لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی دوسری شرط | |
| یقین | |
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی دوسری شرط یہ ہے کہ اس کلمہ میں جو بات آئی آدمی کو اُس پر پورا یقین اور وثوق ہو گیا ہو، جو کہ اس کلمہ کو (دل ودماغ) سے جاننے کا ہی اعلیٰ درجہ ہے۔ یہ ایک ایسا یقین ہو کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی شک وشبہ کی گنجائش نہ رہے۔
توضیح:
یقین اور وثوق دراصل ایمان کی جان ہے۔ کلمہ کی دوسری شرط اب یہ ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی دعوت کو آدمی نے پورے اعتماد اور دل کے اطمینان کے ساتھ قبول کر لیا ہو۔ یہ آدمی کا ایک باقاعدہ فیصلہ ہو۔ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کو دل کی گہرائی میں اُترنا ہے۔ یہ حقیقت دل میں گہری نہ اترے گی تو یہ آدمی کی شخصیت کے ذریعے دُنیا میں اور عالم واقع میں بھی رونما نہ ہو سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ علماءاسلام نے یقین اور وثوق کو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی شہادت کیلئے ایک باقاعدہ شرط کے طور پر بیان کیا ہے۔
اس معاملہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اگر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی پہلی شرط __ جس کا ذکر پیچھے ہم پڑھ آئے __ پر محنت کر لی جائے تو دوسری شرط کو پورا کرنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے۔ یعنی اگر لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کو سمجھنے اور جاننے پر کچھ محنت اور وقت صرف کیا گیا ہو تو اس پر یقین اور وثوق اور اعتماد نفس میں پیدا کرنا نسبتاً آسان رہتا ہے۔ بلکہ اس عمل کی ترتیب ہے ہی یہ کہ پہلے اس کی حقیقت کو سمجھا جائے اور پھر اس پر یقین محکم پیدا کیا جائے۔ یہی وجہ ہے جو اوپر متن میں کہا گیا کہ یقین دراصل ایک حقیقت کو دل ودماغ میں گہرائی سے جاننے کا اعلیٰ درجہ ہے۔
یہ بات خصوصاً اس لئے بھی اہم ہے کہ اسلامی عقیدہ کوئی ’آبائی عقیدہ‘ نہیں۔ نہ ہی یہ کوئی ڈھکوسلہ ہے کہ اس پر محض ’یقین‘ کر لینے کی دعوت دی جائے۔ حتی کہ ’شک‘ سے جو مراد دُنیا کے دھرموں اور مذہبوں میں لی جاتی ہے اسلام میں ’شک‘ کا وہ تصور نہیں کیونکہ ’یقین‘ سے جو ان مذاہب کے ہاں مراد ہے اسلام میں ’یقین‘ سے وہ مراد نہیں۔ لہٰذا اسلام میں جو یقین مطلوب ہے وہ علم، فہم اور شعور پر قائم ہوتا ہے اور اسی کا نتیجہ۔ پس عجب نہیں جو وحی کا پہلا لفظ ہی علم کی دعوت ہو!
رہا یہ کہ اس یقین میں اضافہ کیونکر کیا جائے تو سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ یہ خدا سے مانگنے کی چیز ہے سو اُسی سے اِس کا بکثرت سوال کیا جائے۔ پھر قرآن پڑھنے سے بڑھ کر اس کا عملاً کوئی اورنسخہ نہیں۔ پھر اس کے بعد رسولوں کی دعوت اور رسولوں کے مجاہدہ میں بار بار نگاہ دوڑانا اور غور وفکر کرنا ہے۔ پھر کائنات کے واقعہ پر غور ہے۔ اس کے علاوہ صالحین کی صحبت ہے۔ وہ لوگ جو اسلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی حقیقت کو اپنے عمل اورمجاہدہ کی بنیاد بناتے ہیں ان سے قربت کا فیض اس کلمہ کی حقیقت پر یقین اور رسوخ اور دلجمعی کی صورت میں ضرور ملتا ہے۔
لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ میں جو حقائق بیان ہوتے ہیں وہ ہیں ہی کچھ ایسے کہ یقین پیدا کئے بغیر وہ بے معنیٰ رہتے ہیں۔ اس کلمہ کو محض ’جان لینا‘ فائدہ مند ہے اور نہ کسی مسئلہ کا حل۔ بندگی بنیادی طور پر ایک دِل کا عمل ہے۔ الٰہ وہ ہے جس کو آدمی ٹوٹ کر چاہے اور اس کی چاہت اور طلب اس کے روئیں روئیں میں اتری ہو۔ الٰہ وہ ہے جس کی عظمت اور سطوت کا آدمی خوف کھائے۔ الٰہ وہ ہے جس کی خشیت انسان کے دل میں بیٹھی ہو۔ الٰہ وہ ہے جس کی بڑائی اور کبریائی کی انسان کے دِل پر دھاک بیٹھی ہو۔ الٰہ وہ ہے جس سے آدمی اُمید رکھے اور تب بھی اُمید رکھے جب ہر کسی سے نااُمید ہو جائے۔ الٰہ وہ ہے جس پرآدمی سہارا کرے اور اسی کے سہارے جئے اور اسی کو اپنے لئے نہایت کافی جانے۔ الٰہ وہ ہے جس سے آدمی مانگ کر کھائے اور مانگ کر پئے۔ جس سے زندگی اور رزق اور ہر خوشی کا سوال کرے اور ہر مصیبت اور آفت سے جس کی پناہ چاہے۔ الٰہ وہ ہے جس کا کہا ٹالا نہ جائے اور جس کی بات آدمی کیلئے حرف آخر ہو اور اٹل قانون۔ الٰہ وہ ہے جس کے آگے انسان گھٹنے ٹیک دے اور اپنی جبین نیاز کو سجدوں میں جھکائے۔ ان سب افعال کو غیر اللہ سے پھیر کر ان کا رخ ایک خدائے واحد اَحد کی جانب پھیر دینا جس بات کا متقاضی ہے وہ یقین ہے نہ کہ محض ’معلومات‘۔
یہاں ایک ایسا یقین درکار ہے جو شک کا امکان باقی نہ رہنے دے۔ لا الٰہ الا اللہ اس ہدایت کا عنوان ہے جس کو لے کر نبی ﷺ مبعوث ہوئے ہیں۔ رسول کی لائی ہوئی ہدایت پر یقین ہو تو ہی آدمی کا کلمہ پڑھنا معتبر ہے۔ شک باقی رہے تو آدمی حالتِ کفر سے باہر نہیں آتا۔ علمائے اسلام نے ”کفر“ کی چار قسمیں بیان کی ہیں، اور جوکہ ہمارے ایک علیحدہ رسالہ کا موضوع ہے.. کفر کی اِن چار اَقسام میں سے ایک قسم ”کفرِ شک“ ہے۔ یعنی آدمی چاہے نبی کے لائے ہوئے دین کو صاف جھٹلاتا نہ ہو اور اگرچہ وہ نبی کے لائے ہوئے حق کو سراہتا بھی ہو، مگر وہ آپ کی لائی ہوئی ہدایت کی بابت دل میں اگر کچھ شک رکھتا ہو تو بھی وہ حالتِ کفر سے باہر نہیں۔ کلمہ میں بتلائی گئی ایک ایک بات اس کو حتمی حق نظر نہ آتی ہو اور اس کے دل میں یہ خیال بیٹھا ہو کہ ہو سکتا ہے یہی حق ہو اور ہو سکتا ہے اس کے معارض بات بھی حق ہو۔ ’مسجد‘ آدمی کو خدا تک پہنچا سکتی ہے تو کیا معلوم ’مندر‘ اور ’گرجا‘ اور ’گوردوارہ‘ بھی اُس کو خدا تک پہنچا دے۔ محمدﷺ کے طریقے پر خدا کو پوجنا صحیح ہے تو کیا معلوم پوپ اور برہمن اور گیانی کے طریقے پر عبادت کرنا بھی کچھ ایسا باطل نہ ہو۔ ایسا آدمی خواہ جتنا مرضی کلمہ پڑھتا ہو اس کا کلمہ پڑھنا معتبر ہرگز نہیں، کیونکہ ایسے آدمی کے حق میں کلمہ کی دوسری شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہے؛ یعنی اس بات میں کوئی شک و شبہہ نہ رکھنا کہ صرف نبی کی بات ہی برحق ہے اور اس کے راستے کے سوا ہر راستہ باطل ہے اور یہ کہ الٰہِ واحد کے سوا کسی کو پوجنا اور پکارنا قطعی ہلاکت کا باعث ہے۔ اِس میں جو شخص کوئی شک رکھتا ہے یا جو شخص باطل ادیان و عقائد کے حاملین کے ساتھ ’رواداری‘ کے مذہب کو فروغ دینے کیلئے اس حقیقت کو مشکوک اور محل نظر ٹھہراتا ہے خواہ وہ کتنا ہی بڑا نمازی ہو اور خواہ وہ کتنے ہی اسلام کے ’اعمال‘ کرتا ہو مسلمان بہرحال نہیں کیونکہ اس کا کلمہ پڑھنا ہی علمائے عقیدہ کی نظر میں ابھی معتبر نہیں۔ لا الٰہ الا اللہ کی صداقت پر قطعی یقین رکھنا اور اِس بابت ادنیٰ ترین شک نہ رکھنا کہ لا الٰہ الا اللہ سے متصادم راستے نرے جہنم کے راستے ہیں اور اِس بابت ذرہ بھر تامل نہ رکھنا کہ خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیاں نرے بت ہیں جو پاش پاش ہونے کے قابل ہیں، کلمہ کی باقاعدہ شرط ہے۔ اس کے بغیر آدمی مسلمان کیسا؟
’کلمہ کی دوسری شرط‘ پس ہمیں بتاتی ہے کہ کلمہ میں جو بات کہہ دی گئی اس کے مطلق ہونے کا یقین جب تک آدمی کے دل میں جاگزیں نہیں ہو جاتا اور اس سے معارض بات کے مطلق باطل ہونے کا وثوق اس کے درون میں پیدا نہیں ہو جاتا، تب تک اس کا کلمہ پڑھنا معتبر نہیں۔
***********
شرطِ دوئم کے دلائل:
قرآن سے:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُوْلَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ(الحجرات: 15)
”حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے لگے۔ وہی سچے لوگ ہیں“
چنانچہ یہاں اللہ تعالیٰ نے ان کے اللہ اور رسول پر ایمان کو اس بات سے مشروط کیا ہے کہ وہ اس میں کسی شک یا شبہے کا شکار نہ ہوں۔ رہا وہ آدمی جو اس پر شک وشبہ رکھے تو وہ منافق ہوگا۔
توضیح:
ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا ”پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا“....
گو یہاں ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ کے الفاظ معطوف ہیں، مگر دیگر شرعی دلائل اور قرائن سے واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ تو ایمان کا تقاضا ہی ہے نہ کہ ایمان کی شرط۔ البتہ ایمان کے حقائق پر شک نہ کرنا اور اسی پر دلجمعی اختیار کرنا ایمان معتبر ہونے کی شرط ہے۔ پس جس دل میں لا الہ الا اللہ کی حقیقت پر وثوق کا ہی فقدان ہو اور اس میں شک کا مادہ ہی کہیں موجود پڑا ہو اس کی کلمہ گوئی بے فائدہ ہے۔
شک یقین کا نقیض ہے۔ شک باقی نہ رہنے کا مطلب یقین کا حصول ہے، جو کہ لا الہ الا اللہ کی دوسری شرط ہے اور سورۂ حجرات میں اسی کی جانب اشارہ ہوا ہے۔ رہا یہ کہ انسان شرک کے باطل ہونے میں کوئی شبہہ رکھے، غیر اللہ کی بندگی کی رائج شکلوں کو مسترد کرنے میں ابھی اس کو تامل ہو یا اللہ وحدہ لا شریک کے تنہا معبود ہونے کی بابت وہ کوئی شک رکھتا ہو تو زبان سے بے شک اس نے صحیح تلفظ کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہہ دیا ہو، یہ اس کیلئے کافی ہے اور نہ فائدہ مند۔
سنت سے:
پہلی دلیل:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ: اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَنِّیْ رَسُوْلُ اللہ، لَا یَلْقَیٰ اللہ بِھِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فِیْھِمَا اِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ (مسلم: 56/1 ح 27)
”حضرت ابوہریرہؓ سے صحیح حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی الٰہ نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں“ جو بندہ ان دونوں شہادتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے جا ملے گا بشرطیکہ وہ ان دونوں باتوں کی حقیقت میں کوئی شک نہ رکھتا ہو، وہ جنت میں داخل ہوگا“
وَفِیْ رِوَایَةٍ: لَا یَلْقَیٰ اللہ بِھِمَا عَبْدٌ غَیْرُ شَاکٍّ فَیُحْجَبُ عَنِ الْجَنَّةِ (مسلم: 56/1 ح 27)
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ”کوئی بندہ ایسا نہ ہوگا جو ان دونوں شہادتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے جا ملے، جبکہ ان کی حقیقت کی بابت اسے کوئی شک نہ ہو اور پھر وہ جنت سے محروم رہ جائے“
توضیح:
غَیْرُ شَاکٍّ فِیْھِمَا”بشرطیکہ وہ ان دونوں باتوں کی حقیقت میں کوئی شک نہ رکھتا ہو“..
مراد یہ کہ آدمی نے کلمہ کی جو حقیقت معلوم کی وہ اس کو عین حق جانے اور اپنے اندر اس کی بابت کوئی شک اور تردد نہ رہنے دے۔ ایسا ہی آدمی ہے جس کا داخلۂ جنت - اس حدیث کی رو سے - یقینی ہے۔ یعنی کلمہ اس کیلئے فائدہ مند ہے۔
چنانچہ احادیث وغیرہ میں جہاں مطلق لا الہ الا اللہ کہہ لینے کی بنا پر جنت کی بشارت ہے ہمارے سامنے یہ حدیث اس پر ”شک باقی نہ رہنے“ کی یہ قید لگاتی ہے۔
دوسری دلیل:
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں بھی یہ الفاظ آتے ہیں:
مَنْ لَقِیْتَ مِنْ وَرَائِ ھٰذَا الْحَائِطِ یَشْھَدُ اَنْ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ مُسْتَیْقِناً بِھَا قَلْبَہ فَبَشِّرْہُ بِالْجَنَّةِ (مسلم: 1 / 59)
”اس دیوار سے پرے جو آدمی بھی تمہیں ایسا ملے جو اپنے دل کے پورے یقین کے ساتھ اس بات کی شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ فی الواقع کوئی الٰہ نہیں ایسے آدمی کو جنت کی خوشخبری سنا دو“
توضیح:
مُسْتَیْقِناً بِھَا قَلْبَہ ”اپنے دل کے پورے یقین کے ساتھ“....
یہاں بھی یہی شرط بیان ہوئی ہے۔ یعنی آدمی کا دل اس لا الہ الا اللہ کی حقیقت پر یقین اور دلجمعی پائے اور اس کلمہ میں جو حقائق بیان ہوئے ان کو عین حق جانے۔ دخولِ جنت کی بابت رسول اللہ ﷺ کی وہ خوشخبری جو بعض احادیث میں مطلق بیان ہو گئی ہے آپ کے اس لفظ سے یہاں مقید ہو گئی۔