"یہ وہی انگریزی نظام ہے" 4
فصل دوم
اس نظامِ شرک کو مسترد کرنا
ہمارے پیش نظر صرف اس لئے ہے کہ یہ ہمارے دین کے اصل الاصول سے متصادم ہے...
حکم دینا اور قانون صادر کرنا
ہمارے دین کی رو سے صرف اور صرف اللہ احکم الحاکمین کا حق ہے:
وَلَا يُشْرِكُ فِي
حُكْمِهِ أَحَدًا (الکہف:26 )
”اور وہ اپنے فیصلہ میں کسی کو
شریک نہیں کرتا“
انسانوں کو اس کے احکامات
’پاس‘ نہیں کرنے بلکہ نہایت عاجزی سے اس کی اطاعت اور اس کے احکامات کی
فرمانبرداری کرنی ہے۔ وہ جو حرام ٹھہرا دے وہ حرام ہے۔ شرعاً بھی حرام ہے اور
قانوناً بھی۔ کیونکہ اسلام میں شریعت ہی قانون ہے۔۔ اور کسی بھی اضافی شرط کے بغیر
قانون ہے۔ شریعت انسانوں کے ہاتھوں پاس ہو کر قانون کا درجہ نہیں پاتی بلکہ جب یہ
خدا کے ہاں سے نازل ہوتی ہے تو اس کو یہ سب درجات اور مراتب خدا کی طرف سے حاصل
ہوتے ہیں۔ رسول پر اگرکچھ اترتا ہے تو وہ اسی لیے اترتا ہے کہ غیر مشروط طور پر اس
کی اطاعت ہو:
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن
رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللّهِ (النساء: 64)
اور نہیں بھیجتے ہم کوئی بھی
رسول مگر اس لئے کہ اطاعت ہو اس کی، اللہ کے حکم سے“
نہایت واضح ہو، رسول پر جو
اترتا ہے وہ محض ’مذہبی جائز و ناجائز‘ نہیں ہوتا۔ اسلام میں ’مذہبی جائز وناجائز‘
اور ’قانونی جائز وناجائز‘ الگ الگ ہوتے ہی نہیں۔ اسلام میں ’مذہبی جائز و ناجائز‘
اور ’قانونی جائز و ناجائز‘ کو الگ الگ کرنا دو خداؤں کو ماننا ہے ایک وہ خدا جس
سے ’مذہبی جائز و ناجائز‘ لئے جائیں اور ایک وہ خدا جس سے ’قانونی جائز و ناجائز‘
لئے جائیں۔
یہ ’مذہب‘ اور ’قانون‘ کی
تقسیم واضح طور پر شرک ہے۔ یہ کلیسا کا دین ہو تو ہو ”اسلام“ نہیں۔ ’مذہب‘ خدا کے
ہاں سے آئے گا اور ’قانون‘ اسمبلیاں پاس کریں گی، یہی تو شرک ہے۔ وہ ذات جس نے
محمد ﷺ کو ھدیٰ اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے صرف اس لئے بھیجا ہے کہ محمد ﷺ جو کچھ
لے کر مبعوث ہوئے ہیں وہ دین (مذہب +قانون+تہذیب) کی سب صورتوں پر غالب و برتر
مانا جائے اور دین اپنے اس کلی معنیٰ میں سارے کا سارا ایک خدائے وحدہ لاشریک
کیلئے ہو جائے۔حَتَّى لاَ تَكُونَ
فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلّهِ !!!
البتہ اس نظام کی رو سے اللہ
احکم الحاکمین جس چیز کو حرام ٹھہرا دے وہ شرعاً تو حرام ہو گی مگر قانوناً حرام
نہیں۔ قانوناً حرام وہ اس وقت ہو گی جب عوامی نمائندے اکثریت رائے سے اسے حرام
ٹھہرا دیں اور اگر عوامی نمائندوں کی اکثریت اسے حرام نہ ٹھہرائے تو وہ شرعاً
ناجائز ہو گا اور قانوناً جائز۔ دوسرے لفظوں میں ... خدا کا فرمایا ہوا کچھ بھی ہو
قانون نہیں۔ اس نظام کی رو سے دین کی کوئی بات خواہ کتنی بھی قطعی الثبوت اور قطعی
الدلالت کیوں نہ ہو اس کا خدا کے ہاں سے نازل ہواہونا اس کے ’قانون‘ ہونے کیلئے
کافی نہیں۔ کوئی چیز خالق کے اپنے
کلام یا اس کے رسول کی سنت متواترہ تک میں، خواہ کتنی ہی صراحت سے حرام کیوں نہ کر
دی گئی ہو، وہ قانوناً جائز ہے جب تک کہ نمائندگانِ خلق کی اکثریت اسے ناجائز نہ
ٹھہرا دے۔ خدا کے ٹھہرائے ہوئے کسی واضح اور قطعی حرام کوحرام ٹھہرانے میں اب
عوامی نمائندے پچاس سال لگائیں یا سو سال یا کبھی بھی اس کو حرام نہ ٹھہرائیں یہ
عوامی نمائندوں پر ہے البتہ خدا کی اتاری ہوئی ایک بات قانون نہ مانی جائے گی جب
تک اسمبلیاں خداکی اتاری ہوئی اس بات کو ’پاس‘ نہ کر دیں!
یہ بہت ہی بڑی جرأت ہے جو احکم
الحاکمین رب العالمین کے سامنے یہ مشرکانہ نظام انسانوں سے کرواتا ہے۔ اس نظام کا
یہ شرک ہی ہمیں اس بات سے مانع ہے کہ ہم اسکو اپنی اجتماعی زندگی میں قبول کریں
اور کبھی ایک لمحے کیلئے بھی اسکو درست مان لیں۔ جو شخص بھی اپنے رب کے مقام سے
واقف ہے اور اس نظام کی حقیقت جانتا ہے وہ اس نظام کے درست ہونے کی شہادت دینا
اپنے لئے کفر جانے گا چاہے یہ نظام دنیا میں اس کیلئے یا اسکی قوم کیلئے دودھ اور
شہد کی نہریں بہا لانے کا شرطیہ سبب کیوں نہ ہو۔ کجا معاملہ یہ ہو کہ یہ ہماری
دنیا اورآخرت دونوں کو بیک وقت اجاڑنے کا سبب ہو اور استعماری قوتوں کے ہاتھوں
ہمارے دینی اور دنیاوی استحصال کا ایک مؤکد ذریعہ!
یہ حقیقت ہی کہ: غیر اللہ کا
اختیار اس نظام کے اندر ختم نہیں ہو گیا ہے، ہمارے اس کتابچہ کا اصل مرکزی مضمون
ہے...
رہ گیا وہ فلسفہ کہ ’جمہوریت‘
کو اگر محض ایک انتظامی طریق کار کے طور پر لیا جائے نہ کہ ’حاکمیتِ جمہور‘ کی
بنیاد پر، یعنی حکم اور قانون کے باب میں اول و آخر خدائے رب العالمین کی شریعت ہی
ملک کا دستور ہو اور اللہ اور اس کے رسول کا فرمایا ہوا ہی حرفِ آخر، البتہ اس
شریعت کو لاگو کرنے والے ’اولی الامر‘ کے چناؤ کی حد تک عوامی نمائندگی کا کوئی
طریق کار اپنا لیا جائے... تو اس سے قطع نظر کہ اہل کفر کے ہاں مستعمل الفاظ اور
اصطلاحات پھر بھی قابل اعتراض ہی رہیں گے، اور اس مجوزہ فلسفہ کی تفصیلات کو بھی
فی الحال ایک طرف رکھتے ہوئے، اِس کے مضمون پر یقینا بات ہو سکتی ہے۔ اس فلسفہ سے
کسی مسلمان کو اختلاف ہو گا تو بھی وہ ’کفر و اسلام‘ کا اختلاف نہیں ہوگا، جبکہ
نظامِ موجودہ کے ساتھ ہمارا اختلاف بہر حال ’کفر و اسلام‘ والا اختلاف ہی ہے۔ اس
معاملہ میں تنگ نظری کے ہم بہرحال مؤید نہیں۔ رب العالمین کی شریعت، کسی بھی اضافی
شرط (Additional Qualification)کی پابند ہوئے بغیر، اگر ہر آئین سے بالاتر
آئین اور ہر قانون سے بالاتر قانون مان لی جاتی ہے تو اس نظام کو کفر کہنے کی
ہمارے پاس کوئی وجہ نہ رہے گی۔
البتہ اس رائے کے حاملین کیلئے
ضروری ہوگا کہ وہ اپنے اِس مجوزہ فلسفہ میں اپنا سنجیدہ اور سچا ہونا پہلے اس طرح
ثابت کریں کہ وہ اِس حالیہ نظام کو تو پورے زور کے ساتھ مسترد کر دیں جوکہ خدائے
رب العالمین کی شریعت کو ہر دستور سے بالاتر دستور بہرحال نہیں ٹھہراتا اور جوکہ
رب العالمین کی شریعت کو ’قانون‘ کا رتبہ پانے کیلئے ”اکثریتِ نمائندگانِ جمہور کی
منظوری“ ہی کا حاجتمند ٹھہراتا ہے اور جوکہ جمہوریت میں پائے جانے والے کفر کا اصل
لب لباب ہے۔
گزشتہ آگے
پڑھیے
یہاں تک کہ _ بسا اوقات _ دین کا ایک بنیادی مسلّمہ آئین کے
باب ’بنیادی حقوق‘ کے ساتھ ہی متصادم قرار دیا جائے گا اور اس پر عمل پیرا ہونا،
از روئے آئین، جرم۔ اس کی کچھ تفصیل کےلیے دیکھئے اِسی کتاب کے اگلے
صفحات۔