کلمہ کی کیا کوئی ”شروط“ بھی ہیں؟ | |
| | |
کیا ’کلمہ‘ کی کوئی شروط بھی ہیں؟
یعنی کیا ایسی کوئی اشیاءبھی ہیں جن کا، کلمہ پڑھتے وقت، آپ کے یہاں پایا جانا باقاعدہ طور پر مطلوب ہے، اور اگر وہ اشیاءعین کلمہ پڑھتے وقت آپ کے ہاں نہ پائی گئیں تو آپ کا کلمہ گو ہونا ہی اسلام کی نظر میں معتبر نہ ہو گا؟
کیا ایسی کوئی اشیاءبھی ہیں کہ آدمی کلمہ پڑھتا تو ہو مگر اُس کا کلمہ پڑھنا ___ اُن اشیاءکے بغیر ___ اسلام کی نظر میں تسلیم ہی نہ ہوتا ہو اور دنیا و آخرت کے وہ فوائد جنہیں وہ کلمہ گو ہونے کے ناطے حاصل کرنا چاہتا ہے ان اشیاءکے پیشگی پائے گئے بغیر وہ فوائد اُسے حاصل ہی نہ ہوں، کیونکہ کلمہ کی کچھ بنیادی ”شروط“ ہی اُس سے پوری ہونے سے رہ گئیں؟
مگر اِس سوال پر تعجب کیوں؟
کیا اسلام کے اندر ہم نماز کی شروط سے واقف نہیں؟ کون ہے جو ”طہارت“ کے بغیر پڑھی گئی نماز کو ”نماز“ مان لے؟ کون ہے جو ”نیت“ کے بغیر رکھے گئے روزہ کو ”روزہ“ تسلیم کر لے یا ”احرام“ کے بغیر کئے گئے حج کو ”حج“ مان لے؟ روزہ، حج، زکات، قربانی.... کونسا شرعی عمل آخر ایسا ہے جس کی شریعت کے اندر کوئی شروط ہی نہ ہوں؟
پس جہاں اسلام نے کچھ ارکان اور اعمال مقرر ٹھہرائے ہیں وہاں ان ارکان اور ان اعمال کی شروط بھی مقرر ٹھہرائی ہیں۔ اسلام کے یہ اعمال ان شروط ہی کے ساتھ ادا ہوں تو ان کا کوئی اعتبار ہو گا ورنہ ان اعمال کا ہونا نہ ہونا شریعت کی نظر میں ایک برابر ہے۔ وہ عمل جس کی شروط ہی پوری ادا نہیں ہوئیں اس کا شریعت میں غیر معتبر ٹھہرنا کوئی اچھنبے کی بات ہے اور نہ کوئی انہونا مسئلہ۔ ’عوام‘ بھی اسکی بعض مثالوں سے ویسے واقف ضرور ہیں۔ بطورِ مثال، نماز اگر آپ نے بغیر وضو پڑھ لی ہے تو کون شخص ہے جو اُس نماز کا اعتبار کر لے گا؟ آخر کیوں اِس نماز کا کوئی اعتبار نہیں، باوجود اِسکے کہ نماز آپ نے ’پڑھی‘ ہے؟ سجدہ بھی پورا کیا اور رکوع بھی اور نماز کے دیگر ارکان و واجبات بھی، پھر بھی ”نماز“ آپ کی نہیں ہوئی۔ اور ایسی نماز کے ’نہ ہونے‘ پر کسی کو تعجب بھی نہیں، حالانکہ پڑھنے والے نے اِس پر اچھا خاصا وقت اور محنت صرف کی ہے اور خدا کی بابت تو سنا ہے کہ نیک عمل ذرہ برابر بھی ہو تو اُس کے ہاں اکارت نہیں جاتا! مگر اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ ”نیک عمل“ اسی کو کہیں گے جو شریعت میں بتائی گئی حدود اور قیود کا پابند رکھا گیا ہو، ورنہ وہ عمل تو ہے مگر ”نیک عمل“ جو خدا کے ہاں معتبر ٹھہرتا ہے وہ نیک عمل نہیں۔ چنانچہ اتنا شعور یہاں ہر شخص رکھتا ہے کہ وضو کے بغیر نماز چاہے کتنی ہی اعلیٰ انداز میں پڑھی گئی ہو، ”نماز“ نہیں؟ ایک عام شخص بھی آپ کو یقینا یہی بتائے گا۔ کبھی اُس سے آپ پوچھیں کہ کیوں؟ تو وہ بتائے گا: نماز کی ایک شرط پوری ہونے سے رہ گئی، یعنی باوضو ہونا۔ اسی طرح، قبلہ رخ ہونا ایک دوسری شرط ہے؛ بے شک آپ ساری نماز درست اور سنت طریقے پر ادا کرلیں لیکن اگر آپ نے قبلہ رخ ہونے کی شرط پوری نہیں کی ہے تو ایک عامی تک آپ کو بلا تامل کہے گا ’صاحب آپ کی نماز نہیں ہوئی‘۔
پس ثابت ہوا اسلام کا ہر عمل اپنے قبول اور معتبر ہونے کیلئے اس بات کا ضرورت مندہے کہ شریعت میں اُس کے معتبر ہونے کے لئے اگر کوئی شروط ہیں تو پہلے وہ شروط پوری کر لی گئی ہوں۔ ”اعمال“ اگر شریعت نے مقرر ٹھہرائے ہیں تو اُن اعمال کے معتبر ہونے کی ”شروط“ بھی شریعت ہی کی مقرر کی ہوئی چلیں گی.... اپنی مرضی نہ ”اعمال“ کے معاملہ میں چلے گی اور نہ ”شروط“ کے معاملہ میں۔
اصطلاح میں ”شروط“ کہا ہی ان چیزوں کو جاتا ہے جو کسی عمل میں پیشگی طور پر مطلوب ہوں اور جن کے بغیر وہ عمل اگر کر بھی لیا گیا ہو تو اس کا ہرگز کوئی اعتبار نہ ہو۔
تو کیا پھر یہ درست ہوگا کہ اسلام میں نماز کی شروط تو ہم پڑھیں۔ زکوٰة، روزہ، حج وغیرہ کی شرطیں بھی ہمیں پڑھائی اور بتلائی جائیں، مگر اسلام کا وہ سب سے پہلا رکن یعنی ”کلمہ“ ہمارے ہاں اس طرح نظر انداز ہو کہ ہم اِس کی شروط تک نہ جانیں اور نہ ہمیں کلمہ کی یہ شروط مساجد کے اندر کبھی پڑھائی اور بتائی جائیں، الا ماشاءاللہ۔
قرآن اور حدیث نے تو جہاں نماز روزہ ایسے دوسرے اعمال کی شروط بتائی ہیں وہاں اس سے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ کلمہ کی شروط بتائی ہیں۔ لہٰذا جس طرح نماز کی کوئی شرط پوری نہ ہو تو نماز نہیں ہوتی اسی طرح کلمہ کی کوئی شرط پوری ہونے سے رہ گئی ہو تو کلمہ نہیں ہوتا، چاہے کتنی ہی بار پڑھ لیا گیا ہو۔
مگر یہاں آپ ایک عجب معاملہ دیکھیں گے۔ دامن پر گندگی کی ایک چھینٹ دیکھ کر تو آپکو صاف بتا دیا جائے گا کہ جاؤ پہلے اسے دھو کر آؤ، اس حالت میں تمہاری نماز ہی سراسر باطل ہے، کیونکہ ’پیرہن پاک ہونا‘ نماز کی ایک”شرط“ ہے.. مگر شرک کی جتنی مرضی نجاست کوئی اٹھائے پھرے اور عبادتِ طاغوت کا وہ کیسا بھی دم کیوں نہ بھرتا ہو، اُسکا ’کلمہ گو‘ ہونا پھر بھی پوری طرح معتبر!!! کوئی اُسکو نہ بتائے گا کہ اس شرک کے باعث تمہاری کلمہ گوئی اب عین اُسی طرح باطل ہو چکی جس طرح کہ لباس پر پلیدی پائے جانے کے باعث کسی کی نماز باطل ہو جایا کرتی ہے۔
ہر قسم کی نجاست سے پیرہن کا پاک ہونا ”نماز“ قبول ہونے کے لئے شرط ہے تو ہر قسم کے شرک سے عقیدہ کا پاک ہونا کیا ”عبادت“ قبول ہونے کے لئے شرط نہیں؟؟؟
بیت الخلا میں آدمی جا آیا ہے یا پیٹ سے ہوا خارج ہوگئی ہے تو سب مانیں گے کہ اُس کا وضو بھی گیا اور اُس کی نماز بھی، جب تک کہ اب وہ دوبارہ ’حالتِ حدث‘ سے نکل کر ’حالتِ وضو‘ میں نہ آجائے۔ کسی کو اس کی نماز ’نہ ہونے‘ پر تعجب نہ ہوگا اور ہر کوئی اس شخص کی نماز کو باطل ٹھہرائے گا۔ ہر کوئی اس کی پڑھی پڑھائی نماز کو ’دہرائے‘ جانے کے قابل جانے گا اور ’دہرائے‘ جانے کے قابل بھی اِس طرح کہ پہلے وہ ’حالتِ حدث‘ سے نکلے اور ’حالتِ طہارت‘ میں آئے۔ اور اگر وہ ’حالتِ حدث‘ سے باہر نہیں آتاتو وہ لاکھ بار بھی ’نماز‘ پڑھے کوئی اُس کی نماز کو ”نماز“ ہی ماننے پر تیار نہ ہوگا۔ نہ یہ تعجب کی بات ہوگی اور نہ حیرانی کی! ادھر دیکھئے، ایک شخص غیر اللہ کے در کا طواف کر آیا ہے اور مالک الملک کے سوا کسی اور کو بندگی کے افعال کا سزاوار ٹھہرا آیا ہے اور اُس ایک ذات کے سوا کسی اور کی بات کو اپنی زندگی کا آئین تسلیم کر آیا ہے؛ یعنی اس نے شرک کر لیا ہے، کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اِس سے نہ تو اُس کے ’کلمہ گو‘ ہونے پر کوئی حرف آئے اور نہ اس کے دعوائے ایمان پر!!!؟ اِس سے اسلام جائے اور نہ ’نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ‘ کی صورت میں کئے گئے اُس کے عہد واقرار پر کوئی اثر پڑے!!!؟ کوئی اس کو نہ کہے گا کہ اس کی عبادت ہی اب معتبر نہیں جب تک کہ وہ ’حالتِ شرک‘ سے نکل کر ’حالتِ توحید‘ میں نہیں آجاتا!!! لوگوں کو کتنا تعجب ہوگا اگر کوئی ایسے شخص کو کہہ دے کہ اس کا کوئی عمل اب قبول نہیں جب تک کہ وہ ’حالتِ شرک‘ سے نکل نہیں آتا اور اپنی ’کلمہ گوئی‘ کو از سر نو درست نہیں کر لیتا۔ حالانکہ ”عبادت“ معتبر ہونے کیلئے ”توحید“ کا پیشگی طور پر پایا جانا ویسے ہی ضروری ہے جیسے ”نماز“ کیلئے ”وضو“ کا پیشگی طور پر پایا جانا۔ اور جس طرح ”وضو ٹوٹ جانے“ سے ”نماز“ نہیں ہوتی خواہ آدمی جتنی مرضی نماز پڑھے اسی طرح ”شرک ہوجانے“ سے ”عبادت“ نہیں ہوتی چاہے آدمی جتنی مرضی عبادت کرے۔ مگر یہاں دیکھیں لوگ اِس پر کس قدر تعجب کرتے ہیں! اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے کہ ”نماز“ کی شروط تو ہمیں خوب ازبر کرائی جاتی ہیں اور دین کے دیگر اعمال سے متعلقہ حدود و قیود کی بابت بھی ہمیں خوب آگاہ کیا جاتا ہے مگر اسلام کی اساس یعنی ”کلمہ لا الٰہ الا اللہ“ کی شرطیں کم ہی کبھی ہمیں بیان کر کے دی گئی ہوں گی۔ ”کلمہ“ سے متعلقہ حدود و قیود کم ہی کبھی ہمیں سکھائی گئی ہوں گی۔ حالانکہ ہمارے نبی نے ہمیں ”نماز“ سے پہلے ”توحید“ پڑھائی تھی اور قرآن کی ساری محنت بھی درحقیقت اسی بات پر ہوئی ہے۔
پس ضروری ہے کہ کسی بھی عمل کی شرطیں جاننے سے پہلے آدمی کو ”کلمہ“ کی شروط معلوم ہوں۔ کیونکہ ”کلمہ“ کی شروط پوری نہ ہوئیں تو آدمی کا ”کلمہ گو ہونا“ معتبر نہ ہوگا۔ آدمی کا ”کلمہ“ معتبر نہ ہوا تو پھر نہ نماز نہ روزہ، حج اور نہ قربانی.... کچھ بھی معتبر نہ ہوگا۔ ”کلمہ“ اسلام کا اولین رکن ہے اور اسلام کے باقی سب اعمال کا قبول ہونا اسی ایک رکن کے قبول اور معتبر ہونے پر موقوف ہے۔ لہٰذا دین کے کسی بھی عمل کو معتبر اور قبول کروانے کیلئے ضروری ہے کہ آدمی کا ”کلمہ گو ہونا“ ہی پہلے پایۂ اعتبار کو پہنچے۔
افسوس ناک بات ہے کہ ارکانِ اسلام کی تعلیم میں ہماری وعظ و تلقین اور ہماری یاددہانی بالعموم یاتو ”نماز“ کی تاکیدوں سے شروع ہوتی ہے یا پھر ”نماز“ سے بھی بعد کے کسی عمل سے۔ کہیں تفہیمِ اسلام کی ابتدا حسنِ اخلاق کے وعظ سے ہوتی ہے بلکہ ابتدا بھی اسی وعظ سے ہوتی ہے اور انتہا بھی اسی پر، کہیں مسنون ورد اور وظائف ہی تلقین کا موضوعِ اساس ہوتے ہیں، کہیں دعوت و تبلیغ، کہیں جہاد، تو کہیں اسلامی حکومت کا قیام وغیرہ وغیرہ، جوکہ اسلام کے اعمال تو ضرور ہیں مگر ”اسلام کا پہلااور اہم ترین عمل“ بہرحال نہیں۔ رہا اسلام کا رکنِ اول جوکہ محض ایک رکن نہیں بلکہ باقی سب ارکان کی جان ہے؛ کیونکہ باقی سب ارکان کی قبولیت بھی اسی ایک رکن کی قبولیت پر موقوف ہے، اور یہ حیثیت ”شہادتین“ کے علاوہ دین کے کسی اور عمل یا کسی اور رکن کو حاصل نہیں کہ اسلام کے باقی سب اعمال و ارکان کی قبولیت اسی ایک کے معتبر ہونے پر ہی موقوف ہو.... تو اسلام کے اِس اولین عمل اور اِس اولین رکن ( یعنی کلمہ لاَاِلٰہ َاِلّاَ اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ)کے حدود وقیود بتانے پر یہاں کم ہی کوئی جان کھپاتا دیکھا گیا ہے، ”کلمہ“ کا عموماً ایک سرسری ذکر کر دینا ہی یہاں کافی سمجھا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ’کلمہ‘ کا معنیٰ سمجھانے کی نوبت آئے تو بھی ’غیر اللہ کی پرستش کی نفی‘ کو اس کے مفہوم سے حذف ہی کر کے رکھا جاتا ہے، الا ما شاءاللہ۔
اسلام کا وہ سبق جس سے ہمیں اپنے دینی عمل اور دینی جدوجہد کا آغاز بھی کرنا ہے اور جس پر اپنے دینی عمل اور دینی جدوجہد کا انجام بھی، جس سے بات شروع بھی ہوتی ہے اور جس پر بات ختم بھی ہوتی ہے، یہ وہ سبق ہے جو خالقِ کائنات کی جانب سے لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ وہ حقیقت جو بار بار دہرائی جانا ہے وہی ہے جو لا الٰہ الا اللہ میں مہر بند کر رکھی گئی ہے۔ دین کے باقی سب اعمال کو اسی کا عکس بننا ہے اور اسی کا جلی مظہر۔ انسانی نفس اور انسانی معاشرے میں اس ہدف کو حاصل کرنے کے جہاں اور بہت کچھ درکار ہے وہاں یہ بھی باقاعدہ طور پر مطلوب ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کی شروط کی بابت ایک اعلیٰ درجہ کی آگہی کرائی گئی ہو۔ یہ واضح کیا اور کرایا گیا ہو کہ اعتبار لا الٰہ الا اللہ کے محض الفاظ بول دینے کا نہیں بلکہ وہ شروط جو لا الٰہ الا اللہ کے الفاظ بول دینے کیلئے پیشگی طور پر مطلوب ہیں ان شروط کو پورا کرتے ہوئے ہی جس شخص نے لا الٰہ الا اللہ کہا ہوگا، اعتبار صرف اس شخص کی شہادتِ لا الٰہ الا اللہ کا ہے۔
***********
ایک مقبولِ عام مغالطہ کا ازالہ کر دیا جانا بھی یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے....
حق یہ ہے کہ کتاب و سنت کی نصوص کے اندر، یا بالعموم اہل علم کے ہاں، جب اسلام کے کسی عمل کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُس کا ’شروط سمیت ہونا‘ خود بخود مفہوم(understood) ہوتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ نماز کے حوالے سے شریعت میں مذکور اجر و ثواب اور بلندیِ درجات کا ذکر ہو.. تو اس کو سن کر اگر کوئی شخص اس پر کہے کہ دیکھا یہاں خالی ’نماز‘ کے الفاظ آئے ہیں، طہارت، وضو اور قبلہ رخ وغیرہ کا اِس میں ذکر ہی نہیں لہٰذا کوئی جیسے بھی نماز پڑھے بس نماز پڑھی ہو سہی اُس کا اجر اِن خوشخبریوں کی رو سے یقینی ہے.... توکوئی عقلمند بھی ایک مجمل نص سے اس انداز کا معنیٰ لے اڑنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہر خرد مند یہ کہے گا کہ شریعت نے دیگر مقامات پر جب نماز کی شروط نہایت تفصیل کے ساتھ واضح کردی ہیں تو اب جہاں بھی نماز کے اجر و ثواب کا ذکر ہوگا وہاں نماز کا اپنی شرطوں سمیت ادا ہوا ہونا خود بخود مفہوم(understood) ہوگا۔
اب ایک مشہور حدیث جوکہ ہے تو بالکل صحیح، یعنی مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ دَخَلَ الْجَنَّةَ ”جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا وہ جنت میں داخل ہوگا“ ٭.... مگر اِس حدیث میں لوگوں نے دیکھا کہ یہاں تو بس لا الہ الا اللہ ’کہہ دینے‘ کا ذکر ہے لہٰذا و ہ اسی پر مصرہوئے کہ اس ’کہہ دینے‘ کو مطلق اور بلا شرط ہی لیا جائے! اس وقت عوام الناس تو کیا پڑھے لکھے تک اس حدیث کے حوالہ سے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ کلمہ زبان سے ’پڑھ دینے‘ پر اب کسی اور شرط کا اضافہ درست نہیں اگرچہ وہ شرط قرآن حدیث کے ہی کسی اور مقام پر کیوں نہ آئی ہو! یعنی نبی ایک جگہ ایک بات مجمل کردے اور دوسری جگہ اس کی کوئی تفصیل یا اس پر کسی شرط کا اضافہ کرے تو ہم نبی کی بس وہ پہلی بات ہی لیں گے جبکہ اس کی دوسری بات جس میں اس کی کچھ وضاحت اور تفصیل ہو، قابل اعتنا نہ جانیں گے۔ معاذ اللہ
چناچہ یہ لوگ کلمہ محض ’پڑھ لینے‘ پر جنت کی خوشخبری کے سوا کوئی اور بات سننے کے روادار ہی نہیں! حالانکہ قرآن اور حدیث کا یہ ایک عام طریقہ ہے کہ کوئی بات ایک جگہ مجمل کی تو وہی بات کسی دوسری جگہ مفصل کردی بلکہ اُس کی کوئی ایک تفصیل کسی جگہ بتائی تو اُسی کی کوئی دوسری تفصیل کسی دوسری جگہ پر۔ ایک جگہ مطلق بات ہوئی تو دوسری جگہ اسی بات کو کچھ امور سے مقید کردیا اور پھر یہ بھی شریعت میں واضح کردیا کہ اللہ کے کلام کو اور رسول اللہ ﷺ کی احادیث کو پورا اور مجموعی طور پر ہی لیا جائے نہ کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے۔ اور یہ بھی واضح کردیا کہ اللہ اور رسول کی بات کے ایک حصہ کو لینا اور دوسرے کو چھوڑ دینا گمراہی اور انحراف ہے۔
قرآن میں یا رسول اللہ ﷺ کے فرمودات میں نماز کی پوری تفصیل آپ کو ایک ہی جگہ نہیں ملے گی۔ روزہ ہو یا زکوٰۃ ہو یا حج.... کسی بھی فرض سے متعلقہ سب کی سب معلومات اور اور سب کی سب ہدایات، شروط اور ارکان اور واجبات آپ کو قرآن اور حدیث میں ایک ہی جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر پھیلے ہوئے ملیں گے۔
لہٰذا یہ حد درجہ غلط بات ہوگی کہ حدیث سے آدمی بس ایک ہی نص کو لے اور اپنی ساری عمارت اسی پر کھڑی کرلے جبکہ وہ سب احادیث جو اسی بات کی باقی ماندہ ضروری تفاصیل بتاتی ہوں ان کو دیکھنے پر ہی آدمی تیار نہ ہو۔
اس عظیم الشان مسئلہ کی تبیین کیلئے ہمیں عقیدہ اسلامی کے اُن مباحث کو بھی سامنے لانا ہو گا جو ”فکر ارجاء“ کا رد کرتے ہیں۔ اِس فکر کے حاملین کو ”مرجئہ“ کہا جاتا ہے۔ در اصل یہ ”مرجئہ“ کا فرقہ ہی تھا جو لا الہ الا اللہ کے زبانی اقرار کو، جو کہ بلا شبہ دین میں مطلوب ہے، ہر قسم کی شروط و قیود سے مستثنیٰ کر دیتا رہا ہے۔ امت کی تاریخ میں ”خوارج“ کا فرقہ ایک انتہا پر رہا ہے تو یہ ”مرجئہ“ کا فرقہ ایک دوسری انتہا پر۔ ”خوارج“ افراط کی راہ پر تھے جوکہ کبیرہ گناہوں کے ارتکاب پر ہی لوگوں کو ’اسلام سے خارج‘ کر دیتے۔ جبکہ ”مرجئہ“ تفریط کی راہ پر تھے جوکہ کفر اور شرک کے افعال کو بھی ایمان چلا جانے کا باعث نہ مانتے تھے۔ اہلسنت کے بیان کردہ اِن مباحث کو سامنے لانے سے ہی، جو مرجئہ کے رد میں لکھے گئے، یہ مسئلہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ ”کلمہ“ کو اُس کی شروط سے مستثنیٰ کر کے رکھنا ایک بڑی گمراہی کا پیش خیمہ ہے۔