"یہ وہی انگریزی نظام ہے" 5
فصل سوم
جمہوری
نظام کے بارے میں اصولاً ہماری وہی رائے ہے جو تقسیم ہند سے پہلے مولانا مودودیؒ
اس کے بارے میں رکھتے رہے ہیں۔ یعنی ہم اس کو شرعاً درست نہیں سمجھتے۔ وقت کا رائج
جمہوری یا پارلیمانی نظام جو اس وقت ہمارے بہت سے مسلم ملکوں میں رائج ہے اور خود
ہمارے ملک میں بھی قائم ہے، بلاشبہ مغرب کی سوغات ہے۔ جمہوریت اور پارلیمنٹ اور
اکثریت کی حکمرانی کا یہ تصور بلاشبہ مغرب سے چل کر یہاں آیا ہے اور ہمارے ’روشن
خیال‘ طبقوں کے ہاں اس کا تقدس بھی کچھ اسی وجہ سے قائم ہے۔
ہم
نہیں سمجھتے کہ ہمارے بیشتر سیاسی طبقے اور ہمارے بہت سے دانشور ’جمہوریت‘ کا ورد
صبح شام محض اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ’خلافت راشدہ‘ کی عملی تقلید ہے یا یہ ابوبکرؓ
اور عمرؓ کی چھوڑی ہوئی یادگار ہے!
ابوبکرؓ
و عمرؓ اورصحابہؓ سے ان کو کوئی ایسی ہی غیر معمولی عقیدت ہوتی تو اس کا مظاہرہ ہم
ابوبکرؓ و عمرؓ کی چھوڑی ہوئی اور یادگاروں کے معاملہ میں بھی دیکھتے اور ان کو
دین کے اور معاملات میں بھی اتنا ہی سنجیدہ اور بے چین پاتے!
اگر
تھوڑی دیر کیلئے فرض کر بھی لیا جائے کہ آج جس چیز کو ’جمہوری نظام‘ کے نام سے
جانا جاتا ہے وہ ابوبکرؓ و عمرؓ کی شورائیت کا ہی عملی نمونہ ہے پھر بھی ابوبکرؓ و
عمرؓ نے اپنے پیچھے صرف ایک ’جمہوریت‘ تو نہیں چھوڑی! کوئی عقیدہ، کوئی شریعت،
کوئی سنت، کوئی طرز زندگی، کوئی تہذیب بھی تو آخر حضراتِ ابوبکرؓ و عمرؓ اپنے
پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ پھر ان چیزوں کی یاد بھی اِنکو اسی شدت سے کیوں نہیں ستاتی
اور کیوں ایک ’جمہوریت‘ ہی میں _آج کی اس جمہوریت ہی میں_ انکو ابوبکرؓ و عمرؓ کا
چہرہ نظر آتا ہے!؟ کیوں یہ لوگ صرف ایک جمہوریت کے معاملے میں ہی ابوبکرؓ و عمرؓ و
عثمانؓ و علیؓ و عبدالرحمن بن عوفؓ پر فریفتہ ہو جانا چاہتے ہیں!؟ کیا ابوبکرؓ و
عمرؓ یا عبدالرحمن بن عوفؓ سے 'inspire'ہونے
کے پیچھے کوئی اور عامل تو کارفرما نہیں!؟؟؟ اور کیا یہ شکست خوردگی تو نہیں!؟
یعنی ہمیں اپنے اسلاف کی بھی _بزعم خویش_ وہی بات پسند آئی جو ہمارے دور میں یورپ
کے ہاں پائی گئی! تفاسیر، احادیث، تاریخ اور فقہ کی کتب میں کیا ’جمہوریت‘ کے
علاوہ بھی اسلاف کا کوئی ورثہ محفوظ ہوا ہے!!؟
کیا
ان لوگوں کی جمہوریت میں اِس دلچسپی و تاثر (Inspiration) کے مصدر اور منبع کا تعین کرنا اتنا
ہی مشکل ہے؟ جمہوری نظام ’اسلام سے ماخوذ و مستنبط‘ ہونے کا دعوی کیا کوئی قابل
التفات بات ہے جس پر ہمارے علماءان سے باقاعدہ بحث کریں اور ان کو جھوٹا ثابت کرنے
کیلئے علمی تصانیف کی ’شدید کمی‘ محسوس کریں!؟ کس کو معلوم نہیں ہماری حکومتوں اور
اپوزیشنوں کو جمہوریت کی ’ہدایت‘ کہاں سے ملی؟ کسے معلوم نہیں ہماری حکومتوں اور
اپوزیشنوں کو جمہوریت کی طلب کیوں ہوئی اور کب سے ہوئی اورجمہوریت کا ثبوت دینے
کیلئے ہمارے لادینوں کی زبان پر خلفائے راشدین کا نام عقیدت اور گرویدگی کے ساتھ
کیوں آتا ہے!؟
کہنے والوں نے یہ کہنے کی بہت کوشش کی کہ یہ ’پارلیمانی نظام‘ اور یہ ’سلطانیِ
جمہور‘ اور یہ ’اکثریت کے راج‘ کا فلسفہ ،جس کو جمہوریت کہتے ہیں، دراصل رسول
اللہﷺ اور خلفائے راشدینؓ کا قائم کردہ ہے (معاذ اللہ) اور یہ کہ بعد ازاں اس پر
مغرب نے خواہ مخواہ اپنا اجارہ قائم کر لیا مگر اس میں ذرہ بھر شک نہیں کہ ہمیں
بہرحال یہ نظام مغرب سے ہی وصول ہوا ہے۔ ان کا یہ دعوی ذرا دیر کیلئے درست مان لیا
جائے تو بھی یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ خلفائے راشدین سے یہ نظام مغرب ہی نے
لیاہو تو لیا ہو ہم نے بہرحال یہ خلفائے راشدین سے نہیں لیا۔ ہم نے اسکی تعلیم
مغرب ہی سے پائی ہے؛ ہمیں اسکی جڑیں ’اسلام‘ میں اسی وقت نظر آئیں جب مغرب نے سو
سال تک ہمیں اپنے اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھا سدھا لیا اور بڑی محنت سے کی
گئی تربیت کے نتیجے میں وہ ہمیں اس ڈگر پر لے آیا جس پر تیسری دنیا کی قوموں کا
لایا جانا اس کے ہاں ٹھہر گیا تھا!
یہ
بھی نہیں کہ ایک بار یہ نظام ہمیں مغرب سے موصول ہو گیا تو پھر یہ ہمارا ہو گیا
اور یوں اس کے حقوقِ ملکیت میں ہم اور وہ ایک برابر ہو گئے! معاملہ یہ ہے کہ پوری
دنیا کے اندر ’جمہوری نظام‘ پر تاحال مغرب ہی کے جملہ حقوق محفوظ تسلیم کئے جاتے
ہیں۔ اس نظام سے متعلقہ ایک ایک اصطلاح ہمارے ہاں اب بھی مغرب کی دی ہوئی چلتی ہے۔
اس کا ہر ہر پروٹوکول مغرب سے درآمد ہوا اور تاحال مغرب سے ہی منسوب ہے۔ جمہوریت
کی آبرو پر پوری دنیا میں کہیں دست درازی ہو اس پر غیرت میں آنا اور سیخ پا ہو
جانا مغرب ہی کا پیدائشی حق جانا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں جمہوریت کے واقعی
قائم ہونے کا سرٹیفکیٹ اب بھی مغرب ہی جاری کرتا ہے۔ تیسری دنیا کی حکومتیں اپنے
ملک میں ’بحالی جمہوریت‘ کی یقین دہانی خود اپنی قوم سے زیادہ مغرب کو ہی کروانے
پر یقین رکھتی ہیں۔ کسی ملک میں جمہوریت کے قیام کا روڈ میپ طلب کرنا اب بھی مغرب
ہی کا جائے منصبی شمار ہوتا ہے۔ کہیں پر انتخابات کے ’آزادانہ، منصفانہ اور غیر
جانبدارانہ‘ انعقاد کی شہادت دلوانے کیلئے اب بھی مغربی مبصرین ہی سند مانے جاتے
ہیں۔
تیسری
دنیا میں جمہوریت اور ’جمہوری اقدار‘ کی پامالی کی، مغرب کے اپنے علاوہ تاحال کسی
کو اجازت نہیں۔ جمہوری رسوم اور شعائر سے کسی ملک کو چھوٹ دینا نہ دین...اور
جمہوری روایات کے معاملے میں کسی کو سات خون معاف ہونا یا نہ ہونا صرف مغرب کی
صوابدید پر منحصر ہے۔
یہ
سب باتیں اس قدر واضح ہیں کہ ہمارا خیال ہے شاید ہی کوئی اس پر ہم سے اختلاف کرے۔
یہ
سب قرائن اس عالمی نظام کے مصدر و منبع اور اس کی حالیہ مرکزیت کا واضح طور پر پتہ
دیتے ہیں مگر ہمارے ماہرینِ سیاسیات کو خلفائے راشدین سے جو ایک ’عقیدت‘ ہو چکی ہے
وہ اجازت نہیں دیتی کہ اس بات کا برملا اعتراف کر لیا جائے۔ لیتے اغیار سے رہیے
نسبت اسلاف سے کر دیا کیجئے۔ دونوں کا حق ادا ہو جائے گا!!!
پھر
سوال یہ بھی ہے کہ یہ جمہوریت اگر اسلام کا کوئی حصہ ہے تو مغرب عالم اسلام میں
اسلام کے بس اسی ’حصے‘ پر عملدرآمد کے لئے آخر کیوں بے چین رہتا ہے؟ عالم اسلام
میں مغرب اسلام کے صرف جمہوریت والے حصے کا ہی روڈ میپ کیوں مانگتا ہے؟ اسلام کے
باقی ماندہ حصوں پر عملدرآمد سے مغرب کو کیوں تکلیف ہونے لگتی ہے اور اسلام کا یہ
ایک ’جمہوریت والا‘ حصہ ہی کیوں ایسا ہے کہ اس پر عمل ہونے سے (سوائے الجزائر ایسی
ایک آدھ ’ناقابلِ ذکر‘ مثال کے!) مغرب کے سینے میں ٹھنڈ پڑتی ہے!؟
کچھ
حقائق اتنے واضح ہیں کہ ’دلائل‘ کی بحث میں پڑنا ایک تکلف معلوم ہوتا ہے۔
’جمہوریت‘ پر مغرب کے جملہ حقوق کچھ اس انداز سے ’محفوظ‘ ہیں کہ کسی بھی ملک میں
کسی بھی موقعہ پر اور کسی بھی قسم کی صورتحال میں جمہوری عمل کی تفسیر کرنا مغرب
کا اختیار ہے۔ کسی ملک میں ’مکمل جمہوریت‘ آنے کیلئے کتنے سال لگیں گے، ’مکمل
جمہوریت‘ کی منزل مراد پانے کیلئے کسی ملک کی سرزمین کو مغربی افواج کے پاؤں تلے
روندا جانا کس حد تک اور کتنے عرصے تک ضروری ہے، کسی ملک میں جمہوریت کا ہدف سر
ہونے کیلئے آمریت کا ’عبوری دور‘ کتنا طویل یا کتنا مختصر ہونا چاہیے، جمہوریت کے
’وسیع تر مفاد‘ کیلئے جمہوری عمل کا وقتی خاتمہ کب اور کس ملک میں ہو جانا چاہیے،
کب اور کس وقت دنیا کے کسی آمر کو جمہوریت کا قاتل قرار دے دینا یک بیک ضروری ہو
جاتا ہے اور کب ضروری نہیں ہوت...یہ سب مغرب کا اختیار ہے۔
’جمہوریت‘
دراصل استعمار کا نیا روپ ہے۔ یہ ’آزادی‘ کا وہ پیکیج ہے جو غلام اقوام کو دیا جاتا
ہے۔
حقیقت
تو یہ ہے کہ ’جمہوریت‘ ایک ایسا کھیل ہے جو صرف مغرب کی ایمپائری میں کھیلا جاتا
ہے۔ مغرب کی اپنی قوموں کے حق میں ضرور یہ کوئی ’نظام‘ ہو گا ہمارے حق میں یہ محض
ایک ’کھیل‘ ہے۔ اس پر ’دلائل‘ کے ساتھ بحث کرنا بڑی حد تک ایک اضافی مشق ہے۔ دنیا
کی کمزور قوموں کیلئے یہ کھیل ہرگز وارے کا نہیں۔ ایک اصول پسند قوم تو ہرگز اس کی
متحمل نہیں۔ اس میں چل چل کر آپ کا ستیاناس ہو جاتا ہے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ البتہ
جو ہاتھ میں ہووہ چلا جاتا ہے سنجیدہ کاموں سے آپ کی توجہ جاتی رہتی ہے اور ’عزم
الامور‘ سے آپ کی بے دلی اور بے رغبتی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ انتخابی سیاست اصول
پسند جماعتوں کو ناکارہ کر کے رکھ دینے کا تاحال ایک مجرب نسخہ ہے۔ ایک ایسی جماعت
یا ایک ایسی تحریک جو اپنی انفرادیت قائم رکھنے پر مصر ہے اس کو تو اس کھیل میں
اپنے قویٰ تھکانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ آج سے ساٹھ سال پہلے اگر یہ محض ایک مفروضہ
تھا تو اب بہرحال یہ نرا مفروضہ نہیں۔ اب یہ محض ’اندیشہ‘ نہیں۔ اس پر عملی شواہد
دیکھنا ہوں تو اب انکی ہرگز کوئی کمی نہیں۔
گزشتہ آگے
پڑھیے