عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Friday, November 22,2024 | 1446, جُمادى الأولى 19
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
انتفاضہ رجب کیا ’روز غضب‘ کا آغاز تو نہیں!؟
:عنوان

:کیٹیگری
شيخ سلمان العودة :مصنف

انتفاضہ رجب کیا

’روز غضب‘

کا آغاز تو نہیں!؟

اسرائیل کے خاتمہ سے متعلق تورات کی پیشینگوئیوں

کا ایک تجزیاتی مطالعہ (پہلی قسط)

 

تالیف: ڈاکٹر سفر الحوالی

اردو استفادہ: كمال الدين

 

پاکستان میں بیشتر قارئین کیلئے سفر الحوالی کا نام نیا ہے اگرچہ وہ بطور مصنف، خطیب، داعی اور مفکر ایشیاءسے یورپ تک جانے جاتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں انہیں اب تک متعارف نہیں کرایا گیا۔ ان جیسے دیگر مفکرین اور قائدین بھی عرصہ دراز سے اصلاح امت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں جن سے رہنمائی حاصل کرنے میں نہ صرف ہمارے قائدین کی فہرست میں اضافہ ہو گا بلکہ جغرافیائی اور گروہی افکار سے نکل کر عالمی اور امت کی سطح پر آنے کا موقع بھی ملے گا، برسوں سے چھائی مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ برابر مسلمانوں کی اصلاح کے لئے رہنما پیدا کر رہا ہے جو آخرکار دنیا بھر کے مسلمانوں کو اعلائے کلمہ اللہ کیلئے قیادت فراہم کر سکیں گے۔ (انشاءاللہ)

زیر نظر کتاب ’انتفاضہ رجب‘ جس کی پہلی قسط آپ کے سامنے ہے ڈاکٹر سفر الحوالی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔ اس سے پہلے سعودی عرب کی علماءکمیٹی کے نام ان کا خط بعنوان ”وعد کسنجر“ ہفت روزہ ضرب مومن کراچی میں ’مسجد اقصیٰ کی پکار‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

 

انتفاضہ رجب

کیا

’روز غضب‘

کا آغاز تو نہیں!؟

 

مقدمہ:

الحمد ﷲ وحدہ والصلوہ والسلام علی من لا نبی بعدہ، اما بعد

یہ مختصر کتاب ایک نوید مسرت ہے مسلمانان عالم کیلئے بالعموم اور مقبوضہ ارض مقدس کے مستضعفین کیلئے بالخصوص۔

مگر اس نوید مسرت کے براہ راست مخاطب دراصل مسلمان نہیں! مسلمانوں کیلئے تو کتاب اور سنت میں پائی جانے والی بشارتیں ہی کچھ کم نہیں۔ اور کتاب وسنت کے ماسوا اگر کہیں کوئی مستقبل کی پیشین گوئی ہے تو ظاہر ہے وہ مطلق طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتی بلکہ وہ کچھ حدود اور قیود ہی کی پابند سمجھی جائے گی۔ لہٰذا واضح ہو کہ اس پمفلٹ کا مضمون بنیادی طور پر مسلمانوں کا عقیدہ بیان کرنے کیلئے لکھا ہی نہیں گیا.... مبادا کہ اہل کتاب میں سے حتی کہ مسلمانوں میں سے بھی کسی قاری کو یہ گمان ہو....

اس کتاب میں دراصل ایک اور اسلوب اختیار کیا گیا ہے اور وہ ہے اس خاص ذہنیت کو مخاطب کرنے کا اسلوب جو انسانیت کے آج کے بدترین دشمن کے فکر وخیال کی بنیادوں میں راسخ ہے.... میری مراد ہے صہیونیت۔ اور صہیونیت سے بھی میری مراد صہیونیت کے دونوں رخ ہیں.... خواہ وہ یہودی صہیونیت ہو یا نصرانی صہیونیت....

انسانیت کا یہ بدترین دشمن ___ صہیونیت ___ آج پوری دنیا کو توراتی پیش گوئیوں کے سریلے ساز سنانے پر ہی بضد ہے۔ خصوصاً فلسطین کی انتفاضہء ثانیہ (حالیہ انتفاضہء رجب) کے ظہور کے بعد تو پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک ہر جگہ ایک ’مقدس پیش گوئیوں‘ کا ہی زور وشور سے ڈھنڈورا پٹ رہا ہے.... یہ مضمون دراصل اسی ذہنیت کو مخاطب کرنے کیلئے سامنے لایا جا رہا ہے۔

’پیشین گوئیوں“ کا مطالعہ مستقبل بینی کیلئے واقعی ایک اہم مواد کا درجہ رکھتا ہے۔ مگر ’پیشین گوئیوں‘ کا معاملہ بھی ’افکار‘ کے معاملے سے کچھ بہت مختلف نہیں۔ پیشین گوئی کا متن ہو یا پیشین گوئی کا مطلب و مراد، دونوں صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور طبع زاد بھی۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ کرہء ارض کا ہر قاری جسے آج صبح شام صہیونی پیش گوئیوں کی گردان سننے کو ملتی ہے .... ایسا ہر قاری یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اس نہایت اہم موضوع پر صہیونی پراپیگنڈے سے ہٹ کر کسی دوسری رائے سے بھی آگاہ ہو۔

پھر خصوصاً ایک مسلمان قاری کو تو یہ حق بھی ہے کہ وہ اس خونیں جنگ میں شریک دشمن کی ذہنیت کو پوری طرح جانے۔ ایک مسلمان کیلئے مناسب نہیں کہ وہ دشمن کی نفسیات کو جانے اور سمجھے بغیر ہی اس جنگ میں کود پڑے۔ چنانچہ ایک مسلمان قاری کیلئے یہ پمفلٹ دراصل دشمن کی اس ذہنیت کو جاننے اور پڑھنے کیلئے ایک اہم اساسی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔

دشمن کی اس ذہنیت کا مطالعہ ہمیشہ ناگزیر ہوا کرتا ہے جو کہ اس کی عقائدی بنیادوں، اس کی نفسیات اور اس کے عملی رویے کے پیچھے بولتی ہے اور یہ مطالعہ بھی خود دشمن ہی کے علمی مصادر اور اس کے فکری ورثے کو سامنے رکھ کر کیا جانا چاہئے.... ایسا کرکے ہی ہم دشمن کی اس بنیاد سے واقف ہو سکتے ہیں جہاں سے دشمن اپنا مورال بلند کرنے میں مدد لیتا ہے اوراپنے لوگوں کا اپنے اس مشن پر ایمان پختہ کرواتا ہے۔

ایسا کرتے ہوئے دراصل ہم کوئی نیا کام بھی نہیں کرتے۔ یہ دراصل قرآن کے اس منہج کی عملی تطبیق ہو گی جس کی رو سے اہل کتاب پر حجت قائم کرنے اور ان کے جھوٹ اور افتزا کی قلعی کھول کر رکھ دینے کیلئے ہمیں خود انہی کے علمی مصادر سے رجوع کرنے کا سبق دیا گیا ہے۔

قل فآتوا بالتورات فاتلوھا ان کنتم صادقین (آل عمران: ٩٣)

”کہو: تو پھر لے آؤ تورات اور پیش کرو اس کی کوئی عبارت اگر واقعی تم اپنی بات میں سچے ہو“۔

کسی مسئلے کا مبنی برانصاف ہونا اس مسئلے کیلئے لڑنے اور مرنے مرانے کی خاطر مورال بلند رکھنے کی اگر ایک زبردست بنیاد ہے تو پھر تورات ہی آج یہ شہادت دیتی ہے کہ وہ مسئلہ جس کیلئے ایک صہیونی فوجی اپنی جان خطرے میں ڈالتا ہے وہ سراسر ایک ظالمانہ اور غیر عادلانہ مسئلہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ تورات یہ شہادت بھی دیتی ہے کہ اس فوجی کا یہ شرعی فرض ہے کہ وہ مخالف صف میں جا کر شامل ہو اور اس کے ساتھ مل کر اس کے غاصب دشمن کے خلاف لڑے۔ اس وقت ارض مقدس پر آباد کار ہر یہودی پر تورات کی رو سے یہ جان لینا فرض ہے کہ اس یہودی کا اس سرزمین مقدس میں آکر آباد ہونا خود اس کے اپنے دین کی رو سے ایک گناہ ہے اور اس پر اللہ کے عذاب اور اس کے غیظ وغضب کو لے آنے کا باعث۔ لہٰذا خود تورات ہی کی رو سے اس یہودی کا کم از کم یہ فرض ہے کہ وہ یہاں سے کوچ کر لے! اگرچہ ہم مسلمانوں کو اس کے لئے پسند یہی ہے کہ وہ اللہ کی دی ہوئی روشنی سے ہدایت پا لے اور اسلام میں ہمارا بھائی بن کر رہے.... اسلام جو کہ ابراہیم کا راستہ ہے.... ہمیں اس یہودی آباد کار کیلئے بہرحال یہی پسند ہے کہ وہ ہمارے ساتھ اس نعمت میں برابر کا شریک ہوجائے کہ جس طرح اللہ کی نازل کردہ سب کی سب کتابوں اور اس کے بھیجے ہوئے سب کے سب رسولوں پر بلاتفریق وامتیاز ہم ایمان رکھتے ہیں اسی طرح اس نعمت سے وہ بھی محروم نہ رہے!

یہ بھی درست نہیں کہ ایک یہودی آباد کار (تورات میں مذکور) اس قہر کے دن ہی کا انتظار کرے کہ جب وہ دن آئے تو یہ وہاں سے کوچ کرے یا تب جا کر تورات کی اس پیشین گوئی پر یقین کرے.... وہ دن جب آگیا تو پھر واپسی کا راستہ ظاہر ہے نہیں رہے گا اور کیا بعید کہ اس دن کے آنے سے پہلے ہی بہت سوں کی واپسی کا راستہ بند ہو جائے یا حتی کہ بند ہو چکا ہو!

میرا ہر یہودی کو، جو ہماری مقبوضہ سرزمین پر بیٹھا ہے، مخلصانہ مشورہ ہے کہ وہ تورات پر ان پیشہ ور مذہبی کاہنوں کا اجارہ تسلیم نہ کرے جن کو خود تو اسرائیل کی فوجی خدمت کا فرض معاف ہے مگر اس یہدوی کو ان کاہنوں کی من گھڑت توراتی تفسیروں پر عملدرآمد کیلئے اور ان کاہنوں کا آتش جہنم پیٹ بھرنے کی خاطر اپنی جان دینی پڑ رہی ہے۔ میرا ہر یہودی کو مشورہ ہے کہ وہ تورات کی ان نصوص کو ذرا خود پڑھ لے اور انہیں سمجھنے کیلئے خود اپنی عقل اور ہوش کا استعمال کرے۔ تورات کی ان صاف صاف پیش گوئیوں کو کوئی بھی یہودی اگر ان کاہنوں کی شرحوں اور تاویلوں کے بغیر پڑھ لے تو وہ خود اس حقیقت کو بولتا ہوا پائے گا جس کا عنقریب دنیا نظارہ کرنے والی ہے!!

یہ جان لینا ہر یہودی کا حق ہے کہ وہ ہم پر جتنا بھی ظلم ڈھاتا ہے، جتنی بھی ہمارے معصوم بچوں کی جان لیتا ہے، جتنا بھی ہماری فصلیں تباہ اور ہماری بستیاں ویران کرتا ہے.... مگر ہم اس کے ساتھ برتائو کرنے میں صرف اور صرف اپنی عادلانہ شریعت کے پابند ہونگے جو اللہ نے ہماری ہدایت اور فلاح کیلئے ہم پر اتاری ہے۔ یہ نہیں کہ ہم اپنے غیض وغضب کو بجھانے کی کوئی ناجائز کوشش کریں گے.... اور یہ کہ ہم اس کیلئے اور نہ کسی اور انسان کیلئے تباہ اور برباد ہو جانے کی قطعاً کوئی خواہش نہیںرکھتے۔ خود اس کیلئے اور دنیا کے ہر انسان کیلئے ہم صرف خیر اور بھلائی ہی کی خواہش رکھتے ہیں اور یہ آرزو بھی کہ وہ اللہ کو راضی کرکے دنیا اور آخرت میں خوش بخت اور سرخرو ٹھہرے۔

رہا پورا پورا حساب، عادلانہ بدلہ، مکمل انصاف اورپورا قصاص، تو وہ تو قیامت کے روز ہی جا کر ہو گا جب رب العالمین کے سامنے کھڑے ہونا پڑے گا اور وہ ہم سب کا حساب کرے گا.... جہاں ایک ایک نیکی کی جزا ملے گی اور ایک ایک برائی کا بدلہ.... اور جہاں دعوے کوئی کام نہ دیںگے۔

لیس بامانیکم ولا امانی اھل الکتاب من یعمل سوءاً یجزبہ ولا یجدلہ من دون اﷲ ولیا ولا نصیرا (النساء:١٢٣)

”انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلے میں اپنے لئے کوئی حامی و مددگار نہ پا سکے گا“۔

یہ ایک انصاف کی بات ہے جو ہمیں یکطرفہ طور پر قبول ہے اور یکطرفہ طور پر ہی ہم اس کے پابند۔ مگر آرزو مند ہیں کہ دوسرے فریق کو اتنی جرات عطا ہو کہ وہ بھی اس کی پابندی کرے یا کم از کم اس کی کوشش ہی....

سفر الحوالی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فصل اول ........ ............ انتفاضہء رجب

چند ہی سال نہ گزرنے پائے.... گو یہ چند سال بڑے بھاری اور تاریک ثابت ہوئے.... میڈریڈ میں اپنے تئیں فلسطین کا سستا سودا کرے ابھی فارغ نہ ہوئے تھے.... کہ ان کو عجب حال دیکھنا پڑ گیا۔ چند ہی برس بعد زمانے کی آنکھ اور ہی کچھ دیکھنے لگی۔ دل سہمے ہوئے.... آنکھیں پتھرائی ہوئیں.... سانسیں سنبھلنے میں نہیں آرہیں.... ہر نئے اشارے، ہر تازہ خبرا ور ہر ہنگامی واقعے کے ساتھ ہی لبوں کو جنبش ہوتی ہے۔ گھبراہٹ سے پوچھا جاتا ہے مگر سوال پورا نہیں ہو پاتا....

کہاں....؟ کتنے....؟ کون....؟ یہودی....؟ امریکی....؟ تحریک انتفاضہ....؟ شہدائ....؟

خبریں تازہ بہ تازہ پہنچانے کیلئے بہت ترقی یافتہ چینل مصروف خدمت ہیں۔ ہوائوں کے دوش پر یہی خونیں مناظر اب ہر طرف گردش کرنے لگے ہیں۔ مگر ذہنوں کی سکرین پر تو یہ مناظر کچھ زیادہ ہی ثبت ہو کر رہ گئے ہیں۔ امن کانفرنسوں میں تاش کی بازی جیتی جا چکی تھی۔ مگر یہ جیتے ہوئے پتے سب کے سب انتفاضہ کی آگ میں جل کر روشنی دینے لگے ہیں۔ جیتنے والے خود اس غضب اور قہر کی آگ میں بھنے جا رہے ہیں۔ امن کے رکھوالے بھیڑ کے معصوم بچے کو اب اس جرم پر سزا دینے کیلئے تلملا رہے ہیں کہ وہ خونی درندوں اور بھیڑیوں کی چیرہ دستیوں کے آگے امن وسکون کا مظاہرہ کرنے میں کیوں قاصر ہے۔ امن کے یہ رکھوالے فلسطین میں اٹھنے والی آگ کی اس روشنی میں پوری دنیا کے سامنے ننگے ہو کر ذلیل ہونے لگے ہیں!

ہمارے ’بہادر‘ حکمرانوں کے ہوش الگ اڑے ہیں جو کہ آج تک لکڑی ہی کی تلواریں رکھنے کے عادی تھے۔ جب بھی دشمن ان کی قلمرو میں کچھ اور آگے بڑھ آتا تو یہ بڑی تیزی اور چابکدستی سے برف کی سل پر اپنی ان تلواروں کی دھار تیز کرنے میں لگ جایا کرتے تھے۔ مگر اب فلسطین کے بچوں نے ان کی ساری حقیقت آشکار کر دی!

زنجیروں میں جکڑے بے بس ہاتھوں کی بنی ہوئی داؤدی غلیلیں جالوت کے میزائلوں کا مقابلہ کرنے لگی ہیں!

بکتر بند فوجی گاڑیاں پتھروں کے آگے بے بس ہیں۔ ایک ایک نہتہ سینکڑوں مسلح فوجیوں پر بھاری پڑ رہا ہے۔ امریکی ٹیکنالوجی کے جدید ترین شہکار بے اثر ہیں!

اسرائیل کو وحشت اور بربریت کے اس انداز کا سہارا لینا پڑا جو اس کے سب امن پسند دوستوں اور پشت پناہوں کا پول کھول کر رکھ دے۔ امن اور آزادی کے چیمپئن کھسیانے ہو جانے پر مجبور ہیں۔ چھپ چھپا کر اسرائیلی ظلم کا ساتھ دینے کا دور ختم ہوا۔ پوری دنیا میں منہ کالا کرائے بغیر اب یہ کام ہونے کا نہیں۔ وہ جو مسلمانوں اور عربوں کے مفاد کا نام لے کر ہمارے ہاں سے دشمن کے ساتھ ہاتھ ملانے جایا کرتے تھے اب سرمجلس رسوا ہیں!

اسلامی دنیا شرق تا غرب اکٹھی ہو رہی ہے۔ اب یہ کام آپ سے آپ ہو رہا ہے۔ اس بات پر ایسا اتفاق اس سے پہلے یہاںکبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ مسئلے کا حل جہاد ہے!! اب یہ بات ہر زبان پر ہے۔ لیڈر، علمائ، دانشور، اسٹریٹجک ماہرین، عوامی رہنما، منبروں پر کھڑے خطیب، ان پڑھ عوام، پڑھے لکھے خواص.... مرد، عورتیں، بچے سب کہ رہے ہیں کہ اس بدعہد قوم کے ساتھ زبان کی بات کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ سب اعتراف کرتے ہیں کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔

پورا عالم اسلام اس دشمن سے جہاد کی حتمیت پر یک زبان ہے۔ کان اب یہ بات سنتے ہیں تو اس پر تعجب نہیں کرتے۔ جہاد کی بات کانوں سے گزر کر اب دلوں کو چھونے لگی ہے۔ جہاد پر اب کوئی کلام نہیں۔ سوال ہو رہے ہیں تو بس یہی کہ کیسے ہو، کہاں سے ابتداءہو، کس کے ساتھ مل کر ہو اور کب ہو؟ اور یہ بھی کہ یہود کے ساتھ مسلمانوں کی اس جنگ میں حکمرانوں کا محل وقوع کیا ہو اور امریکیوں سے نمٹا جائے تو کیسے؟

اندازہ کیجئے ازہر کا ایک سرکاری مولوی بھی دنیا کے ایک سب سے زیادہ شور اٹھانے والے اور ایک سب سے زیادہ سنے جانے والے سیٹلائٹ چینل پر انٹرویو میں چیخ پڑتا ہے: یہودیوں کے ساتھ بس ایک ہی اصول فائدہ مند ہے: اقتلوھم حیث تقفتموھم یعنی ”جہاں ملیں ان کو مارو“۔

انٹرویو نگار جب اس سے پوچھتا ہے: ”مگر شیخ صاحب کیا آپ کی مراد بالفعل مارنے سے ہے (یعنی کیا آپ جو کہہ رہے ہیں سمجھ کر کہہ رہے ہیں!؟) او رکیا ازہر اس بات پر آپ کا مؤید ہے؟ تو جواب آتا ہے: ’جی ہاں!‘

ہر طرف غم وغصہ ہے۔ یہود کے ساتھ دوستی کا امکان مسترد کرنے کا اظہار طرح طرح سے اور مختلف انداز سے کیا جا رہا ہے!

دیکھی تو سہی آخر ہوا کیا ہے اور ہوا ہے تو کیونکر ہوا ہے؟

’مذاکرات‘ کے راستے میں کچھ عرصہ ایک سراب کا تعاقب ہوتا رہا۔ پھر جب یہ مذاکرات بے ثمر اور بانجھ نکلے۔ ہمارے حکمرانوں اور لیڈروں کی یہود سے بے فائدہ اور بے فیض ملاقاتوں کے سلسلہ ہائے درازاپنے اختتام کو پہنچے تو دنیا کو یہ جاننے کا موقع ملا کہ یہودیوں کے ہاں ’امن‘ کا جو مفہوم ہے اس کی حقیقت اور اصل غرض وغایت کیا ہے۔ تب ایک بحران کا پیدا ہونا یقینی تھا۔ ایک طرف ’امن کی فاختائیں‘ اپنے حقوق سے دستبرداری کا ڈرامہ رچا رہی تھیں تو دوسری طرف کے گدھ زور اور زبردستی میں ہر حد سے گزر جانے کیلئے پر تول رہے تھے اور فلسطین کی حالت وہی ہوا چاہتی تھی جو ایک بکری کی دو بھیڑیوں کے درمیان چیتھڑے اڑنے سے ہوا کرتی ہے۔

”اسرائیل میں چیل اور گدھ ہیں تو فاختائیں بھی بہت ہیں“۔ یہ مژدہ ہمیں اس وقت سننے کو ملا تھا جب انوار السادات اپنے اسرائیل کے منحوس دورے سے پلٹے تھے۔

کمال یہ کہ ہم مسلمانوں میں سے بعض نے اسے سچ بھی مان لیا! آخر کیوں نہ ہو اللہ کی مخلوق میں خاندان اور قبیلے سے لے کر ملکوں اور خطوں تک ہر جگہ.... کسی مسئلے کی دو انتہائوں میں سے کوئی بھی انتہا اپنے پیروکاروں سے کبھی محروم نہیں رہتی! ہر انتہا کو ماننے والے لوگ مل ہی جاتے ہیں!

مگر یہ کہ اس بارے میں دو رائے پائی جائیں کہ یہودیوں کے ساتھ معاملہ کیسے کیا جائے، اس سے عجیب بات البتہ اورکوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ ایک بیان سنتے ہیں تو اس سے آپ یہ اندازہ کر ہی نہیں سکتے کہ آیا یہ بیان یہودی ’فاختائوں‘ نے دیا ہے یا یہ یہودی ’گِدھوں‘ کے ہاں سے صادر ہوا ہے، جب تک آپ کو اس بیان دینے والے کا نام اور پارٹی نہ بتا دی جائے!

آپ دو یہودی لیڈروں کا بیان سنتے ہیں، جن میں سے ایک سیاستدان ہے اور ایک مذہبی کاہن، جس میں وہ فلسطینیوں کو برباد کر دینے کی دھمکی دیتے ہیں اور فلسطینیوں کی باہر سے وطن واپسی کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔ بیان سن کر آپ کے ذہن میں آتا ہے کہ ضرور یہ لیڈر تشدد پسند یہودی پارٹی سے تعلق رکھتے ہونگے۔ لیکن جب آپ کو ان دونوں لیڈروں کے نام بتائے جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتا ہے کہ دونوں اس یہودی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں ’امن کی فاختائیں‘ سمجھا جاتا ہے۔

ایک یہودی ’گدھ‘ کو فلسطینیوں کو نیست ونابود کر دینے کی پکار لگاتے ہوئے جب بھی آپ سنتے ہیں اور ایک یہودی ’فاختہ‘ کو اس سے جب بھی آپ اختلاف کرتے ہوئے پاتے ہیں تو غور کرنے سے آپ پر یہ کھلتا ہے کہ یہ اختلاف محض اس حد تک ہے کہ فلسطینیوں کو نیست ونابود کر دینے کے اس کام کا طریقہ کار کیا ہو اور یہ کام کب ہو!!

میڈریڈ یا اوسلو یا کیمپ ڈیوڈ کانفرنسوں میں اگر ’امن پسند‘ یہودی رہنما شریک رہے ہیں تو اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ واقعی یہ ’فاختائیں‘ ہیں۔ یہ محض وقت کی بات ہے کہ جب وہ امن کانفرنسیں ہو رہی تھیں اس وقت جو بھی اقتدار میں ہوتا اسے ان کانفرنسوں میں منہ دکھائی کا فرض سرانجام دینا ہی تھا، خواہ وہ اس پارٹی سے ہو یا اس پارٹی سے۔

اللہ کی اس مخلوق میں کیا کیا ذہن نہیں پائے جاتے۔ یہودیوں میں امن کی فاختائیں! اس پر یقین کرنے والے بھی ہمارے درمیان باقاعدہ پائے گئے! یہودی پارٹیوں کے مابین آپس میں مقابلہ بازی ہے، یہ درست ہے ایک فریق وہ ہے جنہیں انتہا پسند اور متشدد کہا جاتا ہے۔ دوسرا وہ جنہیں امن پسند فاختائوں کا نام دیا جاتا ہے مگر یہ مقابلہ انہیں یہودی منطق اور یہودی ذہنیت سے باہر نہیں لے جاتا۔ سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں مقابلہ ہے کس بات پر؟ یہ کہ ایک فریق شدت پسندی میں انتہا کر دے تو پھر دوسرا ہیرا پھیری اور ہاتھ کی صفائی میں اپنا کمال دکھائے۔ سو یہ تو ضرور مانا جا سکتا ہے کہ دونوں الگ الگ راستوں پر چلتے ہیں مگر کمال یہ ہے کہ دونوں کے راستے حیرت انگیز حد تک متوازی راستے ہیں! صرف اتنا ہی نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان میں سے ہر کوئی اس سکے کا ہر رخ بن سکتا ہے!

خدا رحمت کرے۔ کسی نے یہ شعر کہا تھا:

ان الیھود ھم الیھود

فلا صقور ولا حمائم

یہودی بس یہودی ہیں

ان میں گدھوں اور فاختائوں کا فرق بے معنی ہے

یہودی جنگ میں ہیں یا امن میں، اصل علت ہر حال میں قائم اور باقی ہے۔ کوئی ان میں سے اقتدار میں ہے یا اپوزیشن میں، عقیدہ وہی ایک یہودی عقیدہ ہے۔ ذہنیت وہی ایک یہودی ذہنیت ہے۔ زمانے اور صدیاں جتنی بھی گزر گئیں، اس عقیدے میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ اس ذہنیت میں۔ کچھ زیادتی ہوئی ہو گی، کمی نہیں۔ اس بدعہد ذہنیت پر تورات کے صحیفے خود شاہد ہیں، جیسا کہ اس کتاب میں آگے چل کر آپ ملاحظہ فرمائیں گے۔

’فاختائوں‘ کو کردار یہ ملا ہے کہ کسی بھی چیز سے دستبردار ہونے میں حیلہ سازی اور مکر وفریب کے کمالات دکھائیں۔ ’گدھوں‘ کو کردار ملا ہے کہ کسی بھی چیز سے دستبردار ہونے سے پوری ڈھٹائی کے ساتھ انکار کر دیا کریں۔ اقتدار میں البتہ یہ دونوں ہی باریاں لیں۔ یہ جب کسی چیز سے دستبردار ہوں تو پتہ چلے کہ وہ کوئی چیز ہی نہیں تھی جس سے دستبردار ہو کر احسان کیا گیا! یہودی ذہنیت اور یہودی خصلت بھلا واضح ہوئے بغیرکیسے رہ سکتی تھی۔ کچھ وقت لگا مگر دونوں چہرے اپنی حقیقت دکھا کر رہے۔ اب بھی یہ انتفاضہ کا بم نہ پھٹتا تو پھر کب اس کا موقعہ تھا!؟

 

اولاً: یہودی دستبرداری کیا تھی؟

’مذاکرات‘ کے ایک طویل اور غیر اختتام پذیر مشن کے بعد، بے شمار واسطے ڈال کر، ادھر ادھر سے کئی سارے فریق ساتھ میں جوڑ کر، ایک ایک مسئلے کو سو سو بار زیر بحث لا کر اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک ایک بال کی کھال ادھیڑ کر فارغ ہو لینے کے بعد.... ایہود باراک نے مسجد اقصی کی بانٹ کے مسئلے پر ایک عجیب وغریب منصوبہ پر رضا یا نیم رضا ظاہر کر دی تھی۔ یہ منصوبہ یہودی چکماباز ذہنیت کا زبردست عکاس ہے۔

منصوبہ یہ تھا کہ مسجد اقصی افقی طور پر بانٹی جائے اور اس کی یہ تقسیم تین سطحوں پر عمل میں آئے:

١ مسجد اقصی اور اس کے احاطہ جات

٢ مسجد واحاطہ جات کے زیر زمین اراضی

٣ اس کے اوپر کی فضائیں

سمجھوتے میں طے پایا کہ مسجد واحاطہ جات کے زیر زمین اراضی پر تو اسرائیل ہی کا اختیار ہو گا۔ کیونکہ ان کے خیال میں مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کے نیچے ان کے نام نہاد ہیکل سلیمانی کے پائے جانے کا امکان ہے۔ رہی مسجد کے اوپر کی فضائیں تو اس کے لئے یہ طے کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ ان پر تصرف کس کا حق ہو گا۔ ان فضائوں میں اڑ سکنے والے طیارے اور ہیلی کاپٹر ایک اسرائیل ہی کے پاس ہوا کرتے ہیں۔ فلسطینی حکومت کو ایسی چیزیں رکھنے کی ظاہر ہے ویسے ہی اجازت نہیں۔ اب یاسرعرفات کی فلسطینی اتھارٹی مسجد اقصیٰ واحاطہ جات کا زیریں حصہ بھی یہودیوں کو دے چکی تھی اور اوپر کی فضائوں سے بھی دستبردار ہو چکی تھی۔ نیچے اور اوپر دونوں جگہوں پر اسرائیل کا حق مانا گیا البتہ درمیان میں اٹکی رہنا فلسطینی حکومت کا حق مانا گیا اور مسجد کی حالیہ بلڈنگ پر فلسطینیوں کی دسترس مانی گئی! فلسطینی اتھارٹی کا کردار اتنا تھا کہ وہ مسجد اور اس کے احاطہ جات کی نگرانی کے فرائض سرانجام دے اور اس فتح پر شہر مقدس کے بس اسی محدود سے حصے میں فلسطینی پرچم لہرانا چاہے تو اس کی بھی اسے اجازت تھی!

ثانیاً: یہ ’دستبرداری‘ بھی کیونکر ہو!؟

اس ’دستبرداری‘ کا ہونا تھا کہ اس پر مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ایہود باراک کے خلاف احتجاج کا ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ اس ’ذلت ناک‘ دستبرداری کی سرعام مذمت ہوئی۔ ہیکل سلیمانی کا نعرہ الاپنے والی انجمنوں اور اداروں نے ___ جن کی تعداد بارہ سے اوپر پہنچتی ہے ___ احتجاج سے آسمان سر پر اٹھا لیا اور مسجد اقصی اور فلسطینیوں کے ساتھ باراک کو بھی تباہ کر دینے کے عزم دہرائے۔

اس بحران میں مزید اشتعال لانے کیلئے واقعہ یہ ہوا کہ یہ امن مذاکرات دراصل عین ’روزہ‘ کے سیزن میں ہوئے تھے اور یہودیوں کا یوم غفران بالکل قریب آرہا تھا۔ بلکہ اس کے قریب قریب دنوں میں ہی ہیکل سلیمانی کی تاریخی برسی بھی آرہی تھی جو کہ یہودی تاریخ میں رومی حکمران ٹیٹس کے ہاتھوں ہیکل سلیمانی مسمار ہونے پر نہایت غم اور افسوس کے ساتھ منائی جاتی ہے۔

یہیں سے حزب مخالف کو موقعہ ملا کہ وہ اس بات میں کوئی کسر نہ چھوڑے کہ ہیکل سلیمانی کی تاریخ میں دشمن ٹیٹس کے ساتھ غدار باراک کے نام کا بھی باقاعدہ ذکر ہونے لگے۔ چنانچہ ایک یہودی حاخام (مذہبی پیشوا) نے اس موقعہ پر بیان دیتے ہوئے کہا:

”ہیکل کی اس برسی پر آج ہم ہیکل کی اس بربادی کو نہیں روتے جو دو ہزار سال قبل ہوئی۔ ہم ہیکل کی اس بربادی کو پیٹ رہے ہیں جو آج ہوئی“۔

یہودیوں کے اس ’نقصان‘ کی تلافی جس شخص کے ہاتھوں ہوئی وہ ہے مشہور خونیں سفاک ایرل شیرون ___ صبرا اور شاتیلا کیمپوں کا ڈریکولا کردار ___ ایریل شیرون کے مسجد اقصیٰ کے منحوس دورے کے ساتھ ہی ایہود بارک کا مسجد اقصیٰ کی بانٹ کا منصوبہ اختتام پذیر .... یا پھر کسی مناسب وقت تک کیلئے التواءکی نذر ہو گیا....!!

اس بارے میں ذرہ بھر شک کی گنجائش نہیں کہ شیرون کے مسجد اقصیٰ میں جا گھسنے کا واقعہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت عمل میں آیا تھا اور اس وقت کی اسرائیلی حکومت کو اس کا پہلے سے علم تھا۔ بلکہ حکومت نے ہی اس منحوس کی نگرانی کرنے کو دوہزار فوجی متعین کئے تھے۔ یہی نہیں بلکہ اس واقعے کا خود فلسطینی اتھارٹی کو بھی پیشگی علم تھا اور عرفات نے اسرائیلیوں سے شرطیہ کہا تھا کہ اس واقع کا شدید عوامی ردعمل ہو گا کیونکہ اسے فلسطینی اشتعال کا پہلے سے اندازہ تھا.... یہ الگ بات کہ یہ ردعمل اس حد تک پہنچے گا، اس بات کا خود عرفات کو بھی اندازہ نہ تھا۔

ہرگاہ کہ مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کو اپنی جان تک سے عزیز ہے، ہر گاہ کہ یہودیوں کی بدمعاشی ایک بردبار سے بردبار انسان کو بھی ردعمل پر مجبور کر دیتی ہے اور ہرگاہ کہ لیڈروں کی بددیانتی کی قیمت ہمیشہ قوموں کو ہی ادا کرنا پڑتی ہے.... غیور مسلمانوں نے خود کو شیرون کا راستہ روکنے پر مجبور پایا۔ یہودیوں نے اس کا جواب اسی وحشت اور درندگی سے دیا جو ہمیں تحریف شدہ تورات اور تلمود میں ملتی ہے.... اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری سرزمین مقدس اس آگ کی لپیٹ میں آگئی۔ حتی کہ عالم اسلام کا کوئی گوشہ بھی اس سے لاتعلق نہ رہا۔ انتفاضہء رجب ایک ایسا طوفان بن گئی جو ہر رکاوٹ کو تہس نہس کرکے رکھ دینے والا اور اپنے راستے کی ہر فصیل سے گزر جانے والا ہے۔ یہ انتفاضہ بہت سی سازشوں کا پردہ چاک کر گئی اور بہت سے راز طشت ازبام۔

یہ سب کچھ جو ہوا دراصل کچھ حقائق کا منہ بولتا ثبوت تھا:

١ یہ کہ دنیا کو اس ظلم اور قہر کا اندازہ ہو جو فلسطینیوں پر روا رکھا جاتا رہا ہے۔ ظلم کا مارا مجبور ہو کر جب اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو پھر اس کا راستہ روکنا کوئی آسان کام نہیں ہوتا۔ انتفاضہ اسی چیز کا نام ہے۔

٢ دنیا کو اس غم وغصے کا بھی اندازہ ہو جسے یہ مسلمان قومیں برسوں سے پیئے بیٹھی ہیں۔

٣ عرب لیڈروں کو بھی اندازہ ہو کہ ان کو کس ذلت آمیز زندگی کیلئے سمجھوتہ کرنا پڑا ہے۔ خصوصاً اب جبکہ یہ کھیل تین فریقوں میں کھیلا جانے لگا تھا:

___ اسرائیل جس کے ھل من مزید کے مطالبے کی کوئی حد نہیں رہ گئی۔

___ عرفات جسے ہینڈز اپ کرنا اور ایک کے بعد ایک حق سے دستبردار ہوتے جانا ہے۔

___ اور امریکہ جو اس کھیل میں کھلاڑی بھی ہے اور اس کھیل کا بددیانت ریفری بھی اور جس کا سب عرب لیڈروں کو حکم ہے کہ جو بتایا جائے بس وہ کرتے جائیں، فلسطینیوں کو اسے قبول کرنے پر مجبور کریں، ان سب منصوبوں کا مالی بوجھ اٹھائیں، میڈیا کی سطح پر ان فیصلوں کو کامیاب کروائیں اور اس کے جو کوئی بھی نتائج نکلنے والے ہوں ان کو اپنی اپنی قوم پر پوری بے دردی سے لاگو کریں اور اس مسئلے کی کسی دینی حساسیت تک کو خاطر میں نہ لائیں۔

بعض عرب لیڈروں نے امریکہ کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ]اذا اردت ان تطاع فامر بما یستطاع[ یعنی ”اگر آپ اپنی منوانا چاہتے ہیں تو اتنا طلب فرمائیے جتنا دے دینا کسی کے بس میں ہو“ مگر امریکہ کوئی پرواہ کئے بغیر اور کسی بھی بات کو خاطر میں لائے بغیر اپنی طاقت کے گھمنڈ میں برابر آگے بڑھتا رہا۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے یورپی اور جاپانی تک محسوس کئے بغیر نہ رہے۔ روس کو تو ظاہر ہے یہ محسوس ہونی ہی تھی جو اس مقابلے میں بہت پہلے اپنا خانہ خراب کرا چکا ہے.... یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے اس متکبرانہ اورحاکمانہ رویے پر دانت سبھی کے پستے ہیں، یہ الگ بات کہ اس بات پر کڑھنے کیلئے ہر کسی کے پاس اپنی الگ جووہات ہیں۔

انتفاضہء رجب کی ایک خاص بات جو دیکھنے میں آرہی ہے وہ یہ کہ اس بار اسلامی اصطلاحات بہت کھل کر اس معرکے کا عنوان بن رہی ہیں۔ اور سب کے سب اب اسی انداز خطاب کو اختیار کرنے پر مجبور یا آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک زبردست پیمانہ ہے یہ جاننے کا کہ اسلامی تحریک اور اسلامی بیداری کا عمل کس قدر زور پکڑ گیا ہے اور یہ کہ قوم پرستی اور لادین نعروں کی تباہ کاریاں سب دیکھ چکے اب اسلام اور اسلامی تحریک ہی ایک واحد اور آخری طریق کار رہ گیا ہے اور یہی ان اقوام کا اب واحد اور آخری سہارا ہے۔

دھیرے دھیرے آخر اس صبح کی سپیدی واضح ہونے ہی لگی ہے جس روزکفر کے سرغنوں اور طاغوتوں پر اللہ کے قہر اور غضب کی آگ بڑھک اٹھنے والی ہے اور اس آگ میں دنیا تخریب اور فساد فی الارض برپا کرنے والے سب لشکروں کو جل کر تباہ ہوتا دیکھے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فصل دوئم ........................مسئلے کا عقائدی پہلو

غیب صرف خدا جانتا ہے مگر وہ اپنی مرضی سے اپنے کسی بندے کو بھی غیب کی کسی بات پر مطلع فرما دیتا ہے۔ خدا کے ایسا کرنے میں اس کی بے پناہ حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں۔

کسی مخلوق کے، غیب کی کسی خبر سے مطلع ہونے کا، سب سے بڑا ذریعہ ’وحی‘ کہلاتا ہے جو کہ انبیاءکے ساتھ خاص ہے، اللہ کا ان سب پر درود وسلام ہو۔ غیب کی خبر کا دوسرا ذریعہ سچا خواب ہے جو کہ انبیاءکے حق میں تو ’وحی‘ ہی ہوتا ہے البتہ دوسروں کے حق میں بشارت (خوش خبری) یا نذارت (بدخبری) کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ دوسرا ذریعہ یعنی سچا خواب ایک مومن کو بھی حاصل ہو سکتا ہے اور ایک کافر کو بھی۔ سچا خواب ایک نیکو کارکو بھی آسکتا ہے اور ایک بدکار کو بھی۔ اس کے بعد کچھ اور ذرائع آتے ہیں مثلاً تحدیث، الہام اور فراست۔

ہر وہ بات جو مستقبل کی پیش گوئی سے تعلق رکھتی ہو، اس کے تعین کیلئے دو چیزیں لازم ہیں:

ایک یہ کہ وہ خبر یا روایت صحیح ہو اور پایہ ثبوت کو پہنچتی ہو۔

دوسری یہ کہ اس کا درست مطلب لیا گیا ہو۔

اقوام عالم کو دیکھا جائے تو ملاحم (یعنی آخری زمانے میں ہونے والی ہولناک اور عظیم ترین جنگیں) اور مستقبل کے ان دیکھے واقعات کا سب سے زیادہ تذکرہ آپ اہل کتاب ہی کے ہاں پائیں گے۔ حتی کہ اہل تاب کے ہاں اس موضوع پر پائی جانے والی روایات کی اس بہتات نے زمانہ قدیم سے مسلمانوں کے ایک گروہ کو بھی مشغول کئے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ علماءاس واقعہ، کہ اہل حجاز وعراق کی بہ نسبت اہل شام ومصر کے ہاں روایت حدیث کم ہوئی ہے، کا یہ سبب بیان کرتے ہیں کہ اہل شام ومصر دراصل ملاحم اور سیر کی روایات میں زیادہ مشغول رہے۔ اس موضوع پر کعب الاحبار سے بہت سے عجائب مروی ہیں، جن کے یہاں ذکر کی گنجائش نہیں۔

ان پیش گوئیوں کی بابت اہل کتاب کا جو مصدر ہے وہ ہے ان کی مقدس کتابیں اور پھر ان کتب میں آنے والی نصوص کی وہ شروحات اور تفسیریں جو ان کے ہاں قدیم سے ہوتی آئی ہیں۔ خصوصاً اہل کتاب کے ہاں رموز اور اعداد پر بہت زیادہ سہارا کیا جاتا ہے اور یہ بات ان کے مقدس صحیفوں اور ان صحیفوں کی شروحات میں بکثرت دیکھنے میں آئی ہے۔

اب چونکہ مستقبل کی تصویر دیکھ لینے کا انسان میں ایک طبعی تجسس پایا جاتا ہے اس لئے اہل کتاب کی تاریخ میں کوئی زمانہ ایسا نہیں رہا جب ان کے ہاں پیشین گوئیوں پر بحث وتمحیص کا سلسلہ کبھی رکنے میں آیا ہو۔ یہ بات صرف ان کی مذہبی اور لاہوتی شخصیات پر ہی موقوف نہ رہی بلکہ سبھی طبقے اس موضوع میں دلچسپی لیتے رہے۔ سیکولر دانشور تک اس انداز فکر سے الگ نہ رہے۔ مشہور سائنسدان بھی آپ کو ’مقدس پیشین گوئیوں‘ پر بحث کرتے نظر آئیں گے۔ ماضی میں اس کی مثال آئزک نیوٹن ہے تو موجودہ دور میں کمپیوٹر، شماریات اور ریاضیات کے بڑے بڑے پروفیسر۔ اس موضوع پر ان لوگوں کی تصنیفات شمار سے باہر ہیں۔ ہمارے مصادر میں آگے چل کر ان کا کچھ تذکرہ بھی آپ دیکھیں گے۔

تاریخ میں چونکہ یہود کا شیرازہ بار بار بکھرتا رہا ہے، یہ بار بار دنیا میں دربدر ہوتے رہے، قید اور جلاوطنی کا کوڑا ان پر ان گنت مرتبہ برسا اور رومانیوں کے ہاتھوں تو ان پر قہر ٹوٹنے کی کوئی حد ہی نہ رہی.... لہٰذا ان تلخ حقائق کو اس ذہنیت کے پیدا کرنے میں شدید طور پر دخل رہا ہے کہ اہل کتاب کے ہاں ایک ’نجات دہندہ‘ کا بکثرت ذکر ہونے لگے، یہاں تک کہ اس کے لئے پیشین گوئیاں گھڑی جانے لگیں یا پھر پہلے سے موجود کسی مذہبی نص کی من پسند تاویل کی جانے لگے۔ اس سلسلے میں ان کے ہاں جو سب سے برا کام ہوا وہ یہ کہ آسمانی کتب میں پائی جانے والی بشارتوں اور پیشین گوئیوں کی کچھ انداز سے تحریف کی جانے لگی کہ یہ بشارتیں اور پیشین گوئیاں کسی نہ کسی طرح بس اسی دور پر فٹ ہو جائیں جس میں ان پیشین گوئیوں کی تفیسر کی جا رہی ہو۔ ہر تفسیر کرنے والے نے اپنے ہی دور اور اپنی قوم کی اسی خاص موجودہ حالت پر ان سب غیبی خبروں کو فٹ کر دینا چاہا جس میں وہ خود آنکھ کھول چکا تھا۔ یہاں سے ان تاویلات اور تفسیرات میں اختلاف اور تعارض کا سلسلہ شروع ہوا۔ غیبی خبروں کو ہر کوئی اپنے انداز سے اور اپنے ہی دور پر فٹ کرنے لگے تو اختلاف اور تعارض کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا۔ تاویلات کا یہ اختلاف اس اختلاف پر مستزاد تھا جو مذاہب اور فرقہ جات کی صورت میں پایا گیا۔ تاویلات کی اس کھینچا تانی میں اکثر نے جو سب سے بڑا جرم کیا وہ یہ کہ نبی آخر الزمان اور آپ کی امت کی بابت پائی جانے والی پیشین گوئیوں کو مسخ اور تحریف زدہ کرکے رکھ دیا گیا۔ دور دراز کی تاویلیں کرکے نبی آخر الزمان سے متعلق پیشین گوئی سے مراد یہود کے اس مسیح منتظر کو قرار دیا گیا جسے ’بادشاہ امن‘ کا نام دیا جاتا ہے.... یا پھر اس سے مراد مطلق مسیح کو قرار دے دیا گیا۔

پھر اس پر بھی مستزاد یہ ہے کہ ایک ہی صحیفے کے متعدد اور مختلف نسخے پائے گئے۔ اور پھر اس پر مستزاد یہ کہ یہ صحیفے ترجمہ در ترجمہ کی بھینٹ چڑھائے گئے۔ جبکہ تفسیرات کی بھرمار اور تاویلات کا انبار ایک الگ درد سر تھا.... نوبت باینجا رسید کہ ان تہ در تہ مسخ شدہ حقائق کو تحریفات اور تاویلات کے اس ملبے تلے سے نکال لانا اب ایک ایسا کام بن گیا جو کسی جان جوکھوں سے کم نہیں، بلکہ یوں کہیے کہ وحی محفوظ (قرآن اور سنت) سے مدد لئے بغیر ناممکن بھی۔

آسمانی صحیفوں میں پائی جانے والی پیشین گوئیوں سے متعلق نصوص کی ہر دور میں مفید مطلب تاویلات کرنے کی جس ڈگر پر اہل کتاب پڑ چکے تھے اس سے ان نصوص پر تاویلات کی اس قدر گرد ڈال دی گئی کہ اہل کتاب اس موضوع پر خود بھی یقین سے محروم ہو گئے۔ اب ان نصوص کی بابت اتنا کچھ کہہ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ خود بھی اب یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اب یہ اپنے ہی پیدا کئے ہوئے اندھیروں میں یوں بھٹک گئے ہیں کہ یقین تک پہنچنے کا ان کے پاس کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا۔ ’سوائے اس ایک یقینی ذریعے کے، جس سے یہ لوگ خائف ہیں!

بہرحال اہل کتاب کے ہاں مستقبل کی جو پیش گوئیاں پائی جاتی ہیں ان کی بابت ہمارا وہی موقف ہے جس کاحکم ہماری شریعت نے ہمیں ان کی عام روایات اور اخبار کے قبول کرنے کی بابت دیا ہے۔ ہماری شریعت کی رو سے اہل کتاب کی روایت کردہ پیشین گوئیاں تین طرح کی ہو سکتی ہیں:

پیشین گوئیوں کی ایک قسم وہ جو قطعی باطل ہے:

یہ وہ پیشین گوئیاں ہیں جو انہوں نے اپنے پاس سے گھڑ لی ہیں، یا نصوص کو ان کے اصل لفظ یا معنی سے ہٹا کر تحریف کر دی ہے۔ مثلاً ان کا یہ دعوی کہ نبی آخر الزمان داؤد کی نسل سے ہو گا اور یہ کہ مسیح موعود یہودی ہو گا یا ان کا اسلام اور رسول اسلام کی بابت پیشین گوئی کو مسخ کر دینا وغیرہ۔ غرض اس قسم میں ان کی وہ تمام پیشین گوئیاں آئی ہیں جو وحی محفوظ (کتاب اور سنت صحیحہ) سے متصادم ہیں۔

پیشین گوئیوں کی دوسری قسم جو قطعی حق ہے:

ایسی پیشین گوئیوں کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

الف) ان کی وہ پیشین گوئیاں جن کی وحی محفوظ نے صراحت کے ساتھ تصدیق کی ہے۔ مثلاً ختم نبوت کی بابت ان کی پیش گوئی، نزول مسیح کے متعلق پیش گوئی، آخری زمانے میں مسیح دجال کے ظاہر ہونے اور اہل کفر واہل ایمان کے مابین ہونے والی ملاحم کبری (بہت بڑی بڑی جنگیں) وغیرہ کی بابت ان کی پیشین گوئی، اس طرح کی پیشین گوئیوں کے سلسلے میں ان اہل کتاب سے کوئی اختلاف ہو سکتا ہے تو وہ ان نصوص کی تفصیل اور تفسیر کی حد تک ہی ہو سکتا ہے۔

ب) اہل کتاب کی وہ پیشین گوئیاں جن کی حقائق اور واقعات سے تصدیق ہو جائے۔

مثلاً امام بخاری مشہور صحابی رسول جریر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں، جریر فرماتے ہیں: میں یمن میں تھا، وہاں دو آدمیوں سے میری ملاقات ہوئی۔ ایک کا نام ذوکلاع تھا اور دوسرے کا ذوعمرو۔ میں ان کو رسول اللہ کے بارے میں بتانے لگا۔ تب ذو عمرو مجھ سے کہنے لگا ”تم اپنے جن صاحب کی بات کر رہے ہو، اگر یہ سچ ہے، تو ان کی اجل کو آئے آج تین روز گزر گئے ہیں“۔ تب یہ دونوں آدمی میرے ساتھ ہو لئے۔ راستے میں ہمیں مدینہ کی طرف سے آنے والا ایک قافلہ دکھائی دیا۔ ہم نے ان سے احوال دریافت کیا تو انہوں نے ہمیں خبر دی کہ رسول اللہ وفات پا گئے ہیں۔ آپ کے بعد ابوبکر کو خلیفہ بنا لیا گیا ہے اور لوگ بخیر وعافیت ہیں۔ تب یہ دونوں مجھ سے کہنے لگے اپنے ان صاحب کو کہہ دینا کہ ہم آئے تھے اور اگر اللہ نے چاہا تو اب پھر کبھی آئیں گے۔ یہ کہہ کر وہ یمن کو لوٹ گئے ۔ میں نے ابوبکر کو وہ بات بتائی۔ ابوبکر کہنے لگے: تم ان کو ہمارے پاس لے کر کیوں نہ آئے؟ اس کے بعد ذوعمرو سے پھر میری ایک ملاقات ہوئی تو وہ مجھ سے کہنے لگا: تمہارا مجھ پر ایک حق اکرام ہے لہٰذا میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں۔ تم عرب لوگ بڑے اچھے رہو گے جب تک تمہارا یہ وطیرہ رہا کہ ایک امیر کے مرنے کے بعد تم مشورے سے ایک دوسرے امیر کو اپنے اوپر مقرر کر لو تاآنکہ لوگ بزور شمشیر بادشاہ بننے لگیں، بادشاہوں کی طرح غضب ناک ہونے لگیں اور بادشاہوں کی طرح ہی ناز اٹھوانے لگیں“۔ [صحیح بخاری، کتاب المغازی (حدیث نمبر ٤٣٥٩ بترتیب فتح الباری)]

پیشین گوئیوں کی تیسری قسم جس کی ہم تصدیق کر سکتے ہیں اور نہ تکذیب:

یہ وہ پیشین گوئیاں ہیں جو پہلی دونوں اقسام میں نہیں آتیں۔ اہل کتاب کی اخبار کی یہی وہ قسم ہے جس پر رسول اللہ کی اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے:

لا تصدقوا اھل الکتاب ولا تکذبوھم (٢)

کہ ”اہل کتاب کی باتوں کی نہ تو تصدیق کرو اور نہ تکذیب“

مثال کے طور پر اہل کتاب کی وہ پیشین گوئی جو ایک آشوری (Assyrian) شخص کی بابت آتی ہے۔ یا وہ پیشین گوئی جو یروشلم کی منحوس تباہی کے پیش خیمہ کے متعلق ہے وغیرہ وغیرہ۔

اور اس بات سے، کہ اہل کتاب کی دی ہوئی ایسی خبر کہ ہم نہ تصدیق کریں اور نہ تکذیب، مراد یہ ہے کہ ہم اسے اعتقاد اور وحی کے درجے میں نہ مانیں۔ البتہ اسے ایک رائے یا ایک ایسی تاریخی روایت کے طور پر لیا جانا ممکن ہے جس کے غلط یا درست ہونے اور جس میں کسی تبدیلی یا اضافہ ہونے کا امکان تسلیم کیا جائے۔ یعنی اس میں ممانعت مطلق اس بات سے نہیں کہ ایسی اخبار کو سرے سے زیر بحث لایا جائے بلکہ اس ممانعت کا مقصد یہ ہے کہ کچھ شروط اور قیود کا تابع رکھ کر ہی ان کو زیر بحث لایا جائے اور ان کو ظن وتخمین اور احتمال کے درجے سے زیادہ حیثیت نہ دی جائے۔

آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ آج تقریباً پوری دنیا ہی جہاں ذرائع ابلاغ کی وساطت سے فلسطین کی سرزمین پر رونما ہونے والے حالیہ واقعات پر نظریں جمائے بیٹھی ہے تو وہیں دوسری طرف امریکہ اور بعض دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کسی اور ہی چیز میں گم ہے۔ یہاں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے بھی زیادہ کسی اور ہی جنس کا بازار گرم ہے۔ یہ پیشین گوئیوں اور کہانتوں (مذہبی ٹامک ٹوئیوں) کا بازار ہے جس میں روز بروز تیزی آرہی ہے۔ اس بازار کی سب سپلائی جہاں سے ہوتی ہے وہ ہے عہد قدیم (اولڈ ٹیسٹامنٹ) اور عہد جدید(نيو ٹیسٹامنٹ)  کے مذہبی صحیفے اور ان کی شروحات۔ اس بازار کے تاجر ہیں بنیاد پرست اور بائبل پر حرف بہ حرف چلنے والے کاھن اور یہاں کے گاہک معاشرے کے تقریباً سبھی طبقے ہیں جو وائٹ ہائوس اور پنٹاگون کے پالیسی سازوں سے لے کر گلی محلے کی سطح تک ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ’مقدس پیشینگوئیوں‘ پر ایمان رکھنے والے یہ طبقے مختلف گروہوں پر مشتمل ہیں:

ان میں سے کوئی مسیح کا منتظر ہے!

کوئی دجال کے نکلنے کا!

کوئی ہر مجدون (Armegadon) کے جنگی سلسلوں کے شروع ہونے کیلئے بے صبرا ہو رہا ہے!

اور کوئی ___ انتفاضہ کے ظہور پذیر ہونے اور امن منصوبے کے بیٹھ جانے کے بعد ___ اب دولت اسرائیل کے خاتمہ کی پیشین گوئی کر رہا ہے!

یہ آخری بات ایسی ہے کہ اس سے ہم کو بھی کچھ سروکار ہے! کیونکہ اسرائیلی اقتدار کا خاتمہ موجودہ حقائق کا سب سے بڑا اور جلد تقاضا ہے اور یہ پیشگوئیوں کی نسبت دراصل واقعات میں شمار ہونے کے زیادہ قابل ہے اور یہ خاص اس غیب سے متعلق نہیں جو قرب قیامت رونما ہونے والے واقعات پر مشتمل ہے اور جس کا علم صرف اللہ کو ہے۔

چنانچہ جہاں تک موجودہ اسرائیلی ریاست کے خاتمہ کا تعلق ہے تو اس کی بابت اہل کتاب کے ہاں پائی جانے والی پیشین گوئیوں پر مبنی نتائج کی روشنی میں جو بات کہی جا سکتی ہے قریب قریب اسی نتیجے تک ایک اسٹریٹجک اور ایک سیکولر مطالعے کی روشنی میں بھی بآسانی پہنچا جا سکتا ہے۔

البتہ ان پیشین گوئیوں میں جو دلچسپ اور فیصلہ کن عنصر پایا جاتا ہے اور جس کا کہ کسی واقعاتی مطالعے کے دوران تعین نہیں ہو سکتا وہ یہ کہ ان توراتی پیشینگوئیوں کی رو سے اس بات کا تعین بھی کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی تباہی کو کل کتنے سال لگیں گے۔ اب جب اس بات کا حوالہ خود ان کے ہی مذہبی صحیفوں سے دیا جائیگا تو پھر تورات اور انجیلوں پر ایمان رکھنے والوں کیلئے یہ بات ایک باقاعدہ عقیدہ کا درجہ رکھے گی نہ کہ محض ایک رائے یا کسی سیاسی مبصر کا اندازہ اور اجتہاد! یہی وہ بات ہے جس سے ہم امید کر سکتے ہیں کہ اہل کتاب کی ایک کثیر تعداد اس حقیقت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے جس کی نقاب کشائی ہم اس کتاب میں کرنے جا رہے ہیں۔

پھر چونکہ صہیونیت کا عیسائی پاٹ موجودہ زمانے کی ایک ایسی تحریک ہے جو انسانیت کیلئے آج سب سے بڑا خطرہ ہے! اور پھر جبکہ وہ اساس جس پر اس تباہ کن تحریک (صہیونی عیسائیوں)کے سب عقائد اور ان کے سب جہنمی منصوبے قائم ہیں وہ دولت اسرائیل کے قیام کی بابت ان (صہیونی عیسائیوں) کے ہاں پائی جانے والی ایک مذہبی پیشین گوئی پر مشتمل ہے اور جس کی رو سے بیت المقدس پر اسرائیلی ریاست کا قیام کروانا، یہ تحریک (صہیونی عیسائی) اپنا مذہبی فریضہ سمجھتی ہے.... لہٰذا دنیا میں آج ہر وہ شخص جو کرہ ارض پر امن اور انصاف کی فرمانروائی ہو جانے کا آرزو مند ہے اس کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی مذہبی پیشین گوئیوں کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرے جو اس وقت دنیا کا امن تباہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ زمین کو امن وانصاف کا گہوراہ بنانے کے خواہشمند ہر انسان پر آج یہ فرض ہے کہ وہ ہر ایسے شخص کی طرف اپنا دست تعاون دراز کرے جو عقلی اور منطقی دلائل کی بنیاد پر ان (صہیونی عیسائیوں) کی ان فکری بنیادوں کا بودا پن ثابت کرے جن پر ان کی یہ بنیاد پرستی قائم ہے۔ ان کی ان فکری بنیادوں کو اس سے پہلے پہلے تہس نہس کر دینا ضروری ہے جب وہ امن عالم کو تہس نہس کر کے رکھ دیں اور ہمارے اس مضطرب زمینی سیارچے کو آگ کا دہکتا ہوا الائو بنا کر رکھ دیں!!

اس خطرے سے دنیا کو جس قدر جلدی جگا دیا جائے اتنا بہتر ہے اور اس مقصد کیلئے ہمیں دنیا کے ہر انسان کا تعاون درکار ہے!

تاریخ کے اس موڑ پر ہم یہاں ایک ایسی نازک واقعاتی صورتحال کے دہانے پر کھڑے ہیں جہاں دنیا کے بہت سے عقلمند یہ خطرہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکے کہ آج یورپ یا روس جیسے ایٹمی ملکوں میں کوئی بھی دہشت گرد تنظیم اگر اقتدار تک پہنچ جاتی ہے تو وہ پوری دنیا کے امن کیلئے ایک بھیانک خطرہ بن سکتی ہے.... جب ایسا ہے تو پھر ہم ایک ایسی بڑی تحریک سے کیونکر غافل رہ سکتے ہیں جو دنیا کے طاقتور ترین ملک کے ایک تہائی عوام کے عقل وذہن کو پوری طرح پنے قبضے میں لے چکی ہے اور اس ملک پر مکمل اقتدار حاصل کرنے کیلئے اپنے پورے جوش وخروش سے آگے بڑھ رہی ہے.... اس تحریک سے پھر کیونکر بے خبر رہا جا سکتا ہے جو اپنی پوری طاقت اور توانائی کو بروئے کار لا کر دنیا کے اس سب سے بڑے دہشت گرد ٹولے کیلئے زیادہ سے زیادہ عوامی تائید حاصل کر رہی ہے جس کا نام ’دولت صہیون‘ ہے!؟؟

ہم امیدوار ہیں کہ امریکہ اور دیگر ممالک کے عقلمند اگر حقائق کو پرکھنے کا اپنا فرض پورا کر لیتے ہیں تو ضرور بضرور وہ ہوش مندی کا رخ کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے اور اس کے نتیجے میں مغربی معاشروں کے بہت سے فریب خوردہ اور بے خبری کے شکار لوگ بیدار ہو سکیں گے۔

مغربی معاشروں پر صہیونی عیسائیوں کے مذہبی مفروضات کا بطلان واضح کرنے اور ان کے مذہبی پیشین گوئیوں کے من گھڑت مفہومات کا پول کھولنے کے اس عمل میں دنیا کے سب لوگوں کے ساتھ اگر ہم تعاون کرتے ہیں تو ایسا کرتے ہوئے ہم اپنے اس فرض کے ادا سے عہدہ برا ہوتے ہیں جو ہمیں سکھاتا ہے کہ باطل کا مقابلہ حق کی قوت سے، جارحیت کا مقابلہ انصاف سے کام لیتے ہوئے اور دہشت گردی کا مقابلہ دلیل کی قوت سے کیا جائے۔ یہ دین اسلام کے بڑے مقاصد میں سے ایک ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں پیغمبر رحمت اور امن وآشتی کے رسول محمد کو مخاطب کرکے کہا ہے:

وما ارسلناک الا رحمہ للعالمین (الانیباء:١٠٧)

”اے محمد! ہم نے جو تم کو بھیجا ہے تو یہ دراصل دنیا والوں کے حق میں ہماری رحمت ہے“۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فصل سوئم ........................ جھوٹے مسیح

امریکہ، جیسا کہ ایڈورڈ سعید کا کہنا ہے، دنیا کے کسی بھی ملک سے زیادہ مذہب میں دلچسپی رکھنے والا ملک ہے۔

امریکہ میں ایک ایسا مذہبی بنیاد پرست طبقہ بھی موجود ہے جسے آپ ہر وقت مسیح کی واپسی کے خیال میں گم دیکھیں گے۔ مسیح کو کسی تاخیر کے بغیر لے آنے کے لئے یہ طبقہ بڑی سے بڑی حماقت کر لینے کیلئے بھی ہر دم تیار رہتا ہے!!

اس سے بڑی حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ ایٹمی اڈوں تک پہنچ کر دنیا کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا جائے؟

اس جنونیت پر مزید کسی دلیل کی کیا ضرورت ہے جب کہ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگ وہاں سینکڑوں اور درجنوں کی تعداد میں خودکشی کرتے ہیں۔ فیڈرل اداروں کو بموں سے اڑاتے جنونی وہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ عوامی آرمی تشکیل دی جاتی ہے اور لڑاکا جتھے تیار کئے جاتے ہیں، سب کچھ اس لئے کہ ’وعدے کا دن‘ قریب آجائے۔

پریشان کن بات یہ ہے کہ گھٹنے کی بجائے دن بدن یہ لوگ بڑھ رہے ہیں۔ کسی دلیل اور منطق سے ہرگز کوئی سروکار نہیں۔ سب سہارا تخیلات اور خوابوں پر ہو رہا ہے۔ روح قدس (ہولي اسپرٹ) سے براہ راست گفتگو ہوتی ہے، جبکہ درحقیقت وہ روح القدس نہیں شیاطین ہوتے ہیں۔

ان میں سے متعدد ایسے پہنچے ہوئے بھی ہیں جو خود ہی مسیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں یا پھر یہ کہتے ہیں مسیح ان میں حلول کر چکا ہے۔ مسیح سے ان کی گفتگو تو روز ہوتی ہے!

ان لوگوں کے عقائد کچھ اس طرح سے ہیں:

١) سلطنت اسرائیل کا قیام نزول مسیح کیلئے ایک ضروری تمہید کا درجہ رکھتا ہے۔

٢) فلسطینوں کے ساتھ صلح اور امن کا منصوبہ خدا کے وعدے کو موخر کرنے کا سبب ہے۔

٣) بیت المقدس سارے کا سارا اسرائیل کے زیر قبضہ ہونا چاہئیے۔

٤) اسرائیل بابرکت ہے۔ جو اس کو برکت دے وہ بابرکت ہے اور جو اس پر لعنت بھیجے یا اس کی دشمنی کرے وہ لعنتی ہے۔

٥) فلسطینی ___ بلکہ عام مسلمان بھی ___ اچھوت، آسمانی مذاہب سے محروم، بت پرست اور یاجوج ماجوج کی قسم سے ہیں۔

٦) خوش بختی کا ہزار سالہ دور (Millanial reign) عنقریب آنے والا ہے لیکن یہ اس کے بعد ہو گا جب مسیح پر ایمان رکھنے والے مسیح کا نزول کروانے کیلئے بادل میں چھپ کر رب سے ملاقات کرنے جائیں گے اور جب سب کے سب کافر بت پرست جنگ ہائے ہر مجدون  میں تباہ ہو جائیں گے۔

یہ کوئی گوشہ نشین قسم کی راہبانہ جماعت بھی نہیں، اگرچہ اس سے پہلے ایسا ہی تھا، یہ لوگ اب سماجی طور پر بہت اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ ہیں۔ ان کے پاس ذرائع ابلاغ کی بے پناہ قوت ہے اور حکومت میں بھی بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

توراتی پیشین گوئیاں اور ان کے ساتھ کاہنوں، نجومیوں اور جنات حاضر کرنے والوں کے پھیلائے ہوئے خیالات ہی ان لوگوں کے عقائد کی اساس ہیں اور انہی چیزوں کی بنیاد پر ان کے سیاسی اور سماجی نظریات قائم ہوتے ہیں۔ تمام انسانی دنیا کے ساتھ ان کے معاملہ کرنے کی نظریاتی بنیادیں بھی یہیں سے لے جاتی ہیں۔

جہاں تک امریکہ کے عقل پرست سیکولر دانشوروں کا تعلق ہے تو ان کو اندازہ ہے کہ ان مذہبی لوگوں کا یہ عجیب وغریب قسم کا انداز فکر تبدیل کر دیا جانا قریب قریب ناممکن ہے۔ کیونکہ اس انداز فکر نے ان کے فکر وذہن کی ساخت تباہ کر دی ہے اور ان کی نفسیات میں بے شمار پیچیدگیاں بیٹھی ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ سیکولر سیاستدانوں کو بھی ان کے ساتھ منافقت کا سہارا لینا پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ رائے عامہ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور دولت اور میڈیا کی دنیا میں بھی اثر ورسوخ رکھتے ہیں!

جہاں تک ہمارے عرب میڈیا کا تعلق ہے تو وہ مغرب میں پائے جانے والے اس طبقے پر بہت کم بات کرتا ہے۔ کیونکہ ہمارے عرب میڈیا کو دراصل عرب دنیا میں ’انتہا پسندی‘ اور ’دہشت گردی‘ کو ختم کرنے کی اتنی فکر ہے کہ مغرب میں پائے جانے والے اس جنونی طبقہ کے بارے میں بات کرنے کا اس کے پاس وقت ہی نہیں۔ وہ لوگ چونکہ مغرب میں پائے جاتے ہیں اور پھر چونکہ مسلمان بھی نہیں لہٰذا وہ جو بھی کریں اور جس طرح بھی سوچیں دہشت گرد نہیں ہو سکتے!!

یہ جنونیت پسند اور سیکولر دانشور دو الگ الگ انتہائوں پر ہیں۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ درمیانی عنصر روز بروز کم ہو رہا ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ یہ درمیانی عنصر سیکولر انتہا کی بجائے ان مذہبی طبقوں کی جانب زیادہ ہو رہا ہے جس کی زیادہ تر وجہ یہ ہے کہ لوگ مادیت کے جہنم سے بہرحال بھاگنا چاہتے ہیں اور مذہب کی جانب آنا ان کی مجبوری ہے مگر مذہب کی طرف آتے ہیں تو آگے یہی طبقہ ان کا استقبال کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت مذہبی بنیاد پرستی اور توہم پرستی روز بروز ترقی کرتی جاررہی ہے۔

قسمت کا کرنا، ان لوگوں کے مزید فتنے میں پڑنے کیلئے اس دور میں کچھ ایسے امور پیش آگئے ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ پائے گئے تھے۔ یقینا اس میں اللہ کی بہت بڑی بڑی حکمتیں کار فرما ہونگی۔ خصوصاً اس سلسلے میں دو چیزیں تو ایسی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک ہی ان کی گمراہی کیلئے بجائے خود کافی ہے۔

پہلی چیز: اس وقت یہودیوں کی ایک بہت بڑی تعداد فلسطین میں جمع ہو چکی ہے۔ جو کہ ظاہر ہے تاریخ میں کبھی اس سے پہلے اکٹھی نہیں ہوئی۔

ہال لینڈسی (Hal Lendsey) اپنی مشہور کتاب ’مرحوم زمینی سیارچہ‘ (The Late Great Planet Earth) میں لکھتا ہے:

”جب اسرائیل کی حکومت ابھی نہیں بنی تھی، تب تو کچھ واضح نہ تھا۔ مگر اب جبکہ یہ واقعہ رونما ہوچکا ہے۔ سیٹی بجنے کیلئے گنتی شروع ہو چکی ہے جس کے ساتھ ہی ان تمام واقعات کو رونما ہو جانا ہے جو مقدس پیش گوئیوں سے متعلق ہیں۔ ان پیشین گوئیوں کی بنا پر پوری دنیا کو اب آئندہ دنوں میں مشرق وسطی، خصوصاً اسرائیل پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر دینا ہو گی۔ (ماخوذ از کتاب حمی ٢٠٠٠ء، ”سن دو ہزار کا بخار صفحہ ١٤٦)

دوسری چیز: یہ کہ عیسائی کیلنڈر کے دو ہزار سال پورے ہونے ے بعد نئے ہزار سالہ (Millanium) کا آغاز بھی انہی دنوں میں ہوا۔ جس کا مطلب ان کے ہاں یہ لیا جاتا ہے کہ یہ موجودہ دنیا کے خاتمے کی ابتداءہے اور ایک نئے جہان میں پیر دھرنے کا آغاز نصرانیوں کے ہاں ایک ’مسیحی ہزار سالہ‘ کا کچھ ایسا تصور پایا جاتا ہے جو قریب قریب ہم مسلمانوں کے ہاں عالم آخرت یا جنت کے حوالے سے پایا جاتا ہے۔

اس نئے ہزار سالہ (Millanium) کو پہنچنے کے جوش میں بیسوی صدی کے آخری دو عشروں میں عیسائی بنیاد پرست غیر معمولی طور پر ہر میدان میں سرگرم رہے ہیں۔ تاہم ان میں سب سے زیادہ سرگرمی تصنیف وتالیف اور ذرائع ابلاغ میں شور شرابے کے میدان میں دیکھی گئی۔ خوش بختی کے ہزار سالہ (ميلينيل ريجن) جس میں نزول مسیح ہونا تھا، کا بے انتہا چرچا کیا گیا۔ آخری زمانے میں جن واقعات کے رونما ہونے اور قیامت کی جن نشانیوں کا ان کے ہاں تذکرہ ہوتا ہے ان سب واقعات کے بہت جلد پیش آنے کی بہت بھونڈی انداز سے توقعات رکھی گئیں۔ ان نشانیوں کے عجیب وغریب اور خوفناک قسم کے مینار بنائے گئے جو سب کے سب ایک ہی مفروضے پر قائم تھے اور وہ یہ کہ ان کے خیال میں یک دم ایسے بڑے بڑے خرق عادت واقعات اور معجزات رونما ہو جائیں گے جن کا بظاہر حالیہ واقعات اور تاریخی تسلسل سے کوئی منطقی ربط نہیں۔

ان کو خیال ہوا کہ موجودہ دور کے حالات میں زمان اور مکان کے لحاض سے موضوعی طور پر خوش بختی کے ہزار سالہ (ميلينيل ريجن) کی نشانیوں کے پوراہونے کا ویسے تو تصور ممکن ہے اور نہ لوگوں کے سامنے اس کی پوری تصویر کشی ممکن ہے لہٰذا کسی ایسے بہت بڑے غیر معمولی حادثے کا بندوبست ہونا چاہئے جو نظام عالم کو درہم برہم کرکے رکھ دے۔ اس بات کا آسان ترین طریقہ ظاہر ہے یہی ہو سکتا تھا کہ کوئی ایٹمی سانحہ ہو جائے جو تہذیب کا خاتمہ کرکے رکھ دے اور دنیا کو ایک ایسی حالت میں لے جائے جو مسیح کے زمانہ اول سے ملتی جلتی ہو اور مسیح کے دوسری بار آنے کیلئے راستہ ہموار کرتی ہو! ان سوچوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ان کو ہر مجدون کے منحوس جنگی سلسلوں (قرب قیامت جن بڑی اور عظیم جنگوں کی پیشین گوئی بائبل میں پائی جاتی ہے) سے تعلق جوڑنے کی سوجھی۔ یہیں سے ان سب باتوں کا سلسلہ ریگن اور نکسن کے ان نعروں سے جوڑ دیا گیا جو وہ مملکت شر (ايول ايمپائر) ’سوویت یونین‘ کو ختم کرنے کیلئے لگاتے رہے تھے۔ چنانچہ اس وقت مفروضہ قائم کیا گیا کہ یاجوج ماجوج دراصل روس ہے۔ پھر جب سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور خلیج کی جنگ کا نیا سیناریو بنا تو ان لوگوں نے مفروضہ قائم کیا کہ وہ آشوری  جس کی بائبل میں پیشین گوئی ہے دراصل صدام حسین ہے اور یاجوج ماجوج عرب ہیں یا عرب، ایرانی اور وہاں کی کچھ دیگر اقوام ہیں اور یہ کہ ایٹمی جنگ ناگزیر ہے!!

اوسلو سمجھوتے کے بعد یہ لوگ بجھ سے گئے۔ بلکہ بہت مضطرب بھی نظر آئے۔ مگر جب دوبارہ انتفاضہ تحریک ابھر کر سامنے آئی تو ان لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ خاص طور پر اس لئے کہ یہ انتفاضہ دراصل سن دو ہزار ہی میں منظر عام پر آئی تھی! یعنی نئے ہزار سالہ کاسر آغاز تھا! یہاں سے ایک ایسی صورتحال وجود میں آئی کہ خود مغرب کے بہت سے دانشور اور محقق بھی اس خدشے سے دل پر ہاتھ دھر کر بیٹھے ہیں کہ ان بنیاد پرستوں میں سے کوئی کسی ایسی حماقت کا ارتکاب نہ کر لے جس کے نتیجے میں ایسے عالمی سانحے رونما ہوں جن کا قابو میں آنا پھر ممکن نہ رہے۔ حتی کہ اسرائیلی حکام بھی اس قسم کے انتہا پسندوں سے بہت خائف ہیں اور یہ امکان پایا جاتا ہے کہ ایسے انتہا پسند اسرائیل میں گھس کر کوئی بھی ایسی حرکت کر سکتے ہیں جس کے بعد معاملات کا قابو میں رہنا ناممکن ہو جائے۔

یہ اندیشہ بھی بہت سے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کو پریشان کئے ہوئے ہے کہ یہ انتہا پسند خفیہ طور پر دنیا کے کسی ایٹمی اڈے تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایسی آگ لگ سکی ہے جو پھر دنیا کے بجھانے کی نہیں!!

یہ معلوم ہو جانا بھی ضروری ہے کہ سن ٢٠٠٠ءکا بخیر وعافیت اور کسی حادثے کے بغیر گزر جانے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ افکار اپنی موت آپ مر گئے ہوں۔ دراصل یہ لوگ ہمیشہ سے اس بات کے عادی رہے ہیں کہ یہ اپنے حساب کتاب میں ’نظر ثانی‘ کر لیا کریں! ان کے ہاں یہ روایت چلی آئی ہے کہ ایسی ہر ناکامی کے بعد یہ لوگ اپنی پیشین گوئیوں پر مبنی واقعات کے رونما ہونے کی بہت جلد ایک نئی ترتیب تشکیل دے لیتے ہیں۔ بہت جلد شیاطین ان کو ایک نئی پٹی پڑھانے لگتے ہیں اور یہ ایک نئی سراب کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ عالم انسانیت کیلئے بہرحال یہ ایک مستقل خطرے کی شکل اپنائے ہوئے ہیں۔

اس یقین کے باوجود کہ ان لوگوں کا عقل ومنطق سے دور نزدیک کا بھی کوئی رشتہ نہیں۔ اس یقین کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے عقلمندوں کو ان کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ان کے پھیلائے ہوئے اوہام اور فرسودہ خیالات کی عقائدی بنیاد کو ختم کرکے رکھ دینا بہرحال لازم ہے۔ اہل کتاب کو اگر اس بات کی ہمت نہیں یا ان میں اس فرض کے ادا کرنے کی اہلیت نہیں تو ہمارے لئے یہ بہرحال جائز نہیں کہ اس فرض کے ادا کرنے میں ہم کوئی بے ہمتی دکھائیں یا کسی نااہلی کا مظاہرہ کریں۔ خصوصاً جبکہ ہمارے پاس وہ وحی ہے جو سوفیصد محفوظ اور ہر آلائش سے پاک ہے اور ہم اس حق کے امین ہیں جو واضح اور جلی ہے اور جس میں اتنی قوت ہے کہ اگر ہم اس کو دنیا کے سامنے لے آئیں تو ضرور اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں پر اس کی ہیبت بٹھا دے گا۔

یہ وہ بات ہے جس کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کو یہ ثابت کرکے دینا کہ موجودہ دولت اسرائیل کا مسیح علیہ السلام سے دور نزدیک کا کوئی بھی تعلق نہیں اور یہ کہ دوسرا ہزار سالہ بھی کسی ایسے نئے واقعے کے بغیر یونہی گزر جائے گا جس طرح اس سے پہلے کی ان گنت صدیاں گزر گئیں.... دنیا کو یہ ثابت کرکے دینا ان لوگوں کے اس شر کا راستہ مسدود کرنا ہے جو اکیلے مسلمانوں کیلئے خطرہ نہیں بلکہ پوری انسانیت کیلئے ایک بھیانک خطرہ ہے۔

اس مقالے کے لکھنے کا ایک سبب دراصل یہی ہے۔ اس کا دوسرا سبب خاص مسلمانوں سے متعلق ہے اور اس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔

ان لوگوں کا کوئی ہم مذہب اگر ہماری اس بات کا یقین کرنے کیلئے تیار نہیں جو ہم نے ان کی پیشین گوئیوں پر مبنی شیطانی افواہوں کے پھیلانے کی بابت یہاں ذکر کی ہے.... تو ہماری اس سے صرف اتنی درخواست ہو گی کہ وہ انجیل متی  کے ٢٣ ویں اور ٢٤ ویں باب کا ذرا ازسرنو مطالعہ کرلے، خصوصاً ان ابواب میں ان نصوص کا مطالعہ کرے جن میں دانیال کی پیش گوئی کا ذکر ہے اور ان نصوص کو خاص توجہ سے پڑھے جن میں مسیح نے جھوٹے مسیحوں اور افواہوں کو عام کرنے والوں سے خبردار کیا ہے جو دانیال کی اس پیشین گوئی کی رو سے جو یروشلم میں منحوس تباہی  کے پیش خیمہ کے وقت پائے جائیں گے۔ ہماری اس بات پر شک کرنے والا ان کا کوئی بھی ہم مذہب انجیل کی یہ نصوص پڑھے اور پھر اپنے آپ ہی سے پوچھے کہ آخر یہ کون لوگ ہیں جن کی پیشین گوئی کی گئی ہے اور ان لوگوں کے بارے میں خود اسی کا موقف کیا ہونا چاہئے!؟

انجیل کی ان نصوص کو پڑھ کر اگر وہ حقیقت پا لے ___ اور جس کی کہ ہم امید کرتے ہیں ___ تو بہتر ورنہ اس کتاب میں ہمارے ساتھ ذرا اور آگے چلے جہاں ہم اس حقیقت کو ابھی اور بھی واضح کریں گے۔


Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز