عربى |English | اردو 
Surah Fatiha :نئى آڈيو
 
Thursday, November 21,2024 | 1446, جُمادى الأولى 18
رشتے رابطہ آڈيوز ويڈيوز پوسٹر ہينڈ بل پمفلٹ کتب
شماره جات
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
  
 
تازہ ترين فیچر
Skip Navigation Links
نئى تحريريں
رہنمائى
نام
اى ميل
پیغام
2015-10 آرٹیکلز
 
مقبول ترین آرٹیکلز
تکمیلِ تشریعات: حج اور جہاد
:عنوان

فتنہ یعنی شرک۔ اس کی یہ تفسیر کی ہے: ابن عباس نے، ابوالعالیہ﷫ نے، مجاہد﷫ نے، حسن بصری﷫ نے، قتادہ﷫ نے، ربیع﷫ نے، مقاتل بن حیان﷫ نے، سُدی﷫ نے، اور زید بن اسلم﷫ نے۔ (دیکھئے تفسیر ابن کثیر)

:کیٹیگری
حامد كمال الدين :مصنف

تکمیلِ تشریعات: حج اور جہاد


يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ. وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ. فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ              (البقرۃ: 189-193)

تم سے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دو:  یہ تاریخیں ہیں لوگوں کے لیے۔ اور حج کے لیے۔ یہ کچھ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑے سے آؤ۔ نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو۔ اور ڈرتے رہو الله سے؛ تاکہ کامیاب ہو جاؤ۔

اور لڑو اللہ کے راستے میں ان سے جو تم سے لڑیں۔ اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی والوں کو پسند نہیں کرتا۔

مارو ان کو جہاں ان کو پاؤ، اور نکال دو ان کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو نکالا، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی برا ہے۔ اور نہ لڑنا اُن سے مسجد حرام کے پاس تاوقتیکہ وہ تم سے وہاں لڑیں۔ ہاں اگر وہ لڑیں تو انہیں مار ڈالو۔ یہی ہے جزا ایسے کافروں کی۔

پھر اگر وہ باز آجائیں تو الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔

ان سے لڑتے رہو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہو جائے اور جب تک دین صرف اللہ کا نہ ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو زیادتی جائز نہیں سوائے ظالموں پر۔

 

روزہ اور اس سے متعلقہ مباحث ختم ہوئے تو حج اور جہاد کے مباحث شروع ہو گئے۔ البقرۃ قرآن کی وہ منفرد سورت ہے جس میں اسلام کے پانچوں ارکان تفصیل سے بیان ہوئے۔ چنانچہ سورۃ کی اپنی ترتیب میں... حج اور جہاد کے بعد، اور اس کے دوران، تاریخِ ہدایت و ضلالت کا کچھ ذکر کر دینے کے بعد، روئے خطاب خانگی، مالیاتی اور دیوانی تشریعات کی طرف پھر جاتا ہے۔

یہ بہت سے امور ظاہر ہے تاریخوں پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سی عبادات مانند روزہ، زکاۃ، حج، نذریں، عیدین... بہت سے کفارات... پھر عدّتیں... حرام مہینے، معاہدے، جنگ بندیاں... لین دین کی مدتیں، نفقہ کے دورانیے... قضاء (عدالتی معاملات) سے متعلقہ امور...  سب کےلیے ماہ وسال کی پیمائش درکار ہے۔ چنانچہ فرمایا: تاریخیں رؤیتِ ہلال سے طے ہوں گی۔ زمانے کی پیمائش کا ایک سادہ و قدرتی انتظام۔ تیس کے تیس دن چاند ایک نئی پوزیشن پر، جسے ایک اَن پڑھ صحرائی بھی دیکھ اور شمار کر سکے اور دوردراز پہاڑی خطوں کا ایک رہائشی بھی۔ کسی لمبے چوڑے حساب اور جنتری کی ضرورت ہی نہیں۔ وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ (یونس: 6)  ’’اور چاند کو چمکتا کیا۔ اور  مقرر کیں اس کی پوزیشنیں؛ تاکہ معلوم کرو تم سالوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب‘‘۔ یوں زمین تہذیب کی پرورش کےلیے ہزارہا پہلو سے ایک فرش ٹھہری۔

سورۃ البقرۃ کو اگر ہم ایک مرکزی عنوان دے سکیں تو وہ ہے: امامتِ تہذیب۔

(تہذیب: یعنی تعمیرِ ارض: اپنے نظریاتی پہلوؤں سے بھی ، تشریعی پہلوؤں سے بھی، انتقالِ امامت کے پہلو سے بھی، نیز وہ کیا راز ہیں جن کے دم سے یہ زمین میں دوام اختیار کرے گی، نیز کس ذریعہ سے یہ کرۂ ارض پر تمکین پائے گی؛ اور درحقیقت اِس (تعمیر و تہذیبِ ارض) کا سارا عمل کسی جہانِ آخرت و حیاتِ ابدی کےلیے ایک امتحان گاہ کا درجہ رکھتا ہے نہ کہ بجائےخود کوئی چیز۔ پس یہ ایک حیاتِ جاودانی کا ہی مادۂ اصلی ہے)۔

اِس امامتِ تہذیب کےلیے جو مختصرترین لفظ ہے وہ ہے: ہدایت۔ (مہتدی ہونے کے معنیٰ میں بھی اور ہادی ہونے کے معنیٰ میں بھی)۔

پس سورۃ البقرۃ کے دم سے اِس جہانِ ارضی کو جو روشنی ملی وہ اس سے پہلے کبھی اِس کو نصیب نہ ہوئی۔ ’’عبادت‘‘ جس خوبصورتی سے یہاں ’’تہذیب‘‘ میں ڈھلتی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ آسمانی مشعل __ بذریعہ سورۃ البقرۃ __ پہلی امتوں سے لے کر قیامت تک کےلیے اب اِس امت کو تھما دی گئی ہے۔

تمدن (انسانوں کے اختلاط و معاملۂ باہمی) کا ایک اہم قابل ذکر حوالہ جنتری ہے۔ قومیں اپنی شناخت کےلیے ’کیلنڈر‘ پر اچھا خاصا انحصار کرتی ہیں۔ حج کرنے والی امتِ وسط کو یہاں ایک تقویم بھی دے دی گئی ہے۔ حسابِ ایام (جنتری) کا چاند سے وابستہ رہنا فطرت کے بےحد قریب ہے۔ ’فطرت‘ تو گویا اِس دین اور اِس امت کی گھٹی میں سمو دی گئی ہے۔ شبِ معراج بھی، ’فطرت‘ کا یہ سبق، دودھ اور شراب کے تقابل کی صورت میں، خصوصی طور پر ذہن نشین کرایا گیا۔

حسابِ وقت کے موضوع پر: قرآنی تعلیم دیکھیں تو سورج دن کی پیمائش کےلیے ہے اور چاند ایام کی گنتی کےلیے۔ ہر دو: فطرت۔

دورِ حاضر کی تعبیر استعمال کریں تو: سورج کو وقت بتانا ہے اور چاند کو تاریخ۔ گھڑیوں کا حساب سورج سے۔ اور مہینوں اور سالوں کا حساب چاند سے۔

پس نماز کیلئے سورج کی پوزیشن دیکھی جائے گی اور زکاۃ و حج کیلئے چاند کی۔ جبکہ روزہ بیچ میں۔ روزہ کی تاریخ چاند کے حساب سے اور روزہ کھلنا اور بند ہونا سورج کے حساب سے۔

سورج چونکہ ہے ہی ساعتوں کے تعین کےلیے، اس لیے یہ پل پل کا فرق بتانے پر دلیل ہو گا۔  منٹ منٹ کا فرق یہاں معتبر ہوگا۔ آپ کے قریب سے قریب کا شہر بھی عین آپ والے وقت پر سحر و افطار نہ کرے گا؛ ایک آدھ منٹ کا فرق آ ہی جائے گا۔ یہی معاملہ نمازوں کے اوقات کا ہو گا (منٹوں اور سیکنڈوں تک کا فرق یہاں معتبر ہو گا)۔

جبکہ چاند کا کام تاریخ بدلنا، جوکہ وہ کرۂ ارض کے گرد اپنا ایک چکر پورا کر لینے کے بعد ہی بدلے گا اور جوکہ چوبیس گھنٹوں میں ایک بار لازماً ہو جاتا ہے؛ گھڑی دو گھڑی کے فرق سے چاند کا کچھ لینا دینا نہیں۔ پورے کرۂ ارض پر تاریخ  چوبیس گھنٹے میں ایک ہی بار بدلتی ہے۔ جس طرح پورا کرۂ ارض ایک ہی دن ’روزِ جمعہ‘ کرتا ہے اور ساعتوں کا فرق پورے روئےزمین پر ایک ہی دن ’جمعہ‘  ہونے میں کچھ مانع نہیں، جس طرح پورے کرۂ ارض پر ’یکم جنوری‘ ایک ہی دن میں آ کر گزر جاتا ہے اور گھڑیوں کا فرق پورے کرۂ ارض پر ’یکم جنوری‘ ہونے میں نہ تو کچھ بھی مؤثر ہے اور نہ باعثِ اشکال... کچھ مانع نہیں کہ عین  اسی طرح پورے کرۂ ارض پر ’یکم محرم‘ ایک دن میں آ کر گزر جائے اور گھڑیوں کے فرق سے اس کو کچھ فرق نہ آئے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایک ہی کرہ پر دو دو تین تین دن ’یکم محرم‘ چلتا رہے! کوئی مانع ہو سکتا ہے، اور بڑی دیر تک رہا ہے،  تو وہ رؤیت کی اطلاع یا عدم اطلاع ہے۔

(یہاں سے یہ اشکال باطل ہو جاتا ہےکہ ’بارڈر‘[1] پار کی رؤیتِ ہلال پر روزہ اور عید کرنے لگیں تو کیا نماز بھی وہیں کے وقت پر پڑھیں گے اور سحر و افطار بھی وہیں کے وقت پر کریں گے؟ ہم ان سے کہتے ہیں: یہ کوئی دلیل ہے تو بارڈر کے اِدھر (’اپنے‘ ملک کے) کسی دوسرے شہر کے وقت پر آپ سحر و افطار کر کے دکھا دیں! یہ دلیل تو خود آپ پر الٹی پڑتی ہے! وجہ وہی کہ یہ حضرات چاند کے احکام کا سورج کے احکام کے ساتھ خلط کرتے ہیں)۔

وَالْحَجِّ ’’نیز حج کے لیے‘‘

حج عرب زندگی کا پورے سال کا مرکزی ترین واقعہ تھا۔ خود اسلامی تقویم وضع کرتے وقت صحابہؓ نے اسی بات کو پیش نظر رکھا۔ حضرت علی﷜ کی تجویز تھی کہ حج پر ارکانِ اسلام مکمل ہو جاتے ہیں لہٰذا اختتامِ سال اسی پر ہونا چاہئے۔ سو حضرت عمر﷜ نے ذوالحجہ کو بارھواں مہینہ ٹھہرا دیا اور محرم کو پہلا۔ یہاں سے مسلم زندگی میں تکمیلِ سال پر تکمیلِ دین کا بھی ایک معنیٰ آ جُڑا۔

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ’’یہ کچھ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑے سے آؤ۔ نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو۔ اور ڈرتے رہو الله سے؛ تاکہ کامیاب ہو جاؤ‘‘۔

بدعت کا اصولی سد باب۔ ’’نیکی‘‘ لوگوں میں دین کے نام پر پروان چڑھ چکی کچھ رسموں اور طور طریقوں کا نام نہیں خواہ ان کے پیچھے کیسا ہی نیک جذبہ یا مذہبی اشیاء کی کیسی ہی تعظیم کیوں نہ پائی جاتی ہو ۔ نیکی اصل میں خدا کی حدوں کی پابندی ہے جو شریعت کے ذریعے ہی معلوم ہو سکتی ہے۔ مستند اعمال عبادت کی روح ہے اور پرستش کا حسن۔ پس حج کےلیے عازمِ سفر ہو چکے شخص کو کسی ضرورت کے تحت گھر لوٹنا ہے تو اس کا دروازے سے گزر کر آنا  مذموم ہے اور نہ گھر کے پچھواڑے سے داخل ہونا کوئی نیکی۔ دین میں معقول ترین رویے رکھنا دینِ آسمانی کی ایک نہایت خوب پہچان ہے۔ جبکہ خداپرستی کے نام پر عجیب و غریب اور اوٹ پٹانگ رویے دینِ حق سے ایک سراسر بیگانہ حرکت۔ بھلے لوگوں کی طرح دروازوں سے گزر کر ہی گھروں میں داخل ہوا کرو؛ اور اصل چیز ان سب اعمال میں خداخوفی کی روح کو قائم رکھنا ہے؛ اور یہی کامیابی کا اصل میدان۔

وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ’’اور لڑو اللہ کے راستے میں‘‘۔

مدینہ ہجرت کر آنے کے بعد قتال کا باقاعدہ حکم۔ یہ اس وقت ہوا جب مسلمانوں کے پاس مطلوبہ قوت آ گئی تھی۔ پیش ازیں ان کو ہاتھ روک رکھنے کا حکم تھا۔

قتال کو ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے ساتھ مخصوص رکھا گیا۔ جس سے یہ ساری سرگرمی خاص اللہ کےلیے اور اس کے دین کو سربلند کرنے کےلیے مختص ہو جاتی ہے۔ قتال ایسے عمل میں ’’اخلاص‘‘ دراصل یہی ہے۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی شرط سے وہ قتال جو فتنوں کے وقت مسلمانوں کے آپس میں ہوجایا کرتا ہے خودبخود ساقط ہو گیا۔

الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُم ’’ان لوگوں کے خلاف جو تم سے لڑنے والے ہیں‘‘

یعنی جو تم سے قتال کےلیے مہیا ہیں۔ یعنی اُن کے مردانِ جنگی۔ نہ کہ  اُن کے کمسن یا عمر رسیدہ یا عورتیں یا وہ لوگ جن کا جنگی صلاح مشورے یا لڑنے بھڑنے میں کوئی حصہ نہیں۔

وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ’’اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

زیادتی کی ممانعت میں ہر قسم کی زیادتی آ جاتی ہے۔ مثلاً ایسے لوگوں سے لڑنا  جو لڑنے والے نہیں مانند عورتیں ، بچے، عبادت خانوں میں محصور مذہبی لوگ۔ یا مقتولین کا مُثلہ (بےحرمتی) کرنا۔ جانوروں کا قتل۔ بلاضرورت درخت کاٹنا وغیرہ۔ زیادتی ہی میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ ان لوگوں سے لڑا جائے جو جزیہ دینے پر آمادہ ہیں یا دے چکے ہیں۔

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ’’مارو ان کو جہاں ان کو پاؤ، اور نکال دو ان کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو نکالا‘‘۔

قتال کا کھلا حکم۔ ایسا دشمن جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو، اور جس زمانے میں بھی ہو۔ خواہ دفاع کے طور اور خواہ ہجوم کے طور پر۔ کوئی استثناء رکھی تو وہ یہ کہ مسجدحرام کے پاس نہ ہو۔ ہاں مسجد حرام کے پاس صرف اس وقت جائز ہو گا جب وہ خود شروع کریں۔ تب ان کو اس جرم کی پاداش میں مارا جائے گا اور ایسی زیادتی کی صورت میں مسجد حرام کی حرمت ان کو مارنے میں مانع نہ ہوگی۔ یہ ہر وقت کےلیے ہے، تاوقتیکہ وہ اپنا کفر چھوڑ کر تائب نہ ہو جائیں۔ ہاں تائب کےلیے اللہ غفورٌ رحیم ہے، خواہ اس سے پہلے انہوں نے کیسا ہی کفر یا شرک کیوں نہ کیا ہو اور مسلمانوں سے کیسی ہی جنگ کیوں نہ کرتے رہے ہوں۔ کیونکہ اصل مسئلہ یہاں کوئی بدلہ لینا یا انتقامی ہونا نہیں بلکہ اللہ کی عبادت کروانا اور اس کے دین کو قائم کرنا ہے۔

وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ. فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. ’’(اس لیے کہ) فتنہ قتل سے بھی برا ہے۔ اور نہ لڑنا اُن سے مسجد حرام کے پاس تاوقتیکہ وہ تم سے وہاں لڑیں۔ ہاں اگر وہ لڑیں تو انہیں مار ڈالو۔ یہی ہے جزا ایسے کافروں کی۔ پھر اگر وہ باز آجائیں تو الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے‘‘۔

چونکہ یہاں قتال (جنگ) کی ہدایت کی جا رہی ہے جس میں بظاہر ایک مفسدت نظر آتی ہے، اس لیے تنبیہ کی گئی کہ شرک کی بنیاد پر لوگوں کو فتنہ زدہ کرنا اور اللہ کے راستے سے روکنا اس سے کہیں سنگین بات ہے۔ لہٰذا ایک مخصوص صورت میں اگر مسجد حرام کے پاس بھی ہتھیار اٹھانے کی نوبت آجائے تو اے مسلمانو تمہیں اس پر متردد یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔

یہیں سے بڑی مفسدت کے مقابلے پر چھوٹی مفسدت کو اختیار کرنے کا شرعی قاعدہ بھی ثابت ٹھہرا۔

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ’’ان سے لڑتے رہو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہو جائے اور جب تک دین صرف اللہ کا نہ ہو جائے‘‘۔

پھر ایک عظیم الشان حقیقت پر متنبہ کر دیا گیا: قتال فی سبیل اللہ جس چیز کا نام ہے وہ کوئی  کافروں کو قتل کرتے پھرنا نہیں۔ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی۔ مومن کا مطلوب و مقصود اس سے صرف یہ ہے کہ دین ایک اللہ کےلیے ہو جائے۔ اس کی تگ و دو اصل میں اس بات کےلیے ہے کہ اللہ کا دین باقی تمام ادیان پر غالب و ظاہر ہو جائے، اور اس کے راستے کی ہر رکاوٹ دور ہو جائے، خواہ وہ شرک ہو یا کچھ اور۔ اور یہی فتنہ سے اصل مراد ہے۔ ہاں یہ مقصود حاصل ہو جائے تو پھر نہ قتل جائز ہے اور نہ قتال۔

حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ ’’جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہو جائے‘‘۔

فتنہ یعنی شرک۔ اس (مقام) کی یہ تفسیر کی ہے: ابن عباس﷜ نے، ابوالعالیہ﷫ نے، مجاہد﷫ نے، حسن بصری﷫ نے، قتادہ﷫ نے، ربیع﷫ نے، مقاتل بن حیان﷫ نے، سُدی﷫ نے، اور زید بن اسلم﷫ نے۔ [2]        (دیکھئے تفسیر ابن کثیر)

فَإِنِ انْتَهَوْا  ’’پھر اگر وہ باز آ جائیں‘‘

یعنی مسجد حرام کے پاس قتال کرنے سے دستکش ہو جائیں۔

فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ’’تو زیادتی جائز نہیں سوائے ظالموں پر‘‘۔

تو پھر ان پر کوئی زیادتی نہ ہو، سوائے ان میں سے ایسے لوگوں کے جو ظلم پر ہی آمادہ ہوں، ہاں ایسے شخص کی گوشمالی اس کے ظلم کے بقدر ضروری ہے۔

(نوٹ: ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور پر شامل ہوتے ہیں)



[1]    ایک گھٹتی بڑھتی اور کسی بھی وقت تبدیل ہو سکنے والی چیز:’بارڈر‘، جوکہ آج عبادات تک میں دخیل ہے! لا حول ولا قوۃ الا باللہ!

سوال یہ ہے کہ اختلافِ مطالع اگر کوئی شرعی حقیقت ہے بھی... تو اس کی کوئی اپنی قدرتی جغرافیائی حدبندی ہونی چاہئے، یعنی کوئی طول بلد اور عرض بلد وغیرہ، نہ کہ کوئی سیاسی بارڈر۔ (بھٹو اور مجیب ایسے two culprits   دو گھناؤنے کرداروں کے دستخط آپ کے روزہ اور قربانی کی تاریخ اور خواتین کی عدتوں اور شرمگاہوں کی تحلیل و تحریم کے فیصلے کریں!)

آپ کے اِس ’یو این‘ نقشے میں تو ملکوں کے سائز اتنے مختلف ہیں کہ یہاں کا ایک ملک کسی دوسرے ملک سے کئی کئی سو گنا بڑا بھی ہوتا ہے۔ یہ بات ہر کسی کو تسلیم ہے کہ جغرافیائی مسافتوں یا لینڈ سکیپ land scape  کے حوالے سے ریاستوں کی یہ تقسیم دنیا میں کسی قاعدے اور قانون پر نہیں۔ پس یا تو یہ بارڈرز چاند کے طبعی مطالع کی بنیاد پر کھینچے گئے ہوں، مگر جب ایسا نہیں تو ’چاند کے مطالع کا طبعی فرق‘ (اگر کوئی شرعی دلیل ہے بھی) تو اس کا اطلاق آج کے اِن نیشن سٹیٹ بارڈرز پر کیسے؟ حیرت کی حد ہے، دلیل دیں گے مطالع کی ’طبعی تقسیم‘ کی مگر اُس سے ثابت کریں گے سیاسی بارڈرز پر مبنی مطالع!!! سوال یہ ہے کہ شرعی عبادات کا سیاسی بارڈرز کے گھٹنےبڑھنے سے کیا تعلق؟ یعنی ان سیاسی بارڈرز میں کسی وقت کوئی فرق آنے سے ایک بستی کے لوگوں پر ایک چیز (کھانا پینا، یا کسی عورت کی عدت ختم باور کرتے ہوئے اس سے نکاح) جو اس دن حرام بنتا تھا کس دلیل سے اب حلال ہو جائے گا اور اس کی جگہ نہ کھاناپینا ان پر حرام ہو جائے گا؟ ہمارے نیشنل مطالع کے داعی حضرات مسافتوں اور لینڈسکیپ والی دلیل دینے کی بجائے یہ گھنڈی کسی طرح حل کر دیں تو مشکور ہوں۔

[2]    اِس مقام اور سیاق میں ’’فتنہ‘‘ سے مراد شرک ہی ہے، جیسا کہ عبداللہ بن عباس﷜ سمیت اتنے سارے مفسرینِ سلف سے ماثور ہے۔ اسکی وحیدالدین خانی تفسیر کہ یہاں تو صرف ’مذہبی تشدد‘ religious persecution   کے خلاف تلوار اٹھوائی جا رہی ہے سیاقِ کلام اور تفسیرِ سلف بلکہ واقعہ ہی کے منافی ہے۔ گویا اگر وہ ’مذہبی تشدد‘ نہ ہوتا تو کوئی قتال نہ تھا! جزیرۂ عرب سے شرک کو آہنی ہاتھ سے ختم کر دینے کا آسمانی پروانہ ہر شک و شبہ سے بالاتر ایک حقیقت ہے۔

جزیرۂ عرب کو بزورِ تلوار ہمیشہ کےلیے شرک سے پاک کر دینا۔ امام ابو حنیفہ﷫ ودیگر ائمۂ فقہ کے اختیارکردہ  قول کی رُو سے، یہی تفسیر اس آیت کے تحت سب سے فٹ بیٹھتی ہے۔  جزیرۂ عرب سے ہر قسم کا شرک اور کفر بزورِ شمشیر مٹا دینے کا حکم تھا اور ہے۔ صرف مشرکینِ عرب نہیں بلکہ اہل کتاب کا کفر اور شرک بھی جزیرۂ عرب میں بہرحال نہیں رہنے دیا جائے گا۔ (حدیث لا یجتمع دینان فی جزیرۃ العرب ’’جزیرۂ عرب میں دو دین جمع نہ ہوں‘‘، نیز حضرت عمرؓ کا خیبر کے یہود وغیرہ کو سرزمین ِ عرب سے جلاوطن کرنا۔ بحوالہ موطا امام مالک)۔ جزیرۂ عرب میں مشرکینِ عرب کو ختم کر دینے کے بعد دیگر اہل مذاہب کو جزیہ کی شرط پر چھوڑ رکھنا ایک درمیانی مرحلہ کےلیے تھا۔ دولتِ اسلام کے مستحکم ہوجانے کے بعد، صحابہ﷢ نے جزیہ کے احکام اہل کتاب اور مجوس وغیرہ پر بالعموم جزیرۂ عرب سے باہر ہی لاگو کیے۔

ہاں جزیرۂ عرب سے باہر جو جہاد ہوگا وہ  شرک کا زور توڑنے تک رہے گا۔ یعنی کفر اور شرک کو اپنی قوت و جبروت اور اپنی انتظامی وتعلیمی و ابلاغی دھونس کے زور پر حیاتِ انسانی پہ اثرانداز ہونے (مفتون کرنے) کی پوزیشن پر حتی الامکان نہ چھوڑا جائے گا۔ مقصد یہ کہ جزیرۂ عرب کے باہر بھی شرک کی دھونس تو بہرحال ختم کی جائے گی، البتہ دولتِ اسلام کا زیرنگیں ہو کر اپنی ایک غیر مقتدر وغیرمسلط حیثیت میں اہل شرک کچھ بھی کرتے ہیں تو دنیا کی زندگی زندگی انہیں اس بات کی آزادی ہے، کیونکہ اصل معاملہ خدا کے پاس جاکر ہونا ہے۔ صحابہ﷢ اور ان کے تلامذہ﷭ سے جزیرۂ عرب کے باہر کافر طاقتوں کے ساتھ علمی و عملی سطح پر یہی تعامل ماثور ہے۔

صحابہ﷢ کے اِس پورے قتال کو دیکھا جائے جو جزیرۂ عرب میں اور پھر جزیرۂ عرب سے باہر افریقہ، یورپ، فارس، ماوراء النہر (وسط ایشیا) اور افغانستان تک ہوا، تو ’’فتنہ‘‘ سے مراد شرک ہی ہو گا، کہیں پر باعتبارِ وجود تو کہیں پر باعتبارِ سلطان۔ شرک سے جنگ بہرحال ہے۔

Print Article
Tagged
متعلقہ آرٹیکلز
ديگر آرٹیکلز
احوال-
Featured-
Featured-
عرفان شكور
فلسطین کا سامورائی... السنوار جیسا کہ جاپانیوں نے اسے دیکھا   محمود العدم ترجمہ: عرفان شکور۔۔۔
احوال- تبصرہ و تجزیہ
Featured-
حامد كمال الدين
ایک مسئلہ کو دیکھنے کی جب بیک وقت کئی جہتیں ہوں! تحریر: حامد کمال الدین ایک بار پھر کسی کے مرنے پر ہمارے کچھ ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
ذرا دھیرے، یار! تحریر: حامد کمال الدین ایک وقت تھا کہ زنادقہ کے حملے دینِ اسلام پر اس قدر شدید ہوئے ۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
تحقیقی عمل اور اہل ضلال کو پڑھنا، ایک الجھن کا جواب تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک پوسٹ پر آنے و۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
نوٹ: یہ تحریر ابن تیمیہ کی کتاب کے تعارف کے علاوہ، خاص اس مقصد سے دی جا رہی ہے کہ ہم اپنے بعض دوستوں سے اس ۔۔۔
جہاد- سياست
حامد كمال الدين
آج میرا ایک ٹویٹ ہوا: مذہبیوں کے اس نظامِ انتخابات میں ناکامی پر تعجب!؟! نہ یہ اُس کےلیے۔ نہ وہ اِ۔۔۔
باطل- اديان
ديگر
حامد كمال الدين
بھارتی مسلمان اداکار کا ہندو  کو بیٹی دینا… اور کچھ دیرینہ زخموں، بحثوں کا ہرا ہونا تحریر: حامد کما۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
"فرد" اور "نظام" کا ڈائلیکٹ؛ ایک اہم تنقیح تحریر: حامد کمال الدین عزیزم عثمان ایم نے محترم سرفراز ف۔۔۔
Featured-
حامد كمال الدين
مالکیہ کے دیس میں! تحریر: حامد کمال الدین "مالکیہ" کو بہت کم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ افراد کے طور ۔۔۔
حامد كمال الدين
"سیزن" کی ہماری واحد پوسٹ! === ویسے بھی "روایات و مرویات" کی بنیاد پر فیصلہ کرنا فی الحقیقت علماء کا کام ہ۔۔۔
راہنمائى-
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
صومِ #عاشوراء: نوویں اور دسویںمدرسہ احمد بن حنبل کی تقریرات"اقتضاء الصراط المستقیم" مؤلفہ ابن تیمیہ سے ایک اقت۔۔۔
باطل- فكرى وسماجى مذاہب
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ماڈرن سٹیٹ محض کسی "انتخابی عمل" کا نام نہیں تحریر: حامد کمال الدین اپنے مہتاب بھائی نے ایک بھلی سی تحریر پر ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
روایتی مذہبی طبقے سے شاکی ایک نوجوان کے جواب میں تحریر: حامد کمال الدین ہماری ایک گزشتہ تحریر پ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
ساحل عدیم وغیرہ آوازیں کسی مسئلے کی نشاندہی ہیں تحریر: حامد کمال الدین مل کر کسی کے پیچھے پڑنے ی۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت… اور کچھ ’یوٹوپیا‘ افکار تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: دو سوالات کے یہاں ہمیں۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
خلافت مابین ‘جمہوری’ و ‘انقلابی’… اور مدرسہ اھل الاثر تحریر: حامد کمال الدین گزشتہ سے پیوستہ: رہ ۔۔۔
تنقیحات-
حامد كمال الدين
عالم اسلام کی کچھ سیاسی شخصیات متعلق پوچھا گیا سوال تحریر: حامد کمال الدین ایک پوسٹر جس میں چار ش۔۔۔
باطل- فرقے
حامد كمال الدين
رافضہ، مسئلہ اہلسنت کے آفیشل موقف کا ہے تحریر: حامد کمال الدین مسئلہ "آپ" کے موقف کا نہیں ہے صاحب،۔۔۔
کیٹیگری
Featured
عرفان شكور
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
Side Banner
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
احوال
عرفان شكور
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
تبصرہ و تجزیہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اداریہ
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
اصول
منہج
حامد كمال الدين
ايمان
حامد كمال الدين
منہج
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ایقاظ ٹائم لائن
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
ذيشان وڑائچ
مزيد ۔۔۔
بازيافت
سلف و مشاہير
حامد كمال الدين
تاريخ
حامد كمال الدين
سيرت
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
باطل
اديانديگر
حامد كمال الدين
فكرى وسماجى مذاہب
حامد كمال الدين
فرقے
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
تنقیحات
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
ثقافت
معاشرہ
حامد كمال الدين
خواتين
حامد كمال الدين
خواتين
ادارہ
مزيد ۔۔۔
جہاد
سياست
حامد كمال الدين
مزاحمت
حامد كمال الدين
قتال
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
راہنمائى
شيخ الاسلام امام ابن تيمية
حامد كمال الدين
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
رقائق
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
اذكار و ادعيہ
حامد كمال الدين
مزيد ۔۔۔
فوائد
فہدؔ بن خالد
احمد شاکرؔ
تقی الدین منصور
مزيد ۔۔۔
متفرق
ادارہ
عائشہ جاوید
عائشہ جاوید
مزيد ۔۔۔
مشكوة وحى
علوم حديث
حامد كمال الدين
علوم قرآن
حامد كمال الدين
مریم عزیز
مزيد ۔۔۔
مقبول ترین کتب
مقبول ترین آڈيوز
مقبول ترین ويڈيوز