Download in PDF Format
تاریخ کا اختتام
تالیف:شیخ سلمان العودہ
تلخیص:كمال الدين
یہ عنوان دراصل ایک اور کتاب کے عنوان سے لیا گیا ہے جو کہ امریکہ میں چھپ کر دنیا بھر میں فروخت ہوئی۔ عربی سمیت بہت سی زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوچکا ہے اور بلا شبہ اس کتاب نے دنیا میں ایک شور برپا کردیا ہے۔
اس کتاب کا مصنف فرانسس فوکو یا ما ایک جاپانی نژاد امریکی شہری ہے ۔ عربی میں اس کا ترجمہ ڈاکٹر حسین الشیخ نے کیا ہے۔ اس کتاب کا عربی ترجمہ دارالعلوم العربیہ بیروت سے تقریبا تین سو صفحوں پر مشتمل کتاب کی صورت میں شائع ہوا ہے۔
کتاب کا مرکزی خیال
اس کتاب کا مرکزی خیال، جیسا کہ ایک تبصرہ نگار کہتا ہے ،سیدھا پن کی حد تک سادہ اور سطحی ہے ۔ کتاب میں دیئے گئے خیالات کمیونزم کے شکست و زوال اور تکفین و تدفین پر خوشی کے اظہار کے ساتھ عموماً اس بات کے گرد گھومتے ہیں کہ مغربی ڈیموکریسی جیت چکی ہے۔ اس کی جیت کے ساتھ دراصل امریکہ اور مغرب کی جیت ہوئی ہے۔ دنیا کے پاس مزید انتظار کےلئے اب اور کچھ نہیں رہ گیا۔ دنیا کو جو کچھ ‘نیا‘ دیکھنا تھا وہ دیکھ چکی یعنی مارکسزم کا خاتمہ ، سوویت یونین کا ٹوٹ کر بکھرنا ، اور آزاد لبرل ڈیموکریسی کا دنیا میں چہار و انگ شہرہ۔ یعنی یہ ڈیموکریسی اب مشرقی بلاک کے ان ملکوں میں بھی اپنا لو ہا منوار ہی ہے جو کمیونزم کے نظام میں جکڑے ہوئے تھے۔ چنانچہ اب تاریخ کا دروازہ بند ہوتا ہے آج کے بعد اب اور کچھ ’نیا‘ نہیں ہونے والا۔ اگر کچھ ہوگاتو یہی کہ اسی نظام میں کہیں کہیں معمولی اصلاحات اور تبدیلیاں کی جاتی رہیں!
یہ ہے اس کتاب کا مرکزی خیال ! جس کا اظہار کتاب کے مصنف کے اپنے الفاظ میں یوں ہوتا ہے:
” کوئی بھی آئیڈیالوجی یا نظریہ ایسانہیں جو اس مغربی جمہوری چیلنج کی جگہ لے سکے جس نے دنیا سے اپنا لوہا منوا لیا ہے۔ نہ ملوکیت میں اب اتنی جان ہے ، نہ فاشزم میں ، نہ کمیونزم میں اور نہ کسی اور نظریے میں۔
”یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جو ڈیموکریسی پر ایمان نہیںرکھتے اور نہ اس کو نظام حکومت یا نظام زندگی اور نظام عمل کے طور پر اپناتے ہیں اب وہ لوگ بھی جمہوری زبان کے استعمال پر مجبور ہیں۔ اور چاہے اپنے انحرافات یا اپنی آمریت اور استبداد کووجہ جواز دینے کےلئے ہی سہی ان کو بھی اب عالمی دھارے کا کچھ نہ کچھ ساتھ دینا پڑے گا“
جہاں تک اسلام کا تعلق ہے، تو مصنف اس کے بارے میں قدرے مختلف انداز اختیار کرتا ہے چنانچہ وہ رقم طراز ہے :
اس عمومی رائے سے البتہ ہم اسلام کومستثنیٰ کرسکتے ہیں۔ کیونکہ یہ ایک ہمہ گیر اور ہم آہنگ دین ہے۔ اس نے عالم اسلام کے کئی حصوں میں ڈیموکریسی کو شکست دے رکھی ہے چنانچہ مغربی اور مشرقی بلاکوں میں سر د جنگ کے اختتام پر مغرب کو عراق کے ہاتھوں ایک بہت کھلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے“
چنانچہ مصنف کے خیال میں ’عراقی چیلنج‘ دراصل ایک اسلامی چیلنج کا غماز ہے کیونکہ مشرق وسطی میں یہ اسلامی ترکے کا ایک حصہ ہے۔
تاہم دین اسلام کی بابت مصنف کہتا ہے: ”ایک گونہ عالمی کشش اور قوت رکھنے کے باوجود اس دین کی کشش ان علاقوں سے باہر نہیں جو اسلامی ثقافت کے حامل ہیں۔ چنانچہ مثلاً برلن یا ٹوکیو، یا ماسکو یا واشنگٹن کے نوجوان اسلام کی کشش کے زیر نگین نہیں۔ اگرچہ کہیں کہیں ایسے لوگوں کی ایک چھوٹی تعداد ضرور اسلام قبول کرلیتی ہے جو مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں یا جو نظام موجودہ پر برہم ہوتے ہیں۔
مزید لکھتا ہے: اب یہ ممکن ہوچکا ہے کہ آزادی پسند مغربی افکار کے ساتھ ہم عالم اسلام میں اپنی جگہ بنا سکیں۔ اب ہمیں مسلمانوں میں بہت سے ایسے مددگار مل سکتے ہیں جو مغربی لبرل ازم یا مغربی سیکولرزم کی تائید کریں“
یہ توقع جو مصنف نے اپنی کتاب ” تاریخ کا اختتام“ The End of History میں ظاہرکی ہے ایک خوبصورت خواب يا زیادہ سے زیادہ ہوا تو ایک امکانی توقع سے زیادہ کچھ نہیں ۔
دوسری رائے بھی ممکن ہے!
دوسرے لوگوں کی رائے بلاشبہ اس کے برعکس ہے۔ یہ بات جو مصنف نے کہی ہے اس سے پہلے ہٹلر کہہ چکا ہے جب اس نے’ تیسرے دو ر‘کے بارے میں دعوی کیا تھا اور جو اسکے خیال میں ایک ہزار سال تک جاری رہنے والا تھا! مگر یہ خیال حقیقت سے ٹکرا کر آپ ہی ختم ہوکر رہ گیا ۔
ایسا ہی خیال مار کسزم کا بھی تھا جواپنے پیروکاروں کو اس یوٹو پیا اور اس دنیاوی بہشت کا مژدہ سنارہا تھا جس میں پوری دنیا کو اس کے خیال میں کمیونزم کے سائے تلے متحد ہوجانا تھا۔ مگر ہوا یہ کہ اس کمیونزم کو ستر سال سے زیادہ عمر بھی نصیب نہ ہوئی۔ ستر سال جو کہ ایک عام انسان کےلئے تو مناسب عمر ہے مگر ایک ملک یا ایک امت یا ایک نظریے کےلئے ہرگز نہیں! پھر کمیونزم کی اس ’چار روزہ ‘ زندگی کے عرصے میں بھی مشرقی بلاک کمیونزم کے نیچے ایک گھٹن اور یبوست کی زندگی گزارتا رہا۔ ویسے ہی شفلنجر کی مغرب کے انحطاط کی پیشین گوئی ہے ۔ چنانچہ ان خیالات کی حقیقت ایک وہم یا ایک حسین اور نشہ آور خواب سے زیادہ کچھ نہیں جو اس قسم کے مصنف اور مفکر دیکھ دیکھ کر جامے سے باہر ہورہے ہیں۔اس کتاب نے ایک معرکہ آرا ئی کو جنم دیا ہے اس پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں سینکڑوں اخبار تبصرے کرچکے ہیں۔ بے شمار مصنف، مذہبی راہنما جو کہ بیک وقت سماجی اور سیاسی مفکر بھی ہیں، اس پرلکھ چکے ہیں بہتوں نے اس انتہا پسند امریکی خوش فہمی پر تنقید کی ہے بہتوں کی رائے میں یہ باتیں زیادہ سے زیادہ کمیونزم کی وفات کی خوشی منانے کی ایک کوشش ہے اور کسی علمی نظریے پر قائم نہیں۔
جہاں تک ہمارا خیال ہے تو وہ یہ کہ حقیقت اس بات کے بالکل ہی برعکس ہے جس کا یہ کتاب مژدہ سنارہی ہے۔ ہم مغربی تہذیب کے سقوط کے آثار اپنی آنکھوں سے صاف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک مغربی تہذیب پر آکر تاریخ کا دھارا رک نہیں گیا بلکہ یہ تاریخ کے بے شمار مراحل میں سے بس ایک مرحلہ ہے جسے گزر جانا ہے۔
تاہم اس موضوع پر گفتگو سے پہلے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ ہم دو اہم سوالوں کے جواب تلاش کریں :
یہ موضوع ہمارے لیے کیوں اہم ہے؟
اولاً: یہ موضوع ہمارے زیر بحث اس لیے آیا کہ اس پر بات کرنے کا وقت دراصل آج ہی ہے۔ آج جو شخص بھی مغرب کے خلاف آواز اٹھاتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کلہاڑا اٹھا کر بتوں کو توڑنے جارہا ہو۔ جبکہ ہمارے لیے یہ سنت بابائے ملت ابراہیم علیہ السلام نے صدیوں پہلے قائم کررکھی ہے جنہوں نے از خود کلہاڑا اٹھا کربتوں کو ریزہ ریزہ کردیا تھا۔
چنانچہ آج جو سقوط مغرب کی بات کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جو کسی بت کے حصے بخرے کرکے اس کی پوجا کرنے والوں پر اس بت کی حقیقت واضح کرتا ہے جو کسی بت کے پجاری پر یہ بات واضح کرتا ہے کہ یہ تو محض بے حس و حرکت بت ہے جو نفع یا نقصان پہچانے کی سکت سے عاری ہے۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک خاصی بڑی تعداد ابھی تک مغرب کے طلسم میں گرفتار ہے اور مغرب سے منفرد رہنے کی سکت سے عاری ہے۔
مزید برآں کمیونزم کے دریا بر د ہوجانے کے ساتھ ہی عالم اسلام میں کمیونزم کے تابع رہنے والی حکومتیں بھی دھڑام سے گر گئیں تھیں۔ کمیونسٹ پاریٹاں ، کمیونسٹ مفکر ، کمیونسٹ عناصر سب مغرب کی جھولی میں جا گرے تھے چنانچہ آج ان سب لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہے جنہوں نے اپنا وجود مغرب کے وجود سے وابستہ کرلیا ہے، جن کی سیاست کی سب گرہیں اب مغرب سے کھلتی ہیں، جن کی اقتصاد کی سب تاریں اب مغرب سے ہلتی ہیں، جن کے سب فیصلے مغرب کے فیصلوں کے زیر نگیں بلکہ مغرب کے زیر فرمائش ہوتے ہیں اور جو کہ مغرب سے بھی بڑھ کر مغربی ہیںاور جو کہ عالم اسلام اور اقوام اسلام پر خود مغرب سے بھی بڑھ کر بوجھ بن چکے ہیں ان سب کو ہم اللہ تعالی کا یہ فرمان سنا کر خبردار کردینا چاہتے ہیں۔
فعسی اللہ ان یاتی بالفتح ا و امر من عندہ فیصبحوا علی ما اسروا فی انفسھم نادمین ( المائدہ :٥٢)
مگر بعید نہیں کہ اللہ جب تمہیں فیصلہ کن فتح بخشے گا یا اپنی طرف سے کوئی اور بات ظاہر کرے گا تو یہ لوگ اپنے اس نفاق پر جسے یہ دلوں میں چھپائے ہوئے ہیں نادم ہونگے۔
ان سبھی لوگوں کو ،بلکہ سب مسلمانوں کو خبردار کردینے کی ضرورت ہے کہ انسانیت کے سامنے اللہ کی پناہ میں آجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔ انسانیت کے سامنے اس ’اسلامی حل‘ اور ’اسلامی متبادل‘ میں پناہ پالینے کے سوا کوئی جائے فرار نہیں جو رب العالمین نے واجب ٹھہرایا ہے اور اس سے افراد کےلئے کوئی جائے رفتن ہے اور نہ حکومتوں کےلئے۔
ثانیاً:یہیں سے ایک اور امر کا تذکرہ بھی ضروری ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ روئے زمین پر ایک مسلمان ہی ہیں جو دنیا کو متبادل دینے پر قدرت رکھتے ہیں۔۔ اور وہ اس دین اورمنہج کی صورت میں جو اللہ کے ہاں سے نازل شدہ ہے۔
چنانچہ ایک مسلمان ہی ہیں جو اسلامی عدل کی بنیاد پر اقوام عالم کا ایک نظام قائم کر سکتے ہیں‘ اقتصاد کی الجھی گتھیاں صرف مسلمان سلجھا سکتے ہیں ۔ سود کا شرعی متبادل صرف انہی کے پاس ہے ۔ مشرق اور مغرب کے سب معاشرے جس ہولناک فساد اور انحطاط کا شکار ہوچکے ہیں، اسلام کے پیروکار ہی انہیں اس سے نجات دلاسکتے ہیں۔ خانگی نظام کی تباہی کا حل صرف ان کے پاس ہے۔ نوجوان جس طرح تباہ ہورہے ہیں ان کو راہ راست پر لے آنا صرف اہل اسلام کےلئے ممکن ہے۔ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے پاس وہ نظریہ ہے جوانسان کے قلب و ذہن اور فکر و شعور کو یقین اور اطمینان سے سرشارکرتا ہے اور جس سے انحراف اختیار کرلینے پر انسانی ذہن کرب و اندیشہ اور سرگردانی کا شکار ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
بل کذبو ا بالحق لما جاءہم فہم فی امر مریج(ق:٥)
” بلکہ ان لوگوں نے تو جس وقت حق (خدائی عقیدہ اور ربانی)ان کے پاس آیا اسی وقت اسے صاف جھٹلا دیا۔ حالانکہ اسی وجہ سے اب یہ الجھن میں پڑے ہوئے ہیں“۔
قال اھبطا منھا جمیعا بعضکم لبعض عدو فاما یاتینکم منی ھدی فمن تبع ھدای فلا یضل ولا یشقی۔ ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشت ضنکا ونحشرہ یوم القیامت اعمی(طہ:١٢٣۔١٢٤)
”اور فرمایا تم دونوں(فریق، یعنی انسان اور شيطان) یہاں سے اتر جائو ۔ تم ایک دوسرے کے دشمن رہوگے۔ اب اگر میری طرف سے تمہیں کوئی ہدایت پہنچے تو جو کوئی میری اس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہوگا۔ اور جو میرے ذکر (درس نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کےلئے دنیا میں تنگ زندگی ہوگی اور قیامت کے روز ہم اس اندھا اٹھائیں گے“
مسلمان ان سبھی خزانوں کے مالک ہیں اور انہی کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ان کو عملی طور پر اور واقعاتی انداز میں بھی دنیا کو پیش کرکے دکھائیں اور نظریاتی تحقیقات کی صورت میں بھی ۔ مگر صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں کے اپنے عیوب نے اسلام کے ان سب حسین پہلوئوں کو چھپا رکھا ہے ۔ مسلمانوں کی علمی پسماندگی، دینی غفلت، دعوت الی اللہ کے فریضہ کو طاق نسیاں میں رکھ دینا، آپس میں تفرقہ، اختلاف اورپھر مغرب کے پیچھے چل پڑنا ۔۔۔ ان سب باتوں نے مغرب کو یہ باورکرادیا ہے کہ مسلمانوں کے پاس دنیا کو دینے کےلئے واقعی کچھ نہیں۔ کیونکہ اگر ان کے اپنے پاس کچھ ہوتا تو آج یہ خود فکر مغرب کے ٹکروں پر نہ پل رہے ہوتے اور نہ ہی یہ سر تا پیر مغرب کے مقلد اور مغربی تہذیب کے خوشہ چین ہوتے۔
ثالثاً:ہم یہ موضوع اس لیے بھی اٹھانا چاہتے ہیں کہ ان اسلامی مفادات کا تحفظ ممکن ہوسکے جو کسی وجہ سے مغرب کے ساتھ وابستہ ہیں چاہے وہ مسلمانوں کے اقتصادی مفادات ہوں یا سیاسی یا انتظامی یا ابلاغی یا تعلیمی۔ مسلمانوں کو پور ی طرح اس گڑھے کا ادراک ہو جانا چاہیے جس میں گرنے کےلئے مغرب سر پٹ بھاگ رہا ہے۔ یہ ادراک ہوگا تو ہی وہ مغرب کے ساتھ بھاگتے رہنے یا س کے نرغے میں آئے رہنے سے چھٹکارا پاسکتے ہیں۔
رابعاً:اور پھر آخر میں ہم اس مضمون کواس لیے بھی چھورہے ہیں کہ ہمارے خیال میں یہ اللہ کے اس فرمان کاتقاضا ہے:
ولما رای المومنو ن الا حزاب قالوھذا ماوعد نا اللہ ورسولہ و صدق اللہ ورسولہ ومازادھم الا ایمانا و تسلیما(الاحزاب :٢٢)
”اور سچے مومنوں(کا حال اس وقت یہ تھاکہ) جب انہوں نے حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے کہ یہ وہی چیز ہے جس کا اللہ اور ا س کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اللہ اور اسکے رسول کی بات بالکل سچی تھی“
غزوہء احزاب میں سچے مسلمانوں نے اپنے دین کی حقانیت اور اپنے روشن مستقبل پر یقین کا اظہار یونہی خطرات کی آندھیوں اور اندیشوں کے طوفان کے مد مقابل کھڑے ہوکر کیا تھا۔
ہم بھی پور ے وثوق کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتے ہیں کہ امریکہ بھی خدائی قانون کے نرغے میں اسی طرح آئے گا بلکہ یورپ اور مغرب بھی اسی طرح اللہ کے فطری قانون کی زد میں آئے گا جس طرح اور لوگ اس کی زد میں آتے رہے ہیں اور ایسا بہت جلد ہونے والا ہے۔
اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ’ ایسا جلد ہونے والا ہے’ تواس سے ہمارا یہ مطلب نہیں کہ مغرب کے اوندھا ہو کر گر پڑنے کی خبر سننے کےلئے آپ اپنے ریڈیو کی سوئی گھمانا شروع کردیں۔ قوموں کی زندگی میں سال لمحوں کی طرح گزر ا کرتے ہیں۔
ویستعجلونک بالعذاب ولن یخلف اللہ وعدہ وان یوما عند ربک کالف سنہ مما تعدون(الحج:٤٧)
” یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں۔ اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہیں کریگا،مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہار ے شمار کے ہزار برس کے برابر ہو اکرتا ہے“
چنانچہ اس موضوع کا اٹھایا جانا اہل ایمان کےلئے سکون قلب کا باعث بن سکتا ہے کہ وہ یہ محسوس کرسکیں کہ اللہ کی نصرت آنے والی ہے ،اور یہ کہ وہ قوتیں جنہوں نے اپنے تمام تر وسائل اور صلا حیتیں اسلام اورمسلمانوں کو مٹانے کےلئے فراہم کررکھے ہیں اور جو دنیا میں اسلامی متبادل کے ظہور پذیرہونے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیںاور کسی بھی مسلمان قوم کو خود اختیاری کا حق دینے کےلئے تیار نہیں یہ سب قوتیں بہت جلد اس امت کی راہ سے ہٹ جانے والی ہیں اور بہت جلد اللہ تعالی اہل ایمان کےلئے نصرت و فتح مندی مقدر کردینے والا ہے۔
دوسری اہم بات
اس موضوع کو اٹھانا یقینا ایک دشوار کام ہے جس کے کئی اسباب ہیں:
اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس موضوع سے متعلق مواد بے انتہا ضخیم ہے۔ حتی کہ اس سے متعلقہ مراجع (References)کی تفصیل بھی بہت زیادہ وقت لے سکتی ہے کیونکہ یہاں سینکڑوں کی تعداد میں کتب، ہزاروں کی تعداد میں لیکچرز اور لاکھوں کی تعداد میں ریسرچ پیپرز اور تبصرے دستیاب ہیں بلکہ روزانہ لاکھوں کی تعداد میں خبریں اور رپورٹیں جو مختصر بھی ہوتی ہیں اور بہت طویل بھی، اس موضوع پر دستیاب ہیں ۔ چنانچہ اس اتنے بڑے ’معلوماتی‘ ملبے کے ڈھیر سے کچھ منتخب کرکے اس طرح کے چھوٹے سے رسالے کےلئے کچھ نکالنا خاصا مشکل کام ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے بھی یہ کام دشوار ہے ۔ کیونکہ یہ موضوع ذرا پیچیدہ اور ملاجلا ہے۔ کیونکہ کسی ایک شخص کے وفات پا جانے کی بابت بات کرنا تو بہت آسان ہے مگر ایک بڑے اجتماعی وجود کے زوال پر بات کرنا اور وہ بھی ایک بھاری بھرکم وجود کی بابت، ہر گز کوئی آسان کام نہیں۔
ایک تہذیب یا ایک ملک کا سقوط کسی ایک فرد کے سقوط یاکسی ایک حکومت کا تختہ الٹ جانے کی مانند نہیں ہوا کرتا، جو ایک دن یا ایک ماہ یا ایک سال کے اندر اندر وقوع پذیر ہوجائے۔ قوموں کا زوال ایک آہستہ مگر پیہم عمل ہے اور مغربی قوموں کے اندر جو قوت کے اسباب تاحال موجود ہیں وہ کوئی ایک دم زائل ہوجانے والے نہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے عوامل بھی ہیں جو انحطاط کے عوامل کی مدافعت کی پوری کوشش بھی کرتے ہیں اور عرصہ دراز تک اپنی مدافعت میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ پھر بسا اوقات ان مدافعانہ عوامل کے سبب ایک روبزوال قوم کا زوال کچھ عرصہ تک رکا بھی رہتا ہے بلکہ کچھ زور لگا کر ایک قوم اپنے وجود کا گراف کچھ اوپر بھی لے جاتی ہے مگراس کے باوجود اس قوم کا مجموعی گراف ایک مسلسل سقوط اور پیہم زوال ہی کو ظاہر کررہا ہوتا ہے۔
اس بنا پر کسی ایک فرد کےلئے ہرگز یہ آسان نہیں کہ وہ ان تمام تر عوامل اور موثرات کا پورا پورا جائزہ لے لے اور ان کا باہمی ربط نظر میںرکھتے ہوئے ان تمام معاملات کا تفصیلی تجزیہ بھی کرلے جو بظاہر اس موضوع سے براہ راست متعلق نہیں۔
یہ اس لئے بھی مشکل ہے کہ دراصل یہ ان الٰہی قوانین کی صرف ایک کڑی ہے جو آج تک کافروں اور کافر امتوں پر گزرتے آئے ہیں۔ چنانچہ یہ کیونکر آسان ہوسکتا ہے کہ ایک خدائی معاملے کو ایک علمی اور واقعاتی تجزیے کی صورت میں پیش کردیا جائے جبکہ خدائی معاملات بسا اوقات ایک عام انسان کی عقل اور ادراک سے ماورا ثابت ہو ا کرتے ہیں۔ پھر جبکہ ہمیں درپیش مسئلہ یہ بھی ہو کہ اس موضوع کو اس قدر آسان اور سادہ صورت میں پیش کرنا ہو جو عام مسلمانوں کو سمجھ بھی آجائے!
ظاہر ہے یہ اس موضوع کا ایک دشوار پہلو ہے!
تاہم جوموٹی بات آسانی اور اختصار سے کہی جاسکتی ہے وہ یہ کہ مغرب کی پسپائی آج کاایک بہت بڑا موضوع ہے ۔ اور مغرب کے انسانی قیادت سے پیچھے ہٹتے جانے کا یہ احساس مغرب میں بھی اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح کہ مشرق میں۔ بلکہ یہ اس قدر واضح ہے کہ اب یہ زبان خلق کا موضوع بنا چاہتا ہے۔
فصل اول
مغربی تہذیب کا سقوط ناگزیرہونا اور اس کی متوقع اشکال
اولاً:مغربی تہذیب کا سقوط شرعی اعتبار سے بھی ناگزیر ہے تاریخی اعتبار سے بھی اور طبعی اعتبار سے بھی
ایک وقت تھا جب مغربی طرز زندگی کی جانب دیکھ کر لوگوں کی نظریں خیرہ ہوجایا کرتی تھیں۔ اس کی تہذیب کی طرف یوں دیکھا جاتا تھا جیسے یہ دنیا کی سب سے اعلی تہذیب ہے ۔ اسکی قوت کی جانب یوں دیکھا جاتا تھا جیسے ہمیشہ اسی کو غالب رہنا ہے۔ اور اس کی ترقی یوں لگتی تھی گویا یہ لا زوال ہو۔
یہ وہ وقت تھا جب اس کے سقوط اور انحطاط کی بات تک کی کہیں گنجائش نہ تھی۔ بہت ہی تھوڑے اہل بصیرت تھے جنکی نگاہیں اس کی چکا چوند سے آگے گزر کر اور اس کے فکری حصار سے آزاد ہوکر اس کے پیچھے چھپی حقیقت صاف دیکھ سکتی تھیں۔
سیدقطب کا شما ر بھی انہی اہل بصیرت میں ہوتا ہے جنہوں نے ایک زمانہ پیشتر اپنا مشہو ر عام مقالہ( انتہی دور الرجل الا بیض یعنی ’ گور ے انسان کا دور ختم ہوا‘ ) تحریر کیا تھا اور اس وقت مغربی تہذیب کے قرب انہدام ہونے کااعلان کرتے ہوئے مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش تھی کہ اب آئندہ متبادل وہ بنیں اور اسلام کی صورت میں دنیا کو اس بد بختی سے نجات کےلئے حل پیش کریں۔
ہم بھی یہ دیکھ رہے ہیں کہ مغربی تہذیب کا سقوط ایک ناگزیر حقیقت ہے۔ اور یہ کئی پہلوئوں سے ناگزیر ہے۔
اولاً: یہ شرعی اعتبار سے ناگزیر ہے
حقیقت یہ ہے کہ تاریخ اس سے پہلے کبھی کسی اور کےلئے رکی ہے اور نہ وہ مسٹر فوکو یاما کےلئے رکے گی۔ جہاں تک شریعت کے بیان کردہ حقائق کا تعلق ہے تو اللہ تعالی نے قرآن میں واضح طور پر کہہ رکھا ہے کہ قومو ں اور ملتوں پر دن آتے جاتے اور بدلتے رہتے ہیں ۔
ان یمسسکم قرح فقد مس القوم قرح مثلہ و تلک الایام ندا ولھا بین الناس
(آل عمران:١٤٠)
” اس وقت اگر تمہیں چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔ یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں“
ولولاد فع اللہ الناس بعضھم ببعض لفسدت الارض (البقرہ:٢٥١)
”ا گراس طرح اللہ انسانوں کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے ذریعے سے ہٹاتا نہ رہتا تو زمین کا نظام بگڑ جاتا“
چنانچہ کسی قوم یا ملت پر دن کبھی ایک سے نہیں رہتے ۔ حتی کہ دولت اسلامیہ اور دولت خلافت تک اس سے مستثنی نہیں۔ اس پر بھی رفتہ رفتہ ایسے حالات آئے کہ یہ انحطاط سے دوچار ہوئی۔ اگر اسلامی خلافت بھی اس سے مستثنی نہیں تو پھر مادی سلطنتوں کو دوام کیونکر ہو جو کہ قائم ہی لادینیت پر ہوتی ہیں؟ کیا یہ اسلامی سلطنتوں سے کہیں زیادہ قرین سقوط نہیں!؟
ثانیاً:یہ ایک تاریخی حقیقت ہے
جہاں تک تاریخی پہلو کا تعلق ہے تو تاریخ ساری کی ساری ایک کتاب ہے اور اس میں یہ بات جلی حروف میں درج ہے کہ کوئی قوم لازوال نہیں۔ یہاں امتوں اور قوموں کی پے درپے باریاں بدلتی ہیں۔ اور اللہ کی یہ سنت ہمیشہ سے انسانی تاریخ میں جاری رہی ہے۔ تاریخ ہر کھلی آنکھیں رکھنے والے کےلئے مسلسل یہ گواہی دیئے جارہی ہے ۔ آج تک کسی دولت کی چاہے کتنی قوت اور شان و شوکت رہی ہو، اسکی معیشت کو کتنی بھی ترقی نصیب ہوئی ہو اور اس کی آبادی کی کتنی بھی تعداد ہوئی ہو یہاں کبھی کوئی دولت اور سلطنت ہمیشہ نہ رہی ۔ بلکہ یہی ہوتا رہا ہے کہ کچھ عرصہ تک اس کا سکہ چلا پھر اس کے بعد چاہے وہ عرصہ طویل ہو یامختصر ، وہ دولت صفحہ ہستی تک سے ختم ہوجاتی رہی۔
ثالثاً :یہ ایک طبعی حقیقت بھی ہے
جہاں تک طبعی اور فطری پہلو کا تعلق ہے تو یہ ایک ملحوظ حقیقت ہے کہ انسان ایک بشر خاکی کے طور پر اپنے وجود کا آغاز بہت چھوٹے حجم سے کرتا ہے پھر بڑا ہوتا ہے اور اسکی قوت ترقی کرتی ہے۔ پھر اس پر ادھیڑ عمر آتی ہے اور آخر میں اسے بڑھاپا آلیتا ہے۔ یہی معاملہ یہاں نباتات کے ساتھ ہے اور یہی حیوانات کے ساتھ۔
اگر یہ معاملہ افراد کے ساتھ ہے تو امتیں اور جماعتیں بھی دراصل افراد ہی کا مجموعہ ہیں۔
چنانچہ مغر ب کا لازوال ہونے کا نظریہ اس بنا پر کسی علمی تنقید کا سامنا نہیں کرسکتا۔ او ر اس بنا پر کہا جاسکتا ہے کہ سقوط مغرب کا نظریہ سو فیصددرست ہے۔ اور اس پر لغت ، شریعت، تاریخ و قائع اور فطرت ہر پہلو سے دلیل دی جاسکتی ہے ۔ رہا یہ سوال کہ کیسے اور کب ، تو اس کا علم صر ف اللہ کے پاس ہے۔
مغربی تہذیب کو کونسے امراض لاحق ہیں؟
مختصر یہ کہ دیرینہ اور مہلک امراض کی ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے مغربی وجود کو عموماً اور امریکی وجود کو بطور خاص کھوکھلا کرچھوڑا ہے مثال کے طور پر بدامنی اور خو ف و ہراس ، خاندان کا ختم اور ٹوٹ پھوٹ جانا، نوجوانوں کی سرگردانی اور کم سنوں کی مشکلات، منشیات اور منشیات کا پھیلائو اور اس کے مافیا ، اخلاقی بے راہ روی، جنسی بد فعلی اور سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود غربت کی سطح کا بڑھنا جس کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ غربت زدہ افراد کی تعداد 1978میں آٹھ سو ملین تھی اور اس کے دس سال کے بعد ان کی تعداد دو ارب ہوگئی
چنانچہ اس وقت مغربی تہذیب کے سائے تلے دنیا میں دو ارب انسان ایسے ہیں جو شدید غربت اور افلاس کی حالت سے دو چار ہیں ۔
بلکہ مغرب اور امریکہ کے ترقی یافتہ شہروں تک میں ایسے لوگ پائے جانے لگے ہیں جو فٹ پاتھ پر بسیرا کرتے ہیں اور کوڑے کے ڈھیر سے کھانا حاصل کرتے ہیں ان کی تعداد بھی ملینوںمیں بیان کی جاتی ہے۔
بے روزگاری کا گراف یورپ اور امریکہ میں بھی حیرت انگیز رفتار سے اوپر جارہا ہے۔ جرائم پیشہ گروہ اور مافیا کی تعداد اور اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ چوری چکاری ، اغواءاور قاتلانہ کاروائیاں بھی نیچے آنے کی بجائے بڑھ رہی ہیں۔
انسان سمیت انسان کی کوئی چیز ایسی نہیں جو خریداور فروخت میں نہ آتی ہو۔
پھر جہاں تک افراد کے قرضوں کا تعلق ہے تو امریکہ میں افراد کی اکثریت بینکو ں کی مقروض ہے۔ افرادی قرضے امریکہ میں اس وقت چار اعشاریہ چار ٹریلین ڈالرسے تجاوز کررہے ہیں!
تعلیم کا بیڑہ الگ سے بیٹھ رہا ہے حتی کہ امریکہ میں تعلیمی انحطاط پر ا ب کتابیں لکھی جانے لگی ہیں۔
میڈیا کی تباہ کاریاں اس پر مستزاد ہیں ۔ جاسوسی اور جاسوسی کے رد عمل میں جاسوسی کی لت افراد کو بھی پڑ رہی ہے اور اداروں کو بھی۔
نسل پرستی کے نعرے امریکہ پر الگ سے چھارہے ہیں۔ گورے اور کالے کی کشمکش روز بروز شدت اختیار کررہی ہے ۔ ماحولیاتی آلودگی ایک بھیانک انداز سے مغرب میں بھی ایک وبا کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور آئے روز کے مالی، اخلاقی اور جنسی سکینڈل جو بکنگھم محل سے نکل کر وائٹ ہائوس میں بھی جگہ بنارہے ہیں الگ سے ایک خطرہ ہیں اور فرانس، اٹلی، برطانیہ اور جرمنی تک کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔
غرض مغربی وجود کو جو روگ لگے ہیں ان کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اگرچہ ہر مرض اور روگ ایسا ہے کہ اس پر اختلاف کی پوری گنجائش موجود ہے کہ وہ کس قدر مہلک ہے اور اس کا خطرہ بڑھنے کی ابھی اور کتنی گنجائش ہے مگر اس بات پر بہرحال سب کا اتفاق ہے کہ اندوہناک مسائل اور ناکارہ کردینے والی مشکلات کا ایک انبوہ عظیم ہے جو مغربی زندگی کے مزید ترقی کرنے اورکامیابی سے بڑھتے چلے جانے کی راہ میں رکاوٹ بنتی جارہی ہیں۔ اور ان کے خلاف خبردار کرنے کےلئے ابھی سے مغربی مفکریں کے ہاں سے آوازیں اٹھنا شروع ہوچکی ہیں۔
ثانیاً:مغربی تہذیب کے سقوط کی متوقع شکلیں
مغربی تہذیب یا امریکی تہذیب کے سقوط سے ہماری کیامراد ہے ؟یا یوں کہےے مغربی تہذیب کے سقوط کی متوقع شکلیں کیا کیا ہوسکتی ہیں؟
پہلی متوقع صورت :یہ تہذیب دھڑام سے ایک دم گرے اور انسان ہر قسم کی تمدنی ترقی سے محروم ہوجائے ۔
بعض لوگوں کے خیال میں مغرب کا سقوط یا کہےے امریکہ کا سقوط یا یوں کہیے کہ مغربی تہذیب کا سقوط ایک بہت بڑ امعنی رکھتا ہے۔جس کے نتیجے میں تمام ترتمدنی ترقی کا یک دم خاتمہ ممکن ہے۔ یعنی سب کچھ ختم ہورہے اور انسان ایک بار پھر سے تاریخ کے بالکل ابتدائی مرحلے والی حالت کو جا پہنچے ۔ خود مغربی شخصیات ہی میں ایسے لوگ ہیں جو اس قسم کے امکانات کا اظہار کررہے ہیں اور ان امکانات کی صدائے باز گشت ہم اس قسم کے افکار میں بخوبی پاسکتے ہیں۔
مغربی مفکرین اور فلسفیوں کا خدشہ :
جرمن فلسفی سپیکر ایک کتاب تصنیف کرچکا ہے جو مغربی تہذیب و ترقی کے ایک دم بیٹھ جانے کا خدشہ ظاہر کرتی ہے اور اس صورت میں ایک تاریک مستقبل کی پیشین گوئی کرتی ہے جو مغرب کو اور مغرب کے بعد پوری دنیا کو درپیش ہوسکتا ہے۔
اس کے بعد انگریز مفکر جورج اروین آتا ہے جو مشہور عام کتاب ”دنیا ٨٤ءمیں کیا ہوگی“ کا مصنف ہے اس کتاب میں وہ بہت زیادہ قنوطیت پسند دکھائی دیتا ہے اور بہت برے حالات کی توقع ظاہر کرتا ہے۔ مگر حقیقت اس سے بھی کہیں بھیانک نکلی اور دنیا ٨٤ءکے آنے تک جن حالات سے دوچار ہوچکی تھی وہ اس سے بھی کہیں زیادہ خوفناک، تاریک اور بد صورت تھی جس کا اس انگریز مفکر نے خدشہ ظاہر کر رکھا تھا۔
اس کے بعد ایک اور انگریز فلسفی ہولن ولسن نے بھی مغربی تہذیب و ترقی کے سقوط پر بہت کچھ لکھا ۔ اس پر اس کے تحقیقی مقالات ، کتابیں اور مضامین منظر عام پر آتے رہے ہیں جو سب کے سب اسی بنیادی نکتے کے گرد گھومتے تھے کہ مغربی دنیا کا زوال بہت قریب ہے۔
ماہرین فلکیات کے اندیشے:
دوسری جانب آج کل کے ماہرین فلکیات بھی ہیں جو کائنات کے ڈراؤنے انجام کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں جس کا سبب کبھی سورج کی صرف ہونے والی حرارت اور توانائی میں اضافہ بتایا جاتا ہے یا زمین کے گرد پھیلی حفاظتی اوزون کی تہہ میں پڑنے والے شگاف کا ممکنہ طور پر وسیع ہوتا جانا بتایا جاتا ہے۔ یہ سائنسدان خبردار کررہے ہیں کہ اگر اوزون میں پڑنے والا شگاف اسی رفتار سے وسیع ہوتا رہا جو کہ حالیہ اسباب کی بنا پر ایک خاص شرح سے ہورہا ہے تو یہ تمام تر انسانیت کی تباہی لانے کےلئے یقینی ہے جس کے متعدد نتائج ہونگے جن میں سے ایک یہ ہے کہ زمین کا خشک حصہ سمندرکے پانیوں کی زد میں آجائے اور تمام کے تمام شہران پانیوں میں ڈوب رہیںیوں سمندر ان شہروں اور بستیوں کو ان کے باسیوں اور ترقیوں سمیت نگل جائےں اور فضا اور سارا ماحول ایک شدید آلودگی کا شکار ہوجائے جس کے نتیجے میں جلد کے سرطان جیسے مہلک امراض پھیلیں ۔ غرض اوزون کا شگاف اہل زمین کےلئے ہر لمحہ ایک بڑے اور خوفناک خطرے کا اعلان کررہا ہے۔
طبی ماہرین کا اندیشہ:
طبی ماہرین بھی اس مسئلے کو اسی طرح کی نظر سے دیکھ رہے ہیں اور زمین کے گرد پھیلی آکسیجن(اوزون) کی تہہ میں پڑنے والے شگاف میں بے شمار امراض اور وبائوں کا امکان دیکھ رہے ہیں۔ جس کے اثرات اس وقت نظر آنا اور محسوس ہونا شروع بھی ہوچکے ہیں۔ اور صنعتی عمل کے باعث روز بروز واضح ہورہے ہیں۔ خاص طور پر مغربی ملک اس خطرے کو بہت واضح طور پر دیکھنے لگے ہیں۔
اس کے علاوہ بھی طبی ماہرین اور بہت سے مہلک امراض کے خطر ے کا بگل بجارہے ہیں جو پوری انسانیت پر تباہی لاسکتے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ سرطان سب سے خطرناک اور مہلک ترین مرض سمجھا جاتا تھا مگر اب ایسا نہیں ۔ آج کی دنیا ’ایڈز‘ کو جاننے لگی ہے جس کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کروڑوں تک جا پہنچی ہے۔ پھر ایڈز کے جراثیم لے کر پھرنے والوں کی تعداد تو سینکڑوں ملین تک پہنچتی ہے اور آئندہ سالوں میں ان کی نسبت بہت زیادہ بڑھ جانے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ آج کی طب اپنی تمام تر ترقی کے باوجود اس مرض کے ہوش ربا پھیلائو کو روکنے سے عاجز ہے۔ اور اس کے سدباب کے تمام تر انتظامات کے باوجود یہ انسانوں کی آنے والی نسلیں تباہ کرنے کےلئے بڑھتی جارہی ہے حتی کہ بعید نہیں کہ کرہ ارض پر انسانی وجود کے خاتمے تک کا سبب جانی جائے۔
ماہرین ماحولیات کا اندیشہ:
ماہرین ماحولیات ہمیں اس تصویر کو بڑے حجم میں دکھاتے ہیں جو چرنوبل (سوویت یونین) کے ایٹمی پلانٹ میں تابکاری کی صورت میں دیکھی جاچکی ہے۔ اس ایٹمی پلانٹ سے ایسی شعاعیں خارج ہوتی رہی ہیں کہ جس کے بڑی سطح پر واقع ہوجانے کی صورت میں انسانیت کے لئے تاریخ کا بد ترین سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔
یہ ماہرین ماحولیات سوال کرتے ہیں کہ آج دنیا میں جہاں جہاں ایٹمی پلانٹ اور نیوکلیائی تنصیبات قائم ہیں اگر کہیں وہاں زلزلہ آجائے اور ایٹمی مواد سے تابکاری پھیلنے لگے تو بھلا کیا ہو؟ بلکہ اگر د و ایٹمی ملکوں میں کوئی ایٹمی یا جرثومیائی جنگ ہی ہوجائے جس کا امکان ہر جگہ اور ہر وقت قائم ہے تو بھلا پھر کیا ہو؟
بلکہ اس صورت میں بھی کیا خیال ہے اگر وہ جماعتیں جنہیں یہ دہشت گرد کا نام دیتے ہیں، یا جرائم پیشہ مافیا جات ، یا پھر کوئی تخریب کار گروہ دنیا میں کسی ایٹمی ہتھیار کا مالک بن بیٹھے!؟
اور جہاں تک ایٹمی فضلہ جات کا تعلق ہے اس کا خطرہ تو ہے ہی جو کہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کےلئے ایک شدید خطرے کی صورت اختیارکرچکا ہے۔
اسی لئے ماہرین ماحولیات اس بات سے ڈر رہے ہیں انسانی زندگی کو کسی دن ایک دم اپنا خاتمہ دیکھنا پڑ جائے اور یہ کہ اس صورت میں بس صرف اتنا ہی نہیں ہوگا کہ تہذیب اور ترقی میں خلل اندازی آئے گی بلکہ آج کی صورت حال خود انسانی وجودہی کےلئے ایک خطرہ ہے۔ یا کم سے کم موجودہ تمدنی اور سائنسی ایجادات کا خاتمہ کردینے کےلئے یقینی ہے۔
ماحولیات کے علماء وثوق سے کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں انسانی دنیا بڑی تیزی سے کسی نا گزیر سانحے کی جانب دوڑی جارہی ہے۔
ایک مشہور رومن مصنف لکھتا ہے کہ اگر ایسی صورتحال پیش آجاتی ہے تو تب جا کر نجات دہندگی کی کوئی کوشش ایسی ہی ہوگی جو ایک ایسی کشتی پر سوار چوہوں کے بس میں ہوسکتی ہے جو مائل بہ غرق ہو۔ یہ چوہے کشتی سے بھاگ سکتے ہیں مگر سمندر میں ڈوبے بغیر نہیں رہ سکتے۔ تب ان کے لئے ان دو باتوں میں سے کسی ایک کا چنائو کئے بغیر چارہ نہیں کہ کشتی میں رہ کر جلیں یا سمندر میں ڈوب کر مریں!
اس صورت حال کا شرعی جائزہ:
یہ توقعات اور خیالات جو ظاہر کئے جارہے ہیں ،اور جو کہ ابھی پورے غور سے نہیں سنے جارہے ،مگر یہ باتیں کرنے والے پورے وثوق سے اور بہت زور دے کر کررہے ہیں بطور مسلمان ان کی بابت ہمیں ان پانچ امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
اولاً:یہ سب امور یقینا ممکن الوقوع احتمالات ہیں جو بہر حال ناممکنات میں سے نہیں۔ اور عموماً مغرب کے تجزیہ کار مراکز ہر ممکن الوقوع حادثے کا ایک خاص وزن کرتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے سامنے رکھا جائے اور انہیں بعید از عقل نہ سمجھا جائے۔
ثانیاً:ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس سے پہلے کئی ساری تہذیبیں تمدنی عروج کو پہنچ کر خاک میں مل جاتی رہیں۔ اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی قوموں کا احوال سنایا ہے جنہیں اللہ نے خود زمین میں قوت و شوکت اور تمکنت دی مگر پھر ان کو فنا کرکے رکھ دیا اور ان کی تمام تر قوت اور برتری اللہ کے عذاب کے سامنے کسی کام نہ آسکی اللہ تعالی فرماتا ہے:
فکا ین من قریہ اھلکنا ھا وھی ظالمہ فھی خاویہ علی عروشھا و بئرمعطلہ و قصر مشید (الحج٤٥)
” کتنی ہی خطا کار بستیاں ہیں جن کو ہم نے تباہ کیا اور آج وہ اپنی چھتوں پر الٹی پڑ ی ہیں، کتنے ہی کنویں بیکار اور کتنے ہی قصر کھنڈر بنے ہوئے ہیں“
اس لفظ پر غورکیجئے (فکاین) ”کتنی ہی بستیاں“ یعنی بہت سی بستیوں کو شان وشوکت اور مادی برتری ملتی رہی ہے، جنکی اپنی تہذیب ہو گزری ہے، بلند و بالا محلات رہے ہیں، طاقت اور فتح مندی رہی، تخت افروزیاں ہوئیں مگر پھر وہ اپنی ہی چھتوں پر اوندھی پڑی دیکھی گئیں۔ انکے پن گھٹ ویران پڑے رہے اور ان کے بلند وبالا محلات بوسیدہ اور تاریک پائے گئے۔
قرآن کی پیش کردہ یہ تصویر عقل مندوں کےلئے عبرت ہے جواللہ کی سنتوں اور خدائی قوانین کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ اور اللہ کے بندوں کوچاہے وہ افراد کی صورت میں ہوں، چاہے قوموںکی صورت اور چاہے گروہوں کی صورت میں ان قوانین کا ہی اسیر سمجھتے ہیں۔
ثالثاً:شریعت میں ایسی نصوص اوراحادیث بھی موجود ہیں جن سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ آخری زمانے میں جاکر دنیا ایک بار پھرپرانے دور کی حالت میں واپس آرہے گی اور سفید ہتھیار ایک بار پھر استعمال ہونے لگیں گے۔
چنانچہ صحیح مسلم کی حدیث میں جہاں نبی کریم نے ملاحم کبری (قیامت کے قریب جاکر اور مسیح دجال کے ظاہر ہونے سے پہلے ہونے والی جنگ ہائے عظیم) کا تذکرہ کیا تووہاں آپ نے ان گھوڑ سواروں کا ذکرکیا جو قسطنطنیہ (استنبول) کو فتح کریں گے اور اپنی تلواریں زیتون کے درختوں پہ لٹکائیں گے۔
چنانچہ حدیث نبوی کا اگر ظاہری مطلب لیا جائے تو وہ لوگ گھوڑوں پر سوار ہونگے اور تلواریں اٹھا کر نکلیں گے اور اسی جیسے ہتھیاروں سے جنگ کریں گے۔
اس سے یہ مطلب نکل سکتا ہے____ اگرچہ حقیقی مطلب اللہ ہی بہتر جانتا ہے____ کہ یہ سائنسی اور ماحولیاتی ماہرین آج جس تمدنی تباہی کی توقع ظاہر کررہے ہیں اور جس مغربی ترقی کے خاتمے کا امکان ظاہر کررہے ہیں وہ عین ممکن اور متوقع ہے۔
اگرچہ اس قسم کی احادیث نبوی کی تحقیق کرنے والے بعض اہل علم حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان احادیث میں نبی نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں ضروری نہیں اس سے آپ کی مراد خاص تلواریں یا گھوڑے ہی ہوں بلکہ یہ الفاظ استعمال کرنے سے آپ کا مقصد ہتھیاروں یا سواریوں کےلئے محض و ہ زبان استعمال کرنا ہے جو اس وقت آپ کے مخاطب با آسانی سمجھ سکتے تھے۔
رابعاً:مسلمان بلکہ دوسرے آسمانی مذاہب کے پیروکار بھی، قیامت پر ایمان رکھتے ہیں کہ وہ آنے والی ہے اور کوئی اور سبب ہو یا نہ ہو مگر وہ تو بہر حال دنیوی زندگی اور پورے دنیوی نظام کا خاتمہ ہوگی اور لوگوں کو کسی دوسری دنیا میں لے جائے گی جو کہ جزاءو حساب کی دنیا ہوگی۔ چنانچہ ان تہذیبوں اور تمدنی ترقی کی سب صورتوں کا خاتمہ قیامت کی صورت میں ہونا بہرحال یقینی ہے۔
خامساً:امریکہ عالمی منظر نامے پر ایک غیر معمولی سرعت سے ظہور پذیر ہوا ہے۔ بطور عالمی طاقت اورعالمی قیادت امریکہ صرف دوسری عالمی جنگ کے بعد جانا جانے لگاہے۔ یعنی اس لحاظ سے اس کی عمر ابھی پچاس سال سے زیادہ نہیںبنتی جس کے دوران یہ عالمی پولیس مین بن بیٹھا ہے۔
اس دوران چونکہ مغرب بھی کمیونزم کے دہانے پر کھڑا تھا اور کمیونزم مشرقی یورپ کے بڑے حصے پر اپنا تسلط بھی جما چکا تھا اس لیے مغرب کو بھی امریکہ کے پیچھے پناہ لینی پڑی اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھا کر دنیا میں اس کا طوطی بولنے لگا۔ مگر کمیونزم کے پیچھے چلے جانے کے بعد خود مغرب بھی امریکی برتری سے جان چھڑانے کےلئے اب پر تولنے لگا ہے۔ یورپ کا اتحاد قائم ہونا اور واضح طور پر امریکی مفادات سے ٹکرائو اس کی ایک سادہ دلیل ہے ۔ یورپی اتحاد کے علاوہ بھی ہرایک ملک کی خاموش مفادات کی جنگ امریکہ سے چل ہی رہی ہے۔ اس سے نہ برطانیہ مستثنیٰ ہے نہ جرمنی اورفرانس اور نہ ہی چین ، جاپان اور کئی اورمما لک ۔
چنانچہ یہ واقعہ ہے کہ امریکہ ایک غیر معمولی تیزی سے اوپرآیا ہے۔اس لیے یہ حیرت انگیز نہ ہوگا کہ امریکہ نیچے بھی اسی تیزی سے جائے۔۔۔ جیسا کہ بعض تحقیقات اور تجزیے یہ امکان ظاہر کر بھی رہے ہیں۔
الغرض مغربی دنیا کے سقوط کی یہ بھی ایک صورت ہے جس کی توقع خود وہاں کے ماہرین بھی کررہے ہیں ۔یہ سقوط جیسا کہ ظاہر ہے دیر ینہ اور کڑی در کڑی اسباب کی بدولت ایک دم ہوسکتا ہے۔ او ر سب کچھ دفعتاً تباہ و برباد ہوسکتا ہے ۔اس صورت میں یہ تو یقینی ہے کہ سب کے سب تمدنی انتظامات اور سائنسی ایجادات سے دنیا محروم ہورہے۔
ضروری وضاحت
مگر یہ واضح رہے کہ ہم جب سقوط مغرب کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد حقیقت میں ایسا سقوط نہیں کہ سب تمدنی ترقی بھی ختم ہورہے۔ نہ ہم ایسے سقوط پر کوئی خوشی محسوس کرسکتے ہیں اور نہ دنیا کے ایسے سقوط کی ہمیں کوئی تمنا ہوسکتی ہے۔ کیونکہ آج کی سائنسی اور تمدنی ترقی اکیلے مغرب کا کارنامہ ہرگز نہیں۔ آج کی یہ سائنسی ترقی دراصل مرحلہ در مرحلہ انسانی کوشش کا ارتقا ہے۔ اس میں بے شمار قوموں کی جان کھپی ہے اور اس کے عروج میں بے شمار تہذیبوں کا حصہ ہے جو منصہ عالم پر یکے بعد دیگرے ظہور پذیر ہوتی رہیں۔ بلا شبہ اس میں مسلمان قومیں اور تہذیبیں بھی نمایاںطور پر ایک بہت بڑا حصہ ڈال چکی ہیں۔ اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانیت کا یہ مشترکہ ورثہ ہے اور آج کی سب قوموں کا یہ ایک مشترکہ مفاد ہے جس کا باقی رہنا سب کےلئے بہتر ہے۔
دوسری صورت :
مغرب کو آپ اپنی پڑ جائے اور وہ خارجی دنیا سے اپنا ہاتھ روک لے
سقو ط مغرب کی دوسری صورت، جس کا کہ مغرب میںبہت سے ماہرین سیاست خدشہ بھی ظاہر کررہے ہیں ،یہ ہے کہ عالم مغرب پر اپنی ہی افتاد آپڑے، جس سے وہ اپنے اندر بند ہوجائے اور اسے اپنے ہی مسائل اور مشکلات حال سے بے حال کردیں۔ جس سے مغرب کو باقی دنیا میں دخل اندازی کرنا بھول جائے۔
یہ خدشہ امریکی اہل سیاست میں باقاعدہ ایک فکر اور نظریے کی شکل دھارتا جارہا ہے جس کی بنا ءپر وہاں یہ باقاعدہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں دخل اندازی نہ کی جائے اور اپنی نبیڑنے کےلئے زیادہ کوششیں صرف کی جائیں۔ اور یہ کہ اس وقت امریکہ کے دنیا سے تعلق کی جو نوعیت ہے اور جس کی وجہ سے ہر طرف دخل اندازی اور فوج کشی اور امدادوں کی فراہمی کی ضرورت پیش آرہی ہے یہ ایک بڑی اقتصادی ابتری کا پیش خیمہ بن سکتی ہے اس لیے امریکہ کو بیرونی معاملات میں دخل اندازی کی روش میں کمی لانی چاہیے۔
اور تو اور مغربی ڈیموکریسی کی بعض اشکال ہی بعض ماہرین سیاست کو امریکہ کی سلامتی کے لیے ایک خطرہ بنتا دکھائی دے رہی ہیں۔ چنانچہ امریکہ کے قومی سلامتی کے ایک سابقہ مشیر برزنسکی نے اےک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے ’برتری کے دائرے سے باہر‘ برزنسکی اس کتاب میں لکھتا ہے :
” کمیونزم کے بعد وجود میں آنے والی دنیا ایک خطرناک دنیا ہے ۔یہ ایک پریشان اور کشیدہ دنیا ہے۔ ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم ان خطرات کا ادراک کرلیں جو مغربی ڈیمو کریسی سے جنم لے سکتے ہیں۔ کیونکہ امریکہ میں ایک طرح کی بے قید اور مادر پدر آزاد روش پیدا ہوگی۔ جہاں ہر بات جائز ہوگی اور ہر چیز کی اجازت ۔جس کے نتیجے میں افراد کے مفادات آپس میں ٹکرا ئیں گے اور یہ صورتحال شخصی انانیت میں بہت بڑے اضافے کا باعث بنے گی اور اس سے معاشرے میںٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی بڑھے گا اور ایک بڑے خطرے کی گنجائش بھی“
برزنسکی کے الفاظ میں یہ ایک ایسی دنیا ہے جو کمیونزم کے فلاپ ہوجانے کے بعد بری طرح جوش کھارہی ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ یعنی یہ شخض برزنسکی نے لگ بھگ ١٩٨٧ہی میں کمیونزم کے سقوط کی پیشین گوئی کردی تھی جیسا کہ اس کی کتاب ”سقوط عظیم“ سے ظاہر ہوتا ہے۔
چنانچہ اس انداز کی سیاسی اور اقتصادی تحقیقات یہ توقع ظاہر کررہی ہیں برطانیہ کی طرح امریکہ کو بھی عالمی بساط سے سمٹ آنا ہوگا۔ کیونکہ کچھ ہی دیر پہلے برطانیہ پر ایسا وقت ہو گزرا ہے جب لوگوں کے بقول اس پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔ مگر کچھ عرصے میں اپنی سب کالونیاں اور اپنے زیر نگین ملکوں کو چھوڑ چھاڑ کر اپنے گھر آبیٹھنا پڑا۔ اگرچہ برطانیہ اپنی سائنسی اور فوجی طاقت کو بچا رکھنے میں بڑی حد تک کامیاب ہی رہا، اور دنیا میں اپنی سیاسی برتری بھی اس نے پوری طرح نہیں کھودی۔ ایسا ہی امریکہ کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے اور فی الحال اتنا بھی کافی ہے۔ کیونکہ اس سے مسلمانوں کو اپنے کارڈ کھیلنے کا موقعہ تو کم از کم مل سکتا ہے۔ وہ اپنے معاملات کو ایک نئے سرے سے ترتیب دینے کا وقت پاسکتے ہیں۔ اپنے مفادات کا تعین کرسکتے ہیں اور یہ بھی فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ کس کے ساتھ کیسا معاملہ کریں توان کے استحکام کےلئے اور ان کی معاشی اور سماجی ترقی کےلئے بہتر رہ سکتا ہے۔
تیسری صورت :
یہ کہ مغربی تہذیب تہذیبوں کی کشمکش میں ہار جائے
مغربی تہذیب کے خاتمہ کی بابت مغر ب میں ہونے والی تحقیقات اور تجزیوں میں ایک تیسری روش بھی پائی جاتی ہے جسے تہذیبی کشمکش کے نظریے کا نام دیا جاتا ہے۔ کبھی اسے تہذیبوں کی کشمکش کہاجاتا ہے اور کبھی تہذیبوں کی جنگ۔ یہ کبھی کھل کر سامنے آتی ہے تو کبھی خفیہ اندا ز سے اور غیر اعلانیہ طور پر مختلف تہذیبوں کے مابین جاری رہتی ہے۔ یہ نقطہ نظر مشہور زمانہ کتاب ”تہذیبوں کا تصادم “ مصنفہ سموئیل منگ ٹنگٹن میں پیش کیا گیا ہے ۔ اس کا مصنف اعتقاد رکھتا ہے کہ مختلف تہذیبوں میں عنقریب ایک کشمکش شدت اختیار کرجائے گی اور اس مقابلے کےلئے وہ مغربی تہذیب کے علاوہ دنیا کی چھ تہذیبوں کو نامز د کرتا ہے
١۔ کنفوشس (چینی)
٢۔ جاپانی
٣۔ اسلامی
٤۔ انڈین
٥۔ سلاوی آرتھوڈکس
٦۔ لاطینی امریکی
تہذیبوں کی اس جنگ کےلئے پھر ان تہذیبوں میں سے بھی مستقل قریب میںوہ پہلے نمبر پر اسلامی اور چینی تہذیب کو نامزد کرتا ہے چنانچہ وہ ان دو تہذیبوں کو مغربی تہذیب کےلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔
اپنے موقف کی تائید میں مولف نے دلائل اور شواہد کی بھر مار کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی پوری کوشش کی ہے کہ اب تہذیبی کشمکش کی باری ہے اور یہ کہ آج مغرب کی راہ میںعالمی طور پر سب سے بڑا خطرہ اسلامی تہذیب ہے یا چینی۔
مصنف اس توقع کا اظہار بھی کرتا ہے کہ مسلمانوں اور چینیوں میں ایک طرح کا تعاون ہونا بھی ممکن ہے اور برملا کہتا ہے کہ یہ مغربی تہذیب، مغربی اقدار اور مغربی مفادات کے لئے ایک کھلا خطرہ ہے۔
چنانچہ یہ تحقیق (تہذیبوں کا تصادم)تہذیبوں کی کشمکش میں دین اور مذہب کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصنف عرب یہود کشمکش کو دو ادیان یعنی اسلام اور یہودیت کی جنگ قرار دیتا ہے۔ اسی طرح وہ سوویت جمہوریاؤں کی کشمکش کو بھی دینی کشمکش قرار دیتا ہے۔
الغرض تہذیبوں کی کشمکش بہر حال موجود ہے ۔اس کشمکش کی ہزار شکلیں ہیںاور ہزار میدان۔ کہیں فکری جنگ ہے ، کہیں دینی اور عقائد ی ٹکرائو ہے ، کہیں علمی جنگ ہے ، کہیں سیاسی تو کہیں معاشی۔ اور یہ سب کچھ ایک ہمہ گیر قسم کی تہذیبی کشمکش کی مختلف صورتیں ہیں۔
تہذیبی جنگ کے ممکنہ نتائج
اس تہذیبی کشمکش کے نتیجے میں ہمارے سامنے جوممکنہ یا مفروضہ صورتیں پیش آسکتی ہیں وہ یہ ہیں:
٭ایک صورت یہ ہے کہ پوری دنیا میں مغربیانے کا عمل آخری حدتک کامیاب ہوجائے یعنی پوری دنیا مکمل پور پر مغرب کی ایک نقل ہو۔ مغرب کے نظریات ، مغرب کے افکار، مغرب کی اقدار، مغرب کی اخلاقیات ، اور مغرب کارہن سہن اور تمدن پوری دنیا کا اور دنیاکے ایک ایک شخص کا مسلک بن جائے۔
٭دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ یہ تہذیبی کشمکش جاری ر ہے اور یہ تہذیبیں ایک دوسری کو نیچا دکھانے کےلئے اپنا زور صرف کرتی رہیں۔ جیسا کہ مذکورہ مصنف کاخیال ہے۔
٭تیسر ی ممکنہ صورت یہ ہے کہ تہذیبی رواداری کی اقدار غالب آجائیں اور مختلف تہذیبوں اور ادیان میں مکالمہ اور افہام و تفہیم کی روش زور پکڑ جائے تہذیبیں آپس میں سرجوڈ کر بیٹھ جائیں اور ایسے مشترک اصولوں تک رسائی حاصل کریں جو تمام قوموں کےلئے ایک مشترک پلیٹ فارم کی صورت فراہم کرے۔
اس بات کاامکان بھی مصنف کے نزدیک بہت ہی کم ہے۔
چنانچہ مصنف اسی احتمال کو ترجیح دیتا ہے کہ تہذیبوں کی جنگ بہر حال ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ وہ مغرب کو اپنائیت کے ساتھ مشورہ دیتے ہوئے کہتا ہے:
” یہ ناگزیر ہے کہ اسلامی چیلنج اور چینی چیلنج کے سامنے ہم اپنی صفیں مضبوط کرلیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ کے درمیان ایک طرح کی وحدت اور یگانگت پیدا کرلیں۔ یہ تو کم ازکم ضروری ہے کہ روس امریکہ تعلق اور جاپان امریکہ تعلق تعاون پر مبنی رہے ۔یہ بھی ضروری ہے کہ مغرب کی فوجی اہلیت میں تخفیف کی بابت ہم ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھیں“
ہوسکتا ہے یہ کتاب (تہذیبوں کا تصادم) ایک رد عمل ہوجسے پیداکرنے کا سبب ایک عالمی بنیاد پرستی کی روش اور مسلمانوں اور دیگر اقوام میں دینی رجحانات ہوں۔ گویا اب یہ کتاب امریکہ کو خبردار کررہی ہے کہ اسلام پر مضبوط قسم کا اعتقاد رکھنے والے لوگوں کے بالمقابل ، عنقریب ہونے والی ایک تہذیبی جنگ میں، امریکہ اپنی امتیازی خصوصیات کوبرقرار رکھنے کےلئے اپنی تہذیبی اقدار میں پناہ تلاش کرے۔
اسی طرح یہ کتاب امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کے ہاں پائی جانے والی اس تشویش اور تنگی احساس کا پول بھی کھولتی ہے جو عالم عرب اور عالم اسلام میں ان آزادانہ رویوں کی بابت روا رکھی جارہی ہے جسے وہ ’جمہوریت ‘کا نام دیتے ہیں۔
چنانچہ مصنف کاکہنا ہے کہ : باوجود اس بات کے کہ جمہوریت ہی وہ متبادل ہے جو مغرب دنیا میں پیش کرتا ہے ۔ مغرب خود بھی اس کو اپنائے ہوئے ہے اور دنیا کو بھی سلطانی جمہور ہی کی نوید دیتا ہے، مگر دوسری طرف بلا شبہ یہی جمہوریت عالم اسلام میں ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر عالم اسلام میں حقیقی جمہوریت رائج ہوجاتی ہے تو وہ ان طاقتوں کوقوت فراہم کرے گی جو مغرب کی دشمن ہیں، جس کی ایک تازہ مثال وہ صورتحال ہے جو الجزائر میں پیدا ہوئی تھی۔ چنانچہ جمہوریت پر عملدرآمد کرانا وہاں بنیاد پرست رجحانات کے قوت پکڑنے کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے جبکہ یہ بنیاد پرست رجحانات ہی اس وقت عرب اور اسلامی دنیا میں مقبولیت کے حامل ہیں۔ اس کے برعکس اگر عالم اسلام میں جمہوریت کو نہ آنے دیا جائے تو نتیجہ کے طور پر وہاں تنگی، گھٹن، کشیدگی اور سماجی و سیاسی ابتری ہی کا دور دورہ رہے گا یوں عالم اسلام میں منفیت ،انتقام پرستی اورغصہ نکالنے کی ذہنیت بری طرح پھلتی پھولتی رہے گی۔
چنانچہ یہ نظریہ ، یعنی یہ کہ تہذیبوں کی کشمکش زور پکڑنے والی ہے ، ہمارے خیال میں بھی مجموعی طور پر ایک معقول نظریہ ہے۔ اگرچہ ہمارے ملکوں میں موجود لادین اور سیکولر عناصر کےلئے ضرور یہ پریشانی کا باعث ہوگا ۔کیونکہ اس نظریے کا لازمی تقاضا یہ ہوگا کہ ہم بھی اپنے دین ہی میں پناہ تلاش کریں۔ اس کشمکش کے نتیجے میں ہر قوم ہی کو اپنے دین اور عقیدے کی جانب لوٹنا ہوگا اور اپنے حقیقی ورثے کی تلاش کرنی ہوگی۔ اسی کی بدولت اب کوئی قوم کسی دوسری قوم کے مد مقابل آسکے گی جو اس سے ایک بالکل مختلف دین اور ایک بالکل مختلف عقیدہ و نظریہ رکھتی ہوگی اور اس کا فکری و تہذیبی ورثہ اور معاشرتی خصوصیات اس سے بالکل مختلف اور جدا ہونگی۔
یہی وجہ ہے کہ اب عقلیت پسند لوگو ں تک کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ اگر تہذیبوں کی جنگ کا یہ نظریہ درست ہے تو پھر فتح اس روش کو حاصل ہونے کا زیادہ امکان ہے جو زیادہ شدت پسند ہوگی اورجس کے راستے دوسرے افکار و نظریات کے در آنے کےلئے زیادہ مسدود ہونگے۔ مثال کے طور پرمسلمانوںکے مابین فتح مندی کا زیادہ امکان ان رجحانات کےلئے ہوگا جنہیں اس وقت بنیاد پرستی کا نام دیا جاتا ہے اور جو کہ دین کی جانب مکمل طور پر پوری سچائی کے ساتھ لوٹ آنے اور ہر میدان کے اندر دین کے پہلو میں پناہ لینے کے داعی ہیں۔
ایسا ہی معاملہ دوسرے مذاہب کا بھی ہوگا۔ مثلاً عیسائیوں،یہودیوں اور ہندوئوں میں متشدد مذہبی طبقے کامیابی حاصل کرسکیں گے خصوصاً اگر یہ مذہبی گروہ عوامی طبقوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہوں۔
فصل دوئم
ہمارا کیا فرض بنتا ہے؟
جہاد
اس معاملے میں ہم پر کیا فرض عائد ہوتا ہے؟
کیا امریکہ کے سقوط کا مطلب ہماری فتح مندی ہے!؟۔۔ظاہر ہے کہ نہیں۔ جب کوئی ایک بڑی طاقت گھٹنے ٹیکتی ہو تو پھر اس کی جگہ وہ قوت لے لیاکرتی ہے جو زیادہ بڑے قوت کے اسباب کی مالک ہوتی ہے ۔ اور جو کہ غلبہ و برتری کی زیادہ حق دار ہواکرتی ہے۔ چنانچہ اس وقت اگر امت اسلام ان اسباب کی مالک ہوئی اور یہ اہلیت رکھتی ہوئی تب تو ضرور دوسری قوموں سے آگے بڑھ سکے گی بصورت دیگر یہ برتری اور سروری کسی اورقوم ہی کے حصے میں آئے گی اور کون جانے وہ قوم اس سے بھی بڑھ کر سرکشی اور فساد پر اتر آنے والی ہو اور اس پور ی دوڑ میں مسلمانوں کے ہاتھ کچھ آئے تو یہی کہ ایک درندے کے پنجہ اسبتداد سے نکل کرکسی اور درندے کے چنگل میں جا پھنسیں۔
جب ایسا ہے تو پھر امت اسلام کو اس وقت ایک ایسے معاملے میں سنجیدگی ضرورت ہے جس میں سستی اور بے ہمتی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔
دنیا کے مسائل کا وہ حل جو کہ دراصل مسلمانوں کی راہ تک رہا ہے اسے ایک لفظ میں بیان کیا جاسکتا ہے۔۔۔ یعنی ’جہاد‘
’جہاد سے ہماری مراد کیا ہے؟
’جہاد‘ ظاہر ہے ’قتال‘ سے وسیع تر ایک لفظ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن میں جہاد کا ذکر قتال سے زیادہ ہوا ہے۔ بلکہ قرآن نے جہاد کا ذکر اسو قت کیا جب قتال ابھی فرض تک نہ ہوا تھا۔ اس لیے یہ درست نہیں کہ ہم معاملے کو ایسی ہی سادگی اور سطحیت سے لیں اور یہ سمجھ بیٹھیں کہ ہمارا کام کسی ایک جنگی معرکے میں جیت کی صورت میں پورا ہوجانے والا ہے۔ حتی کہ یہ بھی درست نہیں کہ ہم اپنی جیت مغرب کی ساتھ کسی خاصی بڑی جنگ سے وابستہ کرلیں۔ اگرچہ ایسی کسی جنگ کا امکان بہرحال رد نہیں کیا جاسکتا۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی اپنے تمام تر شعبوں کے ساتھ ہمارے لئے کارزار معرکہ ہے اس میں کام آنے کےلئے ہتھیار محض بندوق یا توپ اور ٹینک یا طیارے ہی نہیں بلکہ فکر بھی ایک ہتھیار ہے ، معیشت اور پیسہ بھی ایک ہتھیار ہے، ٹیکنالوجی ایک ہتھیار ہے، منصوبہ بندی باقاعدہ ہتھیار ہے، یکجہتی ایک بڑا ہتھیار ہے ۔ غرض اس جہاد میں کام آنے والیے ہتھیاروں کی فہرست خاصی طویل ہے۔
جاپان نے ایک بار تباہ ہوجانے اور ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم کھالینے کے بعد۔۔۔ کیا ایک بار صفر سے ابتداءنہیںکی؟ کون نہیں جانتا کہ ایک بار ہتھیار ڈال دینے کے بعد جاپان نے بالکل صفر سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ ایٹم بم کی تباہی کے مناظر فرزند ان جاپان کی نگاہوں سے کبھی اوجھل نہ ہونے دیئے گئے جو عبرت کا سامان بھی بنے اور جاپانی قوم کو تعمیر و ترقی کی دوڑ میں مہمیز کا کام بھی دیتے رہے۔
جاپان نے بنیاد سے کام شروع کیا ۔ اپنے آپ کو دوبار ہ تعمیر کیا۔ منصوبہ بندی کی۔ ترقی کا ڈیزائن بنایا، آگے بڑھنے کےلئے تگ و دو کی۔ یہاں تک جاپان آج وہاں پہنچ چکا ہے جہاں وہ امریکی معیشت کےلئے خطرے کی علامت بن چکا ہے ۔حکمت مومن کی میراث ہے۔مسلمانوں کےلئے جاپانی تجربے میں حاصل کرنے کےلئے یقینا بہت کچھ ہے۔
جہاد کی مطلوبہ شکلیں
جہاد کی ایک مطلوبہ شکل یہ ہے کہ مسلمان ملکوں میں لوگوں کو حقیقت اسلام کی جانب موڑ لانے کےلئے دعوت کا کام کیا جائے۔ تا کہ اسلام ہی ان کی اجتماعیت کی اساس ہو اور ان کے باہمی ربط کی بنیاد بھی صرف اسلام ہو اور ان کی رہنمائی کا واحد منبع بھی صرف اسلام ہو۔ ہماری مراد ہے توحید کی ازسر نو دعوت ، عبادت و بندگی میں اللہ کی واحدانیت کا قیام اور اس کے سب ہمسروں ،شریکوں اور سب بتوں کی دریا بردگی۔ عالم اسلام میں پوجے جانے والے ان سب بتوں کا خاتمہ جو مسلمانوں کے کسی کام آسکے اور نہ کبھی ان کے کام آنے والے ہیں ۔ جن کو اپنے معاشروں میں پوجا جاتے دیکھ کر اور ان پر خاموشی اختیار رکھ کر یا ان سے مداہنت اختیار کرکے مسلمان حقیقی مسلمان بھی قرار نہیں پاسکتے۔ عالم اسلام میں اللہ کی توحید کا قیام ناگزیر ہے ۔ عبادت کی سب صورتوں کو اس کےلئے خاص کیا جانا ہے۔ نہ محبت اور چاہت اللہ کے سوا کسی اور کی۔ نہ ڈر کسی اور ہستی کا۔ نہ امید کسی اور سے اورنہ بندگی اور عاجزی اس کے سوا کسی اور کےلئے ۔ بندگی اپنی سب شکلوں اور صورتوں کے ساتھ ایک اللہ وحدہ لا شریک کی ہو۔ یہ بندگی خواہ نماز کی صورت میں ہو خواہ دعا اور پکا ر ہو، ذبیحہ ہو، نذراور چڑھاوا ہو، خواہ حکم و قانون اور دستور ہو۔ ہر ہر پہلو سے بندگی اور عبادت ایک اللہ کےلئے خاص کروائی جائے اور حکم و فیصلہ میں کوئی اس کے اختیارات میں شریک نہ رہے۔
ایک فرد جب ہر شکل میں اللہ کی بندگی اختیار کرلیتا ہے تو اس کی شخصیت اور اس کے عمل میں یکسوئی آتی ہے اور اسکے ذہن کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ تب جاکر اس کی سوچ اور فکر میں غیر معمولی تعمیریت آتی ہے اور وہ زندگی میں اپنے گردو پیش کو مثبت انداز میں متاثر کرنے کی صلاحیت سے لیس ہوتا ہے۔
یہ ناگزیر ہے کہ اللہ کی شریعت کو ہر ادارے اور ہر شعبے میں کلی اہمیت حاصل ہو۔ اور قانون و نظام سازی میں اس کے سوا کوئی ہدایت کا منبع نہ ہو۔ معاشرے میں ہر سطح پر شریعت کو ایسی ہی بالادستی ہو۔ خواہ وہ افراد کے باہمی رشتے ہوں، خوا ہ یہ حکمران اور رعایا کا رشتہ ہو، خواہ مزدور زن کا تعلق ہو اور خواہ یہ مسلمانوں کا دوسری اقوام سے تعلق کا معاملہ ہو، ہر ہدایت کا سرچشمہ اللہ کی شریعت بنے۔
یہی نہیں شریعت کی بالادستی اقتصاد و معیشت کے معاملات میں بھی ہو اور نشر و اعلام(میڈیا) اور تعلیم و تربیت کے ہر معاملے میں بھی۔ سماجی تعلقات میں بھی شریعت ہی حرف آخر کا درجہ رکھتی ہو۔ ان سب پہلوئوں سے ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالی کے فرمانبردار ہورہیں۔
یا ایہا الذین امنو ا ادخلو افی السلم کافہ۔
چنانچہ یہ ناگزیر ہے کہ آج مسلمان ملکوں میں انسانی زندگی کو اسلام کی بنیاد پر اٹھانے کا کام کیا جائے۔ خواہ وہ عقیدے کا میدان ہو یا شریعت کا۔ اگر ہمیں اس مشن پر چلنے میں یقین محکم اور عزم مصمم حاصل ہوجاتا ہے اور ہم اس منزل کی جانب پوری سنجیدگی اور سچائی سے جادہ پیما ہوجاتے ہیں تو سب کمیاں کوتاہیاں راستے میں خود بخود دور ہوتی رہیں گی۔
آج اگر ایسے مسلمان وجود میں آجاتے ہیں جو اپنے دین میں پورا رسوخ رکھتے ہوں اور اپنے روشن مستقبل کا پورا یقین رکھتے ہوں ۔۔۔ ایسے مسلمان جو اس یقین سے سرشار ہو ں کہ دنیا جس تباہی کے دھانے پر ایک عرصے سے آکھڑی ہے اس سے چھٹکارے کی صورت صرف اسلام بتا سکتا ہے۔ ۔۔ ایسے مسلمان جو اپنی تمام تر توانائیاں دنیا کو خالص اسلام کی جانب پھیر لانے کےلئے، کھپا دینے کےلئے تیار ہوچکے ہوں۔۔ ایسے باعزم اور پر یقین مسلمانوں کو صرف اس بات کا وثوق نہ ہوگا کہ وہ ان شا اللہ اسلام کی سر زمین اللہ کے دشمنوں سے آزاد کروالیں گے بلکہ وہ کفار کے ممالک پر بھی اسلام کے قدموں کی چاپ محسوس کرسکیں گے۔ ہر قل نے خود ہی ابو سفیان سے کہہ دیا تھا کہ” اس نبی کے بارے میں تم جو بتا رہے ہو اگر سب سچ ہے تو یہ جگہ جہاںمیں نے اس وقت پیر دھر رکھے ہیں اس کے ملک کا حصہ بنے والی ہے“۔
پھر غیر مسلموں کو بھی اسلام کی جانب دعوت دینا اس وقت ہمارے فرائض میں شامل ہے ۔ کیونکہ آج وہ سب عقلی چیستان اور فلسفیانہ الجھنیں جو دنیا کو پریشان کرچکی ہیں صرف اسلام کے ہاتھوں سلجھ سکتی ہیں۔ اور جس فساد ، اخلاق باختگی ، ذہنی انتشار اور انانیت کا آج مغرب شکار ہے اس کا بہترین متبادل اسلام ہی کے پاس ہے۔ وہ پیار و محبت اور اخوت و قربت جس کی مغربی معاشروں میں پیاس ہے اسلام ان کو پوری طرح فراہم کرسکتا ہے۔ آج کے انسان کو مادیت کی بھر مار اور مشینوں کی خدائی سے نکال کر خدا کی پہچان کرانا اور خدا سے اس کا رشتہ جوڑنا اسلام ہی کے بس میں ہے۔
پھر یہ بھی ضروری ہے کہ معیشت اور سیاست میں ان کو اسلا م کی دی ہوئی راہ راست سے روشناس کرایا جائے اور تحقیقی و علمی اداروں کے ذریعے اسلام کے معاشرتی اور سماجی منہج سے انہیں آگاہ کیا جائے۔ کیونکہ اسلام کے ہر پہلو میں ہی کوئی نہ کوئی جاذبیت ہے ۔جس طرح اسلام عقیدے میں جاذبیت رکھتا ہے ویسے ہی اس کے اخلاق اور اقدار میں جاذبیت ہے۔ ایسی ہی کشش اسلامی عبادات میں ہے اور ایسی ہی خوبصورتی اسلام کے معاشرتی منہج میں ہے۔ ان سبھی پہلوؤں میں ہی اس وقت اسلام کی بابت مغربی معاشروں میں رہنے والے ایک فرد کی نظر درست کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر اس مجوزہ جہاد میں یہ بھی شامل ہے آج زمانے کی ترقی سے جو کچھ حاصل ہوا ہے اسے اسلام اور مسلمانوں کے فائدے کےلئے بھر پور طور پر استعمال کرنے کی صورت نکالی جائے۔ خواہ وہ ٹیکنالوجی ہو۔ خواہ وسائل نشر و اشاعت ہوں۔ خواہ وہ ذرائع مواصلات ہو ں۔ دنیا کے بڑے حصے میں بولی جانے والی زبانیں ہوں ان سب کے ذریعے ان اقوام تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔ انہیں اسلام کی وضاحت کی جائے۔ یہ ایک انتہائی حیران کن اور افسوسناک امر ہے امریکہ ،برطانیہ اور ایسے دیگر ملکوں میں بہت بڑی بڑی لائبریریاں تو پائی جاتی ہیں مگر اسلام کے بارے میں بہت مستند قسم کی کتب نہ ہونے کے برابر ہیں بلکہ بسا اوقات اسلام پر کتابیں ملتی بھی ہیں تو وہ کسی بدعت ہی کی ترجمان ہوتی ہیں مثلاً رافضی اور قادیانی کتب اچھی خاصی مل جائیں گی۔ آخر ہمارے وہ طالبعلم کہاں ہیں جو عالم اسلام سے جاکر مغرب میں تعلیم کےلئے مقیم ہیں یا جو ملازمت وغیرہ کےلئے بھی وہا ں مقیم رہتے ہیں۔ کیا انہوں نے وہاں اسلام کی مشعل اٹھائی ہے یا وہ اندرونی طور پر عقیدے اور تہذیب کے معاملے میں شکست خوردگی کاشکار ہیںبے شک زبان سے وہ کچھ بھی کہتے ہوں اور کیسا بھی دعوی رکھتے ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ مغرب کے سامنے شکست خوردگی سے دوچار ہیں اور اسلام کو پورے زور سے پیش نہیں کرتے اور اپنے اخلاق و کردار اور اپنے عمل اور اپنے تعلقات میں جرات کے ساتھ اس کی ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔