بعض اہل علم نے آٹھویں شرط ”کفر بالطاغوت“ ذکر کی ہے | |
| | |
پیچھے یہ بات گزر چکی ہے، علمائے عقیدہ کے ہاں ”شروط لا الٰہ الا اللہ“ کو بیان کرنے کے متعدد اسلوب پائے جاتے ہیں، باوجود اِس کے کہ معانی اور مفاہیم کے حوالہ سے ان علماءمیں ہرگز کوئی اختلاف نہیں۔
داعیوں کو بھی بسا اوقات کسی خاص ماحول اور معاشرے کو سامنے رکھتے ہوئے اِس چیز کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ بات سمجھانے کا اسلوب بھی مخاطب کے احوال کی مناسبت سے اختیار کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ خیال البتہ اِس بات کا رکھنا ہوتا ہے کہ نفسِ مضمون تبدیل نہ ہو۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض علماءلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کی ایک آٹھویں شرط بیان کرتے ہیں، جسے وہ ”کُفران“ یا ”کُفر بالطاغوت“ کا عنوان دیتے ہیں۔ کسی وقت اِسی شرط کو ”خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر کرنے“ کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں۔
علماءکے اِس فریق کی ذکر کردہ اِس شرط کا مقصد یہ ہے کہ جب تک آدمی نے باطل معبودوں کا صاف صاف انکار نہیں کیا تب تک اُسکا ”کلمہ“ ادا نہیں ہوا۔ جن جن زندہ یا مردہ ہستیوں کو خدا کے سوا پکارا جاتا ہے، جن جن ہستیوں کے آگے مراسم بندگی بجا لائے جاتے ہیں خواہ وہ طواف کی صورت میں ہو یا نذر و نیاز کی صورت میں یا سجدہ و کورنش کی صورت میں، جن جن ہستیوں کو خدا کے ماسوا مطاع اور پیشوا مانا جاتا ہے یعنی خدا کی بات کو چھوڑ کر ان کے قول کی طرف تحاکم کیا جاتا ہے، جب تک آدمی نے ان سب کے ساتھ کفر نہیں کیا، تب تلک اُس کا لا الٰہ الا اللہ کہنا معتبر نہیں۔
جہاں تک اِس ”شرط“ کے تحت بیان ہونے والی مذکورہ بالا حقیقت کا تعلق ہے تو اِس میں تو علمائے عقیدہ کے مابین ہرگز دو رائے نہیں۔ بلا شبہ جب تک آدمی خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر نہیں کرتا، خواہ وہ پوجا کی جو بھی شکل ہو، تب تک اُس کا لا الٰہ الا اللہ کہنا غیر معتبر ہے۔ تاہم بیشتر اہل علم اِس بات کو لَآ اِلٰہَ کے معنیٰ و مفہوم ہی کے اند بیان کر جاتے ہیں نہ کہ شرط کے طور پر (جوکہ قوی تر ہے)۔ یعنی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا معنیٰ اور مفہوم ہی یہ ہے، جس کا علم لینا اور اس پر یقین ، اخلاص، صدق و وفاء، تسلیم اور انقیاد وغیرہ ایسے رویے اختیار کرنا ایک شرط کے طور پر آدمی سے مطلوب ہوتے ہیں۔ چنانچہ کسی اہل علم نے اگر اِس کو ایک علیحدہ ”شرط“ کے طور پر بیان نہیں کیا تو اُس نے اِسے ”شرط“ سے بھی زیادہ اہم چیز کے طور پر بیان کیا ہے، یعنی لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کا وہ بنیادی ترین مفہوم جس پر آدمی کو ایمان لانا ہے۔
بنا بریں، اِس بات کو ہرگز محل نزاع نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ جب تک آدمی اُن ہستیوں کے ساتھ کفر نہیں کر لیتا جن کی خدا کو چھوڑ کر عبادت ہوتی ہے تب تک اُس کے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کہنے کا کوئی معنیٰ اور مفہوم ہی نہیں۔بات ہوسکتی ہے تو صرف اِس پر کہ آیا اِس بات کو لا الٰہ الا اللہ کے مفہوم کے طور پر بیان کیا جائے یا شرط کے طور پر؟ علمائے عقیدہ کی زیادہ بڑی تعداد نے اول الذکر طریقے کو اختیار کیا ہے (جن کی پیروی میں ہم نے بھی اِس کو لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ کے ”مفہوم“ ہی میں بیان کیا ہے نہ کہ ”شرط“ کے طور پر) جبکہ علماءکی ایک تعداد ایسی ہے جس نے ثانی الذکر طریقہ اختیار کیا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ حمود بن العقلا اپنے رسالہ ”شرح شروط لا الہ الا اللہ“ میں کلمہ کی آٹھویں شرط کا عنوان دیتے ہیں: ”الکفر بالطاغوت“۔ اور اِس کی دلیل میں دو آیتیں لے کر آتے ہیں:
فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (البقرۃ: 256)
”تو پھر جس نے کفر کیا طاغوت کے ساتھ، اور ایمان لایا اللہ کے ساتھ، تو یقینا تھام لیا اُس نے وہ مضبوط ترین سہارا جس کو ہرگز ٹوٹنا نہیں۔ اور اللہ سننے والا ہے جاننے والا“
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّهَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ (النحل: 36)
”اور بے شک ہم نے بھیجا ہر امت میں کوئی نہ کوئی رسول، کہ: عبادت کرو اللہ کی اور دامن کش ہو کر رہو طاغوت سے“۔
اِس کے بعد، رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث لے کر آتے ہیں:
مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہ، وَکَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اللہ، حَرُمَ مَالُہُ وَدَمُہُ، وَحِسَابُہُ عَلَی اللہ“
(صحیح مسلم: کتاب الایمان، باب: الأمر بقتال الناس حتیٰ یقولوا أن لا اِلٰہ اِلا اللہ محمد رسول اللہ)
”جس شخص نے کہہ دیا ”نہیں کوئی عبادت کے لائق مگر اللہ“، اور وہ کفر کرنے لگا ہر اُس ہستی کے ساتھ جو اللہ کو چھوڑ کر پوجی جاتی ہے، اُس کا مال اور جان حرام ہوجاتی ہے، باقی اُس کا حساب کرنا اللہ کا کام“۔
اِسی طرح شیخ عبد العزیز الراجحی ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
سوال: بعض اہل علم بیان کرتے ہیں کہ شروطِ لا الٰہ الا اللہ آٹھ ہیں۔ یہ آٹھویں شرط کونسی ہے؟
جواب: کفران کرنا (طاغوت کا)۔ جیسا کہ ان کے بیان میں آیا ہے۔ یعنی خدا کے ماسوا پوجی جانے والی ہستیوں کے ساتھ کفر کرنا۔ اور یہ معروف ہے۔ اور دیگر شروط سے ماخوذ ہے۔
(شرح عقیدہ طحاویہ از شیخ عبد العزیز الراجحی حصہ اول 1، ص 26)