یوم تکبیر اور اﷲ کی بڑائی
آفتاب خان
٢٨ مئی ٩٨کو پاکستان نے کامیاب ایٹمی تجربے کئے۔ جس کے نتیجہ میں ملک ایٹمی قوت اور دفاعی لحاظ سے مستحکم ہو گیا۔ جس کے بعد آئندہ کےلئے اس دن کو یوم تکبیر کے نام سے منانے کا اعلان کیا گیا۔ بعد ازاں گو اس کے تبدیلئ نام کی قرار دادیں بھی برابر گردش میں رہیں تاہم پاکستان میں اس روز کا منانا بھی لگتا ہے اب ٹھہر گیا ہے۔ ہم ”مسلمان“ ہیں اس لیے کافروں کے مقابلے میں گھوڑے تیار رکھنے والی آیات اس ضمن میں تلاوت کی جا رہی ہیں اور اسلام پسند حلقے یوم تکبیر سے مراد اﷲ کی کبریائی کا دن بھی لے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مذہبی و قومی- ملا جلا جوش و خروش دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت نے بے پناہ وسائل اس دن کو منانے میں خرچ کئے ہیں اور ٹی وی نے حسب معلوم یوم تکبیر (عید کے دن) کو روائتی بے حیائی اور کھیل تماشے کے ساتھ منایا ہے۔ اس پس منظر میں بحیثیت مسلمان ہم جائزہ لیتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں یا کسی سیل رواں میں بہے چلے جا رہے ہیں۔
اس قبیل کے قومی تفاخر کے دن کی حیثیت متعین کرنے کے لئے چند نقاط کی تذکیر ضروری ہے جو غلط فہمی کی بنیاد ہیں، اور جہاں اسلام اور جاہلیت آپس میں خلط ہیں۔ لیکن اگر اسلامی تعلیمات سے دوری نہ ہو اور دین حق کی روح کو سمجھ لیا جائے تو در حقیقت اسلامی افکار و نظریات کڑی در کڑی ملے ہوئے ہیں۔ اور عین اسی طرح جاہلی اقدا ر و روایات بھی باہم مربوط و متصل ہیں۔
(١)قومیت کی بنیاد:
جس چیز نے ایک ملک کے اندر بسنے والوں کو ایک قوم بنایا ہے وہ ریاست اور سیاسی نظام ہے جس کا اقتدار اس ملک کے عوام پر ہے۔ یعنی قوم اور نیشن کے موجودہ مفہوم کے تحت لوگوں کے اجتماع کی بنیاد ریاست ہے۔ عقیدہ وایمان نہیں۔ پر آگے ملک کے اندر زبان و علاقے کی بنیاد پر پائی جانے والی چھوٹی قومیتوں کے لئے یہ ضروری سمجھا جاتا ہے کہ وہ ملکی قومیت کے اندر اپنے آپ کو گم کر دیں اور وہ اپنی پہچان کی حد تک تو ٹھیک ہیں البتہ اسے قوم پرستی کی حد تک نہ پہنچائیں۔ دنیا کے اندر ان سب کی پہچان صرف ملک کے ناطے سے ہو۔ لہٰذا اگر پختون، سندھی یا سرائیکی اپنی قوم کے حقوق حاصل کرنے اور اسے ترقی دینے کےلئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے تو اسے قوم پرست ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے اور دوسری طرف ملک کی خاطر جینے اور مرنے کا عزم ”ایمان“ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہی سبق”قائد اعظم“ کے ارشادات سے ملتا ہے کہ یہاں کوئی پنجابی ، بلوچی، پٹھان یا سندھی نہیں سب پاکستانی ہیں۔ اور یہاں تک کہ ”ہمیں اس نصب العین کو ہر وقت اپنے سامنے رکھنا چاہیے وقت کے ساتھ ساتھ آپ دیکھیں گے کہ نہ ہندو ہندو رہے گا نہ مسلمان مسلمان، مذہب کے معنوں میں نہیں بلکہ سیاست کے معنوں میں جب ہر شخص مملکت کا شہری ہو گا“۔
یوں لفظ قوم یا نیشن خالص جاہلی اصطلاح ہے اور اسلام کےلئے بالکل اجنبی۔
(٢)ملک کا نظام:
دین کے عام معنی ہیں قاعدہ، ضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جو بندے کی انفرادی زندگی سے لے کر اجتماعی معاشرتی نظام تک حاوی ہے۔ فرعون نے موسیٰ کے بارے میں اپنی قوم سے جو کہا کہ ”مجھے خوف ہے کہ کہیں یہ تمہارا دین نہ بدل دے، یا ملک میں فساد نہ کھڑا کر دے(المؤمن۔٦٢)“ تو اسے ڈر تھا کہ اگر موسیٰ اپنے مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اسٹیٹ بدل جائے گی۔ جو نظام زندگی اس وقت فراعنہ کی حاکمیت اور رائج الوقت قوانین و رسوم کی بنیادوں پر چل رہا تھا وہ جڑ سے اکھڑ جائے گا۔ وہ رب اس معنی میں بنا ہوا تھا کہ ملک میں اس کا قانون اور حکم چلتا تھا اور اس کی مرکزی حاکمیت ملک کے اجتماع کی بنیاد تھی۔
قرآنی دعوت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سیاسی نظام کو دیکھیں جو ہماری قومیت کی بنیاد ہے تو یہ فرعونیت ہی کی طرح اﷲ تعالیٰ سے بغاوت پر مبنی نظام ہے۔ یہ انسانوں کو اپنے جیسے انسانوں کی غلامی میں دیتا ہے جو وحی سے بے نیاز ہو کر ملک کےلئے قانون سازی کا اختیار رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔”کیا وہ ایسے شریک خدا رکھتے ہیں جو ان کےلئے دین کی نوعیت رکھنے والا ایک طریقہ مقرر کرتے ہیں۔ جس کا اﷲ نے اذن نہیں دیا “ (الشوریٰ۔١٢) شریعت کو قانون اور حلال و حرام کو جائز و نا جائز کا نام دے کر یہ نظام، دین کو انفرادی زندگی تک محدود کرتا ہے اور اسے مسجد و عبادت گاہ میں بند کر کے اسے مذہب کا نام دیتا ہے۔ یہ نظام ہر رکن حکومت کو یہ آزادی دیتا ہے کہ قانون سازی کے وقت چاہے اسلام کے حق میں رائے رکھے یا اس کے خلاف ہرزہ سرائی کرے اور بالآخر فیصلہ اﷲ کی بجائے اکثریت کا مانا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ قرآن و سنت کو سپریم لاءبنانے کےلئے بھی اس نظام کے (ليجسليٹوپروسيجر)سے گزارنا ضروری ہے۔ انفرادی حیثیت میں تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ کوئی چاہے تو اسلام قبول کرے یا نہ کرے لیکن عوام پر ”نافذ“ کرنے کےلئے اسلام کسی کو آزادی نہیں دیتا کہ چاہے اﷲ کے حکم کی تنفیذ کرے یا اپنی عقل کو اس پر مقدم جانے۔ چوں کہ یہ نظام ہی کفر پر مبنی ہے تو پھر اسی کی بنیاد پر بننے والی قومیت کے ترانے گانا۔ اس کی ترقی کو اسلام کی ترقی، اس کے استحکام کو اسلام کا استحکام سمجھنا اور اس کےلئے اپنے آپ کو وقف کرنے کو اسلام کی خدمت سمجھنا دین اسلام سے نا واقفیت کی بنیاد پر ہے۔
(٣) امت کا تصور:
الکفر ملت واحدہ۔ قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر سارے کافر ایک ملت (حزب الشیطان) اور سارے مسلمان ایک امت (حزب اﷲ) ہیں۔ لیکن جدید جاہلیت ملت و قوم کا الگ ہی تصور وطن کی بنیاد پر دیتی ہے۔ اور یہ تصور اس وقت ”غالب“ ہے کہ مسلمانوں میں امت کا تصور بہت پیچھے چلا گیا ہے۔ نا سمجھ مسلمان یہ کہتے ہیں کہ ہماری دو قومیتیں ہیں ایک وطن کی بنیاد پر اور ایک دین کی بنیاد پر۔ لیکن کون نہیں جانتا کہ اس وقت ”مسلمان“ گیت کس قومیت کے گاتے ہیں۔ درس گاہوں میں کس قومیت کو پروان چڑھایا جا رہا ہے اور پورا میڈیا کس کی کتنی خدمت کر رہا ہے؟ صاف بات ہے کہ عقیدہ و مسلک کی بجائے کسی بھی بنیاد پر قومیت پروان چڑھے گی تو امت کا تصور ختم ہو جائے گا یا بے معنی و بے مقصد لفظ ،کی حد تک رہ جائے گا جیسا کہ فی الحقیقت ہے۔ علاقائی و نسلی قومیتیں جس طرح ملکی قومیت کے استحکام کےلئے خطرہ ہیں بعینہ ملکی قومیتیں امہ واحدہ کے استحکام کےلئے خطرہ ہیں۔مگر یہ حقیقت شیطان کی عبادت کرنے والوں کو سمجھ نہیں آرہی۔
(٤) دفاع وطن:
اب عسکری اعتبار سے دیکھیں۔ اﷲ کا حکم ہے کہ ”اور ان (کافروں) سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے۔ اور دین سارے کا سارا اﷲ کےلئے ہو جائے“۔(انفال39)
پہلی بات تو یہ کہ ملک کا دین اﷲ کےلئے نہیں ہوا جیسا کہ اوپر زکر کیا جا چکا ہے۔ رائج الوقت سیاسی نظام میں آئین کفر کا ہے اور قانون انگریز کا۔ دوسری بات یہ کہ قرآن مسلمانوں کو یہ دعوت دیتا ہے کہ پوری دنیا کے انسانوں کو دین اسلام کے تابع لانے کےلئے قتال کرو۔ نہ صرف یہ کہ وطن کا دفاع( بلکہ موجودہ اصطلاح کی رو سے اپنے اپنے وطن کا دفاع) ۔ یہ نظریہ عہد حاضر کی تخلیق ہے اور اسلامی شعور اور تعلیم کےلئے قطعاً اجنبی و نو وارد۔اسلامی تعلیم کی رو سے جہاد کو قائم کرنے کےلئے اصل اعتبار اسلامی عقیدہ کے تحفظ کا ہے ، یا اس معاشرے کے تحفظ کا جس کا طریق زندگی اس عقیدے کی عملی تفسیر ہو۔ رہی ”خاک وطن“ تو دین الٰہی کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔ اس کو کوئی چیز اگر شرف و عظمت بخش سکتی ہے تو وہ صرف یہ بات ہے کہ وہاں اﷲ کی حکومت کا سکہ رواں ہو اور اﷲ کا بھیجا ہوا نظام زندگی وہاں نافذ ہو۔ تیسری بات یہ کہ دفاع بھی کس سے کرنا ہے؟ صرف انڈیا سے جو پیدائشی دشمن ہے اور اس کے ساتھ ہماری ”قومی کشمکش“ نے یہ دشمنی پیدا کر دی ہے؟ حالانکہ ایک بڑے کافر چین کو اپنا علاقہ بخوشی دے چکے ہیں اور اس کے ساتھ مل کر مشترکہ دفاعی منصوبے بنائے جا رہے ہیں ۔ فضائیہ کی پچاس سالہ تقریبات کا جشن رائل فورس آف انگلینڈ کے طیاروں کے ساتھ مل کر منایا جا رہا ہے۔ جبکہ اسلام کی تعلیمات سے یہ کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ اسلام کا نام لینے والو کہاں بھٹکے جا رہے ہو اور حق کو باطل سے چھانٹ کر علیحدہ کیوں نہیں کرتے؟ اب اگر کوئی ملکی سرحدوں کی حفاظت میں جان دینے کو شہادت اور اس کی خاطر لڑنے کو ”جہاد فی سبیل اﷲ“ کہتا ہے تو اسے یہ حق کس نے دیا ہے کہ دین کی (اصطلاحوں) کا مفہوم بگاڑے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر کوئی ظالم ڈاکو آپ کے گھر پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس سے جان ومال اور عزت آبرو بچانے کےلئے لڑنا بھی مسلمان کےلئے جائز اور قتل ہو جانے پر شہادت کی موت۔ اسی طرح اگر کوئی ظالم حکمران آپ کے علاقے و وطن پر کشت و خون کےلئے فوج کشی کرتا ہے تو اس سے اپنے جان و مال بچانے کےلئے لڑنا بھی درست ہے۔ لیکن محض سرحدوں کی حفاظت کےلئے لڑنا اس لیے کہ ان سرحدوں تک اپنی قوم کے لوگوں کی حکمرانی ہے، قطع نظر اس سے کہ اسلام کی حکمرانی ہے یا نہیں، اور یہ کہ یہ حکمرانی اپنی قوم سے چھن نہ جائے اور باطل نظام کے سائے تلے ان سرحدوں تک ہماری اپنی ہی وطنی قوم کے نمائندے ہمارے اوپر حکمران رہیں۔ تو یہ ”یقاتلون فی سبیل الطاغوت“ کے زمرے میں آتا ہے اور جہاد فی سبیل اﷲ ہرگز نہیں۔ مسلمانوں کےلئے اس بنیادی فرق کو سمجھ لینا بہت ضروری ہے۔
(٥) وطن سے محبت:
اسلام دین فطرت ہے۔ اور یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ اپنے وطن اور علاقہ سے محبت کرتا ہے۔ مگر کیا یہ وطن وہ ہے جس کی سرحدیں اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ ہوں ؟ انسان اپنے گھر سے، محلے، گاؤں اورشہر سے محبت کرتا ہے۔ جہاں وہ پیدا ہوا پلا بڑھا اور عمر کا ایک حصہ گزارا۔ اس فطری محبت کا دائرہ کار عین ملکی سرحدوں تک نہیں ہے اور اگر تعلیم وتربیت نے ملک کی حد تک محبت پروان چڑھا دی ہے تو پھر یہ محبت دراصل اس سیاسی و تمدنی نظام سے ہے جس کی حاکمیت ملک کی سرحدوں تک ہے۔ اگر یہ نظام غیر اسلامی ہے تو مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ شیطان نے کس چیز کی محبت دلوں میں بھر دی ہے۔
اوپر بیان کردہ مفاہیم سے یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ ”قومی وقار“ اور ”قومی دنوں“ کی حیثیت مسلمان کے نزدیک کیا ہونی چاہیے۔ یہ ”وطن عزیز“ جس کا مطلب لا الہ الا اﷲ بتایا جاتا ہے (حالانکہ تحریک پاکستان کے ممتاز رہنما اور تحریک تکمیل پاکستان کے مرکزی نائب صدر بشپ سمسن منوہاتک ہو سکتے ہیں)۔ اگر واقعی دنیا کے مسلمانوں کی پناہ گاہ ہے اور اسلام کا قلعہ ہے تو اس کے استحکام و ترقی کےلئے دعائیں کرنا اور ایٹمی قوت بننے پر شکرانے کے نوافل ادا کرنا ایمان باﷲ کی علامت ہے اور اگر ایسا نہیں اور آپ جانتے ہیں کہ یہ ملک آپ کے مجاہد بھائیوں کو خود کبھی امریکی اور چینی ظالموں کے حوالے کرتا ہے اور خود کبھی عرب طاغوتوں کے سپرد کرتا ہے۔ خالص مادی سوچ رکھتے ہوئے کہ کافروں کی طرف سے ہمارے اوپر کوئی آفت نہ آجائے یا ہماری کرسی کو کوئی خطرہ نہ رہے۔ تو یہ دعائیں اور شکرانے کے نوافل وطن پر ایمان کی علامت ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لے لینا چاہیے۔