يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَهِلَّةِ قُلْ هِيَ
مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ
مِنْ ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ
أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ. وَقَاتِلُوا فِي
سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا
يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ. وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ
مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا
تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ
قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ. فَإِنِ انْتَهَوْا
فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ
وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى
الظَّالِمِينَ (البقرۃ: 189-193)
تم سے چاندوں کے متعلق پوچھتے ہیں۔ کہہ دو: یہ تاریخیں ہیں لوگوں کے لیے۔ اور حج کے لیے۔ یہ کچھ نیکی نہیں
ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑے سے آؤ۔ نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ناراضی سے
بچے۔ گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا کرو۔ اور ڈرتے رہو الله سے؛ تاکہ کامیاب
ہو جاؤ۔
اور لڑو اللہ کے راستے میں ان سے جو تم سے لڑیں۔ اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً
اللہ زیادتی والوں کو پسند نہیں کرتا۔
مارو ان کو جہاں ان کو پاؤ، اور نکال دو ان کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو
نکالا، اس لیے کہ قتل اگرچہ برا ہے مگر فتنہ اس سے بھی برا ہے۔ اور نہ لڑنا اُن سے
مسجد حرام کے پاس تاوقتیکہ وہ تم سے وہاں لڑیں۔ ہاں اگر وہ لڑیں تو انہیں مار
ڈالو۔ یہی ہے جزا ایسے کافروں کی۔
پھر اگر وہ باز آجائیں تو الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے۔
ان سے لڑتے رہو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہو جائے اور جب تک دین صرف اللہ کا
نہ ہو جائے۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو زیادتی جائز نہیں سوائے ظالموں پر۔
روزہ اور اس سے متعلقہ
مباحث ختم ہوئے تو حج اور جہاد کے مباحث شروع ہو گئے۔ البقرۃ قرآن کی وہ منفرد
سورت ہے جس میں اسلام کے پانچوں ارکان تفصیل سے بیان ہوئے۔ چنانچہ سورۃ کی اپنی
ترتیب میں... حج اور جہاد کے بعد، اور اس کے دوران، تاریخِ ہدایت و ضلالت کا کچھ
ذکر کر دینے کے بعد، روئے خطاب خانگی، مالیاتی اور دیوانی تشریعات کی طرف پھر جاتا
ہے۔
یہ بہت سے امور ظاہر ہے
تاریخوں پر انحصار کرتے ہیں۔ بہت سی عبادات مانند روزہ، زکاۃ، حج، نذریں، عیدین... بہت سے کفارات... پھر عدّتیں... حرام مہینے،
معاہدے، جنگ بندیاں... لین دین کی
مدتیں، نفقہ کے دورانیے... قضاء (عدالتی معاملات) سے متعلقہ امور... سب کےلیے ماہ وسال کی پیمائش درکار ہے۔ چنانچہ
فرمایا: تاریخیں رؤیتِ ہلال سے طے ہوں گی۔
زمانے کی پیمائش کا ایک سادہ و قدرتی انتظام۔ تیس کے تیس دن چاند ایک نئی پوزیشن پر، جسے ایک اَن پڑھ صحرائی بھی دیکھ اور
شمار کر سکے اور دوردراز پہاڑی خطوں کا ایک رہائشی بھی۔ کسی لمبے چوڑے حساب اور جنتری کی ضرورت ہی نہیں۔ وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ
لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ (یونس: 6) ’’اور
چاند کو چمکتا کیا۔ اور مقرر کیں اس کی پوزیشنیں؛ تاکہ
معلوم کرو تم سالوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب‘‘۔ یوں زمین
تہذیب کی پرورش کےلیے ہزارہا پہلو سے ایک فرش ٹھہری۔
سورۃ البقرۃ کو اگر ہم ایک
مرکزی عنوان دے سکیں تو وہ ہے: امامتِ تہذیب۔
(تہذیب: یعنی تعمیرِ ارض:
اپنے نظریاتی پہلوؤں سے بھی ، تشریعی پہلوؤں سے بھی، انتقالِ امامت کے پہلو سے
بھی، نیز وہ کیا راز ہیں جن کے دم سے یہ زمین میں دوام اختیار کرے گی، نیز کس
ذریعہ سے یہ کرۂ ارض پر تمکین پائے گی؛ اور درحقیقت اِس (تعمیر و تہذیبِ ارض) کا
سارا عمل کسی جہانِ آخرت و حیاتِ ابدی کےلیے ایک امتحان گاہ کا درجہ رکھتا ہے نہ
کہ بجائےخود کوئی چیز۔ پس یہ ایک حیاتِ جاودانی کا ہی مادۂ اصلی ہے)۔
اِس امامتِ تہذیب کےلیے جو
مختصرترین لفظ ہے وہ ہے: ہدایت۔ (مہتدی ہونے کے معنیٰ میں بھی اور ہادی ہونے کے
معنیٰ میں بھی)۔
پس سورۃ البقرۃ کے دم سے
اِس جہانِ ارضی کو جو روشنی ملی وہ اس سے پہلے کبھی اِس کو نصیب نہ ہوئی۔
’’عبادت‘‘ جس خوبصورتی سے یہاں ’’تہذیب‘‘ میں ڈھلتی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتی
ہے۔ یہ آسمانی مشعل __ بذریعہ سورۃ
البقرۃ __ پہلی امتوں سے لے کر قیامت تک کےلیے اب اِس امت
کو تھما دی گئی ہے۔
تمدن (انسانوں کے اختلاط و
معاملۂ باہمی) کا ایک اہم قابل ذکر حوالہ جنتری ہے۔ قومیں اپنی شناخت کےلیے
’کیلنڈر‘ پر اچھا خاصا انحصار کرتی ہیں۔ حج کرنے
والی امتِ وسط کو یہاں ایک تقویم بھی دے دی گئی ہے۔ حسابِ ایام (جنتری) کا چاند سے
وابستہ رہنا فطرت کے بےحد قریب ہے۔ ’فطرت‘ تو گویا اِس دین اور اِس امت کی گھٹی
میں سمو دی گئی ہے۔ شبِ معراج بھی، ’فطرت‘ کا
یہ سبق، دودھ اور شراب کے تقابل کی صورت میں، خصوصی طور پر ذہن نشین کرایا گیا۔
حسابِ وقت کے موضوع پر:
قرآنی تعلیم دیکھیں تو سورج دن کی پیمائش کےلیے ہے اور چاند ایام کی گنتی
کےلیے۔ ہر دو: فطرت۔
دورِ حاضر کی تعبیر استعمال کریں تو: سورج کو وقت
بتانا ہے اور چاند کو تاریخ۔ گھڑیوں کا حساب سورج سے۔ اور مہینوں اور سالوں کا
حساب چاند سے۔
پس نماز کیلئے سورج کی
پوزیشن دیکھی جائے گی اور زکاۃ و حج کیلئے چاند کی۔ جبکہ روزہ بیچ میں۔ روزہ کی تاریخ چاند کے حساب سے
اور روزہ کھلنا اور بند ہونا سورج کے حساب سے۔
سورج چونکہ ہے ہی
ساعتوں کے تعین کےلیے، اس لیے یہ پل پل کا فرق بتانے پر دلیل ہو گا۔ منٹ منٹ کا فرق یہاں معتبر ہوگا۔ آپ کے قریب سے
قریب کا شہر بھی عین آپ والے وقت پر سحر و افطار نہ کرے گا؛ ایک آدھ منٹ کا فرق آ
ہی جائے گا۔ یہی معاملہ نمازوں کے اوقات کا ہو گا (منٹوں اور سیکنڈوں تک کا فرق
یہاں معتبر ہو گا)۔
جبکہ چاند کا کام تاریخ بدلنا، جوکہ وہ کرۂ
ارض کے گرد اپنا ایک چکر پورا کر لینے کے بعد ہی بدلے گا اور جوکہ چوبیس گھنٹوں
میں ایک بار لازماً ہو جاتا ہے؛ گھڑی دو گھڑی کے فرق سے چاند کا کچھ لینا دینا
نہیں۔ پورے کرۂ ارض پر تاریخ چوبیس
گھنٹے میں ایک ہی بار بدلتی ہے۔ جس طرح پورا کرۂ ارض ایک ہی دن ’روزِ جمعہ‘
کرتا ہے اور ساعتوں کا فرق پورے روئےزمین پر ایک ہی دن ’جمعہ‘ ہونے میں کچھ مانع نہیں، جس طرح پورے کرۂ ارض
پر ’یکم جنوری‘ ایک ہی دن میں آ کر گزر جاتا ہے اور گھڑیوں کا فرق پورے
کرۂ ارض پر ’یکم جنوری‘ ہونے میں نہ تو کچھ بھی مؤثر ہے اور نہ باعثِ
اشکال... کچھ مانع نہیں کہ عین اسی طرح
پورے کرۂ ارض پر ’یکم محرم‘ ایک دن میں آ کر گزر جائے اور گھڑیوں کے فرق
سے اس کو کچھ فرق نہ آئے۔ کوئی وجہ نہیں کہ ایک ہی کرہ پر دو دو تین تین دن ’یکم
محرم‘ چلتا رہے! کوئی مانع ہو سکتا ہے، اور بڑی دیر تک رہا ہے، تو وہ رؤیت کی اطلاع یا عدم اطلاع ہے۔
(یہاں سے یہ اشکال باطل ہو
جاتا ہےکہ ’بارڈر‘ پار کی
رؤیتِ ہلال پر روزہ اور عید کرنے لگیں تو کیا نماز بھی وہیں کے وقت پر پڑھیں گے
اور سحر و افطار بھی وہیں کے وقت پر کریں گے؟ ہم ان سے کہتے ہیں: یہ کوئی دلیل ہے
تو بارڈر کے اِدھر (’اپنے‘ ملک کے) کسی دوسرے شہر کے وقت پر آپ سحر و افطار کر کے
دکھا دیں! یہ دلیل تو خود آپ پر الٹی پڑتی ہے! وجہ وہی کہ یہ حضرات چاند کے احکام
کا سورج کے احکام کے ساتھ خلط کرتے ہیں)۔
وَالْحَجِّ ’’نیز حج کے لیے‘‘
حج عرب زندگی کا پورے سال
کا مرکزی ترین واقعہ تھا۔ خود اسلامی تقویم وضع کرتے وقت صحابہؓ نے اسی بات کو پیش
نظر رکھا۔ حضرت علی کی تجویز تھی کہ حج پر ارکانِ اسلام مکمل ہو جاتے ہیں لہٰذا
اختتامِ سال اسی پر ہونا چاہئے۔ سو حضرت عمر نے ذوالحجہ کو بارھواں مہینہ ٹھہرا
دیا اور محرم کو پہلا۔ یہاں سے مسلم زندگی میں تکمیلِ سال پر تکمیلِ دین کا بھی
ایک معنیٰ آ جُڑا۔
وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ
ظُهُورِهَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ
أَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ’’یہ کچھ نیکی نہیں ہے کہ تم گھروں میں ان کے پچھواڑے سے آؤ۔
نیکی یہ ہے کہ کوئی اللہ کی ناراضی سے بچے۔ گھروں میں ان کے دروازوں سے ہی آیا
کرو۔ اور ڈرتے رہو الله سے؛ تاکہ کامیاب ہو جاؤ‘‘۔
بدعت کا اصولی سد باب۔
’’نیکی‘‘ لوگوں میں دین کے نام پر پروان چڑھ چکی کچھ رسموں اور طور طریقوں کا نام
نہیں خواہ ان کے پیچھے کیسا ہی نیک جذبہ یا مذہبی اشیاء کی کیسی ہی تعظیم کیوں نہ
پائی جاتی ہو ۔ نیکی اصل میں خدا کی حدوں کی پابندی ہے جو شریعت کے ذریعے ہی معلوم
ہو سکتی ہے۔ مستند اعمال عبادت کی روح ہے اور پرستش کا حسن۔ پس حج کےلیے عازمِ سفر
ہو چکے شخص کو کسی ضرورت کے تحت گھر لوٹنا ہے تو اس کا دروازے سے گزر کر آنا مذموم ہے اور نہ گھر کے پچھواڑے سے داخل ہونا
کوئی نیکی۔ دین میں معقول ترین رویے رکھنا دینِ آسمانی کی ایک نہایت خوب پہچان ہے۔
جبکہ خداپرستی کے نام پر عجیب و غریب اور اوٹ پٹانگ رویے دینِ حق سے ایک سراسر
بیگانہ حرکت۔ بھلے لوگوں کی طرح دروازوں سے گزر کر ہی گھروں میں داخل ہوا کرو؛ اور
اصل چیز ان سب اعمال میں خداخوفی کی روح کو قائم رکھنا ہے؛ اور یہی کامیابی کا اصل
میدان۔
وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ’’اور لڑو اللہ کے راستے
میں‘‘۔
مدینہ ہجرت کر آنے کے بعد
قتال کا باقاعدہ حکم۔ یہ اس وقت ہوا جب مسلمانوں کے پاس مطلوبہ قوت آ گئی تھی۔ پیش
ازیں ان کو ہاتھ روک رکھنے کا حکم تھا۔
قتال کو ’’فی سبیل اللہ‘‘
کے ساتھ مخصوص رکھا گیا۔ جس سے یہ ساری سرگرمی خاص اللہ کےلیے اور اس کے دین کو
سربلند کرنے کےلیے مختص ہو جاتی ہے۔ قتال ایسے عمل میں ’’اخلاص‘‘ دراصل یہی ہے۔
’’فی سبیل اللہ‘‘ کی شرط سے وہ قتال جو فتنوں کے وقت مسلمانوں کے آپس میں ہوجایا
کرتا ہے خودبخود ساقط ہو گیا۔
الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُم ’’ان لوگوں کے خلاف جو تم سے
لڑنے والے ہیں‘‘
یعنی جو تم سے قتال کےلیے مہیا
ہیں۔ یعنی اُن کے مردانِ جنگی۔ نہ کہ اُن
کے کمسن یا عمر رسیدہ یا عورتیں یا وہ لوگ جن کا جنگی صلاح مشورے یا لڑنے بھڑنے
میں کوئی حصہ نہیں۔
وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ
اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ’’اور زیادتی نہ کرو۔ یقیناً اللہ زیادتی والوں کو پسند
نہیں کرتا‘‘۔
زیادتی کی ممانعت میں ہر
قسم کی زیادتی آ جاتی ہے۔ مثلاً ایسے لوگوں سے لڑنا جو لڑنے والے نہیں مانند عورتیں ، بچے، عبادت
خانوں میں محصور مذہبی لوگ۔ یا مقتولین کا مُثلہ (بےحرمتی) کرنا۔ جانوروں کا قتل۔
بلاضرورت درخت کاٹنا وغیرہ۔ زیادتی ہی میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ ان لوگوں سے
لڑا جائے جو جزیہ دینے پر آمادہ ہیں یا دے چکے ہیں۔
وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ
ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُمْ مِنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ ’’مارو ان کو جہاں ان کو پاؤ،
اور نکال دو ان کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو نکالا‘‘۔
قتال کا کھلا حکم۔ ایسا
دشمن جہاں بھی ہو اور جب بھی ہو، اور جس زمانے میں بھی ہو۔ خواہ دفاع کے طور اور
خواہ ہجوم کے طور پر۔ کوئی استثناء رکھی تو وہ یہ کہ مسجدحرام کے پاس نہ ہو۔ ہاں
مسجد حرام کے پاس صرف اس وقت جائز ہو گا جب وہ خود شروع کریں۔ تب ان کو اس جرم کی
پاداش میں مارا جائے گا اور ایسی زیادتی کی صورت میں مسجد حرام کی حرمت ان کو
مارنے میں مانع نہ ہوگی۔ یہ ہر وقت کےلیے ہے، تاوقتیکہ وہ اپنا کفر چھوڑ کر تائب
نہ ہو جائیں۔ ہاں تائب کےلیے اللہ غفورٌ رحیم ہے، خواہ اس سے پہلے انہوں نے کیسا
ہی کفر یا شرک کیوں نہ کیا ہو اور مسلمانوں سے کیسی ہی جنگ کیوں نہ کرتے رہے ہوں۔
کیونکہ اصل مسئلہ یہاں کوئی بدلہ لینا یا انتقامی ہونا نہیں بلکہ اللہ کی عبادت
کروانا اور اس کے دین کو قائم کرنا ہے۔
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ
الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى
يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ
الْكَافِرِينَ. فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ. ’’(اس لیے کہ) فتنہ قتل سے بھی
برا ہے۔ اور نہ لڑنا اُن سے مسجد حرام کے پاس تاوقتیکہ وہ تم سے وہاں لڑیں۔ ہاں
اگر وہ لڑیں تو انہیں مار ڈالو۔ یہی ہے جزا ایسے کافروں کی۔ پھر اگر وہ باز آجائیں
تو الله بڑا بخشنے والا نہایت رحم والا ہے‘‘۔
چونکہ یہاں قتال (جنگ) کی
ہدایت کی جا رہی ہے جس میں بظاہر ایک مفسدت نظر آتی ہے، اس لیے تنبیہ کی گئی کہ
شرک کی بنیاد پر لوگوں کو فتنہ زدہ کرنا اور اللہ کے راستے سے روکنا اس سے کہیں
سنگین بات ہے۔ لہٰذا ایک مخصوص صورت میں اگر مسجد حرام کے پاس بھی ہتھیار اٹھانے
کی نوبت آجائے تو اے مسلمانو تمہیں اس پر متردد یا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہیں سے بڑی مفسدت کے
مقابلے پر چھوٹی مفسدت کو اختیار کرنے کا شرعی قاعدہ بھی ثابت ٹھہرا۔
وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا
تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ’’ان سے لڑتے رہو جب تک سارا
فتنہ ختم نہ ہو جائے اور جب تک دین صرف اللہ کا نہ ہو جائے‘‘۔
پھر ایک عظیم الشان حقیقت
پر متنبہ کر دیا گیا: قتال فی سبیل اللہ جس چیز کا نام ہے وہ کوئی کافروں کو قتل کرتے پھرنا نہیں۔ نہ مال غنیمت
نہ کشور کشائی۔ مومن کا مطلوب و مقصود اس سے صرف یہ ہے کہ دین ایک اللہ کےلیے ہو
جائے۔ اس کی تگ و دو اصل میں اس بات کےلیے ہے کہ اللہ کا دین باقی تمام ادیان پر
غالب و ظاہر ہو جائے، اور اس کے راستے کی ہر رکاوٹ دور ہو جائے، خواہ وہ شرک ہو یا
کچھ اور۔ اور یہی فتنہ سے اصل مراد ہے۔ ہاں یہ مقصود حاصل ہو جائے تو پھر نہ قتل
جائز ہے اور نہ قتال۔
حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ ’’جب تک کہ فتنہ ختم نہ ہو
جائے‘‘۔
فتنہ یعنی شرک۔ اس (مقام)
کی یہ تفسیر کی ہے: ابن عباس نے، ابوالعالیہ نے، مجاہد نے، حسن بصری نے،
قتادہ نے، ربیع نے، مقاتل بن حیان نے، سُدی نے، اور زید بن اسلم نے۔ (دیکھئے
تفسیر ابن کثیر)
فَإِنِ انْتَهَوْا ’’پھر اگر وہ باز آ جائیں‘‘
یعنی مسجد حرام کے پاس
قتال کرنے سے دستکش ہو جائیں۔
فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ ’’تو زیادتی جائز نہیں سوائے
ظالموں پر‘‘۔
تو پھر ان پر کوئی زیادتی
نہ ہو، سوائے ان میں سے ایسے لوگوں کے جو ظلم پر ہی آمادہ ہوں، ہاں ایسے شخص کی
گوشمالی اس کے ظلم کے بقدر ضروری ہے۔
(نوٹ:
ہمارے ان قرآنی اسباق میں تفسیر سعدی کو بنیاد بنا یا گیا۔ دیگر مراجع اضافی طور
پر شامل ہوتے ہیں)