مجمل عقيدہ اہل سنت والجماعت
ناصر بن عبدالکریم العقل
اہل سنت والجماعت
(ایک مختصر تعارف)
حق اور باطل کے تعین کی بابت دنیا دو بڑے گروہوں میں بٹ جاتی ہے ایک وحی کا پیروکار اور دوسرا ظن وتخمین اور اپنی رائے اور فلسفہ کا پیروکار .... تاہم یہ دونوں گروہ آگے مزید گروہوں میں بٹتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک ظن وتخمین اور اپنی رائے اور فلسفہ کے پیروکار گروہ کی تقسیم ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی تو کوئی حد ممکن ہی نہیں، یہاں جتنی بولیاں ہوں گی اتنے ہی گروہ ہوں گے، یہاں تو ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ تاہم وحی کے پیروکار گروہ میں دو بڑے فریق بنتے ہیں.... ایک وحی خالص کا پیروکار ہے اور دوسرا وحی تحریف شدہ کا۔ اب جہاں تک وحی تحریف شدہ کے پیروکاروں کا تعلق ہے تو ان میں ایک گروہ تو وہ ہے جو اس وحی کو ماننے کا دعویٰ کرتا ہے جو نہ صرف اب منسوخ ہو چکی ہے بلکہ اس میں تحریف لفظی بھی ہو چکی ہے اور تحریف معنوی بھی۔ یہ گروہ ”اہل کتاب“ کے نام سے منسوب ہے اور اہل حق سے خارج۔ جبکہ تحریف شدہ وحی کے پیروکاروں کا دوسرا گروہ وہ ہے جو وحی منسوخ کی بجائے وحی مشروع کو تو مانتا ہے البتہ وہ اس وحی کی تحریف اور تاویل کرتا ہے۔ یہ تحریف .... لفظی نہ بھی ہو معنوی تو بہرحال ہوتی ہی ہے۔ یہ فریق ”اہل بدعت“ یا ”اہل ہواء“ کہلاتا ہے۔ ’حق‘ سے اس موخر الذکر فریق کی دوری کا تعین اس بنیاد پر ہوگا کہ وحی کی جو تحریف وتاویل ہو رہی ہے وہ گمراہی کے کس درجہ میں آتی ہے۔ آیا کفر کے درجہ میں، فسق کے درجہ میں یا اس سے کم۔ رہا وہ گروہ جو وحی خالص کا پیروکار ہے یعنی اس وحی کا جو نہ تو منسوخ ہے اور نہ تحریف شدہ۔ تو یہ گروہ اہل حق ہے جو ”اہل کتاب“ کے مدمقابل ”اہل اسلام“ کہلاتا ہے اور ”اہل بدعت“ کے مقابلہ میں ”اہل سنت والجماعت“۔
بنا بریں دنیا میں ہدایت اور آخرت میں نجات کے پانے کیلئے اس فریق میں شمولیت ناگزیر ہے جو ہر نظریہ وعقیدہ اور ہر طرز زندگی کو لے کر اﷲ کی عدالت میں جائے اور اس کی مشروع ہدایت سے من وعن، بغیر کوئی تاویل اور تحریف کئے فیصلہ کروا لایا کرے.... اس طریقہ کار کو اہل سنت والجماعت کا ’منہج‘ کہا جاتا ہے۔
اہل سنت والجماعت امت کے فرقوں میں امتیازی شان کے حامل ہیں۔ وہ صفات باری تعالیٰ کے باب میں اہل التعطیل الجہمیہ اور اہل التمثیل المشبھہ کے افراط وتفریط سے محفوظ ہیں۔ افعال اﷲ تعالیٰ کے بارہ میں جبریہ اور قدریہ کے درمیان اُمت وسط ہیں۔ وعید اﷲ کے باب میں مرجئہ اور (قدریہ کی شاخ) الوعیدیہ وغیرہم کے مبالغوں سے بچے ہوئے ہیں اور اصحاب رسول اﷲ کے بارے میں رافضہ اور خوارج کی انتہائوں کے درمیان مسلک اعتدال کے حامل ہیں۔
زیرنظر رسالہ اصول اہلسنت کی مستند کتابوں سے ماخوذ ہے۔ اس کا اصل متن عربی میں ہے جو استفادہ عام کی غرض سے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس میں عقیدہ کی بابت اصول اہلسنت کا نہایت اختصار اور اجمال کے ساتھ ذکر ہے۔ رسالہ کے مولف شیخ ناصر العقل ہیں جو ارض حرمین سے تعلق رکھتے ہیں اور شیخ سفر الحوالی کے اصحاب میں شمار ہوتے ہیں۔ شیخ ناصر العقل نے صرف علم کے میدان ہی میں منہج اہل سنت پر کام نہیں کیا بلکہ عمل کے میدان میں بھی وہ اس منہج کے حاملین میں سے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کو استقامت نصیب فرمائے۔ (آمین){حامد کمال الدین}
الحمد ﷲ و الصلوہ والسلام علی رسول اﷲ
مقدمہ
عقیدہ اہلسنت والجماعت کے اصول وقواعد پر مشتمل یہ کتابچہ قارئین کے پرزور اصرار پر شائع کیا جا رہا ہے جس میں عقیدہ سلف صالحین کے اصول وقواعد اجمالاً لیکن واضح انداز میں بیان کئے گئے ہیں اور ائمہ کرام جن شرعی اصطلاحات کا استعمال بکثرت کرتے ہیں ان کا التزام بھی کیا گیا ہے۔
یہ کتابچہ تفصیلات، تعریفات، حوالہ جات، حواشی اور مصنفین کے ذکر سے خالی ہے اگرچہ ان کی ضرورت مسلم ہے لیکن مدعا ومقصود کو ایک مختصر سے کتابچہ میں سمو دینے کی خواہش ان کے سامنے رکاوٹ ہے۔ امید ہے یہ مضمون ایک جامع تصنیف کا پیش خیمہ ہوگا اور مافات کا تدارک اور مزید معلومات کا مرقع یہ تشنگی دور کردے گا۔ ان شاءاﷲ
مندرجہ ذیل شخصیات نے اس مضمون پر نظر ثانی فرمائی ہے۔
جناب عبدالرحمن بن ناصر البراک، جناب عبداللہ بن محمد الغنیمان، ڈاکٹر حمزہ بن حسین الفعر اور ڈاکٹر سفر بن عبدالرحمن الحوالی۔ میں ان سب کا تہہ دل سے شکرگزار ہوں۔ ان حضرات کے اضافات اور ملاحظات مضمون کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ دُعاگو ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس کام کو اپنی رضا کیلئے خالص بنا دے۔
صلوٰہ و سلام
ناصر بن عبدالکریم العقل ٣\٩\١٤١١
تمہید
عقیدہ: لغت میں عقیدے کا اشتقاق عقد سے ہے جس کے معنی گرہ لگانا، مضبوط کرنا، مستحکم بنانا اور قوت کے ساتھ باندھنا ہے۔
اصطلاح میں عقیدہ ایسے پختہ ایمان کو کہتے ہیں جس کے بعد صاحب عقیدہ کے دل میں شک کا شائبہ تک نہ رہے۔
اسلامی عقیدہ: اسلامی عقیدے سے مراد اﷲ تعالیٰ پر بشمول توحید واطاعت کے پختہ ایمان رکھنا، اس کے فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر، رسولوں پر، یوم آخرت پر، تقدیر پر، غیب کی سب باتوں اور دیگر نظری وعملی حقائق اور پیش آئندہ باتوں پر ایمان رکھنا۔
سلف صالحین:
اُمت کے پہلے لوگوں کو سلف کہتے ہیں جس میں صحابہ کرام، تابعین اور پہلی تین فضیلت یافتہ نسلوں کے ائمہ دین شامل ہیں۔ انہیں کی طرف نسبت کرتے ہوئے بعد میں آنے والے وہ لوگ جو ان کے نقش قدم پر چلتے اور ان کا منہج اختیار کرتے ہیں، سلفی کہلاتے ہیں۔
اہلسنت والجماعت:
اہلسنت والجماعت وہ ہیں جو نبی اور صحابہ کرام جیسا طرز زندگی اختیار کرتے ہیں۔ انہیں ”اہلسنت“ نبی کی پیروی کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور ”الجماعت“ ان کے حق پر متفق ہونے کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ دین میں فرقہ بندی نہیں کرتے اور ائمہ حق سے اختلاف نہیں کرتے۔ جن مسائل پر سلف کا اجماع ہے اسے تسلیم کرتے ہیں۔ انہیں اہلحدیث، اہل اثر، اہل اتباع، طائفہ منصورہ اور فرقہ ناجیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ نبی اور سلف صالحین کے پیروکار ہوتے ہیں۔
نصوص کے قبول اور استدلال کے اصول وضوابط
(١) اہلسنت والجماعت کے نزدیک عقیدہ کے ماخذ یہ تین ہیں۔ کتاب اﷲ، سنت صحیحہ اور سلف صالحین کا اجماع۔
(٢) جو حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے اسے ماننا فرض ہے خواہ خبر واحد ہی کیوں نہ ہو۔
(٣) قرآن وحدیث کے معانی سمجھنے کے سلسلے میں واضح نصوص، سلف صالحین، نیز ان کے راستے پر چلنے والے ائمہ رشد وہدایت کے فہم کو ہی مرجع قرار دیا جائے گا۔ اس کے بعد لغت عرب کا درجہ آتا ہے۔ بہرحال محض لغوی احتمالات کے باعث ان سے ثابت شدہ مفہوم کی مخالفت نہ کی جائے گی۔
(٤) دین کے تمام بنیادی اصول نبی نے اپنی زندگی میں ہی نہایت واضح طور پر بیان فرما دیئے تھے لہٰذا اب کسی کیلئے اس میں نئی چیز نکالنے کی گنجائش نہیں ہے۔
(٥) اﷲ تعالیٰ اور رسول اﷲ کے ہر کام کو ظاہری وباطنی برضا ورغبت اس طرح تسلیم کرنا کہ شخصی قیاس، ذاتی میلان، کشف والہام اور کسی بزرگ اور امام یا فقیہہ کا قول کتاب اﷲ اور صحیح سنت کے تسلیم کرنے میں رکاوٹ نہ بن سکے۔
(٦) عقل سلیم اور نقل صحیح (قرآن وحدیث) ایک دوسرے کے مواقف ہوتے ہیں نہ کہ متعارض۔ اگر بظاہر تضاد کا شائبہ نظر آئے تو نقل کو عقل پر مقدم سمجھا جائے۔
(٧) عقیدے سے متعلقہ شرعی اصطلاحات کی پابندی کرنا اور نئی نئی اصطلاحات وضع کرنے سے پرہیز کرنا۔ ایسے مجمل اور ذومعنی الفاظ جن کا مفہوم درست بھی ہو سکتا ہو اور غلط بھی، ان کے بارے میں استفسار کیا جائے گا۔ پھر جو مفہوم درست نکلے اسے شرعی الفاظ کے ساتھ بحال رکھا جائے گا اور جو مفہوم غلط نکلے وہ خود بھی رد ہوگا اور اس کیلئے مستعمل غیر شرعی الفاظ بھی۔
(٨) رسول اﷲ معصوم عن الخطا ہیں۔ اسی طرح آپ کی اُمت بھی مجموعی طور پر گمراہی پر اتفاق کر لینے سے معصوم ہے۔ جہاں تک اشخاص کا تعلق ہے تو رسول اﷲ کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہے۔ جس بات میں ائمہ کرام میں اختلاف ہو اس میں سے جو کتاب اﷲ اور سنت مطہرہ کے زیادہ قریب ہو اسے قبول کیا جائے اور جس امام کا اجتہاد غلط ہو اسے اجتہادی غلطی سمجھا جائے۔
(٩) اُمت میں ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کو حق کی جانب سے القا اور الہام ہو جاتا ہو۔ اچھا خواب برحق اور نبوت کے درجے میں سے ایک درجہ ہے۔ صحیح کرامت اور فراست صادقہ بھی برحق ہیں۔ اگر یہ کرامات اور الہامات شریعت کے مطابق ہوں تو خوشخبری ہوتے ہیں لیکن یہ کسی صورت میں شریعت کے ماخذ نہیں ہو سکتے۔
(١٠) دینی اُمور میں نزاع پیدا کرنا قابل مذمت ہے البتہ تحقیق اور جستجو کی غرض سے افہام وتفہیم قابل ستائش ہے۔ جس بات کی گہرائی میں جانے سے شریعت نے منع کیا ہے وہاں بلا چوں چرا اطاعت فرض ہے۔ جن امور سے مسلمانوں کو آگاہ نہیں کیا گیا ان میں غور وخوض سے پرہیز کرنا چاہیے اور ان کی حقیقت کا علم اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دینا چاہیے۔
(١١) کسی چیز کے مسترد کرنے کا بھی وہی قاعدہ ہے جو کسی چیز کے قبول کرنے کا ہے یعنی وحی کی بنا پر۔ چنانچہ کسی بدعت کو رد کرنے کیلئے ایک اور بدعت کا سہارا نہیں لیا جائے گا اور نہ افراط کا جواب تفریط سے دیا جائے گا اور نہ تفریط کا افراط سے۔
(١٢) اسلام میں نئی چیز شامل کرنا بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں پڑنے والی ہے۔
اعتقادی توحید
(١) اﷲ تعالیٰ کے اسماءحسنیٰ اورصفات کے تسلیم کرنے میں یہ اصول ہے کہ جو کچھ اﷲ تعالیٰ نے اپنے متعلق بذات خود فرمایا ہے یا رسول اﷲ نے جس کا اثبات کیا ہو اسے بلا شبیہ وتمثیل مانا جائے اور اپنی جانب سے اس کی کیفیت (تکییف) بیان نہ کی جائے اور جس صفت کی خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے لئے نفی کی ہو یا رسول اﷲ نے نفی کی ہو اس کی بلاتاویل نفی کی جائے، نہ اس کی تحریف کی جائے اور نہ تعطیل۔ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
لیس کمثلہ شیءوھو السمیع البصیر (الشوریٰ: ١١)
”کوئی چیز اس کے مشابہ نہیں ہے اور وہی ہر بات کو سننے والا اور دیکھنے والا ہے“۔
نیز ایسی نصوص کے الفاظ اور ان کے معنی ودلالت پر ایمان بھی رکھا جائے۔
(٢) اﷲ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات کی طرح نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس مشابہت کے پیش نظر ان صفات کا انکار ہی کیا جائے۔ یہ دونوں صورتیں یعنی اسماءوصفات کو مخلوق کی طرح سمجھنا یا سرے سے ان صفات سے اﷲ تعالیٰ کے متصف ہونے کا انکار کرنا کفر ہے۔
اسماءوصفات میں جس تحریف کو اہل بدعت تاویل کہتے ہیں ان میں سے بعض کفر کے درجے کی ہیں جیسے باطنیہ فرقے کی تاویلات اور بعض شدید گمراہی ہیں جیسے بعض صفات کی نفی مغالطے کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔
(٣) وحدت الوجود اور اﷲ تعالیٰ کا کسی مخلوق میں حلول کرنا یا مخلوق اور خالق کے یکجان ہونے کا عقیدہ رکھنا دین سے خارج کر دینے والا کفر ہے۔
(٤) فرشتوں کے وجود پر اجمالاً ایمان لانا: جہاں تک تفصیلات کا تعلق ہے جیسے فرشتوں کے نام، ان کی صفات اور ان کو سونپے گئے کام تو ان میں سے جو صحیح دلیل سے ثابت ہوں صرف ان پر ایمان لانا۔
(٥) تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا: اور یہ عقیدہ رکھنا کہ قرآن مجید ان سب سے افضل اور ان سب کا ناسخ ہے۔ نیز پہلی کتابوں میں تحریف واقع ہوئی ہے لہٰذا صرف قرآن کی اتباع فرض ہے باقی کتب سماویہ کی نہیں۔
(٦) تمام انبیاءاور رسولوں پر ایمان رکھنا: یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ تمام انسانوں سے افضل ہیں، جو اس کے برعکس عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔
ان میں سے جس نبی کے بارے میں خاص دلیل آجائے اسے نبی برحق سمجھنا اور دیگر انبیاءپر اجمالاً ایمان رکھنا۔ یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت محمد ان میں سب سے افضل اور سب سے آخری نبی ہیں اور آپ کو تاقیامت روئے زمین کے تمام باسیوں کیلئے نبی بنا کر بھیجا گیا۔
(٧) حضرت محمد کے بعد سلسلہ وحی ختم ہونے پر ایمان رکھا جائے اور یہ کہ وہ خاتم النبین والمرسلین ہیں، جو اس کے برعکس عقیدہ رکھے وہ کافر ہے۔
(٨) روز آخرت پر ایمان رکھنا: اس سلسلہ میں آخرت میں ہونے والے واقعات اور قبل از قیامت جن نشانیوں کا تذکرہ صحیح روایات میں ملتا ہے، ان کی تصدیق کرنا۔
(٩) تقدیر پر ایمان رکھنا: اس طرح کہ اچھی اور بُری سب اﷲ کی طرف سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ کسی رونما ہونے والے واقعے کا پہلے سے علم رکھتا ہے اور ہر چیز کو اس نے پہلے سے لوح محفوظ میں ثبت کر رکھا ہے۔ جو اﷲ نے چاہا وہ ہوتا ہے اور جو نہ چاہا وہ نہیں ہوتا، پس وہی ہوتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، ہر چیز کا خالق ہے، کر گزرتا ہے، جو چاہتا ہے۔
(١٠) صحیح دلائل سے ثابت شدہ تمام غیب کی خبروں پر بلاتاویل ایمان رکھنا مثلاً عرش، کرسی، جنت، دوزخ، قبر کا کسی کے حق میں نعمت اور کسی کے حق میں عذاب ہونا، پل صراط اور ترازو کا نصب ہونا .... ان سب پر ایمان رکھنا۔
(١١) قیامت کے روز حضرت محمد کی شفاعت اور باقی انبیاء، ملائکہ اور صالحین کی شفاعت پر صحیح دلائل سے ثابت شدہ تفصیل کے مطابق ایمان رکھا جائے۔
(١٢) قیامت کے دن جنت اور میدان حشر میں اہل ایمان کا اﷲ رب العزت کو دیکھنا برحق ہے، جو اس کا انکار کرتا ہے یا تاویل کرتا ہے وہ بھٹکا ہوا اور گمراہ ہے۔ یہ دیدار دُنیا میں کسی کو قطعاً نصیب نہیں ہو سکتا۔
(١٣) اولیاءاﷲ اور صالحین کی کرامتیں برحق ہیں مگر ہر خرق عادت کام کرامت نہیں ہوتا وہ شعبدہ بھی ہوتا ہے۔ کرامت پابند شریعت سے رونما ہوتی ہے اور شعبدہ فاسق وفاجر سے۔
(١٤) تمام اہل ایمان اﷲ تعالیٰ کے ولی ہیں، ہر مؤمن میں یہ ولایت بقدر ایمان ہوتی ہے۔
توحید الوہیت
(١) اﷲ تعالیٰ اکیلا اور یکتا ہے۔ عبادات میں، کائنات کے انتظام وانصرام میں اور اس کے اسماءحسنی اور صفات میں کوئی شریک نہیں ہے۔ وہ تمام جہانوں کا تنہا پروردگار ہے اور ہر قسم کی عبادت کا اکیلا مستحق ہے۔
(٢) دُعا کرنا، مصبیت کے وقت پکارنا، مدد مانگنا، نذرانہ پیش کرنا، ذبیحہ دینا، توکل کرنا، ڈرنا، اُمید رکھنا اور محبت کرنا اسی طرح کسی قسم کی کوئی عبادت غیر اﷲ کیلئے بجا لانا شرک ہے، خواہ مقرب فرشتے، انبیا ورسل اور صالحین وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں۔
(٣) عبادت محبت، خوف اور اُمید کی ملی جلی کیفیت کا نام ہے لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی ایسے ہی عبادت کی جائے۔ اس سلسلہ میں علمائے کرام یہ اُصول بیان فرماتے ہیں:
جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اﷲ کی عبادت صرف اس کی محبت ہے وہ زندیق ہے، جو صرف ڈر اور خوف کے مارے عبادت کرتا ہے وہ حروری (خارجی) ہے اور جو عبادت کا مطلب صرف خوش اُمیدی سمجھتا ہے وہ مرجئی ہے۔
(٤) تسلیم ورضا اور مطلق اطاعت فقط اﷲ اور اﷲ کے رسول کیلئے روا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کو رب اور الٰہ ماننے میں اس کا حاکم اعلیٰ ہونا بھی شامل ہے۔ اس کے اتارے ہوئے قوانین اور فیصلوں میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔
ایسے قوانین بنانا جن کے بنانے کا اس نے حکم نہیں دیا ہے، طاغوت سے فیصلے کروانا، شریعت محمدیہ کے علاوہ کسی اور قانون کو قابل اتباع سمجھنا اور شریعت میں کمی وبیشی جیسے کام کرنا، یہ سب کچھ کفر ہے۔ اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کوئی ہستی شریعت کے قانون سے آزاد ہے وہ کافر ہے۔
(٥) اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ قانون کے علاوہ کسی اور قانون کے ذریعہ فیصلہ کرنا کفر اکبر ہے۔ البتہ بعض اوقات کفر اصغر بھی ہوتا ہے۔
کفر اکبر یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کے تحت فیصلے کئے جائیں یا غیر اﷲ کا قانون روا رکھا جائے۔
کفر اصغر میں شریعت اسلامی ملک میں جاری وساری ہوتی ہے اور وہی قانون کا ماخذ بھی ہوتی ہے لیکن کسی وقوعے میں فیصلہ کرنے والا خواہش نفسانی کی وجہ سے خلاف شریعت فیصلہ صادر کرتا ہے۔
(٦) دین کو شریعت اور طریقت میں اس طرح تقسیم کرنا کہ اول الذکر عوام کیلئے اور ثانی الذکر خواص کیلئے، نیز سیاست ومعیشت یا کسی شعبہ زندگی کو دین سے جدا سمجھنا باطل اور حرام ہے بلکہ ہر وہ چیز جو شریعت کے خلاف ہو حسب مرتبہ کفر یا گمراہی میں سے کوئی ایک ضرور ہوگی۔
(٧) عالم الغیب اﷲ کے سوا کوئی نہیں ہے، اس کے برعکس عقیدہ رکھنا کفر ہے۔ البتہ اﷲ تعالیٰ اپنے رسولوں کو جس قدر چاہتا ہے امور غیب میں سے مطلع فرماتا ہے۔
(٨) نجومیوں اور کاہنوں کی تصدیق کرنا کفر ہے اور ان سے راہ ورسم رکھنا کبیرہ گناہ ہے۔
(٩) جس ”وسیلہ“ کا قرآن مجید میں ذکر ہے اس سے مراد اطاعت و فرماں برداری کے ذریعے قرب الٰہی کا حصول ہے۔ وسیلے کی تین اقسام ہیں:
(ا) جائز: اﷲ تعالیٰ کی طرف اس کے اسماءوصفات کو وسیلہ بنانا یا اپنے کسی نیک عمل یا کسی بقید حیات بزرگ کی دُعا کو وسیلہ بنانا مباح ہے۔
(ب) بدعت: ایسی چیز کو وسیلہ بنانا جو شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو بدعت ہے مثلاً انبیائ، صالحین کی ذات یا ان کی بزرگی کو وسیلہ بنانا۔
(ج) شرک: کسی فوت شدہ بزرگ کی وساطت سے عبادت کرنا یا اس سے دُعا کرنا، حاجت روا اور مشکل کشا سمجھنا۔
(١٠) برکت: برکت صرف اﷲ تعالیٰ کی جانب سے ہوتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنی جس مخلوق میں چاہتا ہے برکت فرما دیتا ہے۔ برکت سے مراد خیر کی کثرت اور زیادتی اور اس کا دوام ہے۔ کسی چیز کے باعث برکت ہونے کیلئے شرعی دلیل ضروری ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے جو باعث برکت ہیں ان میں شب قدر کو وقت کے لحاظ سے فضیلت ہے۔
مقامات میں تین مساجد بیت اﷲ، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ فضیلت والی ہیں۔
اشیاءمیں سے چاہ زمزم باعث برکت ہے۔
اعمال میں ہر نیک عمل مبارک ہے اور اشخاص میں بابرکت انبیاءہوتے ہیں۔
کسی شخص کی ذات یا اس کے جسمانی یا استعمال شدہ چیزوں سے تبرک حاصل کرنا ناجائز ہے ماسوائے نبی کی ذات کے۔ کیونکہ نبی کے علاوہ یہ خصوصیت کسی اور شخص کیلئے ثابت نہیں ہے اور آپ کی وفات اور آپ کی ماثورات کے بعد اس کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا ہے۔
(١١) تبرک کس طرح حاصل ہوگا اس کا تعین ہم نہیں شریعت کرے گی لہٰذا جس چیز کے باعث برکت ہونے کی شرعی دلیل نہ ہو اس سے حصول تبرک ناجائز ہے۔
(١٢) قبروں کی زیارت اور ان کے پاس لوگ جو اعمال کرتے ہیں وہ حسب ذیل تین طرح سے ہوتے ہیں:
جائز: آخرت کی یاد کیلئے، اہل قبور کو سلام کرنے اور ان کیلئے دُعائے مغفرت کرنے کیلئے جانا یہ اعمال قبروں پر کرنا مباح ہیں۔
بدعت: جو امور کمال توحید کے منافی اور شرک کا سبب ہیں جیسے قبر پر اﷲ کی عبادت بجا لانے کو تقرب الہٰی کا ذریعہ سمجھنا، ان قبروں سے برکات حاصل کرنا یا ثواب بخشنا یا ان کو پختہ بنا کر گنبد اور مزار کی شکل دینا، ان کو رنگ وروغن کرنا، ان پر چراغ جلانا یا ان پر چادریں چڑھانا، انہیں عبادت گاہ بنانا اور ان کی طرف رخت سفر باندھنا بدعت کے کام ہیں۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن کی بابت نبی سے ممانعت ثابت ہے یا پھر ثواب کی خاطر ایسے اعمال کرنے کا ثبوت شریعت میں نہیں ہے۔
شرک: زیارت کا یہ طریقہ توحید کے منافی ہے۔ ایسی زیارت میں عبادت کی مختلف شکلیں شامل ہوتی ہیں مثلاً زائر کا صاحب قبر کو پکارنا، اسے غوث سمجھنا، فریاد کرنا، مدد مانگنا، قبر کے گرد طواف کی طرح چکر لگانا یا اس کے نام کا چڑھاوا دینا اور نذر ونیاز ماننا، سجدہ کرنا۔
(١٣) اسلامی قانون کے مطابق جو حکم مقصود بالذات کا ہوتا ہے وہی اس کے ذرائع اور طریقہ کار کے اختیار کرنے کا بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کے ہر ذریعہ کی بیخ کنی کرنا اور ہر بدعت کو رائج نہ ہونے دینا ضروری ہے کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں پڑنے والی ہے۔
ایمان
ایمان قول وعمل کے مجموعے کا نام ہے جس میں اطاعت اور معصیت کے اعتبار سے کمی وبیشی واقع ہوتی ہے۔ قول سے دل اور زبان دونوں کا اقرار اور عمل سے مراد دل، زبان اور اعضاءکا فعل ہے۔
صدق دل اور یقین محکم دل کا قول ہے اور زبان سے اظہار واقرار زبان کا قول ہے۔
اسی طرح عمل سے دل، زبان اور بدنی عبادتیں سب کا ہم آہنگ عمل مراد ہے۔ دل کے عمل میں رضا ورغبت، اخلاص اور سچی محبت کے ساتھ فرماں برداری پر کاربند رہنا شامل ہے۔ اسی طرح نیک اعمال کیلئے ارادہ کرنا بھی دل کا عمل ہے۔ جسمانی اعضاءکا عمل وہ بدنی عبادات ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے۔ نیز جن امور سے اجتناب کرنے کا حکم ہے ان سے بچنا بھی اعضاءجسمانی کا عمل ہے۔
(٢) جو شخص عمل کو ایمان سے جدا اور الگ سمجھے وہ مرجئی (ایک گمراہ فرقہ) ہے اور جو ایسی چیز کو ایمان میں داخل کرے جو ایمان سے نہیں ہے وہ بدعت کرتا ہے۔
(٣) کلمہ شہادت سے جو شخص اپنے ایمان کا اعلان اور اقرار نہ کرے اس پر دنیا اور آخرت ہر دو جگہ نہ ایمان ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اس کا معاملہ صاحب ایمان کی طرح ہوتا ہے۔
(٤) ”اسلام“ اور ”ایمان“ دو شرعی اصطلاحیں ہیں ان میں عموم اور خصوص کا تعلق ہے البتہ تمام اہل قبلہ کو مسلمان کہا جاتا ہے۔
(٥) کبیرہ گناہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا بلکہ دُنیا میں اس کا حکم ناقص الایمان مؤمن کا ہے اور آخرت میں اس کا معاملہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ہے چاہے تو بخش دے اپنی رحمت کے ساتھ اور چاہے توعذاب دے عدل وانصاف کے ساتھ۔
تمام موحدین بالآخر جنت میں جائیں گے۔ جنہیں آگ میں جھونکا جائے گا وہ عذاب میں مبتلا تو رہیں گے لیکن کوئی موحد ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ میں نہیں رہے گا۔
(٦) اہل قبلہ میں سوائے ان اشخاص کے جن کا جنتی یا دوزخی ہونا دلیل سے ثابت ہے کسی کو جنتی یا دوزخی سے موسوم کرنا حرام ہے۔
(٧) شریعت کی اصطلاح میں کفر کی دو اقسام ہیں کفر اکبر اور کفر اصغر، کفر اکبر کا مرتکب ملت سے خارج ہو جاتا ہے، کفر اصغر کا مرتکب ملت سے خارج نہیں ہوتا اسے کفر عملی بھی کہا جاتا ہے۔
(٨) تکفیر (کسی کو کافر قرار دینا) شریعت کے باقاعدہ احکام میں شامل ہے البتہ اس کا انحصار کتاب وسنت پر ہے۔ کسی مسلمان کو اس کے کسی قول یا فعل کی بنا پر بلاشرعی دلیل کافر کہنا حرام ہے۔
کسی قول یا فعل کا شریعت کی نظر میں کفر ہونا ایک چیز ہے اور اس قول یا فعل سے کسی متعین شخص کا کافر ہونا دوسری چیز ہے۔ تاہم اگر تمام شرائط پوری ہو چکی ہوں اور کوئی شرعی عذر نہ رہا ہو تو پھر کسی کو متعین کرکے کافر کہا جا سکتا ہے۔
تکفیر شریعت کے خطرناک ترین احکامات میں سے ایک ہے لہٰذا کسی کلمہ گو کی تکفیر کرنے سے پہلے پوری احتیاط سے حقائق معلوم کرنا ضروری ہوتا ہے۔
قرآن مجید اور مسئلہ کلام
(١) قرآن مجید بشمول الفاظ ومعانی منزل من اﷲ ہے اور غیر مخلوق ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے اس کی ابتداءہے اور اسی کی طرف اس کی انتہا ہے۔ یہ رسول اﷲ کی صداقت پر دلالت کرنے والا معجزہ ہے اور قرآن مجید قیامت تک حرف بحرف محفوظ رہے گا۔
(٢) اﷲ تعالیٰ جو چاہے جب چاہے اور جیسے چاہے کلام کرتا ہے۔ اس کا کلام حقیقی، آواز وحروف کے ساتھ ہوتا ہے البتہ اس کی کیفیت کا نہ ہمیں علم ہے اور نہ ہی اس پر غور وخوض مباح ہے۔
(٣) کلام اﷲ کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ ایک معنوی تعبیر ہے یا قرآن کریم حکایت ہے یا تعبیر و شرح ہے یا وہ مجازی اور غیر حقیقی ہے۔ اس قسم کے عقائد رکھنا گمراہی ہے اور ان میں سے بعض کفر بھی ہوتے ہیں۔
(٤) جو شخص قرآن کے کسی حصے کا انکار کردے یا اس میں کسی قسم کی کمی وبیشی کی گنجائش سمجھتا ہو وہ کافر ہے۔
(٥) قرآن کی تفسیر سلف صالحین کے معلوم ومعروف طریقہ پر ہی کرنا ضروری ہے محض قیاسات یا ذاتی رائے یا شخصی ذوق کے مطابق تفسیر کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔ کیونکہ یہ اﷲ تعالیٰ کے متعلق ایسی بات کہنے کے مترادف ہے جو بلا علم ہے اور قرآن کو باطنیوں والی تاویلات اور معانی پہنانا کفر ہے۔
تقدیر
(١) اچھی اور بُری تقدیر کے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہونے پر یقین رکھنا ایمان کا رکن ہے۔
تقدیر پر ایمان لانے سے مراد ہے:
تقدیر کی تمام نصوص اور مراتب (علم، لوح محفوظ، مشیئت الٰہی اور تخلیق) پر ایمان لایا جائے اور اس بات پر ایمان لایا جائے کہ اﷲ تعالیٰ کے فیصلے کو نہ کوئی مٹا سکتا ہے اور نہ کوئی مؤخر کر سکتا ہے۔
(٢) کتاب وسنت میں بیان کردہ ارادہ اور امر کی دو اقسام ہیں۔
(ا) تکوینی وقدری ارادہ بمعنی مشیئت وقدری امر۔
(ب) شرعی ارادہ (جو پسندیدگی کے نتیجہ میں ہوتا ہے) شرعی امر ہے۔
مخلوق کا ارادہ اور مشیئت دونوں کا وجود ثابت ہے مگر یہ خالق کے ارادے اور مشیئت کے تابع ہیں۔
(٣) ہدایت وگمراہی صرف اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ بعض لوگوں کو وہ اپنی رحمت سے ہدایت عطا فرماتا ہے اور بعض لوگوں پر بتقاضائے عدل وانصاف گمراہی مسلط کر دیتا ہے۔
(٤) انسان خود بھی مخلوق ہے اس کے اعمال بھی مخلوق ہیں۔ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی خالق حقیقی نہیں ہے۔
لہٰذا بندے جو اعمال کرتے ہیں اس کے وہ ذمہ دار ہیں اگرچہ ان اعمال کا خالق حقیقی بھی اﷲ ہی ہے۔
(٥) اﷲ تعالیٰ کے ہر کام میں حکمت کے پنہاں ہونے کا اثبات اور اﷲ تعالیٰ کی مشیئت سے دنیاوی اسباب کے مؤثر ہونے کا اثبات بھی ضروری ہے۔
(٦) موت کا وقت، لوگوں کے رزق کی تقسیم اور سعادت و شقاوت سب کچھ ان کی تخلیق سے پہلے لکھا جا چکا ہے۔
(٧) تکالیف اور مصائب کو تقدیر کا نوشتہ کہاجا سکتا ہے لیکن بداعمالیوں، گناہوں اور سیاہ کاریوں کیلئے تقدیر کو بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ان گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے اور گناہوں کے مرتکب کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔
(٨) جس طرح اسباب پر کلی اعتماد کرنا شرک فی التوحید ہے اسی طرح اسباب سے کلی اجتناب کرنا بھی شریعت کے خلاف ہے۔ اسی طرح اسباب و وسائل کے مؤثر ہونے کی نفی کرنا شریعت اور عقل دونوں کے منافی ہے جبکہ توکل، اسباب اختیار کرنے کے منافی نہیں ہے۔
جماعت اور خلافت
(١) جماعت سے مراد ہے صحابہ کرام اور تاقیامت آنے والے وہ تمام لوگ جو اچھا طریقہ اپناتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چلیں گے اور یہی فرقہ ناجیہ ہے۔ جو بھی ان کی روش اپناتا ہے وہ جماعت میں سے ہے خواہ وہ بعض امور میں غلطی بھی کر جائے۔
(٢) دین میں فرقہ بندی اور مسلمانوں میں فتنہ انگیزی حرام ہے۔ جس چیز سے مسلمانوں میں باہمی اختلاف ہو جائے اسے شریعت اور سلف کے اسلوب کے سامنے پیش کرنا واجب ہے۔
(٣) جو شخص جماعت سے نکل جائے، اس کو نصیحت کرنا، اس کیلئے دُعا کرنا اور اس کے ساتھ افہام وتفہیم اور دلائل پیش کرنا واجب ہے۔ اگر وہ راہ راست پر آجائے تو بہتر ورنہ جس سزا کا شرعاً سزاوار ہے وہ اس پر لاگو کر دی جائے۔
(٤) لوگوں کے سامنے کتاب وسنت اور اجماع سے ثابت شدہ دین کے بنیادی عقائد واعمال کی دعوت دی جائے، عوم الناس کو دقیق اور پیچیدہ امور میں نہ الجھایا جائے۔
(٥) تمام مسلمانوں کے حق میں یہ اعتقاد رکھا جائے کہ وہ صحیح عقیدے اور اچھے اعمال کرنے والے ہیں جب تک اس کے برعکس کسی کا کردار واضح نہ ہو جائے۔ ہر ممکن حد تک ان کے اقوال کے اچھے مطالب ہی لئے جائیں لیکن جس شخص کا عناد اور بدنیتی واضح ہو جائے اس کے متعلق خواہ مخواہ تاویلیں تلاش کرنا بھی درست نہیں ہے۔
(٦) اہل قبلہ کے وہ فرقے جو اہل سنت سے خارج ہیں ان کا حکم ان گناہ گاروں کا سا ہے جن کیلئے کتاب وسنت میں عذاب کی وعید ملتی ہے اس سے وہ شخص مستثنیٰ ہے جو درحقیقت کافر ہے اور جو فرقے کلیتاً اسلام سے خارج ہیں وہ مجمل طور پر کفار شمار ہوں گے اور ان کا وہی حکم ہوگا جو مرتد کا ہوتا ہے۔
(٧) جمعہ اور دوسرے شرعی اجتماعات اسلام کے عظیم ترین ظاہری شعائر میں سے ہیں۔ مستور الحال مسلمانوں کے پیچھے نماز پڑھنا درست ہے۔ کسی کی حقیقت حال سے ناواقفیت کا عذر کرکے اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بدعت ہے۔
(٨) اگر کسی امام سے بدعات یا فسق وفجور کا ظہور ہو تو دوسرے صالح شخص کے ہوتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھنی درست نہیں ہے۔ البتہ اگر پڑھ لے تو نماز ہو جاتی ہے۔ گو ایسا کرنے والا گناہ گار ہو گا سوائے یہ کہ ایک بدعتی یا فاسق کے پیچھے نماز ادا کرنے سے اس کا مقصد کسی زیادہ بڑے شر کو دفع کرنا ہو۔ اگر دوسرا صالح امام دستیاب نہ ہو اور جو دستیاب ہو وہ اس جیسا ہو یا اس سے بھی بدتر ہو تو پھر پہلے امام کے پیچھے نماز پڑھنا ہی درست ہے۔ البتہ جماعت کے بغیر نماز پڑھنا ناجائز ہے تاہم جس شخص کی تکفیر کی جا چکی ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے۔
امارت کبریٰ:
(١) خلیفہ کا انتخاب اجماع اُمت یا اہل حل وعقد کی بیعت کے ذریعے ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص اقتدار پر قابض ہو گیا اور اُمت نے اس کے اقتدار کو تسلیم کرلیا تو بھلائی اور نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت اور خیر خواہی فرض ہوگی اور اس کے خلاف بغاوت حرام ہوگی سوائے اس بات کے، کہ حاکم کفر کا مرتکب ہو۔
(٢) مسلمان حکمرانوں کی معیت میں حج اور جہاد کرنا واجب ہے خواہ وہ ظالم ہی کیوںنہ ہوں۔
(٣) لالچ یا جاہلانہ تعصب کی بنا پر مسلمانوں میں باہمی جنگ وجدال کرانا حرام اور بہت بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔ البتہ بدعتی اور باغیوں کے خلاف جنگ کرنا ایسی صورت میں جائز ہے جب بغیر جنگ کے ان پر قابو نہ پایا جا سکتا ہو، حالات کے پیش نظر کبھی ایسی چارہ جوئی فرض بھی ہو جاتی ہے۔
(٤) تمام صحابہ کرام قابل اعتماد اور پوری اُمت میں افضل ہیں ان کے ایمان اور افضلیت کا عقیدہ رکھنا دین کے ان امور میں سے ہے جن کا جاننا ہر خاص وعام پر واجب ہے۔ ان سے محبت رکھنا دین و ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر ونفاق ہے۔ ان کے باہمی اختلافات کو زیربحث نہ لایا جائے اور ایسی تمام باتوں کو چھیڑنے سے اجتناب کیا جائے جو ان کی افضلیت کے شایان شان نہ ہوں۔
ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق، ان کے بعد حضرت عمر فاروق، ان کے بعد حضرت عثمان بن عفان اور پھر حضرت علی آتے ہیں۔ یہی ترتیب خلفائے راشدین کی ہے اور چاروں خلفاءکی خلافت برحق ہے۔
(٥) اہل بیت سے محبت اور دوستی رکھنا، اُمہات المؤمنین کی تعظیم کرنا اور ان کی فضیلت کا عقیدہ رکھنا۔ اسی طرح ائمہ سلف، علمائے اُمت اور ان کے پیروکاروں سے محبت رکھنا، اور اہل بدعت سے عداوت رکھنا دین کا حصہ ہے۔
(٦) جہاد اسلام کی چوٹی ہے اور وہ قیامت تک جاری رہے گا۔
(٧) امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام کے عظیم ترین شعائر ہیں یہ دونوں چیزیں اہل اسلام کی جماعت کے نظم، حفظ اور بقا کی ضامن ہیں۔ حسب استطاعت اور موقع محل کی مناسبت سے ان پر کاربند رہنا واجب ہے۔
اہل سنت والجماعت کی اہم خصوصیات
اہل سنت والجماعت فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ ہیں۔ باہمی تفاوت کے باوجود مندرجہ ذیل صفات انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
(١) کتاب اﷲ کے حفظ وتلاوت نیز تفسیر وبیان کرنے کا اہتمام کرنا، اس کے ساتھ حدیث کی معرفت، صحیح اور ضعیف کی پہچان اور علم پر کاربند رہنا ان کی صفت ہے۔
(٢) پورے دین کو اختیار کرنا، پورے قرآن پر ایمان لانا جس میں خوشخبری اور پکڑ دونوں شامل ہیں۔ اہلسنت والجماعت بیک وقت اﷲ تعالیٰ کے اسماءوصفات کا اثبات بھی کرتے ہیں اور اسے ہر عیب سے مبرا بھی جانتے ہیں۔ اﷲ کی تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں مگر اس بات کے بھی قائل ہیں کہ بندہ خود اپنا ارادہ بھی رکھتا ہے اور مشیئت بھی۔ اور فعل بھی اپنے اختیار سے کرتا ہے۔ اسی طرح علم کی اہمیت اپنی جگہ مانتے ہیں اور عبادت وریاضت کی اہمیت اپنی جگہ۔ اﷲ کی قوت تسلیم کرتے ہیں اور رحمت بھی، اسباب اختیار کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں اور زہد اپنانا بھی۔
(٣) بدعت کی بجائے نبی اور صحابہ کی پیروی اپناتے ہیں اور دین میں اختلاف وافتراق کی بجائے اتفاق اور اجتماعیت اختیار کرتے ہیں۔
(٤) علم وعمل اور تبلیغ میں قابل اقتدا ائمہ کرام کا طرز اپنانا، ان سے رہنمائی حاصل کرنا اور ان کے مخالفین سے کنارہ کش رہنا۔
(٥) عقائد، اعمال اور اخلاقیات میں افراط وتفریط کے درمیان راہ اعتدال اختیار کرنا۔
(٦) مسلمانوں کو حق پر مجتمع رکھنے اور توحید واتباع میں انہیں منظم رکھنے کیلئے کوشاں رہنا، ہر قسم کے اختلاف اور نزاع کو ختم کرنا۔ اسی لئے وہ عقائد کے سلسلہ میں ”اہل سنت والجماعت“ کے علاوہ کسی دوسرے نام سے نہیں پہچانے جاتے اور اسلام و راہ سنت کے علاوہ کسی اور تعلق کی بنا پر نہ دوستی رکھتے ہیں اور نہ عداوت۔
(٧) دعوت الی اﷲ، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد، راہ سنت کا احیاءاور تجدید دین کا کام کرنا، ہر چھوٹے بڑے معاملے میں اﷲ کی شریعت اور حاکمیت کو قائم کرنا۔
(٨) عدل وانصاف کا دامن تھامے رکھنا، اپنے گروہ یا ذات کی بجائے حقوق اﷲ کا پاس رکھنا۔ نہ دوستی میں غلو اور نہ دشمنی میں حدیں پھلانگتے ہیں اور ہر اہل فضیلت کو قابل احترام سمجھتے ہیں۔
(٩) زمان ومکان کے اختلاف کے باوجود ایک سا فہم وفکر رکھنا اور ملتے جلتے مؤقف اختیار کرنا ان کا خاصہ ہے جو کہ صرف وحدت مصدر اور منہج تلقی کا ثمرہ ہے۔
(١٠) تمام لوگوں سے حسن خلق، ہمدردی اور خوش اسلوبی سے پیش آنا۔
(١١) اﷲ، آسمانی کتاب، اس کے رسول ، مسلم حکمران اور عوام الناس کی خیر خواہی کرنا۔
(١٢) مسلمانوں کیلئے فکرمند رہنا، تمام مسلمانوں سے بھلائی کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا اور انہیں اذیت پہنچانے سے اجتناب کرنا اہل سنت والجماعت کی امتیازی خصوصیات ہیں۔
تمت بالخیر