغی قوم کے پاس، جس نے مجھ سے بغاوت کی ہے، بھیجتا ہوں۔ وہ اور ان کے باپ دادا آج کے دن تک میرے گنہگار ہوتے آئے ہیں۔ کیونکہ جن کے پاس میں تجھے بھیجتا ہوں وہ سخت دل اور بے حیا فرزند ہیں۔
”پس خواہ وہ سنیں یا نہ سنیں (کیونکہ وہ تو سرکش خاندان ہیں) تو بھی اتنا تو ہوگا کہ وہ جانیں گے کہ ان میں ایک نبی برپا ہوا۔
”اور تو اے آدم زاد ان سے ہراساں نہ ہو اور ان کی باتوں سے نہ ڈر۔ ہرچند تو اونٹ کٹاروں اور کانٹوں سے گھرا ہے اور بچھوئوں کے درمیان رہتا ہے ان کی باتوں سے ترساں نہ ہو اور ان کے چہروں سے نہ گھبرا۔ اگرچہ وہ باغی خاندان ہیں“۔
(حزقی ایل۔ باب ٢، آیت ٣ تا ٦)
٦) میکاہ نبی کے صحیفے میں یہ آتا ہے:
”اے یعقوب کے سردارو اور بنی اسرائیل کے حاکمو سنو! کیا مناسب نہیں کہ تم عدالت سے واقف ہو؟
”تم نیکی سے عداوت اور بدی سے محبت رکھتے ہو اور لوگوں کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں پر سے گوشت نوچتے ہو۔
”اور میرے لوگوں کا گوشت کھاتے ہو اور ان کی کھال اتارتے اور ان کی ہڈیوں کو توڑتے اور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہو گویا وہ ہانڈی اور دیگ کیلئے گوشت ہیں۔
تب وہ خدا کو پکاریں گے پر وہ ان کی نہ سنے گا۔ ہاں وہ اس وقت ان سے منہ پھیر لے گا کیونکہ انکے اعمال برے ہیں۔
”ان (جھوٹے) نبیوں کے حق میں جو میرے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جو لقمہ پا کر امن امن پکارتے ہیں لیکن اگر کوئی کھانے کو نہ دے تو اس سے لڑنے کو تیار ہوتے ہیں۔
]تورات کے ایک اور عربی نسخے میں لفظ یوں آتے ہیں: ینھشون باسنانھم وینادون سلام کہ ”جو دانتوں سے بھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں اور امن امن پکارتے ہیں“[....
”اے بنی یعقوب کے سردارو اور اے بنی اسرائیل کے حاکمو جو عدالت سے عداوت رکھتے ہو اور ساری راستی کو مروڑتے ہو اس بات کو سنو:
”تم جو صہیون کو خونریزی سے اور یروشلم کو بے انصافی سے تعمیر کرتے ہو“۔
میکاہ کا صحیفہ (باب ٢ آیت ١ تا ٥ اور پھر ٩ تا ١٠)
٧) خدا کی چہیتی قوم ہونے کا دعویٰ کرنے والوں
کے بارے میں توراتی صحیفوں کی یہ گواہی دیکھئے:
”تو بنی اسرائیل کے پاس جا اور میری یہ باتیں ان سے کہ۔ کیونکہ تو ایسے لوگوں کی طرف نہیں بھیجا جاتا جن کی بولی سخت ہے بلکہ اسرائیل کے خاندان کی طرف۔ نہ کہ بہت سی امتوں کی طرف جن کی زبان بیگانہ اور جن کی بولی سخت ہے۔ جن کی بات تو سمجھ نہیں سکتا۔ یقینا اگر میں تجھے ان کے پاس بھیجتا تو وہ تیری سنتیں۔ لیکن بنی اسرائیل تیری بات نہ سنیں گے۔ کیونکہ وہ میری سننا نہیں چاہتے کیونکہ سب بنی اسرائیل سخت پیشانی اور سنگ دل ہیں....
”ان سے نہ ڈر اور ان کے چہروں سے ہراساں نہ ہو اگرچہ وہ باغی خاندان ہیں“۔
حزقی ایل (باب ٣، آیت ٤ تا ٧ اور پھر ١٠)
حزقی ایل کے صحفیے میں یہ الفاظ ”کہ وہ باغی خاندان ہیں“ کچھ اس طرح دھرا دھرا کر آتے ہیں جیسے یہ کوئی ٹیپ کا مصرعہ ہو۔
٨) آخر میں:
آخر میں سنیئے عاموس کا صحیفہ کیا کہتا ہے۔ گویا یہ تو امن پروگرام والوں سے ہی مخاطب ہے:
”کیا چٹانوں پر گھوڑے دوڑیں گے یا کوئی بیلوں سے وہاں ہل چلائے گا؟ تو بھی تم نے عدالت کو زہر اور ثمرہءصداقت کو تلخ بنا رکھا ہے....
”لیکن خداوند رب الافواج فرماتا ہے: اے بنی اسرائیل دیکھو میں تم پر ایک قوم کو چڑھا لائوں گا اور وہ تم کو حمات کے مدخل سے وادی عربہ تک پریشان کرے گی“۔
عاموس کا صحیفہ (باب ٦، آیت ١٢ اور پھر ١٤)
یہ محض ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔ توارتی صحیفے اس طرح کی نصوص سے بھرے پڑے ہیں اور بنی اسرائیل کی کچھ ایسی ہی تصویر دکھاتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان میں ان لوگوں کیلئے، جن کو بنی اسرائیل سے معاملہ کرنا ہو، نصائح تک پائے جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ یہ بھی مذکور ہے کہ ان کی سزا کیسی ہوگی۔ ’سزا‘ کے موضوع پر ایک الگ فصل میں بات ہوگی۔ ان شاءاللہ
باب ششم
ناقابل تردید گواہی
یروشلم کا مستقبل کیا ہوگا؟
موجودہ عالمی رسہ کشی کا یہ ایک نازک ترین اور پیچیدہ ترین سوال ہے۔ اس بات پر قریب قریب دنیا کے سب تجزیہ نگار اور سیاست کے ماہرین متفق ہیں۔
یروشلم (بیت المقدس) کے مستقبل پر اٹھنے والے اس عالمی اندیشے کی ساری پیچیدگی اور سنگینی اس شہر میں موجود اس محدود سے علاقے کے باعث ہے جسے ہم مسلمان مسجد اقصیٰ مانتے ہیں اور انبیاءکی پوری تاریخ میں یہ مسجد ہی چلی آئی ہے اور جسے بنیاد پرست یہودی ہیکل Temple کے الفاظ سے پکارتے ہیں۔
اہل کتاب کے صحیفوں میں پیشین گوئیاں بہت واضح انداز میں جہاں اللہ کے اس گھر (مسجد اقصی) کے ایک روشن اور تابناک اور عظیم الشان مستقبل کی خبر دیتی ہیں وہیں یہ مقدس پیشین گوئیاں ایک ایسی پاکیزہ اور برگزیدہ اور خدا کی پسندیدہ امت اور اس کے نئے قبلے کی خبر بھی دیتی ہیں جو اس جگہ پر اللہ کی عبادت کرتی رہے گی۔ اب جہاں ہم اللہ کے اس گھر (قبلہءنو) کو پاتے ہیں وہیں پر اس امت کو ساتھ پاتے ہیں جسے یہ خوش خبری سنائی گئی ہے کہ وہ خوب پھلے پھولے گی۔ زمین میں قوت اور تمکین پائے گی۔ اس کا دین سب ادیان پر غالب آئے گا اور وہ کفر کے تخت وتاج کی مالک بنے گی۔
پھر جہاں ہم اس امت کو پاتے ہیں وہیں اس کے قبلے کو پاتے ہیں جو کہ اس امت کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ یہ وہ اللہ کا گھر ہے جسے تقدس کی وہ عظمت اور بزرگی کا وہ شرف حاصل ہے جو آج دنیا کے کسی اور عبادت خانے کو حاصل نہیں۔
یہ ’امت‘ اور یہ ’پہلا وہ گھر خدا کا‘ .... دونوں کا آپس میں جڑا ہونا اور ایک دوسرے سے لازم وملزوم ہونا اس سے پہلے کبھی اتنا نمایاں نہیں ہوا جتنا کہ آج اس دور میں ہوا ہے۔ اور کمال یہ کہ اس کے نمایاں ہونے میں بھی جو سبب بنا وہ بنیاد پرست صہیونی ہیں!!
مسلمانوں کو خدا نے بے شمار امتیازات وخصوصیات اور نہایت عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے۔ باوجود اس کے کہ مسلمان آج ان میں سے اپنے بہت سے ایسے امتیازات وخصوصیات سے خود بھی غافل ہیں جو خدا نے ان کو ایک بیش بہا نعمت کے طور پر بخش رکھے ہیں ___ اور انہی میں سے ایک بڑا امتیاز مسلمانوں کو بیت اللہ کا ملنا اور اس کا انہیں بطور قبلہ عطا ہونا بھی آتا ہے ___ پھر بھی مسلمان یہ عقیدہ بہرحال نہیں رکھتے کہ مکہ اور یروشلم (بیت المقدس) کے مابین کوئی ضد اور مقابلہ بازی کا رشتہ ہے۔ کوئی بھی مسلمان ہرگز ایسا عقیدہ نہیں رکھتا۔ ایک مسلمان کے نزدیک مکہ اور بیت المقدس (یروشلم) کا وہی رشتہ ہے جو اس کے عقیدے کی رو سے محمد اور موسی و عیسی کے مابین ہے۔ یہ ایک محبت، اخوت اور مشترکہ نصب العین کا رشتہ ہے۔ ان میں کوئی فرق ہو سکتا ہے تو اللہ کے ان رسولوں اور اللہ کے ان گھروں میں اختلافِ مراتب کی حد تک ہو سکتا ہے۔
مگر بنیاد پرست صہیونیوں کا معاملہ اس سے بالکل برعکس ہے۔ ان کے عقیدے میں یہ بات قطعی اور فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے: خدا کا شہر صرف یروشلم ہے اور خدا کا گھر صرف وہ ہیکل Temple جو ان کی پیشین گوئیوں میں مذکور ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور مقدس مقام کا کہیں وجود ہے اور نہ امکان!!
یوں ان لوگوں نے خود ہی اپنے آپ کو تاریخ کی عدالت میں ایک ایسے نازک مقام پر کھڑا کر لیا جہاں حقیقت کا سامنا کئے بغیر انہیں کوئی چارہءکار نہیں۔ حقائق اور تاریخ کی یہ عدالت کبھی کسی کی رو رعایت نہیں کرتی۔ اب یا تو ان کی یہ بات سچ ہو اور ان کا قبلہ خود انہی کے بقول ہزاروں سال سے ناپید مانا جائے پھر اس کا وہ ہمارے قبلے کے ساتھ خود ہی جو موازنہ بلکہ مقابلہ کرتے ہیں اس کی حقیقت بھی پور دنیا کو معلوم ہو جائے گی کہ کہاں ہمارا قبلہ اور کہاں ان کا وہ ہیکل جو ان کے اپنے بقول دو ہزار سال سے کہیں نام ونشان تک نہیں رکھتا.... اور یا پھر ان کی یہ بات سچ نہیں جس کی صورت میں یہ خود ہی جھوٹے قرار پائیں گے۔ تیسری کوئی صورت نہیں!
چونہ یہ لوگ اپنے نام نہاد ہیکل اور ہمارے قبلہ کے مابین دشمنی اور تضاد کا رشتہ جانتے ہیں لہٰذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مسجد اقصی اور مسجد حرام کے باہمی تعلق کے بارے میں اختصار سے کچھ گفتگو ہو اور اس بات کے دلائل خود اہل کتاب کے مقدس صحیفوں اور تاریخ اور موجودہ دور کے واقعات سے دیئے جائیں تاکہ واضح ہو کہ ان لوگوں کا دعویٰ کتنا بڑا جھوٹ ہے اور یہ بھی کہ اپنی جن مقدس پیش گوئیوں کا یہ لوگ حوالہ دیتے ہیں وہ بھی ان کے حق میں نہیں ان کے خلاف پڑتی ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی کہانی گو بہت طویل ہے مگر اس کے کچھ اہم امور ذکر کئے جاتے ہیں:
١) مسجد حرام کے بعد یہ زمین میں بننے والی دوسری مسجد ہے۔ ازروئے حدیث بخاری، ابوذر روایت کرتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! کونسی مسجد زمین میں پہلے بنی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کی: اس کے بعد کونسی؟ آپ نے فرمایا: مسجد اقصی۔ میں نے دریافت کیا: ان کے بیچ میں کتنا زمانہ گزرا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال۔ [بخاری حدیث نمبر ٣٣٢٢]
٢) ابراہیم کے ہاتھوں مسجد حرام کی ازسرنو تعمیر ہوئی تو ان کے پوتے یعقوب نے مسجد اقصی کی ازسرنو تعمیر کی، جیسا کہ بہت سے آثار میں ملتا ہے۔ پھر قوم موسی اپنا عرصہءتیہ (صحرا میں آوارگی کے چالیس سال) گزار لینے کے بعد اس میں داخل ہوئی جب انہوں نے کفار سے جہاد کیا اور اللہ نے ان کو نصرت عطا فرمائی۔ تب وہ ارض مقدس میں داخل ہوئے[یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے۔ اگرچہ یہودی مورخ یہ کہتے ہیں کہ یوشع بن نون نے صرف اریحا تک کا علاقہ فتح کیا تھا اور یہ کہ بیت المقدس (یروشلم) دائود کے زمانے تک فتح نہیں ہوا تھا۔ قرآن مجید کی عبارت سے جو ظاہر ہوتا ہے وہ یہ کہ دائود کا بیت المقدس میں داخلہ بنی اسرائیل کے ایک بار وہاں سے نکالے جانے کے بعد ہوا تھا۔ امام ابن کثیر نے سورہءمائدہ (آیت ٢٦) کے تحت اپنی تفسیر میں بھی یہی ذکر کیا ہے کہ یوشع اور اس کے ساتھی بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے اور اس حدیث کا ذکر بھی یوشع کے قصے کے ذیل میں ہی کیا ہے جس میں رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ ایک نبی کے قتال کی خاطر اللہ نے اس کے شہر فتح کرلینے تک سورج کو غروب ہونے سے روکے رکھا۔ یوں بھی ایسی کرامت کا کسی اور جگہ کی بجائے بیت المقدس میں وقوع پذیر ہونا زیادہ قرین قیاس نظر آتا ہے۔ امیدوار ہوں کہ برادرم محسن محمد صالح اپنی کتاب (الطریق الی القدس، ص ٢٨ طباعت سوئم) میں مذکور اپنی عبارت پر نظر ثانی کریں گے۔] جو اللہ نے ان کیلئے نامزد کی تھی، جس کا ذکر سورہءمائدہ میں ملتا ہے۔ بنی اسرائیل تب اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرتے تھے۔
٣) مسجد اقصیٰ کی تعمیر وترقی اپنے عروج کو اس وقت پہنچی جب اللہ تعالیٰ نے سلیمان کو عظیم ترین بادشاہی بخشی اور جنات اور انسانوں کے بہترین معمار آپ کے تصرف میں دے دیئے، تاکہ یہ اللہ وحدہ لا شریک کی عبادت کا ایک بہترین مرکز بنے۔ سلیمان نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ:
”جو آدمی بھی یہاں آنے کیلئے اپنے گھر سے نکلے اور اس کا مقصود اس میں صرف نماز ہو تو وہ اپنے گناہوں سے یوں پاک کر دیا جائے جیسے اس کی ماں نے اسے پہلے دن جنم دیا تھا“۔ [مسند احمد [١٧٦:٢] نسائی [٤٣:٢] مزید دیکھئے سابقہ حدیث کی شرح میں فتح الباری۔ مزید دیکھئے تفسیر ابن کثیر بسلسلہ آیت ٣٥ سورہ ص۔]
٤) یہود نے اس کے لئے ہیکل Temple کا لفظ استعمال کرنا شروع کردیا۔ نام سے ظاہر ہے کہ یہ ایک مشرکانہ اور بت پرستانہ نام ہے۔ حالانکہ تورات کئی مقامات پر اس کے لئے بیت الرب (خدا کا گھر) کا لفظ استعمال کرتی ہے۔
بات صرف اتنی بھی نہیں کہ یہ نام کی تبدیلی محض ایک لفظی بحث ہے بلکہ ہم جانتے ہیں کہ ان کی تاریخ میں اتنی تحریف وتبدیلی ہوئی ہے اور نئی نئی بدعات یوں ان میں داخل ہوتی رہیں کہ ان کے دین میں بت پرستی تک داخل ہوئی۔ خود تورات ہی میں بہت زیادہ مقامات پر یہودیوں کے بارے میں یہ مذکور ہے کہ یہ ’بعل‘، ’تموز‘ اور ’منات‘ وغیرہ ایسے بتوں کو باقاعدہ پوجتے رہے ہیں۔
٥) مسجد اقصیٰ تاریخ میں دشمنوں کے بہت سے حملوں اور کئی بڑے بڑے افسوسناک واقعات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ اس کا کچھ ذکر تھوڑا آگے چل کر کیا جائے گا۔
٦) ہجرت سے پہلے نبی کو یہاں کی اسراء(شبینہ زیارت) کرائی گئی۔
٧) پھر مسلمانوں نے صحابہ کے دور میں بیت المقدس فتح کیا اور عمر خود مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے۔
٨) ١٣٨٧ھ / ١٩٦٧ءمیں مسجد اقصیٰ پر یہودیوں کا قبضہ ہوا جو کہ اس وقت سے لے کر اب تک کوشش کر رہے ہیں کہ اس مسجد کو صفحہءہستی سے ختم کر دیا جائے۔ بہت بڑا خطرہ پایا جاتا ہے کہ یہ ظالم آئندہ کسی وقت اسے نذر آتش کر دیں یا بارود سے اڑا دیں یا اس کا سارا نقشہ تبدیل کرکے اسے اپنے اس تعمیری منصوبے کا ایک حصہ بنا دیں جو ان کے پیش نظر ہے۔
٩) یہودیوں کا خیال ہے کہ ان کا ہیکل Temple مسجد اقصیٰ کے زیر زمین دفن ہے یا پھر اس کے اردگرد کہیں ہے۔ یہ مسجد اقصیٰ کے نیچے ہر طرف سے زمین کھود کھود کر کھوکھلی کر چکے ہیں۔ یہاں کی مٹی کے نمونے بھی جگہ جگہ سے لے کر لیبارٹریوں میں ٹیسٹ کر چکے ہیں۔ یہاں کی سینکڑوں من مٹی صرف لیبارٹریوں کی نذر ہوئی مگر ان کو کہیں بھی کسی مدفون ہیکل کا آج تک کوئی نام ونشان تک نظر نہیں آیا!!
یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ___ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے، چاہے مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناقابل برداشت ہو ___ کہ خدا کا پہلا وہ گھر، جس کی بنیادیں ابراہیم نے اٹھائیں، خدا کا یہ پہلا گھر تو بدستور محفوظ ومامون اور عبادت گزاروں سے معمور رہے اور چار ہزار سال سے بھی زائد عرصہ اسی شان وشوکت اور اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ اپنی جگہ کھڑا رہے۔ حتی کہ ہم جانتے ہیں کہ ابراہیم سے پہلے بھی انبیاءیہاں آکر کعبہ کا حج کرتے رہے۔ یہ ابراہیم سے پہلے بھی مامون ومحفوظ تھا۔ عاد اور ثمود کے زمانے سے لوگ اس کا قصد کرتے رہے تھے۔ سو یہ خدا کی قدرت ہے کہ اس کا وہ بیت عتیق تو اس پوری تاریخ میں اپنی آب وتاب سلامت رکھے جبکہ دوران بابل، نینوی اور یروشلم کے بڑے بڑے عبادت خانے بن بن کر خاک میں ملتے رہیں اور پھر تاریخ کی گرد میں کہیں روپوش ہو رہیں اور وہ بڑے بڑے بت بھی خاک میں کہیں گم ہو جائیں جو قوم نوح سے لے کر عاد وثمود اور ان کے بعد کے زمانے تک پوجے جاتے رہے تھے!!
مگر خدا کی قدرت دیکھئے ان اہل کتاب نے بھی اپنے لئے اسی گڑھے میں گرنا پسند کیا جس میں وہ سب بت پرست قومیں گریں جن کے عبادت خانے دنیا سے اب ملیا میٹ ہو چکے۔ ان کو دیکھئے یہ اہل کتاب ہوتے ہوئے اور ابراہیم سے نسبت کا دعویٰ رکھتے ہوئے اپنے منہ سے آپ مان رہے ہیں کہ ان کی عبادت گاہ بھی حوادث زمانہ کا شکار ہو کر ہزاروں سال سے زمین کی تہوں میں روپوش اور ایک قصہءپارینہ ہو چکی۔ اب یہ کئی عشروں سے کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں اپنی اس عبادت گاہ کا کہیں سے کوئی مٹا ہوا نشان مل جائے۔ آخرکار ہو گا یہی کہ کچھ پانے میں یا تو یہ ناکام ونامراد رہیں گے یا پھر اگر انہیں کبھی کچھ ملا تو وہ بھی ان شاءاللہ اللہ کے دین کے حق میں گواہی دے گا نہ کہ ان کے دین کے حق میں۔
امریکہ اور اسرائیل کو اس حیات فانی کی جتنی بھی زینت وترقی نصیب ہوئی وہ سب مل کر بھی ان کے حسد کی وہ آگ بجھانے اور ان کے دلوں کی وہ حسرت ختم کرنے کیلئے ناکافی ہے جو انہیں ’امیوں کی اس امت‘ کو دیکھ دیکھ کر ہوتی ہے۔ ان کی سب تحقیق اور تفتیش کے باوجود حقائق پھر اسی امت کے حق میں بولتے ہیں۔ بے ساختہ حقانیت اور قدرتی صداقت کا نور پھر بھی اسی امت کے چہروں پر بستا ہے۔ یہ بیچارے ترکی سے لے کر شمالِ عراق اور جنوبِ مصر اور نہ جانے کہاں کہاں کھدائیاں کر کرکے تھک ہار گئے مگر ان کے آلات کی سوئیاں حقائق کی تائید اور نشاندہی کیلئے ’امیوں کی امت کے جزیرہ نما‘ کی طرف ہی بدستور اشارہ کر رہی ہیں کہ انسانی تہذیب کا اصل منبع اور دنیا کی روحانی قیادت کا تاریخی تسلسل اگر کہیں رہا ہے تو وہ یہی جزیرہ نمائے عرب ہے۔
یہ صدیوں سے بیچارے کھدائیاں کر رہے ہیں۔ تاریخ کی فائلیں کھنگالتے ہیں۔ اربوں کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں کہ حقائق اور شواہد اکٹھے کریں۔ مگر ’حقائق اور شواہد‘ ہیں جو اللہ کے فضل سے انہی کے خلاف بولتے ہیں۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی شخص ایک انتہائی مہنگا وکیل کرے اور وہ بھی محض اس لئے کہ اس کا یہ وکیل خود اسی کے مخالف فریق کا دعویٰ ثابت کر آئے۔ یہ ہے اللہ کا فضل اور اس کی حکمت!!
ہم مسلمانوں کے حق میں سب آسمانی نصوص اب بھی بولتی ہیں۔ تاریخ کے سب حقائق ہماری تائید کرتے ہیں اور ہمارے دشمنوں کے وسائل اور محنت وکاوش بھی ہمارا مقدمہ ثابت کرنے کیلئے مسخر کر دی جاتی ہے۔ آخر کیوں!؟
کیونکہ ہم خدا کے بھیجے ہوئے سب رسولوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہر وہ شخص یا جگہ جس کا تقدس خدا قائم کر دے ہم بلا امتیاز وتعصب اور اپنی کسی خواہش اور ہوائے نفس کو آڑے آنے دیئے بغیر اس کا تقدس قائم رکھتے ہیں۔ ہمارا موقف واضح اور سورج کی طرح روشن ہے: مسجد حرام مسجد حرام ہے۔ یہ تب بھی بابرکت تھی جب اسے آدم نے بنایا اور تب بھی جب اسے ابراہیم نے تعمیر کیا۔ یہ تب بھی فضیلت والی تھی جب اسے قریش نے (اپنے شرک اور جاہلیت کے باوجود) تعمیر کیا اور تب بھی جب اسے مسلمانوں نے تعمیر کیا.... پھر جب بھی اس کی تعمیر یا مرمت کا کام ہو، یہ بہرحال روز قیامت تک مبارک اور مقدس رہے گی۔
اسی طرح مسجد اقصیٰ بابرکت اور مقدس ہے۔ یہ تب بھی بابرکت اور مقدس تھی جب پہلی بار بنی اور تب بھی جب اسے سلیمان نے تعمیر کیا اور تب بھی جب اس میں نبی نے نماز ادا کی اور تب بھی جب اسے مسلمانوں نے تعمیر کیا۔ پھر جب بھی اس کی تعمیر یا مرمت کا کام ہو، یہ بہرحال روز قیامت تک مبارک اور مقدس رہے گی۔
ہم اہل کتاب کے ہاں پائی جانے والی (١۔ سلاطین: ٩:٣) اس پیشین گوئی کی صحت پر پورا اعتقاد رکھتے ہیں جس کی رو سے اللہ تعالیٰ نے سلیمان سے، جب انہوں نے اس مسجد کی تعمیر مکمل کی، فرمایا تھا کہ وہ اسے ہمیشہ مقدس رکھے گا:
”خداوند نے اس (سلیمان) سے کہا: میں نے تیری دعا اور مناجات جو تو نے میرے حضور کی ہے سن لی اور اس گھر میں جسے تو نے بنایا ہے اپنا نام ہمیشہ تک رکھنے کیلئے میں نے اسے مقدس کیا اور میری آنکھوں اور میرا دل سدا وہاں لگے رہیں گے“۔ (ا۔ سلاطین: ٩:٣)
سو یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ مسجد اقصی کو ہمیشہ اور بدستور مقدس رہنا ہے۔ یہ حق ہے اور ہم اللہ کے فضل سے اس گھر کو مقدس ہی جانتے ہیں اور اس کے اندر اللہ کی بلاشرکت غیرے عبادت کرتے ہیں۔
رہے یہود تو انہیں نسلی تعصب اور تلبیس حقائق کی راہ اختیار کرنے پر ہی اصرار ہے۔ آخر یہ تلاش کیا کرتے ہیں؟
اگر انہیں اس جگہ سے غرض ہے جو اللہ کے ہاں تقدس اور فضیلت کا شرف رکھتی ہے تو پھر وہ یہیں تو ہے۔ یہاں وہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرنا چاہیں تو اس طریقے پر جو اس نے خاتم المرسلین کی شریعت میں مقرر ٹھہرا دیا ہے اور جو کہ ابراہیم کی ملت ہے، جتنی چاہے عبادت کریں۔ آخر انہیں اس میں کیا نقصان لاحق ہے کہ یہ دین حق کے آگے سرتسلیم خم کر دیں۔ ایمان لے آئیں اور حقیقت کا اعتراف کرلیں۔
اور اگر انہیں صرف ایک عمارت سے غرض ہے تو اینٹوں اور پتھروں کی آخر وقعت ہی کیا ہے اگر ان اینٹوں اور پتھروں سے انہی شعائر عبادت کا رشتہ جڑا رہتا ہے جو اب یا تو خدا کی بارگاہ سے منسوخ قرار دے دیئے گئے ہیں یا پھر سرے سے باطل اور من گھڑت ہیں؟ اللہ بہرحال ایسی عبادت قبول نہیں کرتا۔
فرض کر لیا یہ بزعم خویش اپنے مدفون ہیکل Temple کی تلاش قیامت تک جاری رکھتے ہیں اور کوئی قابل ذکر چیز ان کے ہاتھ نہیں لگتی تو نتیجہ کیا نکلے گا!!
یہ فرض کر لینا کہ ان کی وہ عبادت گاہ کہیں زمین دوز ہو کر دو ہزار سال تک دنیا کی نظروں سے روپوش اور محض قصوں کہانیوں کا عنوان بنی رہی.... ایسا فرض کر لینا کیا ان کے اپنے ہی مذہبی صحیفوں میں آنے والی اس پیشین گوئی کی کھلی کھلی تکذیب نہیں کہ خدا نے سلیمان سے کہا تھا کہ میں اس گھر کو ہمیشہ ہمیشہ تک مقدس رکھوں گا!؟
آخر ایک ایسی حقیقت سے آنکھیں چرانے کا کیا فائدہ جو دین اور شریعت سے بھی ثابت ہے اور تاریخ اور وقائع عالم سے بھی؟
مگر بات یہ ہے کہ یہ نعمت صرف محمد پر ایمان لانے سے نصیب ہوتی ہے کہ دین کے شرعی حقائق اور کائنات کے تاریخی حقائق دونوں ایک دوسرے سے یکجا وہم آہنگ ہوں اور دونوں ایک دوسرے کی تائید کریں۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں کہ دین اور شریعت کی شہادت بھی یہی ہے کہ مسجد اقصی ہمیشہ سے لے کر آج تک اور قیامت تک مقدس رہنے والی ہے اور تاریخی واقعات کی شہادت بھی یہی ہے کہ مسجد اقصی کا تقدس ہمیشہ سے لے کر آج تک برقرار رہا ہے۔
جب ایسا ہے تو مسجد اقصی کا دو ہزار سال تک صفحہءہستی سے مٹا رہنا ناممکن ہے۔
رہی یہ بات کہ ان مقامات کی فضیلت اور تقدس میں اختلافِ مراتب کا پایا جانا، تو یہ ایک الگ معاملہ ہے اور اس کے پیچھے بھی خدا کی بے شمار حکمتیں ہیں۔ یہ حکمتیں اس بات سے کہیں زیادہ اہم تر اور عظیم الشان ہیں کہ اس مزعوم ہیکل کا سرے سے کوئی وجود پایا جاتا ہے یا نہیں پایا جاتا۔
جب تک نبوت اسحاق کی ذریت میں رہی اس سارے عرصے کے دوران مسجد اقصی ہی بڑے بڑے واقعات کا محور رہی اور عموماً یہی اسحاق کی اولاد سے آنے والے انبیاءکی سجدہ گاہ بھی رہی۔ پھر جب خدا نے فیصلہ کیا کہ نبوت اور کتاب ذریت اسحاق میں نہ رہے بلکہ یہ شرف اب ذریت اسماعیل کو دیا جائے تو اس کی حکمت کو تقاضا ہوا کہ یہ نبی اسی بلد حرام میں پیدا ہو، جس کے بارے میں تمام عرب جانتے ہیں کہ وہاں ذریت اسماعیل بستی ہے اور یہ بھی کہ یہ نبی پیدا بھی اسی سال ہو جس سال خدا نے یہاں اپنے گھر پر چڑھائی کر آنے والے عیسائیوں (اصحاب الفیل) کو ذلیل وخوار بلکہ تباہ وبرباد کرکے لوٹایا تھا!
چنانچہ ان اہل کتاب نے جب خود اپنا ہیکل (مفروضہ ونام نہاد) ناپید پایا اور روم اور صنعاء(یمن) میں اس کے متبادل عبادت خانوں کیلئے دلوں کو مسخر کرنے کے سب جتن کر لئے تو خدا کے اس پرانے گھر کو ہی ڈھانے پر تیار ہو گئے۔ یہ اس گھر کو ڈھانے کیلئے آئندہ بھی ہمیشہ ہی پر تولیں گے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے بالکل قریب جا کر واقعتا یہ اسے ڈھا بھی لیں گے جس کے بعد پھر قیامت آجائے گی۔
پھر خدا کی قدرت کو تقاضا ہوا کہ یہ نبی آخرالزمان اپنی نبوت سے بھی پہلے اس گھر کی تعمیر میں حصہ لے۔ پھر بعثت کے بعد خدا نے اس نبی کو اسلام کے عملی شعائر میں سے سب سے بڑا شعار (نماز پنجگانہ) عطا فرمانا چاہا تو پہلے اسے اسی مسجد حرام سے مسجد اقصی تک اسراء(زیارت شبینہ) عطا فرمائی (ان دونوں میں جو گہرا تعلق ہے اس کی اپنی حکمتیں ہیں) وہاں مسجد اقصی میں اسی نبی آخر الزمان سے سب انبیاءکرام کی نماز میں امامت کروائی۔ پھر وہاں سے آسمان تک معراج ہوئی۔ پھر اس واقعہ کے بعد آپ اپنے تمام تر شوق کے باوجود کہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں، عرصہءدراز تک مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے پر ہی مامور رہے۔ مکہ میں تو آپ کے پاس خدا کے ان دونوں گھروں کو قبلہ بنا کر نماز پڑھنے کا امکان موجود تھا، یوں وہ اس سارا عرصہ کعبہ کو اپنے اور مسجد اقصیٰ کے درمیان کرکے نماز پڑھتے رہے۔ مگر مدینہ آکر ایسا کرنا ممکن نہ رہا۔ چنانچہ مدینہ میں آپ ایک سال سے زائد عرصہ صرف مسجد اقصی کی طرف رخ کرکے ہی نماز کا فرض ادا کرتے رہے، جس کے پیچھے خدا کی ایک بڑی حکمت تھی، اگر کہیں یہ اہل کتاب اس کا ادراک کر لیتے۔ اس حکمت کا تقاضا تھا کہ واضح ہو کہ یہ نبی صرف اور صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہے جو اس کی طرف وحی کی جاتی ہے نہ کہ اس چیز کی جو اس کی اپنی چاہت اور خواہش ہو۔ پھر اسی طرح آپ کا اتنی دیر تک مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کئے رہنا اس بات کا بھی ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاءکا ہی ایک تسلسل ہیں اور یہ بھی معلوم ہو کہ آپ ان سب نبیوں کی کتنی تعظیم کرتے ہیں اور ہو بہو کس طرح ان کے راستے اور طریقے پر چلتے ہیں۔ تب جا کر اپنے رب کی طرف سے آپ کو یہ حکم ملتا ہے کہ اب اپنا رخ تبدیل کر لیں۔ قرآن میں واضح حکم پانے کے بعد ہی آپ خدا کے پرانے گھر اور اپنے باپ ابراہیم کے تعمیر کردہ بیت اللہ کی طرف رخ تبدیل کرتے ہیں۔ یہ ایک ایمان کا امتحان تھا اور اس کے نتیجے میں اس امت کا بطور امت وسط چنائو ہونا تھا۔ سو اس قدر حجت قائم کر دینے کے بعد اب جس نے بھی اس نئے قبلے کی طرف رخ نہیں کیا اس کا دین ہمیشہ ہمیشہ کیلئے باطل قرار پایا۔ اس کی عبادت رد اور وہ خود ملت ابراہیم سے بے دخل۔ یہ تحویل قبلہ اس بات کی بہت بڑی شہادت ہے کہ اہل کتاب کا کفر کی راہ اختیار کرنا صرف اور صرف بغض وحسد اور سرکشی کے سبب تھا جبکہ انہیں نبی کی رسالت کا پورا پورا علم اور یقین ہو چکا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ تحویل قبلہ کی آیات خدا کی قیامت تک محفوظ رہنے والی کتاب میں نازل ہوئیں (سورہ البقرہ: آیت ١٤٢ تا ١٥٠) تو ساتھ میں یہ بھی بتایا گیا:
وان الذین اوتوا الکتاب لیعلمون انہ الحق من ربھم
”یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی، خوب جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور بالکل برحق“۔
اور یہ بھی تحویل قبلہ کے وقت ہی کہا گیا:
الذین اتیناھم الکتاب یعرفونہ کما یعرفون ابناءھم وان فریقاً منھم لیکتمون الحق وھم یعلمون
”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے) ایسا پہچانتے ہیں جیسا اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں، مگر ان میں سے ایک گر وہ جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپا رہا ہے“۔
بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ سورہءبقرہ کا سیاق وسباق سورت کے آغاز سے ہی اس بات کی تمہید بناتا ہے خصوصاً اس آیت سے لے کر:
واذا ابتلی ابراہیم ربہ بکلمات فاتمھن ............
کہ ”یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا، تو اس نے کہا: ”میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں“۔ ابراہیم نے عرض کیا: ”اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟“ اس نے جواب دیا: ”میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔
”اور یہ کہ ہم نے اس گھر (کعبے) کو لوگوں کیلئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ مقام ابراہیم کو اپنے لئے مستقل جائے نماز بنا لو........“
چنانچہ انہی آیات میں آگے چل کر یہ بات واضح کی گئی کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب (اسباط) سب کے سب مسلم تھے۔ پھر اس امت کو تلقین کی گئی کہ وہ صاف کہ دیں کہ جو کچھ ان پہلے نبیوں پر نازل کیا گیا وہ اس کے ایک ایک حصے پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور پھر اہل کتاب کے اس دعوے کا بطلان کیا گیا کہ وہ پہلے نبی کوئی یہودی یا عیسائی ہوا کرتے تھے....!!
یہ خدا کی ایک نشانی ہے اور سورج کی طرح روشن۔ یہودی اور عیسائی صرف ابراہیم کے دین سے ہی نہیں بھٹکے وہ ابراہیم کے قبلے اور اس کی چھوڑی ہوئی اس عظیم یادگار سے بھی بھٹک گئے جہاں خود ابراہیم دور دراز کا سفر کرکے خدا کو سجدہ کرنے آتے اور جہاں ابراہیم کی اتباع میں ہزاروں سال سے دنیا زمین کے ہر گوشے سے آ آ کر مناسک حج ادا کرتی ہے۔ جہاں ہزاروں سال سے لبیک اللھم لبیک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں اور جہاں صبح وشام خدائے وحدہ لاشریک کی ایسی عبادت ہوتی ہے جس کی پوری دنیا میں کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی۔
آج یہود کے کسی عبادت خانے (Synaggog) میں کبھی ایک بار بھی اتنی خلقت اکٹھی ہوجائے جتنی ہماری مسجد حرام میں عام دنوں کی کسی بھی ایک نماز میں اکٹھی ہو جاتی ہے ___ حج کے دنوں کی تو خیر بات ہی چھوڑ دیجئے ___ تو یہ اس کو اپنے لئے ایک تاریخی واقعہ گنیں اور یہ واقعہ نسلوں تک کو بتایا جائے!!! خدا کے ان موجود اور آباد گھروں کو چھوڑ کر یہ آخر ان وہمی عبادت خانوں کی تلاش میں کیوں بھٹکے پھرتے ہیں جن کا وجود ان کے تخیلات سے باہر کہیں نہیں.... اور ان کے تخیلات بھی وہ جو بت پرستانہ عقائد کی آلائش نے برباد کر رکھے ہیں؟
اگر یہ اہل کتاب ان سب باتوں کے بعد بھی بحث وحجت پر ہی اصرار کریں اور روشن نشانیوں کو آنکھیں کھول کر دیکھنے پر کسی طرح آمادہ ہی نہ ہوں.... تو یہ مکہ اور نئے قبلہ کے بارے میں مذکور ان باتوں کو آخر کیسے جھٹلائیں گے جو خود ان کی مقدس کتاب میں وارد ہوئی ہیں!؟ چنانچہ ہم انہی کے مقدس صحیفوں کی کچھ عبارتوں کا ذکر کریں گے تاکہ امریکی اور یہودی آگاہ ہوں اور وہ بھی جو ان کے پیچھے چلنے والے ہیں کہ ان لوگوں کا بلند بانگ دعوئوں اور حسین آرزوؤں سے بڑھ کر ایمان سے کوئی رشتہ ہے اور نہ انبیاءکی میراث سے.... اور یہ کہ ان کا ’ارض میعاد‘ اور ’ہیکل‘ کے پیچھے بھاگتے چلے جانا سوائے اس کے اور کسی کام نہ آئے گا کہ یہ سیدھے راستے سے اور سے اور دور ہوتے چلے جائیں اور ان پیچیدہ راہوں میں اور سے اور بھٹکیں جن سے باہر نکلنے کا ان کے پاس کوئی راستہ نہیں۔
لیجئے!.... بیت اللہ (خانہ کعبہ) اور خدا کے حرام کردہ شہر (مکہءمکرمہ) کی ان صفات کا کچھ تذکرہ جو انہی کی مقدس کتاب سے لیا گیا ہے۔ اس کا بیشتر حصہ ہم حرف بحرف ذکر کریں گے اور کچھ حصہ اختصار کے پیش نظر بالمعنی:
١) یہ نیا یروشلم ہوگا۔ مشیح والا یروشلم (مشیح شین کے ساتھ جس کا مطلب ہے نجات دہندہ، یعنی اس دور کا یروشلم جس میں نجات دھندہ کے آنے کا وعدہ ہے)
٢) یہ بیانان فاران یا کوہ فاران میں ہے۔ جہاں اسماعیل اور اس کی ماں نے وقت گزارا اور جہاں خدا نے ان کے لئے زمین سے چشمہ جاری کیا۔
٣) وہ شہر جس کی جانب ابراہیم شوق ورغبت سے رخ کیا کرتا تھا۔
٤) جس کے باشندے بنو قیدار ہیں (قیدار اسماعیل کے بیٹے)
٥) یہ صادق اور امین کا شہر ہے جو سب مخلوق کا سردار ہے۔
٦) اس میں کوئی ہیکل Temple نہیں۔
٧) ہیکل سلیمانی اپنی تمام شان وشوکت کے باوجود اس نئے خانہ خدا کے سامنے کچھ بھی نہیں۔
٨) یہ نیا گھر مکعب شکل کا ہے۔
٩) اس مکعب شکل گھر میں ایک بیش قیمت پتھر ہے۔
٠١) یہ گھر کسی دلہن کی طرح گجروں اور زیوروں سے سجایا جاتا ہے۔
١١) اس کا ہر بدخواہ اس سے ہیبت کھائے گا اور خوف اس کے قریب نہ آنے پائے گا۔
٢١) اس مکعب شکل گھر کے پاس سے پانی کا ایک چشمہ بہتا ہے جس میں شفا ہے اور جو چاہے اسے بلاقیمت لے۔
٣١) اس کے دروازے صبح شام کھلے رہتے ہیں اور کسی پر بند نہیں ہوتے۔
٤١) اس کے پاس ہر ایک گھٹنے خم ہوتے ہیں۔
٥١) اس کے پاس مقدس شارع ہے اور اس سے آگے کسی پلید کا گزرنا روا نہیں۔
٦١) اس میں کسی پلید چیز کا داخلہ نہیں۔
٧١) اس کے فرزند فرزندان بیت المقدس سے زیادہ ہیں۔
٨١) یہاں رہنے والوں اور آ آ کر دعائیں کرنے والوں سے یہ شہر تنگ پڑ جائے گا۔
٩١) بادشاہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیںاور اس کی گرد چاٹتے ہیں۔
٠٢) ٹیلے اور پہاڑ فنا ہو جائیں گے مگر اس پر خدا کا احسان اور سلامتی ختم نہ ہوگی۔
١٢) سمندر کے خزانے یہاں پہنچتے ہیں اور قوموں کی دولت یہاں آتی ہے۔
٢٢) لوگ یہاں دور دراز سے آ آ کر اکٹھے ہوتے ہیں۔
٣٢) اس کی زمین مشرق ومغرب، سبائ، مدین، فاران اور قیدار سے آنے والے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کیلئے تنگ پڑتی ہے اور ماءرب (یمن) کے مرد اس کی خدمت کرتے ہیں۔
٤٢) اس میں ایک بابرکت پہاڑ ہے، قومیں وہاں چل کر آتی ہیں کہ وہاں خدا کی عبادت کریں۔
٥٢) ہر ایک وہاں مساوی طور پر آزاد ہے کہ خدا کا تقرب پائے۔
٦٢) خدا کا نام اس کے لوگوں کے ماتھے پر لکھا گیا ہے!! (سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود)
٧٢) اس کے گرد بندے قضائے حاجت فطری سے احتراز کرتے ہیں۔
٨٢) مرد کا سر ننگا ہوتا ہے اور عورت سر ڈھانپتی ہے۔ وہ کولہوں سے رانوں تک (ناف سے گھنٹوں تک) ڈھانپتے ہیں۔ وہ اپنے سروں کو منڈواتے ہیں۔ [دیکھئے شروحات کتاب مقدس۔ خصوصا ٹي بي بيٹس کی ’مکاشفات‘ (ريوليشن) کی شرح میں فصل ’نیا یروشلم‘۔ علاوہ ازیں دیکھئے کتاب میثاق النبین کتبہ عبدالاسلام طویلہ اور امام ابن القیم کی کتاب ھدایت الحیاری اور کتاب المسیح الدجال کتبہ سعید ایوب۔ مزید برآں امام ابن تیمیہ کی شہرہ آفاق تصنیف: الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح۔ امام ابن تیمیہ کی موخر الذکر تصنیف کی بشارات والی بحث میں ہم کچھ اضافہ جات شامل کرکے اس کی ازسرنو اشاعت کا ارادہ رکھتے ہیں۔]
یہ ہے وہ شہر جس کے بارے میں تورات وانجیل کے مفسر حیران سرگرداں ہیں۔ محض اس لئے کہ وہ حقیقت کا اعتراف کرنے پر آمادہ نہیں۔
سورج کی طرح روشن علامات ہیں مگر بائبل کے مفسرین کو یہ نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ وہ اس کی تفسیر میں عجیب وغریب قسم کے خبط مارتے ہیں۔
کبھی کہتے ہیں یہ شہر (نیا یروشلم) کہیں آسمان میں ہے اور تورات میں یہ صفات آئی ہیں۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ یروشلم کی ایک رمزیہ تصویر ہے۔ کبھی یہ کہتے ہیں کہ یہ ’مکمل نجات دہندہ کا یروشلم‘ ہے جو ’خوش بختی کے دو ر ہزار سالہ‘ میں پایا جائے گا۔
ان کو یہ اندازہ بھی نہیں کہ اس قسم کی تفسیریں کرکے یہ اپنے ہی خلاف گواہی دے لیتے ہیں اس کا ان کے پاس کیا جواب ہے کہ یہ ایک اور یروشلم ہے نہ کہ بیت المقدس والا معروف یروشلم۔ اور یہ کہ اس کے لوگ بنی اسرائیل سے نہیں ہیں۔ جس کسی کی آنکھیں ہیں اسے تو یہ صبح کی روشنی کی طرح نظر آتا ہے۔ شکر ہے اس خدا کا جس نے حقیقت خود انہی کے صحیفوں سے آشکارا کر دی چاہے یہ حاسد اس سے کتنا ہی جلیں۔
تورات کی مکہ کے بارے میں یہ پیشین گوئیاں اتنی واضح ہیں کہ مغرب کے کسی پڑھے لکھے کو آج کوئی شک ہے تو وہ ذرا اپنا ٹی وی آن کرکے حرم میں تراویح اور حج کے مناظر کی براہ راست فضائی نشریات کا ایک نظر مشاہدہ کر لے اور پھر خود یہ فیصلہ کر لے کہ تورات میں بیان کردہ قبلہ نو کی ان نشانیوں اور ان مناظر میں، جو وہ اپنی آنکھوں سے براہ راست اور زندہ (لائيو) دیکھ رہا ہے، کتنی گہری مماثلت ہے۔ تب مغرب کے اس پڑھے لکھے کو یہ اندازہ بھی ہو جائے گا کہ اس کی اپنی ملت کے علماءکو قرآن نے یوں کیوں خطاب کیا:
یا اھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون (آل عمران: ٧١)
کہ ”اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے ہوئے حق کو چھپاتے ہو؟“
تب مغرب کے اس پڑھے لکھے کو مسیح کے اس فرمان کا مطلب بھی سمجھ آجائے گا جو اس نے سامرہ کی عورت کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہ بنی اسرائیل کے دونوں قبیلوں میں سے کون سا افضل ہے؟ فرمایا:
”یسوع نے کہا: اے عورت یقین کر کہ وہ وقت آرہا ہے کہ نہ تم یروشلم جائو گی اور نہ ہی اس پہاڑی (سامرہ) پر خدا کی عبادت کرو گی“۔ (یوحنا: ٤: ١٢)
جب صورتحال یہ ہے اور مغرب کا ایک انسان آپ اپنی نظروں سے دیکھ سکتا ہے کہ توراتی پیشین گوئیوں کے ساتھ ان کے احبار ورہبان کیا سے کیا کرتے ہیں تو پھر علمی دیانت اور تحقیقی آزادی (اكيڈمك فريڈم) کا تقاضا ہے کہ بائبل کی تمام پیشین گوئیوں پر ہی ایک نظر ثانی کر لی جائے اور ان کی جو تفسیر ان کے بڑے کرتے رہے ان تفسیرات کو ہی مشکوک جانا جائے۔ مغرب کا کوئی دیانتدار شخص یہ علمی موازنہ کر لے تو اسے یہ موازنہ کرنے میں ہرگز کوئی مشکل پیش نہ آئے گی کہ وہ کونسی امت ہے جو واقعی خدا کی پسندیدہ ہے اور جس کے ساتھ خدا کی نصرت کا وعدہ ہے اور وہ کونسی امت ہے جس پر خدا کا غضب اور لعنت ہے اور جو کہ انبیاءکی سرزمین پر تباہی اور بربادی کا پیش خامہ رجسہ خراب لائے گی۔ پھر اسے یہ بھی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ تو محض نمونے کی ایک مثال ہے اگر ہم ان کی کتاب کی دوسری پیشین گوئیوں پر بھی بات کرنا شروع کر لیں تو نتیجہ یہی رہے گا {مگر اپنا اور اس کا وقت بچانے کے پیش نظر.... توراتی اور انجیلی پیشین گوئیوں کی رموز کو حل کرنے کیلئے جو بنیادی کنجیاں (بيسك كيز) درکار ہیں، سب سے پہلے انہی کنجیوں کا ایک نسخہ مغرب کے اس شوق مطالعہ رکھنے والے دیانت دار قاری کی خدمت میں تحفتاً پیش کریں گے اور امید کریں گے کہ مقدس پیشین گوئیوں کے حل رموز کا یہ نسخہ وہ اپنے قریبی ربی (یہودی پروہت) یا پادری کو بھی دے کر آئے گا}
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اہل کتاب کی نذر رہے!
بائبل کو ماننے والو! اپنی کتاب کی پیشین گوئیوں کی تفسیریں کرنے میں کب تک اپنی زندگیاں کھپائو گے اور اپنی توانائیاں صرف کرو گے؟ کب تک ان پیشین گوئیوں کے حل رموز اور ان کے صغری وکبری کو ملانے کی ناکام کوششیں کرتے رہو گے؟ کب تک ان پیشین گوئیوں کی تاویلات کیلئے آپس میں الجھو گے اور ایک دوسرے کی غلطیوں کی تصحیح کرتے رہو گے؟ یہی نہیں بلکہ تمہارا تو حال یہ ہے کہ ایک ہی مفسر اپنی ہی کتاب میں بلکہ کتاب کے ایک ہی صفحے پر آگے پیچھے دو متعارض باتیں کر جاتا ہے حالانکہ یہ مسئلہ تو اس سے بھی کہیں زیادہ آسان ہے، جتنا کہ بچوں کی کتاب میں ’ملے جلے حروف‘ کی شناخت کرنا!
تمہارے ہاں ان پیشین گوئیوں پر اتنا کچھ لکھ دیا گیا اور ابھی اتنا کچھ لکھا جا رہا ہے کہ اگر یہ سب دیوان اکٹھے کر لئے جائیں تو تمہارے لکھے ہوئے ورق فلسطین کے طول وعرض کو ڈھک لیں۔ کیا ایسا بھی ممکن ہے کہ ان شروحات کا انبار تم ایک کتابی نسخے میں مختصر کرلو مگر شرط یہ ہے کہ اس میں کوئی تعارض (كنٹراڈكشن) نہ پایا جائے!؟ ہم البتہ تمہیں یہ حل رموز کا نسخہ بلاقیمت دینے پر تیار ہیں۔ صرف غور وفکر کی شرط ہے:
١) نیا یروشلم = مراد ہے مکہ
٢) امین + صادق + مخلوق کا سردار + قدوسیوں کا بڑا + فارقلیط = سب سے مراد ہے محمد
٣) ابن آدم جسے آخری زمانے میں آنا ہے + مرد کا بیٹا + نبی آخر الزمان = سب سے مراد ہے محمد
کیونکہ مسیح عورت کا بیٹا ہے اور وہ اپنے بعد آنے والے ایک بڑے رسول کے بارے میں خود بتاتا ہے کہ وہ ’پسر مرد‘ ہے۔ عیسی کی جس معجزانہ انداز میں پیدائش ہوئی اور خود اہل کتاب کا ان کی پیدائش کی بابت جو اعتقاد ہے، اس کے پش نظر عیسی پر ’پسر مرد‘ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً عیسائی تو عیسی کو ’ابن آدم‘ یا ’پسر مرد‘ کیسے کہ سکتے ہیں جب وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ عیسی ’پسر خدا‘ ہے۔ معاذ اﷲ
٤) مسیح = مراد ہے مسیح عیسی بن مریم جو اللہ کے بندے ہیں اور اس کے رسول اور رسالت میں محمد کے بھائی اور انبیاءمیں آپ کے سب سے قریب۔
٥) جھوٹا مسیح (The false Messiah) = مراد ہے مسیح دجال (Anti Christ)
٦) درندہ یا حیوان یا جانور (Beast) = مراد ہے صہیونیت اپنے دونوں پاٹوں (یہودی اور عیسائی انتہا پسند بنیاد پرست) سمیت۔
٧) جھوٹا نبی = مراد ہے پال، اس کے بعد آنے والے پوپ اور ہر وہ شخص جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مسیح ہے یا یہ کہ مسیح اس کے اندر حلول کر گیا ہے، یا یہ کہ اس پر وحی اور کشف ہوتا ہے۔
٨) جوج = مراد ہے یاجوج وماجوج۔
٩) چھوٹا سینگ + بربادی کا منحوس پیش خیمہ (Abomination of Desolation) =
مراد ہے ریاست اسرائیل
٠١) نیا بابل = مراد ہے عصر حاضر کی مغربی تہذیب عموماً اور امریکی ثقافت خصوصاً۔
١١) سلطنت رومائے جدید (The New Roman Empire) = مراد ہے ریاستہائے متحدہ امریکہ (United States of America)
مغرب کا ہر وہ شخص جو حق کا متلاشی ہے اور ایک ایسے حقیقی ایمان اور مذہب کا طلبگار ہے جو واقعی خدا کے ہاں وقعت رکھتا ہے.... ایسے ہر شخص سے ہماری درخواست ہے کہ بائبل کی پیشین گوئیوں کیلئے حل رموز کا جو نسخہ ہم نے اہل کتاب کو ہدیہ کیا ہے، اس حل رموز کی مدد سے اپنی کتاب مقدس کا ذرا ایک بار مطالعہ کرے اور پھر اس کا ذرا ان شروحات سے بھی موازنہ کرلے جو اہل کتاب کے بنیاد پرست ان پیشین گوئیوں کی تفسیر میں پرانے زمانے سے لے کر آج تک لکھتے چلے آئے ہیں اور اس موازنے کی روشنی میں پھر وہ خود نتائج برآمد کرلے۔ دوران مطالعہ، احتیاط کیلئے، اسے ہم صرف ایک اور بات سے متنبہ رہنے کی تاکید کریں گے اور وہ یہ کہ کتاب مقدس کی کس جگہ کوئی عبارت بذات خود بھی تحریف زدہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس میں تحریفات کا سلسلہ قدیم زمانہ سے چلا آرہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)