جشن آزادی مبارک
عمار ابراہیم
آزادی کا مفہوم اس کے مخالف غلامی سے واضح ہوتا ہے۔۔۔۔۔ جس کی کئی شکلیں ہیں مثلاً سیاسی غلامی، معاشرتی غلامی، معاشی غلامی، ثقافتی غلامی اور سب سے بڑھ کر ذہنی غلامی، غلامی کی تمام اشکال سے رہا ہونے کا نام آزادی ہے۔
عام طور پر آزادی کا مفہوم صرف سیاسی نقطہ نظر سے لیا جاتا ہے۔ پھر مختلف مذاہب، نظریات اور جماعتوں کے نزدیک اس کا مفہوم مختلف ہے کچھ لوگ حکمرانی صرف اپنی قوم کے پاس رکھنے کو آزادی سمجھتے ہیں حکم خواہ غیر قوم کا چلے اور کچھ مارشل لاءاور بادشاہت کے مقابلے میں جمہوریت کو آزادی عوام سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ اسلام کے نزدیک ہر معاملے کو چاہے سیاست ہو، معیشت ہو، ثقافت ہو یا معاشرت ہو غیر اﷲ سے رہا کر کے اﷲ رب العالمین کے سپرد کرنا ہی اصل آزادی ہے اور جب تک یہ زندگی کی اساس اور سیاست کی بنیاد نہ ہو کبھی آزادی حاصل نہیں ہو سکتی اس آزادی سے نفس اور قوم کے سب بت ٹوٹ جاتے ہیں اور انسان کے تمام معاملات اﷲ ذوالجلال کے دین کے تحت آ جاتے ہیں۔ جب حاکمیت صرف اﷲ کے لیے ہو اور اس کا عملی ثبوت یہ ہو کہ اﷲ کی شریعت کو معاشرے میں بالا تری حاصل ہو تو صرف ایسے معاشرے ہی میں انسان اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے آزاد ہو سکتے ہیں ورنہ غلامی ہی غلامی ہے۔
تحریک پاکستان کے وقت اہل بصیرت علماءنے صحیح آزادی کا راستہ ہماری قوم کو دکھایا اور اس تحریک کی دین سے آزاد قیادت کے خطرات اور اس قومی جدوجہد کے باطل پن کو واضح کیا۔ لیکن مطلب پرست سیاست دانوں اور قوم پرست دین سے ناواقف علماءنے عوام کے دینی جذبہ کو استعمال کیا اور اپنے سیاسی مقاصد کےلئے ان کو ایک غلامی سے دوسری غلامی کی طرف دھکیل دیا اور آج تک عوام کو یہ تسکین دہ دوا دے رہے ہیں کہ خوشیاں مناؤ تم آزاد ہو۔ جبکہ نصف صدی سے ہم منافقت کا لبادہ اوڑھ کر انگریز کا قانون دیدہ دلیری اور تقدس سے چلا کر خالق کائنات سے بغاوت کر رہے ہیں اور اﷲ کی لعنت میں گرفتار ہیں اور قومی سرمایہ لگا کر فساد کے اڈوں (ٹی وی، ریڈیو، دیگر ذرائع ابلاغ) کے ذریعے ہندو ظالم سے بھی آگے بڑھ کر مسلمان عورتوں کی نہ صرف عزت بلکہ پورا دین لوٹ رہے ہیں۔ ہماری ثقافت، فن، فلمیں تہذیب سب غلامی کا نقشہ پیش کر رہے ہیں۔ سودی نظام اور جوئے کی مختلف شکلوں کے ساتھ اﷲ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ کر رکھا ہے۔ کرپشن اور بدعنوانی میں عالم جاہلیت میں ١٢ویں نمبر پر آ چکے ہیں۔ اب کس بات پر جشن منائے جائیں؟
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم ان بتوں کو توڑ کر صحیح آزادی کی طرف رخ کریں؟ اور قوم کی عبادت اور قوم کی مصلحت کی بجائے اﷲ کی عبادت اور دین کی مصلحت ہمارا نصب العین بن جائے؟ کیا وہ وقت نہیں آیا کہ سیاسی نعروں، معاشی دعووں اور قومی جہادوں کی بجائے اس جاہلیت اور جاہلی معاشرت سے براءت حاصل کر کے اسلامی معاشرے کی طرف رخ کریں اور اپنے آپ اور اپنی قوم کو غیر اﷲ کی بندگی سے نکال کر اﷲ تعالیٰ کی عبادت میں داخل کریں۔
حقیقی آزادی تو بس یہی ہے باقی سب راستے غلامی کی طرف جاتے ہیں۔ سوچ لیں کہ ہم نے کون سی راہ اختیار کرنی ہے۔ یہ آزادی کا دن نہیں غلامی کی ایک اور سہاہ رات ہے۔
اَلَم یانِ لِلَّذِینَ اٰمَنُوا اَن تَخشَعَ قُلُوبُہُم لِذِکرِ اﷲِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الحق وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِینَ اُوتُوا الکِتٰبَ مِن قَبلُ فَطَالَ عَلَیہِمُ الاَمَدُ فَقَسَت قُلُوبُہُم۔ وَکَثِیر مِّنہُم فٰسِقُونَ ( الحدید۔١٦)
”کیا اب تک ایمان والوں کےلئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل دکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں اور ان کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر جب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گئے اور ان میں بہت سے فاسق ہیں“۔