|
| مسجد اقصیٰ پر یہودی چیرہ دستیاں | |
| مختصر تاریخی جائزہ | |
بیت المقدس پر 1967ءمیں اسرائیل کا قبضہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ ہی مسجد اقصیٰ پر یہودی چیرہ دستیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے....
دو سال بھی نہیں گزرتے کہ 1969ءمیں یہود کا یہ صدیوں کا کینہ باہر آجانے پر مجبور ہوتا ہے اور ایک آگ کی صورت انبیاءکی اس قدیم معصوم عبادت گاہ کو بری طرح اپنی زد میں لے لیتا ہے۔ ایک یہودی، سیاح کا روپ دھار کر مسجد میں داخل ہوتا ہے اور آتش زنی کرجاتا ہے۔ مسجد کے ایک بڑے حصے کی چھت خاکستر ہو جاتی ہے اور حتی کہ منبر صلاح الدین بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
یہودی بغض وکینہ درحقیقت قدس پر قابض ہونے سے پہلے ہی پوری ڈھٹائی کے ساتھ سامنے آچکا تھا۔ سرزمین قدس کو اپنے ناپاک قبضے تلے لانے سے پورے دو عشرے پیشتر، یعنی جولائی 1948ءمیں بھی یہودیوں کے مسلح گروہوں نے مسجد اقصیٰ کے احاطے پر 55 بم گرائے تھے۔
بیشتر لوگ جانتے ہیں کہ یہود اپنی خاص تاریخی یادداشتوں کو نہایت بڑھ کر اہمیت دیتے ہیں۔ یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے کیلئے اگست کے مہینہ کا انتخاب بھلا کیوں کیا؟ یہودی تاریخ میں اکیس اگست ’ہیکل سلیمانی‘ کے انہدام کا دن بتایا جاتا ہے۔ چنانچہ اسی مناسبت سے انہوں نے عین اسی دن کو مسجدِ اقصائے مبارک کو نذر آتش کرنے کیلئے مناسب ترین جانا!
چنانچہ اکیس جولائی 1969ءکو صبح سویرے، کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے نمازی یہاں فجر ادا کر کے گئے تھے، مسجد اقصیٰ میں ہر طرف آگ کے شعلے بھڑکتے دیکھے جاتے ہیں۔ مسجد کے تین حصے خاص طور پر آتش زنی کا نشانہ تھے:
مسجدِ عمرؓ: جوکہ احاطۂ اقصیٰ کے جنوبی گوشے میں واقع ہے۔ مسجد کا یہ حصہ رمزیہ طور پر اس اولین مسجد کی یاد دلاتا ہے جو بیت المقدس کے اسلامی قلمرو میں آنے کے بعد پہلے پہل پیروانِ محمد کے ہاتھوں عمر بن الخطابؓ کی زیر سرکردگی تعمیر ہوا تھا !یوں مسجدِ اقصیٰ کا یہ گوشہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب عمر بن الخطابؓ نے مدینہ سے یہاں آکر نصرانی حبر اعظم صفرونیوس دمشقی سے بیت المقدس کی چابیاں بنفس نفیس وصول فرمائی تھیں!بعد ازاں ایک بڑے زلزلہ کے سبب مسجد کی یہ عمارت شدید طور پر متاثر ہوئی تو خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس کو از سر نو تعمیر کیا اور نہایت عالیشان عمارت بنائی۔
مسجد کا یہ پیشینی حصہ صہیونیت کے دل میں کانٹے کی طرح نہ چبھے تو کیا ہو!
اقصیٰ کا یہ حصہ جو مسجدِ عمرؓ کے نام سے موسوم ہے، اس کی چھت میں مٹی اور لکڑی بکثرت استعمال ہوئی ہے۔ چنانچہ طبعی بات ہے کہ آگ یہاں پر اپنا پورا اثر دکھاتی۔
منبرِ صلاح الدین: یہ منبر اور محراب اسلام کے عظیم سپوت صلاح الدین ایوبی کے نام سے موسوم ہے، جس نے مسلمانوں کے اس تاریخی شہر کو 1187ءمیں صلیبیوں کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کرایا تھا۔ دراصل یہ منبر نور الدین زنکی کا تیار کردہ تھا جوکہ اس نے شام کے شہر حلب میں بنوا کر محض اس انتظار میں دھرا رکھا تھا کہ مسجد آزاد ہوتے ہی اس کا یہ منبر اقصیٰ میں دھرا جائے گا، مگر اس کی زندگی نے وفا نہ کی۔ فتحِ بیت المقدس کے بعد نور الدین کی یہ خواہش اس کے جانشین صلاح الدین نے پوری کی تھی!
اس چوبی منبر کی بابت ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میں لکڑی کی ساری جڑائی کسی بھی کیل یا پیچ یا سریش وغیرہ کے بغیر عمل میں لائی گئی تھی اور لکڑی ہی کی کچھ ایسی کٹائی کی گئی تھی کہ اس کے مختلف حصے آپس میں مل کر فٹ ہو جائیں۔ اُس وقت کے مسلم معماروں نے دراصل اس کے اندر ایک رمزیہ پیغام دیا تھا کہ مسلم افواج کا بیت المقدس کو لینا ایسی ہی ایک حقیقت ہے جو آپ اپنے سوا کسی ’جوڑ‘ کی ضرورت مند نہیں اور یہ کہ امتِ اسلام کا اقصیٰ کے ساتھ ازل کا رشتہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے!
یہودی آنکھ اس منبر کو ابھی تک یہاں دھرا بھلا کیسے برداشت کرتی!
جنوب مغربی گوشے کا بالائی حصہ: مسجد اقصیٰ کایہ وہ بالائی حصہ ہے، جو مسجد کے فرش سے تقریباً دس میٹر بلندی پر ہے اور مسجد کے اندر سے اس تک سیڑھی کے بغیر پہنچا ہی نہیں جاسکتا۔ مائیکل ڈینس، جوکہ یہاں آگ لگانے آیا تھا سیاح کے روپ میں اندر داخل ہوا تھااور ظاہر ہے سیڑھی لے کر نہیں آیا تھا۔ مسجد کے اس حصے میں آگ بھی اندرونی جانب کی نسبت بیرونی جانب زیادہ رہی۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آتش زنی کے اس گھناؤنے واقعہ میں بیرونی جانب سے بھی کوئی پورا ایک گروہ شریک تھا۔ مائیکل ڈینس جوکہ مسجد کے اندر تھا مغربی سمت سے بیرونی طرف اور اتنی اونچائی پر جاکر اکیلا آگ نہ لگا سکتا تھا۔ پھر جبکہ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ شہر بیت المقدس پر قابض ہوجانے کے بعد اسرائیلیوں نے مسجد کے مغربی سمت سے متصل علاقہ کو اپنے زیر نگرانی لے رکھا تھا۔ بلکہ اس جانب واقع پورا ایک محلہ جو ”حارۃ المغاربہ“ کے نام سے معروف تھا، گرا کر احاطۂ مسجد کا مغربی پھاٹک جوکہ بوابۃ المغاربہ کہلاتا ہے، تک اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔
محرابِ زکریا ؑ: جوکہ مسجدِ عمرؓ سے متصل واقع ہے۔ زکریا علیہ السلام کے ساتھ دشمنی اب بھی نہ چھوٹی!
مقامِ اربعین: اقصیٰ کا یہ حصہ محرابِ زکریاؑ کے ساتھ آگے جا کر لگتا ہے۔ یہ بھی آتش کی زد میں آیا۔
تین بارہ دریاں: مسجد میں واقع کل سات بارہ دریاں ہیں جوکہ جنوب تا شمال ستونوں اور فصیلِ مسجد کے محرابی پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ ان نہایت مزین بارہ دریوں میں سے تین اس آتش زدگی کا شکار ہوئیں۔
مسجد کے دو مرکزی ستون: یہ بھی زمین بوس ہوئے جوکہ مسجد کے گنبد تلے ایک نہایت خوبصورت محراب کا وزن اٹھا کر کھڑے تھے۔
مسجد کا اندرونی گنبد: یہ ایک چوبی گنبد تھا۔ اس پر رنگدار چونے سے کڑھائی کا نہایت خوبصورت کام ہوا تھا۔ طلائی نقش بھی تھے۔ نفیس کتابت کے شاہکار اور بیل بوٹوں کے کچھ نادر نمونے تھے۔
مرمریں محراب: یہ ایک پوری محراب تھی جو آتش کا شکار ہوئی۔ اس پر رنگین مرمر کا کام ہوا تھا۔
جنوبی سمت کی دیوار: مسجد کی جنوبی سمت کی پوری دیوار آگ سے نہایت بری طرح متاثر ہوئی۔ اس پر مرمر کی جڑی ہوئی رنگین تہہ پوری کی پوری تباہ ہوگئی۔
مسجد کے اڑتالیس روزن: یہ حد درجہ خوبصورت چوبی روزن تھے، جن پر چونے اور نہایت بیش قیمت رنگین کانچ کا کام ہوا تھا۔ چونے پر ترچھے انداز کی لکیریں اس انداز سے کندہ کی گئی تھیں کہ مسجد کے اندر آنے والی سورج کی شعاعیں نمازیوں پر سیدھی نہ پڑیں!
پوری مسجد کے قالین: یہ نہایت بیش قیمت فارسی قالین تھے، جو سب کے سب جل کر برباد ہوگئے۔
سورۂ اسراءکے ابتدائیہ پر مشتمل خطاطی کا نادر نمونہ: سورۂ اسراءکی ابتدائی آیات پر مشتمل خطاطی کا یہ ایک نادر نمونہ تھا، جوکہ طلائی پچی کاری سے کام لے کر نقش کیا گیا تھا۔ قرآنی خطاطی کا یہ نمونہ محرابِ مسجد کے عین اوپر تھا اور محراب کے مشرقی سمت تیئیس میٹر تک پہنچتا تھا۔
مسجد کے قدیم منقش شہتیر: یہ مسجد کے نہایت قدیم شہتیر تھے اور دیکھنے والے کو مسجد کی تاریخ کے جھروکوں میں بہت پیچھے لے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے مسجد کا بذات خود یہ ایک بڑا اثاثہ تھا۔ ان چوبی شہتیروں پر خوبصورت نقش ونگار تھے۔ مزید یہ کہ پرانی طرز پر ان شہتیروں کے ساتھ قندیلیں اور فانوس لٹکائے جاتے جوکہ ستونوں کے سروں پر لگی تاج نما کڑھائیوں کے مابین جھولا کرتے تھے تو نہایت دلکش لگتے!
٭٭٭٭٭
دراصل اسرائیلی اس مار پر تھے کہ اقصیٰ کے اندر تین مختلف اطراف میں لگائی گئی آگ پھیلتی پھیلتی آپ سے آپ بیچ میں آملے گی اور یوں مسجد کا جنوبی حصہ کلیتاً منہدم کردینے کے بعد شمالی جانب بڑھے گی تو پوری مسجد ہی کا کام تمام ہوجائے گا۔ مگر خدا نے ان کو نامراد رہنے دیا۔ جنوب مغربی جانب کے بالائی حصہ میں لگائی گئی آگ کسی ان دیکھے سبب کے ہاتھوں آپ سے آپ بجھ گئی اور جنوب کی جانب تک نہ پہنچ سکی۔ یوں جنوب مشرقی حصہ جلنے سے بچا رہا۔ آگ شمال کی طرف ضرور بڑھی اور کوئی 1500 میٹر مربع کے قریب مسجد کا حصہ نذر آتش ہوا، یعنی کہ مسجد کا کوئی ایک تہائی حصہ۔ خیال رہے مسجد کا کل رقبہ 4400 میٹر مربع بنتا ہے۔
جس دن مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کا یہ واقعہ ہوا، خلافِ معمول اس دن اسرائیلیوں نے بیت المقدس میں بلدیہ کے زیر انتظام مسجدِ اقصائے مبارک کو فراہم کئے جانے والے پانی کی سپلائی بند کر دی تھی!وجہ ظاہر ہے کہ یہ ایک طے شدہ منصوبہ تھا۔ یعنی آگ جلے اور بجھانے کو پانی نہ ملے اور مسجد پر جان دینے والے بے چارگی سے مسجد کو جلتا دیکھیں! فائر بریگیڈ کی اسرائیلی گاڑیاں اس وقت پہنچیں جب اہلیان شہر جیسے کیسے ہمت کر کے آگ بجھانے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ اسرائیلی بلدیہ کی کارگزاری اس امر تک محدود رہی کہ دنیا بھر کی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی رپورٹروں کو جی بھر کر جلی ہوئی مسجد کی تصویریں اتارنے کی پوری پوری سہولت فراہم کرے اور نمازیوں کا غم وغصہ ان کے آڑے نہ آئے۔ آگ بجھانے کے اس عمل میں کچھ کام آئے تو وہ عرب فائر بریگیڈ جو نہایت مختصر وقت میں اور ایک ناقابل یقین مستعدی کے ساتھ پاس کے شہروں ’خلیل‘ اور ’رامَ اللہ‘ سے یہاں پہنچ جانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
جن لوگوں نے مسجد اقصیٰ میں یہود کی جانب سے لگائی جانے والی یہ آگ بجھائے جانے کے چشم دید واقعات بیان کئے ہیں انہیں سن کر آدمی دم بخود رہ جاتا ہے اور ان واقعات کو تاریخ کی کتابوں میں ذکر کیا جانے کے قابل جانتا ہے۔شاید وہ خدا کے خاص دنوں میں سے ایک دن تھا۔ بیان کرتے ہیں: بیت المقدس کے اندر، پورے شہر کے ہاتھوں میں اس دن بالٹیاں اور کنستر تھے۔ مقدسی نوجوان دیوانہ وار، کندھے سے کندھا ملا کر دیوار بنے، پانی کی بالٹیاں احاطۂ مسجد کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچا رہے تھے۔ ایسی بے شمار انسانی دیواریں اس دن یکایک خدا کے اس قدیم گھر میں کھڑی ہوگئی تھیں جس دن اس گھر کی اینٹ گارے کی دیواریں شعلوں کی نذر ہونے لگی تھیں! ’نمازی‘ اس دن ثابت کررہے تھے کہ ’صفیں‘ صرف نماز پڑھنے ہی کے لئے نہیں، مسجد بچانے کے لئے بھی بنائی جاتی ہیں! مسلمان مرد کیا عورتیں،مسجد کے احاطہ میں موجود کنووں کو دھڑا دھڑ گویا پانی سے خالی کرکے رکھ دیں گے! بوکے، ڈول، ٹین.. گھر کا جو جو برتن رسی سے باندھنے میں آ سکتا تھا کنووں میں جھونک دیا گیا اور جو نہ باندھا جاسکتا تھا وہ سروں پر اور ہاتھوں کے اندر پوری مسجد میں پانی لئے گشت کررہا تھا! آگ بجھانے کے لئے پانی اب صرف ان کنووں سے لیا جاسکتا تھا جو یوں لگتا تھا کہ اسلاف نے کبھی اسی وقت کے لئے کھود رکھے ہوں گے! چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کسی نے ہمت دکھانے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ کوئی مشینری میسر نہ رہی تھی۔ اتنی بڑی مسجد کو شعلوں سے واگزار کرانے کیلئے سب کام خالی ہاتھوں سے اور خدا پر توکل کی بدولت ہورہا تھا۔ نوجوانوں کی کئی ایک دیوانہ وار ٹولیاں مسجد کے اندر سے جلتی صفیں اور شعلوں میں لپٹے قالین اٹھا اٹھا کر باہر پھینک رہی تھیں! ایک ایک قرآنی مصحف بچایا جارہا تھا! کئی نوجوان تھے جو صلاح الدین ایوبی کے نام سے موسوم منبر اور محراب کا ہر ممکنہ حصہ بچا لینے کیلئے آخری حد تک کے جتن کر رہے تھے۔اس منبر اور محراب کے وہ حصے جن کو شعلوں کے منہ سے نکال لینے میں کامیابی ہوئی، احاطۂ اقصیٰ کے ایک گوشے میں قائم کئے گئے میوزیم کے اندر آج بھی محفوظ ہیں!
’ایماں کی حرارت والوں‘ نے، تہی دست ہوتے ہوئے، خدا کے فضل سے بہت بار تاریخ رقم کی ہے!
جرم کا مرتکب مائیکل ڈینس روہن نامی یہودی تھا، جس کو مقدمہ کا سامنا کرنے میں زیادہ دشواری نہ ہوئی۔ اسرائیلی حکام نے اس کو پاگل قرار دیا اور کچھ دیر بعد یہ شخص آسٹریلیا منتقل ہوگیا۔ نہ جیل نہ سزا! باقی وہ پورا گروہ جس نے اس بدبخت کے ساتھ مل کر یہ واردات کی تھی اور اس اتنی بڑی مسجد کے تین حصوں کے اندر آگ کو ناقابو ہوجانے کے مرحلے تک پہنچایا تھا اور پھر اس شرپسند کے اہالیانِ مقدس کے ہاتھ نہ آنے کا بھی پورا پورا بندوبست پیشگی کر رکھا تھا، تو یہ پورا گروہ ’نامعلوم‘ رہا اور اسرائیلی ’عالمی معیار‘ کی عدالتوں کی نگاہ میں خوامخواہ کا ایک ’مفروضہ‘، سزا کی نوبت تو خیر آتی ہی کیوں؟!
اتنی بڑی آگ صرف ’ایک فرد‘ کا کیا دھرا تھا جو ’اتفاق‘ سے پاگل نکلا!
یہ ایک واضح امر ہے کہ جب سے اسرائیل نے بیت المقدس پر اپنا پلید قبضہ قائم کیا، اسی وقت سے مسجد کو نقصان پہنچانے کے اس پروگرام کی تیاری ہورہی تھی۔ 1968ءپورا اور پھر 1969ءکا بڑا حصہ اسی تیاری میں گزرا۔ ایک پورا گروہ اس میں شریک رہا۔ چاہتے وہ یہ تھے کہ یہ واقعہ کچھ اتنے بے ساختہ انداز میں رونما ہو کہ دنیا کے ایک محدود سے ’شکی مزاج‘ طبقے کے سوا ہر کسی کو یہ ایک ’طبعی واقعہ‘ معلوم ہو اور اس پر ’آسمان سر پر اٹھا لینا‘ خوامخواہ کا ایک ’غیر ضروری‘ امر۔ مگر خدا نے ان کے اس کریہہ منصوبے کو ناکام رہنے دیا....
مسجد بچ گئی اور امت جاگ گئی!
مسجد اقصیٰ کے گرد منڈلاتے یہودی عزائم:
1780ءمیں ایک انتہا پسند یہودی گروہ پکڑا گیا جو بھاری مقدار میں بارود مسجد کے نیچے لگانا چاہتا تھا۔ اس ٹولے کی یہ سازش کامیاب ہوجاتی تو مسجد شاید پوری اڑ جاتی۔
ایک بار 1982ءمیں اور پھر دوسری بار 1983ءمیں مسجد اقصی کی مسلم گارڈ نے دو بڑے بڑے پارسل پکڑے جن کے اندر ٹائم بم نصب تھا۔
1984ءمیں سر پھرے یہودیوں کے ایک گروہ نے مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے کی کوشش کی، جبکہ انہوں نے دستی بم اٹھا رکھے تھے اور ساتھ میں چھ تھیلے بارود کے بھرے ہوئے تھے۔ یہ بھی مسجد کا کام تمام کرنے آئے تھے۔
1986ءمیں مسجد اقصیٰ ایک اور انداز میں یہودی بغض کا نشانہ بنتے بنتے رہ جاتی ہے۔ اس بار اسرائیلی فضائیہ کا ایک سر پھرا پائلٹ اپنا طیارہ لے کر اڑتا ہے تو مسجد اقصیٰ پر چلانے کیلئے میزائل ساتھ رکھے ہوتے ہیں۔ خدا نے اس کوشش سے بھی اقصیٰ کو محفوظ رکھا۔
مسجدِ اقصیٰ کے صحن میں اور آس پاس اسرائیلی قتل عام تو خیر معمول کی بات ہے۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر قابل ذکر اکتوبر 1990ءکا وہ واقعہ ہے جب اسرائیلی فوجی دستوں نے نمازیوں پر سیدھا فائر کھول دیا، جس سے 23 نمازی موقعہ پر ڈھیر ہوگئے ۔ یہودی یہاں اپنے نام نہاد ہیکل سلیمانی کا سنگ بنیاد رکھنے آئے تھے کہ نہتے نمازی ان کے آڑے آئے اور پوری مسجد نے واضح کردیا کہ یہ کوشش وہ کامیاب نہ ہونے دیں گے۔ تب اقصیٰ کے نمازیوں میں سے 23 سینوں کو گولیوں کے تمغے ملے!خدا ان کی شہادت قبول کرے۔
28 ستمبر 2000ءکو پھر وہ یادگار واقعہ ہوتا ہے جو انتفاضۂ دوئم کا نقطۂ آغاز بنتا ہے.. اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایریل شیرون نے اپنے یہودی جتھے کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی تھی کہ پوری مسجد اس کے راستے میں دیوار بن کر کھڑی ہوگئی۔ طرفین میں تصادم ہوا۔ بیت المقدس میں ہر طرف مسلمانوں کی لاشیں گریں۔ اور پھر وہیں سے انتفاضۂ مبارک کے مرحلۂ دوئم کا آغاز ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔
مسجد اقصیٰ کے زیر زمین اسرائیلی کھدائیاں
ڈیڑھ ارب مسلم امت کیلئے ایک گھناؤنا چیلنج
اسرائیل کے آبادکاری شعبے نے شہر بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے زیر زمین کھدائیوں کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کھدائیوں کا یہ سلسلہ اس وقت نو میٹر نیچے تک جا پہنچا ہے اور نشیبی چٹانوں کو جا لگنے لگا ہے۔ مسجد اقصیٰ کے کئی حصوں کو کھوکھلا کر چکا ہے اور خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب کوئی بڑا لرزہ یا جھٹکا مسجد کے ان حصوں کا کام تمام کر دے۔
حقیقت یہ ہے کہ اپنی اس گھناؤنی حرکت سے اسرائیل، کرۂ ارض پر پھیلی ڈیڑھ ارب مسلم امت کو، ایک ایسی مسجد کے مستقبل کے معاملہ میں جو ان کے دلوں میں بستی ہے، آخری حد تک چیلنج کر رہا ہے۔
ظاہر بات ہے کہ یہ تمام کھدائیاں کر لینے کے بعد بھی یہود کو اپنے نام نہاد ہیکل کا کوئی نشان نہیں ملا۔ ورنہ یہود نے لازماً اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا ہوتا۔
مسجد میں آتش زدگی کے واقعہ کے بعد جس وقت مسجد کی مرمت کا کام ہورہا تھا اور اس کیلئے کچھ کھدائیاں بھی کی گئیں تو اس وقت مسجد کے نیچے تازہ کھودی گئی ایک خندق دریافت ہوئی۔ ظاہر ہے یہ یہود کا لگایا ہوا نقب ہے جو آتش زنی کے واقعہ کے کچھ ہی دیر پہلے مکمل کیا گیا تھا۔ یہ زیر زمین نقب مسجد کی جنوبی فصیل سے چلتا ہوا مسجد کے اندر تک پہنچتا تھا۔ یہ سن ساٹھ کی دہائی کی بات ہے جب ابھی اسے یہاں پر قابض ہوئے صرف دو سال ہوئے تھے۔ اب ان کی کھدائیاں بھلا کہاں کہاں نہ پہنچ چکی ہوں گی؟
مسجد اقصیٰ کے زیر زمین اسرائیلی کھدائیاں دس مرحلوں سے گزری ہیں۔ کئی مسلم اداروں نے اس پر کام کیا ہے۔ ذیل میں اس کی نہایت مختصر روداد ذکر کرتے ہیں:
پہلا مرحلہ 1967ءتا 1968ءچلتا ہے۔ مسجد کے جنوبی حصہ میں ستر میٹر تک کھود ڈالا گیا۔یہ کھدائی مسجد کی جنوبی فصیل ، مسجد میں بنے ہوئے عجائب خانہ، جنوبی مینار اور عورتوں والے حصہ کے نیچے سے گزرتی تھی۔ یہ چودہ میٹر تک گہری تھی۔ اس سے ان مذکورہ عمارتوں کے اندر کئی جگہ پر دراڑیں پر گئیں۔
دوسرا مرحلہ1969 سے شروع ہوتا ہے۔ یہی کھدائی بڑھتی ہوئی شمال کی طرف جانے لگتی ہے، یہاں تک باب المغاربہ تک پہنچتی ہے۔ اس کے درمیان چودہ عمارتیں آتی ہیں، جن میں قابل ذکر دار العلوم امام شافعی ہے۔ اس کھدائی کی لمبائی اسی میٹر ہے۔ احاطۂ اقصیٰ کے باہر بھی اس کا سلسلہ چلا۔ وہاں کی عمارتیں دراڑوں کا شکار ہوئیں، پھر اسی سال اسرائیلی بلڈوزروں نے وہ عمارتیں ملیامیٹ کر ڈالیں اور وہاں کے مسلم رہائشیوں کو وہاں سے بے دخل کر دیا گیا۔
تیسرا مرحلہ جو 1970ء تا 1974ء جاری رہا۔ پھر کچھ تعطل کے بعد 75 میں شروع ہوا اور ان سطور کے لکھے جانے تک جاری ہے۔کھدائی کے اس منصوبہ میں بیت المقدس کی مسلم شرعی عدالت کا زیر زمین کھوکھلا کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں دار العلوم تنکزیہ۔ شمال کی جانب بڑھتے ہوئے اس نے اقصیٰ کے پانچ پھاٹکوں کو متاثر کیا، باب السلسلہ ، باب المطہرہ، باب القطانین، باب الحدید اور باب علاءالدین۔ احاطۂ اقصی کے باہر متعدد آثار قدیمہ اور مذہبی مقامات اور رہائشیں متاثر ہوئیں۔ جن میں سے خاص طور پر قابل ذکر چار مساجد، قطانین کا تاریخی بازار اور قایتبائی کا مینار، دار العلوم جوہریہ، رباط الکرداور جامع مسجد عثمانی ہیں۔
ان کھدائیوں کی گہرائی دس سے چودہ میٹر تک جاتی ہے۔
چوتھا مرحلہ 1973ءتا 1974ءچلتا ہے۔ یہ اقصیٰ کی مغربی فصیل کو متاثر کر چکی ہے۔ اس کی گہرائی تیرہ میٹر تک پہنچتی ہے۔
پانچواں مرحلہ 1974ءسے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک اور زاویہ میں مغربی فصیل سے جنوبی فصیل کی طرف بڑھتی ہے۔ اس کی لمبائی اسی میٹر ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چوتھے اور پانچویں مرحلے کی کھدائی کے نتیجے میں اقصیٰ کی جنوبی فصیل میں دراڑیں پڑتے پڑتے آخر اس کا ایک حصہ جھڑ بھی گیا ہے۔ یہاں سے اندر جانے کا راستہ ہوچکا ہے اور یہاں سے مسجد کے جو حصے سامنے پڑتے ہیں وہ تین ہیں:
مسجدِعمر اور اقصیٰ کا جنوب شرقی حصہ،
اقصیٰ کے محراب کا زیریں حصہ
جنوب مشرقی طرف کی بارہ دریوں کے زیریں حصے۔
یہاں سے فصیل اور مسجد ہی کے گر جانے کا خطرہ نہایت زیادہ ہے۔
چھٹا مرحلہ 1975ءسے شروع ہوتا ہے۔ یہ احاطۂ اقصیٰ سے باہر کی جانب بڑھتا ہے قدیمی شہر بیت المقدس کی فصل تک چلا جاتا ہے۔ یہ جگہ شہر کے بابِ مریم اور شمال شرقی فصیل کے درمیان پڑتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہودی یہاں کھدائیاں کرنے کیلئے مسلمانوں کے قبرستان سے متصل اراضی ضبط کر چکے ہیں۔ بیت المقدس کا یہ ایک قدیم ترین قبرستان ہے اور یہاں بے شمار صحابہ، ائمہ، علماء، فقہاءاور مسلمانوں کی تاریخی شخصیات دفن ہیں۔ان میں خاص طور پر قابل ذکر قبریں صحابی رسول عبادہ بن الصامتؓ اور شداد بن اوسؓ کی ہیں۔ اس قبرستان کا ایک بڑا حصہ اس وقت خطرے میں ہے۔
ساتواں مرحلہ 1977ءسے شروع ہوتا ہے۔ ان کھدائیوں کی زد ”صحنِ براق“ پر پڑتی ہے جوکہ اقصیٰ کی مغربی فصیل سے متصل واقع ہے۔ یہ کھدائی نو میٹر تک جاتی ہے۔
آٹھواں مرحلہ 1967ء ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ ان کھدائیوں کا عنوان تھا ’اسرائیل کی مملکتِ یہودہ کے بادشاہوں کی قبروں کی دریافت‘۔ اس کا رخ اقصیٰ کی جنوبی فصیلوں کے بیرونی جانب رہا۔ فصیل مسجد کو اس سے نقصان پہنچنے کا شدید اندیشہ ہے۔
نویں مرحلہ میں 1980 کے اندر ایک سرنگ دریافت ہوتی ہے جو وارن (انگریزی نام) سے منسوب ہے۔ یہ مسجد کے باب السلسلہ اور باب القطانین کے مابین واقع ہے۔ یہ احاطۂ اقصیٰ میں مشرقی جانب پچیس میٹر تک اندر آتی ہے اور چھ میٹر چوڑی ہے۔ یہ اقصیٰ کے اندر لگی پانی کی سبیل ’قایتبائی‘ تک پہنچتی ہے۔ اس سے باب السلسلہ اور باب القطانین کے مابین واقع باہ دربوں کی بنیادوں میں پڑ جانے والی دراڑیں واضح دیکھی گئی ہیں۔
دسواں مرحلہ ، جوکہ سب سے خطرناک شمار ہوتا ہے۔ ان کھدائیوں کی زد میں مسجد اقصیٰ کے صحن پکے فرش آرہے تھے۔ مگر بڑھتے بڑھتے اب ان کا دائرہ مسجد کے مرکزی ہال اور گنبد صخرہ تک آنے لگا ہے۔ یہاں تک کہ آج اگر آپ جا کر وہاں دیکھیں تو گنبدِ صخرہ اور مسجد اقصیٰ کی اندرونی دیواروں پر جڑے ہوئے سنگ مرمر میں کئی جگہ آپ کو دراڑیں پڑی ہوئی نظر آئیں گی۔
کتابچہ کی دیگر فصول