کیا “عقیدہ” لفظِ “ایمان” کا متبادل ہے؟ | |
| | |
کتاب کے مقدمہ میں ”صالح اعتقاد“ کی اہمیت و ضرورت پر ہم کچھ گفتگو کر آئے ہیں۔ یہ مقدمہ خاص اِس کتابچہ (شروط لا الٰہ الا اللہ) کیلئے نہیں بلکہ ہمارے اِس پورے سلسلۂ تالیفات کیلئے حجر اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔ چونکہ یہ سلسلہ ”عقیدہ“ کے بیان اور ایضاح کیلئے سامنے لایا جا رہا ہے لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ”عقیدہ“ کی بابت یہ وضاحت اِس سلسلۂ کتب کے پہلے حصہ میں ہی کر دی جائے....
ہمارے مضامین میں اِس اصطلاح کا استعمال دیکھ کر یقینا یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے، اور گاہے گاہے اٹھا یا گیا ہے، کہ ہم ”عقیدہ“ کا لفظ ہی سرے سے کیوں استعمال کرتے ہیں اور یہ کہ ”ایمان“ کے لفظ پر ہی اکتفا کر رکھنے میں آخر کیا حرج ہے....؟
حق یہ ہے کہ ”ایمان“ کا متبادل ’عقیدہ‘ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی اور لفظ۔ نہایت واضح رہنا چاہیے کہ ہمارے بیان میں ’عقیدہ‘ ہرگز ہرگز لفظ ”ایمان“ کے متبادل کے طور پر نہیں لایا جاتا۔ اگر آپ بغور دیکھیں تو اِن دونوں کی اپنی اپنی دلالت ہے اور اپنا اپنا استعمال۔ مثلاً آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ ’فلاں شخص کا عقیدہ درست نہیں‘ یا یہ کہ ’اُس کے عقیدہ میں خرابی ہے‘ لیکن یہ کہنا آسان نہ ہو گا کہ ’فلاں شخص کا ایمان درست نہیں‘ یا یہ کہ ’اُس کے ایمان میں خرابی ہے‘! وجہ یہی کہ اِن دونوں کی دلالت الگ الگ ہے اور یہ بات بحمد اللہ ان لوگوں پر بھی نہایت واضح ہے جو لفظ ’عقیدہ‘ کے استعمال پر معترض ہوتے ہیں یا جو اِس اصطلاح کو اپنی دعوت میں شجر ممنوعہ کا درجہ دے رکھنے پر مصر ہیں۔ طبعی بات تھی کہ جب وہ کسی کے ’ایمان‘ پر معترض ہونا اپنے لئے آسان نہیں پاتے اور جوکہ واقعتا آسان نہیں (بلکہ ممکن ہی نہیں)، تو پھر کسی کے ’عقیدہ‘ پر معترض ہونے کا تصور بھی ان کے دعوتی و تحریکی مشن میں ناپید پایا جاتا، باوجود اِس کے کہ یہ حضرات بگاڑ کے اِس دور میں مسلم معاشروں کی اصلاح اور تجدید بھی کر دینا چاہتے ہیں!
”عقیدہ“ کی اصطلاح کی اصل افادیت یہی ہو سکتی تھی کہ کسی کے ’ایمان“ کو موضوعِ بحث بنائے بغیر اُس کے یہاں پائی جانے والی اُن اشیاءکی اصلاح کر دی جاتی جن پر وہ اپنے تئیں ”ایمان“ رکھتا ہے۔ بلکہ وہاں اُس کے ہاں کوئی بگاڑ یا انحراف پایا جاتا ہے تو بلا خوفِ ملامت اُس کی بھی اُس کو نشاندہی کر کے دے دی جاتی، اور جبکہ یہ بھی حق ہے کہ کسی کے ’عمل‘ کو چھیڑنے سے اُتنا شدید رد عمل سامنے نہیں آتا جتنا کہ اُس کے ’عقیدہ‘ کو چھیڑنے سے۔ (مگر یہاں خیال یہ تھا کہ قدیم اور جدید ہر دو جاہلیت کو چھیڑے بغیر ہی معاشرے میں ”حق“ کی پیش قدمی کیلئے راستے کھلتے چلے جائیں گے!) ”داعیوں“ اور ”مصلحین“ کا سب سے بنیادی کام تو ایسے کسی معاشرے کے حق میں جو شرک اور بدعات سے اٹا پڑا ہو، یہی ہو سکتا تھا۔
چنانچہ یہ اعتراض اگر صرف اُن طبقوں کی طرف سے آتا جنہیں ہم دیکھتے کہ معاشرے میں ”عقیدہ“ کی جنگ تو بالفعل لڑ رہے ہیں، ہاں صرف ’لفظ‘ کی حد تک اِس پر کوئی تحفظ رکھتے ہیں.. تب تو اِس کی ایک لفظی وضاحت کر دینا ہم بھی اپنی طرف سے کافی جانتے؛ لیکن نظر یہ آتا ہے کہ مسئلہ محض ایک ’لفظ‘ کے استعمال یا عدم استعمال سے کہیں بڑا ہے!
چنانچہ بالعموم آپ یہ بات دیکھیں گے کہ جن طبقوں کے ہاں ”عقیدہ“ کی اصطلاح سے ایک شدید قسم کا ’پرہیز‘ پایا جاتا ہے ان کا یہ ’پرہیز‘ صرف ’اصطلاح‘ کی حد تک نہیں رہ جاتا (اگر ایسا ہوتا تو حرج کی کوئی بڑی بات نہ تھی)۔ حق یہ ہے کہ وہ ”مضامین“ ہی جن کو’عقیدہ‘ کے ذیل میں بیان کیا جانا تھا، خصوصاً جن کو آج کے اِس عقائدی بگاڑ کے بالمقابل سامنے لایا جانا ضروری تھا، وہ اکثر مضامین ہی ہمارے اِن قابل قدر اصحاب کی اصلاحی و تجدیدی مساعی میں شدید حد تک روپوش دیکھے گئے ہیں۔آج کے اِس انحراف اور ابتداع کے بالمقابل یہ حضرات اگر اُن موضوعاتِ حق کو اٹھا کر کھڑے ہوتے جو یہاں پائے جانے والے شرک اور گمراہی کا سر کچلنے کیلئے ضروری ہیں، پھر تو ہم اِس کو محض ایک ’لفظی‘ نزاع کے طور پر ہی دیکھتے، اور جوکہ ہرگز کوئی بڑا مسئلہ نہ ہوتا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ ”عقیدہ“ کے حوالے سے ”اصلاح“ اور ”تجدید“ کا وہ پورا نقشہ ہی اِن حضرات کی نظر سے اوجھل ہے جو عرصۂ دراز سے یہاں داعیانِ حق آگاہ کا منتظر ہے۔
پس اصل مسئلہ تو یہی ہے جس پر ہم زور دینا چاہتے اور جس کو سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر ذہن نشین کرا دینا چاہتے ہیں، کیونکہ محض ایک ’لفظ‘ کا استعمال یا عدم استعمال ہرگز اتنا بڑا مسئلہ نہیں جتنا کہ وہ ”حقیقت“ جس کو ہم ”عقیدہ کی دعوت“ کے زیر عنوان یہاں سامنے لانا چاہتے ہیں۔
رہ گیا یہ سوال کہ اِس لفظ کا استعمال ہی سرے سے درست ہے یا نہیں؟ تو ہم کسی بھی قسم کے ’فلسفوں‘ میں پڑنے کی بجائے، سادہ طور پر، اِس بات کے قائل ہیں کہ وہ الفاظ یا اصطلاحات یا تعبیرات یا رجحانات جو قرونِ ثلاثہ یعنی اسلام کی پہلی تین نسلوں میں رائج اور معروف رہے اُن کو اختیار کرنے میں ہرگز کوئی حرج نہیں۔ اسلام کی انہی پہلی تین نسلوں (صحابہ، تابعین و اتباعِ تابعین) کو ہم ”سلف“ کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک چیز اگر قرونِ ثلاثہ میں پائی گئی اور امت کے جہابذۂ علم اور ائمۂ سنت کے ہاں ہرگز کسی ’تحفظ‘ یا ’تنقید‘ کا محل نہیں بنی، بلکہ ہمیں وہ ان جہابذہ و ائمۂ سلف سے ہی ملی ہے، تو اُس کی بابت ’باریکیوں‘ میں پڑنا ہم ہرگز درست نہیں جانتے۔ جبکہ یہ ثابت ہے کہ ”عقیدہ“ کا لفظ اُن کے ہاں بکثرت استعمال ہوا ہے، خصوصاً امام احمد بن حنبلؒ کے زمانے کا تو شاید ہی کوئی بڑا نام ہو جس نے ”اعْتِقَادُ أَہْلِ السُّنَّة“ کے عنوان سے کوئی علمی ورثہ نہ چھوڑا ہو۔
رسول اللہ ﷺ دنیا میں مبعوث ہوئے تو لوگوں کو آپ پہ نازل شدہ حقیقت پر ایمان لانا تھا اور یا پھر کھلا کھلا اُس کے منکر ہونا۔ آپ کے ہوتے ہوئے اِس بات کا امکان ہی نہ تھا کہ اسلام کا کوئی اور ’ایڈیشن‘ پایا جاتا۔ البتہ بعد ازاں ’اسلام‘ کے نام پر ہی بہت کچھ پایا جانے لگا۔ یوں پہلے جس چیز پر ”ایمان“ لایا جانا ضروری تھا، اب اُس کی ”چھان پھٹک“ کر لینا بھی ضروری ہو گیا تھا کہ آیا یہ وہ چیز تو نہیں جس کو ”اِسلامی حقیقت“ میں ٹھونس دینے کی کوشش ہوئی ہے، جبکہ ایسی کوششیں امت کی تاریخ کا ایک معلوم واقعہ ہے اور جوکہ شکلیں بدل بدل کر آج بھی جاری ہے۔ وہ چیز جس کو ”اسلامی حقیقت“ میں ٹھونس دینے کی کوشش ہوتی ہے، ہماری شرعی اصطلاح میں اُسی کو ”بدعت“ کہا جاتا ہے۔ ہر بدعت گمراہی ہے، مگر سب سے سنگین بدعت وہ ہے جو اسلام کے بنیادی تصورات (عقائد) ہی کے اندر کر دی گئی ہو۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ امت کے اندرونی محاذ پر صحابہ و تابعین و اتباعِ تابعین سب سے بڑھ کر عقائدی انحرافات کے خلاف ہی سرگرم عمل رہے۔
چنانچہ امت کی تاریخ میں __ دورِ نبوی کے بعد __ بہت جلد ایسا ہو گیا کہ آدمی کو خالص اسلام پر ”ایمان“ بھی لانا تھا مگر اس سے پہلے خالص اسلام کا ”پتہ“ بھی کرنا تھا۔یعنی اب اُس کو ایک کی بجائے دو کام کرنا تھے۔ اول الذکر کو تو ”ایمان“ ہی کا نام دیا جانا تھا، البتہ ثانی الذکر پر آدمی کو جو محنت کرائی جانا تھی، اُس کو ”تصحیحِ اعتقاد“ کا نام دیا گیا۔
یعنی ”ایمان“ کا عمل تو ہو بہو مطلوب تھا، مگر وہ ”چیز“ جس پر ایمان لایا جانا تھا، جب محل نزاع ہوئی تو اُسکی تلاش اور تعین الگ سے ضروری ہو گیا تھا۔ اِس ”چیز“ کیلئے ائمۂ سلف کے ہاں ”صالح اعتقاد“ کا لفظ بولا گیا۔ کیونکہ اب وہاں پر ”فاسد اعتقاد“ بھی پایا جانے لگا تھا جس پر اگر ”ایمان“ لانے دیا جاتا تو یہ ایمان ”نجات“ کی بجائے ”کُلُّ ضَلَالَةٍ فِی النَّارِ“ کی طرف لے کر جاتا۔
اب جب ’اسلام‘ ہی کے کئی ایک ایڈیشن پائے گئے، تو لازمی تھا کہ ”ایمان کی دعوت“ کے ساتھ ساتھ وہ ”مستند“ مندرجات contentsبھی موضوعِ بحث آتے جن کو ایمان کے غیر مستند مندرجات سے چھانٹ دیا جانا ضروری تھا۔ اِن ”مستند مندرجات“ کے لئے ”عقیدہ“ کا لفظ استعمال ہونے لگا اور ان کو ”قلب و جوارح میں روپزیر کرانے“ کا نام بدستور ”ایمان“ رہا۔
یہی وجہ ہے کہ کسی شخص یا گروہ کے ہاں ”عقیدہ“ کے بگاڑ کی نشاندہی کی جائے تو یہ ایک قابل فہم بات ہوتی ہے، البتہ ”عقیدہ“ کی جگہ اگر یہاں پر ”ایمان“ کا لفظ رکھیں یعنی اُس کے ہاں ”ایمان“ کے بگاڑ کی نشاندہی کریں، تو یہ ایک مضحکہ خیز بات ہو گی۔ پس اِن دونوں لفظوں کی اپنی اپنی دلالت ہے، نہ تو ان کو خلط کر دینا درست ہوگا اور نہ ان کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر لینا۔
آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے کہ خود یہی مسئلہ کہ ”ایمان“ کی تعریف کیا ہے، اس قدر معرکۃ الآراءرہا ہے کہ اِسی ایک مسئلہ پر امت کی تاریخ میں دو گمراہ فرقے وجود میں آئے، ایک خوارج اور دوسرا مرجئہ۔ علمائے اہلسنت نے اِن دونوں محاذوں پر جو جنگ لڑی، بلکہ آپ غور کریں تو یہ جنگ آج بھی لڑنا پڑ رہی ہے، خود اس کا نقشہ بھی علمائے اہلسنت سے ”عقیدہ“ کے بعض بنیادی مباحث پڑھ کر ہی سمجھ آ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ دیکھتے ہیں، ”ایمان“ کی درست تعریف کرنے تک کیلئے آپ کو ”عقیدہ“ کے کچھ معروف مباحث کی جانب رجوع کرنا ہوتا ہے!
خود قرونِ ثلاثہ ہی میں ”اسلام“ کے نام پر پائے جانے والے باطل کے خلاف اگر ”عقیدہ“ کی جنگ کی نوبت آ گئی تھی، اور بڑی بڑی جلیل القدر ہستیوں کو اِس کیلئے میدان میں اترنا پڑا تھا، تو حضرات آج جب اسلام کی سب بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دی گئی ہیں، اور تو اور لا الٰہ الا اللہ کی حقیقت ہی ایک بڑی سطح پر روپوش کرا دی گئی ہے بلکہ اس کو مسخ کر دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی.... آج اپنے معاشروں کو ”عقیدہ“ کی یہ جنگ لڑ کر دینا ضروری کیوں نہ ہوگا؟
”ایمان“ کی محنت سے تو کوئی مفر ہی نہیں، لیکن اس کی تہہ میں اگر ”عقیدہ“ کا خالص پن بھی ہو، تو ایک تحریکی عمل کی وہ تصویر ضرور سامنے آ جاتی ہے جس کا زمانہ بڑی دیر سے منتظر ہے!!!